جمعرات، 24 دسمبر، 2015

عدم تشدد کا پیغمبر/اصغر علی انجینیر

Islam and Modern Age میں شایع شدہ اصغر علی انجینئر کے اس مضمون کو اسلام کے خلاف پھیلائے جانے والے اس پروپیگنڈے کے جواب کے طور پر پڑھنا چاہیے جس کی رو سے اسلام تشدد اور دہشت گردی کا مذہب ہے۔ انگریزی میں اس مضمون کی اشاعت کا مقصد وسیع پیمانے پر ان لوگوں تک اپنی بات پہنچانا ہے جو اس قسم کے پروپیگنڈے سے متاثر ہوسکتے ہیں۔ مضمون بے حد سادہ زبان اور معروضی انداز میں لکھا گیا ہے، مثلاً پیغمبر کے سوا کوئی دوسرا لفظ، یہاں تک کہ محمدؐ کا نام بھی استعمال نہیں کیا گیاتاکہ پیغمبر کی ذات سے عقیدت کے قطع نظر بحث معروضیت اور منطقی ڈسکورس کی شکل لے سکے۔ ترجمے میں بھی اسی معروضیت کو برقرار رکھنے کی کوشش کی گئی ہے تاکہ منطقی استدلال کی وہ اسپرٹ برقرار رہے جو مضمون کے اصل انگریزی متن کا جوہر ہے۔
ہماری نظر میں مضمون کے عنوان میں Messenger کے بجاے Prophet کا لفظ استعمال کرنے کا مقصد بھی یہی ہے کہ چوں کہ حضرت محمدؐ دین اور دنیا دونوں کی رو سے خدا کے پیغمبر اور رسول تھے اس لیے عدم تشدد بھی دین اسلام اور خدا کا پیغام ہے جو پیغمبرؐ کے ذریعے ہم تک پہنچا ۔(ارجمند آرا)
***

اس مضمون کا عنوان بہت سے لوگوں کو حیرت آمیز لگے گا کیوں کہ پیغمبرِ اسلام حضرت محمدؐ کو میڈیا اور مذہبی انتہا پسند اکثر لوگ تشدد کے پیغمبر کے طور پر پروجیکٹ کرتے رہے ہیں۔ ڈنمارک کے ایک کارٹونسٹ نے ان کی دستار میں بم تک رکھے ہوئے دکھائے۔ خیر، یہاں اس مضمون کے ذریعے میں یہ دکھانا چاہتا ہوں کہ حضرت محمدؐ درحقیقت عدم تشدد کے پیغمبر تھے۔ اس کے لیے میں مولانا اور مفتیوں کی طرح روایتی منابع کا سہارا نہیں لوں گا بلکہ قرآنی اقدار کی مددلوں گا اور ان حالات کا ذکر کروں گا جن میں ان کی زندگی بسر ہوئی۔ یہ دونوں وہ پہلو ہیں جن کے متعلق اسلامی علما میں کوئی اختلافِ رائے نہیں ہے۔
پہلا سوال یہ ہے کہ عدم تشدد کیا ہے اور کیا عدم تشدد کا رویہ مطلقاً اختیار کیا جاسکتا ہے؟ کسی بھی آدمی کی شخصیت کو سمجھنے کے لیے خواہ وہ تشدد کا حامی ہو یا مخالف، ان سوالوں پر غور کرنا ضروری ہے۔ علاوہ ازیں یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ عدم تشدد کا حامل ہونے کے لیے کون کون سی شرائط ہیں؟ کیا ہر قسم کے حالات میں عدم تشدد اختیار کیا جاسکتا ہے؟ اور کیا عدم تشدد محض ایک شخص کے فلسفے پر منحصر ہوسکتا ہے؟
آئیے، پہلے ان سوالوں پر غور کرلیں۔ پہلا سوال یہ ہے کہ عدم تشدد کیا ہے؟ عدم تشدد محض عدم جارحیت کا دوسرا نام نہیں۔ مان لیں کوئی بہت نرم مزاج اور حوصلے سے عاری شخص ہے جو بظاہر جارحیت سے بھی عاری، لیکن اس کی نرمی اور بے حوصلگی اس کے اندر ایک قسم کی جارحیت کو مجتمع کردیتی ہے جو سازشوں جیسی پیچیدہ صورتوں میں وار کرتی ہے اور یہ وار بعض اوقات بڑے مہلک بھی ہوجاتے ہیں۔ چناں چہ تشدد کی عدمِ موجودگی کے معنی یہ نہیں کہ ہم اسے عدم تشدد بھی مان لیں۔
عدم تشدد دراصل انسان کے باطنی اعتقاد پر مبنی ہوتا ہے، خواہ وہ شخص اپنے اطراف میں کارفرما قوتوں پر قدرت رکھتا ہو یا نہ رکھتا ہو۔ ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ایک غیر متشدد آدمی، اس قسم کے گہرے ایقان کے بغیر حقیقی طور پر غیر متشدد نہیں ہوسکتا۔ یہاں ایک بات قابلِ غور ہے۔ یہ بالکل ممکن ہے کہ کوئی شخص عدم تشدد میں گہرا ایمان نہ رکھتا ہو لیکن حالات ایسے رہیں کہ وہ زندگی میں بھی تشدد پر آمادہ نہ ہو، لیکن اس کے برعکس وہ شخص ہے جو عدم تشدد میں ایمان رکھتا ہے، لیکن بسااوقات مخصوص حالات میں تشدد پر مجبور ہوجائے۔ تاریخ میں ہمیں اس قسم کی کئی مثالیں ملتی ہیں۔
یہ سوال اب ہماری توجہ دوسرے اہم سوال کی جانب مبذول کرتا ہے۔ وہ یہ ہے کہ کیا کسی سماج میں عدم تشدد کلیّتاً ممکن ہے؟ میرے خیال میں میری تمام تر خواہش کے برخلاف اس کا جواب نفی میں ہے۔ ہمارے اطراف میں پھیلا ہوا سماج ایک بے حد پیچیدہ تشخص رکھتا ہے۔ ہمارے ہر طرف متضاد قوتیں برسرِعمل ہیں جو اپنی اپنی طرح سے ہم سے کام لینا چاہتی ہیں۔ کہہ سکتے ہیں کہ بنی نوعِ انسان اپنے عمل میں نہ تو مکمل طور پرآزاد ہے اور نہ ہی وہ دوسروں پر پوری طرح انحصار کرتا ہے۔
انسان آزادی اور بندش کا ایک پیچیدہ مرکب ہے۔ یہ بندش یا حد اس جگہ سے نافذ ہوتی ہے جہاں ہمارا گہرا عقیدہ یا وابستگی بھی ساتھ دینے سے معذور ہو۔ چناں چہ یہ دیکھنے کے لیے کہ کوئی شخص عدم تشدد کا حامل ہے یا نہیں، ہم اس نظریے کے تئیں اس کی گہری وابستگی کو بھی پرکھیں گے اور ایک حد تک یہ بھی دیکھیں گے کہ تشدد کو روکنے کے لیے اس نے کیا کیا کوششیں کی ہیں۔ یہ پرکھ غیر متشدد سماج کے قیام میں اس کی کامیابی یا ناکامی کی بنیاد پر نہیں کی جاسکتی۔
چناں چہ آج کا مورخ یہ جانتا ہے کہ مہاتما گاندھی جیسے لوگ تک جو عدم تشدد پرگہرا یقین رکھتے تھے، ایک غیر متشدد ہندوستان بنانے میں ناکام ہوگئے اور تقسیم کے ساتھ ملنے والی آزادی ایسے تشدد کے دور سے گزری جس کی نظیر نہیں ملتی۔ اس کے باوجود ان کو عدم تشدد کا قائد سمجھا جاتا ہے۔ ان سے صدیوں پہلے حضرت عیسیٰؑ گزرے ہیں جنھوں نے امن اور محبت کے راستے پر چلتے ہوئے خود کو صولی پر لٹکوایا۔ یہ بھی تشدد کی ایک شکل ہوئی۔ ابتدائی تین صدیوں کے سوا، جن میں عیسائی بے حد مظلوم اقلیت تھے، وہ کبھی امن چین سے نہیں رہے بلکہ کلیسا نے بھی صلیبی جنگوں میں شرکت کی جن کے نتیجے میں ہزارہا معصوم ہلاک ہوئے۔ یہاں تک کہ کلیسا کے اصولوں سے انحراف کرنے والوں کو کلیسا کے فرمان پر شہتیروں سے باندھ کر جلایا گیا۔
سوال یہ بھی ہے کہ کیا کسی ایسے معاشرے میں امن کی بحالی ممکن ہے جو شدید ناانصافیوں اور اقتصادی ذرائع کی غیر مساوی تقسیم پر مبنی ہو؟ یقیناًایسے معاشرے میں اپنے مقاصد کے حصول کے لیے عدم تشدد کی یہ تحریکیں چلاکر جدوجہد کی جاسکتی ہے اور ایسا کرنا بھی چاہیے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس سے جن لوگوں کے مفادات پر ضرب پڑے گی کیا وہ پُرامن رہیں گے اور آسانی سے آپ کو اپنے مقصد میں کامیاب ہونے دیں گے؟ کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا! امن کے لیے کام کرنے والے بہت سے لوگ جنھوں نے عدم تشدد کی مسلسل جدوجہد کی، مفاد پرستوں کے ہاتھوں مارے گئے۔
ان سب باتوں کا مقصد ایک لمحے کے لیے بھی یہ کہنا نہیں کہ ہم تشدد کا راستہ اختیار کریں اور عدم تشدد اور امن کی جدوجہد چھوڑ دیں۔ اس کے برخلاف ہمارا کہنا یہ ہے کہ ہمیں اپنی جدوجہد کے دوران معاشرے میں کارفرما ایسی مختلف قوتوں کو گہرائی سے سمجھنا ہوگا اور یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ وہ اپنے مفادات کو بچانے کے لیے کس حد تک جاسکتی ہیں۔ میں یہ بات زور دے کر کہنا چاہتا ہوں کہ ایک (صالح) قدر کے طور پرعدم تشدد کی حیثیت مسلّم ہے، لیکن معاشرے میں اس کو یقینی نہیں بنایا جاسکتا کیوں کہ بہ حیثیت مجموعی معاشرہ ہمارے قابو سے باہر ہوتا ہے۔
ایک پُرامن سماج کی تشکیل کے لیے منصفانہ معاشرے کا قیام ضروری ہے، لیکن منصفانہ معاشرے کے قیام میں بارہا خون کی ندیوں سے گزرنا پڑا ہے جس کا ثبوت مسلم تاریخ سے فراہم ہوتا ہے (میں اس کو اسلامی تاریخ نہیں کہتا کیوں کہ اس سے غیرضروری ابہام پیدا ہوتا ہے)۔ جیساکہ ہم آگے دیکھیں گے کہ جان بوجھ کر یا ناسمجھی میں تشدد کو اسلامی تعلیمات کا نتیجہ سمجھا جاتا رہا ہے اور بعض مسلم علما اور مورخین بھی اس کے لیے کچھ کم ذمہ دار نہیں ہیں۔ مسلم تاریخ کی ابتدا ہی سے جہاد کی بڑی غلط تفہیم کی جاتی رہی ہے۔
اس صورتِ حال کی روشنی میں آئیے ہم پیغمبرؐ اسلام کی جانب لوٹیں اور ان کے ایقان اور جدوجہد کا معائنہ کریں اور اس بات کو سمجھیں کہ کیا انھوں نے کبھی خونیں انقلاب کی تبلیغ کی یا پھر کبھی عرب معاشرے میں تبدیلی لانے کے لیے کوئی تشدد آمیز طریقہ اختیار کیا جیساکہ میں نے پہلے بھی نشان دہی کی ہے، اپنی بات کے ثبوت کے لیے میں تاریخی، سماجی اور سیاسی تجزیے کے لیے تشریحی طریقۂ کار سے کام لوں گا، ان روایتی ذرائع کا سہارا نہیں لوں گا جن سے مسلم علما استفادہ کرتے رہے ہیں۔
پیغمبرِؐ اسلام کی جدوجہد کو دو بنیادی مرحلوں میں بانٹ لینا چاہیے اور مجھ سے پہلے بھی لوگوں نے ایسا ہی کیا ہے۔ پہلا دور مکّہ میں ان کی ولادت سے لے کر مدینے کو ان کی ہجرت تک محیط ہے جو ان کا مستقل مستقر ٹھہرا۔ دوسرا دور مدینے میں ان کے قیام سے لے کر وصال تک کے عرصے کو محیط ہے، بعض حضرات دورِ مکّہ کو امن کا دور اور قیامِ مدینہ کو قدرے تشدد کے دور سے تعبیر کرتے ہیں۔ میں اس قسم کی زمرہ بندی سے متفق نہیں ہوں۔ جہاں تک حضورؐ کا تعلق ہے، یہ ان کا نہیں بلکہ حالات کا تضاد ہے۔ جیساکہ ہم سب جانتے ہیں کہ عدم تشدد صداقت کے بغیر ممکن نہیں۔ یہ دونوں ایک دوسرے کا جزوِ لاینفک ہیں۔ مسلم علما، مورخین خواہ غیر مسلم مورخین ہر کوئی اس پر متفق ہے کہ پیغمبرِ اسلام صادق اور امین کے طور پرمعروف ہیں۔ چناں چہ کوئی بھی سچا آدمی اپنی زندگی کے کسی بھی موڑ پر کبھی پُرتشدد نہیں ہوسکتا۔ مدینے میں بھی وہ اتنے ہی امن پسند اور غیر متشدد تھے جتنے مکّہ میں۔ یہ الگ بات ہے کہ مدینے کے عرصۂ قیام میں حالات بڑی تیزی سے بدلتے رہے جن کا ذکر ہم بعد میں کریں گے۔ اپنے سماجی اور سیاسی سیاق سے ہٹ کر کوئی بھی بحث دراصل اپنی جڑوں سے کٹ جاتی ہے اور اس کو زیادہ سے زیادہ اصولی یا نظریاتی بنایا جاسکتا ہے۔ جس وقت پیغمبرؐ مکّہ کے منظرنامے پر آئے تب ان کا عہدِ شباب تھا اور باطنی طور پر وہ بے حد حساس تھے۔
مکّہ کے حالات دیکھ کر وہ بڑے پریشان تھے۔ جہاں زبردست اتھل پتھل تھی، سماجی نراج کے سے حالات تھے، طبقاتی فرق بے حد شدید تھا جس میں ایک جانب غریب اور ملکیت سے محروم لوگ تھے تو دوسری جانب طاقور بین الاقوامی تجارتی کارپوریشنیں تھیں جو چند قبائلی سرداروں کی ملکیت تھیں۔ بین الاقوامی تجارتی لین دین کا عمل مکّہ میں ہی ہوتا تھا اور یہ سب اس میں شریک تھے۔ غلامی اس منظرنامے کی شدت میں مزید اضافہ کرتی تھی۔ اعلا طبقے کی چند عورتوں کو چھوڑکر بقیہ عورتیں اپنے دور کے بدترین حالات سے گزر رہی تھیں۔
ان حالات سے کبیدہ خاطر ہوکر پیغمبرؐ نے ایک غار میں اپنا وقت گزارنا شروع کردیا۔ حِرا نام کا یہ غار شہرِ مکّہ کے کنارے واقع تھا جہاں وہ مکّہ کی صورتِ حال پر سنجیدگی سے غور و فکر کرتے رہتے تھے۔ وہ کوئی تنہائی پسند شخص نہ تھے بلکہ حالات کو بدلنے کے لیے وہ موثر طریقے سے مداخلت کرنا چاہتے تھے۔ چناں چہ جیساکہ مسلمانوں کا عقیدہ ہے، صحیح راستہ دکھانے کے لیے وہیں ان پر خدا کی وحی نازل ہوئی۔ ان کی بیوی حضرت خدیجہؓ نے جو عمر میں ان سے پندرہ برس بڑی تھیں، ان کو خدا کا پیغمبرؐ تسلیم کیا اور ان کو مبارک باد دی۔
پیغمبرِؐ اسلام نے، جو اپنی بیوی اور چار بیٹیوں کے ساتھ ایک پُرسکون زندگی گزار رہے تھے، اب الوہی پیغام کی تبلیغ شروع کردی جس سے گویا ایک حشر بپا ہوگیا۔ پیغمبر کی تعلیمات کو اختصار کے ساتھ ان الفاظ میں پیش کیا جاسکتا ہے:
(۱) تمام بنی نوعِ انسان اور عرب کے سب قبائل کا اتحاد اسلام کا بنیادی مقصد ہے۔ قبائل میں جن کی آپسی تفرقوں کے سبب بے حد خوں ریزی ہورہی تھی، بین قبائلی اتحاد کی بے حد ضرورت تھی اس لیے انھوں نے اخوت کا پیغام دیا (جس میں برادرانہ اور خواہرانہ یعنی تذکیری اور تانیثی دونوں کا بھائی چارا شامل ہے)۔ یہ باہمی اتحاد صرف توحید کے ذریعے حقیقت میں بدلا جاسکتا ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ لاتعداد دیوی دیوتاؤں (خداؤں) کی وجہ سے بین قبائلی افتراق اور منطقی اور عقلی فکر کی قیمت پر توہّم پرستی کا بول بالا تھا، چناں چہ توحید ہی اسلام کا بنیادی نظریہ ٹھہرا۔
اسلام غریبوں، مسکینوں، یتیموں، بیواؤں، غلاموں اور معاشرے کے دیگر کمزور طبقوں کو ان کی پریشانیوں سے نجات دلانے کی تعلیم دیتا ہے۔ قرآن کی بہت سی مکّی سورتوں اور آیتوں سے اس کے وافر ثبوت فراہم ہوتے ہیں۔ سماجی امن و امان کے لیے پیغمبرؐ نے دولت کی تقسیم تو چاہتے تھے اور اسی وجہ سے انھوں نے زکوٰۃ کی بنیاد ڈالی (قرآن میں حالاں کہ یہ درج نہیں کہ کتنی زکوٰۃ دی جائے لیکن پیغمبرؐ نے کہا سال کے آخر میں ہمارے پاس جتنی دولت ہو اس کا ڈھائی فی صد زکوٰۃ کے طور پردیا جائے)۔
(۲) عورتوں کو انفرادی حقوق اور عزت و وقار فراہم کرکے ان کی پس ماندگی دور کرنا۔ اس معاملے میں وہ سماجی انقلاب لانے کے خواہاں تھے۔ وہ چیز جس کو آج ہم empowerment of women کہتے ہیں، اسے پیغمبرِؐ اسلام نے کردکھایا لیکن بعد میں ہوا یہ (جیساکہ عموماً ہوتا ہے) کہ طاقتور اور تنگ نظر علما نے اس کو نقصان پہنچایا۔ عورتوں کو قوت دینے اور مستحکم کرنے کے لیے قرآن نے جو کچھ کہا وہ یقیناًایک انقلابی تصور تھا۔
(۳) ان وسائل کے ذریعے ایک منصفانہ، پُرامن اور غیر متشدد معاشرے کا قیام اسلام کا مقصد تھا۔ نسلی، مذہبی، لسانی اور تہذیبی تفریق کے بغیر تمام بنی نوعِ انسان کو مساوی درجہ اور مساوی حقوق دینا اسمیں شامل ہے۔
پیغمبرؐ کی تعلیمات نے مکّہ کے ان مفاد پرستوں کو زبردست زک پہنچائی جو نفع خوری میں ڈوبے ہوئے تھے۔ اپنے قبیلے کی سماجی ذمہ داریوں کو نظر انداز کرتے تھے اور مسلسل ناانصافیاں برتتے تھے۔ اس کے برعکس نوجوانوں اور غریبوں کا ایک حصہ بڑے جوش و جذبے کے ساتھ پیغمبرؐ کے گرد جمع ہوگیا۔ چناں چہ مکے کے تاجر اور قبائلی سربراہ پیغمبرؐ کو خاموش کرنے کے لیے متحد ہوگئے۔ جب وہ اس میں ناکام ہوگئے تو وہ ان کے چچا ابوطالب کے پاس پہنچے جو قبیلے کی روایت کے مطابق پیغمبر کے سرپرست و محافظ تھے۔
جب ابوطالب نے انھیں بتایا کہ قبیلوں کے یہ سربراہ کس غرض سے آئے تھے تو انھوں نے جواب دیا: اگر وہ اپنے ایک ہاتھ میں سورج کو اٹھالیں اور دوسرے میں چاند کو، پھر مجھ سے خاموش ہونے کو کہیں تو بھی میں ایسا نہیں کروں گا۔ ان کا یہ اخلاقی استقلال دیکھ کر ابوطالب نے اپنے بھتیجے کو پوری طرح حفاظت کا یقین دلایا اور اسے اپنے خیالات کی تبلیغ کی پوری آزادی دی۔ اپنے مقصد میں ناکام ہونے کے بعد قبیلوں کے سردار پیغمبرؐ کی توہین کرنے لگے، ان کا مذاق اڑانے لگے اور کمزور اور غیرمحفوظ لوگوں پر سخت ظلم ڈھانے لگے۔
پیغمبرؐ کو ماننے والوں میں حبش (Etheopia) کے باشندے ایک غلام بلال حبشی بھی تھے جنھوں نے ابتدائی دنوں میں اسلام قبول کرلیا تھا۔ وہ پیغمبرؐ کے بہت ہی وفادار مقلدین میں سے تھے کیوں کہ وہ دیکھ رہے تھے کہ پیغمبرؐ ایک ایسی عظیم شخصیت ہیں جو غلاموں کے نجات دہندہ بھی ہیں۔ پیغمبرؐ نے انھیں کبھی نظر انداز نہیں کیا بلکہ اپنے بہت سے مالدار اور طاقتور پیروکاروں کے مقابلے میں انھیں زیادہ اہمیت دی۔ انھوں نے بلال کو موذن مقرر کیا، یہ ایک ایسا اعزاز تھا جس کے ان کے بہت سے ساتھی خواہاں تھے۔
تاہم پیغمبرؐ نے خود پر، اپنے ساتھیوں اور پیروکاروں پر ہونے والے ظلم کے جواب میں کبھی پلٹ کر وار کرنے کی کوشش نہیں کی۔ ان کو اور ان کے ساتھیوں کو ان تمام مظالم کو صبر کے ساتھ برداشت کرنے کی تلقین کی گئی۔ قرآن کی ایک مکّی آیت میں تو صرف صبر کی خوبیوں کا ہی بیان ہے اور اسے صداقت کا ایک جزوِ لاینفک بتایا گیا ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ صبر اور صداقت دونوں ساتھ ساتھ ہوتی ہیں (العصر، ۱۰۳)۔ مکّی اور مدنی دونوں سورتوں میں جن اوصاف پر زور دیا گیا ہے وہ ہیں: صداقت، انصاف، انکسار، صبر، رحم دلی، دانائی اور پرہیزگاری۔ غصے اور بدلے کے جذبوں پر قابو رکھنے کی بھی تلقین کی گئی ہے۔ غصہ اور بدلہ قبائلی مزاج کا خاص حصے تھے اور ان کی وجہ سے عربوں میں برسہا برس تک خون خرابہ ہوتا رہا تھا۔
ان اوصاف کی بدولت انسان کے رویّوں سے تشدد ختم ہوجاتا ہے بلکہ عدم تشدد اس کا سب سے ضروری حصہ ہے۔ عرب کی تاریخ میں پیغمبرؐ نے اس موقعے پر سب سے زیادہ قوتِ برداشت کا مظاہرہ کیا اور کبھی بھی کسی سے بدلہ نہیں لیا۔ جب جب ان پر ظلم کیا جاتا وہ گوشہ نشیں ہوجاتے،بہت غور و فکر کرتے اور پھر ایک پُرامن حل کے ساتھ باہر آتے تھے۔ جب مکّہ میں ان پر اور ان کے ساتھیوں پر ہونے والے ظلم برداشت سے باہر ہوگئے اور قبیلوں کے سرداروں نے مدینے میں ان کے قتل کی سازش کرڈالی تو انھوں نے رات کے اندھیرے میں مدینہ ہجرت کرجانے کا فیصلہ کیا۔
تمام مصیبتوں کو انھوں نے خاموشی سے برداشت کیا اس کی وجہ کچھ لوگ یہ بتاتے ہیں کہ پیغمبرؐ اور ان کے پیروکار مکّہ میں اقلیت میں تھے اور اپنے دفاع میں پلٹ کر حملہ کرنے کی ہمت نہ کرسکتے تھے۔ یہ بات پیغمبرؐ کے بنیادی کردار کو بری طرح مجروح کرنے والی ہے۔ وہ بڑی دقیقہ رسی کے ساتھ امن اور عدم تشدد کے پیروکار تھے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو انھوں نے مکّہ کو پہلے ہی فتح کرلیاہوتا اور ان ظالموں کو قتل کردیا ہوتا جنھوں نے ان پر ظلم کیے تھے۔ مکّہ کی فتح کے بعد انھوں نے اپنے دشمنوں اور ظالموں کے قتل کا حکم نہیں دیا، حالاں کہ قبائلی رواج کے مطابق وہ ایسا کرسکتے تھے۔
جب وہ ہجرت کرکے مدینہ پہنچے تو وہاں لوگوں نے ان کا گرم جوشی سے استقبال کیا کیوں کہ بنیادی طور پر وہ وہاں امن و امان قائم کرنے کے لیے پہنچے تھے۔ گزشتہ چالیس برسوں میں قبیلوں کی آپسی رنجشوں نے مدینے کا امن و امان غارت کردیاتھا۔ وہ ان رنجشوں کو ختم کرنے میں کامیاب ہوئے اور دونوں قبیلوں کے درمیان حق اور انصاف کے اصولوں پر امن کا معاہدہ کرایا تھا۔ اس طرح وہ مدینے میں امن کے سفیر کے طور پر داخل ہوئے اور لوگوں نے ان کا پُرجوش خیرمقدم کیا۔
مدینے میں صورتِ حال یکسر مختلف تھی۔ کسی حد تک پیغمبرؐ کے قابو میں اور کسی حد تک باہر۔ مدینے میں وہ ایک عظیم اخلاقی اور روحانی معلم کے طور پرسامنے آئے جنھوں نے مدینے کے لوگوں میں نہ صرف اتحاد قائم کیا بلکہ زندگی کے ہر شعبے میں ان کی رہ نمائی بھی کی۔ پیغمبرؐ کا ایک اور خاص وصف ان کا انکسار تھا۔ وہ خود کو عبدہٗ و رسولہٗ کہتے تھے۔ یعنی خدا کا بندہ اور اس کا پیغام لانے والا۔ انھوں نے خود کو دوسروں سے ممتاز سمجھنے کی کبھی کوشش نہیں کی۔ جب وہ اپنے گھر اور مسجد کی تعمیر کررہے تھے تو دوسرے معماروں کی طرح خود بھی کام کرتے تھے۔ وہ یہی کہا کرتے تھے کہ میں تم سے کسی طرح بڑا نہیں ہوں، سواے اس کے کہ میں خدا کا پیغمبرؐ ہوں۔ اتنا عظیم معلّم اور اسقدر نرم مزاج! چند عربوں نے ان کے آگے جھکنے کی کوشش کی تو انھوں نے سختی کے ساتھ ایسا کرنے سے منع کردیا اور کہا کہ خدا کے سوا کسی کے سامنے نہیں جھکنا چاہیے۔
لیکن کچھ ایسی چیزیں بھی تھیں جو پیغمبرؐ کے قابو سے باہر تھیں۔ پیغمبرؐ کی مدینے کی ہجرت نے یہودیوں کی کچھ نئی قسم کی عداوتوں کو جنم دیا۔جن کے ہاتھ میں تجارت تھی اور اکثر ایسا ہوتا تھا کہ عرب قبیلے ایسے جھگڑوں میں انھی کو ثالث بناتے تھے۔ پیغمبرؐ کی ہجرت نے اس صورتِ حال کو بدل دیا۔ یہودیوں کا یہ امتیاز ختم ہوگیا اور سب سے بڑھ کر یہ ہوا کہ تجارت پر سے ان کا اجارہ ختم ہوگیا جس سے ان کو سخت صدمہ پہنچا۔ پیغمبرؐ کے ابوبکر اور عثمان جیسے بہت سے ساتھی ماہر تجار تھے، وہ پیغمبرؐ کے ساتھ ہجرت کرکے آئے تھے اور انھوں نے تجارت کا کام شروع کردیا تھا۔ اس طرح تجارت پر یہودیوں کی اجارہ داری ختم ہوگئی تھی۔
مکّہ میں قبیلوں کے سردار اس بات پر سخت برہم تھے کہ پیغمبرؐ بچ نکلے اور اب مدینہ میں اپنا پیغام پھیلا رہے تھے۔ انھوں نے عہد کیا تھا کہ یا تو وہ انھیں خاموش کردیں گے یا پھر ان کا خاتمہ کرڈالیں گے۔ اپنے ان دونوں ہی منصوبوں میں وہ ناکام ہوگئے تھے۔ چناں چہ انھوں نے طے کیا کہ وہ اپنی عداوت کو مدینے میں داخل ہوکر کامیاب کریں گے۔ پیغمبرؐ کو اس صورتِ حال کا بخوبی اندازہ تھا۔ جلد ہی ایسا ہوا کہ مکّے کے سرداروں نے مدینے کے یہودیوں کے ساتھ خفیہ طور پر رابطہ قائم کرلیا اور مدینہ پر حملے کی تیاریاں کرڈالیں۔ پیغمبرؐ کو ممکنہ حملے کا خدشہ تھا چناں چہ انھوں نے اپنے کچھ ساتھیوں کو حالات پر نظر رکھنے کی غرض سے مدینے کے باہر بدر کے مقام کے قریب بھیج دیا تھا۔ یہی حملے کا ممکنہ مقام بھی تھا۔
اسی دوران پیغمبرؐ نے بہت سے قبیلوں کے ساتھ معاہدے کیے جن میں یہودی قبیلہ میثاقِ مدینہ بھی شامل تھا۔ اس معاہدے کے مطابق ان کو بھی اپنے مذہب پر عمل پیرا ہونے، روایات، تہذیب اور جان و مال کی حفاظت وغیرہ کی پوری آزادی دی گئی۔ یہودیوں کو بھی اپنے مذہب اور رسومات کی پوری آزادی دی گئی تھی جس میں کسی کی بھی کسی قسم کی مداخلت نہیں تھی۔ اس کے مقابلے میں واحد شرط یہ رکھی گئی کہ اگر مدینے پر حملہ ہوا تو سب مل کر اس کی حفاظت کریں گے۔ یہ ایک بڑی حیرت انگیز دستاویز تھا اور اتنی ہی ماڈرن تھی جتنی آج کے زمانے میں وفاق ہونے میں یا قومی اور بین الاقوامی اقرار نامے۔
اس معاہدے کی رو سے اگر اہلِ مکّہ مدینے پر حملہ کریں تو یہودیوں کو مسلمانوں کا ساتھ دینا تھا، لیکن جب مکّہ والوں نے مدینے پر حملہ کیا تو یہودیوں نے، جن کو حملے کی پیشگی اطلاع تھی، کیوں کہ وہ اہلِ مکّہ کے ساتھ خفیہ رابطے میں تھے، مدینے کا دفاع نہیں کیا اور اس کے سبب یہودیوں اور مسلمانوں کے درمیان ایک نزاعی صورتِ حال پیدا ہوگئی۔ بہرحال بدر کی جنگ ہوئی جس میں 313 مسلمانوں نے تقریباً ایک ہزار مکّہ والوں کو شکست دی۔ یہ مکّہ والوں کے لیے بڑی خفّت اور خواری کی بات تھی۔
اس جنگ کے لیے کسی بھی صورت میں پیغمبرؐ کو ذمے دار نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ انھوں نے مکّہ اسی لیے چھوڑا تھا کہ وہ پُرتشدد تنازع یا آویزش سے بچنا چاہتے تھے، لیکن مدینے میں بھی مفاد پرست عناصر نے ان کو اور ان کے ساتھیوں کو چین سے نہیں رہنے دیا۔
یہودیوں اور مسلمانوں کی جنگ کے حوالے سے کچھ باتیں دھندلی بلکہ اندھیرے میں ہیں، لیکن جہاں تک یہودیوں کی غداری اور مکّہ والوں کے ساتھ سازباز کا سوال ہے، اس میں کسی طرح کے شک کی گنجائش نہیں۔ پیغمبرؐ کی زندگی کے حوالے سے بنیادی ماخذ میں ابن اسحاق اور تبری کی تحریروں کا شمار ہوتا ہے۔ انھوں نے کچھ واقعات ایسے درج کیے ہیں جن پر ناقدانہ نگاہ ڈالنے کی ضرورت ہے۔ انھوں نے یہودیوں کے کچھ تاریخی بیانات کو بغیر چون و چرا تسلیم کیا ہے جن میں انھوں نے (یہودی تاریخ نویسوں نے) پیغمبرؐ پر یہ الزام لگایا ہے کہ جنگِ خندق کے بعد انھوں نے سات سو سے زیادہ یہودیوں کو قتل کیا، اس جنگ میں یہودیوں نے مکّہ کے دشمنانِ پیغمبرؐ کا کھل کر ساتھ دیا تھا۔
یہاں تفصیلات میں جانے کی گنجائش نہیں، بس اتنا کہنا کافی ہوگا کہ یہ پورا وقعہ پیغمبرؐ کے کردار سے کسی طرح میل نہیں کھاتا۔ ابتدائی دور کے مسلم تاریخ نویسوں نے اس بیان کو سوال اٹھائے بغیر جس طرح تسلیم کرلیا اس کی ایک نفسیاتی توجیہ یہ ہوسکتی ہے کہ وہ ان دشمنوں پر اپنی برتری ثابت کرنا چاہتے تھے جنھوں نے ان کے ساتھ غداری کی۔ علاوہ ازیں، یہ واقعہ قرآن میں بیان کردہ واقعے سے بھی موافقت نہیں رکھتا۔اسلامی تاریخ نویسوں اور عالموں کو چاہیے کہ وہ اس پر سنجیدگی سے کام کریں اور اس کا ناقدانہ تجزیہ کریں۔ بدقسمتی سے اسلامی اور غیر اسلامی سب طرح کے علما اسحاق اور تبری کے حوالے مسلسل دیتے ہیں لیکن نئی تاریخی ریسرچ کی روشنی میں ان کا کبھی ناقدانہ تجزیہ نہیں کرتے۔
یہ بات غور طلب ہے کہ پیغمبرِ اسلام نے کبھی بھی اپنی طرف سے حملہ کی پیش قدمی کرکے کوئی جنگ نہیں لڑی۔ جارحی جنگ کرنے کی قرآن میں ممانعت ہے۔ قرآن خصوصی طور پر کہتا ہے، ’’لڑو اللہ کی راہ میں ان سے جو تم سے لڑتے ہیں، اور زیادتی نہ کرو۔ اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا‘‘ (۱۹۰:۲)۔ پیغمبرِ اسلام نے قرآن کے اس اصول سے کبھی انحراف نہیں کیا، قرآن کی یہ دوسری سورہ مدینہ میں نازل ہوئی تھی، مکّہ میں نہیں، اس سے یہ بات واضح ہے کہ جارحیت کی جنگ اللہ کو کسی بھی صورت میں قابلِ قبول نہیں۔
یہاں میں دو اہم مثالیں دے کر بتاؤں گا کہ بے حد پیچیدہ مسئلوں کو پیغمبرؐ نے کس طرح پُرامن طریقوں سے سلجھایا جس کے سبب وہ عرب جیسے علاقے میں امن کے ایک بڑے نمائندے کے طور پر معروف ہوگئے جہاں چھوٹے چھوٹے مسئلوں پر خون کی ندیاں بہہ جاتی تھیں اور عربوں کا غصہ اور بدلے کا جذبہ کبھی ٹھنڈا نہ پڑتا تھا۔ پہلی مثال یہ ہے کہ پیغمبرؐ گو کہ ایک قدیم ریاست کے سربراہ تھے تاہم اپنی زندگی میں انھوں نے کبھی کوئی فوج کھڑی نہیں کی۔ تمام جنگیں جو وہ لڑنے پر مجبور کیے گئے، رضاکاروں کی شرکت سے لڑی گئیں اور اسی وجہ سے شہادت ہوئی۔ یعنی کسی اعلا مقصد کے لیے جان دے دینے کا تصور پروان چڑھا۔ اگر پیغمبرؐ کے ارادے جارحانہ ہوتے اور سیاسی اقتدار ان کا مقصد ہوتا تو انھوں نے لشکر بھی ضرور کھڑا کیا ہوتا۔ ہتھیاروں کے لیے فنڈ بھی وہ اپنے پیروکاروں کے عطیات سے جمع کرتے تھے، عوامی ٹیکس سے کبھی نہیں۔
قرآن میں یہ بات بالکل واضح کردی گئی ہے کہ زکوٰۃ کی رقم سماج کے غریب اور کمزور طبقوں کے لیے ہے، اس کو جنگ کی تیاریوں پر کبھی خرچ نہیں کیا گیا۔ پیغمبرؐ نے اپنے لیے یا اپنے اہلِ خانہ کے لیے زکوٰۃ کبھی قبول نہیں کی۔ یہ ان کے لیے ممنوع تھی۔ ایسے حالات میں جب کہ ایک طاقتور اور باوسائل دشمن کا سامنا ہو، صرف ایسا شخص ہی لشکر کھڑا کرنے کے لالچ سے خود کو بچاسکتا ہے جو عدم تشدد میں یقین رکھتا ہو۔
پیغمبرؐ کی پُرامن مزاج کی دوسری اہم مثال وہ ہے جسے اسلامی تاریخ میں صلحِ حدیبیہ کا نام دیا جاتا ہے۔ فتحِ مکّہ سے پہلے اپنے آخری حج سے پہلے والے سال پیغمبر ؐ حج کرنا چاہتے تھے۔ انھیں خدشہ تھا کہ مکّہ کے لوگ انھیں ہتھیار بند ہوکر روکنے کی کوشش کریں گے۔ چناں چہ وہ مدافعتی تیاریاں کرکے مکّہ کے لیے روانہ ہوئے، جیساکہ توقع تھی، انھیں راستے میں حدیبیہ میں روک دیا گیا اور کہا گیا کہ آگے نہ جائیں۔ مکّہ والوں سے نمٹنے کے لیے پیغمبرؐ حالاں کہ پوری تیاری سے آئے تھے پھر بھی انھوں نے مکّہ والوں کے نمائندوں سے بات چیت کو اہم سمجھا۔ انھوں نے امن کے لیے ساری شرائط بیان کیں جن میں یہ شرط بھی شامل تھی کہ وہ اپنے نام کے ساتھ رسوال اللہ نہیں لکھیں گے۔ اس پر ان کے چند ساتھیوں کو غصہ آگیا لیکن انھوں نے صلح پر اصرار کیا اور غیر ضروری خون خرابے سے بچالیا۔ امن کا یہ معاہدہ مسلمانوں کے حق میں رہا اور آئندہ برس خون کا ایک بھی قطرہ بہائے بغیر بڑے پُرامن طریقے سے پیغمبرؐ مکّہ میں داخل ہوئے۔ اس کا اس سے بڑا کوئی دوسرا ثبوت نہیں ہوسکتا کہ امن اور عدم تشدد کا سبق صرف قرآن سے ہی نہیں ملتا بلکہ پیغمبرؐ کے کردار سے بھی ملتا ہے۔
بات کو ختم کرتے ہوئے چند معروضات پیش کرتا ہوں:
(۱) پیغمبرؐ کی زندگی میں تشدد کا گزر کسی سیاق کے بغیر ہرگز نہیں ہے اور ایسے موقعوں پر پیغمبر سمیت کسی کے بھی کنٹرول میں نہیں تھا۔ جو بھی خون خرابہ ہوا وہ مکّہ اور مدینہ کے کچھ لوگوں کی مفاد پرستی کے نتیجے میں ہوا جو نہ صرف اسلام کی پُرامن تبلیغ کو روک رہے تھے بلکہ پیغمبرؐ اور ان کے ساتھیوں پر تشدد بھی کررہے تھے۔
(۲) جہاں تک پیغمبرؐ کے طریقِ کار کا تعلق ہے تو مکّہ اور مدینے کے ادوار میں اس میں کوئی فرق نہیں ملتا۔ دونوں ہی مرحلوں میں پیغمبرؐ نے امن اور عدم تشدد کی پالیسی مستقل طور پر اختیار کی۔ اس پالیسی سے انحراف کی جو جو بھی صورتیں مکی اور مدنی ادوار میں ملتی ہیں وہ حالات کی دین ہیں، نظریے کی نہیں۔۔۔۔۔ اور نیت کی تو بالکل بھی نہیں۔
(۳) قرآن نے صرف دفاع میں تشدد کی اجازت دی ہے، اگر ایسا نہ ہوتا تو مسلمانوں کی بقا ممکن ہی نہ رہتی۔ مکمل عدم تشدد خالص نظریے کے طور پر مانا جاسکتا ہے اور ایسی پیچیدہ ترین دنیا میں یہ نظریہ زندہ نہیں رہ سکتا جہاں مختلف قسم کے مفادات ہیں اور ایسے لوگ جو دوسروں پر بالادستی رکھنا چاہتے ہیں۔ مکمل عدم تشدد کا نظریہ صرف ایسی دنیا میں ہی اختیار کیا جاسکتا ہے جہاں پوری طرح انصاف کا بول بالا ہو اور جس میں ایسے لوگ رہتے ہوں جو تفریق اور بدنیتی نہ رکھتے ہوں۔ ایسی دنیا ابھی تک صرف تصور ہی میں بستی ہے۔
(۴) اسلام کوئی سیاسی نظریہ نہیں ہے بلکہ ایک ایسی تہذیبی قوت ہے جس کے پاس پُرقوت روحانی اور اخلاقی نظریات ہیں۔ اس کا بنیادی مقصد نوعِ انسانی کو روحانی اور اخلاقی رویّوں میں بلند تر سطح تک لے جانا ہے۔ اللہ نے انسانوں کو بہترین سانچوں میں ڈھالا ہے ( فی احسن تقویم) لیکن اپنی خواہشوں کی تکمیل کی خاطر اور دوسروں پر بالادستی کے لیے وہ بدترین صورت اختیار کرلیتے ہیں۔
(۵) مسلمانوں کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ اسلام اپنی بہترین صورت میں اسی وقت نظر آئے گا جب وہ بہترین اقدار کی جستجو کریں، اقتدار کی نہیں۔ اقتدار کی جستجو میں خاصا خون خرابہ ہوتا ہے اور مسلم دنیا میں ہو بھی رہا ہے۔ اسلام میں تمدن کے عظیم امکانات پوشیدہ ہیں اور اس نے دنیا کو ایک عظیم تمدن دیا بھی ہے۔
(۶) اور وہ دنیا کو اللہ کے راستے پر چلنے کی دعوت صرف عقل و ادراک اور راست بازی کے رویّوں سے ہی دے سکتے ہیں۔
(Islam and Modern Age, April 2010)

کوئی تبصرے نہیں:

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *