ان دنوں ایک دلچسپ کتاب میرے ہاتھ لگی ہے، جس کا میں بڑے شوق سے مطالعہ کررہا ہوں۔کتاب کا عنوان ہے’ہٹلر اعظم‘ اور اس کا سن تصنیف ہے 1938،اس کتاب کے مصنف کا نام ہے پروفیسر چندر شیکھر شاستری۔ہٹلر کی خودنوشت سوانح مائن کمف 1925-26میں شائع ہوچکی تھی۔اس کتاب میں ہٹلر کے زیادہ تر حالات اسی سے ماخوذ معلوم ہوتے ہیں۔مگردلچسپی کی بات یہ ہے کہ اول تو یہ کتاب ہٹلر کی زندگی میں ہی لکھی گئی ہے، دوسرے اس سے کچھ ایسی باتوں پر روشنی پڑتی ہے، جو ہٹلر، ہندوستان اور فاشزم کی نئی صورتوں کو ہمارے سامنے پیش کرتی ہیں۔کم از کم میرے لیے تو یہ باتیں نئی اور دلچسپی کا باعث ہیں کہ ہندوستان کا ایک طبقہ(خواہ وہ کتنا ہی چھوٹا کیوں نہ ہو)آزادی ملنے کے بعد اس کی حکومت کا ڈھانچہ فاشزم یا نازی ازم کے اصولوں پر از سر نو تعمیر کرنا چاہتا تھا۔جیسا کہ کتاب میں لکھا ہے۔
’’ّآج دنیا بھر میں آزادی کے بہاؤ کی تین شکلیں ہیں۔(۱)پارلیمنٹری ازم (۲)کمیونزم اور (۳)فاسزم یا نازی ازم۔(الخ)فاسزم اصل میں کمیونزم کا ردعمل ہے۔یہ عوام کو نہ تو سرمایہ داروں کے مظالم اور ان کی لوٹ کے شکار ہی بننے دینا چاہتا ہے اور نہ بالکل مزدوروں ہی کا راج چاہتا ہے۔اس میں سرمایہ دار اور بے سرمایہ دونوں قسم کے انسان شانہ بشانہ قومی تعمیر کا کام کرتے ہیں۔یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہے کہ یہ سسٹم اپنے بلند شخصیتوں والے رہبروں ہٹلر اور مسولینی کے زور عمل کی وجہ سے کامیاب ثابت ہورہا ہے یا اس کی نشوو نما اور ترقی کا بنیادی سبب اس کے اصولوں کی عمدگی اور عملی صلاحیت ہے۔ان میں سے پہلی بات سے تو کسی طرح انکار ہی نہیں کیا جاسکتا۔رہی دوسری بات اس کی اصلیت کا کمیونسٹ لوگ حال معلوم نہیں ہونے دیتے۔وہ فاسزم سے کدورت رکھنے کی وجہ سے اس مذہب خیال کے بارے میں ایسی حیران کن باتوں کا پروپگینڈا کرتے رہتے ہیں کہ اچھے سے اچھا مدبر سیاست داں بھی ان کو سن کر چکر میں پڑجاتا ہے۔(الخ)اس بات کا ہمیں ابھی سے فیصلہ کرنا کرنا ہوگا کہ ہم آزادی کی اس دیوی کو پارلیمنٹری ازم، کمیونزم اور فاسزم میں سے کس کے لباس میں دیکھنا چاہیں گے۔‘‘(آغاز کلام، صفحہ نمبر 6اور8)
کتاب میں ہٹلر کی اعلیٰ سیاسی حکمت عملی کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملانے پر زور دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ہٹلر کو اعظم تو برطانیہ کے وزیر اعظم جارج لائڈ بھی تسلیم کرچکے ہیں۔کتاب کی ابتدا میں یہ کلمات موجود ہیں:
اس میں کوئی شک نہںے کہ جرمنی کو اتنی جلدی ترقی کے بام عروج پر پہنچانے والا ہٹلر ہے۔ایک ایسے فرد سے جو اوسط طبقے سے اٹھا ہے یہ توقع نہیں کی جاسکتی تھی کہ وہ اتنے قلیل عرصے میں اتنا بڑ کارنامہ پوری کامیابی کے ساتھ پیش کردے گا۔اس کی اس غیر معمولی ترقی کن صلاحیت و قوت کو دیکھتے ہوئے یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ ہٹلر ایک عظیم شخصیت یا ’’اعظم ‘‘ ہے۔(صفحہ نمبر 3)
ممکن ہے اس وقت ہندوستان میں قومی جذبے کی افراط کے سبب ہٹلر کو قوم پرست ہیرو کے روپ میں دیکھا جاتا رہا ہو اور اسٹالن کی بہ نسبت جو کہ اقتدار اور طاقت کا بھیانک روپ بن کر ابھرا تھا، ہٹلر اور مسولینی کو حب الوطنی کے سبب آزادی کی جد و جہد میں مصروف ممالک میں ہیرو کی سی حیثیت حاصل ہوگئی ہو۔اگر یہی کتاب 1941کے بعد لکھی جاتی، جب کہ ہولو کاسٹ کی ابتدا ہوچکی تھی، تو غالباً اس کے نام میں سے اعظم کا لاحقہ ضرور ہٹ جاتا۔کتاب اردو میں شائع ہوئی اور وہ بھی کسی ’سیاسی لٹریچر کمپنی‘ کی جانب سے، اس کا مطلب ہے کہ یہ اس زمانے میں مقبول بھی ہوئی ہوگی، پتہ نہیں ابھی تک میں نے اس کا ذکر کسی سے سنا کیونکر نہیں تھا۔اس میں جرمنی کی قدیم تاریخ، ہٹلر کی زندگی، اس کی تحریک اور رائن لینڈ اور آسٹریا پر اس کی فتح کو بہت کامیابی اور فخر کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ابھی یہ کتاب زیر مطالعہ ہے، سوچا کہ آپ کو بھی اس دعوت میں شریک کیا جائے۔مکمل کتاب ریختہ ویب سائٹ پر موجود ہے۔مضمون کے آخر میں اس کا لنک فراہم کرادیا گیا ہے، جو حضرات اسے پڑھنا چاہیں پڑھ سکتے ہیں۔شکریہ
***
ہٹلر کا بچپن
ایڈلف ہٹلر کے دادا کا نام جیوہان جارگ ہیڈلر تھا۔وہ اسپائٹل نامی شہر میں فروری 1792میں پیدا ہوا تھا۔ہٹلر کا باپ 1837میں پیدا ہوا۔اس کا نام پہلے تو الوئس ہیڈلر تھا مگر وہ اپنے آپ کو ہٹلر کہا کرتا تھا۔اس سے بعد میں اس کا نام الوئس ہٹلر ہوگیا۔ابتدا میں وہ موچی کا کام کیا کرتا تھا۔الوئس ہٹلر نے تین شادیاں کیں۔اس کی پہلی بیوی کا نام انا تھا۔وہ ایک امیر خاندان کی لڑکی تھی۔چنانچہ اس نے اپنے شوہر کو پڑھایا لکھایا اور آسٹریا کی سول سروس میں نوکری دلوادی۔1883میں انا کا انتقال ہوگیا، چھ ہفتے بعد الوئس ہٹلر نے ایک اور لڑکی سے شادی کی جس کا نام فرانزسکا تھا۔ایک سال کے بعد یہ بھی چل بسی۔اس کے انتقال کے تین مہینے بعد الوئس نے 7جنوری 1885کو کلارا پوئلزل سے تیسری دفعہ شادی کی۔اس عورت سے شادی کے چار سال بعد ایک لڑکاپیدا ہوا جس کا نام ایڈلف ہٹلر رکھا گیا۔ایڈلف کی پیدائش کے وقت اس کے باپ کی عمر 52اور ماں کی عمر 29سال کی تھی۔پہلی بیوی انا سے بھی دو اولادیں تھیں۔ایک لڑکا تھا جس کا نام الوئس خورد تھا اور دوسری لڑکی انگیلا تھی۔الوئس خورد بڑا ہو کر مصنف بنا۔ابھی چند سال پہلے ہیمبرگ میں اس کا انتقال ہوا ہے۔اینگیلا نے وی اینا جا کر ورپنیل نامی ایک شخص سے شادی کرلی تھی۔چند برس ہوئے ہیں کہ ہٹلر نے اسے لا کر اپنے پاس جرمنی میں رکھ لیا ہے۔ایڈلف ہٹلر کے علاوہ کلارا کے بطن سے دو بچ اور ہوئے۔ایک لڑکی اور ایک لڑکا جو بچپن میں مرگیا۔لڑکی 1897میں پیدا ہوئی تھی۔جس کا نام پولا تھا۔وہ ابھی تک کنواری ہی ہے اور ٓج کل وی اینا میں غیر معروف زندگی بسر کررہی ہے۔ہٹلر اس سے کوئی تعلق نہیں رکھتا۔ہٹلر کی پیدائش کے وقت الوئس چنگی کے محکمے میں انسپکٹر تھا۔اور برونو میں اقامت رکھتا تھا۔1896میں اسے پنشن ملی۔اس وقت تک وہ برونو ہی میں رہتا رہا پنشن لے کر وہ لنز کے قریب لےؤن ڈنگ نام کے ایک گاؤں میں چلا گیا۔وہاں اس نے ایک مکان خرید لیا اور رہنے لگا۔اس کا 1903میں وہیں انتقال ہوا۔ایڈلف ہٹلر 20اپریل1889کو صوبہ بویریا کے شہر برونو میں پیدا ہوا برونو اگرچہ شہر تو چھوٹا ہی سا ہے مگر چونکہ جرمنی اور آسٹریا کی درمیانی سرحد ہے اس لیے محل وقوع کے لحاظ سے بڑی اہمیت رکھتا ہے۔اس وضع کے شہروں کے باشندوں کو اس صورت میں وقتاً فوقتاً بڑی مصیبت جھیلنی پڑتی ہے۔جب دونوں ریاستوں میں صلح نہ ہو۔یہی حالت برونو کے باشندوں کی بھی تھی۔اس شہر کے بسنے والوں میں سے بچے بچے کی دلی تمنا یہی تھی کہ کسی نہ کسی طرح دونوں حکومتیں مل کر ایک ہوجائیں تاکہ آئے دن کی مصیبتوں سے پیچھا چھوٹے۔یوں ہٹلر پر شروع ہی سے ایسے اثرات پڑے جن میں سیاسی الجھنوں کے سلجھاؤ کا رنگ تھا۔ہوش سنبھالتے سنبھالتے تک یہ مسئلے اس کی نظروں میں بہت سنجیدہ شکل اختیار کرگئے۔ہٹلر سوچا کرتا تھا کہ اگر جرمنی اور آسٹریا ایک جرمن مادر وطن کے نام پر متحد نہیں ہوسکتے تو انہیں بین الاقوامی سیاسیات میں پیر پھنسانے کا کیا حق ہے۔جب تک جرمنی کی حکومت اپنے ہر باشندے کو پیٹ بھرنے کے قابل روٹی نہ دے سکے اسے یہ حق حاصل نہیں ہے کہ کوئی نو آبادی قائم کرے۔ایڈلف ہٹلر کے دل کو ایسے خیالات کی آماجگاہ بنادینے کا سہرا اس کی جائے پیدائش ہی کے سر ہے کیونکہ اس کی فضامیں یہ اثرات سرایت کیے ہوئے تھے۔
ہٹلر کا بات کوئی خوش حال آدمی تو نہ تھا مگر محنتی ضرور تھا اور اس نے اپنی ذاتی کوششوں کے بل بوتے پر ہی چنگی کے محکمے میں سرکاری نوکری حاصل کی تھی۔ہٹلر کی ماں ایک غریب کسان کے گھر میں پلی تھی مگر وہ بڑی ذہین اور سمجھدار تھی۔اس نے ہٹلر کو بڑے لاڈ پیار سے پالا چونکہ ہٹلر کی ماں کو مصوری سے بہت دلچسپی تھی اس لیے وہ چاہتی تھی کہ ہٹلر ایک نامی گرامی مصور بنے۔چنانچہ اس نے ہٹلر کو عنفوان شباب ہی میں تصویر کشی سکھادی۔مگر ہٹلر کے باپ کی خواہش یہ تھی کہ اس کا بیٹا ایک اونچے درجے کا عہدہ دار بنے۔اس غرض کو سامنے رکھ کر اس نے بچپن ہی میں ہٹلر کی طبیعت میں خودداری اور اونچے درجے کے حصول کے جذبات پیدا کرنے چاہے۔مگر خود ہٹلر کی طبیعت کا رنگ یہ تھا کہ وہ افسر نہیں بننا چاہتا تھا۔وہ اس بات سے نفرت کرتا تھا کہ ایک شخص غلام کی طرح دن کے مقررہ گھنٹوں میں ایک دفتر میں بندھا بیٹھا رہے، اسے اپنے وقت کو اپنی مرضی کے مطابق کاٹنے کا اختیار حاصل نہ ہو اور وہ کاغذ سیاہ کرنے ہی میں اپنی زندگی گزار دے۔ان خیالات کا ہٹلر کی زندگی پر یہ اثر پڑا کہ وہ بچپن ہی سے قوم پرستی کا دلدادہ ہوگیا اور تاریخ کی رفتار کا صحیح اندازہ کرنے کی صلاحیت اس میں پیدا ہوگئی۔
ہٹلر کا زمانۂ طالب علمی
جب وہ کچھ بڑا ہوا تو ہٹلر کے باپ نے اسے لِنز نامی ایک گاؤں کے اسکول میں پڑھنے بٹھادیا۔اس مدرسے مںے ایک مباحثے کی انجمن Debating Societyبھی تھی۔اس میں بے شمار موضوعات کے علاوہ طلبا، آسٹریا اور جرمنی کے تعلق کے موضوع پر بھی بحث مباحثہ کیا کرتے تھے جب ایک دفعہ اس انجمن میں آسٹریا کی سابقہ حکومت کے موضوع پر مباحثہ ہوا تو اس میں ہٹلر نے بھی حصہ لیا۔اس طریق سے ان نوجوانوں کو اس وقت گاؤں کے مدرسے میں بھی ملکی سیاسیات کی تعلیم مل رہی تھی۔یہ عمر وہ ہے جب دوسرے بچے اپنی زبان کے علاوہ قوم پرستی کے بارے مںے کچھ بھی نہیں جانتے۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جوان ہوتے ہوتے ہٹلر جرمن نیشنلزم کا پکا حامی بن گیا۔ہٹلر کی موجودہ نازی پارٹی کی اصلی بنیاد آج بھی یہی جرمن نیشنلز م ہے۔ہٹلر کے یہ قوم پرستانہ خیالات آہستہ آہستہ زیادہ پختہ ہوتے گئے یہاں تک کہ وہ پندرہ برس کی عمر ہی میں یہ نکتہ سمجھنے لگا کہ شاہی خاندان کی محبت اور موجودہ نیشنلزم میں کیا فرق ہے۔اسکول میں ہٹلر ہمیشہ اپنی جماعت میں اول رہا کرتا تھا ۔بچپن ہی سے اس میں حکومت کرنے کا مادہ تھا۔اپنے ہم جماعتوں کے ساتھ اس کا طرز عمل ایسا تھا گویا وہ ان کا رہنما ہے۔اس کی شکل صورت، چال ڈھال اور بول چال کے ڈھنگ میں کچھ ایسی کشش تھی کہ اس کے سارے ہم جماعت اس کی طرف کھنچے چلے آتے تھے۔
ہٹلر کی وی اینا کو روانگی
انسان چاہتا کچھ ہے اور قدرت اپنے طور پر کچھ اور کر دکھاتی ہے۔ہٹلر کی زندگی مزے سے کٹ رہی تھی کہ اچانک 1903میں اس کا باپ چل بسا اور ہٹلر کی پر امن زندگی کا دفعتاً خاتمہ ہوگیا۔ہٹلر کے لیے باپ کی موت ایک بڑا زبردست اور ناقابل برداشت صدمہ تھا کیونکہ سارا کنبہ اسی ایک شخص کے سہارے پلتا تھا۔جب ہٹلر یتیم ہوا تو اس کی عمر چودہ سال کی تھی۔اب بجائے اس کے کہ وہ آرزؤں کے گہوارے میں ہلکورے لیتا اس کے سامنے اپنی زندگی کا راستہ خود بنانے کا مسئلہ آگیا۔مفلسی اور بے سرو سامانی کا عالم تھا۔اس لیے وہ جلد ہی کسی فیصلے پر پہنچنے پر مجبور تھا۔اس کی آبائی جائداد بہت کچھ اس کی ماں کی بیماری میں علاج معالجے میں بک بکا چکی تھی۔اگرچہ باپ کی موت سے یتیم ہوجانے کے سبب سے اس کو حکومت کی طرف سے وظیفہ ملنے لگا تھا۔مگر یہ وظیفہ کل خاندان کے گزارے کے لیے کافی نہ ہوتا تھا۔اس لیے ہٹلر اس پر مجبور ہوا کہ کوئی روزگار کرکے خرچ چلائے۔اس ارادے کے ساتھ کہ مجھے خود کما کر کھانا ہے۔ہٹلر نے ایک بکس میں اپنے چند کپڑے رکھے اور آسٹریا کے دارالخلافے وی اینا کو روانہ ہویا۔اسے توق تھی کہ جس طرح اب سے پچاس برس پہلے میرے باپ کی وی اینا میں قسمت جاگی تھی۔اسی طرح وہاں میرا نصیب بھی جاگے گا۔
ہٹلر وی اینا میں
جس وقت ہٹلر وی اینا میں وارد ہوا تو اس کے پاس ایک پھوٹی کوڑی بھی نہ تھی۔وہ بھوکا پیاسا شہر کی گلیوں میں اور سڑکوں پر پھرتا رہا۔جب گزارے کی کوئی صورت نہ دکھائی دی اور سب طرف سے مایوسی ہوگئی تو اس نے کچھ تصویریں بنائیں۔مگر جب وہ ان تصویروں کو بیچنے کے لیے بازار میں لایا تو خریدنا تو درکنار کسی نے ان کی طرف دیکھا تک نہیں۔اس واقعہ سے ہٹلر کے دل کو بڑی ٹھیس لگی۔اس نے طیش میں آکر تصویر کشی کا کام چھوڑدیا اور کسی دوسرے کام کی تلاش شروع کی۔مگر نیم خواندہ نوجوان کو نوکری کون دیتا؟ جب اس کو کئی مقامات کے چکر لگانے پر بھی نوکری نہ ملی تو اس نے مزدوری کرنے کا فیصلہ کیا۔چنانچہ ایک مکان بنانے والے مستری کے پاس کام کرنے لگا۔اس طرح بڑی زبردست شکلیں جھیلنے کے بعد اس کی روزی حاصل کرنے کی دشواری دور ہوئی۔اس کا دل شروع ہی سے حساس تھا۔وہ بازاروں میں پھرتے وقت شہریوں کی خوشی و مسرت اور عیاشانہ زندگی کو دیکھ کر غریبوں کے دکھ سے بے چین ہوجاتا تھا۔مکانوں کی چھتوں میں اینٹیں اور چونا لگاتے میں اس کے دل میں اسی قسم کے بلند خیالات پیدا ہوتے رہتے تھے۔
وی اینا کی حالت
وی اینا میں آسٹرین ملوکیت کی اڑھائی کروڑ رعایا کی حالت کا اصلی نقشہ کھنچا ہوا تھا۔وہاں کے دربار کی نظروں کو خیرہ کرنے والی شان، ملوکیت کی دولت کو مقناطیس کی طرح کھینچ رہی تھی۔وہاں پر عمال حکومت، افسران اعلیٰ اہل فن اور پروفیسروں کے مجمع سے بھی زیادہ ان غریب مزدوروں کا مجمع تھا جو اپنے افلاس سے آپ ہی پسے جارہے تھے۔شاہی محل کے چاروں طرف ہزاروں بے کار چکر کاٹا کرتے تھے جن میں سے بہت سوں کے پاس رہنے کو گھر بھی نہںے تھے ان کو صرف سنسان سڑکوں اور نالیوں کی گندگی کے پاس ہی اپنی زندگی کے دن گزارنے پڑتے تھے۔ان سب باتوں کو دیکھ کر ہٹلر کے دل میں غریبوں کے لیے بے حد ہمدردی کے جذبات پیدا ہوتے تھے۔
اس وقت کا وی اینا سیاسی سکول کی حیثیت میں
ہٹلر کے لیے وی اینا میں ایک زبردست خصوصیت یہ تھی کہ وہاں سبھی قسم کے اور سب پارٹیوں کے افراد کی موجودگی سے وی اینا میں اس کو سوشل مسئلوں کے مطالعے کا اتنا اچھا موقع حاصل ہوگیا جتنا دوسرے شہروں میں ممکن ہے کہ نہ ملتا۔اس مطالعے سے ہٹلر کی دلچسپی سوشل کاموں میں زیادہ بڑھنے لگی۔اس نے ہر ایک مسئلے کا غور و فکر اور تدبر سے مطالعہ کرنا شروع کردیا۔اس مطالعہ سے اس کو ایک نئی اور نامعلوم دنیا دریافت کرنے کا موقع ملا۔1909اور 1910میں ہٹلر اپنی روزی اچھی طرح کمانے لگا۔اب اس کا نقشہ نویسی اور پانی کے رنگوں کی تصویروں کا کام اچھا چل نکلا۔
ہٹلر کا سیاسی پارٹیوں کا مطالعہ
بیس برس کی عمر تک ہٹلر نے سوشل ڈیموکریٹ اور ٹریڈ یونین تحریک دونوں کا مطالعہ کرڈالا۔اس دور میں سیاسیات کے آسمان پر آزاد ٹریڈ یونین ازم کا بول بالا تھا۔ہٹلر کے ٹریڈ یونینوں کی اہمیت کو سمجھنے اور ان کے افراد کو اپنے ساتھ لے لینے ہی سے آگے چل کر اسے اتنی زیادہ کامیابی ہوئی۔کچھ سال اور گزرنے پر ہٹلر کے خیالات اتنے وسیع اور گہرے ہوگئے کہ آئندہ بھی اسے اپنے ان خیالات میں تبدیلی کرنے کی ضرورت نہ پڑی۔ابھی تک ہٹلر کو یہودیوں کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہ تھا۔وی اینا کی کل بیس لاکھ کی آبادی میں دو لاکھ یہودی تھے اس پر بھی ہٹلر کو ان کے بارے میں کوئی علم نہ تھا۔لیکن آہستہ آہستہ ڈیموکریسی کے مطالعے کے ساتھ اس کو یہودیوں کی اصل حقیقت کا بھی پتہ لگا۔اس کو یہ پتے کی بات معلوم ہوگئی کہ یہودیوں کا نصب العین پیسہ کمانے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا۔
جرمن شہنشاہ قیصر ولیم کے لیے ہٹلر کے دل میں بڑی عزت تھی۔وہ اس کے لیے توہین آمیز الفاظ سن نہیں سکتا تھا۔اخبارات قیصر کی توہین کرتے تھے ہٹلر نے دیکھا کہ ان کے ایڈیٹر اور مالک یہودی ہی ہیں۔اس نے سوشل ڈیمو کریٹ لوگوں کے لٹریچر کو اٹھا کر دیکھا تو اس کے مصنف بھی یہودی ہی تھے۔بڑے بڑے لیڈر رائخ ریٹReichrateیعنی آسٹریا کی پارلیمنٹ کے ممبر، ٹریڈ یونینوں کے سکریٹری، آگنائزیشنوں کے صدر یا تحریک کے چلانے والے سبھی یہودی تھے۔اس وقت اس کو یقین ہوا کہ دراصل قوم و ملک کے بگاڑنے والے یہودی ہیں۔سوشل ڈیموکریٹ لوگوں کی اصلی شکل جان لینے سے اس کا وطن پرستی کا جذبہ زیادہ پختہ ہوگیا۔اب اس نے مارکس کی تعلیمات کا مطالعہ کرنا شروع کیا۔اس تمام مطالعہ سے اس میں سب سے بڑی تبدیلی یہ ہوئی کہ وہ ایک کمزور شہری بننے کی بجائے یہودیوں کا زبردست مخالف بن گیا۔
ہٹلر کی وی اینا سے روانگی
آسٹریا میں جرمنوں کی حالت کا مطالعہ کرکے ہٹلر کی بے چینی اندر ہی اندر بڑھتی جاتی تھی۔وہ دیکھتا تھا کہ آسٹریا میں جرمنوں پر ظلم کا جاتا ہے۔زیک لوگ اور ان کا محافظ آسٹریا کا ولی عہد آرک ڈیوک فرانس فرڈیننڈ ان کو کچھ بھی سیاسی اختیارات دینے نہ چاہتے تھے۔اس لیے اب ہٹلرکے دل میں آسٹریا سے نفرت اور اپنے ملک کی محبت پیدا ہوئی۔اس کو رہ رہ کر اپنی جنم بھومی یاد آنے لگی۔اس طرح ہمہ گیر سیاسیات کی عملی تعلیم حاصل کرکے ہٹلر 1912کے موسم بسنت میں میونک آیا۔
مکمل کتاب پڑھنے کے لیے اس لنک پر کلک کیجیے:
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں