منگل، 12 جنوری، 2016

جدید ترین کا پہلا شمارہ۔جنوری2016


عاصم بخشی اور شامل شمس کے نام

مخفی معجزہ/بورخیس(ترجمہ زیف سید)

اور خدا نے اسے ایک سو سال تک مارے رکھا، اور پھر زندہ کر کے پوچھا: ’تم کتنے عرصے سے یہاں رہے ہو؟‘ اس نے جواب دیا، ’ایک دن، یا ایک دن کا کچھ حصہ۔ ‘
اور اس طرح ہم نے ان کو اٹھایا تاکہ آپس میں ایک دوسرے سے دریافت کریں۔ ایک کہنے والے نے کہا کہ تم (یہاں) کتنی مدت رہے؟ انہوں نے کہا کہ ایک دن یا اس سے بھی کم۔ انہوں نے کہا کہ جتنی مدت تم رہے ہو تمہارا پروردگار ہی اس کو خوب جانتا ہے۔
پراگ کی سڑک سالٹیرنرگاسا کے ایک فلیٹ میں نامکمل المیے ’عدو، ہمیشگی کا اثبات‘ اور جیکب بوہیم کے بالواسطہ یہودی مآخذ کے مصنف جارومیر ہلادک نے 14 مارچ 1939 کی رات شطرنج کی ایک طویل بازی کا خواب دیکھا جو بہت لمبی کھنچ گئی تھی۔ اس بازی میں دو افراد نہیں بلکہ دو نامور خاندان آمنے سامنے تھے۔ یہ مقابلہ کئی صدیوں پہلے شروع ہوا تھا۔ سب بھول گئے تھے کہ فاتح کا انعام کیا ہے، لیکن شنید تھی کہ یہ عظیم اور شاید لامتناہی ہے۔ شطرنج کے مہرے اور بساط ایک خفیہ مینار میں سجائے گئے تھے۔ جارومیر (خواب میں) ایک مقابل خاندان کا پہلوٹھی کا لڑکا تھا۔ اگلی چال چلنے کا وقت، جسے موخر نہیں کیا جا سکتا تھا، تمام گھڑیالوں پر بجا۔ وہ خواب میں برستی بارش میں بھیگتے صحرا میں بھاگا۔ وہ مہرے، حتیٰ کہ شطرنج کے اصول تک بھلا چکا تھا۔ اسی موقعے پر اس کی آنکھ کھل گئی۔ بارش کے شور اور گھڑیالوں کی ٹناٹن رک گئی۔ سیلترنرگاسا پر ایک متوازن ہم آہنگی چھا گئی جسے کبھی کبھی احکامات کی آوازیں توڑ توڑ دیتی تھیں۔ دن نکل آیا تھا اور تیسرے رائخ کے بکتربند ہراول دستے پراگ میں داخل ہو رہے تھے۔
19 تاریخ کو حکام نے جارومیر ہلادک کے خلاف فردِ جرم وصول کر لی۔ اسی دن صبح کے وقت اسے گرفتار کر کے دریائے مولداؤ کے مخالف کنارے پر واقع ایک صاف ستھری، سفید بارک میں لے جایا گیا۔ گستاپو نے اس پر جو الزامات عائد کیے تھے وہ ان میں سے ایک کی بھی صفائی پیش نہیں کر سکا۔ اس کا ننھیالی نام جاروسلاوسکی تھا، اس کا خون یہودی تھا، اس کا بوہیم پر کام یہودیت آمیز تھا، اس نے اپنے دستخط جاری کر کے آنشلس کے احتجاج میں حصہ لیا تھا۔ 1928 میں اس نے سیفر یزیراہ کا ترجمہ کیا تھا جو اشاعتی ادارے ہرمان بارسدورف سے چھپا۔ اس ادارے کے جاری کردہ جوشیلے کیٹلاگ نے کاروباری وجوہات کی بنا پر مترجم کی شہرت کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا تھا۔ یہی کیٹلاگ جولیس روتھا نامی ایک عہدے دار کے ہاتھ لگ گیا تھا، اب جس کی مٹھی میں ہلادک کی تقدیر تھی۔ ہر انسان اپنی مہارت کے شعبے سے باہر دوسری چیزوں پر بڑی جلدی اعتبار کر لیتا ہے، اس لیے گاتھک رسم الخط میں لکھے گئے دو تین اسمائے صفت جولیئس روتھا کو ہلادک کی اہمیت جتانے، اور دوسروں کو عبرت دینے کے لیے اسے سزائے موت دینے کی ضرورت باور کرانے کے لیے کافی تھے۔ سزائے موت کی تاریخ 29 مارچ کو صبح نو بجے رکھی گئی۔ اس تاخیر (جس کی اہمیت کا اندازہ قاری کو بعد میں ہو گا) کا باعث اجرامِ فلکی یا نبادات کی طرح سست رفتار اور غیرشخصی انداز اختیار کرنا تھا۔
ہلادک کا پہلا ردِعمل دہشت کا تھا۔ اسے یقین تھا کہ وہ پھانسی، گلوٹین یا خنجر سے نہیں ڈرتا، لیکن فائرنگ سکواڈ کے ذریعے موت کے گھاٹ اترنا ناقابلِ برداشت تھا۔ وہ اپنے آپ سے بےکار دہراتا رہا کہ اصل خوفناک حقیقت مرنے کا خالص اور عمومی عمل ہی ہے، نہ کہ اس کی ٹھوس جزئیات۔ وہ ان جزئیات کا تصور کرتے تھکتا نہیں تھا، اور وہ مہملیت کی حد تک ہر طریقے کی جزئیات اپنے ذہن میں دہراتا رہا۔ وہ بےخواب صبح سے لے کر بندوقوں کے پراسرار فائر تک کے تمام عمل کو لامتناہی حد تک بار بار سوچا کیا۔ جولیس روتھا کی جانب سے دن کے تعین کے بعد وہ سینکڑوں موتیں مرا، ایسے صحنوں میں، جن کی شکلیں اور زاویے اقلیدس کی پابندیوں سے ماورا تھے، اسے ایسے سپاہیوں نے نشانہ بنایا جن کی تعداد گھٹتی بڑھتی اور شکلیں بدلتی رہتی تھی، اور وہ کبھی قریب سے اور کبھی بہت دور سے اس پر فائر کھولتے تھے۔ اس نے حقیقی دہشت کے ساتھ (یا شاید حقیقی بہادری سے) ان خیالی اموات کا سامنا کیا۔ ان میں سے ہر تصور محض چند لمحے ہی رہتا تھا۔ جب یہ دائرہ مکمل ہو گیا تو جارومیر اپنی موت کی لرزاں شام تک نامختتم طریقے سے پہنچ گیا۔ تب اس نے غور کیا کہ حقیقت اپنے بارے میں کی جانے والی پیش گوئیوں سے مطابقت نہیں رکھتی۔ اس نے اس خام منطق سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ کسی واقعاتی تفصیل کی پیش بینی اسے رو بہ عمل ہو نے سے روک دیتی ہے۔ اس کمزور منطق سے استوار رہتے ہوئے اس نے ایسی ایسی اختراعات کرنے کی کوشش کی کہ وہ ہولناک جزئیات پیش ہی نہ آ سکیں۔ قدرتی طور پر آخر آخر وہ اسی نتیجے پر پہنچا کہ اس کے خدشات پورے ہو کر رہیں گے۔ اپنی بےآرام راتوں کے دوران وہ کسی نہ کسی طرح ہاتھوں سے وقت کے تیزی سے پھسلتے ہوئے مادے کو پکڑے رکھنے کی مشقت کرتا رہا۔ وہ جانتا تھا کہ وقت 29 تاریخ کی صبح کی جانب قطرہ قطرہ ٹپکتا چلا جا رہا ہے۔ اس نے باآوازِ بلند خود سے بحث کی: اب 22 تاریخ کی رات ہے۔ جب تک یہ رات باقی ہے (اور چھ مزید راتیں ابھی آنی ہیں) اس وقت تک میں ناقابلِ تسخیر اور لافانی ہوں۔ اسے نیند والی راتیں گہرے تاریک تالابوں کی طرح لگتی تھیں جن میں وہ ڈوب رہا ہے۔ کبھی کبھی وہ فائرنگ سکواڈ کی حتمی باڑھ کا بےصبری سے انتظار کرتا کہ اسے تخئیل کے جبر سے چھٹکارا دلا دے۔ 28 تاریخ کو جب آخری غروبِ آفتاب اونچی سلاخ دار کھڑکیوں میں جگمگایا تو اس کا خیال ان تمام پست وسوسوں سے بھٹک کر اپنے ڈرامے ’عدو‘ کی طرف چلا گیا۔
ہلادک کی عمر چالیس سے تجاوز کر چکی تھی۔ چند دوستوں اور بہت سی عادات سے قطعِ نظر اس کی تمام تر زندگی ادب کے مشتبہ مشغلے سے عبارت تھی۔ ہر ادیب کی طرح وہ بھی دوسرے ادیبوں کی خوبیوں کو ان کی کارکردگی سے جانچتا تھا اور چاہتا تھا کہ دوسرے اسے اس کے منصوبوں یا ارادوں سے پرکھیں۔ اس کی ہر کتاب نے اسے صرف اسے ایک پیچیدہ ندامت ہی میں دھکیلا تھا۔ بوہیم، ابن عذرا اور فلوڈ پر اس کا کام محض اس کی محنت کا نتیجہ تھے۔ سیفر یزیرہ کا ترجمہ بےتوجہی، تھکاوٹ اور قیاسات پر مبنی تھا۔ اس کا اندازہ تھا کہ ’ہمیشگی کا اثبات‘ شاید کم ناقص ہو گا: اس کی پہلی جلد انسانوں کی جانب سے وضع کردہ مختلف النوع ہمیشگیوں کی تاریخ ہو گی جس میں پارمیندیس کے ناقابلِ تغیر وجود سے لے کر ہنٹن کے قابلِ تغیر ماضی تک کے موضوعات شامل تھے۔ دوسری جلد (فرانسس بریڈلی کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے) اس بات کو ٹھکرائے گی کہ کائنات میں ہونے والے تمام واقعات وقت کے تسلسل کی تشکیل کرتے ہیں۔ اس کی دلیل یہ تھی کہ انسان کو پیش آنے والے ممکنہ تجربات کی تعداد لامتناہی نہیں ہے، اور صرف ایک ’تکرار‘ یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ وقت محض ایک مغالطہ ہے۔ بدقسمتی سے وہ دلائل جو اس مغالطے کو ظاہر کرتے ہیں، وہ خود کچھ کم غلط نہیں ہیں۔ ہلادک کی عادت تھی کہ وہ ایک متکبرانہ اضطراب کے ساتھ اپنے ذہن میں ان دلائل کو تولتا، ٹٹولتا رہتا تھا۔ اس نے کئی تاثراتی نظمیں بھی لکھ رکھی تھیں، اور مصنف کی جھنجھلاہٹ کے باوجود انھیں 1924 میں چھپنے والے ایک انتخاب میں شامل کر لیا گیا تھا جس کے بعد کوئی ایسا انتخاب نہیں تھا جس میں یہ نہ چھپی ہوں۔ ہلادک اس منظوم ڈرامے ’عدو‘ کے ذریعے اپنے مبہم اور مجہول ماضی کا ازالہ کرنے کے لیے بےتاب تھا۔ (وہ سٹیج پر دکھانے کے لیے منظوم تحریر کو ترجیح دیتا تھا کیوں کہ یہ تماشائیوں کو غیرحقیقی پن کو بھولنے نہیں دیتی، اور یہ بات آرٹ کی لازمی شرط ہے۔ )
اس المیے میں ڈرامائی وحدتیں (وقت، جگہ، عمل) برقرار رکھی گئی تھیں۔ یہ ڈراما ہرادکینی میں نواب رومرشٹاٹ کی لائبریری میں انیسویں صدی کی آخری شاموں میں سے ایک میں وقوع پذیر ہوتا ہے۔ پہلے ایکٹ کے پہلے سین میں ایک اجنبی رومرشٹاٹ سے ملنے کے لیے آتا ہے۔ (گھڑیال سات بجاتا ہے، ڈھلتے سورج کی تندی کھڑکیوں کے شیشوں کو عظمت بخشتی ہیں، ہوا مانوس اور شوخ ہنگیریائی موسیقی کی لہریں منتقل کرتی ہے۔ ) اس ملاقات کے بعد مزید ملاقاتیں ہوتی ہیں۔ رومرشٹاٹ ان لوگوں کو نہیں جانتا جو اس کے پاس کوئی نہ کوئی عرضی لے کر آتے ہیں، لیکن اسے یہ تکلیف دہ احساس ضرور ہے کہ اس نے انھیں پہلے بھی کہیں دیکھ رکھا ہے، شاید خواب میں۔ تمام ملاقاتی اس کی خوشامد کرتے ہیں، لیکن یہ خوشامد صاف دکھائی دیتی ہے۔ پہلے تو ڈرامے کے تماشائیوں کو، پھر خود نواب کو۔ یہ وہ آستین کے سانپ ہیں جو اسے برباد کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ رومر شٹاٹ کسی نہ کسی طرح ان کی پیچ در پیچ سازشوں کو مات دینے اور ان کو ٹالنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ مکالموں کے دوران اس کی منگیتر جولیا ڈی وائیڈینو اور ایک شخص جاروسلاو کوبن کا ذکر آتا ہے، جو ایک زمانے میں جولیا کا طلب گار رہ چکا ہے۔ کوبن اب ذہنی توازن کھو بیٹھا ہے اور سمجھتا ہے کہ وہ رومرشٹاٹ ہے۔ خطرات میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ دوسرے ایکٹ کے اختتام پر رومرشٹاٹ ایک فسادی کو قتل کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ تیسرا اور آخری ایکٹ شروع ہوتا ہے۔ تضادات بتدریج بڑھتے جاتے ہیں: وہ اداکار جو بظاہر ڈرامے سے رد کر دیے گئے تھے، دوبارہ نمودار ہو جاتے ہیں۔ وہ شخص ایک ثانیے کے لیے واپس لوٹ آتا ہے جسے رومرشٹاٹ نے قتل کر دیا تھا۔ پھر کسی کو خیال آیا کہ وقت آگے نہیں بڑھا: گھڑیال نے سات کا گھنٹہ بجا دیا، سورج کی کرنیں اونچی کھڑکیوں کے شیشوں سے منعکس ہو رہی ہیں، شوخ ہنگیریائی موسیقی ہوا میں تھرا رہی ہے۔ ڈرامے کا پہلا کردار دوبارہ نمودار ہو جاتا ہے اور وہ الفاظ دہراتا ہے جو اس نے پہلے ایکٹ کے پہلے سین میں ادا کیے تھے۔ رومرشٹاٹ ذرا بھر حیران ہوئے بغیر اس کو مخاطب کرتا ہے۔ تماشائی سمجھتے ہیں کہ رومرشٹاٹ وہی نکما جاروسلاو کوبن ہے، اور ڈراما کھیلا ہی نہیں گیا، بلکہ یہ محض کوبن کا دائروی ہذیان ہے جو مسلسل اس کے اندر وقوع پذیر ہو رہا ہے۔
ہلادک نے کبھی اپنے آپ سے یہ سوال نہیں کیا تھا کہ یہ الم-طربیہ احمقانہ ہے یا قابلِ ستائش، آمد ہے یا آورد۔ اس نے سوچا کہ ایسا پلاٹ اس کے عیب چھپانے اور خوبیاں ظاہر کرنے کے لیے سب سے مناسب اختراع ہے، اور اس کے اندر (علامتی طور پر) زندگی کے بنیادی معنی کو بازیاب کروانے کا امکان پنہاں ہے۔ اس نے پہلے ایکٹ اور تیسرے ایکٹ کے دو تین سین مکمل کر لیے تھے۔ ڈراما چوں کہ منظوم تھا اس لیے اسے مسودے کے بغیر بار بار قطع و برید اور وزن کی نوک پلک درست کرنے کا موقع ملتا رہتا تھا۔ اس نے دو نامکمل ایکٹوں اور اپنی آنے والی موت کے بارے میں سوچا۔ اس نے اندھیرے میں خدا کو مخاطب کیا۔ اگر میری واقعی کوئی ہستی ہے، اگر میں تمھاری نقل در نقل اور اغلاط ناموں کا حصہ نہیں ہوں، تو میں ’عدو‘ کے مصنف کی حیثیت سے وجود رکھتا ہوں۔ اس ڈرامے کو مکمل کرنے کے لیے، جو میرے وجود کی تائید ہو گا، جو تمھارے وجود کی تائید ہو گا، مجھے ایک مزید برس کی ضرورت ہے۔ مجھے ایک سال اور دے دو، تم، جو تمام صدیوں اور تمام زمانوں کے مالک ہو۔ یہ آخری، سب سے سفاک رات تھی، لیکن دس منٹ بعد نیند نے اسے ایک تاریک سمندر کی طرح آ کر اپنے اندر ڈبو دیا۔
صبح کے قریب اسے گمان گزرا کہ وہ کلیمینٹائن کے کتب خانے کے کسی ہال میں چھپ گیا ہے۔ تاریک چشمے پہنے ہوئے کتب خانے کے ناظم نے اس سے پوچھا: تم کیا تلاش کر رہے ہو؟ ہلادک نے جواب دیا: خدا کو۔ ناظم نے اسے بتایا: خدا کتب خانے کی چار لاکھ کتابوں کی کسی ایک جلد کے کسی ایک صحفے کے کسی ایک حرف میں ہے۔ میرے باپ اور میرے باپوں کے باپ وہ حرف کھوجنے کی جدوجہد کرتے رہے ہیں۔ میں اسے ڈھونڈتے ڈھونڈتے اندھا ہو گیا ہوں۔ اس نے اپنا چشمہ اتارا، اور ہلادک نے دیکھا کہ اس کی آنکھیں مردہ تھیں۔ ایک قاری ایک نقشوں والی کتاب واپس کرنے آیا۔ اس نے کہا، یہ کتاب بےکار ہے، اور اسے ہلادک کو تھما دیا۔ ہلادک نے اسے بیچ میں سے کھولا۔ اسے جیسے دھند میں سے ہندوستان کا نقشہ نظر آیا۔ تیقن کے فوری ریلے کے ساتھ اس نے ایک مہین سے حرف کو چھوا۔ ہر طرف موجود ایک آواز نے کہا: تمھارے کام کے لیے وقت عطا کر دیا گیا ہے۔ ہلادک جاگ گیا۔
اسے یاد آیا کہ انسانوں کے خواب خدا کی ملکیت ہوتے ہیں، اور یہ کہ ابن میمون نے لکھا تھا کہ جب خواب کے لفظ سارے الگ الگ اور شفاف ہوں اور انھیں کسی غیرمرئی وجود نے ادا کیا ہو تو وہ الوہی ہوتے ہیں۔ اس نے کپڑے تبدیل کیے۔ دو سپاہی اس کی کوٹھڑی میں داخل ہو گئے اور اسے اپنے پیچھے آنے کا حکم دیا۔
ہلادک دروازے کے پیچھے گزرگاہوں، سیڑھیوں اور راہداریوں کی بھول بھلیوں کا تصور کرتا رہا تھا۔ حقیقت اس سے کچھ کم دلچسپ تھی: وہ لوہے کی سیڑھیاں اتر کر ایک صحن میں آ گئے۔ بعض سپاہیوں کی وردیوں کے بٹن کھلے تھے اور وہ ایک موٹر سائیکل چلانے کی کوشش کر رہے تھے اور اس سلسلے میں ایک دوسرے سے بحث میں الجھے ہوئے تھے۔ سارجنٹ نے اپنی گھڑی دیکھی: وقت آٹھ بج کر 44 منٹ تھا۔ انھیں نو بجنے کا انتظار کرنا ہو گا۔ ہلادک حقیر سے زیادہ قابلِ رحم تھا۔ وہ لکڑیوں کے ایک گٹھے پر بیٹھ گیا۔ اس نے محسوس کیا کہ سپاہی اس سے نظریں ملانے سے کترا رہے ہیں۔ انتظار کی کوفت سے بچنے کے لیے سارجنٹ نے اسے سگریٹ تھما دیا۔ ہلادک تمباکونوشی نہیں کرتا تھا۔ اس نے خوش خلقی یا انکساری کے جذبے کے تحت سگریٹ قبول کر لیا۔ جب اس نے سگریٹ سلگایا تو دیکھا کہ اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ آسمان پر بادل امڈ کر آ رہے تھے۔ سپاہی دھیمے لہجے میں بات کر رہے تھے، جیسے وہ ابھی سے مر چکا ہو۔ اس نے خواہ مخواہ ہی اس عورت کو یاد کرنے کی کوشش کی جس کی علامت جولیا ڈی وائیڈینو تھی۔ ۔ ۔ فائرنگ سکواڈ قطار میں کھڑا ہو گیا اور اسے ’ہوشیار باش‘کروایا گیا۔ ہلادک بیرک کی دیوار کے ساتھ کھڑا ہو کر باڑھ کا انتظار کرنے لگا۔ کسی نے خدشہ ظاہر کیا کہ دیوار پر خون کے چھینٹے پڑ جائیں گے۔ معتوب کو حکم دیا گیا کہ وہ چند قدم آگے آ جائے۔ مضحکہ خیزانہ انداز میں ہلادک کو فوٹوگرافروں کے تصویر لینے سے پہلے کے طور طریقے یاد آ گئے۔ ہلادک کی کنپٹی سے بارش کا ایک قطرہ مس ہوا اور اس کے رخسار کی جانب آہستگی سے لڑھکنے لگا۔ سارجنٹ نے گرج کر آخری حکم دیا۔
مادی کائنات جامد ہو گئی۔
بندوقوں کی نالیں مڑ کر ہلادک پر تن گئیں، لیکن لبلبیاں دبانے والے سپاہی بےحس و حرکت تھے۔ سارجنٹ کے بازو نے ایک غیرمتعین اشارے کو ابدی بنا دیا۔ صحن میں لگے جھنڈے کے چبوترے پر ایک مکھی کا ساکن سایہ پڑ رہا تھا۔
ہوا رکی ہوئی تھی جیسے کسی پینٹنگ میں۔ ہلادک نے چیخنا شروع کیا، ایک صدا، ہاتھ کا خم۔ اس نے محسوس کیا کہ وہ مفلوج ہو چکا ہے۔ اس تک مضروب دنیا کی کوئی آواز نہیں پہنچ رہی تھی۔
اس نے سوچا: میں جہنم میں ہوں، میں مر چکا ہوں۔
اس نے سوچا: میں پاگل ہو چکا ہوں۔
اس نے سوچا: وقت تھم گیا ہے۔
پھر اس نے غور کیا کہ اس صورت میں اس کی سوچیں بھی تھم جانی چاہیے تھیں۔ وہ اس امکان کا تجربہ کرنے کے لیے متجسس تھا۔ اس نے (ہونٹ ہلائے بغیر) ورجل کا چوتھا پراسرار گیت دہرایا۔ اس نے تصور کیا کہ پہلے ہی سے الگ تھلگ سپاہی بھی اس کے اضطراب میں شریک تھے۔ اس کے دل میں ان سے بات کرنے کی تمنا جاگی۔ وہ اس بات پر حیران تھا کہ اسے نہ تو تھکاوٹ محسوس ہو رہی تھی، اور نہ ہی اپنے طویل جمود سے چکر آ رہے تھے۔ پتہ نہیں کب اس کی آنکھ لگ گئی۔ جاگنے پر اس نے دیکھا کہ دنیا ابھی تک بےحرکت اور سُن ہے۔ بارش کا قطرہ اب تک اس کے گال سے چمٹا ہوا ہے۔ مکھی کا سایہ ابھی تک نہیں سرکا، اس نے زمین جو سگریٹ گرایا تھا اس کا دھواں ابھی تک نہیں لہرایا۔ جب بات ہلادک کی سمجھ میں آئی تو ایک اور ’دن‘ بیت گیا تھا۔
اس نے خدا سے اپنا کام مکمل کرنے کے لیے پورے سال کی دعا مانگی تھی، اس کی قدرتِ مطلق نے اسے وہ وقت عطا کر دیا تھا۔ اس کی خاطر خدا نے ایک مخفی معجزہ دکھا دیا تھا: جرمن سیسہ اسے مقررہ وقت پر ہلاک کر دیتا لیکن اس کے ذہن میں فائر کے حکم اور اس کی ہلاکت کے درمیان ایک سال گزرے گا۔ وہ الجھن سے سکتے میں، سکتے سے تسلیم، اور تسلیم سے یک لخت سپاس گزاری کی کیفیت میں آ گیا۔
اس کے پاس سوائے اپنی یادداشت کے کوئی کاغذ نہیں تھا۔ ہر تخلیق کردہ بند نے اس پر ایک مبارک نظم و ضبط لاگو کر دیا تھا جس کا وہ اناڑی تصور بھی نہیں کر سکتے جو اپنی مبہم اور لمحاتی تحریریں بھول بھول جاتے ہیں۔ اس کا کام آنے والی نسلوں کے لیے نہیں تھا، نہ ہی خدا کے لیے، جس کے ادبی ذوق کے بارے میں وہ کچھ نہیں جانتا تھا۔ جزرس، غیرمتحرک، رازدارانہ، وہ وقت کے اندر اپنی نادیدہ، فلک بوس بھول بھلیاں بنتا رہا۔ اس نے تیسرا ایکٹ دو بار لکھا۔ اس نے بعض ضرورت سے زیادہ واضح علامتیں کاٹ دیں: گھڑیال کا بار بار بجنا، موسیقی۔ اسے کسی بات سے دریغ نہیں تھا۔ وہ کاٹتا، چھانٹتا، بڑھاتا گیا۔ کبھی کبھی وہ پرانا متن ہی برقرار رکھتا۔ اسے صحن اور بیرک سے انس پیدا ہو چلا تھا۔ اپنے سامنے موجود ایک چہرے کو دیکھ دیکھ کر اسے رومرشٹاٹ کے کردار کے تصور میں تھوڑی سی ترمیم کرنا پڑی۔ اس نے دریافت کیا کہ وہ چنگھاڑتی آوازیں جو فلابیئر کے لیے اس قدر تکلیف دہ تھیں، وہ محض بصری وہم ہیں: وہ محض لکھے ہوئے لفظ کی ناتوانیاں اور جھنجھلاہٹیں ہیں، نہ کہ بولے جانے والے لفظ کا شور۔ ۔ ۔ اس نے اپنا ڈراما ختم کر لیا: اب اسے فقط ایک نام کی ضرورت تھی۔ جو اسے مل گیا: بارش کا قطرہ اس کے رخسار سے پھسلا۔ اس نے ایک وحشیانہ چیخ ماری، اس کا منھ ایک طرف کو پھر گیا۔ ایک چہارگانہ دھماکے نے اس کے قدم اکھیڑ دیے۔
جارومیر ہلادک 29 مارچ کو صبح نو بج کر دو منٹ پر مر گیا۔
٭٭٭

اردو والے/زمرد مغل

میں شروع میں ہی یہ بات واضح کردوں کہ اردو والوں سے میری مراد ہندوستان میں بسنے والوں سے ہے اور وہ اردو والے میری گفتگو کا موضوع ہیں جو مسلمان ہیں۔
مجھے نہیں لگتا کہ اردو معاشرے میں کبھی بھی حالات بہتر رہے ہوں گے، آج سے پہلے کے حالات خراب ضرور تھے مگر آج سے بہتر تھے اتنا تو کہا ہی جاسکتا ہے۔مفاد پرست پستہ قد عناصر کا بول بالا پہلے بھی رہا ہوگا مگر جینوئن لکھنے والوں نے ہمیشہ خراب لکھنے والوں کو Discourageکیا ہے۔علاقائیت کا آسیب اردو کی رگوں میں سرایت کرچکا ہے۔مشاعرہ بازبھانڈ دندناتے پھررہے ہیں اردو کے اچھے اور بڑے ادیبوں کو ذلیل و خوار کیا جارہا ہے۔ایک خطے کے لوگ جو پستہ قد بھی ہیں ، نوازے جارہے ہیں۔اردو ختم کرنے کی خبروں کی سازش کا نعرہ بلند کرنے والے لوگ ہی اردو کا گلا گھونٹنے میں مصروف ہیں۔اس کی کم ظرفی نے اردو کو مسلمانوں کی زبان بنیادیا تھا اب وہی کم ظرفی اردو کو ایک خاص خطے کے ایک خاص طبقے کی زبان بنانا چاہتی ہے۔ایسا لگتا ہے کہ اردو والے اردو کو دفنانے کی پوری تیاری کرچکے ہیں۔اللہ ایسے اردو والوں سے اردو کو بچائے
اب صورت حال اس قدر سنگین ہوگئی ہے کہ ذات پات کو مذہبی فرقہ پرستی کی طرح برتا جارہا ہے۔علاقائیت کی تباہی اور بربادی کی داستان اس سے زیادہ بھیانک ہے۔ملک پرستی کی وبا، مذہب کی چار دیواری کو پھلانگ کر اردو کے آنگن میں فتنہ برپا کررہی ہے۔اپنی ذات، اپنا خطہ، اپنا ملک، اپنے لوگ۔دو کوڑی کا ادب تخلیق کرنے والوں پر انعام و اکرام کی بارش ہورہی ہے۔یہ سلسلہ دوسرے مذہب کے لکھنے والوں کے ساتھ زیادتی سے شروع ہوا تھا۔آہستہ آہستہ اس نے ایک ہی مذہب کے ماننے والوں کے بیچ بھی تفریق کرنی شروع کی اور نتیجہ ہمارے سامنے ہے کہ اردو کا دائرہ سمٹتا ہوا کہاں آن پہنچا ہے۔اس وقت ہندوستان میں ہمارے بزرگ لکھنے والے جنہوں نے کچھ اچھا ادب بھی تخلیق کیا ہے، انہی نے خراب لوگوں کو پروموٹ کرنا شروع کردیا ہے جس سے ظاہر ہے نقصان ادب کا ہی ہونا ہے۔مسلمانوں نے جو حشر مذہب کا کیا تھا اس زبان کے ساتھ ان کا رویہ بھی ویسا ہی ہے۔یونیورسٹیز کی سطح پر تعلیم کے نام پر طالب علموں کو اپنے گروہ میں شامل کیا جاتا ہے۔اگر یہی صورت حال رہی تو وہ دن دور نہیں جب پی۔ایچ۔ڈی میں داخلہ بھی فوج میں بھرتی کی طرح ہوا کرے گا کہ کون جسمانی طور پر کتنا تندرست ہے۔
اردو والے اردو کے وجود کے تعلق سے فکر مند رہتے ہیںاردو کے خلاف ہورہی سازشوں کا پردہ فاش کرنے کا فریضہ بحسن و خوبی انجام دیتے رہتے ہیں۔اردو کی مٹھاس پر گھنٹوں لکچرز دیتے رہتے ہیں۔مشاعرے کے پنڈالوں میں راتیں گزار دیتے ہیں۔اپنی اپنی ذات برادری والوں پر یا پھر ان پر سیمینار بھی منعقد کراتے رہتے ہیں جن سے ان کے مفادات وابستہ ہوتے ہیںاور جب ان سب باتوں کے باوجود اردو کی گاڑی حرکت میں نہیں آپاتی تو تو اردو کا رونا رونا شروع کردیتے ہیں ۔اچھے اور بڑے ادب کو صرف اس لیے نظر انداز کرنا کہ اس کا خالق میرا چچا بھی لگتا یا میرے مذہب سے بھی تعلق رکھتایا مجھے پروفیسر بھی بنوا سکتا یا مجھے ایوارڈ بھی دلوا سکتا اور پھر ٹٹ پنجییوں کے سہارے ترقی کی منزلیں طے کرنے کے خواب دیکھنا کم ظرفی کی دلیل ہوا کرتی ہے۔باقی سب چیزیں تبھی ہوسکتی ہیں جب ہمارے پاس اچھا اور بڑا تخلیق کار ہو اور اس کے سات ساتھ ذہین قاری بھی ہو۔تمام مخالفین کی حرکات و سکنات کا جواب بھی یہی ہے اور تمام مخلصین کے لیے کامیابی کا نسخہ بھی یہی۔ہمارے سامنے زندہ مثال ریختہ کی ہے جس نے چند برسوں میں وہ انقلاب برپا کیا ہے جس کا تصور بھی احتیاط ادراک سے باہر تھا۔
باتیں بہت کرنی تھیں مگر طبیعت کچھ دنوں سے ناساز ہے۔یہ چند باتیں جو گوش گزار کرپایا ہوں صرف تصنیف حیدر کی محبت کی وجہ سے ورنہ اس وقت اتنا لکھنا بھی میرے لیے کافی مشکل تھا۔آئندہ پھر اس مسئلہ پر ضرور لکھوں گا مگر تب تک آپ حضرات بھی غور کریں کہ اگر ایسے ہی چلتا رہا تو اردو کے اس معاشرے میں کون سانس لینا چاہے گا، سوچیے گا ضرور!
٭٭٭

اویناش مشرا کی نظمیں

کویتا باز

جیسا کہ وہ چاہتا تھا اپنے ایک شعری مجموعے کو شائع کرنے کے بعد کہ اسے پڑھا اور سمجھا جائے جبکہ پڑحنے اور سمجھنے لائق ساڑھے چار لاکھ سے اوپر کتابیں تھیں نگر کے بیچو بیچ موجود اس لائبریری میں جہاں وہ ہر روز تین بسیں بدل کر پہنچتا تھا یہ غور طلب ہے کہ کبھی بھی اسے بس میں سیٹ نہیں ملی تھی وہ گیارہ سالوں سے کھڑا ہوا تھا خود کو کبھی پربت کبھی پیڑ کبھی لیمپ پوسٹ سمجھتا ہوا وہ اس بناوٹ سے بہت دور تھا درخواست کو جو ضروری سمجھتی ہے وہ گیارہ سالوں سے روز تین بسیں بدل بدل کر کھڑے کھڑے نگر کے بیچو بیچ موجود اس لائبریری میں جہاں ساڑھے چار لاکھ سے اوپر کتابیں ہیں، صرف یہ جاننے کے لیے آرہا ہے کہ اس کا شعری مجموعہ اب تک کسی نے ایشو کرایا یا نہیں، لائبریرین کہتا ہے کہ وہ مرگیا لیکن وہ اب بھی آرہا ہے پہلے کی طرح۔۔۔
٭٭٭

پروف ریڈرز

وہ عینک لگاکر سوتے ہیں
غلطیوں کے خواب آمیز، آفاقی اور بے انت وستار میں
وہ ادیبوں کی طرح لگتے ہیں
مہاکاویوں کی غلطیاں جانچتے ہوئے
اس سنسار کے نہ ختم ہونے والے روز و شب کے لاتعداد اسباق کے بیچ
وہ مستقل ایک المیے میں گرفتار ہیں
وہ سب کتابیں وہ پڑھ چکے ہیں جو میں پڑھوں گا
وہ سب جگہیں وہ سدھار کر رکھ دیں گے ایک دن
جو میں نے بگاڑ کر دکھ دی ہیں
وہ بیک وقت میری گزشتہ اور آئندہ نسل سے تعلق رکھتے ہیں
٭٭٭

آزادئ اظہار ، پلیخانوف اور ہم/صلاح الدین درویش

جارج پلیخانوف نے ’رائے‘ کے حوالے سے بڑی پتے کی بات کی تھی، اس کا کہنا تھا کہ یہ جو اکثر منہ پھاڑ کر کہہ دیا جاتا ہے کہ دنیا پر رائے حکومت کرتی ہے۔ایک ایسا پرمزاح جملہ ہے کہ جس سے لطف صرف وہی لے سکتے ہیں کہ جن کو یقین ہوتا ہے کہ دنیا ان کے بارے میں ’مناسب‘ رائے رکھتی ہے اور یہ کہ وہ اس قابل ہیں کہ ان پر ’رائے زنی‘ کی جاسکے۔یہی وجہ ہے کہ ایسے دانش مند لوگ صائب الرائے مفکرین کا دل سے احترام کرتے ہیں اور اکثر ان کی رائے کو اپنے احباب میں تشہیر کرتے رہتے ہیں کہ دیکھیے وہ کس قدر اہمیت کے حامل ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ ایسے لوگ ایک ایسی دنیا کے باشندے ہوتے ہیں کہ جو صرف رائے ہی کو اپنی زندگی کی مادی سچائی کا بدل سمجھ بیٹھتے ہیں۔رائے ایک لفظ سے لے کر چند جملوں یا پھر کئی جلدوں پر مبنی کتاب پر مشتمل ہوسکتی ہے۔یہ رائے تحریر کی صورت بھی ہوسکتی ہے اور تقریر کی صورت میں بھی۔ہر دو صورتوں میں رائے الفاظ کا ایک ایسا گورکھ دھندہ ہوتا ہے کہ جس کی روح تک پہنچتے پہنچتے قاری یا سامع اپنے اطراف کی مادی دنیا سے قطع نظر کرچکا ہوتا ہے اور پیش نظر رائے کی گہرائی اسے حیرت میں مبتلا کیے رکھتی ہے کہ یار! بڑی بات ہے کہ اپنے شب و روز کے اعمال کی دنیا جس میں وہ مصروف کار رہا حیف صد حیف وہ اس سے کس قدر بے خبر رہا، میں بھی کتنا جاہل اور نالائق انسان واقع ہوا ہوں، اپنے آپ پر لعنت خوانی کے بعد صاحب الرائے کی عزت اور توقیر اس کے دل میں دو چند ہوجاتی ہے۔
پلیخانوف کا نیم سنجیدہ ٹھٹھہ ہم سے تھوڑی وسعت معنی کا تقاضہ کرتا ہے۔وہ یہ ہے کہ عام طور پر بلکہ اکثر خاص طور پر آزادئ اظہار سے مراد یہ لیا جاتا ہے کہ ہمارے ادیب ، دانشور، صحافی ، شاعر اور لیڈر کس قدر آزادی کے ساتھ اپنے رائے کو ان لوگوں کے سامنے پیش کرسکتے کہ جن کے سامنے پیش کرنا وہ ازحد ضروری خیال کرتے ہیں۔ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں ہونہ ہو لیکن لیڈر کی رائے میں سب کی رائے ازخود شامل ہوجاتی ہے۔وہ کیونکہ ’قومی امنگوں‘ کا ترجمان ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ قوم اس وقت سڑکوں اور بازاروں میں نکل پڑتی ہے جب کوئی عاقبت نا اندیش حکمراں ضروری نہیں کہ وہ آمریت کا پروردہ بھی ہو ایسے مقبول عوامی لیڈر کی زبان بندی کو قانون قرار دے دیتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ لوگ اپنے لیے اظہار کی آزادیاں مانگنے کی بجائے اپنے لیڈر کی زبان بندی کو توڑنے کے لیے جان و مال کی قربانیاں دینے پر ہر وقت تیار بیٹھے رہتے ہیں۔لیڈر جو کہ اظہار کی آزادی کی بے پایاں تڑپ اور جستجو کا معرکۂ حق و باطل سجھ لیا جاتا ہے کہ ایک فرد کی زبان کھلنے سے گویا سب کی زبانوں پر پڑے تالے ایک ایک کرکے کھلتے چلے جائیں گے۔لیڈر، دانشور یا صحافی کی زبان کھلتے ہی ان پر یہ حیرت انگیز انکشاف ہوتا ہے کہ جس کے لیے انہوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے ، جب اس کی زبان کھلی تو پتہ چلا کہ صاحب کی رائے انتہائی بودی اور سطحی نکلی۔اس کے مطالعے اور مشاہدے کی قوت نے جو کچھ بھی ’دریافت‘ کیا ، وہ ان کے ضمیر کی آواز کی پوری ترجمانی سے قاصر ہے۔
فرد واحد کے جسم و جاں جماعت کا بوجھ اٹھانے سے عاری ہےوہ ایک مرتبہ پھر اپنے کسی نئے ترجمان اور قائد کی جستجو میں جٹ جاتے ہیں کہ جو ان کے بارے میں صحیح صحیح رائے قائم کرنے کا ملکہ رکھتا ہو۔لطیفہ یہ ہے کہ لوگ اپنی زندگی کی مادی اور ٹھوس حقیقتوں کو بھی ایک ’رائے’کے طور پر دیکھنے کی شدید آرزو رکھتے ہیں۔ان کا ایمان کامل ہے کہ ’رائے’اگر چاہے تو ٹھوس اور مادی حقیقتوں کو توڑ پھوڑ کرنئے سرے سے از خودبدلنے کی اہلیت اپنی ’ذات‘ میں رکھتی ہے۔صائب الرائے لوگوں کا احترام اس قدر دلوں میں گھر کرچکا ہوتا ہے کہ وہ کسی بھی مادی حقیقت یا مادی سچائی کو بدلنے کے لیے کسی مادی سرگرمی کو بروئے کارلانے کے بارے میں سوچنا بھی گناہ سمجھ لیتے ہیں۔
پلیخانوف بے چارے پرولتاریوں کو یہ سمجھاتے سمجھاتے مرکھپ گیا کہ تم جن تحریروں اور تقریروں کی عظمت کو اپنے سینے سے لگائے سرخ جھنڈے اٹھائے زندہ باد زندہ باد کے فلک شگاف نعرے لگاتے پھررہے ہو ان کی ’رائے’ اور اس کا بیانیہ شکوہ تمہاری ذلتوں اور محرومیوں کا مداوا نہیں ہے۔تم جیسے ’حال‘ میں ہو، وہ تمہارا ’فعل ‘ ہے، کوئی ’رائے‘ نہیں ہے۔مجھے دھتکاراجارہا ہے کہ میں ان عظیم تحریروں اور تقریروں میں موجود ’رائے‘ کو ٹھوس حقیقت نہیں سمجھتا۔میری ان باتوں پر فحش لطیفے گھڑے جاتے ہیں تاکہ تمہیں مجمع عام میں خوب زور زور سے ہنسنے کا نادر موقع فراہم کیا جاسکے۔
’تاریخ کے مادی تصور‘کو تاریخ کی مادی حقیقت کیوں نہیں کہا جاتا؟ یہ وہ اہم ترین سوال ہے کہ جو پلیخانوف کا بھیجا چاٹ گیا۔گویا تاریخ بطور علم ایک تصویر ہے یا کوئی رائے ہے کہ جس کا عقل کی حقیقتوں سے تصورانہ یا رائگانہ تعلق ہے تاریخ کو یوں موجود سے اگر الگ کردیا جائے تو پھر تاریخ بطور علم اپنا وجود کھو بیٹھے گی۔جس اظہار کی آزادی کو تاریخ بطور علم بروئے کار لاتی ہے وہ ایک ایسی حقیقت کی دریافت ہے کہ جس کے بارے میں تاریخ کے کسی مخصوص عہد کے لوگ آگاہ نہیں تھے۔مثلاً جب ہم کہتے ہیں تابناک ماضی تو اس رائے سے مراد زندہ حال کے مردہ پن کو اجاگر کرنا ہوتا ہے۔مقصد اس کے سوا کچھ نہیں ہوتا کہ حال میں جینے والوں کی اس رائے کے ذریعے ۔۔۔۔کی جاسکے۔تم مردود اور راندۂ درگاہ ہو، ذلت اور پسپائی تمہارامقدر ہے۔آؤ دوبارہ صاحبان رائے کے عظیم فرمودات کی طرف لوٹ چلتے ہیں ۔کچھ عظیم ہستیوں کے عظیم ترین فرودات کہ جن کے بطن سے ایک تابناک عہد کا ظہورہوا۔گویا لوگ ان فرمودات کو سنتے تھے اور اپنی زندگیوں میں ان کے نورانی معجزات کوعملی طور پر دیکھتے تھے۔ایسے فرمودات اور ان کے نورانی معجزات کو تاریخ کا مادی تصور کہا جانا ضروری تھا۔دوسری طرف تاریخ کی حقیقت مادی حقیقت ہے کہ جو اپنے دائرہ کارو اختیار میں عظیم فرمودات کو درخور اعتنا جانے بغیر ہی یہ دکھادیتی ہے کہ عدلیہ، مقننہ اور انتظامیہ کے عمارات، ان کے تفویض کردہ قوانین اور ضابطے اور ان کے کاسہ لیسوں کے اطراف و جوانب میں ان قوانین اور ضابطوں سے بے نیاز زندگی گلیوں اور محلوں میں اپنے مخصوص ڈھنگ سے رینگ رہی ہیں، ان کی غربت اور پس ماندگی کا مداوا شاہی فرمان اور ضابطے محض اس لیے نہیں کرسکتے ہیں کیونکہ جن گلیوں، گھروں اور بازاروں کے وہ مکین تھے ان کا انفراسٹرکچر ان کی پست معاشی حالت اور حیثیت کا تعمیرکردہ تھا۔سپرسٹرکچر کی کوئی بھی رائے ، فرمودہ یا تابناک قانون ان کی اس حالت یا حیثیت کی تشکیل نوکرنے کی تحریری یا تقریری صفت کی بدولت مادی سرگرمی سے محروم تھا۔دوسری طرف سپر سٹرکچر کی لباس فاخرہ کو گندی اور غلیظ گلیوں میں جا کر گندگی اور غلاظت کا ڈھونا غیر منظور بھی تھا۔
تاریخ اپنے ہر دور میں چند مادی حقیقتیں ضرور رکھتی ہے۔مثلاًامرا اور حکمران طبقوں کے محلے، شہر،چوک، چوراہے، باغات، محلات اوردوسری طرف فریاد کی بستیاں، تنگ و تاریک گلیاں ، بیماری، بھوک اور موت کا رقص۔ ایسی بستیوں کے مکینوں کو ظلم، ناانصافی اور عدم مساوات کے خلاف احتجاج کا حق دے بھی دیا جائی، انہیں ووٹ کی قدر سے آگاہ کر بھی دیا جائے یا آزادی اظہار کی بھرپور آزادی دے بھی دی جائے تو کیا وہ تمدنی پس ماندگی سے باہر نکل سکیں گے؟ حد تو یہ ہے کہ حکمران بھی ان کی آزادی اظہار کی دل و جان سے قدر کرتے ہیں ،ایسا کرنے سے ان کا کچھ نہیں بگڑتا،وہ کہتے ہیں کہ مال لگاؤ، کچھ نہ کچھ اصلاح احوال کی تدبیر نکالتے ہیں ،غریبوں کے پاس مال کہاں سے آئے ، مال ہو تو ان کا شمار بھی امرا میں نہ ہوتا!!!انہیں غریبوں سے مال کے بدلے میں مزید محنت، مزید مشقت اور مزید قربانیاں با آسانی مل جاتی ہیں کہ جن کے عوض ان فریبیوں کے غلیظ چکر کوجاری رکھنے میں معاونت ہوجاتی ہے کہ جیسے یہ سب اپنے حقوق کا تحفظ گردانتے ہیں ۔
یہ بات تو ہمارے بھکشو الطاف حسین حالی بھی جانتے تھے کہ گورنمنٹ یا حکمرانوں کی طرف سے رعایا کی ترقی اور خوشحالی میں کوئی بھی چیز رکاوٹ کا باعث نہیں ہوتی، لوگ اگر گورنمنٹ کی دی ہوئی آزادی،گنجائشیں یا سہولت کو کام میں لاتے ہوئے اپنے علاقے، محلے یا شہر کے لیے از خود شفاخانے، سکول، لائبریریاں، سرائیں یا بہبود کے دیگر ادارے اپنی ضرورت اور اشتراک و تعاون کے تحت قائم کرسکتے ہیں تو پھر کسی دوسرے مثلاً گورنمنٹ کی عنایات کے منتظر کیوں ہیں؟انگریز سرکار سے نفرت اور انتقام کا اس سے زیادہ عمدہ طریقہ کیا ہوسکتا ہے کہ اس کی طرف نگاہ اٹھائے بغیر اپنے اپنے قویٰ کا بہترین مصرف ڈھونڈ نکالا جائے۔کسی بھی ضرورت کو پورا ہونے کے لیے مادی وسائل کی بے حد طلب ہوتی ہے، اکثر ضرورت پوراکیے بغیر کوئی چارہ بھی نہیں ہوتا، چنانچہ لوگ اظہار کی آزادی کو زبانی جمع خرچ سمجھنے کی بجائے مادی وسائل کی جمع بندی کرتے ہیں اور اپنے آزادانہ اظہار کی مادی صورت گری پر قادر ہوجاتے ہیں ۔ غریبوں کی بتدریج مادی ترقی اور خوشحالی سے ریاست اور سیاسی نظم و نسق سدھرتا اور ترقی کرتا چلا جاتا ہے۔یہاں تک کہ ریاست خود اپنی پس ماندگی سے نکلنے کے لیے پبلک پرائیوٹ معاہدوں پر آمادہ ہوجاتی ہے۔پلیخانوف بھی شاید یہی کہنا چاہتا تھا کہ حقوق کے حصول کی جنگ بادشاہوں سے نہیں لڑی جاتی بلکہ اس کا کھلا محاذ خود غریبوں کی ہستی ہوتا ہے۔آزادی اظہار کے شیدائی اور فدائی اپنی رائے کے بموجب مخلوق خدا کو شاہی توپوں کے دہانے پر باندھ آتے ہیں۔وہ غریبوں میں رہ کر غربت کے خلاف مادی سرگرمیوں میں حصہ لینے کو اپنی ذہانت سمجھتے ہیں۔
اظہار کی آزادی کے کچھ مشغلے بھی ہیں ۔مثلاً یہ کہ تمام طبقات ، گرہوں ،نسلوں اور مذاہب اور ثقافتوں کو فروغ پانے کے لیے مکمل آزادی ہو۔لیکن اس کے لیے شرط یہ ہے کہ ان کا کوئی عمل، رائے، تحریر یا تقریر دوسرے کی دل آزاری کا باعث نہ بنے۔چنانچہ ہر طبقہ، گروہ یا جماعت آزادی کے اس قانون پر جھوم جھوم اٹھتا ہے، اپنے لسانی، مذہبی یا ثقافتی تحفظ کے ادارے بناتا ہے اور سمجھتا ہے کہ دوسروں کے لیے وہ کسی بھی قسم کی دل آزاری کا باعث نہیں بن رہا۔یادرہے کہ گروہی، نسلی، ثقافتی، مذہبی یا لسانی تحفظ کا براہ راست تعلق کسی دوسرے فریق کے ساتھ مسابقت کا ضرور ہوتا ہے۔اس کے نتیجے میں سیاسی اور معاشی حقوق کا تحفظ پس منظر میں کہیں رہ جاتا ہے اور مختلف شناختیں اپنے قیام اور تحفظ کے لیے ’رائے عامہ‘کی صورت اختیار کرلیتی ہیں۔لوگ تھوڑے ہی عرصے میں اپنے سیاسی اور معاشی مفادات کو بھول کر اور اس سلسلہ میں اپنی مادی سرگرمیوں کو تیاگ کر اپنی اپنی ’رائے‘کو منوانے کے لیے ایک دوسرے پر چڑھ دوڑتے ہیں۔مندر اور مسجد کا قضیہ غربت ،پس ماندگی، غلاظت اور گندگی کے مسائل پر ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر مینار تعمیر کرنے میں اپنی تمام تر صلاحیتوں اور لیاقتوں کو کھپادیتا ہے۔پھر یہ سوچنا کہ اس نوع کی اظہار کی یہ آزادی داخلی طور پر خود مختار ریاست کو معاشی طور پر مضبوط بنانے میں مدد دے سکتی ہے، ایک ڈراونا خواب ہے کہ جو تیسری دنیا کے بیشتر ممالک میں حقیقت کا روپ دھار چکا ہے۔
معاشی ترقی کے پورے ہوتے اہداف ایسی تمام شناختوں کو دباتے دباتے ان کا ایک نہ ایک روز جنازہ ضرور نکال دیتے ہیں کہ ان کی باقیات کو ’دوسرے’اپنے ڈرائنگ روم کی زینت بنانے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ صحت، تعلیم، روزگار، تفریحی مشاغل غرض سب ضروریات کا حصول صرف بازار سے خرید کر ممکن ہوپاتا ہے، ان کی ضروریات یا درد کا مداوا ان شناختوں یا ان کے مہابیانیوں میں نہیں ہے۔
بھلا ہو مارکسیوں کاکہ جو طبقے کی ضروری لڑائی یا خلفشار کو Horizontal Violence(طبقاتی بربریت)کہتے ہیں، لیکن اس کا سہرا بالا دست طبقات کے سر باندھ دیتے ہیں کہ وہ اپنے مفادات کے لیے ان جاہلوں اور بے وقوفوں میں سازشیں کرکے پھوٹ ڈالتے رہتے ہیں ،جبکہ اس نام نہاد سچائی کو خود طبقے میں موجود افراد کے آپسی مفادات اور معاملات میں دیکھا جانا چاہیے۔غریب کسی امیر کی حمایت میں ایک دوسرے کا گلا نہیں کاٹتے بلکہ سماجی جرائم کی اندھیر نگری خود یہی طبقہ ہوتا ہے کہ جسے مارکسیوں کے نزدیک کسی ’نجات دہندہ‘مثلاً لینن کی ضرورت ہوتی ہے۔یہ نجات دھندہ اپنی واسکٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈال کر اور تھوڑا آگے جھک کر اپنی رائے کا بیانہ جاری کرتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے افلاس کے مارے جھگڑالو، چور اور جیب کترے شیر و شکر ہوجاتے ہیں۔نہیں، بلکہ یہ طبقہ اپنے معروض کا مادی شعور لینن سے کہیں زیادہ رکھتا ہے کیونکہ وہ اسے سہتا اور اس میں بستا ہے، تبدیلی یا انقلاب اس کی اپنی ضرورت ہوتی ہے نہ کہ نجات دھندہ کی رائے۔جب یہ ضرورت معروضی سیاق و سباق میں ابھری ہے تو اکثر نجات دھندے چور راستوں سے اندر گھس بیٹھتے ہیں۔نجات دھندوں کے چوراہوں پر مجسمے ایستادہ ہوجاتے ہیں تاکہ اپنے عز م و استقلال اور عظیم ترین قربانیوں سے حاصل ہونے والی کامیابیوں پر ان کے حضور چڑھاوے چڑھاسکیں۔
کہا جاتا ہے برے حکمران عوام الناس کی ذات اور عاقبت نااندیشی کے ترجمان ہوتے ہیں۔یعنی عوام اچھے ہوتے تو حکمران بھی صالح اور شریف النفس ہوتے۔حالانہ برے حکمران صرف اس لیے برے ہوتے ہیں کہ برائی ان کے مفادات کا تحفظ کرتی ہے، اگر وہ اچھے اور سچے انسان ہوتے توبری عوام کو سدھارنے کے سو جتن کرنا پڑتے، بری عوام سے توقع ہی کیا؟چنانچہ جُز مایوسی کے نیک حکمرانوں کو کچھ حاصل نہ ہو پاتا۔ایسے حکمرانوں کے پاس نیکی کی ترغیبات ہوتی ہیں جسے آپ ان کی نیک آرا ہی سمجھیں ۔ عوام ہاں میں ہاں ملاتے ہیں، آزادی کے نغمے الاپتے ہیں اور جیسے ہی ان آرا یا ترغیبات کا خمار اترتا ہے لوگ اپنے ڈھرے پر آجاتے ہیں، یعنی وہی غربت، افلاس اور کمینگی میں صبح و شام کرنا۔زندگی کی ٹھوس سچائیاں اپنے جلو میں وہ مادی وسائل نہیں رکھتیں کہ جن کے پیش نظر گلی کا ابلتا گٹر شانت ہوسکے۔فرد کی آزادی سے مراد یہی سمجھا جاتا ہے کہ منہ بھر کر حکمرانوں کی نالائقی پر واویلا مچایا جائے اور گٹر اس لیے ابلنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے کہ کمیونٹی کے اشتراکی مسائل فرد کی آزادی اور اس کے اظہار کو مسدود اور محدود بنادیتے ہیں۔اشتراکی مسائل، جب زیادہ ہی سر اٹھانے لگتے ہیں تو عوام مذاکرات کی میز پر حکمرانوں کو گریبانوں سے گھسیٹ لے آتے ہیں اور خود پیشاب کے بہانے غسل خانے کی کھڑکیوں سے باہر نکل جاتے ہیں ،کوئی دل جلا پکار اٹھتا ہے کہ یارو!ان حرامیوں کے درمیان بیٹھے بیٹھے میرا تو دم گھٹنے لگا تھا، یہ سفارشی،کرپٹ، بے ایمان اور قومی خزانے کو لوٹنے کے سوا آئین اور قانون سے کوئی دوسرا کام لے ہی نہیں سکتے!! اف ف ف !!!
٭٭٭

مصعب اقبال کی نظم 

(ترجمہ: آنند سنگھ)

میرے جوتے کو بچاکر رکھنا
سنبھال کر رکھنا اسے کل کے لیے
ملبے کے بیچ دم توڑ رہے کل کے لیے
میرے جوتے کو بچا کر رکھنا
غم کے میوزیم کے لیے
اس میوزیم کے لیے میں دے رہا ہوں اپنے جوتے کو،
خون سے سنے جوتے کو
اور مایوسی میں ڈوبے میرے لفظوں کو
اور امید سے لبریز میرے آنسوئوں کو
اور سناٹے میں ڈوبے میرے درد کو
سمندر کے کنارے سے میرے فٹ بال کو بھی اٹھالینا
یا شاید اس کے کچھ حصوں کو جن پر خون کے دھبے نہیں
ایک مہاشکتی کی کایرتا کے دستخط ہیں
میرا ذہن اس بم کے خول میں سیل بند ہے
سوگ کی گونج میں، الوداعی بوسے میں
زندگی کا ہر رنگ زہریلا ہے
اور جان لیوا کیمیکلز کے بادل ہر خواب کا دم گھونٹ رہے ہیں
وہ تصویریوں جو تمہیں رات میں پریشان کرتی ہیں
اور دن میں جب تم ہمارے بارے میں پڑھتے ہو (آرام فرماتے ہوئے)
وہ تصویریں ہمیں پریشان نہیں کرتی ہیں
اگر کوئی چیز پریشان کرتی ہے تو وہ ہے
تمہاری خاموشی، تمہارا صبر
تمہاری سوچتی نگاہیں، تمہارا گنہگار انتظار
یہاں بغاوت ایک نیکی ہے
ہماری برداشت ہماری مخالفت میں درج ہے
٭٭٭

لفظ و معنی کی بحث اور مولوی ذکاءاللہ دہلوی/طارق احمد صدیقی

1

لفظ و معنی میں تعلق کی بحث بہت پرانی ہے اور اس کی جڑیں قدیم یونانی و ہندوستانی اورعربی فلسفہ کی لسانی بحثوں میں پیوست ہیں۔ ساختیاتی و پس ساختیاتی فلسفہ لسان میں اس مسئلے پر اب تک کی تمام بحثوں کے نتیجے میں جو اہم ترین نکتہ ابھر کر سامنے آیا ہے وہ کسی نہ کسی طور یہ ہے کہ لفظ، یعنی سگنی فائر اور اس سے مراد شئے کے ذہنی تصور یعنی سگنی فائیڈ میں ’’فطری رشتہ ‘‘ نہیں بلکہ یہ دونوں ’’آربٹریری ‘‘ یعنی ’’من مانے‘‘ طور پر ایک دوسرے سے متعلق ہیں۔ بیسویں صدی کے اواخر میں جب یہ نکتہ اپنے متعلقات کے ساتھ ساختیاتی و پس ساختیاتی نظریات کے ساتھ متعلق ہو کر اردو میں زیربحث آیا تو ابتداءً لوگوں نے سمجھا کہ یہ دور جدید میں ساختیات کے بنیاد گزار فرڈی ننڈ ڈی سوسیئر کی فکری کاوش کا نتیجہ ہے ۔
سگنی فائر اور سگنی فائیڈ میں کسی فطری رشتے کے نہ ہونے کے مضمرات اتنے پریشان کن تھے کہ سوسیئر نے ان دونوں میں ’’وحدت کا ٹانکا ‘‘لگانے کی کوشش یہ کہہ کر کی تھی کہ یہ دونوں کاغذ کی دو طرفوں کے مماثل ہیں۔ لیکن اگر ان میں کوئی فطری رشتہ پایا ہی نہیں جاتا تو سوسیئر کی اس مثال کی حیثیت سخن سازی کے سوا کچھ نہیں رہ جاتی۔ چنانچہ ژاک دریدا نے سوسیئر سے بیک وقت بنیادی استفادہ اور انحراف کرتے ہوئے سگنی فائر اور سگنی فائیڈ کے سوسیئری ٹانکے کو کھول دیا، اور اس طرح ایک مبینہ ’’ تباہ کن‘‘ ردتشکیلی فکر کو جنم دیا جس سے دنیائے فکرونظر کی دَسوں دِشاوں میں ایک عظیم زلزلہ برپا ہو گیا حالانکہ متعدد مغربی علمائے لسانیات کے نزدیک یہ ہمیشہ سے ایک معروف بات تھی اور ساختیاتی و پس ساختیاتی مباحث کے ہنگاموں میں بھی انہوں نے اس کا اعادہ کیا کہ لفظ اور اس سے مراد ذہنی شبیہ کے مابین رشتہ /اشارہ کے غیرفطری/ آربٹریری ہونے کا تصور سوسیئر سے پہلے کسی نہ کسی شکل میں افلاطون ، ہابز، لاک، لیبنیز، برکلے، فشٹے اور ہیگل ‘‘کے یہاں پایا جاتا ہے۔
اردو میں ساختیات و پس ساختیات کا تفصیلی تعارف و تجزیہ پیش کرنے والوں میں ایک نمایاں ترین نام گوپی چند نارنگ کا ہے اور اس موضوع پر ان کی کتاب "ساختیات، پس ساختیات اور مشرقی شعریات" میں مغربی حکمائے لسانیات اور مصنفوں کی عمدہ ترجمانی ملتی ہے۔ ان کی اس کتاب سے معلوم ہوتا ہے کہ لفظ یا سگنی فائر اور اس سے مراد ذہنی شبیہ یا سگنی فائیڈ میں فطری رشتہ نہ ہونا سوسیئری ساختیات کے بنیادی دلائل ،بحثوں اور نکتوں میں سے ہے۔ واضح رہے کہ زبان کے سوسیئری ماڈل میں شے کے لیے کوئی جگہ نہیں۔سوسیئر ی فلسفہ لسان کے اس ایک بنیادی نکتے اور اس کے متعلقات سے بعینہ نہیں تو حیرت انگیز حد تک مماثلت رکھنے والی ایک بحث برصغیر کے ایک اردو دانشور مولوی محمد ذکاءاللہ دہلوی کے رسالہ تقویم اللسان میں پائی جاتی ہے۔ موصوف کے اس رسالہ کا جو اڈیشن میرے پیش نظر ہے وہ 1893 میں مطبع شمس المطابع دہلی میں طبع ہو کر شائع ہوا تھا. رسالہ میں بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کے ساتھ ایک ابتدائیہ ہے جس کے آخر میں مولوی ذکاءاللہ کا نام اور تاریخ 24 اپریل 1893 عیسوی درج ہے اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ تقویم کا پہلا اڈیشن ہے۔ سوسیئر نے جنیوا یونیورسٹی میں جنرل لنگوئسٹکس پر اپنے تاریخی خطبات 1906سے 1911 تک دیے تھے جو آگے چل کر ساختیاتی فلسفہ لسان کی بنیاد بنے۔ پس، مولوی ذکاءاللہ نے لفظ اور معنی کے متعلق موٹا موٹی وہی خیالات جو عام طور پر سوسیئر سے منسوب کیے جاتے ہیں ،سوسیئر سے کم از کم 12 سال پہلے پیش کیے ۔ حالانکہ علما لسانیات اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ لفظ و معنی کے رشتے کے فطری نہ ہونے کی بات سوسیئر سےپہلے بھی کسی نہ کسی شکل میں متعدد فلاسفہ (مثلاً جان لاک) کہہ چکے ہیں.
سوسیئر کی طرح اس خاص معاملے میں اس کے پیش رو مولوی ذکاءاللہ کے ہاں بھی سگنی فائر اور سگنی فائیڈ کا تصور بالکل واضح ہے جس کا اردو ترجمہ نارنگ صاحب نے بالترتیب ’’معنی نما ‘‘اور ’’تصور معنی‘‘ کیا ہے جس کے لیے بالترتیب اردو میں "دال" اور "مدلول" کی اصطلاح بھی مستعمل ہے، حالانکہ مولوی ذکاءاللہ نے ایک ممکنہ حکمت کے پیش نظر دال اور مدلول کی ڈائیکاٹومی پیش نہیں کی اور اس کی جگہ انہوں نے ’’لفظ اور مدلول‘‘ کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ اتنا ہی نہیں ، ان کے ہاں لفظ و معنی کی جو بحث پائی جاتی ہے اس میں مستعمل لفظیات و اصطلاحات کی اگر صحیح تعبیر نہ کی جائے تو بادی النظر میں کہا جا سکتا ہے کہ مولوی ذکاءاللہ بھی لفظ اور مدلول میں کسی "فطری رشتے" کے نہ پائے جانے کے قائل ہیں۔ لیکن یہ محض تعبیر کی غلطی ہوگی. مولوی ذکاءاللہ نے اپنے رسالہ تقویم اللسان میں لفظ اور معنی میں ’’طبعی مناسبت‘‘ نہ ہونے کے الفاظ استعمال کیے ہیں جو میرے نزدیک ساختیاتی موقف ’’ سگنی فائر اور سگنی فائیڈ میں فطری رشتہ نہ ہونے ‘‘ سے مماثلت رکھتے ہوئے بھی ایک زاویہ کا فرق اپنے اندر رکھتا ہے ۔ اور یہی زاویاتی فرق مولوی ذکاءاللہ کے موقف کو پہلے اور بعد کے علمائے لسانیات سے ممتاز کرتا ہے۔
اس سے پہلے کہ میں شمس العلما ء مولوی ذکاءاللہ کے رسالہ تقویم اللسان سے اپنے ان دعووں کا ثبوت پیش کروں، میں یہ واضح کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ لفظ اور اس کی ذہنی شبیہ میں ’’فطری رشتہ‘‘ نہ ہونے کا یہ موقف کس تاریخی سیاق میں، کیوں اور کیسے وجود میں آیا ، اور یہ ساختیات کی ایک فکری بنیاد کیونکر ثابت ہوتا ہے۔ اس کے بعد بیسویں صدی کے ربع آخر میں اردو حلقوں میں ساختیاتی و پس ساختیاتی فلسفہ لسان کے حوالے سے لفظ و معنی کے باہمی رشتے پر بحثوں کی اس گرم بازاری پر بھی کچھ روشنی ڈالوں گا جو حالی کی مقدمہ شعرو شاعری کی اشاعت کے ٹھیک ایک صدی بعد 1993میں گوپی چند نارنگ کی ساختیات، پس ساختیات اور مشرقی شعریات کے کتابی شکل میں یکجا ہوکر شائع ہونے کے بعد اپنے عروج پر پہنچی ۔ مقدمہ کے ٹھیک ایک صدی بعد ، اور نئی صدی کے آغاز سے پہلے پہلے نارنگ صاحب کی کتاب کا تہذیب کے ماضی بعید کی گم گشتہ بصیرتوں سے آراستہ ہو کر شائع ہونا میدانِ ادب میں کارِتجدیدکے مترادف تھا، چنانچہ خود فرماتے ہیں:
اردو میں تھیوری یعنی ادبی نظریہ سازی کی پہلی باضابطہ کتاب حالی کا مقدمہ شعر و شاعری ہے۔ یوں تو شعریات کا احساس پہلے سے موجود چلا آتا تھا، لیکن اسے منضبط کرنے کی اولین کوشش حالی نے ہی کی۔ مقدمہ ٹھیک ایک صدی پہلے 1893 میں شائع ہوا ۔ اس دوران اردو میں بہت کچھ لکھا گیا۔
لیکن گوپی چند نارنگ کی اس کتاب کی اشاعت سے ٹھیک ایک صدی پہلے 1893 میں مقدمہ حالی کے ساتھ ساتھ مولوی ذکاءاللہ کا رسالہ تقویم اللسان بھی شائع ہوا تھا اور اس میں لفظ و معنی کی حقیقت پر علمی بحث کے بہت کچھ سامان تھے ، لیکن معلوم ہوتا ہے اس وقت برصغیر میں اس پر اتنی بڑی بحث قائم نہ ہوسکی جتنی ساختیاتی و پس ساختیاتی نظریات کے اردو میں داخل ہونے کے بعد بڑی شد و مد سے برپا کی گئی جس کے خلاف ایک ردعمل یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ بعض اردو حلقوں میں سوسیئر ودریدا سے پہلے کے فلسفیوں اور مصنفوں کے کارناموں سے وہ فلسفیانہ نکتے پیش کیے جانے لگے جو ساختیاتی و پس ساختیاتی فلسفہ لسان بشمول ردتشکیل میں بھی پائے جاتے تھے تاکہ ان جدید ترین افکار و نظریات کو ازکار رفتہ قرار دے کر تاریخ کے ڈسٹ بن کی نذر کر دیا جائے۔

2
یہ مسئلہ کہ لفظ (سگنی فائر) اور اس کی ذہنی شبیہ (سگنی فائیڈ) میں کوئی فطری رشتہ نہیں، لسانیاتی تحقیق سے زیادہ فلسفیانہ تعبیر کا موضوع ہے۔لیکن گوپی چند نارنگ نے اپنی کتاب ساختیات ، پس ساختیات اور مشرقی شعریا ت کے دیباچےمیں ساختیات و پس ساختیات کو نئی تھیوری اور نئی فکر کے طور پر متعارف کراتے ہوئے انتہائی جزم کے ساتھ سوال اٹھایا تھا کہ کیا اس کی ’’بعض بصیرتوں کا درجہ سائنسی دریافتوں کا نہیں؟‘‘ لفظ و معنی میں کسی’’ فطری رشتہ ‘‘ کا نہ ہونا ساختیاتی و پس ساختیاتی فلسفہ لسان کی ایک بنیادی بحث ہے اور ممکن ہے یہ ان بصیرتوں میں بھی شامل ہو جن کا درجہ نارنگ کے مطابق سائنسی دریافتوں کا ہونا چاہیے۔
نارنگ صاحب کے مطابق سوسیئر کے زمانے تک زبان کی نسبت یہ نظریہ عام تھا کہ زبان ’جوہری‘ یا ’قائم بالذات‘ شئے ہے۔ سوسیئر کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے صدیوں سے چلے آتے زبان کے اس نظریے کو جڑ سے اکھاڑ دیا اور زبان کے ’نسبتی ‘ تصور کو پیش کیا جس کی رو سے زبان کی آوازوں کی شناخت بالذات ہونے کے بجائے ان میں پائے جانے والے فرق کی بنا پر ہوتی ہے اور یہ دعوی کیا جاتا ہے کہ زبان تسمیہ یعنی اشیا کو نام دینے والا نظام نہ ہو کر ’’افتراقات کا نظام ہے جس میں کوئی مثبت عنصر نہیں ہے۔‘‘
زبان کے نسبتی تصور کو پیش کرنے، اس کو نظام افتراقات کے بطور قائم کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ لفظ اور اس سے مراد شئے میں فطری رشتہ پائے جانے کا عام خیال تھا۔ اسی خیال کی بنا پر زبان کو جوہری یا قائم بالذات چیز سمجھا جاتا تھا جسے رفع کیے بغیر زبان کو ایک نظام کے طور پر دیکھنے کی راہ ہموار نہیں ہو سکتی تھی۔ ایک شخص کہہ سکتا تھا کہ زبان اپنی جگہ افتراقات کا نظام ہو تو ہو، لیکن معنی تو الفاظ میں بالذات موجود ہیں، لفظ اور اس سے مراد شئے میں ایک اور ایک کا فطری رشتہ بہرحال پایا جاتا ہے، لہذا زبان کی آوازوں میں پائے جانے والے فرق اور ا س کی بنا پر مفروضہ ’’تفریقی رشتوں‘‘ کے فلسفے کی چنداں اہمیت نہیں۔چنانچہ لفظ و معنی کے اس موہوم ’’فطری رشتے ‘‘کو منقطع دکھانا ضروری تھا:
۔۔۔ لفظ ’شجر‘ کی اصوات اور اس کے تصور میں اور اس شئے میں جو زمین سے اگتی ہے اور جس میں ٹہنیاں اور پتے ہوتے ہیں، کوئی ’فطری‘ رشتہ نہیں۔ لفظ ’شجر‘ میں یا اس کی کسی صوت میں درخت کی کوئی خصوصیت نہیں،
اس کے بعد لازماً یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ’ شجر‘ کو اس کے معنی آخر کہا ں سے حاصل ہو گئے اگر لفظ میں شئے کی خصوصیت نہیں پاتی جاتی ؟ تو اس کا جواب یہ دیا گیا:
اور نہ ہی اس لفظ کا یہ تصور کسی خارجی قوت کی رو سے طے ہوا ہے۔’شجر‘ کو یہ معنی زبان کی ساخت نے دیے ہیں۔
اس کے علاوہ، ساختیاتی فلسفہ لسان کو مزید مدلل بنانے کی غرض سے بھی سگنی فائر اور سگنی فائیڈ کے رشتے کے فطری ہونے کے بجائے ان کے باہم آربٹریری متعلق ہونے پر مہرتصدیق ثبت کرنے کے ذریعے زبان کے مروجہ عامیانہ خیال کی تردید کر دی گئی کہ لفظ میں شئے کی حقیقت پائی جاتی ہے۔ زبان کو غیرشفاف قرار دینا بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے:
سوسیئر مزید کہتا ہے کہ زبان میں ’معنی نما‘ اور تصور معنی کا ناقابل تقسیم رشتہ یعنی شیر کے صوتی امیج سے مراد شیر ہی کا تصور ہے، گائے، بھینس، بکری، یا کوئی اور جانورنہیں، یہ واہمہ پیدا کرتا ہے کہ زبان شفاف چیز ہے، یعنی اس کے آرپار دیکھا جا سکتاہے، یا لفظوں اور اشیا میں ایک اور ایک کی نسبت ہے۔ زبان چونکہ ہماری عادت کا حصہ ہے اس لیے زبان کے بارے میں ایسا سوچنا عین فطری ہے، لیکن فکری اعتبار سے بھی اس کو صحیح سمجھ لینا خود کو دھوکا دینا ہے، اس لیے کہ زبان کی اصل نوعیت اس کے برعکس ہے۔ زبان شفاف نہیں ہے ۔
پس، اوپر کی گزارشات سے یہ واضح ہو گیا ہو گا کہ ساختیاتی فلسفہ لسان میں سگنی فائر اور سگنی فائیڈ کے درمیان ’’ فطری رشتے ‘‘کا نہ ہونا، ایک ناگزیر فکری بنیاد ہے ۔ اگر علمائے لسانیات کو شئے کی حقیقت لفظ میں مل جاتی تو لسانیات کی سائنس میں زبان کی ساخت کا مسئلہ محض زبان کی آوازوں کے میکانیکی پہلووں تک محدود رہ جاتا اور اس صورت میں ساختیات کا تعلق فلسفہ معنی سے نہ رہ سکتا اور نہ کسی لفظ کے متعلق یہ دعوی وجود میں آ سکتا کہ اس کے معنی ’’زبان کی ساخت نے دیے ہیں۔‘‘
ساختیات کی یہ ناگزیر فکری بنیاد نہ صرف ساختیات کو اس کے پیروں پر کھڑا کرتی ہے بلکہ تاریخ میں اس کے ارتقا کو بھی ممکن بناتی ہے۔ انسانی ذہن زبان کے اسرار معلوم کرنے کی سمت میں پہلے لفظ پر توجہ کرتا ہے نہ کہ زبان کی آوازوں کے فرق پر۔زمانہ حال میں بھی وہ لفظ اور معنی کے باہمی رشتے پر غور کیے بغیر ایک ہی جست میں زبان کے نظام افتراقات تک نہیں پہنچ سکتا ۔ انسان نے ایک طویل زمانے تک لفظ و معنی کے مسئلے پر غور کیا اور اس کے بعد جب زبان کی اصل سرشت اور جبلت کا سرا نہ ملا تو اس نے معاملے کو ایک دوسرے نقطہ نظر سے دیکھنا شروع کیا اور ایک دن فلسفہ ساختیات تک پہنچا۔
فرڈی ننڈ ڈی سوسیئر نے جس تاریخی سیاق میں آنکھ کھولی، اس میں لفظ و معنی کے رشتے پر جتنی کچھ بحثیں ماضی قریب و بعید میں ہو چکی تھیں، اورلسانیات میں تاریخی تحقیقات کا جو سلسلہ جاری تھا، اس سے زبان کی فطرت کا علم نہیں ہوتا تھا ۔کہہ سکتے ہیں کہ زبان کے نظام افتراقات کے انکشاف کا سیاق یہ ہے کہ پہلے مغربی علمائے لسانیات نے لفظ میں شئے کی خصوصیت تلاش کی ،اِسی کوانہوں نے لفظ و معنی میں فطری رشتہ ہونے یا نہ ہونے کی شرط قرار دی ، اور جب لفظ میں شئے کی خصوصیت نہ ملی تو لفظ و معنی کے رشتے کو فطری کی تعریف سے خارج کیا ، لفظ کا اپنے معنی پر اشارہ کے آربٹریری ہونے کا حکم لگایا، اور اس کے بعد زبان کی میکانیکیت کی تحقیق کے ذریعے معنی آفرینی کو زبان کی ساخت کے تابع کر دیا، پہلے جس کا سرچشمہ لفظ کو سمجھا جاتا تھا۔

3

اوپر میں کہہ چکا ہوں کہ علمی حلقوں میں یہ بات معروف ہے کہ لفظ و معنی کے مابین تعلق پر ساختیات کے بنیاد گزار سوسیئر نے جو کچھ کہا، وہ اس سے پہلے کئی فلاسفہ اور علمائے زبان و ادب اپنے طور پر کہہ چکے تھے اور اس خاص معاملے میں سوسیئر کی تخصیص نہیں ہے الا یہ کہ اس نے اپنے متقدمین سے کسی قدر مختلف شکل میں مسئلے کی تعبیر کی ہو۔ گوپی چند نارنگ نے بھی اپنی مذکورہ بالا کتاب میں اس حقیقت سے صرف نظر نہیں کیا اور افلاطون کے مکالمہ کریٹیلس کے حوالے سے بتایا کہ یہ مسئلہ وہاں بھی زیر بحث آیا لیکن لاینحل رہ گیا. اس کے علاوہ انہوں نے اپنی کتاب میں ہندوستانی روایت میں سوسیئر کے خیالات سے مماثلت رکھنے والے خیالات کو تفصیل سے بیان کیا ہے، مثلاً
1. زیرنظرباب (سنسکرت شعریات اور ساختیاتی فکر) کا مقصد یہی ہے کہ سوسیئر کے فلسفہ لسان ، پس ساختیات اور ردتشکیل کے فلسفہ معنی کے تناظر میں یہ دیکھا جائے کہ اس بارے میں ہندوستانی روایت میں کیا کیا بحثیں اٹھائی گئی ہیں اور ہندوستانی ذہن کا موقف کیا رہا ہے۔ اس نظر سے جب ہم نے ہندوستانی فکری روایت اور شعریات کا جائزہ لیا تو بعض حیران کن نتائج سامنے آئے۔ یعنی مغرب میں جو نکات اب ساختیاتی اور ردتشکیلی فکر کے ذریعے سامنے آ رہے ہیں، ان سے ملتے جلتے نکات ہندوستانی فکر و فلسفے بالخصوص بودھ فلسفے میں صدیوں پہلے زیر غور رہے ہیں۔
2. (نیائے اور ویشیشک مفکرین ) کا کہنا ہے کہ نہ شبد مقتدر ہے نہ معنی مستحکم، یعنی شبد اور ارتھ کا رشتہ فطری نہیں ہے، نیز یہ رشتہ مستقل بھی نہیں ہے، بلکہ یہ رسمی اور روایتی نوعیت کا ہے۔ یعنی لفظ کے معنی فی نفسہ طے نہیں ہیں، یہ رواج اور چلن سے طے ہوتے ہیں۔ گوتم رشی کا کہنا ہے کہ شبد اور ارتھ میں کوئی براہ راست رشتہ نہیں ہے ۔ اگر ہم شبد ’اگنی‘ کہہ کر جلانے والی چیز اور شبد گئو کہہ کر خاص قسم کا جانور مراد لیتے ہیں، تو ایسا اس لیے نہیں ہے کہ شبد ’اگنی‘ میں جلانے کے یا شبد ’گئو‘ میں جانور کے خواص موجود ہیں، بلکہ ایسا صرف اس لیے ہے کہ روایت اور چلن سے ان لفظوں کے یہ معنی طے پا گئے ہیں…
3. بودھی مفکرین کہتے ہیں کہ شبد میں ہرگز کوئی شئیت براہ راست نہیں ہے ، اس لیے کہ ارتھ اپنی نوعیت کے اعتبار سے منفی ہے ۔ ان کے بقول شبد چونکہ تصوراتی امیج ہیں جو خالصتاً ذہنی تشکیل یعنی ’وکلپ‘ ہیں، اس لیے شبد اور شے میں کوئی حقیقی رشتہ نہیں ہو سکتا۔بودھی مفکر دن ناگا کا کہنا ہے کیہ شبد ایسا وکلپ ہے جس کی خصوصیت خاصہ اس کی منفیت ہے، اور اپنے زمرے کے دوسرے تمام عناصر سے اس کا رشتہ تفریقی نوعیت کا ہے۔ شبد ’گئو‘ سے گائے براہ راست مراد نہیں ہے، بلکہ الا ان تمام اشیا کے جو گائے نہیں ہیں، یعنی ایسی تمام اشیا کی نفی جو گائے نہیں ہیں۔ ۔۔۔۔ظاہر ہے کہ بودھی فکر کے ان نکات اور سوسیئر کے خیالات اور دریدا کے نظریہ افتراق میں حیرت انگیز مطابقت اور مشابہت ہے۔ بودھوں کے یہاں یہ نکتہ بالکل سوسیئر سے ملتا جلتا ہے کہ زبان کے تصوراتی امیج میں (جس کا حامل شبد ہے) اور اشیا میں کوئی لازمی یا فطری رشتہ نہیں ہے اور ارتھ کا انفراد فقط اس کی تفریقی حوالگی میں ہے۔
4. حیرت ہوتی ہے کہ جن نتائج تک جدید لسانیات و پس ساختیات و ردتشکیل بیسویں صدی میں پہنچیں ان تک بودھی ذہن صدیوں پہلے پہنچ چکا تھا۔
نارنگ نے عربی و فارسی روایت اور ساختیاتی فکر والے باب میں اس سلسلے میں ایک انتہائی دلچسپ اقتباس پیش کیا ہے:
5. محمد رضوان الدایہ مقدمہ دلائل الاعجاز میں لکھتا ہے کہ جرجانی کا تصور لسان بہت کچھ سوسیئر کے خیالات سے مماثل ہے۔ اس کا کہنا ہے:
عبدالقاہر جرجانی نے دلائل الاعجاز میں زبان سے متعلق خالص علمی اور بے مثل موقف اختیار کیا ہے۔ اس نے دلالت کا ایک اصول مقرر کیا ہے جسے ایک باضابطہ قانون کی حیثیت سے اختیار کرنے کے لیے جدید مطالعات کو تقریباً ایک ہزار برس انتظار کرنا پڑا تب کہیں چمنستان بلاغت کے سوئس دیدہ ور سوسیئر کے ہاتھوں بیسویں صدی کے شروع میں لسانیات کا ایک تسلیم شدہ ضابطہ تشکیل پایا کہ الفاظ بذات خود کوئی معانی نہیں رکھتے۔ یعنی لفظ اور معنی میں کوئی فطری ربط نہیں، بلکہ لسانی اشکال اور ان کے مفاہیم سماجی اور اجتماعی طور پر طے پاتے ہیں اور لسانی ساخت ہی لفظ و معنی کا ربط طے کرتی ہے ۔‘‘ (ترجمہ بشکریہ ڈاکٹر ضیاء الحسن ندوی)
لیکن نارنگ کی اس کتاب میں اس سلسلے میں ماضی بعید کی ہندوستانی و عربی روایت میں ہونے والی متعلقہ بحثوں کے علاوہ ماضی قریب کے مغربی تاریخی دستاویزات کے حوالے سے کچھ نہیں ملتا. مثلاً برطانوی فلسفی جان لاک نے 1690 عیسوی میں بھی اپنی کتاب این ایسے آن ہیومن انڈراسٹینڈنگ میں اس مسئلے پر تفصیلی بحث کے دوران کہا تھا کہ لفظ کا اشارہ (اپنے خیال کی طرف ) مطلقاً آربٹریری ہے اور ان کے درمیان کوئی فطری تعلق (نیچرل کنکشن ) نہیں پایا جاتا۔ حالانکہ اس کا حوالہ ناصر عباس نیر کی مرتب کردہ کتاب ’’ساختیات: ایک تعارف ‘‘ میں پایا جاتا ہے لیکن چونکہ میں نے ساختیات و پس ساختیات پر اردو زبان میں اول اول نارنگ کی ہی کتاب سے استفادہ کیا جس میں جان لاک وغیرہ کا ذکر نہیں ملتا ، اس لیے مجھ ہیچمداں پر ایک تاثر تو یہ قائم ہوا کہ افلاطون کے کریٹیلس کے بعد سوسیئر وہ پہلا شخص ہے جس کے لیکچرز سے یہ لاینحل مسئلہ کسی قدر حل ہو گیا اور دوسرا یہ کہ اردو میں بھی دنیا کی دوسری زبانوں کی طرح لفظ و معنی میں فطری رشتہ کی بحث پہلی بار ہو رہی ہے۔ کچھ ایسا ہی تاثر اس وقت بھی پڑا ہوگا جب اردو دنیا ساختیاتی و پس ساختیاتی افکار سے واقف ہوئی ہوگی۔ چنانچہ اس پورے دور میں ماہنامہ شبخون کے متعدد شماروں میں ساختیاتی و پس ساختیاتی افکار کی منجملہ دیگر بحثوں کے ساتھ یہ بحث بھی سوسیئر سے پہلے کی تفکیر میں پائے جانے کی نشاندہی مغربی مصنفین کے اقتباسات کی پیش کش کے ذریعے کر دی گئی جن سے مجموعی طور پر یہ ثابت ہوا کہ سوسیئر اور دریدا سے پہلے بھی دنیا اس نکتے سے نابلد نہ تھی، مثال کے طور پرشبخون ، جولائی اگست ستمبر1985میں ژرار ژینت کا ایک اقتباس پیش کیا گیا:
سوسیور کی کتاب ’’عمومی لسانیات کا درس‘ میں جن باتوں پر خاص زور دیا گیا ہے، ان میں ایک یہ بھی ہے اور سوسیور کے بھی پہلے ڈبیلیو۔ ڈی ۔ وہٹنی اور ولیم جیمس کا بھی یہی خیال تھا۔ انہوں نے بڑے محاکاتی انداز میں لکھا تھا کہ ’’لفظ کتا‘‘ کسی کو نہیں کاٹتا۔ بلکہ اور بھی پہلے جائیں تو انسائیکلو پیڈیا میں یہ لکھا ہوا ملتا ہے کہ ’الفاظ جس چیز کو ظاہر کرتے ہیں اس سے ان کا کوئی لازمی رشتہ نہیں ہوتا۔
اسی طرح مئی جون 1999 کے شبخون میں ’’زبان ، معنی اور رسومیات ‘‘ کے عنوان سے صفحہ اول پر ونفرائیڈ ناتھ کی 1995 کی کسی تحریرسے ایک اقتباس درج ذیل ادارتی نوٹ لگاکر پیش کیا گیا :
[آج کل بعض حلقوں میں یہ تاثر ہے کہ لفظ اور معنی کی دوئی کا مسئلہ بعض جدید فرانسیسی فلاسفہ، مثلاً دریدا نے دریافت کیا ہے۔ درج ذیل اقتباس سے معلوم ہوگا کہ یہ مسئلہ سقراط کے بھی قبل سے یونانی فلسفے میں موجود ہے]۔
یہاں تک کہ خود شمس الرحمان فاروقی نے رچرڈ اور اوگڈن کی کتاب د میننگ آف میننگ کے حوالے سے اس خیال کے ازکار رفتہ ہونے کے سلسلے میں کہا:
دریدا کا یہ خیال اس کے عام فلسفیانہ تصور سے ہم آہنگ ہے کہ الفاظ میں کوئی وجود نہیں، اور الفاظ نہ اشیا ہیں اور نہ اشیا کے قائم مقام ہیں۔ یہ تصور دریدا کا اپنا نہیں۔ اور جس چیز کو وہ لفظ مرکزیت (لوگوسنٹرزم) کہہ کر مطعون کرتا ہے، مغرب و مشرق کے فلسفہ لسان اور فلسفہ وجود میں بہت پہلے مسترد ہو چکی تھی۔ آگڈن او ر رچرڈس نے اپنی کتاب THE MEANING OF MEANING (اول اشاعت ۱۹۲۳، تیسری اشاعت ۱۹۳۰) میں اس تصور کو کہ الفاظ اور اشیا میں مکمل ہم آہنگی ہے VERBOMANIA ( مراق اللفظ) اور GRAPHOMANIA (مراق التحریر) کہہ کر اس کا خوب مذاق اڑایا ہے۔
(فاروقی کا رچرڈ اور اوگڈن کی مذکورہ کتاب سے اقتباس حذف کر دیا گیا ہے)
آگڈن اور رچرڈس کا یہ اقتباس میں نے دریدا کی وقعت کو کم کرنے کے لیے نہیں بلکہ تعبیر کے مسائل میں ایک اہم مسئلے پر توجہ مرکوز کرنے کی غرض سے پیش کیا ہے ۔ آگڈن اور رچرڈس کی پوری کتاب ہی اس مسئلے کی چھان بین پر ہے کہ ہم معنی کو کس طرح گرفت میں لا سکتے ہیں ؟
لفظ و معنی کے درمیان کسی فطری رشتہ کا نہ ہونا ایک ایسی فلسفیانہ تعبیر ہے جس کی فراہم کردہ عقبی زمین کے بغیر ساختیاتی فلسفہ لسان میں زبان کو ایک بامعنی نظام کے طور پر قائم کرنا ہی نہیں بلکہ پس ساختیات اور ردتشکیل تک کا وجود میں آنا دشوار تھا۔ ردتشکیل پر گوپی چند نارنگ کی تحریروں سے میرے ذہن میں جو تاثر پیدا ہوتا ہے وہ کچھ یوں ہے کہ دریدا نے ساختیات پر ہتھوڑے کی آخری ضرب لگاتے ہوئے زبان کے سوسیئری نشان کی وحدت کا خاتمہ کر ڈالا۔ نارنگ صاحب نے دریدا کی ردتشکیل پر کیا خوب اس کی تاریخی معنویت کے ساتھ لکھا ہے:
لاکاں نے فرائیڈ کے نظریۂ لاشعور کے بارے میں کہا ہے کہ یہ اتنی بڑی سائنسی دریافت تھی کہ خود فرائیڈ اس کی تاب نہ لا سکا اور اس کو فکری اعتبار سے زیرِ دام لانے کی سعی میں لگ گیا۔ اسی طرح سوسیئر کا یہ معلوم کر لینا کہ زبان محض افتراقات پر قائم ہے ، بھی معمولی دریافت نہ تھی، کیونکہ جیسا کہ سوسیئر نے کہا ہے کہ افتراق تضاد سے ہوتا ہے ، اور تضاد بہرحال کچھ نہ کچھ تو اثبات رکھتا ہے ، لیکن زبان میں مطلق کسی مثبت عنصر کا نہ ہونا اتنی تحیر زا بات تھی کہ سوسیئر نے اگرچہ اپنی بصیرت سے اس راز کو پا تو لیا لیکن جلد ہی وہ اس پر پردہ ڈالنے لگ گیا۔ کیونکہ اس کے سامنے اس سے بھی بڑا مسئلہ یہ تھا کہ زبان جب ‘افتراقِ محض’ سے عبارت ہے اور اس میں کوئی مثبت عنصر نہیں تو پھر یہ مثبت طور پر عمل آرا کیونکر ہوتی ہے؟ سوسیئر نے اپنی سوچ سے اس کا یہ حل نکالا کہ Signifier/Signified کے تفریقی تصورات کو کاغذ کی دو طرفوں کے مماثل قرار دے کر ان میں ارتباط (وحدت) پیدا کی، اور اس کو Sign (نشان) کا نام دیا۔ غرض یوں سوسیئر نے اپنے پہلے بیان کی توسیع کر دی ، اور اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ بے شک Signifier/Signified الگ الگ تو افتراقی نوعیت رکھتے ہیں، لیکن جب یہ زبان میں مل کر عمل آرا ہوتے ہیں بطورِ نشان یعنی بطور ایک واحدے کے تو یہ ‘‘مثبت’’ کردار ادا کرتے ہیں۔
سوسیئر نے Signifier/Signified کے افتراقی تصورات میں ٹانکا لگا کر ان میں وحدت پیدا کر دی اور یوں اپنی اصل دریافت کے انتشار انگیز مضمرات پر قابو پا لیا۔ دریدا اور سوسیئر کی فکر میں فرق بس یہی ہے کہ کہ سوسیئر نے زبان کے جس افتراق پر قابو پانے کے لیے نشانِ وحدت کو قائم کیا، دریدا نے اپنی منطقی قوت سے اسے پاش پاش کر دیا اور دلیل افتراق کو استقلال عطا کر دیا۔ دوسرے لفظوں میں Sinifier/Signified کے درمیان وحدت کا جو ٹانکا سوسیئر نے لگا دیا تھا، دریدا نے اسے کھول دیا، اور دلیل کی مضبوطی سے ثابت کر دیا کہ زبان میں ۔۔۔۔Signifier اور Signified اپنے اپنے افتراقات ہی سے کارگر ہیں، اور ان میں وصل ناممکن ہے۔
لفظ اور معنی کے باہمی رشتہ کے فطری نہ ہو کر آربٹریری ہونے کی فلسفیانہ تعبیر کی کلیدی اہمیت پر ناصر عباس نیر کی ایک تحریر سے بھی پرروشنی پڑتی ہے :
…سوسیئر نے لسانی نشان کے باب میں جو خیالات ظاہر کیے ہیں، وہ نہ صرف چونکا دینے والے ہیں، بلکہ یہی وہ خیالات ہیں جن پر لیوی اسٹراس (ماہر بشریات) رولاں بارت (نقاد) میثل فوکو (تاریخی فلسفی) ژاک لاکان (ماہر تحلیل نفسی) اور ژاک دریدا (فلسفی اور نقاد) نے اپنے اپنے فکری نظاموں کی بنیادیں کھڑی کیں۔ سوسیئر نے واضح کیا کہ دال اور مدلول لازم و ملزوم تو ہیں مگر دونوں میں جو رشتہ ہے وہ من مانا (Arbitrary) ہے۔ آسان لفظوں میں: کسی شئے کی نمائندگی کے لیے جو لفظ وضع کیا جاتا ہے وہ اس شے کی حقیقی فطرت اور داخلی خاصیت سے کوئی تعلق نہیں رکھتا۔ لفظ اور شے میں کوئی حقیقی، فطری اور منطقی رشتہ نہیں۔ الفاظ اور اسما اشیا کی اصل کو منعکس نہیں کرتے…
اقتباس طویل تو ہے لیکن یہ اس لیے پیش کیا گیا تا کہ معلوم ہو کہ سگنی فائر اور سگنی فائیڈ میں فطری رشتہ نہ ہونے، سوسیئر کے ذریعے لسانی نشان کی وحدت کی تشکیل اور پھر ژاک دریدا کے ذریعے اس کی ردتشکیل کا یہ پورا معاملہ کس درجہ حساس ہے اور مغرب میں واقع ہونے والے اس ہنگامے کو دیکھتے ہوئے مولوی ذکاءاللہ کے تصور لفظ و معنی کی کس درجہ اہمیت ہو سکتی ہے اگر تحقیق سے ثابت ہو کہ ان کے ہاں بھی اس موضوع پر ایک نہیں کئی مماثل نکات کا پائے جاتے ہیں.

4

اب میں مولوی ذکاءاللہ کے رسالہ تقویم اللسان سے نمبر وار کچھ اقتباسات پیش کرتا ہوں جن سے لفظ و معنی اور زبان کی نوعیت و ماہیت پر ان کے خیالات سے کسی قدر واقفیت حاصل ہوتی ہے. کئی اقتباسات کے نیچے میں نے اپنے مختصر تبصرے کیے ہیں اور ان میں سے بعض تبصروں میں گوپی چند نارنگ کی متعلقہ کتاب سے کارآمد اقتباسات پیش کیے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ مولوی ذکاء اللہ کا تصور لفظ و معنی سوسیئری تصورات کے مشابہ ہے اور زمانی طور پر مقدم بھی۔ اقتباس میں جو جملہ یا اس کا کوئی حصہ خصوصی توجہ کا طالب ہے وہ خط کشیدہ ہیں۔
رسالہ تقویم اللسان از شمس العلماء مولوی محمد ذکااللہ ، مطبع شمس المطابع دہلی میں باہتمام منشی محمد عطاءاللہ ،مطبوعہ ۱۸۹۳ عیسوی

1. تصور کے لئے الفاظ کا یا کلمات کا علامات عامہ بننا
چیزوں کی صورتیں جو ذہن میں پیدا ہوتی ہیں ان صورتوں کو تصور کہتے ہیں یعنی ہر ایک چیز کے لیے جو ایک خیال ذہن میں ہے وہی خیال اس چیز کا تصور ہے۔ جب ہم کسی چیز کا خیال کریں اس سے جو کچھ ہمارے ذہن میں آئے وہ تصور ہے۔ تصور کے لیے جو آواز علامت یا نشانی مقرر کی جاتی ہے اسکو لفظ کہتے ہیں۔ علامت یا نشانی کے معنی تم جانتے ہو کہ یہ ہیں کہ اس سے وہی تصور پیدا ہو جو اصل اس شئے سے پیدا ہوتا ہے جسکی وہ نشانی ہے۔
یہاں کسی تشریح مزید کی حاجت نہیں۔ خط کشیدہ جملوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے صرف گوپی چند نارنگ کی کتاب سے ایک اقتباس پیش کرنا کافی ہوگا:’’ نشان (سائن) کو اس دوہرے رشتے کی مدد سے سمجھا جا سکتا ہے ، جو اس کے ’صوتی امیج ‘ اور ’تصور‘ کے بیچ میں ہے ۔ نشان ان دونوں کا مجموعہ ہے ۔ یعنی صوتی امیج ’ معنی نما‘ ہے اور تصور ’معنی ‘ ہے۔ ‘‘
2. مادی اشیائے خارجی کے تصورِ محسوسہ کے لیے جو الفاظ وضع ہوئے تھے انہیں کے معانی ایسے وضع ہو گئے کہ وہ اشیا ٔ باطنی غیر مادی پر دلالت کرنے لگے مثلاً عقل کے اصل معنی لغت میں پانؤں میں بند باندھنے کے تھے۔ مگر اب وہ اس قوت پر دلالت کرتی ہے جو حقائق و امور کو ادراک کرتی ہے اور علوم کی مدرک ہے اور وہ بھلائی اور نفع خیز چیز ہےکی طرف خواہش دلاتی ہے اور شر و مضرت سے بچاتی ہے۔ یعنی جیسے پیروں کی بندش جانور کو چلنے نہیں دیتی تھی اسی طرح جو قوت طبیعت کو افعال ذمیمہ کی طرف نہیں جانے دیتی۔ اسکا نام عقل رکھا گیا۔ غرض وہی الفاظ کہ جو اشیأ باعیان خارجی پر دلالت کرتے تھے، اشیا ذہنی پر دلالت کرنے لگے۔
3 ضرورت پڑی کہ وہ (انسان) اپنے تصورات و خیالات کے اظہار کے لیے علامات جو محسوس ہوں وضع کرے۔ اس مطلب برآری کے لیے آواز سے بہتر کوئی شئے اور انسان کو ہاتھ نہ لگی۔ آواز ہی ایسی شئے ہے کہ جلدی سے ایک کے پاس سے دوسرے پاس پہنچ جائے اور طرح طرح کی صورتیں بہ آسانی و بکثرت بنا لے۔ پس یہ آوازیں جنکو الفاظ یا کلمات کہتے ہیں گویا قدرت ہی سے اس کام کے لیے موضوع و موزوں ہوئی تھیں۔ مگر یہ یاد رکھو کہ الفاظ و معانی میں کوئی مناسبت طبعی نہیں ہے۔ اگر دلالتِ لفظ باقتضا ٔ ذات لفظ ہوتی تو قریوں و شہروں و ملکوں میں زبانوں کا اختلاف نہ ہوتا۔ ہر شخص ہر لفظ کے ایک ہی معنی سمجھتا اور لفظ کے ایک معنی کی نقل دوسرے معانی کی طرف محال ہوتی اس واسطے کہ جب لفظ کے معنی بالذات ہوتے تو اسکا انفکاک محال تھا۔ ساری دنیا کی ایک زبان ہوتی۔ غرض یہ امر کہ انسان کے اختیار میں تھا کہ اپنے ہر تصور کی ظاہری نشانی اسنے کسی لفظ کو مقرر کر لیا۔ پس الفاظ کا بولنا اپنے تصور کی محسوس نشانیاں دکھانا ہے اور ان الفاظ کے معانی وہی ہمارے تصور کہلاتے ہیں یعنی جو انکا مدلول ہمارے ذہن میں ہے۔
ہم دیکھ سکتے ہیں کہ مولوی ذکاءاللہ نے فطری رشتہ کے بجائے طبعی مناسبت کے الفاظ استعمال کیے ہیں جو’’ فطری رشتہ ‘‘ سے مختلف ہیں اور یہ محض ایک لفظی فرق نہیں ہے۔سابقہ اقتباسات میں یہ نکتہ گز ر چکا ہے کہ ان کے نزدیک الفاظ علامات عامہ ہیں اور ’’ مادی اشیائے خارجی کے تصور محسوسہ کے لیے جو الفاظ یا علامات وضع ہوئے وہ بعد میں اشیائے باطنی غیرمادی پر دلالت کرنے لگے۔‘‘ پیش نظر اقتباس میں مزید آگے انہوں نے فرمایا کہ ’’ الفاظ کا بولنا اپنے تصور کی محسوس نشانیاں دکھانا ہے اور ان الفاظ کے معانی وہی ہمارے تصور کہلاتے ہیں یعنی جو انکا مدلول ہمارے ذہن میں ہے۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ ذکا اللہ کے نزدیک ’معنی ‘ سے مراد ہر وہ ذہنی خیال یا تصور ہے جس پر کوئی علامت یا نشانی دلالت کرتی ہے۔ اس طرح لفظ و معنی میں طبعی مناسبت نہ ہونے کے معنی یہی ہو سکتے ہیں کہ لفظ یا علامت اور اس کے ذہنی تصور یا مدلول میں کوئی ایسی مناسبت نہیں جس کو طبعی کہا جا سکے۔ ایسا لگتا ہے کہ مولوی ذکاءاللہ کا تصور لفظ و معنی ساختیاتی و پس ساختیاتی فلسفہ لسان سے زاویاتی طور پر مختلف ہے اور ان کے موقف کو پہلے اور بعد کے علمائے لسانیات کے موقف سے ممتاز کرتا ہے ۔ممکن ہے مزید دیگر نقطہ ہائے نظر سے تحقیق کرنے پر زاویے کا یہ اختلاف اور بھی بڑھ جائے یا تقریباً وہی رہے جو سوسیئر کا ہے لیکن اتنا قطعی ہے کہ یہ بعینہ وہی بات ہرگز نہیں ہے جس کی رو سے لفظ و معنی کا رشتہ فطری نہ ہو کر آربٹریری ہے۔ بالخصوص اس صورت میں جبکہ وہ کہہ چکے ہوں کہ زبان کی بامعنی "آوازیں جن کو الفاظ یا کلمات کہتے ہیں گویا قدرت ہی سے اس کام کے لیے موضوع و موزوں ہوئی تھیں۔" پس، مولوی ذکاءاللہ کا تصور لفظ و معنی زبان کے الفاظ کو فطری کی تعریف سے خارج کرتا ہوا نہیں معلوم ہوتا.
انہوں نے اس اقتباس میں مدلول کا ذکر جس سیاق میں کیا ہے اس کی بنا پر کہا جا سکتا ہے کہ ان کے یہاں سگنی فائر اور سگنی فائیڈ کا تصور بھی بالکل واضح ہے۔ اردو میں ان اصطلاحات کا متبادل معنی نما اور تصور معنی مستعمل ہے حالانکہ دال اور مدلول کی اصطلاح بھی رائج ہے ۔کیس فرستیخ کے بقول دال اور مدلول کو سوسیئر کے سگنی فائیڈ اور سگنی فائر کے مساوی سمجھنا غلط ہے کیونکہ اول الذکر ایک فکری اصطلاح ہے جو لسانیاتی نشان کا لسانیاتی معنی قطعی نہیں ہو سکتا۔ لیکن مولوی ذکاءاللہ نے تقویم میں دال اور مدلول کی اصطلاح کے بجائے’لفظ اور مدلول‘ کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ یہاں پر کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہو کہ مولوی ذکاءاللہ نے بعینہ سوسیئر کے معنوں میں لسانی نشان کی وحدت کی تشکیل کی تھی اور وہ بھی لفظ اور مدلول کو کاغذ کی دو طرفوں کے مماثل قراردیتے تھے حالانکہ وہ لفظ اور مدلول میں "ایک تعلق" ہونے کی بات تسلیم کرتے ہیں جس کا ذکر اگلے اقتباس میں آ رہا ہے۔
4. جب آدمی مشق سے اپنے مفہومات ذہنی اور مافی الضمیر کے بیان کرنے پر قادر ہو جاتا ہے تو اس کے ذہن میں الفاظ فوراً تصورات کی ایسی تحریک کرتے ہیں جیسے کہ اصل اشیا جن سے وہ تصورات ہوئے تھے۔ ابھی منہ سے لفظ نکلا نہیں کہ اس کا اصل مدلول ذہن میں آ موجود ہوتا ہے۔
جب ہم بولتے ہیں تو الفاظ کے معانی قریبہ وہی تصورات ہوتے ہیں جو ہمارے ذہن میں موجود ہوتے ہیں۔ ہم کو بچپنے سے بہت سے الفاظ بولنے کی مشق ایسی چڑھی ہوئی ہوتی ہے کہ وہ بے اختیار ہمارے زبان کی نوک پر آتے ہیں،الفاظ کا استعمال جب تک بامعنی ہوتا ہے تو آواز اور تصور میں ایک تعلق ہوتا ہے اور جب یہ نہ ہو تو الفاظ ایک آواز بے معنی ہوتے ہیں۔
مولوی ذکاءاللہ لفظ اور معنی میں ایک تعلق تو تسلیم کرتے ہیں لیکن اس کی نوعیت کے بارے میں نہیں کہتے کہ وہ غیرفطری یا آربٹریری ہے بلکہ اس کے برعکس وہ الفاظ کو گویا قدرت ہی کی جانب سے موضوع اور موزوں بتاتے ہیں ۔ پھر وہ اس رشتے کو فطری کی تعریف سے کیسے خارج کر سکتے تھے؟

5
جو اقتباسات اوپر پیش کیے گئے ہیں ان سے صریحاً یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ لفظ و معنی میں طبعی مناسبت کے نہ ہونے کی حکمت ان کے نزدیک کیا ہے لیکن اس کی اہمیت کے پیش نظر ایک بار پھر اس کا اعادہ سوسیئری نشان کی دریدائی ردتشکیل کے حوالے سے کرنا ضروری ہے. جب بقول نارنگ ژاک دریدا ’’دلیل کی مضبوطی سے ثابت کر تا ہے کہ زبان میں سگنی فائر اور سگنی فائیڈ اپنے اپنے افتراقات ہی سے کارگر ہیں، اور ان میں وصل ناممکن ہے‘‘ تو کیا وہ ، غالباً، وہی بات تو نہیں کہہ رہا ہے کہ جو مولوی ذکاءاللہ ایک صدی قبل سے زیادہ عرصہ ہوا کہہ گئے ہیں؟ (یہ میں نے مجرد ایک سوال اٹھایا ہے، سوال کے پردے میں یہ میرا دعوی نہیں ہے). یعنی اگر معنی نما اور تصور معنی (سگنی فائر و سگنی فائیڈ ) میں افتراق نہ ہو کر ان میں طبعی مناسبت ہوتی تو لفظ اور اس کے معنی ایک دوسرے سے جدا نہ کیے جا سکتے، ان کے درمیان ایک اور ایک کا ناقابل انفکاک رشتہ قائم ہو جاتا ، اور ہر ایک معنی کے لیے جد ا جدا الفاظ وضع ہوتے، یہاں تک کہ انہیں یاد رکھنا اور استعمال کرنا رفتہ رفتہ قطعی ناممکن ہوجاتا۔ اوپر ردتشکیل کے سلسلے میں جو عبارت میں نے نارنگ کی ساختیات سے نقل کی ہے، اس کے ایک حصے کو ایک بار پھر دیکھنے کی زحمت دینا چاہتا ہوں:
دریدا اور سوسیئر کی فکر میں فرق بس یہی ہے کہ کہ سوسیئر نے زبان کے جس افتراق پر قابو پانے کے لیے نشانِ وحدت کو قائم کیا، دریدا نے اپنی منطقی قوت سے اسے پاش پاش کر دیا اور دلیل افتراق کو استقلال عطا کر دیا۔ دوسرے لفظوں میں سگنی فائر/ سگنی فائیڈ کے درمیان وحدت کا جو ٹانکا سوسیئر نے لگا دیا تھا، دریدا نے اسے کھول دیا، اور دلیل کی مضبوطی سے ثابت کر دیا کہ زبان میں ۔۔۔۔ سگنی فائر اور سگنی فائیڈ اپنے اپنے افتراقات ہی سے کارگر ہیں، اور ان میں وصل ناممکن ہے۔
یہ نکتہ کہ "زبان میں سگنی فائر و سگنی فائیڈ اپنے افتراقات ہی سے کارگر ہیں " فی الاصل وہی بات ہو سکتی ہے جو مولوی ذکا اللہ کی درج ذیل عبار ت میں کہی گئی ہے:
مگر یہ یاد رکھو کہ الفاظ و معانی میں کوئی مناسبت طبعی نہیں ہے۔ اگر دلالتِ لفظ باقتضا ٔ ذات لفظ ہوتی تو قریوں و شہروں و ملکوں میں زبانوں کا اختلاف نہ ہوتا۔ ہر شخص ہر لفظ کے ایک ہی معنی سمجھتا اور لفظ کے ایک معنی کی نقل دوسرے معانی کی طرف محال ہوتی اسواسطے کہ جب لفظ کے معنی بالذات ہوتے تو اسکا انفکاک محال تھا۔
اور لفظ سے اگر اس کے معنی کو جدا کر کے اسے دوسرے معنوں میں استعمال نہ کیا جا سکے تو کیا مسئلہ پیدا ہوگا، اس کے متعلق وہ کہتے ہیں:
اگر ہر تصور جزئی کے لیے لفظ وضع کیا جاتا تو الفاظ نہایت کثیرالتعداد ہوتے کہ اونکا انحصار و انضباط متعذر ہوتا۔ اسلیے یہی زبان کے لیے مفید سمجھا گیا کہ کلی تصور کے ناموں کے لئے زیادہ تر الفاظ وضع کئے جائیں اور جزئی تصور کے لئے خاص الفاظ مقرر ہوں۔ ایسی صورت میں آدمیوں کا باہم ہم ہمکلام ہونا سہل ہوگا۔ اسلئے کلی تصور کے لئے عام نام رکھے گئے۔
مجھے قطعی واضح طور پر نہیں معلوم کہ ژاک دریدا کے نزدیک زبان میں سگنی فائر و سگنی فائیڈ اپنے افتراقات سے کیونکر کارگر ہوتے ہیں ، مجھے اس سلسلے میں مزید مطالعہ یا تحقیق کی ضرورت ہے اور ممکن ہے میرا یہ قیاس غلط ہو، لیکن ہم دیکھ سکتے ہیں کہ مولوی ذکاءاللہ کے نزدیک لفظ و معنی میں طبعی مناسبت کا نہ ہونا کتنا ضروری اور مفید ہے کہ زبان اس کے بغیر ہرگز کارگر نہیں ہو سکتی. انفکاک کا جو تصور مولوی ذکاءاللہ کے ہاں موجود ہے ، تقریباً وہی دریدا کے ہاں افتراق کا ہے۔ مولوی ذکاءاللہ ’’انفکاک‘‘ کو مثبت طور پر بیان کرتے ہیں جبکہ گوپی چند نارنگ کی ترجمانی سے معلوم ہوتا ہے کہ دریدا ’’ افتراق ‘‘کو منفی طور پر بیان کرتا ہے۔مولوی ذکاءاللہ اپنے تصور’’ انفکاک‘‘ کو لفظ کے ایک معنی کی نقل دوسرے معنی کی طرف ہونے کے لیے ضروری قرار دیتے ہیں جبکہ ژاک دریدا سوسیئر سے ماخوذ اپنے نظریے ’’افتراق‘‘ کو معنی خیزی کے لیے ضروری قرار دیتا ہے۔ دریدا کی ترجمانی میں نارنگ نے لکھا ہے کہ وہ اپنے تصور افتراق کو ایک ساخت اور ایک تحریک قرار دیتا ہے جس کے تین خصائص ہیں جن میں پہلی خصوصیت یہ ہے:
اس کی رو سے زبان کے عناصر میں افتراق اور اس کی وجہ سے معنی خیزی کا کھیل جاری رہتا ہے ۔
پس، غالباً یہی وہ نکتہ ہے جس کے متعلق نارنگ صاحب نے فرمایا ہے کہ’’ دریدا نے دلیل کی مضبوطی سے ثابت کر دیا کہ زبان میں سگنی فائر اور سگنی فائیڈ اپنے افتراقات ہی سے کارگر ہیں۔ ‘‘اگر الفاظ و معنی باہم ناقابل انفکاک ہوں یا ان میں افتراق نہ پایا جائے تو ظاہر ہے ذکاءاللہ کے نزدیک ایک لفظ کے ایک سے زیادہ معنی نہیں ہو سکتے ، اور کثرت الفاظ کے سبب زبان کا استعمال ناممکن ہو جائے اور دریدا کے نزدیک بھی افتراق وہ سبب ہے جو معنی خیزی کے کھیل کو ممکن بناتا ہے۔ یعنی ذکاءاللہ اور دریدا دونوں اصل بات پر متفق ہیں لیکن کہنے کا انداز جدا ہے۔ ایک معنی خیزی کو کھیل بتاتا ہے اور دوسرا اس کی حکمت بیان کرتا ہے اور باتیں دونوں کی دلچسپ ہیں البتہ مولوی ذکاءاللہ کے تصورِ انفکاک کو دریدا کے نظریہ افتراق پر زمانی تقدم حاصل ہے حالانکہ ’’انفکاک ‘‘کا تصور مولوی ذکاءاللہ کے ہاں کسی باضابطہ نظریہ کی صورت میں نہیں ڈھلتا ہے۔

6

گوپی چند نارنگ اردو کے جن الفاظ کی مدد سے سوسیئر کی تفہیم کراتے ہیں ان سے میری سمجھ میں فی الحال یہی باتیں آتی ہیں کہ سوسیئر کے زمانے تک دنیا آزادانہ وجود رکھنے والی اشیا سے عبارت تھی، لوگ صدیوں سے مانتے چلے آ رہے تھے کہ زبان ایک "جوہری" اور "قائم بالذات" چیز ہے، یہ تسمیہ یا اشیا کو نام دینے والا نظام ہے جس سے بالعموم مراد یہ تھی کہ لفظ کا معنی اور شئے سے فطری رشتہ ہے، لفظ میں معنی کسی نہ کسی طور موجود ہے، اسی لیے زبان اظہار خیال کا ایک شفاف میڈیم ہے۔ لوگوں کے ذہن میں زبان کے فطری ہونے کی شرط یہ تھی کہ لفظ میں شئے کی خصوصیت ہونی چاہیے ۔ یہی وہ عقبی تصور تھا جس کی بنا پر یہ خیال اپنی جڑیں جمائے ہوئے تھا کہ لفظ میں شئے کی حقیقت پائی جاتی ہے، چنانچہ سوسیئر نے لفظ اور معنی میں فطری رشتہ ڈھونڈا ، یعنی لفظ میں شئے کی خصوصیت جس کو نہ ملنا تھا اور نہ ملا۔ پس جو رشتہ پہلے فطری ہوا کرتا تھا وہ اب غیرفطری ٹھہرا، اور جو زبان پہلے شفاف سمجھی جاتی تھی اب وہ غیرشفاف قرار پائی۔ تعبیر کی یہ غلطی اور شدید ہو گئی جب لفظ و معنی کے رشتے کو آربٹریری بھی کہہ دیا گیا۔ اس سے یہ بات نکلتی تھی کہ جس لفظ کو جیسے چاہو استعمال کرو، وہ نقلِ معنی میں مزاحم نہیں ہو سکتا ۔ یہ مسئلہ یوں دور ہوا کہ معنی کسی خارجی قوت کی رو سے طے نہیں ہوتے ہیں بلکہ یہ زبان کی ساخت کے عطاکردہ ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اس مفروضے کا ایک اثر ساختیاتی فلسفہ لسان میں یہ ظاہر ہوا کہ معنی آفرینی زبان کے نظام کے تابع ہو گئی جس کے بعد اس میں سے زبان کی یہ حقیقت خارج ہو گئی کہ یہ انسان کے ارادہ پر مبنی ایک فنکارانہ شئے بھی ہے جسے سائنسی طور پر گرفت میں لانا ممکن نہیں ہے۔ نارنگ صاحب نے اپنی کتاب میں سوسیئر کی جس قدر ترجمانی کی ہے اس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ واقعات کی دنیا میں منفرد لفظ اپنے معنی کی تشکیل میں بالذات اپنا کوئی دخل نہیں رکھتا اور زبان کی ساخت کے سوا کوئی خارجی قوت ایسی نہیں ہے جو اس کو معنی عطاکرتی ہو۔ ان کی ترجمانی کے مطابق فلسفہ ساختیات میں لفظ و معنی کا وہ نقطہ نظر جگہ نہ پا سکا کہ زبان کے الفاظ اور معانی قدرت ہی کی جانب سے ایک دوسرے کے لیے باہم ’’موضوع ہونے‘‘ کے ساتھ ’’موزوں‘‘ بھی ہوتے ہیں حالانکہ اس موزونیت کو گرفت میں لانا اکثر اوقات ممکن نہیں رہتا۔ لیکن محض اس سبب سے کہ ہم لفظ و معنی کی موزونیت و تناسب باہمی کو گرفت میں نہیں لا سکتے، لفظ و معنی کے رشتہ کے فطری ہونے کی نہ صرف یہ کہ نفی کریں بلکہ اس کو آربٹریری بھی باور کرائیں، یہ بھی یقیناً کوئی سائنسی بات نہیں ہو سکتی کیونکہ بعض الفاظ و معانی میں ایک مناسبت پائی جاتی ہے اگرچہ ان میں طبعی یا فطری رشتہ نہ ہو ۔ پس، ایسی تعبیرکو نہ سائنس کہا جا سکتا ہے اور نہ سائنس کا درجہ دیا جا سکتا ہے۔
لفظ و معنی کے باہمی رشتے کے فطری و آربٹریری ہونے کا یہ پورا معاملہ مروجہ عقائد کی ایک غلطی کی تصحیح کرتے ہوئے دوسری غلطی میں مبتلا ہو جانے پر مبنی تھا۔ اگر ہم بالذات زبان کے قوانین کو قوانین فطرت کا حصہ ہونا تسلیم کریں تو کچھ وجہ نہیں کہ لفظ اور معنی کے تعلق کو بھی ہم فطری نہ کہیں۔انسان کے آلات نطق سے کلمات کا نکلنا کسی نہ کسی فطری قانون کے تحت ہی تو واقع ہوتا ہے۔ اسی طرح انسان کے ذہن میں جو تصورات و خیالات پیدا ہوتے ہیں وہ بھی کسی نہ کسی فطری قانون کی رو سے ہی پیدا ہوتے ہیں۔ اسی طرح لفظ کا اپنے ذہنی تصور اور خیال کی طرف اشارہ بھی کسی فطری قانون کے تحت ہی واقع ہوگا۔ واقعہ یہ ہے کہ اس کائنات کی کوئی بھی شئے اور مظہر ایسا نہیں ہے جس کے متعلق یہ کہا جا سکے کہ وہ غیرفطری ہے۔جو کچھ ہوا، ہو رہا ہے اور ہوگا وہ سب کچھ فطری کی تعریف میں داخل سمجھا جائے گا۔لیکن انسان کائنات میں ارادتاً تصرف کرتا ہے جس کے بعد اس کے گرد و پیش کی اشیا سابقہ حالت پر باقی نہیں رہتیں، اور چونکہ انسان کے ارادی اعمال کے نتیجے میں اشیا میں جو تغیر ات دیکھے جاتے ہیں انہیں سابقہ فطری حالت سے جدا کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے ، اور محض اسی لیے انسانی ارادہ کی کارفرمائی پر مبنی تغیرات کو تمدنی حالت بتاتے ہیں اور اس کے مقابلے میں سابقہ حالت کو فطری حالت کہتے ہیں،اسی کے نتیجے میں تمدنی اور فطری حالت میں اختلاف معنی ہوتا ہے اور تہذیبی و فطری کی ڈائیکاٹومی وجود میں آتی ہے ورنہ پہاڑوں اور درختوں کی طرح تہذیب و تمدن بھی قوانین فطرت کے تحت ہی ظہور میں آتے ہیں۔ اس سیاق میں کہہ سکتے ہیں کہ زبان بھی ایک فطری شئے ہے لیکن چونکہ زبان ایک ایسا انسانی کارنامہ ہے جو بیک وقت ارادی بھی ہے اور غیرارادی بھی اس لیے اس کو سابقہ ان چھوئی حالت کے معنوں میں فطری نہیں کہہ سکتے ہیں ورنہ پھر انسان کے ارادی اعمال کو قدرتی واقعات و حوادث سے ممتاز نہ کیا جا سکے گا۔ پس، فطرت کے وسیع تر معنوں میں انسانی زبان کا فطری ہونا ضروری ہے لیکن سابقہ ان چھوئی حالت پر مبنی معنوں میں زبان کو فطری نہیں کہا جا سکتا کیونکہ اس میں انسانی ارادہ شامل ہو چکا ۔یہی معاملہ لفظ و معنی اور ان کے باہمی رشتے کا بھی ہے کہ ان میں سے ہر ایک میں انسانی ارادہ اور شعور کی کارفرمائی ہے ، اس لیے یہ دونوں چیزیں بھی اس خاص معنی میں فطری نہیں ہو سکتیں۔ لیکن وسیع تر معنوں میں یقیناً وہ فطری حیثیت رکھتی ہیں۔ یہی وہ ممکنہ سبب نظر آتا ہے کہ مولوی ذکاءاللہ نے تقویم میں لفظ و معنی میں تعلق پر فطری و آربٹریری والی بحث نہیں اٹھائی اور فرمایا کہ لفظ و معنی گویا قدرت ہی کی طرف سے ایک دوسرے کے لیے موضوع اور موزوں ہوئے تھے. اس نقطہ نظر کے مقابلے میں یہ نقطہ نظر کہ لفظ میں شئے کی خصوصیت ہو تبھی ہم زبان کو فطری مانیں گے کچھ قدر و قیمت نہیں رکھتا۔ یہ نقطہ نظر دراصل اور چیزوں کے طبیعی خواص کو تو تسلیم کرتا ہے اور انہیں ایک دوسرے سے ممتاز کرتا ہے لیکن زبان ہی کے سلسلے میں اس کو اعتراض ہے کہ دیگر اشیا کی خصوصیات اس کے اندرکیوں نہیں پائی جاتیں؟ زبان اگر مثل دیگر متنوع اشیا کے ایک نوع کی شئے ہے تو اس کا اپنا امتیازی وجود بھی ضرور ہوگا جس کو دیگر اشیا کی طرح فطری ہی کہنا چاہیے اور اسی نسبت سے زبان کے الفاظ کو بھی اپنے معنی کی طرف فطری اشارہ کرنے والا سمجھنا چاہیے۔


7

مجھے علم نہیں کہ شبخون یا کسی اور اردو جریدے میں مولوی ذکاءاللہ کا تصور لفظ و معنی ساختیاتی و پس ساختیاتی تھیوری کے اردو میں داخلے کے بعد زیربحث آیا یا نہیں۔ اس کے لیے ظاہر ہے کم و بیش چالیس سال پہلے سے اب تک کے علمی و ادبی لٹریچر کو کھنگالنا ہوگا جو بہت مشکل کام ہے۔ لیکن اپنی حدتک مجھے یقین ہے کہ میں نے اس سے پہلے نہ کہیں مولوی ذکاءاللہ کے تصور لفظ و معنی پر کوئی مضمون پڑھا نہ کسی اور سے اس کا ذکر سنا۔ یہ تو میری تحقیقی جستجو تھی جس نے مجھے ان تک پہنچایا ۔ممکن ہے بعض لوگ کہیں کہ لفظ و معنی پر مولوی ذکاءاللہ کے تصورات کو اس تناظر میں بیان کرنے کی کیا ضرورت ؟ پہلےبھی تو یہ بحثیں ہوتی رہی ہیں کہ لفظ و معنی میں کوئی فطری رشتہ نہیں ۔مشرقی ہو یا مغربی کسی بھی علمی روایت میں یہ کوئی حیرت انگیز بات نہیں رہ گئی، اس لیے ضرورت سے زیادہ اس مسئلے کو طول دینا آخر کیا فائدہ پہنچا سکتا ہے؟ اس کے جواب میں عرض کروں گا کہ نارنگ صاحب کی اس پوری کتاب کو دیکھ جائیے، ماضی بعید کے مشرقی فلسفوں میں جہاں کہیں بھی انہیں سوسیئر کے اس نکتے سے جس قدر مشابہت کا امکان تھا،، انہوں نے بصد اہتمام اس کو درج کیا ہے۔ پس، اگر ہمارا علمی ماضی بعید واقعی اتنا شاندار اور تابناک ہے تو اس کو سامنے لانا ہماری ہی ذمہ داری ہے جسے اہل مغرب ادا کر رہے ہیں اپنے علمی کارناموں کے ذریعے . چنانچہ نارنگ صاحب ساختیات کے دیباچے میں ہی فرماتے ہیں کہ:
اس مطالعے سے یہ دلچسپ حقیقت بھی سامنے آئی کہ سوسیئر سنسکرت میں استعداد علمی رکھتا تھا اور قرینہ غالب ہے کہ اس نے سنسکرت فلسفہ لسان اور بودھی فکر سے استفادہ کیا ہو۔ سوسیئر اور دریدا کی فکر اور نیایے اور بودھی نظریہ اپوہ اور شونیہ میں حیرت انگیز مماثلت اور مطابقت ملتی ہے، اس مطالعہ سے یہ توقع بھی پیدا ہوتی ہے کہ مشرقی شعریات کے وہ تصورات و نکات جو اپنی سرزمین میں بھولی بسری یاد بن گئے، ممکن ہے کہ نئی تھیوری سے فکری مشابہتوں کے باعث از سر نو دلچسپی کا مرکز بن جائیں اور نئی ادبی توقعات کے افق پر نئی معنویت کے حامل نظر آنے لگیں۔ یہی کیفیت عربی فارسی روایت میں بھی ملتی ہے۔ کتنے نکات ایسے ہیں جو جدید فلسفہ لسان یا ساختیات کے پیشرو معلوم ہوتے ہیں بھلے ہی ان کی منطقی تحلیل اس درجہ نہ کی گئی ہو۔ یہ حقیقت ہے کہ ہم ان سے غافل رہے ہیں۔ ہم بھول جاتے ہیں کہ عبدالقاہر جرجانی یا ابن حزم تک بھی ہم نئے فلسفیوں کی وساطت سے پہنچے ہیں ورنہ مشرقی کتابیں تو بالعموم ان کے ذکر سے خالی ہیں۔ بہرحال روایت کو چوں کہ ہم نئی معنویت کی نظر سے دیکھ رہے ہیں، ہمیں از سر نو پرانی بصیرتوں کا سراغ مل رہا ہے ۔
پس، اگر ہمارے تابناک لیکن بعید ماضیوں میں کتنے ہی نکات ایسے ہیں جو جدید فلسفہ لسان یا ساختیات کے پیش رو معلوم ہوتے ہیں تو ماضی قریب کے مولوی ذکاءاللہ تو لسانی نشان کے باب میں بدرجہ اولی سوسیئر کے پیشروں میں سے ایک کہلانے کے مستحق ہیں. لفظ و معنی کے باب میں ساختیاتی فلسفہ لسان سے اس درجہ مشابہت کے ساتھ سوسیئر بلکہ اپنے تصور’’ انفکاک ‘‘کی بنا پر ژاک دریدا پر معنوی تقدم حاصل ہوجانا کوئی معمولی بات تو نہیں اور وہ بھی اس دور میں جبکہ ہم اپنی ان پرانی بصیرتوں کا سراغ فرزندان مغرب کے کارناموں میں لگانے پر مجبور ہوں جنہیں لوگ بھول بسر گئے ہوں.
لیکن ، ٹھہریے، ہمارا سب سے بڑا مسئلہ اس کے سوا اور کیا ہے کہ ہم گرفتارماضی اور مبتلائے تاریخ لوگ ہیں۔ ہم کسی نئے فلسفے پر ایمان نہیں لاتے جس کی اجازت ہمارا تہذیبی ماضی نہ دیتا ہو۔ ہم ہر اس چیز پر بحث اور گفتگو کرنے سے پرہیز کرتے ہیں جو ہماری روایت سے لگا نہ کھاتا ہو۔ اس چیز کو عالم مغرب میں بنیادپرستی کہا جاتا ہے۔ اس میں کیا شک ہے کہ ہمارا ماضی واقعی تابناک تھا لیکن سوال یہ ہے کہ ماضی کی یہ بصیرتیں ماضی میں ہی کیوں رہ گئیں؟ ہم انہیں اپنے ساتھ زمانہ حال تک کیوں نہ لا سکے ؟ صرف اس لیے کہ جن بنیادوں پر ہم نئی چیزوں کی تصدیق اپنے ماضی سے آج کرنا چاہتے ہیں اسی طرح ماضی میں بھی ہر نئی چیز کی تصدیق لوگ ماضی سے ہی چاہتے تھے جو ہر معاملے میں نہیں ہو سکتی تھی ، پس بہت سی نئی چیزوں کو بھُلا اور مٹا دینا ہی انسب خیال کیا جاتا تھا تا کہ روایت ایک انچ بھی اِدھر سے اُدھر نہ ہو۔اور وہی غلطی ہم ایک بار پھر کر رہے ہیں کہ ماضی کی عظمت رفتہ کی بنا پر زمانہ آئندہ کا قصر تعمیر کرنا چاہتے ہیں. معلوم ہوتا ہے کہ ہم زمان و مکاں کو ایک وحدت کے طور پر دیکھتے ہی نہیں اور ماضی، حال اور مستقبل کی تثلیث میں زمانہ کے دو مفروضہ حصوں، حال اور مستقبل پر تیسرے مفروضہ حصے ماضی کو فوقیت دیتے ہیں ۔ لیکن چونکہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ تہذیبوں کے قوائے فکر و عمل سرود رفتہ اور ایام گم گشتہ ہی کی ترغیب سے حرکت میں آتے ہیں اس لیے تابناک ماضی کو ان کا محرک بنایا جاتا ہے اور گردش ایام سے کہا جاتا ہے کہ لوٹ کر آئے اور پھر وہی صبح و شام دکھائے جو تہذیبوں کے طاق نسیاں کی نذر ہو گئیں.لیکن نہ ہر نئی فکر کے لیے ماضی سے ایک دلیل فراہم کی جا سکتی ہے اور نہ ماضی کی ہر بنیاد پر مستقبل کی عمارت کھڑی کی جا سکتی ہے ۔اور یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ ماضی کی فلاں بنیاد ابدی و دائمی ہے اور فلاں عارضی، اس لیے ایک میں تغیر جائز ہے اور دوسرے میں ناجائز۔ کارتجدید کے لیے تہذیبی روایتِ نقلی میں حریت فکر و ضمیر سے مالامال درایتِ عقلی کی ضرورت پڑتی ہے اور یہی وہ نعمت عظمی ہے جس کے حاصل ہونے سے انسان عمل و خیال کی نئی طرحیں بھی ڈال سکتا ہے اور تعبیر و تحقیق معانی میں نئی طرفوں کو بھی سامنے لا سکتا ہے.






1. گوپی چند نارنگ، ساختیات، پس ساختیات اور مشرقی شعریات، بار سوم (دہلی: قومی کونسل برائے فروغِ اردو زبان، 2004)، 46.
2. حوالہ سابق، 225–26.
3. ناصر عباس نیر، ساختیات: ایک تعارف، دوم (اسلام آباد: پورب اکادمی، ۲۰۱۱)، ۱۲۲.
4. اس پر اڈیشن درج نہیں ہے۔
5. یہ کہنا مقصود نہیں ہے کہ سوسیئر مولوی ذکاءاللہ سے متاثر تھا۔
6. گوپی چند نارنگ، ساختیات، پس ساختیات اور مشرقی شعریات، 9.
7. حوالہ سابق، 10.
8. حوالہ سابق، 60.
9. حوالہ سابق، 67.
10. حوالہ سابق.
11. حوالہ سابق، 68.
12. CRATYLUS
13. گوپی چند نارنگ، ساختیات، پس ساختیات اور مشرقی شعریات، 338.
14. حوالہ سابق، 343.
15. حوالہ سابق، 349.
16. حوالہ سابق، 348.
17. حوالہ سابق، 399–400.
18. Their signification perfectly arbitrary، not the consequence of a natural connexion. John Locke، AN ESSAY CONCERNING HUMAN UNDERSTANDING (1690)، 27th Ed. (London: Printed For T. Tegg and Son، 1836)، 293–94، http://books.google.com/books/about/An_Essay_Concerning_Human_Understanding.html?id=vjYIAAAAQAAJ.
19. ژرار ژینت، “زبان کے بارے میں وضعیاتی اور بعد وضعیاتی تصورات،” شبخون، 1985، 1.
20. Winfried Noth
21. ونفرائیڈ ناتھ، “زبان، معنی، اور رسومیات،” شبخون، 1999، 1.
22. شمس الرحمان فاروقی، “تعبیر کی شرح،” شبخون، 1994، 62–63.
23. گوپی چند نارنگ، ساختیات، پس ساختیات اور مشرقی شعریات، 225–26.
24. ناصر عباس نیر، “ساختیات اور ساختیاتی تنقید،” در ساختیات: ایک تعارف، 2011th ویرایش (اسلام آباد: پورب اکادمی، بدون تاریخ)، 116.
25. مولوی محمد ذکأاللہ، رسالہ تقویم اللسان، اڈیشن درج نہیں (مطبع شمس المطابع بااہتمام منشی محمد عطااللہ، 1893)، 4.
26. گوپی چند نارنگ، ساختیات، پس ساختیات اور مشرقی شعریات، 66.
27. ذکأاللہ، رسالہ تقویم اللسان، 4–5.
28. حوالہ سابق، 5–6.
29. Kees Versteegh
30. “One might be tempted to equate d¯all and madl¯ul with the Saussurean dichotomy of ‘signifiant’ and ‘signifié’. But such an equation would be wrong: the madl¯ul or the ma_n¯a is a thought concept، or perhaps the intended meaning of the speaker، but certainly not the linguistic meaning of a linguistic sign.” Kees Versteegh، “The Arabic Tradition،” in The Emergence of Semantics in Four Linguistic Traditions : Hebrew، Sanskrit، Greek، Arabic، Editor: E. F. Konrad Koerner (Amsterdam/ Philadelphia: John Benjamins Publishing Co.، 1997)، 256.
31. ذکأاللہ، رسالہ تقویم اللسان، 7–8.
32. حوالہ سابق، 4.
33. گوپی چند نارنگ، ساختیات، پس ساختیات اور مشرقی شعریات، 227.
34. حوالہ سابق 16.


ماخذ
اردو
ذکاءاللہ، مولوی محمد. رسالہ تقویم اللسان. اڈیشن درج نہیں. مطبع شمس المطابع بااہتمام منشی محمد عطااللہ، 1893.
ژرار ژینت.’’زبان کے بارے میں وضعیاتی اور بعد وضعیاتی تصورات‘‘ شبخون، جولائی تا ستمبر 1985.
شمس الرحمان فاروقی.’’تعبیر کی شرح.‘‘ شبخون،جون جولائی 1994.
گوپی چند نارنگ. ساختیات، پس ساختیات اور مشرقی شعریات. بار سوم. دہلی: قومی کونسل برائے فروغِ اردو زبان، 2004.
ناتھ، ونفرائیڈ. ’’زبان، معنی، اور رسومیات.‘‘ شبخون،مئی جون 1999.
نیر، ناصر عباس. ’’ساختیات اور ساختیاتی تنقید.‘‘ مشمولہ ساختیات: ایک تعارف، 2011. اسلام آباد: پورب اکادمی.
———. ساختیات: ایک تعارف. دوم. اسلام آباد: پورب اکادمی،2011.

انگریزی
Locke, John. AN ESSAY CONCERNING HUMAN UNDERSTANDING (1690). 27th Ed. London: Printed For T. Tegg and Son, 1836. http://books.google.com/books/about/An_Essay_Concerning_Human_Understanding.html?id=vjYIAAAAQAAJ.
Versteegh، Kees. “The Arabic Tradition.” in The Emergence of Semantics in Four Linguistic Traditions : Hebrew, Sanskrit, Greek, Arabic edited by E. F. Konrad Koerner. Amsterdam/ Philadelphia: John Benjamins Publishing Co., 1997.
٭٭٭

ثروت زہرا کی نظمیں

فیس بک کا موت سے رشتہ ابھی نیا ہے

موت نے کوئے ابد سے آکے
خاموشی سے
ٹا ئم لا ٰئن پر جگہہ بنا لی
آ ئکن۔۔۔۔۔۔ اپنی شکل پہ رکھے
جذبوں کی تصویر بنانا
بھول گئے ہیں
ہندسے۔۔۔۔
لا متناہی گنتی گننے چلے گئے ہیں
جلتی بجھتی تصویروں کے سب انگارے
راکھ میں ڈھل کراسٹیٹس کو ڈھانپ چکے ہیں
حرف کی دھڑکن گوندھنے والی
ساری گرہیں ۔۔اک اک کر کے کھلنے لگی ہیں
ماتمی دف پہ ساری سطریں ناچ رہی ہیں
پروفائل اور البم کی ساری تصویریں
دم سادھے حیران کھڑی ھیں۔۔۔۔۔۔
جذبوں کے تالاب سے ہلچل کھیلنے والے
دل اور آنکھیں خاک ہوئے ہیں
خوابوں کی اعصابی لہریں
انٹرنیٹ کی حد میں نہیں ہیں
شعر کے مصرعے موت کے منہ میں
گھونگھے ڈالے بول رہیں ہیں
موت جرس کے آوازے نے
فیس بک کو گھیر لیا ہے
مگر ابھی تو
فیس بک کا موت سے رشتہ بہت نیا ہے
٭٭٭

حیرت کدہ

گریباں سے پہلے یہ گردن،
تو گردن سے پہلے؟!
مہربان مہروں کی خود پر چڑھائی
قلم روشنائی سے پہلے یہ انگلی
تو انگلی سے پہلے رگوں کی ترائی
صداوں سے پہلے دہن ،یہ زباں
اور ان سے بھی پہلے ۔۔
یہ عصبی کڑھائی
تماشے سے پہلے یہ پتلی
سفیدی کی عریاںطنابیں
تو اس سے بھی پہلے
اندھیری لکیروں کی کھائی
سفر !
تجھ سے پہلے قدم
اور اس سے بھی پہلے
ارادوں کی ہیئت کذائی
مرے دل میں تُوتیری خواہش
تری خوا ہشوں سے بھی پہلے
گپھاوں کا باسی تنفس
مرے جینیاتی نظاموں کی پہلی لکھائی
تو پہلے سے،
پہلے سے
پہلے کی کیسی جدائی؟
٭٭٭
.
داوء اور دروپتی کا ر شتہ


دروپتی ۔۔۔۔۔!
تم تو جانتی ہو
کہ زمانے کی لوک سبھا میں تمہارے
انصاف پسند خداوؑں سمیت تمام ہونٹوں پر
خاموشی کی مہر ثبت ہو چکی ہے
خوبرو پنچالی
شہر دل کی سلطنتوں کے تمام محلات
تمہارے آنسو و ں کے سیلن زدہ نمک پر
کھڑے کئے گئے ہیں
دروپتی ۔۔۔۔۔۔!
ایک دریودھن کیا۔۔۔۔ تمہارا سوئمبر جیتنے والا
کوئ بھی مہاویر اور اسکی ویرتا
سات صدیوں کے فاصلوں سے بنی تمہارے جسم سے
اترتی ہوئ چادروں کے بعد کی برہنگی سے
تمہیں نہیں بچا سکے گا
دروپتی۔۔۔۔!
دریودھن تو کیا تمہارے حقدار
پانڈووں میں سے ہر ایک تمہیں دھرم، سماج
اور بقا کے نام پر داوٗ لگا کر
کب کاہار چکاہے
دروپتی۔۔۔۔!
سات اسمانوں تک
تمہارے بلکتے سوالوں کا جواب
کسی کے بھی پاس نہیں
تمھارے نٰئے زمانوں کا پورا سچ بھی
پرانےکئی زمانوں کی طرح
ادھورا رکھا گیا ہے
تمہارے خوابوں کو آج بھی
خواب جتنا پورا رکھا گیا ہے
دروپتی!

خداوءں کی کھلی آنکھوں کے پاس

داسیوں کو چپ چاپ دیکھتے رہنے کے علاوہ

کوئ چارہ نہیں رہ گیا ہے
اور آج کے پانڈووءں نے سرد جنگ کے نام پر
نئ مہا بھارت چھیڑنے کا ارادہ بھی
ترک کر دیا ہے
دروپتی ۔۔۔۔۔!
وقت کی مشینی گراری میں لیر لیر ہوتی
صبر کی چادریں تمہیں
اپنے شانوں پر آپ ہی سنبھالنی ہوں گی

کیونکہ
نئ صدی کی ویرتا
پیار اور خیال کو
سہولت کی قینچی سے کاٹ کر
الگ کر چکی ہے
دروپتی آسمانوں سے
اپنی آہوں کی بازگشت کی واپسی کا
انتظار کرنا چھوڑ دو
تاکہ کسی ادھیکار سے تمہارے ضبط کو
تار تار نہ کیا جا سکے
تمہیں کسی بھی داؤ کے نام پر
مزید زیربار نہ کیا جا سکے
٭٭٭


گلگمیش اب بھی سفر میں ہے

خدا نے ابھی آسماں کے کناروں سے
قوسِ قزح کے زمانوں کو باندھا
مجھے آرزو کی زبانوں میں لوری سنائی
مگر نیند آنی نہیں تھی!
نہ آئی ! نہ آئی !
دُہائی ! دُہائی !
زمیں نے مِری کوکھ میں صندلی خواب کی
ایک گدّی بچھا ٰئی
وجودِ زیاں سے کسی کُن فکاں تک !
جہانوں کی دُنیا تھمائی
مگر نیند آنی نہیں تھی !
نہ آئی ! نہ آئی !
دُہائی ! دُہائی !
ازل نے ہتھیلی پہ اپنے ابد تک کی
سرسبز منہدی رچائی
تمنّا کی سرخی کے اُجلے لہو میں
جبیں ،
پور سے پور تک "ہو" نہائی
مگر نیند آنی نہیں تھی نہ آنی۔
نہ آئی ! نہ آئی !
دُہائی ! دہائی ! ۔
سنبھلتے ہوئے سات پرتوں تلک
آسمانوں نے دنیا دِکھائی
مِرے خواب نے کھیل کو
پھر سے مُہروں کی
عِلّت سجائی
مگر نیند آنی نہیں تھی
نہ آئی ! نہ آئی !
دُہائی ! دُہائی !
مے ء نم نے مٹّی کی پوروں میں خواہش کی
کونپل سجاآئی
لگا سبزہء راز کے بَوجھ سے کُل زمیں ڈگمگائی

مگر نیند آنی نہیں تھی
نہ آئی ! نہ آئی !
دُہائی ! دہائی!
٭٭٭

زندگی لگارتھم کا مسئلہ نہیں

میں تمھارے ہمراہ رقص کرنا چاہتی ہوں
اور مربع ، مثلث اور دائروں کے زاویے
میری آزادی کا مذاق اڑا رہے ہیں
میں سوچتی ہوں
زندگی لگارتھم کا مسئلہ نہیں
جسے کوئی قیمت بتا کر حل کر لیا جائے
ابھی آسمان سے ایک تارے نے
چھلانگ لگائی تو لگا
مستطیل کا کونا ٹوٹ گیا
یکایک ہوا کی ناوپر بیٹھی رات
اپنی غلط فہمی پر ہنسنے لگی
ٹوٹاہوا تارا آئینے میں
روشنی کی لکیر کھینچ کر
خود میں پلٹنے لگا
تو منجمد عکس اسے دبوچ کرنا چنے لگے
ابھی میں نے تمھاری محبت کی تکون سے
قدم باہررکھے ہی تھے
کہ خوابوں کا ریشم
میرے پاوں سے الجھ کر
مجھے خود میں لپیٹنے لگا
تو چلو !میرا ہاتھ تھام کر
مجھے اپنے دائرے سے باہر نکالو
میں پھر سے الاومیں
تمھارے ہمراہ رقص کرنا چاہتی ہوں
٭٭٭

— Female Gaze

دین زمانہ خان کی نسلیں !
اس’ نا پاک‘ کی کوکھ سے نکلیں
لیکن یہ مردود بلائیں
اُ جلے دن کی لونہ پائیں
دین زمانہ خان کے چولھے!
ان کی سانس کی پھکنی پھونکے
لیکن یہ ست رنگ پتنگیں
اپنی ہوامیں ڈول نہ پائیں

دین زمانہ خان کے بستر!
ان کی آہٹ اوڑھ کے پگھلیں
لیکن ان کے سندر سپنے
گہری نیند سے جاگ نہ پائیں
دین زمانہ خان کے صحن میں !
یہ گل بوٹے کاڑھتی جائیں
لیکن ان کے خوف کی چیخیں
قبر بدن میں گھٹتی جائیں
دین زمانہ خان !
خدا کے حکم سے، اپنا حکم چلائیں
فصلیں کاٹیں، جشن منائیں
دودھ کی نہریں پیتے جائیں
لیکن ان کی جیون تانیں
لمحہ لمحہ گھٹتی جائیں

دین زمانہ خان کی پگڑی کلف لگائیں
ان کے بوٹ کے تسمیں باندھیں
اور ازاربند وں کو گوندھیں
لیکن ان کے اپنے دن تو
کالی رُت کی چادراوڑھے
رات سمے میں دھنستے جائیں
٭٭٭

سالم سلیم کی غزلیں

کچھ تو ٹھہرے ہوئے دریا میں روانی کریں ہم
آؤدنیا کی حقیقت کو کہانی کریں ہم
اپنے موجود میں ملتے ہی نہیں ہم لوگ
جو ہے معدوم اسے اپنی نشانی کریں ہم
پہلے اک یار بنائیں کوئی اس کے جیسا
اور پھر ایجاد کوئی دشمن جانی کریں ہم
جب نیا کام ہی کرنے کو نہیں ہے کوئی
بیٹھے بیٹھے یوں ہی اک چیز پرانی کریں ہم
ہجر کے دن تو ہوئے ختم بڑی دھوم کے ساتھ
وصل کی رات ہے کیوں مرثیہ خوانی کریں ہم
۰۰۰
نئے جہانوں کا اک استعارہ کرکے لاؤ
بدن کی خاک اٹھاؤ ستارہ کرکے لاؤ
وگرنہ عشق میں اک آنچ کی کمی ہوگی
یہ دل ہے جاؤ اسے پارہ پارہ کرکے لاؤ
تمہارے پاس ہم خود کو چھوڑ آئے ہیں
کبھی تم آؤ تو ہم کو ہمارا کرکے لاؤ
ہوس کے گہرے سمندر سے ہیں گھرے ہوئے ہم
ہمارے سامنے خود کو کنارہ کرکے لاؤ
تمام بچھڑے ہوؤں کو اشارا کرکے لاؤ
۰۰۰
خود اپنی خواہشیں خاک بدن میں بونے کو
مرا وجود ترستا ہے میرے ہونے کو
یہ دیکھنا ہے کہ باری مری کب آئے گی
کھڑا ہوں ساحل دریا پہ لب بھگونے کو
ابھی سے کیا رکھیں آنکھوں پہ سارے دن کا حساب
ابھی تو رات پڑی ہے یہ بوجھ ڈھونے کو
نے کوئی تکےۂ غم ہے نہ کوئی چادر خواب
ہمیں یہ کون سا بستر ملا ہے سونے کو
وہ دور تھا تو بہت حسرتیں تھیں پانے کی
وہ مل گیا ہے تو جی چاہتا ہے کھونے کو
۰۰۰
کام ہر روز یہ ہوتا ہے کس آسانی سے
اس نے پھر مجھ کو سمیٹا ہے پریشانی سے
مجھ پہ کھلتا ہے تری یاد کا جب باب طلسم
تنگ ہوجاتا ہوں احساس فراوانی سے
آخرش کون ہے جو گھورتا رہتا ہے مجھے
دیکھتا رہتا ہوں آئینے کو حیرانی سے
میری مٹی میں کوئی آگ سی لگ جاتی ہے
جو بھڑکتی ہے ترے چھڑکے ہوئے پانی سے
تھا مجھے زعم کہ مشکل سے بندھی ہے مری ذات
میں تو کھلتا گیا اس پر بڑی آسانی سے
کوئی ہنگامہ کریں صبح کے آجانے تک
رات کٹنے کی نہیں قصۂ طولانی سے
۰۰۰
ذہن کی قید سے آزاد کیا جائے اسے
جس کو پانا نہیں کیا یاد کیا جائے اسے
تنگ ہے روح کی خاطر جو یہ ویرانۂ جسم
تم کہو تو عدم آباد کیا جائے اسے
زندگی نے جو کہیں کا نہیں رکھا مجھ کو
اب مجھے ضد ہے کہ برباد کیا جائے اسے
یہ مرا سینۂ خالی چھلک اٹھے گا ابھی
میرے اندر اگر ایجاد کیا جائے اسے
وہ گلی پوچھتی ہے دربدری کے احوال
ہاں تو پھر واقف روداد کیا جائے اسے
۰۰۰
سکوت ارض و سما میں خوب انتشار دیکھوں
خلا میں اپنی صدا کا پھیلا غبار دیکھوں
عجب نہیں ہے کہ آہی جائے وہ خوش سماعت
دیار دل سے میں کیوں نہ اس کو پکار دیکھوں
کھڑی ہے دیوار آنسوؤں کی مرے برابر
تو کس طرح میں تری تمنا کے پار دیکھوں
بکھرتا جاتا ہوں جیسے تسبیح کے ہوں دانے
جب اس کے آنسو قطار اندر قطار دیکھوں
وہ میرا اثبات چاہتا ہے سو جبر یہ ہے
میں اپنے ہونے میں اس کو بے اختیار دیکھوں
جو ایک دم میں تمام روحوں کو خاک کردے
بدن سے اڑتا ہوا اک ایسا شرار دیکھوں
بہت دنوں سے وہاں میں اپنا ہی منتظر ہوں
تو خود کو اک دن تری گلی سے گزار دیکھوں
٭٭٭

سلمان حیدر کی نظمیں

سوال

سڑکوں پہ سناٹا ہے اور
جن عمروں میں
مائیں بیٹوں کے سگریٹ سے سلگے کپڑوں کی جیبوں میں
کوئی مہکتا خط دیکھیں تو
ہنس کر واپس رکھ دیتی تھیں
ان عمروں میں
اب ماووں کو
جسموں میں بارود کی بو اور لاشوں میں سکے کے چھید رلا دیتے ہیں
دل پر زخم اٹھانے والی عمر میں لڑکے
کمرے کی دیوار کے گھاو
بندوقوں کی تصویروں سے ڈھک دینے پر
آمادہ کیسے ہوتے ہیں
فتووں کی دھاریں ذہنوں کو
آخر کیسے کند کرتی ہیں
جنت میں جو کچھ بھی ہو گا
اس دنیا کو کون جہنم کر دیتا ہے
ماووں کی گودوں سے اٹھ کر
موت کی گود میں سونے والو
کچھ تو بولو۔۔
٭٭٭

جنون

فضائیں تھک چکی ہیں
جسم ڈھوتی گاڑیوں کی سسکیاں
اور سائرن کے بین سن سن کے
دور و دیوار کے نتھنے جھلسنے لگ گئے بارود کی بو سے
بدن کے چیتھڑے چن چن کےاب بیزار ہیں گلیاں
وہ ملبہ
آگ کا چاٹا ہوا ملبہ
اکٹھا کرتے کرتے خاک دان تنگ آ چکے ہیں
مگر انسان اکتاتا نہیں ہے۔۔۔
٭٭٭

خواہش

ماہ و سال سے تھوڑا ہٹ کے
دشت اور در سے دور
ہجر وصال کی زد سے باہر
رات اور دن کے پار
کبھی فرصت سے مل یار

تن کی مٹی جھاڑ دے
من مندر کی کھڑکی کھول
آوازوں کے جنگل میں
کبھی چپ کی بولی بول
میری آنکھ کے درپن میں
دیکھ اپنا روپ سروپ
میرے عشق کے گہنے سے
کبھی اپنا آپ سنوار
کبھی فرصت سے مل یار

کبھی اپنے آپ سے باہر آ
ٹک بیٹھ ہمارے ساتھ
چل دُکھ دریا کے پار چلیں
لا ہاتھ میں دے دے ہاتھ
ہم اپنا ہونا تیاگ کے
تیرے ہونے پر تیار
کبھی فرصت سےمل یار۔۔۔
٭٭٭

محبت روایت نہیں ہے

محبت وہ پامال رستہ نہیں ہے
کہ آتے ہوئے موڑ کی ہر خبر
کرم خوردہ کتابوں کے بوسیدہ صفحوں کی دھندلی لکیروں میں چھپ چھپ کے عریاں ہوئی ہو
محبت کی تصویر کس نے بنائی
محبت سفر کا سفرنامہ کس نے لکھا ہے
اگر کوئی اک گمشدہ سی صدی میں
ادھر سے گزر بھی گیا تھا
تو اس کو خبر کیا
کوئی بیتا موسم انہی پتھروں کی کسی درز میں کوئی کونپل کھلا کر گیا ہو
محبت کا ہر تجربہ دوسرے سے علیحدہ نہ ہوتا
تو یہ جھریوں سی دراڑوں سے لبریز پتھر سے چہرے
ہمیں اپنے پامال رستوں پہ انگلی پکٹر کر چلاتے
یہ خود ہم سے کہتے کے جاو محبت کرو
مگر جان جاناں
ہمارا تمہارا یہی مسئلہ ہے
بغاوت روایت نہیں ہے۔۔۔
٭٭٭

حویلی

وقت کی ریت کے کچھ آخری ذرے ہیں مری مٹھی میں
تن پہ ہر بیتے ہوئے پل کے لیے اک سلوٹ
ذہن کے گوشوں میں یادوں کی نمی
اور دیواروں پہ دیمک زدہ لمحوں کو لئے
چوکھٹوں میں کئی دھندلے چہرے
صحن ماضی میں کئی گمشدہ نسلوں کی وراثت کا امیں
ایستادہ کوئی بوڑھا برگد
فرش پر وقت کے برتے ہوئے پیلے پتے

ہاں مگر ایک دھڑکتا ہوا دل
جو ترے ساتھ کٹے وقت میں زندہ ہے ابھی
جس کی دھڑکن سے مرے جسم کو خوف آتا ہے
بالکل ایسے مری بوسیدہ حویلی جیسے
تیری انگڑائی کے لمحوں میں لرز اٹھتی تھی۔۔۔

٭٭٭

سگریٹ

میں کہ اک اور گزرتے ہوے پل کے ہمراہ
اپنی خوشبو میں بسا
آپ ہی آپ سلگتا ہوا کاغذ کا وجود
ہاتھ پھیلا کے کسی راکھ سے اٹتے ہوے برتن میں مسل دیتا ہوں

راکھ ک ڈھیر پہ کچھ دیر کو رکتا ہے دھواں
وو سیاہ پوش وجود
مجھ سے کہتا ہے کے تم وقت کا انداز لیے ہو لیکن
(وقت جو روز نجانے کتنے
دھیمے خاموش سلگتے ہوے انسانوں کو
خاک کے بار تلے یونہی مسل دیتا ہی)
وقت کو ہاتھ کے پھیلانے کی حاجت بھی نہیں....
٭٭٭

خالد جاوید کا ’نعمت خانہ‘/سید کاشف رضا

زندگی کیا ہے؟ تخلیق کار جانے کب سے اس سوال کی کھوج میں مصروف رہے ہیں۔ موت اس سوال کے سکے کا دوسرا رخ ہے، جس طرح زندگی اور موت ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ اس سوال کا جواب کسی تخلیق کار نے چند لفظوں میں بیان کرنا چاہا اور کسی نے پھیلا کر اسے سمجھانا چاہا۔ زندگی ایسی متنوع نکلی اور اس کے ہاتھ پیر اتنے زیادہ نکلے کہ وہ پوری طرح کسی تخلیق کار کی پکڑائی میں ہی نہ آئی۔ مگر کام یاب تخلیق کار وہ ہوتے ہیں جو زندگی کو ناپنے کا ایک نیا فیتا ، ایک نیا پیمانہ دریافت کر لیتے ہیں۔ اس کے لیے ایک ایسا سانچہ دریافت کر لیتے ہیں جس میں ڈھل کر زندگی ایک نئی اور پر معنی صورت میں ہمارے سامنے آ جاتی ہے۔ طبیعات کے اصول دریافت کرنے والے بھی تو یہی کرتے ہیں کہ فطرت اور کائنات میں پوشیدہ کسی اصول کو دریافت کر لیتے ہیں۔ ان نو دریافت شدہ اصولوں میں ریاضی جیسی قطعیت بھی ہوتی ہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ پتا چلتا ہے کہ یہ قطعیت بھی ایسی قطعی نہیں تھی۔ دوسری جانب ادیب ، مفکر اور فکشن نگار زندگی کو سمجھنے سمجھانے کا جو نیا سانچہ دریافت کرتے ہیں وہ بہت سا وقت گزرنے کے بعد بھی پر معنی لگتا ہے کیوں کہ ادب میں قطعیت کا دعویٰ ہی نہیں کیا جاتا۔
خالد جاوید کے ناول ’نعمت خانہ‘ کی سب سے بڑی کام یابی یہ ہے کہ اس نے زندگی کو سمجھنے سمجھانے کے لیے ایک نئے تصور کو تشکیل دیا ، پھر اسے بھرپور طریقے سے پھیلایا اور یہ تصور ناول میں اپنے پورے جواز کے ساتھ آیا۔ یہ وہ بنیادی نکتہ ہے جس پر میں اپنی بات مزید آگے بڑھانا چاہتا ہوں۔
زندگی اور موت کے درمیان انسان اپنی عمر اپنی بقا کی جدوجہد کرتے ہوئے گزارتا ہے۔ اس بقا کے لیے اسے سب سے پہلے خوراک کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسے ہر تھوڑی دیر بعد بھوک لگتی ہے۔ یہ بھوک موت اور زندگی کے درمیان ایک واضح لکیر ہے۔ جب تک بھوک لگتی رہے، آدمی زندہ رہتا ہے۔ جب بھوک لگنا بند ہو جائے تو انسان کسی اور سفر پر نکل جاتا ہے۔اس بھوک سے نمٹنے کا بندوبست باورچی خانے میں کیا جاتا ہے۔ ہمارے گھروں کا یہ اہم ترین کونا ہی خالد جاوید کے اس ناول کا مرکزہ ہے اور ان کا ناول اسی مرکزے کے گرد گھومتا ہے۔
خالد جاوید کے ہاں بھوک کے کئی معنی ہیں۔ انھوں نے اس موضوع کو سب سے پہلے اپنے افسانے ’آخری دعوت‘ میں برتا تھا جس میں بھوک زندگی کی نمایندہ بن کر نمودار ہوئی تھی۔ کئی برس پہلے پڑھا ہوا ان کا یہ افسانہ آج بھی مجھے اپنے بھرپور تاثر کے ساتھ یاد ہے۔ افسانے میں ایک بزرگ عورت کا ذکر ہے جس کی زندگی کے آخری پل چل رہے ہیں۔ گھر میں صاحبِ خانہ نے دو مہمان بلا رکھے ہیں جن کے لیے کھانے کا بھی انتظام ہے۔ راوی کھانا کھا کر آیا ہوا ہے لیکن جب وہ سنتا ہے کہ گھر میں کسی بھی وقت موت ہونے والی ہے تو اس کی بھوک کھل جاتی ہے۔یہ زندگی اور سب سے پہلے اپنی زندگی کی تمنا ہے جو موت کے ہنگام جاگ اٹھی ہے۔ موضوع کے علاوہ اس افسانے کے بیانیے نے بھی میری توجہ اپنی جانب کھینچی تھی۔ موت کا ذکر سن کر بھوک کے کھل جانے سے راوی کو احساسِ جرم ہوا یا نہیں ہوا؟ یہ ایسا سوال تھا جس کا کوئی عام افسانہ نگار جلد بازی میں جواب دے دیتا۔ لیکن خالد جاوید نے اس سچوایشن کو پورے صبر کے ساتھ اس کی پوری پیچیدگی کے ساتھ کریدا اور اس کرید میں ایک ایسا بیانیہ ترتیب دیا جس کی داد اسے باربار پڑھ کر ہی دی جا سکتی ہے۔
خالد جاوید نے اپنے ناول ’نعمت خانہ‘ کے آغاز میں بھی اس افسانے کا تذکرہ کیا ہے اور بتایا ہے کہ اگر وہ یہ افسانہ نہ لکھتے تو ناول ’نعمت خانہ ‘ لکھنے کی نوبت بھی نہ آتی۔ اپنے کام یاب افسانے میں وہ انسان کے جینے مرنے سے کھانے کا بنیادی تعلق تو دریافت کر چکے تھے لیکن ناول میں انھوں نے ایک کام یاب فن کار کی طرح اس موضوع کی کئی ویری ایشنز پر کام کیا ہے۔ حتیٰ کہ وہ زندگی کو سمجھنے سمجھانے سے متعلق ایک نئے تصور کو تشکیل دینے میں بھی کام یاب رہے ہیں۔
ناول میں بنیادی تصور یہ ہے کہ بھوک اور اشتہا کا تعلق ’باورچی خانے‘ سے ہے۔ باورچی خانے میں ہی وہ کھانے پکتے ہیں جو ہماری زندگی کو رواں دواں رکھتے ہیں۔ لیکن خالد جاوید نے ہمیں بتایا ہے کہ اسی باورچی خانے میں انسان کی زندگی کے ساتھ ساتھ اس کی موت کا بھی سارا سامان موجود ہے۔ کھانے کی بات کو تو چھوڑیے، صرف یہاں کے اوزاروں پر ہی غور کر لیا جائے تو وہ نہ صرف انسان کی آتشِ شکم بجھانے کا کام کرتے ہیں بلکہ ان سے انسان اپنے انتقام کی آگ بھی ٹھنڈی کر سکتا ہے۔ انسان ان اوزاروں کے ذریعے، یا ان اوزاروں کے ذریعے پکائے جانے والے کھانوں کے ذریعے اپنی کمینگی، اپنی وحشت کو کسی دوسرے کے بدن میں اتار کر اسے موت کے گھاٹ بھی اتار سکتا ہے۔ یہی کام ہے جو’نعمت خانہ‘ کا مرکزی کردار ان اوزاروں کے ساتھ انجام دیتا ہے۔
خالد جاوید کو کچھ موضوعات کے ساتھ زیادہ ہی دلچسپی ہے۔ان کا پچھلا ناول ’موت کی کتاب‘ بھی ایک کھنڈر کے ذکر سے شروع ہوا تھا جو ایک سوکھے ہوئے ڈیم کے نیچے سے برآمد ہوا ہے اور اس کھنڈر میں دبے ہوئے ایک پتھر کے سوراخ سے ایک تحریر برآمد ہوئی ہے جسے مصنف پرانی زبانوں کے ایک عالم کی مدد سے پڑھنے میں کام یاب ہوا ہے۔ نئے ناول ’نعمت خانہ‘ کے آغاز میں بھی متکلم اپنے پرانے گھر کے کھنڈرات پر کھڑا نظر آتا ہے۔ یوں ان کے دونوں ناولوں کے آغاز دیکھ کر جاہلیہ دور کے وہ عربی شاعر یاد آتے ہیں جو اپنے قصیدے کا آغاز اسی طرح کسی کھنڈر پر کھڑے ہو کر کرتے تھے۔ ناول کے آغاز میں کھنڈر پر متکلم کے علاوہ بھی ایک ذات موجود ہے اور وہ ہے ’ہوا‘۔ جیسے متکلم کو اپنے اور اپنے کھنڈر کے وجود کے اثبات کے لیے کسی گواہ کی بھی حاجت رہی ہو۔
’نعمت خانہ‘ میں کھنڈر پر کھڑا ہوا متکلم کون ہے؟ ہم شروع میں اسے انسان ہی سمجھتے ہیں، لیکن پھر کہانی آگے بڑھتی جاتی ہے اور متکلم کے ماضی کا سفر شروع ہو جاتا ہے اور آخر میں وہ ایک مرتبہ پھر اسی کھنڈر پر دکھائی دیتا ہے۔ یوں ایک مکانی دائرہ مکمل ہوتا ہے۔ اور اب ہمیں یہ بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ کھنڈر پر کھڑا ہوا متکلم کوئی زندہ شخص نہیں بلکہ ایک زندہ شخص کا بھوت یا روح ہے۔ جہاں تک زمانی دائرے کا تعلق ہے تو کھنڈر سے کھنڈر تک کے سفر میں ’حال، ماضی، حال‘ کا ایک دائرہ تو مکمل ہوتا ہے مگر ناول کے درمیان میں جب متکلم اپنی بیوی انجم کے ساتھ دن بتا رہا ہے تو اس وقت ایک مرتبہ پھر ’حال‘ کا بیان شروع ہو جاتا ہے اور کہیں کہیں تو ایسا لگتا ہے کہ مصنف یومیہ ڈائری لکھ رہا ہے۔ یہ ماضی کے اندر چلنے والا ’حال‘ ہے اور یہ بھی ماضی ہی ہے۔ لیکن کچھ قاری ضرور یہ کہیں گے کہ ناول کا درمیانی حصہ مسلسل ’صیغہ ء ماضی‘ کا متقاضی تھا۔
اب آتے ہیں ناول کے موضوع کی جانب: ناول کے متکلم سے قتل ہو گیا ہے۔ وہ بھی ایک نہیں، دو انسانوں کا قتل۔ ایک انسان کا قتل، قتلِ خطا ہو سکتا ہے، لمحاتی کشمکش کا شاخسانہ ہو سکتا ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ انسان کو ایک انسانی جان ختم کر دینے کے بعد کے نفسیاتی اثرات کا پہلے سے علم نہ ہو، لیکن ایک کے بعد دوسرے انسان کا قتل اس سے مختلف ہے۔ دوستوئیفسکی نے جرم و سزا میں ایک انسان کے قتل کے بعد پیدا ہونے والے نفسیاتی اثرات کا شاندار مطالعہ کیا اور اس کے بعد کرامازوف برادران میں ایک باپ کے قتل کا۔ لیکن یہ دونوں قتل ایک ایک قتل ہیں۔ خالد جاوید کا ہیرو یا اینٹی ہیرو دو دو قتل کا بوجھ اپنے کاندھوں پر لادے پھرتا ہے۔ لیکن یہ صرف ایک قتل اور اس کے بعد اس کے اثرات سے جوجھنے کی کہانی نہیں۔ متکلم نے ہر قتل کی ایک مضبوط توجیہ پیش کر دی ہے اور متکلم کو ان وارداتوں پر اگر پچھتاوا ہے بھی تو یہ پچھتاوا اس ناول پر غالب نہیں۔البتہ شاید متکلم کا جسم اس پچھتاوے کی غمازی ضرور کرتا ہے جب وہ پہلے قتل کے بعد بیمار پڑ جاتا ہے۔ مگر دوسرے قتل پر تو اس کا جسم بھی ایسا کوئی اظہار نہیں کرتا۔
ْ خالد جاوید جس انداز سے کہانی اور ناول لکھتے ہیں، اس میں موضوع سے زیادہ اسلوب اہم ہو جاتا ہے۔ میں فی الحال اسے اچھا یا برا قرار نہیں دے رہا۔ یہ ایک ترجیح ہے جسے اپنانے کا حق کسی بھی لکھاری کو ضرور دینا چاہیے۔ لیکن فکشن کے ایک صابر اور پر اشتیاق قاری کے لیے ضروری ہے کہ وہ مصنف کو اپنی ترجیحات کے مطابق کھل کر کھیلنے دے اور اس پر فکشن سے متعلق اپنے تصورات یا تعصبات نافذ نہ کرے۔ آرام سے بیٹھ کر تیل دیکھے اور تیل کی دھار دیکھے اور اگر اسے اپنی کمنڈلی میں تیل ڈلوانے کی جلدی ہے تو اگلی دکان پر چلا جائے۔ کوئی فکشن نگار رائج ترجیحات سے ہٹ کر کوئی ترجیح اختیار کرتا ہے تو عام قاری اگلی دکان پرچلا بھی جاتا ہے۔خالد جاوید کا ناول اردو فکشن کے عام قاری کے لیے ایک مشکل اور مختلف ناول ہے۔ لیکن چیلنج پسند کرنے والے صابر قاری کے لیے اس میں بہت کچھ موجود ہے۔
اردو فکشن کا عام قاری دلچسپ قصہ گوئی کا مداح ہے۔ لیکن قصہ سنانے کے تو بہت سے طریقے ہو سکتے ہیں اور خالد جاوید پہلے اپنے افسانوں اور اب ناولوں میں انھی طریقوں میں سے کچھ کو ایکسپلور کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ خالد جاوید نے گھڑی وار قسم کی قصہ گوئی سے پرہیز کیا ہے۔ انھوں نے کیفیات کو کریدنے اور ان سے جوجھنے پر زیادہ توجہ دی ہے۔ اسی وجہ سے میں نے یہ کہا کہ موضوع سے زیادہ یہ ان کا اسلوب ہے جو دامن کشِ دل ہے۔ قصہ گوئی بھی اچھی چیز ہے لیکن فکشن صرف قصہ گوئی ہی نہیں۔ آخر ہمارا قاری کب دادی اماں کی کہانیوں سے وابستہ نظریہ ء فکشن سے دامن چھڑائے گا۔ دامن سے لگا یہ قاری ایک ایسا شیرخوار نظر آتا ہے جس کی عمر تو بھاگنے دوڑنے کی ہو چکی ہو مگر اس سے اب تک دودھ چھڑایا نہ جا سک رہا ہو۔فکشن بھی دنیا اور کائنات ہی کی طرح وسیع ہے اور اسے دیکھنے کے لیے بھی قرات کا کوئی ایک یا کوئی دو چار نظریے کفایت نہیں کر سکتے۔
ویسے فکشن کے سہل انگار قارئین کو میرا مشورہ یہ ہے کہ وہ ’نعمت خانہ‘ کو اس کے پاکستانی ایڈیشن کے صفحہ نمبر انسٹھ سے شروع کریں جہاں سے متکلم اپنی ماضی کی باز آفرینی کا سلسلہ شروع کرتا ہے۔ کچھ تو ’پڑھیے ‘کہ لوگ کہتے ہیں۔
خالد جاوید نے اپنے فکشن کے لیے ایک خاص اسلوب اختراع کیا ہے جس میں وہ انسانی دکھوں کو گہرے سیاہ رنگ سے پینٹ کرتے ہیں۔ صرف پینٹ ہی نہیں کرتے بلکہ سیاہ اسٹروک پر سیاہ اسٹروک جماتے چلے جاتے ہیں۔ آپ کہیں گے کہ ایک مرتبہ سیاہ اسٹروک لگا دیا تو اس کے بعد اس پر مزید سیاہ اسٹروک لگانے کا کیا فائدہ؟ ویسے بھی سیاہ پر مزید سیاہ کو ممتاز کیسے کیا جائے گا؟ مصوری میں ایک اصطلاح ہے :ٹیکسچر ، جسے دیگر فنون بہ شمول فکشن میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ فرانس کا مشہور مصور پال سیزان اپنی تصویروں میں ایک خاص طرح کا ٹیکسچر لانے کی کوشش کرتا تھا جسے مصوری کی اصطلاح میں امپاسٹو ٹیکسچر کہا جاتا تھا۔ وہ اپنے اسٹروکس کو اپنی طے کردہ دبازت یا موٹائی فراہم کرنے کے لیے اسٹروک پر اسٹروک لگاتا جاتا اور یوں اس کی تصویر میں ٹیکسچر آ جاتا تھا۔ یعنی اس کی تصویر کا ہر اسٹروک ایک یا چند پرتوں کا نہیں ہوتا تھا، بلکہ اس کی تصویر میں وہ مطلوبہ مقامات پر وہ دبازت پیدا ہو جاتی کہ تصویر کے دیگر حصوں سے جدا محسوس ہونے لگتی۔ شاید یہ تھری ڈائمنشنل تصویر کی جانب ایک قدم تھا جو اب کمپیوٹر اور فلموں کے ذریعے ہماری زندگیوں کا حصہ ہے۔مصوری میں اس ٹیکسچر یا دبازت کے تصور کا آغاز اس حقیقت کی تفہیم سے ہوا تھا کہ ہمیں زندگی میں جو چیزیں نظر آتی ہیں وہ یک پرتی نہیں ہوتی۔ ان میں ایک خاص دبازت بھی ہوتی ہے اور اس دبازت کو چھوئے بغیر محض دیکھ کر بھی محسوس کیا جا سکتا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ سیاہ رنگ پر سیاہ رنگ کا اسٹروک لگانے سے خالد جاوید نے بھی اپنی تحریر میں یہی دبازت یا ٹیکسچر لانے کی کوشش کی ہے۔
خالد جاوید نے اپنے ناول کے آغاز میں مختلف متون اور تحریروں سے دس نثرپارے بھی ہماری ضیافت کے لیے جمع کیے ہیں۔ ان میں سے ایک ٹکڑے میں شمس الرحمان فاروقی کہتے ہیں کہ فن میں معنویت کے وجود کو مستحکم کرنے کی قوت ہوتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ خالد جاوید ایک اسٹروک پر باربار مزید اسٹروک لگا کر اپنی دریافت شدہ معنویت کے وجود کو مستحکم سے مستحکم تر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ٹیکسچر پر اس طرح زور دینے سے خالد جاوید کے جملے میں دبازت بھی پیدا ہوئی ہے اور اس کی پوٹینسی بڑھی ہے۔ اردو والے جانے رواں دواں اسلوب پر اتنا زور کیوں دیتے ہیں۔ گویا اسلوب نہ ہوا، کوئی سلائیڈ یا پھسل پٹی ہو گئی جس پر سے انسان پھسلتا ہی چلا جائے۔ فکشن کے جملے کو، اور پھر پیراگراف کو نرول ہونا چاہیے، پوٹنٹ ہونا چاہیے۔ ہر نئے جملے، ہر نئے پیراگراف کو اپنے وجود کی توجیہ اپنے سر پر اٹھا کر لانی چاہیے۔ یہ چیز اردو میں مجھے کچھ ہی فکشن نگاروں میں نظر آئی، جن میں ایک تو راجندر سنگھ بیدی ہی ہیں جن سے اردو فکشن نگاروں کو بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت تھی۔ اور اب یہ چیز ان سے کہیں زیادہ خالد جاوید کے ہاں نظر آئی۔
جہاں تک موضوع کا سوال ہے تو موضوع بھی کوئی شادی میں بانٹے جانے والے بتاشوں کا تھیلا نہیں ہوتا جسے لفظوں میں بے دریغ تقسیم کر دیا جائے۔ ہر جملے کی کمائی مختلف اور منفرد ہونی چاہیے اور یہی وہ چیز ہے جو موضوع کو اسلوب سے مدد مانگنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ انگریزی اور مغربی فکشن کے کئی نام ایسے ہیں جن کے جملے دامن پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں کہ پہلے مجھے ناپ تول لو تو اس کے بعد آگے بڑھو۔بعد میں کہانی کی کوئی پرت سمجھ میں نہ آئی تو مجھے الزام مت دینا۔میں بہت بڑے ناول نگاروں کی بات نہیں کر رہا۔ سمرسٹ مام اور گریہم گرین جیسے ناول نگاروں کو بھی پڑھ لیجیے جنھیں درجہ ء اول سے نیچے کا درجہ دیا جاتا ہے۔ ان کے ہاں بھی اسلوب ناول کے موضوع سے گتھا ہوا ملے گا، جملہ سازی میں تخلیقیت ہو گی۔ دوسری جانب عام اردو فکشن میں ذرا ذرا سے جملوں اور روایتی بیانیے سے ذہن چھلانگیں مار کر آگے بڑھتا چلا جاتا ہے۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ ذہن کو کسی ٹھوس یا پوٹنٹ چیز کی تلاش ہوتی ہے اور جب وہ نہیں ملتی تو جملے کے جملے اور پیراگراف کے پیراگراف پھلانگنے لگتا ہے۔ کام یاب فکشن نگار وہی ہے جو آپ کو اپنے فکشن کا ہر پیراگراف، ہر جملہ، ہر لفظ پڑھوائے۔ اور اگر اس کا کوئی پیراگراف، کوئی جملہ یا کوئی لفظ خود کو پڑھوانے پر مجبور نہیں کرتا تو پھر وہ فکشن نگار خود سے سوال کر لے کہ اس نے اسے لکھا ہی کیوں؟ اس کی جگہ خالی کیوں نہیں چھوڑ دی؟
فکشن کی قرات کے کئی طریقے ہیں۔ عام طور پر دیکھا یہ جاتا ہے کہ فکشن کا کوئی ٹکڑا کسی افسانے یا ناول کے پلاٹ میں کوئی عمل کر رہا ہے یا نہیں۔ اس سلسلے میں ایک مثال پیش کی جاتی ہے کہ اگر افسانے میں کسی دیوار پر بندوق لٹکی ہوئی دکھائی جا رہی ہے تو افسانے میں اس بندوق سے کوئی کام بھی لیا جانا چاہیے۔ محمد خالد اختر نے اپنی کہانی ’لالٹین‘ میں اس تصور کو طنز کے ایک لمس کے ساتھ پیش کیا تھا اور ایک کرین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسے ذہن میں رکھیں یہ آگے چل کر کہانی میں ایک خاص کردار ادا کرنے والی ہے۔ تاہم خالد جاوید کا ناول اس تکنیک کو استعمال نہیں کرتا۔ اس میں تفاصیل پر تفاصیل جوڑی جاتی ہیں جو ایک ڈھیلے ڈھالے پلاٹ سے ڈھیلے ڈھالے انداز میں جڑ جاتی ہیں۔
مگر میں پہلے ذکر کر چکا ہوں کہ خالد جاوید کا ہر جملہ خود کو پڑھواتا ہے اور کوئی نئی چیز پیش کرتا ہے۔ تو کیا اب میں نے جو بات کی ہے وہ اس کے متضاد نہیں۔ میں ذرا وضاحت کر دوں: خالد جاوید کا ہر نیا جملہ اور نیا پیراگراف اس ناول کی تعمیر میں کسی اگلی اینٹ کا کام نہیں کرتا، بلکہ وہ بنیادی خیال سے ایک نیا تاگہ نکال کر دکھاتا ہے۔ ہر نیا اور طاقت ور جملہ سیاہ رنگ کی ایک نئی ویری ایشن ہوتا ہے۔ سیاہ رنگ پر سیاہ رنگ کا ایک اور اسٹروک جسے پچھلے اسٹروک سے الگ کر کے دیکھنا ذرا مشکل لگتا ہو مگر کام یاب ناظر تو وہی ہے جسے اس دوسرے اسٹروک کی ضرورت کا احساس بھی ہو جائے۔
میں پہلے ذکر کر چکا ہوں کہ خالد جاوید کے ہاں قصہ گوئی ان معنوں میں موجود نہیں جس کی عام اردو فکشن سے توقع کی جاتی ہے۔ اس کی ایک وجہ ان کا ’تصورِ حرکت‘ بھی ہو سکتی ہے۔ ’نعمت خانہ‘ میں بھی ’حرکت‘ کا وہ تصور موجود نہیں، جو عام ناولوں میں ہوتا ہے۔ ان کے ناول میں واقعات بس ایڈ اپ ہوتے جاتے ہیں اور ان سے ناول آگے نہیں بڑھتا۔ متکلم کے ہاتھوں پہلا اور پھر دوسرا قتل ناول کے اہم موڑ ہیں، اور اس کے بعد اجتماعی زیادتی کی شکار انجم سے اس کی شادی۔ لیکن اس کے علاوہ ناول میں حرکت کے بجائے ٹھہراؤ کا رجحان ملتا ہے۔ ایک سیاہ نقطے پر ٹھہراؤ، جسے متکلم اور ناول نگار اپنا منتہا ٹھہرا چکا ہے اور اس کا ٹیکسچر، اس کی دبازت ہمیں محسوس کرانے کے لیے اس سیاہ نقطے پر اسٹروک پر اسٹروک لگاتا چلا جا رہا ہے۔
فکشن کی قرات کے کئی طریقے ہیں اور ایک خاص طرح کا قاری اس ناول کو بہت پسند کر سکتا ہے جسے ناول میں حرکت کی کوئی خاص پرواہ نہ ہو۔مثلاً خود میرے جیسا قاری، جو ہاتھ میں قلم لے کر کتاب پڑھنے بیٹھتا ہے اور تخلیقی ٹکڑوں پر ہاتھ کے ہاتھ داد دیتا چلا جاتا ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ فکشن کی قرات کا یہ طریقہ درست نہیں کیوں کہ فکشن کوئی شاعری تو ہے نہیں۔ لیکن ضروری نہیں کہ ایسا قاری ناول کو اس کی مجموعی حیثیت میں دیکھنے پر قادر نہ ہو۔ ویسے بھی خالد جاوید شاعر بھی ہیں اور چور چوری سے چلا بھی جائے تو ہیرا پھیری سے نہیں جاتا۔ انھوں نے اس ناول میں کوئی پچاس ساٹھ تو نثری نظمیں ہی تحریر کر دی ہیں جو وہ الگ سے چھاپ دیتے تو الگ سے بھی داد لیتے۔ کہتے ہیں کہ ہیمنگوے ایسے فقروں کو کاٹ دیا کرتا تھا۔ مگر فکشن میں زندگی کو بیان کرنے کا کوئی ایک طریقہ تھوڑا ہی ہے۔
اسی حوالے سے مجھے اس وقت لارنس ڈرل کا ناول ’جسٹین‘ یاد آ رہا ہے۔ اس کا موضوع تو خالد جاوید کے ناول سے مختلف ہے لیکن مجھے یاد ہے کہ میں نے اس ناول کے کئی کوٹ ایبل فقروں پر نشان لگائے تھے۔ اور پھر رک رک کر ان پر غور بھی کیا تھا۔ ’جسٹین‘ میں بھی حرکت کا فقدان تھا، لیکن اس کے باوجود میں کئی روز تک اسے شوق سے پڑھتا رہا تھا۔ محبت کے جذبے کو کریدتا اور پھر اپنی کرید اور دریافت کے نتائج لفظوں اور جملوں میں اختراعی انداز میں ڈھالتا یہ ناول مجھے بہت پسند آیا تھا۔ اور مجھے یہ فکر کم رہی تھی کہ ناول کے ہیرو اور ہیروئن کی کہانی کا انجام کیا ہوتا ہے۔ ویسے اگر میں آپ سے یہ کہوں کہ انسان کی کسی کہانی کا ’انجام‘ اصل میں ہوتا ہی نہیں تو آپ کیا کہیں گے؟ اگر کوئی قاری شہرزاد سے ایک ہزار ایک ویں رات کی کہانی سننے کے بعد یہ سنے کہ اس کے بعد بادشاہ نے شہرزاد کے قتل کا ارادہ موقوف کیا اور وہ دونوں ہنسی خوشی رہنے لگے اور اس کے بعد سوال کرے کہ ’اس کے بعد کیا ہوا تھا؟‘ تو آپ کیا کہیں گے۔ یہی ناں کہ ’ہنسی خوشی رہنا‘ یا حتیٰ کہ مر بھی جانا کسی کہانی کا انجام نہیں۔ کیا ایک روایتی قسم کا انجام جان کر مطمئن ہو جانے والے قاری سے زیادہ پر شوق قاری وہ نہیں جسے انجام کے بعد کے حالات جاننے سے بھی دلچسپی ہو۔ اور جسے انجام سے پہلے کے واقعات پر سے پھسلتی ہوئی تحریروں کے بجائے وہ تحریریں پسند آتی ہوں جن میں ان واقعات پر غور و خوض کر کے قاری کے تجسس کو بھرپور خوراک فراہم کی جاتی ہو۔ ’جسٹین‘ ایسا ہی تو ایک ناول تھا، اور ہاں ’نعمت خانہ‘ بھی ایسا ہی ایک ناول ہے۔
فکشن میں اگر ’حرکت‘ کا عنصر فعال نہ ہو تو اس کے تصورِ زماں میں بھی گڑ بڑ کا احتمال ہوتا ہے۔ انجم بانو کے ساتھ اپنی زندگی کا احوال بتاتے ہوئے متکلم شاید یہی گڑبڑ کر گیا جب وہ ماضی کا احوال صیغہ ء حال میں بیان کرنے لگا۔ لیکن میں بتا چکا ہوں کہ یہ حال، صیغہ ء ماضی میں چلنے والا حال ہے اس لیے یہ بھی ماضی ہی ہے۔
ناول میں کچھ کم زور ٹکڑے بھی موجود ہیں۔ مثلاً ملک کے معاشرتی حالات کے پس منظر پر ایک مقالہ بہت بے موقع آیا ہے اور ناول میں فکشنی حالت میں جذب نہیں ہو سکا۔ اسی طرح آخر میں بیٹوں کے ساتھ بحث میں کچھ مغربی مصنفین کے حوالے زیادہ فٹ نہیں بیٹھے۔ حالانکہ ناول کے اندر دیگر مقامات پر یہ حوالے براہ راست نقل کر دیے جانے کے باوجود ناول میں خوب اچھی طرح جڑ گئے تھے۔ ناول کے ابتدائیے میں خالد جاوید نے لکھا ہے کہ فکشن کے مقابلے میں ادبی تنقید زیادہ وقعت رکھتی ہے۔ اگر تو ان کی مراد فکشن نگاروں کا لکھا ہوا نان فکشن ہے تو ان کی بات کافی حد تک درست ہے، مگر ڈیڑھ دو صفحات میں وہ اپنی بات کے حق میں ٹھوس دلائل نہیں لا سکے۔ ویسے بھی ناول کے شروع میں ایسی ادھوری بات کرنا بونگی مارنے کے مترادف ہے۔ مگر میں منتظر رہوں گا کہ خالد جاوید اپنے اسی موقف کو کسی نان فکشن مضمون میں پھیلا کر بیان کریں۔
لیکن یہ خامیاں ان خوبیوں کے مقابلے میں بہت معمولی ہیں جن کا تذکرہ مجھے درپیش ہے۔ مگر میں اس ناول کی عمدگی اور اس کے لیے اپنی پسندیدگی کے اظہار کے لیے کوئی پیرایہ، کوئی سانچہ بنانے میں مشکل محسوس کر رہا ہوں اور ناول نگار کی تخلیق کو حیرت سے دیکھ رہا ہوں جس نے اس سے کہیں بڑا سانچہ بنانے کا کام کتنی کام یابی سے انجام دے دیا ہے۔ جیسے یونانی سورما اپنے دیوی دیوتاوں کا نام لے کر انھیں یاد کیا کرتے تھے، ویسے ہی خالد جاوید نے بھی اپنے ناول میں کئی مصنفین اور کئی تحریروں کو یاد کیا ہے۔ اپنی متذکرہ مشکل کا حل تلاش کرنے کے لیے میں بھی کیوں ناں کچھ اور ناولوں کو یاد کر لوں۔ مثلاً حوان رلفو کا ناول ’پیڈرو پرامو‘ جس کے کردار انسان نہیں بلکہ بھوت یا سائے ہیں، یا صادق ہدایت کا ناول ’بوفِ کور‘ جس کا متکلم اپنے کرب کو کاغذ پر انڈیلنے اور اس کی سطر سطر میں اپنے دکھ کی سیاہی کا ان مٹ نقش نمایاں ہوتے دیکھنا چاہتا ہے۔ خالد جاوید کے ناول میں بندر اور گلہری کی وحشیانہ موت سے مجھے ائین بینکس کے ناول ’دی واسپ فیکٹری‘ کے مناظر یاد آتے ہیں۔
کھانے کی تیاری سے جذبات کے اظہار کا کام لینے کی تھیم سلمان رشدی کے ناول ’نصف شب کے بچے‘ کی ایک اہم تھیم تھی۔ ان کے ناول کا مرکزی کردار سلیم سینائی ایک باورچی تھا اور اس سے پہلے اس کی خالہ عالیہ اور اور ایک آیا میری پریرا زبردست باورچنیں رہ چکی تھیں۔ ناول میں باورچی خانے کی خاص زبان کا استعمال بھی ملتا ہے اور ’اختلاف کی بریانی اور تنازعے کے نرگسی کوفتے‘ کا ذکر ملتا ہے۔ سلمان رشدی نے اچار ڈالنے کا میٹافر بھی متعارف کرایا تھا۔ اچار ڈال کر سبزیوں اور پھلوں کو دیر تک کے لیے محفوظ کیا جاتا ہے اور یادیں بھی ماضی کو کچھ اسی طرح سنبھال کر رکھتی ہیں جیسے اچار سبزیوں اور پھلوں کو۔ بعد میں ارون دھتی رائے نے اسی تھیم کی ایک ویری ایشن اپنے ناول ’گاڈ آف سمال تھنگز‘ میں استعمال کی جس میں اچار بنانے کے ایک کارخانے کا ذکر ہے۔ خود سلمان رشدی کا بالغوں کی طرح سوچنے والا بچہ اور اس کی جادوئی اور ماورائی قسم کی صلاحیتیں گنٹر گراس کے ’دی ٹن ڈرم‘ کے بچے اوسکر سے کتنی ملتی جلتی ہیں۔ ان تمام تخلیق کاروں نے ایک تھیم کی مختلف ویری ایشنز پر کام کیا ہے اور اسے آگے بڑھایا ہے۔ ایک فکشن نگار قاری کی یادداشت پر کام یاب نقب لگانا چاہتا ہے تو اسے انسانی زندگی کا کوئی نیا پہلو دریافت کرنا چاہیے۔ خالد جاوید یہ کام کر گزرے ہیں۔
سلمان رشدی اور اروندھتی رائے کے ناولوں میں جس تھیم کے کچھ دھاگے ہی نظر آتے تھے وہ خالد جاوید کے ناول میں بھرپور طریقے سے اور کئی دیگر ویری ایشنز کے ساتھ سامنے آتی ہے اور قاری کے ذہن میں اپنا جال پوری طرح پھیلا دیتی ہے۔ انھوں نے باورچی خانے سے متعلق زبان کا بھی بڑا معنی خیز استعمال کیا ہے جو مغرب میں ’رجسٹر‘ ناول لکھنے والے فکشن نگاروں کے لیے ایک مثال ہے۔ لسانیات کی اصطلاح میں ’رجسٹر‘ ایسی زبان کو کہتے ہیں جو کسی خاص پیشے یا زندگی کے کسی خاص پہلو سے متعلق ہو۔ اسی لیے میرا خیال ہے کہ اس ناول کا انگریزی ترجمہ ضرور ہونا چاہیے۔ کچھ نہ کی اپنے جنونِ نارسا نے ورنہ یاں۔ ذرہ ذرہ روکشِ خورشیدِ عالم تاب تھا۔
کھانوں کی ریسی پیز سے متعلق کتابیں تو بہت سی ہوں گی مگر مجھے اس وقت چلی کی جادو اثر فکشن نگار ازابیل آئیندے کی ایک کتاب یاد آ رہی ہے جو اس نے کھانوں سے متعلق لکھی تھی۔ ازابیل آئندے ایک ماہر کہانی کار ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ماہر باورچن بھی ہیں اور انھوں نے اس کتاب میں کھانوں کا تعلق جنسیات سے جوڑا ہے اور جنسیات کو حیات کی بقا کی جدوجہد کے طور پر بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ کھانوں کو ایفروڈیزیاک یا جنسی قوت میں اضافے کے نظریے سے دیکھنے کا یہ طریقہ کوئی نیا نہیں تھا، البتہ ازابیل آئندے کے جادو اثر اسلوب نے کتاب میں فکشن کا رنگ پیدا کر دیا تھا۔ مگر باورچی خانے سے متعلق جو نظریہ خالد جاوید نے دریافت کیا اور پھر اس کی ویری ایشنز کو جیسے ایکسپلور کیا، وہ سراسر انھی کی اختراع ہے جس پر وہ بے انتہا داد کے مستحق ہیں۔
ایک مماثلت اور یاد آئی۔ سلمان رشدی کا سلیم سینائی، گنٹر گراس کا اوسکر اور خالد جاوید کا متکلم گڈو تینوں بچے اپنے ملک کی تاریخ کو اپنے ہی انداز میں بیان بھی تو کرتے ہیں۔ مگر اس تھیم کے بیان میں تاریخ پر خالد جاوید کی گرفت ویسی مضبوط نہیں رہتی جیسی خاص طور پر سلمان رشدی کی رہی تھی۔ ایک تسامح بھی ان سے سرزد ہوا ہے کہ اندرا گاندھی کے قتل کا ہونا انھوں نے نومبر میں بتایا ہے۔
معاف کیجیے گا کہ میں نے خالد جاوید کے ناول کے ساتھ کئی دوسرے ادیبوں کی تحریریں بھی یاد کر رہا ہوں۔ لیکن میں اس سلسلے میں مجبور ہوں۔ کیوں کہ میرے مطالعات زندگی کے دوسرے تجربات کی طرح اب میری زندگی کا حصہ ہیں اور میں زندگی کے مختلف مراحل کی تفہیم میں بھی ان مطالعات کے ٹکڑوں سے ہی مدد حاصل کرتا ہوں۔ اچھی تحریر وہ بھی تو ہوتی ہے جو مجھے اور بہت کچھ یاد دلا دے۔ چاہے اس ’اور بہت کچھ‘ کا تعلق گزاری ہوئی زندگی سے ہو یا مطالعے میں آئی ہوئی زندگی سے۔ اس طرح قاری اپنے اندر فکشن کو مصنف سے ایک مختلف انداز میں بھی ترتیب دے رہا ہوتا ہے۔ اور میرا خیال ہے کہ خود خالد جاوید کا بھی یہی موقف ہے۔
میں نے پہلے ذکر کیا ہے کہ خالد جاوید نے اپنے ناول کے آغاز میں دیگر متون اور تحریروں کے دس ٹکڑے بھی جمع کیے ہیں۔ یہ ٹکڑے کہیں نہ کہیں ان کے ناول سے جڑے ہوئے لگتے ہیں، تمام کے تمام دس ٹکڑے۔ اس کے علاوہ ناول کے اندر بھی انھوں نے دیگر بین الاقوامی شاعروں کی متعدد نظمیں اور ایک اپنی نظم بھی شامل کر دی ہے۔متن کی تشکیل ایک مصنف اپنے ایک عدد ذہن کی مدد سے کرتا ہے مگر اس ذہن کی یادداشت میں وہ متن کسی پہلے سے ناموجود سرچشمے سے ابلتا ہوا نہیں نکل آتا۔ وہ متن کئی چھوٹے چھوٹے چشموں یا ٹری بیوٹریز سے کمک حاصل کرتا ہے اور پھر ایک بڑے چشمے کی شکل اختیار کرتا ہے۔ اس کے علاوہ متن کی ترتیب و تشکیل کے دوران اسے احساس ہوتا ہے، یا ہو سکتا ہے کہ اس کے مطلوبہ متن کا کوئی حصہ، کوئی ٹکڑا تو کوئی دوسرا تحریر کر چکا ہے۔ پھر کیوں نہ اس ٹکڑے کو اپنے متن کا حصہ ہی بنا لیا جائے۔ ایسا کرنے سے متن کا وہ ٹکڑا ایک نئے متن کا حصہ بن جاتا ہے اور ایک نئی معنویت پیدا کر دیتا ہے۔ میرے تو خیال میں یوں وہ ٹکڑا نئے مصنف کی ملکیت بھی ہو جاتا ہے کیونکہ نئے متن کی تشکیل کے دوران وہ ٹکڑا ایک مخصوص مقام پر آ کر ایک نئے معنی دے رہا ہے۔ اس کی مثال میں یوں دوں گا کہ سگریٹ کے پنے تو آپ نے دیکھے ہوں گے۔ پاکستانی مصور گل جی ان پنوں کو اپنی تصویروں میں جوڑ کر رنگ کی چمک کا ایک خاص تاثر پیدا کرنے کا کام لیتے تھے۔ کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ صاحب ان پنوں کے تخلیق کار تو گولڈ لیف والے ہیں اس لیے انھیں گل جی کی تصویروں سے نکال دیا جائے؟ تو بھئی تناظر اور پس منظر تبدیل کر دینے سے ایک چیز میں نئے معنی پیدا ہو جاتے ہیں۔ دیہات میں عام استعمال ہونے والی چنگیر کراچی کے پوش علاقوں کے ڈرائنگ روم کی دیوار پر لگتی ہے تو کوئی اور معنی دیتی ہے۔ تاج محل کی دیوار میں لگی ہوئی کوئی اینٹ نکال کر لاہور یا دلی کی کسی کوٹھی کے دروازے کے اوپر لگا دی جائے تو اسے نئی معنویت مل جائے گی۔
ایک اور کام خالد جاوید نے یہ کیا ہے کہ اپنے نسوانی کرداروں کو عمومیانے کے لیے سب کے نام انجم رکھ دیے ہیں۔ بھئی جب ان سب کرداروں کی سمت ایک ہے اور وہ سب متکلم کی ایک خاص نفسیاتی کیفیت میں اپنا اپنا کردار ادا کر رہے ہیں تو ان کے نام الگ الگ رکھنے کی کیا ضرورت ہے؟ انھیں انجم باجی، انجم آپا، انجم بانو اور انجم بیگم کیوں نہ پکارا جائے؟ اس کے علاوہ خالد جاوید کی تحریروں کی تاریکی میں میں، تم، وہ جیسے ضمائر کے استعمال سے کرداروں کو ڈفرن شئیٹ کرنا بھی ہمیں زیادہ دور تک نہیں لے کر جاتا۔ وہ اپنے ہر کردار میں نظر آتے ہیں۔ کسی میں تھوڑے، کسی میں زیادہ۔ جیسے دوستوئیفسکی نے اپنا سیلف تین کرامازوف برادران اور ان کے مقتول ابا جان میں تقسیم کر دیا تھا۔ خود خالد جاوید نے اپنی کہانی ’آخری دعوت‘ میں کہا تھا کہ، ’’اپنی آزادی اور مُکتی کے لیے میں خود کو مختلف ضمائر میں تقسیم کر کے اپنے اسم کی تلاش جاری رکھنا چاہتا ہوں۔‘‘
خالد جاوید کے ناول میں اشتہا کا ذکر بہت ملتا ہے۔ منھ اور پیٹ کا خلا بھرنے اور بھرتے رہنے کی اشتہا۔ اور پھر یہ اشتہا جنسی اشتہا
اور موت کی اشتہا سے ملوث ہو جاتی ہے اور دکھ کا کارن بن جاتی ہے۔ گوتم بدھ نے کہا تھا کہ خواہش ہی دکھ کا سبب ہے۔ خواہش کیا ہے، اس چیز کی آرزو ہے جو پاس نہ ہو، یا پاس ہو مگر تھوڑی ہو۔ خواہش کو، ہل من مزید کو ہی اشتہا کہتے ہیں۔ خالد جاوید کا ناول ’نعمت خانہ‘ اسی اشتہا کی کہانی ہے اور اسے ایک نئے ہی سانچے میں ڈھال کر سمجھنے سمجھانے کی ایک کام یاب کوشش ہے۔
ہر اچھے ناول میں یہ وصف بھی ہوتا ہے کہ مجھے اس کے کچھ نہ کچھ بیانیے ہمیشہ کے لیے یاد رہ جاتے ہیں۔ خالد طور کا ناول ’کانی نکاح‘ مجھے سب سے زیادہ ایک طوفانی جھکڑ کی انتہائی باریک بینی سے کی جانے والی منظر کشی کی وجہ سے یاد ہے۔ خالد جاوید کے اس ناول میں بھی ایک جگہ شدید اور طوفانی بارشوں کا ذکر آیا ہے جس میں متکلم کی دادی ایک سفید پرزے پر ’ق ق ق‘ لکھ کر درخت پر لٹکا دیتی ہیں۔ یہ بیانیہ خاصے کی چیز ہے۔ اس کے علاوہ بچپن میں جن رشتہ داروں اور قریبی ترین عزیزوں کو جوان دیکھا ہوتا ہے انھیں بوڑھے اور بیمار ہوتے دیکھنا بھی ایک ہول ناک تجربہ ہے جسے خالد جاوید نے بڑی کام یابی سے لکھا ہے۔
انھوں نے خوراک اور جنس کے تعلق کو دریافت کرنے کے ساتھ ساتھ کم زور، غذائی کمی کے مارے ہوئے اور بیمار جسموں کی جنسی بھوک کو بھی خوب ایکسپلور کیا ہے۔ ’نعمت خانہ‘ کی انجم بانو کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ’’انجم بانو کی آنکھوں میں بھی ایک پیاس تھی۔ ایک سخت جنسی پیاس جو کسی بھی جوان لڑکی، جو بیمار رہتی ہو، میں غیر معمولی طور پر پائی جاتی ہے۔‘‘ یہی چیز انھوں نے اپنی کہانی ’آخری دعوت‘ میں بھی بیان کی تھی۔ گھر میں ایک بوڑھی عورت مر رہی ہے اور صاحبِ خانہ اور ایک مہمان کے درمیان یہ گفتگو چھڑی ہوئی ہے کہ ’’دبلی پتلی ڈھانچہ جیسی عورت اگر ایک بار پوری طرح سے جوش میں آ جائے تو بڑے سے بڑے مرد کو کچل کر رکھ دیتی ہے۔ اس کی ہڈیوں میں ہی اس کی اصل جان پوشیدہ ہوتی ہے۔‘‘ آپ مجھ سے لکھوا لیجیے کہ یہ بات بالکل درست ہے، مگر اسے فکشن میں اس انداز سے شاید ہی کسی نے دریافت کیا ہو۔
خالد جاوید کے لفظ سیاہ ہیں۔ ان کے اندر ایک گہرے، بہت گہرے دکھ کی سیاہی ہے۔ کیا یہ دکھ صرف یہ ہے کہ انسان ایک روز موت کا شکار ہو جائے گا؟ کیا یہ دکھ صرف یہ ہے کہ ایک انسان کے ہاتھوں دو قتل ہو گئے ہیں؟ اگر ایسا ہوتا تو ناول میں ہمیں متکلم اپنے اس عمل پر پچھتاتا بھی نظر آتا۔ اس کے متکلم سے زیادہ تو برادرز کارامازوف کے مقتول فیودر کا منجھلا بیٹا ایوان پچھتاتا نظر آتا ہے جس نے اپنے باپ کا قتل اپنے ہاتھوں سے کیا بھی نہیں تھا۔ ہاں پہلے قتل کے بعد خالد جاوید کا متکلم بری طرح بیمار ضرور ہو گیا تھا۔ یوں ان کے ہاں پچھتاوے یا گلٹ کے تشفی بخش احساس کے بجائے متلی یا نوزیا کا احساس زیادہ ملتا ہے جس کے نتیجے میں ان کا متکلم ایک ایسا بیمار شخص بن جاتا ہے جسے کوئی دیمک اندر ہی اندر چاٹ رہی ہو۔ متکلم اور عارضے میں مبتلا کچھ دیگر کردار بائبل کی ’کتابِ ایوب ‘کی یاد دلاتے ہیں اور ان کے پچھلے ناول ’موت کی کتاب‘ کو پڑھتے ہوئے ’کتابِ ایوب‘ کا حوالہ شمس الرحمان فاروقی کو بھی یاد آیا تھا۔ خالد جاوید کی تحریروں میں آسمانی صحائف کے اور حوالے بھی ملتے ہیں۔ مثلاً ان کے کام یاب ترین افسانے ’آخری دعوت‘ کا انگریزی ترجمہ اگر ’لاسٹ سپر‘ کر کے دیکھا جائے تو کیا یہ معنویت کی ایک اور جہت کی طرف سمت نمائی نہیں؟
متکلم کے سیاہ لفظوں کی اور کیا وجہ ہو سکتی ہے؟ کیا وہ محبت جو اسے بیوی اور بچوں سے نہیں ملی؟ بیوی کی محبت نہ ملنے کا موضوع خالد جاوید نے اپنے افسانے ’روح میں دانت کا درد‘ میں بھی اٹھایا تھا۔ مگر اس ناول میں یہ موضوع زیادہ پھیلاؤ کے ساتھ آیا ہے۔ کیا متکلم کے سیاہ لفظوں کی وجہ وہ محبتیں ہیں جو کھو گئیں؟ وہ لوگ ہیں جو چلے گئے؟ شاید ہاں۔ مگر یہ بھی یاد رہے کہ جب وہ محبتیں اور وہ لوگ موجود تھے تب بھی متکلم کچھ زیادہ خوش نہیں تھا۔ مگر اس افسردگی اور خاص طور پر اس افسردگی کے ماضی اور یادوں سے تعلق کے حوالے سے خالد جاوید نے ایک اور بڑی پتے کی بات بتائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’’افسردہ کر دینے کے لیے انسان کے پاس کتنی باتیں، کتنی یادیں ہوتی ہیں اور خوش ہونے کے لیے بہت کم۔ ماضی کا معاملہ بھی عجیب ہے۔ ماضی کی مسرتوں اور خوشیوں کو بھی اگر یاد کریں تو وہ بھی ایک اداسی اور افسردگی میں بدل جاتی ہیں۔ ‘‘
اس سب کے باوجود مجھے نہیں لگتا کہ خالد جاوید کے لفظوں کی سیاہی کی حتمی وجہ مندرجہ بالا میں سے کوئی ایک ہو گی۔متکلم کو جو دیمک اندر ہی اندر چاٹ رہی ہے وہ دیمک قتل پر پچھتاوے سے زیادہ کسی بہت گہرے احساسِ زیاں کی دیمک ہے۔ایک ایسا احساسِ زیاں جو انفرادی زندگی سے لے کر اجتماعی زندگی تک کا احاطہ کرتا ہے۔ پھر بھی میرا خیال ہے کہ ان سیاہ لفظوں کے پیچھے کوئی اور وجہ بھی ہے جو شاید ابھی خالد جاوید نے اپنے کسی افسانے، کسی ناول کو نہیں سونپی۔ یہ روح کا کوئی درد ہے جو دانت کے درد کی طرح جاں لیوا تو شاید نہ ہو، لیکن اسے وہی جانتا ہو جسے یہ درد ہو رہا ہو۔
میرا خیال ہے کہ اپنے سیاہ لفظوں کے اس سبب کو خالد جاوید اپنے سینے سے لگائے ہوئے ہیں اور اس سبب کے طفیل ان کے وجود سے سیاہ لفظوں کا ایک دریا پھوٹ رہا ہے لیکن اپنے فکشن میں وہ ان سیاہ لفظوں کی اتنی ہی سیاہ توجیہ پیش نہیں کر پاتے۔ ’نعمت خانہ‘ کے متکلم کے سیاہ لفظ بھی اس سے سرزد ہونے والے جرائم سے کہیں زیادہ سیاہ معلوم ہوتے ہیں۔ میرے اس موقف سے مصنف کا متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں۔ کیونکہ قاری اپنے منبر سے کسی کتاب پر جتنی چاہے تبصرہ آرائی کر رہا ہو، وہ کہیں نہ کہیں اصل کتاب کے بجائے اپنے ذہن میں ترتیب پاتی اس کتاب کی تشکیلِ نو پر بات کر رہا ہوتا ہے۔ لیکن ذہن میں متن کی تشکیل نو کی پنیری لگا دینے کی توفیق ہر مصنف کو کہاں ملتی ہے؟ اس لیے میں یہ کہوں گا کہ فکشن کو ہر ہر رنگ میں دیکھنے کے مشتاق قاری، فکشن کو اپنا کھیل دکھانے کا پورا موقع دینے اور اس دوران اپنے فیصلوں کوملتوی رکھنے والے قاری، صابر اور ہوشیار قاری خالد جاوید کی اگلی تحریروں کے منتظر رہیں گے۔
٭٭٭

سدھانشو فردوس کی نظمیں

تانا شاہ

وہ پہلے چوہا تھا
پھر بلہاڑ بنا
بھر دیکھتے ہی دیکھتے شیر بن گیا
خبر یہی ہے وہ شہد چاٹتے چاٹتے
خون چاٹنے لگا ہے
کوئی ان کو تو جگائو
جن کے وردان سے یہ ہوا ہے
٭٭٭

بازار

میں اڑ رہا ہوں
آسمان میں
تو نگل رہا ہے زمین پر
میری پرچھائی
٭٭٭

کونا

میرے بھیتر ایک گول کمرہ ہے
جس میں رہتی ہے ایک لڑکی

جو رونے کے لیے
کونے ڈھونڈتی
لگاتار گھوم رہی ہے
٭٭٭

فرشتہ

وہ جانتا تھا
وہ کبھی نہیں آئے گا

پھر بھی اس نے اس کے آنے کی افواہ پھیلائی
تاکہ امید زندہ رہے
٭٭٭

ضد

ضد اسے بھی ہے
ضد مجھے بھی ہے

ہمارا پیار دونوں ہاتھوں میں
ضد کی بالٹیاں اٹھائے
سیڑھیاں چڑھ رہا ہے
٭٭٭

مبشر علی زیدی کی کہانیاں

مکان

'میں نے تین مزلہ مکان اس لیے بنوایا تھا
کہ میرے بچے ہمیشہ ایک ساتھ رہیں۔'
بابا اکثر یہ بات کہتے تھے۔
لیکن ان کا انتقال ہوتے ہی ہم نے مکان بیچنے کا فیصلہ کیا۔
نہ ہم تینوں بھائی ایک ساتھ رہ سکتے تھے، نہ ہماری بیویاں۔
اخبار میں اشتہار دیکھ کر کئی خواہش مند آئے۔
ایک صاحب سے معاملہ طے پاگیا۔
میں نے ان سے بیعانہ لے کر پوچھا،
'آپ کو یہ مکان کیوں پسند آیا؟'
'میرے تین بیٹے ہیں۔'انہوں نے بتایا،
'میں تین منزلہ مکان اس لیے خریدنا چاہتا ہوں
کہ میرے بچے ہمیشہ ایک ساتھ رہیں۔

بھوک

گزشتہ رات میں نے دوستوں کو اپنے ہاں مدعو کیا تھا۔
کھانا زیادہ بنوایا تھا۔
صبح میں نے بچی ہوئی بریانی گھر کی دیوار کے قریب الٹ دی۔
کچھ دیر بعد میں نے پہلی منزل کی بالکونی سے جھانکا،
وہاں ایک چڑا اور چڑیا اپنا رزق تلاش کررہے تھے۔
دس منٹ بعد ایک موٹی تازی بلی باسی چاولوں کی دعوت اڑارہی تھی۔
بیس منٹ بعد ایک آوارہ کتا سونگھ سونگھ کر ہڈیاں چکھ رہا تھا۔
آدھے گھنٹے بعد کوے ایک دوسرے سے بوٹیاں چھین رہے تھے۔
ایک گھنٹے بعد بظاہر انسان نما مخلوق زمین پر بیٹھ کر بھوک مٹارہی تھی۔

پارٹ ٹائم

میں اے ٹی ایم سے پیسے نکال رہا تھا کہ نقاب پوش ڈاکو آن دھمکا
رات کا وقت، سڑک سنسان تھی۔
لیکن میں نے حواس بحال رکھے۔
سارے پیسے فوراً ڈاکو کے حوالے کردیے۔
موبائل فون بھی جیب سے نکال کر دے دیا۔
لیکن رسان سے کہا،
'میں ایک فیکٹری کا مالک ہوں۔
نوکری کا بندوبست کرسکتا ہوں۔
جان کا خطرہ لے کر ڈکیتی کرنے سے بچ جائو گے۔
محنت کی تنخواہ سے گھر چلائو گے۔'
ڈاکو نے نقاب اتار پھینکا۔کہنے لگا،
'سیٹھ صاحب! مزدوروں کا خون مت نچوڑو۔
تمہاری تنخواہ سے گھر چلتا تو میں ڈاکو کیوں بنتا۔'

جہنمی

قبر جیسے ہی اوپر سے بند ہوئی، نیچے ایک دروازہ کھل گیا۔
بہت سی سیڑھیاں اترنے کے بعد میں دوزخ میں پہنچ گئی۔
وہاں دو چار فرشتے تھے اور بے شمار مردے۔
ہر جہمنی کے نام پر کھولتا ہوا تیل اور آگ بانٹی جارہی تھی۔
مردوں کی چیخیں نکل رہی تھیں۔
میںنے تیل کا ایک کنستر اٹھالیا۔
کوئی زحمت نہ کرے۔مجھے خود کو آگ لگانے کا تجربہ ہے۔میں نے کہا۔
'یہاں تمہیں خود کوآگ نہیں لگانی۔'ایک فرشتہ بولا۔
'جنہوں نے تمہارے ساتھ زیادتی کی ہے، وہ آنے والے ہیں۔
تمہیںیہاں انہیں آگ لگانی ہے۔'

جھلا

'میں نے کوپن ہیگن میں ایئر کنڈیشنرز کی دکان کھولی تھی۔
مجھے معلوم نہیں تھا کہ وہاں گرمی نہیں پڑتی۔
نقصان اٹھا کر دکان بند کرنی پڑی۔'
واحد نے تفصیل بیان کی۔
وہ کئی سال بعد ملا تھا۔
میں نے دریافت کیا تھا کہ اس دوران کیا کرتے رہے۔
'ڈنمارک میں پیسے ڈبو کر سعودی عرب منتقل ہوگیا۔
جدہ میں ہیٹرز کی دکان کھول لی۔
مجھے معلوم نہیں تھا کہ وہاں سردی نہیں پڑتی۔
نقصان اٹھا کر دکان بند کرنا پڑی۔'اس نے کہا۔
میں نے پوچھا۔'آج کل کیا کررہے ہو؟'
واحد نے بتایا۔'کراچی میں کتابوں کی دکان کھول لی ہے۔'

روتے کیوں ہو؟

'کیا اس ٹرین میں کوئی ٹکٹ چیکر آتا ہے؟'
میں نے برلن میں سفر کرتے ہوئے پوچھا۔
'کوئی میرا ٹکٹ کیوں چیک کرے گا؟'
جرمن دوست نے حیران ہوکر پوچھا۔
'فرض کرو، تم ٹکٹ نہیں لیتے۔پھر؟'
اس نے فرض کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا۔
'کیا تم نے اپنے ملک میں کبھی بلا ٹکٹ سفر کیا ہے؟'
اس نے دریافت کیا۔
'کئی بار۔'میں نے اعتراف کیا۔
'میں تمہارے ملک کے متعلق کچھ نہیں جانتا۔'وہ بولا،
'لیکن اگر تم دو روپے کی کرپشن کرتے ہو،
تو تمہارے لیڈر دو سو ارب کی کرپشن کرتے ہوں گے۔'

شرم

میں اپنے بچوں کو اپنی حیثیت سے زیادہ مہنگے اسکول میں پڑھارہا ہوں۔
لیکن اپنی چھوٹی گاڑی میں اسکول چھوڑنے جاتا ہوں تو شرم آتی ہے۔
دوسرے بچے بڑی بڑی گاڑیوں میں آتے ہیں۔
کل میرا بیٹا ایک دوست کے ساتھ اسکول سے نکلا۔
میں نے دیکھا، وہ بچہ ایک رکشے میں جاکر بیٹھ گیا۔
رکشے والا اُسے لے کر چلا گیا۔
گھر آکر میں نے بیٹے سے اس کے دوست کا پتا پوچھا۔
سوچا کہ اس کے باپ کو جاکر سمجھائوں،
رکشے میں بچے کا آنا جانا ٹھیک نہیں۔
وہاں پہنچ کر میں نے دروازہ کھٹکھٹایا۔
رکشے والا باہر نکلا۔

ٹرینڈ

صبح میں نے ایک کالم فیس بک پر پوسٹ کیا۔
دس بارہ دوستوں نے اسے لائیک کیا۔
دوسرے پہر میں نے سو لفظوں کی کہانی ٹائم لائن پر لگائی۔
بیس بائیس افراد نے اسے پسند کیا۔
شام کو میں نے ایک شعر دوستوں کی نذر کیا۔
تیس بتیس افراد نے داد سے نوازا۔
رات گئے میں نے ایک تصویر اپ لوڈ کردی۔
گھنٹے بھر میں تین سو افراد نے اسے شیئر کرلیا۔
اگلے دن میں نے ایک آئی ٹی ماہر سے پوچھا،
'میری کہانی پر کم لائیک آتے ہیں، تصویر پر زیادہ۔ایسا کیوں؟
آئی ٹی ماہر نے کہا:'فوٹو پڑھنا نہیں پڑتا۔'

غدار

'جو شخص اتوار کو گرجا گھر آتا ہے،
میرا وعظ سنتا ہے، میرے فرقے کی بائبل کا مطالعہ کرتا ہے،
صرف وہی سچا عبادت گزار ہے۔'
پادری نے فیصلہ سنایا۔
'اور جو ایسا نہیں کرتا؟' کسی نے پوچھا۔
'وہ کافر ہے۔'پادری نے غضب ناک ہوکر کہا۔
'جو شخص بادشاہ سلامت کو سلام کرنے آتا ہے،
ان کا خطاب سنتا ہے، گھر میں ان کی تصویر لگاتا ہے،
صرف وہی سچا محب وطن ہے۔'
درباری نے فیصلہ سنایا۔
'اور جو ایسا نہیں کرتا؟'
'وہ غدار ہے۔'
بہت جلد قوم دوحصوں میں تقسیم ہوگئی۔
آدھی آبادی کافر تھی، آدھی غدار!

بے خواب

ایک صبح میری آنکھ کھلی تو خود کو محل میں پایا۔
میں ایک دن کے لیے بادشاہ تھا۔
اگلی صبح بیدار ہوا تو جھونپڑی میں تھا۔
وہ دن فاقے سے گزرا۔
میرے ساتھ ایسا ہی ہوتا تھا۔
کسی دن جاگتا تو خود کو منصف دیکھتا،
کسی دن مجرم۔
کسی دن ہوش آتا تو پردے دار معشوق ہوتا،
کسی دن جنگلوں میں پھرتا ہوا مجنوں۔
کسی دن خود کو ماہر فلکیات پاتا،
کسی دن نئی دنیائوں کے بارے میں سوچنے والا شاعر۔
پھر ایک دن میری آنکھ کھلی تو خود کو عرش پر پایا۔
اس دن کے بعد سے نہیں سویا۔
٭٭٭

مبشر علی زیدی کی کہانیاں(ایک مختصر جائزہ)/تصنیف حیدر

میں نے جب مبشر علی زیدی کا انٹرویو لیا تھا تو انہوں نے کہا تھا کہ وہ زیادہ پڑھ نہیں پاتے، کیونکہ ہر آدھی کہانی ان کی کئی کہانیوں کی محرک بن جاتی ہے، میں نقاد بن کر مبشر علی زیدی کی کہانیوں کے فنی رموز نہیں گنوانا چاہتا، مگر ان کی کہانیوں کا تجزیہ کرتے ہوئے مجھے یہ بات یاد آئی، شاید یہ بات بالکل اسی طرح نہ ہو، مگر مبشر علی کی کہانی کہنے کی طاقت کو دیکھتے ہوئے میں کہہ سکتا ہوں کہ وہ زندگی کے ایسے آئنہ دار ہیں، اور اس کی اچھی بری تصویروں کو اتنی بے باکی سے ہمارے سامنے پیش کرتے ہیں کہ زندگی خود ایسا کرتے ہوئے شرمائے، ایسی کہانیاں ایک صحافی زیادہ بہتر طور پر لکھ سکتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ صحافی زندگی کی منافقتوںکو ایک نارمل کہانی کار سے زیادہ جانتا ہے، وہ منہ پر انگلی رکھ کر خبریں پڑھتا ہے، ان پر تبصرے نہیں کرتا، مبشر علی زیدی کی یہ کہانیاں انہیں تبصروں کی ایک دنیا بھی کہی جاسکتی ہیں۔منٹو پر ایک الزام ہے کہ وہ زندگی کے عام واقعات میں جتنی جلدی کسی عمل کا ردعمل پیش کرتا ہے، وہ اسی طور ظاہر بھی ہوا کرے، یہ ممکن نہیں ہے۔ مگر مبشر علی زیدی نے تو منٹو سے بڑا رسک لیا ہے، منٹو نے مختصر کہانیاں بھی لکھی تھیں مگر وہ اکثر اوقات کمزور ہوجاتی تھیں، اس کی وجہ یہ تھی کہ منٹو کی زیادہ تر کوشش زندگی کی گھٹیا ترین صورت کو مختصر پیرائے میں دکھانے کی ہوتی تھی، مثال کے طور پر اس کی کہانی 'جیلی'جس کو پڑھ کر مجھے پہلی دفعہ الٹی کا سا احسا س ہوا تھا، یہ غلطی منٹو کی نہیں تھی ،میرے معدے کی تھی، جو سچائی کو اتنی تیزی سے ہضم نہیں کرپایا تھا، مبشر علی نے اس کے برعکس کام کیا ہے، انہوں نے زندگی کی کڑواہٹوں کے ساتھ ایک امید بھی اپنی کہانیوں کے دامن سے وابستہ کردی ہے، مثلا مکان نامی ان کی کہانی میں ایک جانب وہ تین بچے ہیں جو گھر جوڑ کر نہیں رکھ پائے اور دوسری طرف وہ باپ ہے جو انہیں ایک رکھنے کی خواہش لیے قبر میں چلا گیا، وہ چاہتے تو اس باپ کو مار کر کسی طرح کہانی کو چٹخارے دار اورعام صحافیانہ طرز کی کہانی بنا سکتے تھے، مگر اخبار کی خراب سے خراب خبر یہ بھی بتاتی ہے کہ یہ حرکت جو ہوئی ہے ، وہ سماج کی استثنائی صورت کے طور پر ہمارے سامنے آئی ہے، ورنہ خبر نہ بنتی، اس وجہ سے ان بیٹوں سے مکان خریدنے والا شخص خود ایک باپ ہے، یعنی باپ نہیں مررہا ہے، وہ مکان ہارانہیں ہے، اس کی زندگی میں اس امید کی رمق ختم نہیں ہوئی جس دیواروں کو زندہ ہونے کا احساس دلایا تھا،اب کہانی ختم ہوگئی مگر کہانی ختم ہوئی بھی یا نہیں؟کچھ معلوم نہیں، آگے اندھیرا ہے اور قاری کا ذہن کہانی کو ٹٹول رہا ہے کہ کیا اب بھی ان بھائیوں نے وہ مکان بیچ دیا ہوگا، یا پھر مکان بیچ کر وہ پچھتائے ہونگے، یہ جو نیا مکان مالک ہے، اس کے بچے کیسے ہونگےوغیرہ وغیرہ۔زندگی کے ہر اچھے برے عمل کا ایک رد عمل ضرور ہوتا ہے، اور اگر ایسا ہوتا ہی ہے تو اس میں جلد یا بدیر کا سوال پیدا کرنا بے وقوفی کی بات ہے، یعنی اگر باپ مرا ہے تو بیٹا بھی مرے گا، اب کوئی یہ پوچھنے لگے کہ صاحب آپ کی کہانی میں تو بیٹا باپ کے مرنے کے دو روز بعد ہی مرگیا تو میں پلٹ کر پوچھ سکتا ہوں کہ وہ تو باپ کی موت سے پہلے بھی مرسکتا تھا کیونکہ کہانی زندگی کا ایک رخ ہے اور اس رخ پر سب کچھ جائز ہے، سب کچھ جو ہوتا ہے، وہ واقعی ہوسکتا ہےاور شاید دنیا کے کسی نہ کسی خطے میں ہورہا ہے۔
مبشر علی زیدی ہمارے بہت مقبول رائٹر بھی ہیں اور سنجیدہ بھی۔ کم از کم میں تو ان کی اہمیت سے انکار نہیں کرسکتا۔میں ان کے انتہائی فنکارانہ شعور کا قائل ہوچکا ہوں، وہ زندگی کے کسی عام واقعے کو لیتے ہیں، کسی خبر کو، کسی حادثے کو، اس پر انگلیاں پھیرتے ہیں، اسے اینٹھتے، موڑتے مروڑتے ہیں، اور پھر اس کی کئی شکلیں بنا کر دیکھتے ہیں، وہ واقعی ایسا کرتے ہیں،اور آخر میں ایک ایسا رخ پیش کرتے ہیں، جو دیکھ کر انسان اچھل پڑتا ہے، میں نے ان کی کم از کم پانچ کہانیاں یہ سوچ کر پڑھیں کہ میں تین چار سطروں بعد کہانی کا انجام اپنے قیاس پر گڑھوں گا اور دیکھوں گا کہ کیا میں بھی مبشر کی طرح اس کہانی تراشنے کے انوکھے ہنر سے واقف ہوں، مگر پانچ میں سے تین کہانیوں کا انجام بالکل مختلف نکلا، ایک کا کچھ نزدیک لیکن بالکل وہ نہیں، جو میں نے سوچا تھا اور آخری کہانی میں تو انجام ہی نہیں تھااور یہی اس کا انجام تھا۔ میں ان کہانیوں کے نام نہیں بتائوں گا، آپ خود بھی ایسا کرکے دیکھیے، یہ ان کہانیوں کی خصوصیت ہے۔ مبشر علی زیدی میرے عہد کے بڑے افسانہ نگار ہیں، جو بہت چھوٹی چھوٹی کہانیاں لکھتے ہیں، ان کی عظمت کو میں ان کی زندگی میں، ان کی جوانی میں تسلیم کیے لیتا ہوں، آپ کو میری بات نہیں ماننی تو مجھے کوئی خاص پروا نہیں، ہمارے آس پاس کی دنیا سکڑتی جارہی ہے، اب ایسے میں اصناف کی ہیتیں بھی سکڑیں گی مگر حیرت ہے کہ اس سکڑتے ہوئے بدن میں دماغ کا حجم بڑھتا جارہا ہے، اور ایسا لگتا ہے کہ ایک دن انسان اپنے اسی دماغ کی مدد سے اچانک پوری دنیا سے غائب ہوجائے گا، کہانی کے ساتھ بھی شاید یہی ہو، اور ایسا کرنے والوں کی شروعات ہوچکی ہے، مبشر علی زیدی اردو میں ان دماغ دار کہانیوں کے سردار ہیں۔
٭٭٭

مذہب کیوں غیر ضروری ہے/تصنیف حیدر

ایک آدمی بھی ابھی تک مجھے ایسا نہیں ملا جس نے مجھے بتایا ہو کہ وہ مرنے سے پہلے کیا تھا اور مرنے کے بعد کہاں جائے گا، بس سب کو یقین ہے کہ وہ مرنے سے پہلے کچھ نہیں تھے اور مرنے کے بعد پھرزندہ کیے جائیں گے،جہاں ان کا رب ان سے سوال پوچھے گا، اچھے برے کا حساب کرے گا۔یہ اچھے برے کا حساب کیا ہے، کیا نماز پڑھنے، روزہ رکھنے سے انسان اچھے برے کی تمیز کرلیتا ہے، اگر ایسا ہوتا تو خودکش بمبار نماز پڑھنے اور روزے رکھنے میں اتنے آگے کیوں ہوتے، وہ آدمی جو غیر مذہبی ہے،اسے زندگی سے پیار ہے۔کیونکہ وہ خدا کی ان آیتوں پر زیادہ یقین رکھتا ہے کہ خدا نے زمین و آسمان میں جو کچھ ہے، اسی کے لیے بنایا ہے، زندگی عارضی سہی مگر خوبصورت ہے۔ایسے آدمی کو یہ باتیں مذہب نے نہ بھی سمجھائی ہوتیں تو وہ خود سمجھ لیتا۔جب سارا معاملہ یقین کا ہے، تو آپ مجھے بھی یقین سے کیوں روکتے ہیں کہ میں یقین کرچکا ہوں کہ جنت و دوزخ کچھ نہیں ہیں، یہ تب ایجاد کیے گئے تھے جب انسان کو برائی سے روکنے کے لیے ان کی ضرورت تھی، اور جب یہ فساد کی جڑ بن رہے ہیں تو ان کو مٹادینے میں کیا برائی ہے، یعنی کہ جو چیز خیال میں بنی، اسے خیال میں ہی ختم کردینے سے کیا کسی کا کچھ بگڑ جائے گا، چلیے آپ سوچیں گے کہ میں عنوان سے بھٹک رہا ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ مذہب کا تصور لوگوں کے ذہن میں ایک ماورائی زندگی کا تصور پیدا کرتا ہے، جہاں یا تو وہ سکون سے ہیں یا تو عذاب میں گرفتار ہیں، وہ کون خدا ہے جس نے خود کو تو وقت کہااورمنوایا اور وقت کے ساتھ بہہ کر آنے والے تغیرات کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔عقل کہتی ہے کہ ہر تصور جو لادا جاتا ہے، وہ ہر کہاوت کی طرح محض ایک انسانی ضرورت ہے، یعنی جس زمانے میں سی سی ٹی وی کیمرہ نہیں تھا، اس زمانے میں ایک ایسے خدا کے تصور کی بہت ضرورت تھی، جس کے بارے میں کہا جائے کہ وہ ہر وقت تمہارے سر پر مسلط ہے، وہ تمہیں دیکھ رہا ہے، مگر لوگوں نے دیکھا کہ چوریاں تب بھی ہوتی تھیں، اور چوریاں سی سی ٹی وی کیمرے کے زمانے میں بھی ہوتی ہیں، جبکہ جہاں یہ کیمرے نصب ہوتے ہیں، وہاں صاف لکھا ہوتا ہے کہ 'آپ سی سی ٹی وی کیمرے کی نگرانی میں ہیں'۔بہت چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں، مگر سوچنے کی ہیں، ذہن پر زور دینے کی ہیں، انسان نے اپنی ضرورتوں کے لیے خدا کو ایجاد کیا اور پھر اس خدا کو مختلف رنگوںمیں بانٹ کرایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوگئے۔کسی مذہب کے خدا کی کہی ہوئی ایسی باتوں پر مذہبی لوگ اصرار کرتے نہیں ملیں گے کہ دنیا ایک بہت خوبصورت سیارہ ہے، ان لاکھوں، کروڑوں بلکہ اربوں سیاروں میں سے ایک ہے جس پر پانی جھل جھل بہتا ہے، پیڑ چھائوں دیتے ہیں، چڑیائیں چہچہاتی ہیں، زمین ہرے سبزے میں لپٹی مخملیں بچھونے کی طرح تھکے ہوئے قدموں کو راحت بخشتی ہے،چاند دمکتا ہے، سورج چمکتا ہے اور ہوائیں رقص کرتی پھرتی ہیں، یہ سب اتنے بہترین تناسب کے ساتھ اگلے کسی ایک ایسے ستارے پر موجود نہیں، جس کا ہمیں بھی علم ہو، تو پھر اس علم کا کیا فائدہ اگر ہم اس نعمت کی قدر نہ کریں، اس لیے کیونکہ ان سب باتوں میں وہ طلسم موجود ہے، جو زندگی کو بہتر بناتا ہے، موت پر قابو پانے کے ذرائع ڈھونڈتا ہے اور انسانی دماغ کی بہترین نشو و نما کرنے کا ہنر رکھتا ہے۔لیکن مذہب اگر اس کی اجازت دے دے تو مسئلہ یہ ہے کہ اس کا اقتدار ختم ہوجائے گا، خدا تو اقتدار نہیں چاہتا، اس نے تو دنیا بنائی، انسان کو اپنے عمل کے لیے خود مختار کردیا، اسے سمجھ دی، اسے اپنے آگے جھکنے پر مجبور کرنے کے بجائے اپنی رحمتوں سے مالامال کردیا، مگر مذہبی لوگ موت کا ایک آسیب دماغوں پر طاری رکھنا چاہتے ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ انسان بغیر سوچے سمجھے، آگ میں کودے، اور اس موت کی دیوار پار کرتے ہی ایک ایسی سرحد میں داخل ہوجائے جہاں زندگی ہی زندگی ہے، موت کا کرب نہیں۔یہ دراصل موت کے ڈر کو ایک اوزار کی طرح استعمال کرتے ہیں، انہوں نے اس کے خوف کو اس کے بعد آنے والی زندگی کے رومانس میں تبدیل کردیا ہے، خدا سے قرب کا تصور، سوال یہ ہے کہ جب ان کا خدا خود کہہ رہا ہے کہ ہم تمہاری رگ گلو سے نزدیک ہیں تو یہ اور کتنا نزدیک ہونا چاہتے ہیں اس کے، وہ روم روم میں بسا ہے، وہ کہہ رہا ہے، مگر یہ ماننے کے لیے تیار نہیں، یہ اس کی ہی باتوں کی نفی ہے، جسے یہ خدا مانتے ہیں، وہ کہتا ہے عقل سے کام لو، غور کرو، دنیا کو دیکھو،اس میں فساد مت پھیلائو مگر یہ اس کے نام پر اس کے برعکس سارے کام کرتے ہیں کیونکہ ان سے یہ سارے کام مذہب کرواتا ہے، مذہب جو کسی ایک عقیدے میں گھر کر خدا کی بنائی ہوئی انسانی دنیا کو ہمیشہ سے بڑی سے بڑی اور چھوٹی سے چھوٹی لکیروں میں بانٹتا چلاآیا ہے، جس نے اپنی تقدیس کا بت بنایا ہے، اس لیے سوچنے والوں کے لیے ضروری ہے کہ ان لکیروں سے باہر آنے کے لیے اس تقدس کے بت کو گرائیں، اسے توڑیں اور وہ کام کریں جو واقعی کرنے کے ہیں، جو دنیا کو بہتر بنانے کے ہیں، وہ باتیں جو ان کے خدا نے ان سے کہیں، مگر انہوں نے نہیں سنیں،کیونکہ وہ اندھے، بہرے اور گونگے ہیں۔
٭٭٭

اداریہ/تصنیف حیدر

میرے ساتھ ایک دنیا ہے، جس میں بہت سے اچھے پڑھنے لکھنے والے موجود ہیں، اس دنیا کی کہانی لکھنے والا میں ایک بے چارہ، بہت سے نظریات اور رسومات کا مارا ہوا انسان تھا، جب تک ان لوگوں سے نہیں ملا تھا، ہوسکتا ہے کہ فیس بک نے بہت سے لوگوں کی زندگیاں تباہ کی ہوں، مگر مجھے سوچنے سمجھنے، پرکھنے جاننے والے بہت سے اچھے لوگوں سےملایا۔
جدید ترین کے اس پہلے شمارے میں جن لوگوں کے مضامین شامل ہیں، وہ معمولی لوگ نہیں، اعلیٰ قسم کے تخلیق کار اور ادب کو سمجھ کر پڑھنے والے لوگ ہیں۔اور ان میں وہ باریش حضرات بالکل موجود نہیں ہیں، جو ادب ختم ہورہا ہے یا زبان خطرے میں ہے کا نعرہ لگاتے پھرتے ہیں، ان کے نزدیک وقت جب تک ہے، کچھ کام کرتے رہنے اور علم کے دریا سے اپنی تشنگی مٹاتے رہنے کا نام جدیدیت ہے، یہ گزرتے ہوئے وقت کے ساتھ بہت سی باتوں کو سیکھتے، جانتے اور سمجھتے جارہے ہیں۔
اداریوں کا وقت ویسے بھی ختم ہوچکا ہے، اب یا تو تخلیق بولتی ہے یا پھر علم بولتا ہے، بھاڑے کے ٹٹوئوں کا زمانہ لد گیا، مدیر کی ذمہ داری ویسے بھی ادب کو سمجھوانے کی نہیں، ادب کو آپ تک پہنچانے کی ہی ہے، جس زمانے میں کاغذ پر شائع ہونے والی تخلیقات صرف ردی کی زینت بڑھانے کا کام کرتی ہوں، ایسے میں اگر کوئی آن لائن رسالہ معیار کو قائم رکھنے اور لوگوں کی عمدہ ادبی تربیت کو اپنا فریضہ سمجھے تو اسے بھی آپ اکیسویں صدی کا ایک جدید ترین رجحان کہہ سکتے ہیں۔یہ رسالہ پڑھیے اور اپنی رائے سے نوازیے۔
کچھ شماروں کے بعد ہم اسے آف لائن بھی شائع کریں گے، اس کی ویب سائٹ بھی بنائیں گے۔بس آپ کا ساتھ درکار ہے، جتنے لوگ ہیں، بس اتنے لوگ، ہم نے بے وقوفوں کی جماعت پیدا کرنے کی قسم نہیں کھائی، عقلمندوں کی تلاش میں نکلے ہیں، اور ان سے سیکھتے رہیں گے، اچھی بات یہ ہے کہ جدید ترین کے پہلے شمارے میں شائع ہونے والے زیادہ تر مشمولات غیر مطبوعہ ہیں۔اب آپ کی رائے کا انتظار رہے گا اورشاید آپ کو اس کے اگلے شماروں کا۔شکریہ

7 تبصرے:

Vasi Bakhtiary کہا...

جدید ترین کے پہلے شمارے جنوری 2016 کا پُر خلوص استقبال کیا جاتا ہے- لفظ و معنی کی بحث اور مولوی ذکاء اللّٰہ بہت عمدہ اور جامع پرچہ ہے... تمام تخلیقات قابل قدر ہیں؛ فاضل مدیر برادرم تصنیف حیدر کی خدمت میں پُر خلوص مبارکباد - ہدیۂ تبریک و تہنیت.

Unknown کہا...

خیر مقدم ہے. واقعی خوصورت.

گمنام کہا...

ماشا اللہ، بہت خوبصورت مجلہ ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

shakoor rafay کہا...

ایک اچھا تجربہ ہے۔ اور مختلف بھی۔ فکشن، تنقید سے شاعری تک۔۔ بہت کچھ ایک جگہ جمع کرنے کی اچھی کوشش ہے۔ بہت مبارباد

Unknown کہا...

تہہ دل سے مبارکباد تصنیف حیدر

اعجاز عبید کہا...

مبروک۔ اس کا دورانیہ کیا رہے گا؟

Unknown کہا...

اتنا عمدہ کام کرنے پر بہت مبارک قبول فرمائیے۔ تمام سیکشن بہت اچھے ہیں ۔ ثروت زہرا کی نظموں اور مبشر زیدی کی کہانیوں نے بہت لطف دیا ۔ زمرد مغل کی چند مخلصانہ اور دردمندانہ سطور ہم سب اردو والوں کے لیے لمحہ فکریہ ہیں ۔
شاہد ماکلی

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *