یہ تقریرہیرالڈ پنٹر کی ہے، جو اس نے نوبل انعام ملنے کے موقع پر کی تھی، اس میں اس نے امریکہ کی اقتدار پسند پالیسیوں کو جیسے بے نقاب کیا تھا، وہ خاصے کی بات تھی، اس تقریر کا ترجمہ زکریا شاذ صاحب نے کیا تھا، جو کہ سمبل کے دوسرے شمارے میں شائع ہوا تھا۔ ترجمے کی روانی زبردست ہے، کہیں بھی ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ ہم ترجمہ پڑھ رہے ہیں، اس پر اصل کا گمان ہوتا ہے، بہرحال ہیرالڈ پنٹر کی اس پوری تقریر میں مجھے اس کی دوسری باتوں کے ساتھ یہ بات بھی بہت پسند آئی کہ ''ایک ادیب کی زندگی انتہائی غیر محفوظ ہوتی ہے۔ وہ بغیر کسی لگی لپٹی کے کام کرتا ہے۔ ہم اس بات کا رونا نہیں روتے۔ادیب اپنا راستہ خود چنتا ہے اور اسی سے جڑا رہتا ہے۔لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ہم لوگ ہر طرح کی ہوائوں کی زد میں رہتے ہیں، ان میں سے کچھ بہت ہی برفیلی ہ وتی ہیں۔آپ کو اپنے ہی سہارے اپنے ہی زور پر جینا ہوتا ہے۔آپ کو کہیں پناہ نہیں ملتی۔بچنے کی کوئی صورت ہی نہیں جب تک کہ آپ جھوٹ نہ بولیں۔اگر اپنی حفاظت کا بندوبست کرنا چاہتے ہیں تو پھر سیاست داں بن جائیے!'' کتنی سچی اور کھری بات ہے۔ادب کو ہمارے یہاں لوگوں نے نام و نموداور شہرت و عزت کا دھندہ بنا رکھا ہے، جبکہ یہ جینے کی بات ہے، جو اسے جی نہیں سکتا، سچ نہیں لکھ سکتا، وہ چاہے ساتویں آسمان پر کیوں نہ بیٹھا ہو، ادیب نہیں ہے، سیاست داں ہے۔خیر، اس تحریر میں زکریا شاذ نے بہت عمدہ طور پر ہیرالڈ پنٹر کا تفصیلی تعارف بھی پیش کیا ہے، آئیے، اسے پڑھتے ہیں، پھر اس کی تقریر کالطف اٹھاتے ہیں، ہیرالڈ کا انتقال 2008 میں ہوگیا تھا۔ یہ ترجمہ چونکہ اس کی زندگی میں شائع ہوا، یعنی کہ 2006 میں اس لیے یہاں اس بات کی وضاحت ضروری تھی۔شکریہ
ہیرلڈ پنٹر برطانوی نژاد ادیب ہے۔ و ہ بنیادی طور پر ایک ڈراما نویس ہے جو لندن کے ایک علاقے ہیکنے Hackney)) میں ۱۰ اکتوبر ۹۳۰ ۱ میں پیدا ہوا۔ وہ ایک یہودی ملبوس ساز کا بیٹا ہے۔ جو ایک سخت گیر آدمی تھا۔ اسی لیے وہ اپنی ماں کے زیادہ قریب رہا۔ دورانِ پرورش پنٹر،صہونیت سے نفرت کے نظریے (Antisemitism) سے متعارف ہوا۔جس کی اس کے ڈراما نویس بننے میں بہت اہمیت ہے۔ اسی وجہ سے دوسری عالمی جنگ کے شروع ہوتے ہی اسے ۹ برس کی عمر میں اکیلے لندن چھوڑنا پڑا۔ او ر ساحلِ سمندر پر واقع ایک ویران قلعے میں دیگر ۲۶ لڑکوں کے ساتھ رہ کر اسے ماں باپ کی جدائی سہنی پڑی۔ پھر ۱۲ برس کا تھا جب لندن واپس آیا۔ اس کا کہنا ہے کہ دوسری جنگِ عظیم کے بموں نے کبھی نہ ختم ہونے والے اثرات اس کی ذات پر مرتب کیے ہیں۔ لندن واپس آکر اس نے ہیکنے گرامر سکول میں تعلیم حاصل کی، جہاں اسے جوز ف بریرلے Joseph Brearly) ) کی ڈائریکشن میں کیے جانے والے میکبتھ ((Macbethاور رومیو Romeo)) جیسے ڈرامے دوسرے اور کرداروں کے ساتھ کھیلنے کا موقع ملا۔ اس تجربے نے اسے مستقبل کے لیے اداکاری کے شعبے کو منتخب کرنے کی ترغیب دی۔ چناں چہ پنٹر ڈیوڈ بیرن David Baron)) کے نام سے بہ طورِ اداکار اسٹیج پر کام کرتا رہا۔اسکول کے زمانے میں وہ انگریزی ادب اور با لخصوص شاعری میں زیادہ دل چسپی رکھتا تھا۔ طالب علمی میں ہی اس نے مکمل طور پر فرانز کافکا کو پڑھ لیا تھا۔ مگر دو ناخوش گوار سال اس کی زندگی میں ایسے گزرے کہ آخر اسے سکول چھوڑنا پڑا۔۔۔۔ اس پر دو مقدمے چلے۔ پہلا مقدمہ اس وقت قائم ہوا جب اس نے فوجی ملازمت سے انکار کیا۔ دوسرا مقدمہ اس کے ایک ایمان دار مذہبی معترض (conscientious objectorٍ) ظاہر ہونے کی وجہ سے اس پر چلا۔ مجسٹریٹ نے اسے جرمانے کی سزا سنا دی۔ جرمانے کی ادائی کے طور پر وہ اپنا ٹوتھ برش لے کر عدالت میں حاضر ہوا تو مجسٹریٹ کو اس پر ترس آ گیا۔مجسٹرٹ نے جرمانے کی رقم کم کر کے صرف ۳۰ پونڈ کر دی جس کی ادائیگی اس کے باپ نے کی۔ اس کا کہنا تھا کہ اگر وہ ایسا نہ کرتا تو شاید اسے جیل بھی جانا پڑتا۔ پنٹر برطانیہ کی وزیرِ اعظم مارگریٹ تھیچر کا ایک منہ زبانی نکتہ چین Vocal critic)) بھی رہا۔ حتیٰ کہ اس کی طرف سے جب اسے سر کے خطاب Knighthood)) کی با ضابطہ پیش کش کی گئی تو پنٹر نے اس پیش کش کو ٹھکرا دیا۔
۱۹۴۸ میں اسے رائل اکیڈمی آف ڈرامیٹک آرٹ میں پذیرائی ملی۔ ۱۹۵۰ میں اس نے اپنی نظموں کا پہلا مجموعہ شائع کیا۔ اس وقت پنٹر،ہیرلڈ پنٹا Hrold Pinta) (کے نام سے چھپتا تھا۔ سینٹرل سکول آف سپیچ اینڈ ڈرامامیں ۱۹۵۱ میں اسے مقبولیت حاصل ہوئی۔ اسی سال Anew McMaster's famous Irish کمپنی جو کہ شیکسپئیر کے ڈرامائے جانے والے کھیلوں کی وجہ سے ممتاز و نمایاں تھی میں اس نے معتبر مقام پا لیا۔ ڈیوڈ بیرنDavid Baron)) کے اسٹیج کا نام استعمال کرتے ہوئے اس نے ۱۹۵۴ اور ۱۹۵۷ کے درمیان دورے کیے۔ ویون مرچینٹ(Vivien Merchant) نامی اداکارہ سے ۱۹۵۶ اور ۱۹۸۰ کے وسط میں اور پھر ۱۹۸۰ میں ایک ادیبہ اور تاریخ دان لیڈی اینٹونیا فریسر (Lady Antonia Fraserٍ) سے اس کی شادی ہو ئی۔
۱۹۵۷ میں ( the room) نام کے ڈرامے سے اس نے اپنی ڈراما نویسی کا آغاز کیا جو برسٹل Bristol میں اسٹیج کیا گیا۔(The Birthday Party......1957 ) اس کے دوسرے ڈرامے تھے۔پہلے پہل یہ ڈرامے مضحکہ خیز ناکامی سے دو چار ہوئے مگر بعد میں یہ اور (1957۔۔۔The Dumb Waiter)اس کے تمام ڈراموں میں سب سے زیادہ کھیلے جانے والے ڈرامے ثابت ہوئے۔ (The Caretaker....1957) کے ساتھ ساتھ (The Homecoming.....1964) اور دوسرے ڈرامے اس کے خاص الخاص ڈراموں کے طور پر سامنے آئے۔
۲۰ ویں صدی کے نصف آخر سے ہیرلڈ کو برٹش ڈرامے میں عام طور پر اولین نمائندے کی حیثیت سے دیکھا جاتا ہے۔اس کا نام اس کے ڈراموں کی ایسی پہچان بنا کہ ڈرامے کے جدید ادبِ عالیہ میں اس کو ایک منفرد مقام مل گیا۔ڈرامے کی مخصوص فضا اور ماحول کو اس نے اس انفرا دیت سے اجاگر کیا کہ اس کے ڈرامے اس کے نام کی مناسبت سے "Pinteresque" (پینٹریت) جیسی اصطلاح کے موجب بنے۔ پنٹر نے تھیٹر کے بنیادی لوازمات بحال کیے۔ یعنی حصار بند جگہ اور غیر متوقع مکالمے،جہاں لوگ ایک دوسرے کے رحم و کرم پر ہوں، مختصر پلاٹ کے ساتھ ڈراما قوت آزما جدوجہد اور مکالموں کی آنکھ مچولی سے ظہور پذیر ہو۔ پنٹر کے ڈرامے کو پہلے پہل مضحک تھیٹر کے تغیر کا پیش خیمہ خیال کیا گیا۔لیکن بعد ازاں اس کا ڈراما نہایت مناسب انداز میں مخصوص و مخدوش فضا کی کامیڈی (comedy of menace) کے طور پر مشہور ہوا۔ اس کے خاص اسلوب کے ڈراموں میں ہماری ملاقات ایسے لوگو ں سے ہوتی ہے جو اپنی ہستی کی منضبط پناگاہوں میں چھپ کر بے جا مداخلت کے خلاف اپنا دفاع کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
پنٹر کی ڈراما نگاری کے متعلق یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس کے ناٹک مضمون و موضوع کے اعتبار سے تین حصوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ پہلا حصہ ان ڈراموں کا ہے جن میں نفسیاتی واقعیت پسندی( Psychological ealismٍR) کے خدو خال نمایاں ہیں۔ دوسرے دور میں وہ ناٹک ہیں جو اسلوبِ تغزل Lyrical)) اور غنائیت سے مملو ہیں۔اس کی مثال اس کا ڈراما (Landscape.....1967) اور ’’Silence‘‘ ہے۔تیسری قسم خالصتاََ سیاسی انداز کے ڈراموں کی ہے۔مثلاََ
One for the Road (1984),،,Mountain Language (1988), The New World Order (1991) اور دیگر ناٹک ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو ادوار کی یہ تقسیم کچھ حد سے زیادہ ہی سادگی آمیز ہے جس سے اس کی انتہائی توانا تحریریں مثلاََ No Man's Land (1974) اور Ashes to Ashes (1996) نظر انداز ہو جاتی ہیں۔ در حقیقت اس کے کام میں غیر معمولی تسلسل پایا جاتا ہے۔ سیاسی موضوعات کو اندیشوں اور نا انصافیوں کواس کے تجزیوں میں ارتقا کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔
اپنی تحریروں کے ساتھ ساتھ ۱۹۷۳ سے انسانی حقوق کے لیے مزاحمت کار کے طور پر بھی وہ پیش پیش ہے۔ اس نے اکثر اوقات متنازع فیہ مؤقف اختیار کیے ہیں۔ پنٹر نے ریڈیائی ڈراموں کے علاوہ فلم اور ٹی وی کے لیے کہانیاں بھی لکھی ہیں۔
The Servant (1963), The Accident (1967), The Go-Between (1971) and The French Lieutenant's Woman (1981, based on the John Fowles novel) اس کے معروف ترین اسکرپٹ ہیں۔ پنٹر نے ڈائریکٹر کے طور پر بھی بنیاد ساز کردار ادا کیا ہے۔ مجموعی طور پر اگر دیکھا جائے تو وہ بہ یک وقت ایک ڈراما نویس،شاعر، اداکار اور ایک کام یاب ہدایت کار بھی ہے۔ پنٹر نے اپنی تحریروں میں استبدا دی ایوانوں کے بند کمروں میں ہونے والی طفلانہ باتوں اور غاصب قوتوں کے پاؤں تلے چھپی چٹانوں کو بے نقاب کیا ہے۔ یاد کا عنصر اس کے موضوعات میں سرایت کیے ہوئے ہے۔ یعنی اس گم شدہ دنیا کی بازیافت جس میں احساسِ عدم تحفظ نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔آغاز سے انجام تک وہ اپنے کرداروں کے بارے میں وہ سب کچھ جانتا ہے جن کا ایک اچھے ادیب کو پتا ہونا چاہیے۔ شاعری نے اسے سکھایا کہ کفایتِ لفظی کیا چیز ہوتی ہے۔ وہ زبان کو رابطے کے وسیلے کی بہ جائے ہتھیار کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ اس کے ڈراموں کی سب سے بڑی خوبی خاموشی کی تکنیک ہے۔ یعنی اس کے ڈراموں میں خاموشی کے وقفے زیادہ ہوتے ہیں۔ اس کے کردار کم بولتے ہیں۔ اگر بولیں بھی تو گپ شپ کی حد تک۔ اس تکنیک کا مقصد خوف، تجس اور کش مکش کے جذبات کو ابھارنا ہوتا ہے۔ بے نام خوف، جنسی تصورات، گھٹن، حسد،خاندانی کدورتیں اور ذہنی الجھنوں جیسے موضوعات پنٹر کے ڈراموں کی مخصوص و منفرد پہچان ہیں۔
وہ دوسرا برطانوی نوبل انعام یافتہ ادیب ہے۔ اس سے قبل ولئیم گولڈنگ William Golding)) پہلا برطانوی ناول نگار تھا جسے ۱۹۸۳ میں نوبل انعام سے نوازا گیا۔ اپنے استاد سموئیل بیکٹ...Samuel Becket آ ئر لینڈ کا نوبل انعام یافتہ ادیب و شاعر، کے بعد پنٹر ہی وہ ادیب ہے جس نے کم سے کم الفاظ میں زیادہ سے زیادہ کہا۔ ۲۹ ڈراموں اور ۲۱ فلمی؍ ٹی۔وی اسکرپٹ ۱۵ ڈرامائی خاکوں کی بنیاد پر تھیٹر آرٹ میں ایک بلند مقام بنایا۔ کسی انٹرویو میں اس نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا،
۸۰ کی دہائی سے پہلے تک وہ صرف اور صرف ایک ادیب ہی کہلانا پسند کرتا تھا۔ وہ ہمیشہ ایک غیر سیاسی ادیب کے طور پر جانا گیا۔لیکن جیسا کہ آغاز میں کہا گیا کہ وہ بچپن ہی سے نسلی عصبیت کے تلخ تجربات سے دوچار رہا اور کچھ عالمی سطح پر امریکا کی جارہانہ پالیسیوں نے اس کے قلم کا رخ سیاسی موضوعات کی طرف موڑ دیا۔ جس کے نتیجے کے طور پر نہ صرف اس نے The New World Order (1991) اور ,Mountain Language (1988) جیسے ڈرامے لکھے بل کہ امریکا کی عراق پر حالیہ جارحیت کے رد عمل میں جنگ War)) جیسا شعری مجموعہ بھی تخلیق کیا۔ اس نے ۱۹۹۱ کی خلیجی جنگ ) Gulf War) اور ۱۹۹۹ میں سربیا پر ہونے والے حملے پر بھی کھلم کھلا احتجاج کیا۔ اور کمال جرأت مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے امریکا اور برطانیہ کے سربراہان کو جنگی جرائم کا ملزم قرار دیا۔اکتوبر ۲۰۰۵ میں اس نے جب اپنی ۷۵ ویں سالگرہ منائی تو اس کے ٹھیک چار دن بعد نوبل پرائز کمیٹی نے فون پر اسے نوبل انعام پانے کی خوش خبری سنائی۔ سیاسی حلقوں میں اس خبر پر اس کے مختلف سیاسی نظریات کی بنا پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔ اس لیے کسی بھی سیاسی شخصیت نے اسے مبارک باد دینا ضروری نہ سمجھا۔ امریکا اور برطانیہ کی عالمی پالیسیوں کی مخالفت کے باوجود اسے نوبل انعام کا مستحق سمجھا جانا جہاں اس کی اعلی ادبی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے وہاں سویڈش اکیڈمی کے نوبل انعام کی تقسیم کے معاملے میں غیر جانب دارانہ رویے کو بھی واضح کرتا ہے۔ پنٹر عراق کی موجودہ حالتِ زار کو باقی دنیا کے لیے مغربی جمہوریتوں کے رویے کی علامت سمجھتا ہے ۔اس کا شعری و نثری سرمایہ کم و بیش ۳۵ سے زائد کتب پر مشتمل ہے۔جنگ War)) اس کا تازہ ترین شعری مجموعہ ہے جو ۲۰۰۳ میں منظرِ عام پر آیا۔ اس میں کل ۶ نظمیں اور اس کی ایک تقریر شامل ہے۔ یہ تقریر اس نے برطانیہ کے دارا لعوام (house of commons)میں کی تھی۔پنٹر نے ایک ناول بھی لکھا جس کا نام Dwarves))ہے۔اس کے علاوہ اس نے ملکی اور بین الا قوامی سطح پر دیگر اعلی سطح کے ۲۵ سے زائد انعامات اور اعزازات بھی حاصل کیے ہیں۔
پہلی بیوی ویون مرچنٹ سے اس کا ایک بیٹا بھی ہے۔ جس کا نام ڈینیل Daniel)) ہے اور وہ بھی ایک موسیقار اور ادیب ہے۔ پنٹر ۲۰۰۲ سے معدے کے بالائی حصے کے سرطان میں مبتلا ہے۔ جس کے باعث وہ ایک آپریشن اور کیمو تھیراپی جیسے تکلیف دہ عمل سے بھی گزر چکا ہے۔ ۱۳ اکتوبر ۲۰۰۵ میں جب اسے نوبل انعام کی خوش خبری سنائی گئی تو وہ ہسپتال میں تھا۔ پنٹر نے جب سویڈش اکیڈمی میں ۷ دسمبر ۲۰۰۵ میں منعقدہ نوبل تقریب میں شرکت کا ارادہ کیا تو ڈاکٹروں نے منع کردیا۔ جس کی وجہ سے وہ اور اس کے اہلِ خانہ اس یادگار تقریب میں شامل نہ ہو سکے۔ آخرِ کار پنٹر کو بیماروں کی خراماں کرسی (Wheel chair) پر برطانیہ کے مقامی ٹی وی چینل۔۔۔ ’’چینل فور‘‘ ( Channel Four) کے اسٹو دیو میں لے جایا گیا جہاں وڈیو کیمرے کے ذریعے اس کی تقریر (نوبل لکچر۔۔ بہ عنوان ’’Art truth and politics‘‘عکس بند کی گئی۔ یہی وڈیو فلم مذکورہ تقریب میں تین بڑی سکرینوں پر حاضرین کو دکھائی گئی۔ہیرلڈ پنٹر کا کہنا ہے کہ اب وہ ڈراموں کی بہ جائے شاعری کو زیادہ سے زیادہ وقت دے گا اور دنیا میں سیاسی ڈھانچوں سے متعلق سوالوں میں سرگرداں رہے گا۔بلا شبہ برطانیہ کے جدید تمثیلی ادب میں پنٹر کا نام سنگِ میل کی حیثیت رکھے گا۔
فن، صداقت او رسیاست
(Art, Truth and Politics)
ہیرلڈ پنٹر کا تاریخ ساز اور تہلکہ خیز نوبل لیکچر جس نے نہ صرف برطانیہ کے ادبی حلقوں بل کہ سیاسی اکابرین میں بھی سراسیمگی پھیلا دی۔ اس تقریر کا مکمل ترجمہ چشم گزار ہے۔ (ز۔ش)
۱۹۸۱ میں میں نے لکھا تھا: حقیقت اور غیر حقیقت میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔ اور نہ ہی سچ اور جھوٹ میں۔ لازمی نہیں کہ کوئی چیز یا سچ ہو یا جھوٹ ہو۔ یہ سچ بھی ہو سکتی ہے اور جھوٹ بھی۔ میں ما نتا ہوں کہ یہ دعوے مزید احساس دلاتے ہیں اور آرٹ کے توسط سے تلاشِ حقیقت پر ہنوز منطبق ہوتے ہیں۔اس لیے بہ طورِ ادیب میں ان کی حمایت کرتا ہوں مگربہ حیثیت ایک شہری، میں ایسا نہیں کر سکتا۔ ایک شہری ہونے کے ناتے میں ضرور پوچھوں گا کہ سچ کیا ہے اور جھوٹ کیا ہے؟ ڈرامے میں سچائی ہمیشہ طرح دے جاتی ہے۔ آپ اسے کبھی نہیں پا سکتے لیکن اس کے لیے جستجو بہت ضروری ہے۔ جستجو ہی آپ کی دوڑ دھوپ کو آگے لے جاتی ہے۔ جستجو ہی آپ کی مہم ہے۔ قوی امکان ہے کہ آپ سچائی کو اندھیرے میں اتفاق سے پا لیں یا اس سے ٹکرا جائیں یا اس کی ایک جھلک یا شبیہ جو اس سے ملتی جلتی ہو دیکھ لیں۔ لیکن اصل سچائی یہ ہے کہ ایک سچائی کے طور پر ڈرامائی آرٹ میں کوئی سچائی بازیاب نہیں ہوتی۔ یہاں بہت سی سچائیاں ہیں۔ جو ایک دوسرے کو للکارتی ہیں، ٹکرا کر پیچھے ہٹتی ہیں، ایک دوسرے کو منعکس کرتی ہیں، نظر انداز کرتی ہیں، چڑاتی ہیں یا ایک دوسرے کو نظر ہی نہیں آتیں۔ بعض اوقات آپ کو محسوس ہوتا ہے کہ کسی لمحے کی سچائی آپ کے ہاتھ آ گئی ہے۔ پھر اچانک وہ سچائی آپ کی انگلیوں سے پھسل کر گم ہو جاتی ہے۔
مجھ سے اکثر میرے ڈراموں کی نوعیت کے بارے میں پوچھا جاتا ہے۔ میں کچھ نہیں کَہ سکتا۔ میں ان سے کوئی نتیجہ اخذ نہیں کر سکتا۔ سوائے اتنا کہنے کے کہ ان میں وہی کچھ ہے جو ہوا،جو کرداروں نے کہا،جو انہوں نے کیا۔ زیادہ تر تمثیلیں plays) ( ایک فقرے ایک لفظ، ایک تمثال( Image)سے ظہور پذیر ہوتے ہیں۔ وہ ایک لفظ کسی نہ کسی تمثال کے تابع ہوتا ہے۔ میں دو مثالیں دو ایسے فقروں کی دوں گا جو تمثال کو لیے اچانک میرے ذہن میں در آئے۔ یہ مثالیں میرے دو ڈرا موں The Homecoming and Old Times کی ہیں۔ اول الذکر کا پہلا فقرہ ہے۔۔ ’’تم نے قینچی کیا کی‘‘ آخر ا لذکر ڈرامے کا پہلا فقرہ ہے۔۔۔ ’’اندھیرا‘‘۔ اس کے علاوہ ان دو نوں ڈراموں کے بارے میں میں کچھ نہیں جانتا۔ پہلے ڈرامے کی پہلی لائن سے صاف ظا ہر ہے کہ کوئی قینچی ڈھونڈ رہا تھا۔ اور کسی اور سے مطالبہ کر رہا تھا کہ وہ بتائے کہ قینچی کہاں ہے۔ کیوں کہ اسے شک تھا کہ کہیں قینچی چوری تو نہیں ہو گئی۔ لیکن میں یہ جانتا تھا کہ دوسرے شخص کو نہ قینچی کی کوئی پروا تھی نہ ہی قینچی ڈھونڈنے والے کی۔ جب کہ ’’اندھیرا‘‘ کو میں نے کسی کے بالوں کسی عورت کے بالوں کے اظہار کے طور پر استعمال کیا۔ یہی سوال کا جواب تھا۔ ہر دومثالوں میں معاملے کی تہ کو پانے کے لیے میں نے اپنے آپ کو مجبور پایا۔ یہ سب تصوراتی طور پر، روشنی میں ایک سائے کے بہت ہی مدھم سے رنگ کے وسیلے سے ہوا۔
میں ہمیشہ اپنے ڈراموں کا آغاز کرداروں کو A ,B,Cکہَ کے کر تا ہوں۔ میرا وہ ڈراما جو The Homecoming میں ڈھلا اس میں میں نے ایک آدمی کو ایک بے رنگ سے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے دیکھا۔جو اپنے سے عمر میں چھوٹے ایک اور آدمی سے جو کہ ایک بد وضع سے صوفے پر بیٹھا گھڑ دوڑ سے متعلق اخبار پڑھ رہا ہو تا ہے ایک سوال پوچھتا ہے۔ مجھے شبہ سا ہوا کہ A باپ تھا اور B اس کا بیٹا۔لیکن میرے پاس اس کا کوئی ثبوت نہ تھا۔ بہ ہر حال یہ تھوڑ ی دیر بعد کھلا جب B (جو بعد میں لینی۔۔lenny کہلایا) A )جو بعد میںmax کہلایا) کو کہتا ہے۔’’ابو ! اگر میں موضوع بدل دوں تو آپ برا تو نہیں مانیں گے؟میں آپ سے کچھ پوچھنا چاہتا ہوں۔ جو کھانا ہم نے کھایا تھا اس کا نام کیا تھا؟آپ اس کو کیا کہتے ہیں؟ آپ کتا کیوں خریدتے ہیں؟آپ کتا پکانے والے رسوئیے (باورچی) تو نہیں؟ شاید آپ کا خیال ہے کہ آپ بہت سے کتوں کے لیے کھانا تیار کر رہے ہیں۔‘‘ چوں کہ B ، A کو ’’ابو‘‘ کہتا ہے بس مجھے مناسب یہی لگا کہ میں ان دونو ں کو باپ بیٹے سمجھ لوں۔ سو یہ واضح ہو گیا کہ A خانساماں تھا جسے کوئی اچھا خانساماں نہیں سمجھا گیا۔ تو کیا اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہاں کوئی ماں نہیں تھی؟ میں یہ بھی نہیں جانتا تھا۔ لیکن جیسا کہ میں نے خود بتایا تھا کہ ہماری شروعات اپنے انجاموں سے واقف نہیں ہوتیں۔
DARK میں ایک بڑی سی کھڑکی ہے۔ فلکِ شام ہے۔ A ایک آدمی (جو بعد میں dee کہلایا) اور B ایک عورت ہے (جس کا بعد میں KATE نام رکھا گیاٍ) دونوں اکٹھے بیٹھے مشروب پی رہے ہیں۔ ’’موٹی یا دبلی؟‘‘ وہ آدمی پوچھتا ہے۔ آخر یہ کس کے بارے میں بات کر رہے ہیں؟ لیکن پھر میری نظر کھڑکی میں کھڑی ایک عورت C (جسے بعد میں Anna کا نام دیا گیا) پر پڑی جو اور طرح کی کیفیت والی روشنی میں بیٹھی ہوئی تھی۔ اس کی پیٹھ ان دونوں کی طرف تھی اور بال سیاہ (Dark )تھے۔ کرداروں کو خلق کرنے کا لمحہ بڑا عجیب ہوتا۔ اس لمحے تک ان کا کو ئی وجود نہیں ہوتا۔ کچھ یقینی کچھ غیر یقینی بل کہ فریبانہ سی صورتِ حال ہوتی ہے۔ بعض اوقات یہ لمحہ کبھی نہ رکنے والے ایک اچانک حادثے کی طرح ہوتا ہے۔ ادیب کی حالت بڑی غیر ہوتی ہے۔ بل کہ یوں سمجھ لیں کردار وں کو اس کا آنا اچھا ہی نہیں لگتا۔ وہ اس کے خلاف مزاحمت کرتے ہیں۔ ان کے ساتھ رہنا کوئی آسان نہیں! ان کو بیان کرنا بڑا ناممکن ہوتا ہے۔ آپ ان کو ڈکٹیشن نہیں دے سکتے۔ کسی حد تک آپ ان کے ساتھ ایک نہ ختم ہونے والا کھیل کھیلتے ہیں،بلی چوہے کا سا کھیل، اندھے بھینسے ) A blind man's buff ((۱) کی طرح کا اور آنکھ مچولی سا کھیل۔۔۔ پھر آخر کار۔۔۔ دَم لحم والے جیتے جاگتے انسان آپ کے ہاتھ آجاتے ہیں۔ ایسے انسان جو اپنی مرضی منشا اپنی انفرادی عقل و دانش لے کر آتے ہیں۔ جو ایسے اجزا سے مل کر بنتے ہیں جنہیں آپ حسب طبع ڈھال نہیں سکتے، بدل نہیں سکتے، توڑ مروڑ نہیں سکتے۔
آرٹ کی زبان بے حد علامتوں کی روداد ہوتی ہے۔ کسی ریگِ رواں کی طرح، گھسٹتے ہوئے قدموں کی سی، یخ بستہ تالاب سی جو کسی بھی وقت ادیب یا آپ کے زیریں ٹوٹ سکتا ہے۔ لیکن جیسا کہ میں نے کہا کہ سچ کی تلاش کبھی رک نہیں سکتی۔ مؤخر نہیں ہو سکتی۔ملتوی نہیں کی جا سکتی۔ عین موقعے پر اس کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
جہاں تک سیاسی تھیٹر کا معاملہ ہے تو یہ بالکل مختلف مسائل کی نمائند گی کر تا ہے۔ یہاں ہر حال میں وعظ و نصیحت سے اجتناب کرنا پڑتا ہے۔ واقعات کے بیان میں جانب داری ضروری ہے۔ کرداروں کو اپنی ہواؤں میں سانس لینے کی آزادی ہونی چاہیے۔ ادیب اپنے ذوق، اپنی حیثیت،اپنے میلانِ خاطر کے لیے انہیں پابند نہیں کر سکتا۔ انہیں کھینچ یا سکیڑ نہیں سکتا۔ تمام زاویوں اور بھرپور اور آزادانہ نقطہ ہاے نظر سے کردا ر تک پہنچنے کے لیے ادیب کو ہر وقت تیار رہنا چاہیے۔ شاید بعض اوقات انہیں مبہوت کرنا بھی ضروری ہوتا ہے۔۔ تا ہم انہیں اپنی مرضی کے راستے پر چلنے دینا چاہیے۔ یہ ترکیب ہمیشہ کارگر بھی نہیں ہوتی۔ جہاں تک سیاسی ہجوPolitical Satire (کا تعلق ہے تو بلاشبہ یہ اس طرح کے تصورات سے منسلک نہیں ہوتی۔ اس کی الگ راہ ہے۔ اور یہی اس کا مناسب کردار ہے۔
میں نے اپنے ڈرامے The Birthday Party میں ہر طرح کے دائرۂ انتخاب(Range Of Options) کو ممکنات کے گھنے جنگل میں مغلوبیت کے نقطے پر توجہ مرکوز کرنے سے قبل ہی پنپنے دیا ہے۔ Mountain Language میں آپشنز کی حد اتنی وسیع نہیں ہے۔ اس کی حد بہیمانہ، مختصر اور بد زیب رہتی ہے۔ لیکن اس ڈرامے میں بھی فوجی لطف کا کوئی نہ کوئی پہلو نکال لیتے ہیں۔ نہیں بھولنا چاہیے کہ اذیت کیش torturer) (آسانی سے اکتاہٹ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ انہیں تازہ دم رہنے کے لیے قہقہے کی ضرورت ہمیشہ رہتی ہے۔ اس بات کی تصدیق بغداد کے علاقے ابو غریب میں ہونے والے واقعات سے ہو چکی ہے۔ اس ڈرامے کا دورانیہ ۲۰ منٹ ہے۔مگر اس کو بار بار۔۔۔ بار بار۔۔۔ گھنٹوں۔۔۔ کئی گھنٹوں۔۔۔کئی گھنٹوں جاری رکھا جا سکتا ہے۔ اس کے برعکس Ashes to Ashes کے متعلق لگتا ہے کہ یہ ڈراما زیرِ آب ہی وقوع پذیر ہوا ہے۔ اس میں ایک عورت جو پانی میں ڈوب رہی ہے دوسروں تک پہنچتے ہوئے اس کا ہاتھ لہروں سے ہوتا ہوا اوپر اٹھتا ہے، پھر گرتا ہے اور نظروں سے اوجھل ہو جاتا ہے۔ اب وہاں کوئی آدمی دکھائی نہیں دیتا۔ صرف سائے اور پرچھائیاں تیرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ اس ڈوبتے لینڈ سکیپ میں صرف ایک عورت ہے جو گم ہے۔ اب اس کا اس انجام سے جس سے دوسرے دو چار دکھائی دیتے ہیں مفر ممکن نہیں۔ جب وہ مریں تو اس عورت کو بھی مر جانا چاہیے۔
سیاست دانوں کی اکثریت جو سیاسی زبان استعمال کرتی ہے وہ ہم لوگو ں کے کسی بھی حلقے کی نمائندگی نہیں کرتی۔ اس بارے میں جو شواہد د ست یاب ہیں بڑے ہی دل چسپ ہیں۔ اس لحاظ سے نہیں کہ ان میں کوئی سچائی ہے بل کہ طاقت اور اس طاقت کو قائم رکھنے کے اعتبار سے دل چسپ۔ یعنی طاقت کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ لوگ لا علم رہیں۔ سچائی سے لا علم رہتے ہوئے جئیں۔ حتیٰ کہ اپنی زندگیوں کی سچائیوں سے بھی بے خبر۔۔۔ ہم گھرے ہوئے ہیں۔۔۔ جھوٹ کے وسیع و عریض مشجّر پردوں Tapestry of Lies) ( میں اور انہی پر ہمیں پلنا ہے۔یہاں بیٹھا ہوا ایک فردِ واحد بھی یہ جانتا ہے کہ عراق پر یلغار کا جواز یہ تھا کہ صدام حسین کے پاس سب کچھ تلپٹ کر دینے والے انتہائی مہلک اور خطر ناک ہتھیار ہیں جو اگر داغے جائیں تو ۴۵ منٹ میں ہول ناک تباہی پھیل جائے۔ ہمیں یقین دلایا گیا کہ یہی سچ ہے۔ لیکن سچ یہ نہیں تھا۔ ہمیں بتایا گیا کہ عراق کے القاعدہ سے روابط ہیں اور وہ نیو یارک میں ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ کو ہونے والی ہولناک سفاکی میں شریک تھا۔ ہمیں یقین دلایا گیا کہ یہی سچ ہے۔ مگر۔۔۔ سچ یہ نہیں تھا۔ ہمیں کہا گیا کہ عراق عالمی امن کے لیے خطرہ ہے۔ ہمیں یقین دلایا گیا کہ سچ یہی ہے۔۔۔ لیکن۔۔۔ سچ یہ نہیں تھا۔ سچ تو قطعی طور پر کچھ اور تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ یو۔ ایس سوچتا ہے کہ وہ دنیا میں کس حد تک اپنے کردار کو سمجھتا ہے۔جہاں تک وہ سمجھتا ہے اسے عملی جامہ پہناتا ہے۔ اس سے قبل کہ موجودہ حالات پر بات کروں میں ماضی قریب پر ایک نگاہ ڈالنا چاہوں گا۔ ماضی قریب سے میری مراد جنگ عظیم دوم کے اختتام سے اب تک کی امریکی خارجہ پالیسی ہے۔ میرا خیال ہے کہ یہ فرض ہم سب پر عائد ہوتا ہے کہ اس دور کو محدود چھان پھٹک والا دور کہا جائے۔ میرا استدلال یہ ہے کہ اس سار ے عرصے میں امریکی جرائم کو انتہائی سطحی انداز میں ریکارڈ پر لایا گیا۔ بھلے وہ جرائم مسلمہ اور دستاویزی ثبوت کے طور پر ہی کیوں نہ مانے گئے ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس پر بات ہونی چاہیے۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ سوویت یونین اور پھر پورے مشرقی یورپ میں کیا ہوا؟ منظم بر بریت کا مظاہرہ کیا گیا، ہمہ گیر مظالم ڈھائے گئے ،آزاد اور خود مختار فکر و تدبر کو انتہائی بے رحمی سے کچلا گیا۔۔۔ ان سب کے دستاویزی ثبوت موجود ہیں۔ سچائی کا مفہوم ہی یہی ہے کہ ہمیں بتائے کہ اب دنیا کہاں کھڑی ہے؟ اگر چہ سوویت یونین کے باعث امریکا کچھ حد تک تھما رہا لیکن اب اس نے اپنے لائحہ عمل سے دنیا بھر میں یہ واضح کر دیا ہے کہ اسے اپنی من مانیوں کے لیے سیاہ و سفید کا اختیار حاصل ہے۔
کسی آزاد اور خود مختار ریاست پر بلا واسطہ حملہ تو امریکا کا مرغوب ترین حربہ رہا ہی نہیں۔ اس نے تو ہمیشہ کم شدتی تضاد ('low intensity conflict'ٍ) کے حربے کو ترجیح دی ہے۔ کم شدتی تضاد کا مطلب ہے ہزاروں لوگ مریں لیکن آہستہ آہستہ، بہ جائے اس کے کہ ان پر بم گرا کر ایک لمحے میں ان کا صفایا کر دیا جائے۔ اس کا یہ بھی مفہوم ہے کہ کسی بھی ملک کے قلب میں آپ زہر بھر کر نفرت،بغض اور ضرر رساں عناصر کی پرورش کا اہتمام کرتے ہوئے ان کے گلنے سڑنے کا تماشا دیکھیں۔ جب لوگ مغلوب ہو جائیں یا مرنے کے قریب آجائیں تو آپ کے حواری۔۔۔ اتحادی افواج۔۔۔ مزے سے بیٹھ کر وہاں راج کریں۔آپ کیمرے کے سامنے آ کر کہیں۔۔۔۔ جمہوریت کی فتح ہو گئی۔ یہی امریکی خارجہ پالیسی کا ایک عام حربہ رہا اس دور میں جس کا میں نے حوالہ دیا ہے۔
نکاراگووا(۲) کا المیہ اس ضمن میں ایک بڑی مثال ہے۔ دنیا میں امریکا کے کردار کا مطمحِ نظر تب اور اب کیا ہے ؟ اس ضمن میں، میں نکارا گووا کے المیے کو ایک اثر آگیں اور طاقت ور مثال کے طور پر پیش کرتا ہوں۔ میں ۸۰ ۱۹ کی دہائی کے اواخر میں اس میٹنگ میں موجود تھا جو لند ن کے مقام پر امریکی سفارت خانے میں منعقد ہوئی۔ امریکی کانگرس یہ فیصلہ کرنے والی تھی کہ کنٹراس(۳)کو مزید مالی امداد دی جائے کہ نہیں۔ میں اس وفد کا رکن تھا جو نکارا گووا کی طرف سے بات چیت کے لیے اس میٹنگ میں موجود تھا۔لیکن اس وفد کا سب سے اہم ممبر Father John Metcalf اور امریکی وفد کی نمائندگی کرنے والا Raymond Seitz تھا۔ فادر نے کہا، ’’سر میں نکارا گووا کے شمال میں بسنے والے سب سے چھوٹے کلیسائی حلقے ( Parish) کی آبادی کا انچارج ہوں۔‘‘ ان لوگوں نے وہاں ایک سکول، ہیلتھ سنٹر اور ایک کلچرل سینٹر تعمیر کیا۔ ہم چین سے رہ رہے تھے۔ چند ماہ قبل کنٹرا فورس نے ان لوگوں پر حملہ کیا۔ انہوں نے سکول، ہیلتھ سنٹر، کلچرل سنٹر ہر چیز تباہ کر دی۔ حملہ آوروں نے بہت وحشیانہ انداز میں وہاں کی نرسوں اور استانیوں کی عزتیں پامال کیں اورڈاکٹروں کو ذبح کیا۔ انہوں نے نہایت درندگی کا مظاہرہ کیا۔ ہمارا مطالبہ یو۔ ایس حکومت سے یہ ہے کہ وہ ازراہِ کرم کنٹرا فورس کی ان دہشت انگیز سفاکانہ سرگرمیوں سے دست کش ہو جائے۔‘‘ Raymond Seitz جس کی شہرت بہت اچھی تھی۔جو بہت ذمہ دار، عقلیت پسند اور بے حد رکھ رکھاؤ والا انسان تھا نے ساری بات سنی۔کچھ توقف کے بعد متانت سے بولا۔۔ ’’فادر! آپ کو ایک بات بتا دوں، جنگ میں ہمیشہ معصوم اور بے گناہ لوگ ہی مرتے ہیں۔‘‘ سارے میں گہری خاموشی چھا گئی۔ ہم نے گھور کر اس کی طرف دیکھا۔ لیکن وہ ٹس سے مس نہ ہوا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمیشہ بے گناہ لوگ ہی مصیبتیں جھیلتے ہیں۔ پھر وفد میں سے ایک اور آدمی نے اٹھ کر کہا، ’’لیکن اس معاملے میں یہ جو بے گناہ لوگ ہیں یہ آپ ہی کی حکومت کے ہاتھوں بہیمانہ ظلم کا شکار ہوئے ہیں۔ اگر کانگرس کنٹرا فورسز کی اسی طرح مالی امداد کرتی رہی تو یہ ہول ناک زیادتیاں ہوتی رہیں گی۔ کیا ایسا نہیں ہے؟ کیا آپ کی حکومت ایک آزاد ریاست کے شہریوں کی تباہی اور قتل و غارت کے لیے اپنے آپ کو ذمہ دار نہیں سمجھتی ؟‘‘ اس نے کہا، ’’میں اتفاق نہیں کرتا کہ جو حقائق آپ پیش کر رہے ہیں وہ آپ کے خیالات کی تائید کرتے ہیں۔‘‘ جب میٹنگ ختم ہوئی، ہم باہر نکلے تو امریکی وفد میں سے ایک نے مجھے کہا کہ وہ میرے ڈراموں سے بہت لطف اٹھاتا ہے۔ میں نے کوئی جواب نہ دیا۔
میں آپ کو یاد دلاؤں کہ کسی زمانے میں امریکا کے صدر ریگن نے یہ بیان دیا تھا کہ کنٹرا س contras) ( کی حیثیت اخلاقی طور پر ہمارے ملک کے بانیوں مبانیوں کے مرتبے کے مساوی ہے۔ امریکا نے ۴۰ سے زا ئد برس تک نکارا گووا میں ظالم ترین سوموزا آمریت(۴) کی حمایت کی ہے۔ پھر سینڈی نستا (۵)کی معروف اور جان دار قیادت میں نکارا گووا کے لوگوں نے اس آمریت کا خاتمہ کر دیا۔
ٹھیک ہے کہ سینڈی نستاس (Sandinistas) بھی کوئی غلطیوں سے بالا نہیں تھے۔ وہ بھی خود پسند اور گھمنڈی تھے۔ اور ان کی سیاست کا فلسفہ بھی متنا زع فیہ امور سے عبارت تھا۔ لیکن وہ ذہین، غیرجانب دار اور مہذب لوگ تھے۔ انہوں نے ایک مستحکم، متمدن اور عالی ظرف معاشرت کے قیام کا آغاز کیا۔ موت کے امکانات کا خاتمہ کر دیا گیا۔ سینکڑوں ہزاروں مفلوک ا لحال کسانوں کو از سرِ نو زندگی ملی۔ ایک لاکھ سے زائد خاندانوں کو اراضی تفویض کی گئیں۔ دو ہزار اسکول تعمیر کیے گئے۔ خواندگی کی ایک قابلِ ذکر مہم چلائی گئی، جس کے نتیجے میں نا خواندگی کی شرح گھٹ کر ۷؍۱سے بھی کم ہو گئی۔ مفت تعلیم و صحت کی سہولیات کا آغاز ہوا۔ شیر خوار بچوں کی اموات کی شرح ایک تہائی کم ہو گئی اور پولیو کو جڑ سے اکھاڑ دیا گیا۔ امریکا نے ان کام یابیوں کو لینن یا مارکس پرستوں کی بغاوت سمجھ کر رد کر دیا۔ اس کے خیال میں یہ ایک خطر ناک مثال قائم کی گئی تھی۔اگر نکارا گووا کو سماجی اور اقتصادی انصاف کی بنیادی ضروریات کا ڈھانچاقائم کرنے کی اجازت دی جاتی، اگر اسے تعلیم و صحت اور معاشرتی اور قومی عزتِ نفس کے معیارات کو بلند کرنے دیا جاتا تو پڑوسی ممالک بھی ایسے ہی سوال اٹھا کر اسی طرح کے کام کرتے۔ بلا شبہ ای۔ ایل سیلوا ڈور (۶) میں امریکا کو ایسی ہی صورتِ حال کو قائم رکھنے کے لیے شدید مزاحمت کا سامنا تھا۔
میں نے شروع میں ذکر کیا تھا کہ جھوٹ کے وسیع و عریض مشجّر پردوں نے ہمیں گھیر رکھا ہے۔ صدر ریگن نے کھلے عام یہ کہا تھا کہ نکارا گووا ایک زیرِ زمیں اجتماعی قید خانےotalitarian dungeon) ) کا نام ہے۔ ذرائع ابلا غ اور یقیناََ حکومتِ برطانیہ نے اس بیان کو ایک صحیح اور صائب تبصرہ قرار دیا تھا۔ لیکن حقیقتاََ سینڈی نستا حکومت کے دوران میں موت کی یلغار کرنے والا کوئی گروہ تھا ہی نہیں۔ اذیت کیشی کا کوئی وجود ہی نہیں تھا۔ نہ ہی کسی منظم یا سرکاری فوجی بربریت کا کوئی سراغ ملتا ہے۔ اور نہ ہی کبھی کوئی پادری ہلاک ہوا۔ اس حکومت میں در اصل تین ہی پادری تھے، دو عیسائی اور ایک میریکنال (Maryknollٍ) نامی عیسائی مبلغ (missionary)۔۔۔ زیرِ زمیں اجتماعی قید خانے تو اصل میں ساتھ ہی تھے، یعنی ای۔ایل سیلوا ڈوراور گوئتے مالا (۷) میں۔ امریکا نے ۱۹۵۴ میں گوئتے مالا کی جمہوری طور پر منتخب کی ہوئی حکومت کو گرا دیا تھا۔ جس کے نتیجے میں اعداد شمار بتاتے ہیں کہ دو لاکھ سے زیادہ لوگ لگاتار فوجی آمریتوں کا شکار ہوئے۔
۱۹۸۹ میں دنیا کے چھ (۶) ممتاز ترین عیسائی مبلغ سان سیلوا ڈور کے مقام پر سینٹرل امریکن یونیورسٹی میں مار دیے گئے تھے۔ انہیں Alcatl رجمنٹ کی بٹالین جسے امریکا ہی میں جارجیا کے مقام فورٹ بیننگ میں تربیت دی گئی تھی نے ہلاک کیا تھا۔ ان میں وہ حد درجہ بہادر اور سرکردہ پادری (Archbishop) رومیرو (Romero) جیسی ہستی بھی تھی جن کو عشاے ربانی کی رسم ادا کرتے ہوئے قتل کر دیا گیا۔ ایک اندازے کے مطابق ۷۵۰۰۰ لوگ مرے۔ انہیں کیوں مارا گیا؟ انہیں اس لیے مارا گیا کیوں کہ وہ بہتر زندگی اور اس کے حاصل کیے جانے کے امکان پر یقین رکھتے تھے۔ صرف اسی یقین پر انہیں کمیونسٹ قرار دے دیا گیا۔ وہ اس لیے قتل ہوئے کہ وہ اس وقت کی ’’حالتِ موجودہ‘‘ (status quo)، نہ ختم ہونے والی بڑھتی ہوئی غربت، بیماری، ہتک و ذلت اور گھٹن کے خلاف سوال اٹھانے کی جرأت رکھتے تھے جو کہ ان کا پیدائشی حق تھا۔ امریکانے آخرِ کار سینڈی نستا حکومت کو ختم کردیا۔ جس میں اسے چند سال لگے اور کافی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن بے ثمر معاشی ابتری اورتیس ہزار لوگوں کی ہلاکت سے نکارا گووا کے عوام کا جذبہ سرد پڑ گیا۔ وہ ایک دفعہ پھر نیم جان اور غربت کا شکار ہو کر رہ گئے۔ملک میں پھر سے جوئے خانے (casinos) کھل گئے۔ مفت تعلیم اور مفت طبی سہولیات کا خاتمہ ہو گیا۔ بڑے بڑے کاروبار ٹھپ ہو گئے۔۔۔ اور۔۔۔ ’’جمہوریت کی فتح‘‘ ہو گئی!
امریکا کی یہ پالیسی صرف نکارا گووا تک ہی محدود نہیں۔ ساری دنیا میں یہی کچھ کیا گیا۔یہ ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے۔ جو کچھ جس طرح ہوا اس طرح پہلے کبھی نہیں ہوا۔ امریکا نے دوسری جنگِ عظیم کے بعد دنیا بھر میں دائیں بازو کی فوجی آمریت کے حالات کی ہمیشہ حمایت کی ہے۔ اس سلسلے میں، میں انڈونیشیا، یونان، یورا گوئے، برازیل، پیرا گوئے، ہیٹی، ترکی، فلپائن، گوئتے مالا، سلوا ڈور اور بلا شبہ چلی کا حوالہ دینا چاہوں گا۔ ان تمام ممالک میں سینکڑوں ہزاروں زندگیوں کے چراغ گل ہوئے۔ کیا یہ اموات ہوئیں؟ کیا یہ ساری مثالیں امریکی خارجہ پالیسی کے لیے قابلِ تحسین نہیں؟ اس کا جواب ہے، ہاں ! یہ ہوئیں اور یہ سب امریکی خارجہ پالیسی کے اعزاز کا باعث ہیں۔ لیکن آپ نہیں جان سکتے۔ کچھ بھی نہیں ہو ا۔ نہ کبھی کچھ ہوا تھا۔ نہ ہی جو کچھ اب ہو رہا ہے وہ ہو رہا ہے۔ کوئی بات نہیں۔ ان معاملات میں دل چسپی کیسی؟
امریکا کے جرائم ہمیشہ منصوبہ بند، ٹھوس، کینہ پر ور اور سنگ دلانہ رہے ہیں، لیکن ان باتوں پر بہت ہی کم لوگوں نے سوچا ہے۔ کیوں کہ آپ نے سوچنے کا کام تو امریکا کے حوالے کرنا ہوتا ہے۔ امریکا نے ٹھوس بنیادوں پر دنیا کی بھلائی کا بہانہ بنا کر بڑی چابک دستی سے اپنی طاقت کا استعمال کیا ہے۔ جو کہ تنویمیت(۸)کا ایک ذہین،حتیٰ کہ مضحکہ خیز اور کام یاب ترین حربہ ہے۔۔ بل کہ میں تو کہوں گا کہ امریکا سرِ راہ لگا یا ہو ایک تماشا ہے۔۔۔ وحشیانہ، معمولی درجے کا، حقارت آمیز اور بے رحم تماشا۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ بہت گھاگ بھی ہے۔ بالکل کسی سودا گر کی طرح جو اپنی مرضی سے باہر نکلتا ہے۔ جس کی سب سے زیادہ قا بلِ فروخت جنس اس کی خود پسندی ہے۔ یہ ایک فاتح ہے۔
آپ تمام امریکی صدور کو ٹیلی وژن پر یہ کہتے ہوئے سنیں گے۔۔۔ ’’امریکا کے لوگو‘‘ یعنی ایک فقرے کے طور پر۔ میں امریکا کے عوام سے کہتا ہوں کہ ان کا اپنے لیے دعا اور اپنے حقوق کے دفاع کرنے کا وقت آگیا ہے۔ وہ اپنے صدر کے ہر اقدام پر اعتماد کا اظہار کریں لیکن۔۔ امریکی عوام کے نام پر۔ یہ ایک ضو فشاں جنگی چال ہے۔ زبان کا استعمال ما فی الضمیر کو سامنے لانے کے لیے کیا جاتا ہے۔
’’امریکا کے لوگو‘‘ کے الفاظ واقعی تسلی کے ایک تسکین بخش تکیے کا کام کرتے ہیں۔ کچھ سوچنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔بس آپ اس تکیے کے پیچھے لیٹے رہیں۔ ہو سکتا ہے کہ یہ تکیہ آپ کی فہم اور تنقیدی صلاحیتوں کے لیے گھٹن کا باعث ہو۔ لیکن کوئی بات نہیں یہ آرام دہ تو ہے! اس کا اس بات سے کوئی تعلق نہیں کہ چالیس ملین لوگ خطِ غربت سے نیچے جی رہے ہوں اور دوملین مرد و زن زندانوں کے وسیع و عریض کیمپوں میں قید ہوں۔ ایسے کیمپ جو امریکا تک پھیلے ہوئے ہیں۔
اب امریکا کم شدتی تضادات کی بھی کوئی پرواہ نہیں کرتا۔ اب تو یہ خاموش رہنے یا حتیٰ کہ غیر مستقیم رہنے کا بھی کوئی پہلو نہیں دیکھتا۔ یہ بلا خوف و حمایت اپنے پتے میز پر پھینکتا ہے۔ یہ تو یو۔ این۔او، بین ا لاقوامی قوانین حتیٰ کہ تنقیدی اندازِ نظر کو بھی خاطر میں نہیں لاتا۔ کیوں کہ یہ انہیں بے قوت اور لایعنی خیال کرتا ہے۔ اس کے پیچھے دُم ہلاتی، ممیاتی اس کی ایک چھوٹی سی بھیڑ بھی ہے۔ اور وہ ہے قابلِ رحم اور چت لیٹا ہوا۔۔۔ عظیم برطانیہ!
ہماری اخلاقی ہو ش مندی کو کیا ہوا؟ کیا ہمارے پاس ایسی کوئی چیز تھی بھی کہ نہیں؟ ان الفاظ کے مفاہیم کیا ہیں؟ کیا یہ وہ اصطلاحیں بن چکی ہیں جو آج کل بہت کم استعمال میں آتی ہیں؟ یعنی۔۔۔ ہمارا ضمیر؟؟؟؟ ضمیر کا تعلق صرف ہمارے اپنے اعمال سے ہی نہیں بل کہ دوسروں کے معاملات سے متعلقہ مشترکہ ذمہ داریوں سے بھی ہے۔ کیا یہ سب کچھ مردہ ہو گیا ؟ گوَنتانامو بے (۹)کو دیکھا ہے؟ جہاں سینکڑوں لوگ بغیر کسی جرم بغیر کسی قانونی جواز اور بغیر کسی قانونی کار روائی کے گزشتہ تین سالوں سے قید ہیں۔ یہ تو غیر قانونی صورتِ حال ہے اور جنیوا کنونشن کے بالکل منافی۔ یہ مجرمانہ اقدام ایسا ملک کر رہا ہے جو اپنے آپ کو آزاد د نیا کا لیڈر گردانتا ہے۔ کیا ہم نے کبھی گو نتا نامو کے باشندوں کے متعلق سوچا ہے؟ میڈیا ان کے بارے میں کیا کہتا ہے؟ انہیں سرزِمینِ منسوخہ (no man's land ) میں بھیج دیا گیا جہاں سے وہ کبھی واپس نہیں آسکتے۔ اس وقت ان میں سے کئی بھوک ہڑتال پر ہیں۔ مگر انہیں جبراََ کھانا کھلایا جاتا ہے۔ ان میں برطانوی نژاد بھی ہیں۔ ان زبردستی کھلائے جانے کے طریقوں میں کوئی احتیاط بھی برتی نہیں جاتی۔ کوئی مسکّن(۱۰) یا مخدر (Anaesthetic)(۱۱) دوا بھی انہیں دست یاب نہیں۔ صرف ایک نلکی آپ کے گلے یا ناک میں ٹھونسی جاتی ہے اور آپ خون کی قے کر دیتے ہیں۔ یہ ہے اذیت! برطانوی وزیرِ خارجہ اس بارے میں کیا کہتا ہے؟۔۔۔ کچھ نہیں!! اور وزیرِ اعظم ؟ کچھ بھی نہیں! کیوں نہیں؟ اس لیے کہ امریکا نے برطانیہ سے کہا ہے۔ اگر گوَنتانا مو بے میں ہمارے اقدامات پر تنقید کی تو یہ ہمارے ساتھ تمہارے غیر دوستانہ رویے کو ظاہر کرے گا۔ تم ہمارے ساتھ ہو یا ہمارے خلاف؟ بس بلئیر نے منہ بند کر لیا!
عراق پر حملہ ایک مسلح قذاقی پر مبنی اقدام تھا۔۔۔ بے ہودہ انداز سے دوسروں کے کام میں حارج ہونے والے ملک کی دہشت گردی کا اقدام، جس نے بین الا قوامی قانون کے تصور کی توہین ہی نہیں کی بل کہ یہ حملہ من مانی فوجی کار روائی کا نتیجہ تھا۔ جسے سلسلہ در سلسہ کذب و ریا اور ذرائع ابلاغ اور پھر عوام کی اجتماعی ملی بھگت نے بڑھاوا دیا۔ چوں کہ ان کی آزادی و خود مختاری کے تمام جواز و دلائل انہیں سچ ثابت کرنے میں ناکام ہو گئے اس لیے آخری کوشش کے طور پر امریکا نے بہروپ بدل کر فوج کو مستحکم و متحد کرنے اور مشرقِ وسطی پر اقتصادی لحاظ سے قابض ہونے کا ارادہ کیا۔ عسکری طاقت کا اپنے آپ کو بے گناہ ثابت کرنے کا ایک خوف ناک دعویٰ ہی در اصل سینکڑوں ہزاروں بے گناہ لوگو ں کی ہلاکت او ر ان کے مفلوج ہونے کا ذمہ دار ہے۔
ہم اذیت کیش ہیں۔ ہم کلسٹر بم لے کر آئے۔ ہم نے سارا یورینئیم صرف کر ڈالا۔ کثیر تعداد میں اندھا دھند قتلِ عام کے مرتکب ہوئے۔ ہم نے ظلم، بے توقیری اور موت عراق کے لوگوں کو دی۔ پھر بھی ہم کہتے ہیں کہ ہم مشرقِ وسطی میں آزادی اور جمہوریت لا رہے ہیں۔
کسی کو خدائی قاتل Mass murderer) اور جنگی مجرم War criminal) ( قرار دینے سے قبل آپ کے پاس اسے مارنے کے لیے کتنے لوگ ہوتے ؟ ایک لاکھ ؟ نہیں۔۔ میں تو اس سے بھی زیادہ سوچتا! اس لیے یہ صرف بش اور بلےئر ہی ہیں جو جرائم کی بین ا لا قوامی عدالت میں ملز م ٹھہرتے ہیں۔ لیکن بش بہت کائیاں نکلا۔ اس نے اس عدالت کی حیثیت کو سرے سے تسلیم ہی نہیں کیا۔ اس لیے اگر کوئی امریکی فوجی یا اس معاملے میں کوئی سیاست دان عدالت کے کٹہرے میں چلا بھی جاتا تو بش اس کو امریکی بحریہ میں بھیجنے کی دھمکی دیتا۔ لیکن ٹونی بلئیر نے جرائم کی بین ا لا قوامی عدالت کو تسلیم کیا ہے اس لیے وہ مقدمہ چلائے جانے کے لیے موجود ہے۔ اگر عدالت چاہے تو ہم اس کو بلئیر کا پتا دے سکتے ہیں۔ پتا یہ ہے۔۔۔۱۰،ڈاؤننگ سٹریٹ ،لندن ۔اگر دیکھا جائے تو موت ان کے لیے ایک غیر متعلقہ سی چیز ہے۔ بش اور بلےئر موت کو پسِ پشت رکھتے ہیں۔ عراق کی بغاوت شروع ہونے سے پہلے ہی کم از کم ایک لاکھ عراقیوں کو امریکی بموں اور میسائلوں نے بھسم کر دیا۔ مگر ان اموات کا کوئی وجود ہی نہیں۔ کوئی ریکارڈ ہی نہیں۔ امریکی جنرل ٹومی فرینکس (Tommy Franks ) نے کہا، ’’ہم لاشوں کو گنا نہیں کرتے‘‘ حملے کے ابتدائی دنوں میں برطانوی اخبار کے پہلے صفحے پر ایک تصویر چھپی جس میں ٹو نی بلئیر ایک چھوٹے سے عراقی بچے کے گال چوم رہا ہے۔ ’’شکر گزار بچہ‘‘ کیپٹن نے کہا۔ کچھ دنوں بعد ایک اور بچے کی اخبار کے اندرونی صفحے میں تصویر اور کہانی چھپی۔ اس کے بازو نہیں تھے۔ ٹونی بلئیر نے اس کو اپنے بازوؤں میں نہیں لیا، نہ ہی کسی اور اپاہج بچے کو اور نہ ہی کسی خون میں لتھڑی ہوئی لاش کو۔ خوب !۔۔۔ کیوں کہ خون گندا ہوتا ہے۔ یہ آپ کی شرٹ اور ٹائی کو گندا کر دیتا ہے، کیوں کہ ٹی وی پر جا کر آپ نے ایک مخلصانہ تقریر بھی تو کرنا ہو تی ہے۔ دو ہزار امریکی فوجیوں کا مر جانا باعثِ ندامت و پریشانی ہے۔ انہیں رات کے اندھیرے میں ان کی قبروں میں اتارا جاتا ہے۔ ان کے جنازوں کے ساتھ کوئی بھی نہیں ہوتا۔ بستروں پر بہ جائے ان کے، ان کے کٹے پھٹے، گلے سڑے جسم پڑے ہوئے ہیں۔ کچھ نے باقی ماندہ زندگی اسی طرح گزارنی ہے۔ سو مرے ہوؤں اور بریدہ جسموں کی قبریں مختلف ہیں۔ پا بلو نرودا کی نظمI am explaining a few things (۱۲)کا اقتباس ملاحظہ ہو:
’’اور ایک صبح سب کچھ جل رہا تھا
ایک صبح زمین کے اندر سے آگ کا الاؤ امڈ پڑا
جو انسانوں کو نگل گیا
پھر اس سے گولیاں اگل پڑیں
پھر بارود اگلنے لگا
پھر خون ابلنے لگا
جہازوں کے ساتھ مسلح قزاق اور بربر
مسلح نواب اور ان کی بیگمات
مسلح کالے راہب رحمتوں کے چھینٹے اڑاتے ہوئے
بچوں کو مارنے کے لیے آسمان سے نمودار ہوئے
اور بچوں کا خون گلیوں میں بہنے لگا
بغیر کسی ہلچل کے۔بالکل بچوں کے خون کی طرح
سخت؟ سخت ایسے کہ سوکھا ہوا کانٹے دار گھو کھرو (۱۳) بھی انہیں کاٹے تو تھوک دے
گیدڑ؟ گیدڑ ایسے کہ جنہیں گیدڑ بھی حقارت کی نگاہ سے دیکھیں
سانپ؟ سانپ ایسے کہ جن سے زہریلے سانپ بھی نفرت کریں
میں نے تمہارے ساتھ تمہارے سامنے
اسپین کا مدو جزر کی طرح اونچا ہوتا ہوا خون دیکھا
تمہیں غرور و فخر کی لہر
میں ڈبونے کے لیے
دھوکے باز جرنیلو!
دیکھو میرا مردہ خانہ !
میرا ٹوٹا پھوٹا اسپین
جس کے ہر گھر سے سلگتا ہوا لوہا بَہ رہا ہے
پھولوں کی بہ جائے
اسپین کے چپے چپے سے
ا سپین اگ رہا ہے
اور ہر مردہ بچے کے جسم سے آنکھوں والی بندوق
اور ہر ظلم سے گولیاں پیدا ہوں گی
جو تمہارے دلوں کو ہدف بنائیں گی
اور تم پوچھو گے
اس کی شاعری خوابوں کی اور سر سبز پتوں کی بات کیوں نہیں کرتی
اور اس کے وطن کے عظیم آتش فشانوں کا حال کیوں نہیں سناتی؟
آؤ اور گلیوں میں بہتا ہوا خون دیکھو۔۔۔
آؤ۔۔۔ اور دیکھو
بہتا ہوا خون گلیوں میں۔۔۔
آؤ اور بہتا ہوا خون۔۔۔
گلیوں میں دیکھو!!!‘‘
میں یہاں یہ واضح کر دوں کہ پابلو نرودا کی نظم کا حوالہ دینے کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ میں جمہوریہ اسپین اور صدام کے عراق کا موازنہ کر رہا ہوں۔ میں نے پابلو کی نظم کا حوالہ اس لیے دیا کہ مجھے معاصر شاعری میں کہیں بھی انسانوں پر بم باری کے حوالے سے ایسی اثر انگیز اور جان دار طرزِ اظہار کی نظم نہیں ملی۔ جیسا کہ میں نے شروع میں کہا کہ امریکا اب میز پر پتے ڈالنے کے معاملے میں بالکل بے تکلف ہے۔اس کی سرکاری پالیسی کُل جہتی تسلط full spectrum dominance)) کے طور پر اب طے ہو چکی ہے۔ یہ کوئی میری اصطلاح نہیں ہے۔ یہ انہی کی اصطلاح ہے۔ کُل جہتی تسلط کا مطلب ہے، ملک، سمندر،ہواؤں، خلاؤ ں اور تمام متعلقہ وسائل پر قبضہ۔ اس وقت دنیا بھر کے ۱۳۲ ملکوں کی فوجی تنصیبات امریکا کے زیرِ نگیں ہیں۔ امریکا ۸۰ ہزار مؤثر اور فعال، داغے جانے کے لیے تیار میسائل(nuclear warheads )کا مالک ہے۔ ان میں سے ۲۰ ہزار صرف ۱۵ منٹ کی تنبیہ کے ساتھ دغنے کے لیے تیار ہیں۔ یہ نیوکلیائی طاقت کے نئے نظام کی ترویج کر رہا ہے۔ جو بنکر بسٹرز (bunker busters) کے نام سے جانا جاتا ہے۔ امریکا کا ہمیشہ تعاون کرنے والے برطانوی بھی اپنے نیوکلیائی میسائل ( trident ) کو بدلنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ میں حیرا ن ہوں کہ آخر یہ کس کو نشانہ بنائیں گے؟ اسامہ بن لادن کو ؟ مجھے ؟ آپ کو؟ جو ڈ و کس Joe Dokes ) (کو ؟ چین کو ؟ اسپین کو؟ کون جانتا ہے؟ ہمیں اپنے آپ کو یاد دلاتے رہنا چاہیے کہ امریکا اپنی افواج کی مستقل پشت پناہی پر کھڑا ہے جن کے نصیب میں سکون کا ایک پل بھی نہیں۔
خود امریکا کے اندر ہی اگر لاکھوں نہیں تو ہزاروں لوگ امریکی حکومت کی کارستانیوں پر مظاہروں کی شکل میں تنگ، نادم اور نالاں نظر آتے ہیں۔ لیکن جس طرح مقابلہ کیا جاتا ہے اس طرح ابھی وہ کوئی مربوط سیاسی قوت نہیں ہیں۔ پھر بھی بے چینی، بے یقینی اور خوف کی فضا جسے ہم امریکا میں روز بہ روز بڑھتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں کو کم کرنا بعید از قیاس ہے۔ میں جانتا ہوں کہ صدر بش کے پاس اعلیٰ سطح کے قابل و فاضل تقریر نویس ہیں۔ لیکن اس کا م کے لیے ر ضا کارانہ طور پر میں اپنے آپ کو پیش کرنا چاہتا ہوں۔ میں درج ذیل ایک مختصر تقریر پیش کرتا ہوں جسے وہ ٹی وی پر جا کر اپنی قوم کے سامنے پڑھ سکتا ہے۔ میں اسے جب بھی ٹی وی پر دیکھتا ہوں تو وہ بہت سنجیدہ نظر آتا ہے۔۔۔ اچھی طرح کنگھیائے ہوئے بال، فاتح، مخلص، اکثر اوقات ہنسوڑ، بعض دفعہ چہرے پر بری سی مسکراہٹ رکھے ہوئے اور تجسس آمیز جاذبیت کے ساتھ آدمیوں کا آدمی دکھائی دیتا ہے۔
’’خدا اچھا ہے۔ خدا عظیم ہے۔ خدا اچھا ہے۔ میرا خدا اچھا ہے۔ بن لادن کا خدا برا ہے۔ وہ ایک برا خدا ہے۔ صدام کا خدا برا تھا سوائے اس ایک کے جو اس کا خدا نہیں تھا۔ وہ ایک وحشی تھا۔ ہم وحشی نہیں ہیں۔ ہم لوگوں کے سر نہیں اڑاتے۔ ہم آزادی پر یقین رکھتے ہیں۔ کیو ں کہ خدا بھی ایسا ہی کرتا ہے۔ میں کوئی وحشی نہیں ہوں۔ میں آزادی پسند جمہوریت کا جمہوری انداز میں منتخب کیا ہوا رہ نما ہوں۔ ہمارا معاشرہ ایک ترس کھانے والا معاشرہ ہے۔ ہم بڑی رحم دلی سے برقی کرسی پر بٹھاتے ہیں اور بڑی نرمی سے مہلک انجیکشن دیتے ہیں۔ ہم ایک عظیم قوم ہیں۔ میں کوئی آمر نہیں ہوں!!! وہ ہے! میں کوئی وحشی نہیں ہوں! وہ ہے! اور۔۔ وہ!۔۔ وہ سب ! میں اخلاقی اختیار کا مالک ہوں۔ اور یہ آپ نے پہلی بار دیکھا ہو گا، یہ میرا اخلاقی اختیار ! ! اور ہاں !۔۔۔ اسے بھولنا مت!‘‘
ایک ادیب کی زندگی انتہائی غیر محفوظ ہوتی ہے۔ وہ بغیر کسی لگی لپٹی کے کام کرتا ہے۔ ہم اس بات کا رونا نہیں روتے۔ادیب اپنا رستہ خود چنتا ہے اور پھر اسی سے جڑا رہتا ہے۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ہم لوگ ہر طرح کی ہواؤں کی زد میں رہتے ہیں۔ ان میں سے کچھ بہت ہی برفیلی ہوتی ہیں۔ آپ کو اپنے ہی سہارے اپنے ہی زور پر جینا ہوتا ہے۔ آپ کو کہیں پناہ نہیں ملتی۔ بچنے کی کوئی صورت ہی نہیں جب تک کہ آپ جھوٹ نہ بولیں۔ اگر آپ اپنی حفاظت کا بندوبست کرنا چاہتے ہیں تو پھر سیاست دان بن جائیے!
میں نے آج شام کئی بار موت کو ترجیح دی ہے۔ میں یہاں اپنی ایک نظم ’’موت‘‘ سنانا چاہوں گا۔
موت
کہاں سے ملی لاش؟
کس کو ملی تھی وہ لاش؟
ملی جب تو کیا لاش وہ لاش تھی؟
ملی تو ملی کس طرح؟
وہ کس کی مگر کس کی وہ لاش تھی؟
کون باپ اس کا، بیٹی تھی، بھائی تھاکون؟
اس کا چچا،بہن اور ماں یا کہ بیٹا تھا کون؟
یونہی پھینک ڈالی گئی لاش کا
وہ پھینکی گئی جب تو کیا واقعی لاش تھی؟
اس کو پھینکا گیا؟
کس نے پھینکا اسے؟
وہ کپڑوں میں تھی یا بر ہنہ بہ وقتِ سفر؟
خبرکیسے تم کو ہوئی لاش مردہ تھی ؟
تم نے کہا لاش، اس لاش کو؟
کہاں تک مگر ا س کے بارے میں تم جانتے تھے؟
پتا کیسے تم کو چلا وہ حقیقت میں اک لاش تھی؟
اس کو نہلایا تھا !
بند کیں دونوں آنکھیں بھی اس کی!
تو کیا دفن اس کو کیا تھا!
کہ یوں ہی کھلا چھوڑ ڈالا اسے
اسے تم نے بوسہ دیا تھا!
ہم جب آئینے میں اپنے آپ کو دیکھتے ہیں تو ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارا عکس بالکل صحیح ہے۔ لیکن ہمارے ایک دو ملی میٹر سرکنے سے وہی عکس بدل جاتا ہے۔ ہم در اصل نہ ختم ہونے والی شبیہوں کو دیکھنے کے رسیا ہیں۔ بعض اوقات ادیب کو یہ آئینہ پاش پاش کرنا پڑتا ہے۔ کیوں کہ یہ اسی آئینے کا دوسرا رخ ہے جس سے سچائی ہمیں گھور رہی ہوتی ہے۔ میں سمجھتا ہو ں کہ ان بے حد عجیب و غریب حالات کے باوصف ایک غیر متزلزل، بھرپور اور مدبّغ ( Intellectual)استقلال کی کڑی ذمہ داری ہم سب پر عائد ہوتی ہے۔ در حقیقیت اس کا انحصار ہماری انتِدابی mandatory) ( کوششوں پر ہے۔ اگر ایسا استقلال ہماری سیاسی بصیرت میں نہ ڈھل پایا تو پھر اس کی با زیابی کی کوئی امید باقی نہیں بچتی جس کو ہم تقریباََ کھو چکے ہیں اور وہ ہے۔۔۔ عظمتِ آدم۔۔۔
حواشی
(۱) بچوں کا ایک کھیل جس میں ایک لڑکا دوسرے لڑکے کی پیٹھ پر سوار ہو کر اس کی آنکھوں پر ہاتھ رکھ دیتا ہے۔ باقی لڑکے بھینسا بنے لڑکے کے نیچے سے باری باری گزرتے جاتے ہیں۔ سوار لڑکا اس سے ہر ایک کا نام پوچھتا جاتا ہے جس کا نام وہ صحیح بتا دے پھر اس کو بھینسا بننا پڑتا ہے۔ یوں یہ کھیل جاری رہتا ہے۔
(۲) لاطینی / سینٹرل امریکا Latin/ Central Amrica)) کا ایک ملک جہاں آج کل PLC (Constitutional Liberal Party) کی حکومت ہے اور ا ینریق بولا نوس Enrique Bolanos ملک کے صدر ہیں۔ سرکاری زبان اسپینی (Spanish)۔ مَینا گووا Managua)) دار ا لحکومت۔ ۱۵ ستمبر ۱۸۲۱ میں اسپین سے آزادی حاصل کی۔ آزادی سے اب تک وہاں سیاسی سطح پر دو ہی متحارب گروپ نمایاں رہے۔ ایک مارکسی نظریات کا حامل جس کی پشت پناہی کمیونسٹ کیوبا اور سوویت یونین کرتا تھا اور دوسرا قدامت پسندconservative) جس کو امریکا کی مکمل حمایت حاصل تھی۔ چناں چہ خانہ جنگی کے نتیجے میں امریکا نے قدامت پسندوں کی آڑ میں نکارا گووا کو با ا لخصوص ۸۰ کی دہائی میں معاشی، سماجی، سیاسی، جانی اور مالی لحاظ سے سبو تاژ کیا اور ہزاروں بے گناہ لوگ مرے۔
(۳) کنٹراس contras) (، کنٹرا contra) (اور کنٹرا فورس contra force)) اس ایک ہی طاقت کا نام جو امریکا نے نکارا گووا میں تمام انقلابی قوتوں کو کچلنے کے لیے مسلح گوریلوں کی شکل میں تشکیل دی تھی۔اور جس کے تمام مالی خراجات امریکا برداشت کرتا تھا۔ اسپینی میں contraکے معنی ’’خلاف‘‘ یا ’’مخالف‘‘ کے ہیں۔
(۴) جس قدامت پسند گروپ کا اوپر کی سطور میں ذکر کیا گیا ہے اسی کا روح رواں سوموزا خاندان Somoza Family )) تھا جس نے ۱۹۳۶ سے ۱۹۷۹ تک امریکا ہی کی شہ پر تقریباََ ۴۰ سال نکارا گووا پر آمریت مسلط رکھی۔ سوموزان somozan )) نکارا گووا کا ایک علاقہ جس کی نسبت سے ہر آمر سوموزا کہلاتا تھا۔ یہ لوگ ایک ہی خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ اس خاندان کا پہلا آدمی جس نے نکارا گووا پر ایک آمر کی حیثیت سے امریکی حکمتِ عملی کے تحت حکومت کی اس کا نام Anastasio Somoza Garc237a تھا۔
(۵) مارکسی نظریات کی حامل تنظیم جسے سوویت یونین اور کمیونسٹ کیوبا کی مکمل حمایت حا صل تھی۔ اس تنظیم کا نام FSLN ( Sandinista National Liberation Front ) تھا۔ چوں کہ اس تنظیم کی بنیاد رکھنے والے ایک جرنل کا نام آگستو سیزر سینڈینو Augusto C233sar Sandino تھا اس لیے سینڈینو نام کی مناسبت سے اس جماعت کو سینڈینستا(Sandinista) کہا گیا۔ اور اس میں شامل ہونے والے کارکنان کو سینڈی نستاس ((Sandinistas کہا جاتا ہے۔ اس تنظیم نے طویل گوریلا جنگ کے بعد با لآخر ۱۹۷۹ میں سوموزا آمریت کا خاتمہ کیا اور ۱۹۷۹ سے ۱۹۹۰تک نکارا گووا پرکامیاب حکومت کی۔ نومبر ۲۰۰۱ کے قومی انتخابات میں یہ ہار گئی اور PLC برسرِ اقتدار آ گئی۔ sandinista کو اب بھی نکارا گووا کی سیاست میں مضبوط ترین حزبِ اختلاف oppisition party)ٍ) کی حیثیت حاصل ہے۔
(۶) لاطینی ؍سینٹر ل ا مریکاکا ملک۔ ۱۵ ستمبر ۱۸۲۱ میں اسپین سے آزادی حاصل کی۔ سرکاری زبان اسپینی۔ سان سیلوا ڈور دا ر الحکومت۔ ۱۹۳۰ سے ۱۹۹۲ تک یہاں امریکا کے ایما پر خانہ جنگی رہی۔
(۷) لاطینی /سینٹرل امریکا کا ملک۔ ۱۵ ستمبر ۱۸۲۱ میں اسپین سے آزادی حاصل کی۔ سرکاری زبان اسپینی۔ ۱۹۵۴ میں سی۔ آئی۔اے نے کچھ مقامی لوگوں سے مل کر گوئتے مالا کے منتخب صدر جیکوبو ار بنز (Jacobo Arbenz) کی حکومت ختم کر کے اقتدار فوج کے حوالے کر دیا۔ ۱۹۵۴ سے ۱۹۹۰ تک آمریت مسلط رہی اور ہر سطح پر گوئتے مالین فوج کی امداد کی گئی۔ اس سارے عرصے میں انسانی حقوق کے تمام تر تقاضوں کو بالائے طاق رکھا گیا۔
(۸) نیند کی سی کیفیت۔۔۔ کسی کے دل و دماغ پر قابض ہو کر اسے اپنی مرضی کے تابع کر لینا۔ ہیپنا ٹزم (Hypnotism)
(۹) کیوبا کے مقام پر ۲۰۰۲ ء میں امریکا کا سیاسی و جنگی قیدیوں کے لیے قائم کیا گیا کیمپ (American Concentration Camp )۔ امریکا ان قیدیوں کو جنگ جو دشمن (enemycombatant) کہتا ہے۔ یہ قیدی افغانستان اور دنیا کے مختلف سے حصوں سے پکڑے گئے ہیں۔
(۱۰) سکون دینے والی دوائیں۔
(۱۱) جسم کو سُن کرنے والی دوائیں۔
(۱۲) لاطینی امریکا کے عظیم اسپینی زبان کے شاعرپابلو نرودا کی نظم جس کا سپینش سے انگریزی میں Nathaniel Tarn نے ۱۹۷۰ میں ترجمہ کیا۔
(۱۳) انگریزی میں thistle ..... ایک پودے کا نام جس کے پتے خار دار اور پھول زرد رنگ کا ہوتا ہے۔ یہ اسکاٹ لینڈ کا قومی نشان بھی ہے۔
O
اس وقت میری عمر اٹھارہ سال تھی جب مجھے امریکہ کے قیدیوں کے کیمپ سے رہا کیا گیا تھا۔ تب مجھے محسوس ہوا کہ مستقبل کی بہتری کے نام پر کیسے کیسے جرائم کیے گئے ۔ ( گنتر گراس )
1 تبصرہ:
excellent,,,,May i use it for Mizgaan Urdu Quarterly
ایک تبصرہ شائع کریں