اتوار، 8 نومبر، 2015

جون ایلیا کی غزلیں

جون ایلیا کا آج یوم وفات ہے، وہ 14دسمبر 1931 میں پیدا ہوئے اور 8 نومبر2002 میں ان کا انتقال ہوگیا، جون کی انفرادیت ان کے منفرد لہجے سے ثابت ہے، میرا خیال ہے، جون کی جتنی شہرت ان کی غزلوں کی بنیاد پر ہوئی، اس کی وجہ سے بہت حد تک ان کی نظموں کو نظر انداز کیا گیا، جبکہ ان کی نظمیں ان کے فلسفیانہ ذہن کی بہترین عکاسی کرتی ہیں، ان کے علم اور تخلیق دونوں کا جوہر ان کی شاعری میں جس قدر نظم میں کھلتا ہے، غزل میں اس قدر نہیں، یہ کمی غزل کی ہوسکتی ہے، جون کی نہیں، کیونکہ جون نے تو غزل میں بھی اچھی شاعری کی ہے۔ان کے بہت سے شعر ضرب المثل بنے، خاص طور پر ہندوستان و پاکستان کے نوجوانوں میں ان کی شہرت ہے، وہ اردو ادب کے قاری کے طور پر میرے لیے ایک حیران کن تجربہ رہا ہے،انہیں بہت سے لوگ پڑھنا، سننا چاہتے ہیں اور اچھی بات یہ ہے کہ بہت حد تک جون ایلیا کی شاعری انٹرنیٹ پر بھی دستیاب کرادی گئی ہے، بہت سے دوست احباب اس سلسلے میں کام کررہے ہیں، مگر میری ان سے درخواست ہے کہ وہ جون کا وہ انتخاب پیش کریں جس سے ان کی شاعری کا اچھا حصہ سامنے آسکے، جون کو ایک بالکل عوامی اور عوام پسند شاعر کے طور پر پروجیکٹ کرنے والے لوگوں سے مجھے سخت قسم کا اختلاف ہے، یہ جون کی حق تلفی ہے۔ بہرحال یہاں تقریبا اسی غزلیں جون ایلیا کی میں نے ادبی دنیا پر پوسٹ کی ہیں، کہیں غلطی نظر آئے تو آپ سے درخواست ہے کہ مجھے اطلاع کریں، اور اس شاعری کا لطف اٹھائیں، اسے شیئر کریں،بے حد شکریہ!

آج لب گہرفشاں آپنے وا نہیں کیا
تذکرۂ خاجستہء آب و ہوا نہیں کیا
کیسے کہیں که تجھ کو بھی ہم سے ہے واسطہ کوئی
تونے تو ہم سے آج تک کوئی گلا نہیں کیا
جانے تری نہیں کے ساتھ کتنے ہی جبر تھے که تھے
میں نے ترے لحاظ میں تیرا کہا نہیں کیا
مجھ کو یہ ہوش ہی نہ تھا تو میرے بازؤں میں ہے
یعنی تجھے ابھی تلک میں نے رہا نہیں کیا
تو بھی کسی کے باب میں عہد شکن ہو غالباً
میں نے بھی ایک شخص کا قرض ادا نہیں کیا
ہاں وہ نگا ناز بھی اب نہیں ماجرا طلب
ہم نے بھی اب کی فل میں شور بپا نہیں کیا
٭٭٭
آخری بار آہ کر لی ہے
میں نے خود سے نباہ کر لی ہے
اپنے سر اک بلا تو لینی تھی
میں نے وہ زلف اپنے سر لی ہے
دن بھلا کس طرح گزارو گے
وصل کی شب بھی اب گزر لی ہے
جاں نازروں پہ وار کیا کرنا
میں نے بس ہاتھ میں سپر لی ہے
جو بھی مانگو ادھار دونگا میں
اس گلی میں دوکان کر لی ہے
میرا کشکول کب سے خالی تھا
میں نے اس میں شراب بھر لی ہے
اور تو کچھ نہیں کیا میں نے
اپنی حالت تباہ کر لی ہے
شیخ آیا تھا متسب کو لئے
میں نے بھی انکی وہ خبر لی ہے
٭٭٭
اب وہ گھر اک ویرانہ تھا بس ویرانہ زندہ تھا
سب آنکھیں دم توڑ چکیں تھیں اور میں تنہا زندہ تھا
ساری گلی سنسان پڑی تھی بعد فنا کے پہرے میں
ہجر کے دالان اور آنگن میں بس اک سایہ زندہ تھا
وہ جو کبوتر اس موکھے میں رہتے تھے کس دیس اڑے
ایک کا نام نوازندہ تھا اور اک کا بازندہ تھا
وہ دوپہر اپنی رخصت کی ایسا ویسا دھوکہ تھی
اپنے اندر اپنی لاش اٹھائے میں جھوٹا زندہ تھا
تھیں وہ گھر راتیں بھی کہانی وعدے اور پھر دن گننا
آنا تھا جانے والے کو جانے والا زندہ تھا
دستک دینے والے بھی تھے دستک سننے والے بھی
تھا آباد مہلل سارا ہر دروازہ زندہ تھا
پیلے پتوں کو سہ پہر کی وحشت پرسا دیتی تھی
آنگن میں اک اوندھے گھڑے پر بس اک کوازندہ تھا
٭٭٭
ابھی فرمان آیا ہے وہاں سے
که ہٹ جاؤں میں اپنے درمیاں سے
یہاں جو ہے تنفس ہی میں گم ہے
پرندے اڑ رہے ہیں شاخ جاں سے
دریچہ باز ہے یادوں کا اور میں
ہوا سنتا ہوں پیڑوں کی زباں سے
زمانہ تھا وہ دل کی زندگی کا
تیری فرقت کے دن لاؤں کہاں سے
تھا اب تک معرکہ باہر کا درپیش
ابھی تو گھر بھی جانا ہے یہاں سے
فلاں سے تھی غزل بہتر فلاں کی
فلاں کے زخم اچھے تھےفلاں سے
خبر کیا دوں میں شہر رفتگاں کی
کوئی لوٹے بھی شہر رفتگاں سے
یہی انجام کیا تجھ کو ہوس تھا
کوئی پوچھے تو میر داستاں سے
٭٭٭
اے کوئے یار تیرے زمانے گزر گئے
جو اپنے گھر سے آئے تھے وہ اپنے گھر گئے
اب کون زخم وزہر سے رکھےگا سلسلہ
جینے کی اب ہوس ہے ہمیں ہم تو مر گئے
اب کیا کہوں کہ سارا محلہ ہے شرمسار
میں ہوں عذاب میں کہ میرے زخم بھر گئے
ہم نے بھی زندگی کو تماشا بنا دیا
اس سے گزر گئے کبھی خود سے گزر گئے
تھا رن بھی زندگی کا عجب طرفہ ماجرا
یعنی اٹھے تو پاؤں مگر جون سر گئے
٭٭٭
اے صبح میں اب کہاں رہا ہوں
خوابوں ہی میں صرف ہو چکا ہوں
سب میرے بغیر ممئنب ہیں
میں سب کے بغیر جی رہا ہوں
کیا ہے جو بدل گئی ہے دنیا
میں بھی تو بہت بدل گیا ہوں
گو اپنے ہزار نام رکھ لوں
کچھ اور ہے جو چھپا گیا ہوں
میں اور فقط اسی کی خواہش
اخلاق میں جھوٹ بولتا ہوں
اک شخص جو مجھ سے وقت لے کر
آج آ نہ سکا تو خوش ہوا ہوں
ہر شخص سے بے نیاز ہو جا
پھر سب سے یہ کہہ که میں خدا ہوں
چرکے تو تجھے دیے ہیں میں نے
پر خون بھی میں ہی تھوکتا ہوں
رویا ہوں تو اپنے دوستوں میں
پر تجھ سے تو ہنس کے ہی ملا ہوں
اے شخص میں تیری جستجو سے
بے زار نہیں ہوں تھک گیا ہوں
کل پر ہی رکھو وفا کی باتیں
میں آج بہت بجھا ہوا ہوں
٭٭٭
اے وصل کچھ یہاں نہ ہوا کچھ نہیں ہوا
اس جسم کی میں جاں نہ ہوا کچھ نہیں ہوا
تو آج میرے گھر میں جو مماکں ہے عید ہے
تو گھر کا میزباں نہ ہوا کچھ نہیں ہوا
کھولی تو ہے زبان مگر اس کی کیا بساط
میں زہر کی دکاں نہ ہوا کچھ نہیں ہوا
کیا ایک کاروبار تھا وہ ربط جسم وجاں
کوئی بھی رایگاں نہ ہوا کچھ نہیں ہوا
کتنا جلا ہوا ہوں بس اب کیا بتاؤں میں
عالم دھواں دھواں نہ ہوا کچھ نہیں ہوا
دیکھا تھا جب کہ پہلے پہل اس نے آئنہ
اس وقت میں وہاں نہ ہوا کچھ نہیں ہوا
وہ اک جمال جلوہ فشاں ہے زمیں زمیں
میں تا ب آسماں نہ ہوا کچھ نہیں ہوا
میں نے بس اک نگاہ میں طے کر لیا تجھے
تو رنگ بیکراں نہ ہوا کچھ نہیں ہوا
گم ہو کے جان تو میری آغوش ذات میں
بے نام بے نشاں نہ ہوا کچھ نہیں ہوا
ہر کوئی درمیان ہے اے ماجرا فروش
میں اپنے درمیاں نہ ہوا کچھ نہیں ہوا
٭٭٭
اپنا خاکہ لگتا ہوں
ایک تماشا لگتا ہوں
آئینوں کو زنگ لگا
اب میں کیسا لگتا ہوں
اب میں کوئی شخص نہیں
اس کا سایہ لگتا ہوں
سارے رشتے تشنہ ہیں
کیا میں دریا لگتا ہوں
اس سے گلے مل کر خود کو
دھندلا دھندلا لگتا ہوں
میں ہر لمحہ اس گھر سے
جانے والا لگتا ہوں
کیا ہوئے وہ سب لوگ کہ میں
سونا سونا لگتا ہوں
مصلحت اس میں کیا ہے مری
ٹوٹا پھوٹا لگتا ہوں
کیا تم کو اس حال میں بھی
میں دنیا کا لگتا ہوں
کب کا روگی ہوں ویسے
شہر مسیحا لگتا ہوں
میرا تالو تر کر دو
سچ مچ پیاسا لگتا ہوں
مجھ سے کما لو کچھ پیسے
زندہ مردہ لگتا ہوں
میں نے سہے ہیں مکر اپنے
اب بیچارہ لگتا ہوں
٭٭٭
اپنے سب یار کام کر رہے ہیں
اور ہم ہیں کہ نام کر رہے ہیں
تیغ بازی کا شوق اپنی جگہ
آپ تو قتل عام کر رہے ہیں
داد وتحسین کا یہ شور ہے کیوں
ہم تو خود سے کلام کر رہے ہیں
ہم ہیں مر وف انتظام مگر
جانے کیا انتظام کر رہے ہیں
ہے وہ بیچارگی کا حال کہ ہم
ہر کسی کو سلام کر رہے ہیں
ایک قتالہ چاہےہ ہم کو
ہم یہ اعلان عام کر رہے ہیں
کیا بھلا ساغر سفال که ہم
ناف پیالے کو جام کر رہے ہیں
ہم تو آئے تھے عرض مطلب کو
اور وہ احترام کر رہے ہیں
نہ اٹھے آہ کا دھواں بھی که وہ
کوئے دل میں خرام کر رہے ہیں
اسکے ہونٹوں پہ رکھ کے ہونٹ اپنے
بات ہی ہم تمام کر رہے ہیں
ہم عجب ہیں که اسکے کوچے میں
بے سبب دھوم دھام کر رہے ہیں
٭٭٭
باہر گزار دی کبھی اندر بھی آئینگے
ہم سے یہ پوچھنا کبھی ہم گھر بھی آئینگے
خود آہنی نہیں ہو تو پوشش ہو آہنی
یوں شیشہ ہی رہو گے تو پتھر بھی آئینگے
یہ دشت بے طرف ہے گمانوں کا موج خیز
اس میں سراب کیا کہ سمندر بھی آئینگے
آشفتگی کی فلک کا آغاز ہے ابھی
آشفتگاں پلٹ کے ابھی گھر بھی آئینگے
دیکھیں تو چل کے یار طلسمات سمت دل
مرنا بھی پڑگیا تو چلو مر بھی آئینگے
یہ شخص آج کچھ نہیں پر کل یہ دیکھیو
اسکی طرف قدم ہی نہیں سر بھی آئینگے
٭٭٭
بہت دل کو کشادہ کر لیا کیا
زمانے بھر سے وعدہ کر لیا کیا
تو کیا سچ مچ جدائی مجھ سے کر لی
تو خود اپنے کو آدھا کر لیا کیا
ہنر مندی سے اپنی دل کا صفحہ
میری جاں تم نے سادہ کر لیا کیا
جو یکسر جان ہے اس کے بدن سے
کہو کچھ استفادہ کر لیا کیا
بہت کترا رہے ہو مغبچوں سے
گناہ ترک بادہ کر لیا کیا
یہاں کے لوگ کب کے جا چکے ہیں
سفر جادہ بہ جادہ کر لیا کیا
اٹھایا اک قدم تونے نہ اس تک
بہت اپنے کو ماندہ کر لیا کیا
تم اپنی کج کلاہی ہار بیٹھیں
بدن کو بےلبادا کر لیا کیا
بہت نزدیک آتی جا رہی ہو
بچھڑنے کا ارادہ کر لیا کیا
٭٭٭
بجا ارشاد فرمایا گیا ہے
که مجھ کو یاد فرمایا گیا ہے
عنایت کی ہیں نا ممکن امیدیں
کرم ایجاد فرمایا گیا ہے
ہیں اب ہم اور زد ہے حادثوں کی
ہمیں آزاد فرمایا گیا ہے
ذرا اس کی پراحوالی تو دیکھیں
جسے برباد فرمایا گیا ہے
نسیم سبزگی تھے ہم سو ہم کو
غبار افتاد فرمایا گیا ہے
مبارک فال نیک اے خسرو شہر
مجھے فرہاد فرمایا گیا ہے
سند بخشی ہے عشق بے غرض کی
بہت ہی شاد فرمایا گیا ہے
سلیقے کو لب فریاد تیرے
ادا کی داد فرمایا گیا ہے
کہاں ہم اور کہاں حسن سر بام
ہمیں بنیاد فرمایا گیا ہے
٭٭٭
بند باہر سے میری ذات کا ڈر ہے مجھ میں
میں نہیں خود میں یہ اک عام خبر ہے مجھ میں
اک عجب آمد و شد ہے که نہ ماضی ہے نہ حال
جون برپا کئی نسلوں کا سفر ہے مجھ میں
ہے مری عمر جو حیران تماشائی ہے
اور اک لمحہ ہے جو زیرو زبر ہے مجھ میں
کیا ترستا ہوں که باہر کے کسی کام آئے
وہ اک انبوہ که بس خاک بسر ہے مجھ میں
ڈوبنے والوں کے دریا مجھے پایاب ملے
اس میں اب ڈوب رہا ہوں جو بھنور ہے مجھ میں
در ودیوار تو باہر کے ہیں ڈھانے والے
چاہے رہتا نہیں میں پر میرا گھر ہے مجھ میں
میں جو پیکار میں اندر کی ہوں بےتیغ و زرہ
آخرش کون ہے جو سینہ سپر ہے مجھ میں
معرکہ گرم ہے بے طور سا کوئی ہر دم
نہ کوئی تیغ سلامت نہ سپر ہے مجھ میں
زخم ہا زخم ہوں اور کوئی نہیں خوں کا نشاں
کون ہے وہ جو مرے خون میں تر ہے مجھ میں
٭٭٭
بیقراری سی بیقراری ہے
وصل ہے اور فراق طاری ہے
جو گزاری نہ جا سکی ہم سے
ہم نے وہ زندگی گزاری ہے
نگھرے کیا ہوئے کہ لوگوں پر
اپنا سایہ بھی اب تو بھاری ہے
بن تمہارے کبھی نہیں آئی
کیا مری نیند بھی تمہاری ہے
آپ میں کیسے آؤں میں تجھ بن
سانس جو چل رہی ہے عاری ہے
اس سے کہیو که دل کی گلیوں میں
رات دن تیری انتظاری ہے
ہجر ہو یا وصال ہو کچھ ہو
ہم ہیں اور اسکی یادگاری ہے
اک مہک سمت دل سے آئی ہے
میں یہ سمجھا تری سواری ہے
حادثوں کا حساب ہے اپنا
ورنہ ہر آن سب کی باری ہے
خوش رہے تو که زندگی اپنی
عمر بھر کی امید واری ہے
٭٭٭
بے دلی کیا یونہی دن گزر جائیں گے
صرف زندہ رہے ہم تو مر جائیں گے
رقص ہے رنگ پر رنگ ہمرقص ہیں
سب بچھڑ جائیں گے سب بکھر جائیں گے
یہ خراباتیان خرد باختہ
صبح ہوتے ہی سب کام پر جائیں گے
کتنی دلکش ہو تم کتنا دل جو ہوں میں
کیا ستم ہے که ہم لوگ مر جائیں گے
ہے غنیمت کہ اسرار ہستی سے ہم
بے خبر آئے ہیں بے خبر جائیں گے
٭٭٭
چارہ گر بھی جو یوں گزر جائیں
پھر یہ بیمار کس کے گھر جائیں
آج کا غم بڑی قیامت ہے
آج سب نقش غم ابھر جائیں
ہے بہاروں کی روح سوگ نشیں
سارے اوراق گل بکھر جائیں
ناز پروردہ بے نوا مجبور
جانے والے یہ سب کدھر جائیں
کل کا دن ہائے کل کا دن اے جون
کاش اس رات ہم بھی مر جائیں
ہے شب ماتم مسیحائی
اشک دمن میں تا سحر جائیں
مرنے والے ترے جنازے میں
کیا فقط ہم بہ چشم تر جائیں
کاش دل خون ہو کے بہہ جائے
کاش آنکھیں لہو میں بھر جائیں
٭٭٭
چلو باد بہاری جا رہی ہے
پیا جی کی سواری رہی ہے
شمال جاویدان سبزجاں سے
تمنا کی عماری جا رہی ہے
فغاں اے دشمنی دار دل وجاں
میری حالت سدھاری جا رہی ہے
جو ان روزوں مرا غم ہے وہ یہ ہے
که غم سے بردباری جا رہی ہے
ہے سینے میں عجب اک حشر برپا
که دل سے بیقراری جا رہی ہے
میں پمہے ہار کر یہ سوچتا ہوں
وہ کیا شے ہے جو ہاری جا رہی ہے
دل اس کے روبرو ہے اور گم سم
کوئی عرضی گزاری جا رہی ہے
وہ سید بچہ ہو اور شیخ کے ساتھ
میاں عزت ہماری جا رہی ہے
ہے برپا ہر گلی میں شور نغمہ
مری فریاد ماری جا رہی ہے
وہ یاد اب ہو رہی ہے دل سے رخصت
میاں پیاروں کی پیاری جا رہی ہے
دریغا! تیری نزدیکی میاں جان
تری دوری پہ واری جا رہی ہے
بہت بدحال ہیں بستی ترے لوگ
تو پھر تو کیوں سنواری جا رہی ہے
تری مرہم نگاہی اے مسیحا!
خراش دل پہ واری جا رہی ہے
خرابے میں عجب تھا شور برپا
دلوں سے انتامری جا رہی ہے
٭٭٭
دید کی ایک آن میں کار دوام ہو گیا
وہ بھی تمام ہو گیا میں بھی تمام ہو گیا
اب میں ہوں اک عذاب میں اور عجب عذاب میں
جنت پر سکوت میں مجھ سے کلام ہو گیا
آہ وہ عیش راز جاں ہائے وہ عیش راز جاں
ہائے وہ عیش راز جاں شہر میں عام ہو گیا
رشتۂ رنگ جاں مرا نکہت ناز سے تری
پختہ ہوا اور اس قدر یعنی که خام ہو گیا
پوچھ نہ وصل کا حساب حال ہے اب بہت خراب
رشتۂ جسم وجاں کے بیچ جسم حرام ہو گیا
شہر کی داستاں نہ پوچھ ہے یہ عجیب داستاں
آنے سے شہریار کے شہر غلام ہو گیا
دل کی کہانیاں بنیں کوچہ بہ کوچہ کو بہ کو
سہہ کے ملال شہر کو شہر میں نام ہو گیا
جون کی تشنگی کا تھا خوب ہی ماجرا که جو
مینا بہ مینا مے بہ مے جام بہ جام ہو گیا
ناف پیالے کو ترے دیکھ لیا مغاں نے جان
سارے ہی مے کدے کا آج کام تمام ہو گیا
اسکی نگاہ اٹھ گئی اور میں اٹھ کے رہ گیا
میری نگاہ جھک گئی اور سلام ہو گیا
٭٭٭
دل کا دیار خواب میں دور تلک گزر رہا
پاؤں نہیں تھے درمیاں آج بڑا سفر رہا
ہو نہ سکا ہمیں کبھی آنا خیال تک نصیب
نقش کسی خیال کا لوح خیال پر رہا
نقش گروں سے چاہےح نقش ونگار کا حساب
رنگ کی بات مت کرو رنگ بہت بکھر رہا
جانے گماں کی وہ گلی ایسی جگہ ہے کون سی
دیکھ رہے ہو تم کہ میں پھر وہیں جا کے مر رہا
دل مرے دل مجھے بھی تم اپنے خواص میں رکھو
یاراں تمہارے باب میں میں ہی نہ مرتب رہا
شہر فراق یار سے آئی ہے اک خبر مجھے
کوچۂ یاد یار سے کوئی نہیں ابھر رہا
٭٭٭
دل کی ہر بات دھیان میں گزری
ساری ہستی گمان میں گزری
ازل داستاں سے اس دم تک
جو بھی گزری اک آن میں گزری
جسم مدت تری عقوبت کی
ایک اک لمحہ جان میں گزری
زندگی کا تھا اپنا عیش مگر
سب کی سب امتحان میں گزری
ہائے وہ ناوک گزارش رنگ
جسکی جبشن کمان میں گزری
وہ گدائی گلی عجب تھی کہ واں
اپنی اک آن بان میں گزری
یوں تو ہم دم بہ دم زمیں پہ رہے
عمر سب آسمان میں گزری
جو تھی دل طائروں کی مہلت بود
تا زمیں وہ اڑان میں گزری
بود تو اک تکان ہے سو خدا
تیری بھی کیا تکان میں گزری
٭٭٭
دل کو دنیا کا ہے سفر درپیش
اور چاروں طرف ہے گھر درپیش
ہے یہ عالم عجیب اور یہاں
ماجرا ہے عجیب تر درپیش
دو جہاں سے گزر گیا پھر بھی
میں رہا خود کو عمر بھر درپیش
اب میں کوئے عبث شتاب چلوں
کئی اک کام ہیں ادھر درپیش
اسکے دیدار کی امید کہاں
جب کہ ہے دید کو نظر درپیش
اب مری جان بچ گئی یعنی
ایک قاتل کی ہے سپر درپیش
کس طرح کوچ پر کمر باندھوں
ایک رہزن کی ہے کمر درپیش
خلوت ناز اور آئینہ
خودنگر کو ہے خودنگر درپیش
٭٭٭
دل نے کیا ہے قصد سفر گھر سمیٹ لو
جانا ہے اس دیار سے منظر سمیٹ لو
آزادگی میں شرط بھی ہے احتیاط کی
پرواز کا ہے ازن مگر پر سمیٹ لو
حملہ ہے چار سو در ودیوار شہر کا
سب جنگلوں کو شہر کے اندر سمیٹ لو
بکھرا ہوا ہوں صرصر شام فراق سے
اب آ بھی جاؤ اور مجھے آ کر سمیٹ لو
رکھتا نہیں ہے کوئی نگفتہ کا یاں حساب
جو کچھ ہے دل میں اسکو لبوں پر سمیٹ لو
٭٭٭
دل نے وفا کے نام پر کار وفا نہیں کیا
خود کو ہلاک کر لیا خود کو فدا نہیں کیا
خیرہ سران شوق کا کوئی نہیں ہے جنبہ دار
شہر میں اس گروہ نے کس کو خفا نہیں کیا
جو بھی ہو تم پہ معترض اس کو یہی جواب دو
آپ بہت شریف ہیں آپنے کیا نہیں کیا
نسبت علم ہے بہت حاکم وقت کو عزیز
اسنے تو کار جہل بھی بے علما نہیں کیا
جس کو بھی شیخ وشاہ نے حکم خدا دیا قرار
ہم نے نہیں کیا وہ کام ہاں بہ خدا نہیں کیا
٭٭٭
دل برباد کو آباد کیا ہے میں نے
آج مدت میں تمہیں یاد کیا ہے میں نے
ذوق پرواز تب و تاب عطا فرما کر
صید کو لائق صیاد کیا ہے میں نے
تلخی دور گزشہل کا تصور کر لے
دل کو پھر مائل فریاد کیا ہے میں نے
آج اس سوز تصور کی خوشی میں اے دوست
طائر صبر کو آزاد کیا ہے میں نے
ہوکے اسرار غم تازہ سے مجبور فغاں
چشم کو اشک تر امداد کیا ہے میں نے
تم جسے کہتے تھے ہنگامہ پسندی میری
پھر وہی طرز غم ایجاد کیا ہے میں نے
پھر گوارا ہے مجھے عشق کی ہر اک مشکل
تازہ پھر شیوۂ فرہاد کیا ہے میں نے
٭٭٭
ایک ہی مژدہ صبح لاتی ہے
دھوپ آنگن میں پھیل جاتی ہے
رنگ موسم ہے اور بعد صبا
شہر کوچوں میں خاک اڑاتی ہے
فرش پر کاغذ اڑتے پھرتے ہیں
میز پر گرد جمتی جاتی ہے
سوچتا ہوں کہ اسکی یاد آخر
اب کسے رات بھر جگاتی ہے
میں بھی ازن نواگری چاہوں
بے دلی بھی تو لب ہلاتی ہے
سو گئے پیڑ جاگ اٹھی خوشبو
زندگی خواب کیوں دکھاتی ہے
اس سراپا وفا کی فرقت میں
خواہش غیر کیوں ستاتی ہے
آپ اپنے سے ہم سخن رہنا
ہم نشیں سانس پھول جاتی ہے
کیا ستم ہے کہ اب تیری صورت
غور کرنے پہ یاد آتی ہے
کون اس گھر کی دیکھ بھال کرے
روز اک چیز ٹوٹ جاتی ہے
٭٭٭
اک ہنر ہے جو کر گیا ہوں میں
سب کے دل سے اتر گیا ہوں میں
کیسے اپنی ہنسی کو ضبط کروں
سن رہا ہوں کہ گھر گیا ہوں میں
کیا بتاؤں کہ مر نہیں پاتا
جیتے جی جب سے مر گیا ہوں میں
اب ہے بس اپنا سامنا درپیش
ہر کسی سے گزر گیا ہوں میں
وہی ناز وادا وہی غمزے
سر بہ سر آپ پر گیا ہوں میں
عجب الزام ہوں زمانے کا
که یہاں سب کے سر گیا ہوں میں
کبھی خود تک پہنچ نہیں پایا
جب کہ واں عمر بھر گیا ہوں میں
تم سے جاناں ملا ہوں جس دن سے
بے طرح خود سے ڈر گیا ہوں میں
کو ئےجاناں میں سوگ برپا ہے
که اچانک سدھر گیا ہوں میں
٭٭٭
ایک سایہ میرا مسیحا تھا
کون جانے وہ کون تھا کیا تھا
وہ فقط صحن تک ہی آتی تھی
میں بھی حجرے سے کام نکلتا تھا
تجھ کو بھولا نہیں وہ شخص کہ جو
تیری بانہوں میں بھی اکیلا تھا
جان لیوا تھیں خواہشیں ورنہ
وصل سے انتظار اچھا تھا
بات تو دل شکن ہے پر یارو
عقل سچی تھی عشق جھوٹا تھا
اپنے معیار تک نہ پہنچا میں
مجھ کو خود پر بڑا بھروسہ تھا
جسم کی صاف گوئی کے با وصف
روح نے کتنا جھوٹ بولا تھا
٭٭٭
اک زخم بھی یاران بسمل نہیں آنے کا
مقتل میں پڑے رہیے قاتل نہیں آنے کا
اب کوچ کرو یارو صحرا سے کہ سنتے ہیں
صحرا میں اب آئندہ محمل نہیں آنے کا
واعظ کو خرابے میں اک دعوت حق دی تھی
میں جان رہا تھا وہ جاہل نہیں آنے کا
بنیاد جہاں پہلے جو تھی وہی اب بھی ہے
یوں حشر تو یاران یکدل نہیں آنے کا
بت ہے که خدا ہے وہ مانا ہے نہ مانوں گا
اس شوخ سے جب تک میں خود مل نہیں آنے کا
گر دل کی یہ محفل ہے خرچہ بھی ہو پھر دل کا
باہر سے تو سامان محفل نہیں آنے کا
وہ ناف پیالے سے سرمست کرے ورنہ
ہوکے میں کبھی اسکا قائل نہیں آنے کا
٭٭٭
گاہے گاہے بس اب یہی ہو کیا
تم سے مل کر بہت خوشی ہو کیا
مل رہی ہو بڑے تپاک کے ساتھ
مجھ کو یکسر بھلا چکی ہو کیا
یاد ہیں اب بھی اپنے خواب تمہیں
مجھ سے مل کر اداس بھی ہو کیا
بس مجھے یونہی اک خیال آیا
سوچتی ہو تو سوچتی ہو کیا
اب میری کوئی زندگی ہی نہیں
اب بھی تم میری زندگی ہو کیا
کیا کہا عشق جاویدانی ہے !
آخری بار مل رہی ہو کیا
ہاں فضا یاں کی سوئی سوئی سی ہے
تو بہت تیز روشنی ہو کیا ؟
میرے سب طنز بے اثر ہی رہے
تم بہت دور جا چکی ہو کیا
دل میں اب سوز انتظار نہیں
شام امید بجھ گئی ہو کیا
اس سمندر پہ تشنہ کام ہوں میں
بان تم اب بھی بہ رہی ہو کیا
٭٭٭
گنوائی کس کی تمنا میں زندگی میں نے
وہ کون ہے جسے دیکھا نہیں کبھی میں نے
ترا خیال تو ہے پر ترا وجود نہیں
ترے لئے تو یہ محفل سجائی تھی میں نے
ترے عدم کو گوارا نہ تھا وجود میرا
سو اپنی بیخ کنی میں کمی نہ کی میں نے
ہیں میری ذات سے منسوب صد فسانۂ عشق
اور ایک سطر بھی اب تک نہیں لکھی میں نے
خود اپنے عشوہ و انداز کا شہید ہوں میں
خود اپنی ذات سے برتی ہے بے رخی میں نے
مرے حریف مری یکہ تازیوں پہ نثار
تمام عمرحلیفوں سے جنگ کی میں نے
دوا سے فائدہ مقصود تھا ہی کب که فقط
دوا کے شوق میں صحت تباہ کی میں نے
زبانہ زن تھا جگر سوز تشنگی کا عذاب
سو جوف سینہ میں دوزخ انڈیل لی میں نے
سرور مے پہ بھی غالب رہا شعور میرا
تمام عمر جلایا ہے اپنا جی میں نے
علاج یہ ہے که مجبور کر دیا جاؤں
وگرنہ یوں تو کسی کی نہیں سنی میں نے
رہا میں شاہد تنہا نشین مسند غم
اور اپنے کرب انا سے غرض رکھی میں نے
٭٭٭
گھر سے ہم گھر تلک گئے ہو نگے
اپنے ہی آپ تک گئے ہو نگے
ہم جو اب آدمی ہیں پہلے کبھی
جام ہو ں گے چھلک گئے ہو نگے
وہ بھی اب ہم سے تھک گیا ہوگا
ہم بھی اب اس سے تھک گئے ہو نگے
شب جو ہم سے ہوا معاف کرو
نہیں پی تھی بہک گئے ہو نگے
کتنے ہی لوگ حرص شہرت میں
دار پر خود لٹک گئے ہو نگے
شکر ہے اس نگاہ کم کا میاں
پہلے ہی ہم کھٹک گئے ہو نگے
ہم تو اپنی تلاش میں اکثر
از سماتاسمک گئے ہو نگے
اسکا لشکر جہاں تہاں یعنی
ہم بھی بس بے کمک گئے ہو نگے
جون اللہ اور یہ عالم
بیچ میں ہم اٹک گئے ہو نگے
٭٭٭
حالت حال کے سبب حالت حال ہی گئی
شوق میں کچھ نہیں گیا شوق کی زندگی گئی
تیرا فراق جان جاں عیش تھا کیا میرے لئے
یعنی ترے فراق میں خوب شراب پی گئی
تیرے وصال کے لئے اپنے کمال کے لئے
حالت دل کہ تھی خراب اور خراب کی گئی
ایک ہی حادثہ تو ہے اور وہ یہ که آج تک
بات نہیں کہی گئی بات نہیں سنی گئی
بعد میں تیرے جان جاں دل میں رہا عجب سماں
یاد رہی تری یہاں پھر تری یاد بھی گئی
٭٭٭
ہے بکھرنے کو یہ محفل رنگ وبو تم کہاں جاؤ گے ہم کہاں جائیں گے
ہر طرف ہو رہی ہے یہی گفتگو تم کہاں جاؤ گے ہم کہاں جائیں گے
ہر متاع نفس نذر آہنگ کی ہم کو یاراں ہوس تھی بہت رنگ کی
گل زمیں سے ابلنے کو ہے اب لہو تم کہاں جاؤ گے ہم کہاں جا ئینگے
اول شب کا مہتاب بھی جا چکا صحن مے خانہ سے اب افق میں کہیں
آخر شب ہے خالی ہیں جام وسبو تم کہاں جاؤ گے ہم کہاں جا ئینگے
کوئی حاصل نہ تھا آرزو کا مگر سانحہ یہ ہے اب آرزو بھی نہیں
وقت کی اس مسافت میں بے آرزو تم کہاں جاؤ گے ہم کہاں جا ئینگے
کس قدر دور سے لوٹ کر آئے ہیں یوں کہو عمر برباد کر آئے ہیں
تھا سراب اپنا سرمایۂ جستجو تم کہاں جاؤ گے ہم کہاں جا ئینگے
اک جنوں تھا کہ آباد ہو شہرجاں اور آباد جب شہر جاں ہو گیا
ہیں یہ سر گوشیاں در بہ در کو بہ کو تم کہاں جاؤ گے ہم کہاں جا ئینگے
دشت میں رقص شوق بہار اب کہاں بعد پیمائی دیوانہ وار اب کہاں
بس گزر نے کو ہے موسم ہاؤ -ہو تم کہاں جاؤ گے ہم کہاں جا ئینگے
ہم ہیں رسوا کن دلی ولکھنؤ اپنی کیا زندگی اپنی کیا آبرو
میر دہلی سے نکلے گئے لکھنؤ تم کہاں جاؤ گے ہم کہاں جا ئینگے
٭٭٭
ہے فصلیں اٹھا رہا مجھ میں
جانے یہ کون آ رہا مجھ میں
جون مجھ کو جلا وطن کرکے
وہ میرے بن بھلا رہا مجھ میں
مجھ سے اس کو رہی تلاش امید
سو بہت دن چھپا رہا مجھ میں
تھا قیامت سکوت کا آشوب
حشر سا اک بپا رہا مجھ میں
پس پردہ کوئی نہ تھا پھر بھی
ایک پردہ کھنچا رہا مجھ میں
مجھ میں آ کے گرا تھا اک زخمی
جانے کب تک پڑا رہا مجھ میں
اتنا خالی تھا اندروں میرا
کچھ دنوں تو خدا رہا مجھ میں
٭٭٭
ہمارے زخم تمنا پرانے ہو گئے ہیں
که اس گلی میں گئے اب زمانے ہو گئے ہیں
تم اپنے چاہنے والوں کی بات مت سنیو
تمہارے چاہنے والے دوانے ہو گئے ہیں
وہ زلف دھوپ میں فرقت کی آئی ہے جب یاد
تو بادل آئے ہیں اور شامیانے ہو گئے ہیں
جو اپنے طور سے ہم نے کبھی گذارے تھے
وہ صبح و شام تو جیسے فسانے ہو گئے ہیں
عجب مہک تھی مرے گل ترے شبستاں کی
سو بلبلوں کے وہاں آشیانے ہو گئے ہیں
ہمارے بعد جو آئیں انہیں مبارک ہو
جہاں تھے کنج وہاں کارخانے ہو گئے ہیں
٭٭٭
ہر دھڑکن ہی جانی تھی ہر خاموشی طوفانی تھی
پھر بھی مبت صرف مسلسل ملنے کی آسانی تھی
جس دن اس سے بات ہوئی تھی اس دن بھی بے کیف تھا میں
جس دن اس کا خط آیا ہے اس دن بھی ویرانی تھی
جب اس نے مجھ سے یہ کہا تھا عشق رفاقت ہی تو نہیں
تب میں نے ہر شخص کی صورت مشکل سے پہچانی تھی
جس دن وہ ملنے آئی ہے اس دن کی روداد یہ ہے
اسکا بلاؤز نارنجی تھا اسکی ساڑی دھانی تھی
الجھن سی ہونے لگتی تھی مجھ کو اکثر اور وہ یوں
میرا مزاج عشق تھا شہری اسکی وفا دہقانی تھی
اب تو اسکے بارے میں تم جو چاہو وہ کہہ ڈالو
وہ انگڑائی میرے کمرے تک تو بڑی روحانی تھی
نام پہ ہم قربان تھے اس کے لیکن پھر یہ طور ہوا
اسکو دیکھ کے رک جانا بھی سب سے بڑی قربانی تھی
مجھ سے بچھڑ کر بھی وہ لڑکی کتنی خوش خوش رہتی ہے
اس لڑکی نے مجھ سے بچھڑ کر مر جانے کی ٹھانی تھی
عشق کی حالت کچھ بھی نہیں تھی بات بڑھانے کا فن تھا
لمحے لا فانی ٹھہرے تھے قطروں کی طغیانی تھی
جس کو خود میں نے بھی اپنی روح کا عرفاں سمجھا تھا
وہ تو شاید میرے پیاسے ہونٹوں کی شیطانی تھی
تھا دربار کلاں بھی اس کا نوبت خانہ اس کا تھا
تھی میرے دل کی جو رانی امروہے کی رانی تھی
٭٭٭
ہم آندھیوں کے بن میں کسی کارواں کے تھے
جانے کہاں سے آئے ہیں جانے کہاں کے تھے
اے جان داستاں تجھے آیا کبھی خیال
وہ لوگ کیا ہوئے جو تری داستاں کی تھے
ہم تیرے آستاں پہ یہ کہنے کو آئے ہیں
وہ خاک ہو گئے جو ترے آستاں کے تھے
مل کر تپاک سے نہ ہمیں کیجیے اداس
خاطر نہ کیجیے کبھی ہم بھی یہاں کے تھے
کیا پوچھتے ہو نام و نشان مسافراں
ہندوستاں میں آئے ہیں ہندوستان کے تھے
اب خاک اڑ رہی ہے یہاں انتظار کی
اے دل یہ بام ودر کسی جان جہاں کے تھے
ہم کس کو دیں بھلا در ودیوار کا حساب
یہ ہم جو ہیں زمیں کے نہ تھے آسماں کے تھے
ہم سے چھنا ہے ناف پیالہ تیرا میاں
گویا ازل سے ہم صف لب تشنگاں کے تھے
ہم کو حقیقتوں نے کیا ہے خراب وخوار
ہم خواب خواب اور گمان گماں کے تھے
صد یاد یاد جون وہ ہنگام دل که جب
ہم ایک گام کے نہ تھے پر ہفت خواں کے تھے
وہ رشتہ ہ ہائے ذات جو برباد ہو گئے
میرے گماں کے تھے کہ تمہارے گماں کے تھے
٭٭٭
ہم جی رہے ہیں کوئی بہانہ کیے بغیر
اسکے بغیر اس کی تمنا کیا بغیر
انبار اس کا پردۂ حرمت بنا میاں
دیوار تک نہیں گری پردہ کیے بغیر
یاراں وہ جو ہے میرا مسیحائےجان ودل
بےحد عزیز ہے مجھے اچھا کیے بغیر
میں بستر خیال پہ لیٹا ہوں اس کے پاس
صبح ازل سے کوئی تقاضہ کیے بغیر
اسکا ہے جو بھی کچھ ہے مرا اور میں مگر
وہ مجھ کو چاہے کوئی سودا کیے بغیر
یہ زندگی جو ہے اسے معنیٰ بھی چاہے
وعدہ ہمیں قبول ہے ایفا کیے بغیر
اے قاتلوں کے شہر بس اتنی ہی عرض ہے
میں ہوں نہ قتل کوئی تماشا کیے بغیر
مرشد کے جھوٹ کی تو سزا بے حساب ہے
تم چھوڑیو نہ شہر کو صحرا کیے بغیر
یاراں خوشا یہ روز او شب دل کہ اب ہمیں
سب کچھ ہے خوش گوار گوارا کیے بغیر
گریہ کناں کی فرد میں اپنا نہیں ہے نام
ہم گریہ کن ازل کے ہیں گریہ کیے بغیر
آخر ہیں کون لوگ جو بخشے ہی جائیں گے
تاریخ کے حرام سے توبہ کیے بغیر
وہ سنی بچہ کون تھا جس کی جفا نے جون
شیعہ بنا دیا ہمیں شیعہ کیے بغیر
اب تم کبھی نہ آؤ گے یعنی کبھی کبھی
رخصت کرو مجھے کوئی وعدہ کیے بغیر
٭٭٭
ہم تو جیسے وہاں کے تھے ہی نہیں
بے اماں تھے اماں کے تھے ہی نہیں
ہم که ہیں تیری داستاں یکسر
ہم تری داستاں کے تھے ہی نہیں
ان کو آندھی میں ہی بکھرنا تھا
بال وپر آشیاں کے تھے ہی نہیں
اب ہمارا مکان کس کا ہے
ہم تو اپنے مکاں کے تھے ہی نہیں
ہو تیری خاک آستاں پہ سلام
ہم ترے آستاں کے تھے ہی نہیں
ہم نے رنجش میں یہ نہیں سوچا
کچھ سخن تو زباں کے تھے ہی نہیں
دل نے ڈالا تھا درمیاں جن کو
لوگ وہ درمیاں کے تھے ہی نہیں
اس گلی نے یہ سن کے صبر کیا
جانے والے یہاں کے تھے ہی نہیں
٭٭٭
جانے کہاں گیا ہے ، وہ جو ابھی یہاں تھا
وہ جو ابھی یہاں تھا وہ کون تھا کہاں تھا
تا لمحۂ گزشتہ یہ جسم اور سائے
زندہ تھے رائااں میں جو کچھ تھا رائگاں تھا
اب جس کی دید کا ہے سودا ہمارے سر میں
وہ اپنی ہی نظر میں اپنا ہی اک سماں تھا
کیا کیا نہ خون تھوکا میں اس گلی میں یاروں
سچ جاننا وہاں تو جو فن تھا رائگاں تھا
یہ وار کر گیا ہے پہلو سے کون مجھ پر
تھا میں ہی دائیں بائیں اور میں ہی درمیاں تھا
اس شہر کی حفاظت کرنی تھی ہم کو جس میں
آندھی کی تھیں فصیلیں اور گرد کا مکاں تھا
تھی اک عجب فضا سی امکان خال وخد کی
تھا اک عجب مصور اور وہ میرا گماں تھا
عمریں گزر گئیں تھیں ہم کو یقیں سے بچھڑے
اور لمحہ اک گماں کا صدیوں میں بے اماں تھا
جب ڈوبتا چلا میں تاریکیوں کی تہ میں
تہ میں تھا اک دریچہ اور اس میں آسماں تھا
٭٭٭
جاؤ قرار بےدلاں شام بخیر شب بخیر
صحن ہوا دھواں دھواں شام بخیر شب بخیر
شام وصال ہے قریب صبح کمال ہے قریب
پھر نہ رہیں گے سرگراں شام بخیر شب بخیر
وجد کرے گی زندگی جسم بہ جسم جاں بہ جاں
جسم بہ جسم جاں بہ جاں شام بخیر شب بخیر
اے میرے شوق کی امنگ میرے شباب کی ترنگ
تجھ پہ شفق کا سائباں شام بخیر شب بخیر
تو میری شاعری میں ہے رنگ طرازو گل فشاں
تیری بہار بے خزاں شام بخیر شب بخیر
تیرا خیال خواب خواب خلوت جاں کی آب وتاب
جسم جمیل و نوجواں شام بخیر شب بخیر
ہے میرا نام ارجمند تیرا حصار سر بلند
بانو ئے شہر جسم و جاں شام بخیر شب بخیر
دید سے جان دید تک دل سے رخ امید تک
کوئی نہیں ہے درمیاں شام بخیر شب بخیر
ہو گئی دیر جاؤ تم مجھ کو گلے لگاؤ تم
تو میری جاں ہے میری جاں شام بخیر شب بخیر
شام بخیر شب بخیر موج شمیم پیرہن
تیری مہک رہے گی یاں شام بخیر شب بخیر
٭٭٭
جی ہی جی میں وہ جل رہی ہوگی
چاندنی میں ٹہل رہی ہوگی
چاند نے تان لی ہے چادر ابر
اب وہ کپڑے بدل رہی ہوگی
سو گئی ہوگی وہ شفق اندام
سبزقندیل جل رہی ہوگی
سرخ اور سبز وادیوں کی طرف
وہ میرے ساتھ چل رہی ہوگی
چڑھتے چڑھتے کسی پہاڑی پر
اب وہ کروٹ بدل رہی ہوگی
پیڑ کی چھال سے رگڑ کھا کر
وہ تنے سے پھسل رہی ہوگی
نیل گوں جھیل ناف تک پہنے
صندلیں جسم مل رہی ہوگی
ہو کے وہ خواب عیش سے بیدار
کتنی ہی دیر شل رہی ہوگی
٭٭٭
جو گزر دشمن ہے اس کا رہگزر رکھا ہے نام
ذات سے اپنی نہ ہلنے کا سفر رکھا ہے نام
پڑ گیا ہے اک بھنور اسکو سمجھ بیٹھے ہیں گھر
لہر اٹھی ہے لہر کا دیوار ودر رکھا ہے نام
نام جس کا بھی نکل جائے اسی پر ہے مدار
اسکا ہونا یا نہ ہونا کیا، مگر رکھا ہے نام
ہم یہاں خود آئے ہیں لایا نہیں کوئی ہمیں
اور خدا کا ہم نے اپنے نام پر رکھا ہے نام
چاک چاکی دیکھ کر پیراہن پہنائی کی
میں نے اپنے ہر نفس کا بخیہ گر رکھا ہے نام
میرا سینہ کوئی چھلنی بھی اگر کر دے تو کیا
میں نے تو اب اپنے سینے کا سپر رکھا ہے نام
دن ہوئے پر تو کہیں ہونا کسی بھی شکل میں
جاگ کر خوابوں نے تیرا رات بھر رکھا ہے نام
٭٭٭
جز گماں اور تھا ہی کیا میرا
فقط اک میرا نام تھا میرا
نکہت پیرہن سے اس گل کی
سلسلہ بے صبا رہا میرا
مجھ کو خواہش ہی ڈھونڈنے کی نہ تھی
مجھ میں کھویا رہا خدا میرا
تھوک دے خون جان لے وہ اگر
عالم ترک مدعا میرا
جب تجھے میری چاہ تھی جاناں
بس وہی وقت تھا کڑا میرا
کوئی مجھ تک پہنچ نہیں پاتا
اتنا آسان ہے پتہ میرا
آ چکا پیش وہ مروت سے
آ چلوں کام ہو چکا میرا
آج میں خود سے ہو گیا مایوس
آج اک یار مر گیا میرا
٭٭٭


1 تبصرہ:

erum کہا...

جون ایلییا کی شاعری سب سے جدا تھی بہت اچھی معلومات آپ نے شئیر کی ہے آپ کا انتخاب بے حد عمدہ ہے جون ایلیا کی آفیشل سائیٹ بھی آچکی ہے جس پر انکی تمام کتب اور شاعری موجود ہے انکی سائیٹ کا ایڈریس یہ ہے
jaunelia.com
یہاں بھی کافی نئی اور اچھی شاعری پڑھنے کو مل جاتی ہے ....

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *