محمد یامین نظم کے بہت عمدہ شاعر ہیں۔ان کی نظموں میں بڑی گہرائی مجھے محسوس ہوتی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کی یہ تازہ نظمیں بھی اس صفت سے خالی نہیں ہیں۔وہ کم کہتے ہیں اور شاعروں کی ہو ہلڑ سے بھی دور ہی رہنا پسند کرتے ہیں، خود شناس ہیں لیکن بہت زیادہ خود پسند نہیں، اس لیے میں نے انہیں باقاعدہ کبھی خود کو پروجیکٹ کرتے نہیں دیکھا۔ان کی نظموں کے تعلق سے میں کبھی تفصیل سے لکھوں گا، اور یہ ان کے لیےنہیں میرے اپنے علمی اور ادبی تشخص کو مضبوط کرنے کی جانب ایک پیش رفت ہوگی۔ان نظموں میں سادگی ، تاریخ اور ابہام مل جل کرنیا منظرنامہ رقم کرتے ہیں، جن کو ایک دو بار پڑھ لینے سے مکمل تفہیم کا دعویٰ شیطان جیسا علم رکھنے والے شخص کو ہی ہوسکتا ہے۔امید ہے کہ یہ نظمیں ہمیں کچھ کہنے، کچھ سوچنے اور کچھ سمجھنے کی تحریک دیں گی۔
کُتوں کی فوڈ اسٹریٹ
آج
اتوار نہیں ہے
پھر
بھی خالی جگہ اک پل میں پُر ہو جاتی ہے
چار
اٹھتے ہیں
دس آ
جاتے ہیں
آج ہی
کیوں ہم گھر سے نکلے
لسی ،مکھن
،ساگ ،اچار،چاول، روٹی، تیتر بوٹی ،مرغ
متنجن، حیدرآبادی
دادی
سب پکوا
دیتیں
آرام سے
گھر میں کھا لیتے
لیکن
تم یہ پرانے کھانے کب کھاتی ہو
اوپر
سے یہ دعویٰ بھی ہے
فوڈ
اسٹریٹ کے کھانے تازہ ہوتے ہیں
تم
بھی ان کا فیور کرتی رہتی ہو
کچھ
کچھ فیورموسم بھی کر دیتا ہے
ـــــــــــ ساتھ چپکنے سے کیا ہو گا
ہر شے دانت بجاتی خنکی نےسُن کر دی ہے
سب ٹھنڈا
ہے
بھوک
بہت ہے لیکن جی متلاتا ہے
اندر
اندر
کسی کھرونچ
کا زخم ہے جو تڑپاتا ہے
ـــــــــــ آج کسی بھی میز کے نیچے مال نہیں
ہے
بھوکوں
کا کوئی حال نہیں ہے
آج
بھی شاید پیزے سے تاکیزے کو کوئی دانت ملا ہے
کافی
خوش ہے
پیٹ
میں دوزخ جھونک رہا ہے
ـــــــــــ ویٹر کے بھی کان نہیں ہیں
سُن
تو لے
کون
کہاں سے بھونک رہا ہے
سرکس
وہ دونوں
لپیٹے ہوئے
اپنی گردش
لگاتار چلتے
ہیں
کم ہی
قریب آتے دیکھا ہے ان کو
کبھی ایسا ہو
بھی تو ڈرتا ہوں
یک جان ہو کر
یہ دوسے کہیں
ایک ہی بن نہ جائیں
بجا ، ایک پہیا تو سرکس میں چلتا ہے
جوکر گھماتا
ہے
لیکن یہ
گاڑی کہاں چلنے والی ہے
جیون کی!
ڈر ڈر کے
درزوں سے آنکھیں
لگاتا ہوں
شاید کبھی
دیکھ پاؤں میں یک جان ان کو
اور اپنی یہ پنسل پکڑ کر
بھروں رنگ
جیون کے
نقشِ خیالی
میں!
لیکن کہاں
پنسلوں سے یہ جیون کا نقشا بنا ہے
حقیقت کہاں کاغذوں پر اُگی ہے
کبھی آگ،
پانی سے یک جان ہو کر جلی ہے
زمیں پر اگر
ایک گُم دوسرے میں ہوا تو
یہ جانو کہ اب
وہ زمیں پر نہیں ہے
میں چھپ چھپ
کے
درزوں سے
آنکھیں لگا کر
یہی دیکھتا ہوں
الگ اپنے بستر
بچھاتے ہیں
بتی بجھاتے
ہیں
اور پھر
خموشی کی لمبی
سڑک پر
نہ جانے کہاں
جا نکلتے ہیں
جیون
کی گاڑی کو لے کر۔۔۔۔
ٹریک
بجاتا ہے سیٹی
تو منھ سے
نکلتے ہیں بادل
چمکتی ہے بجلی
زمیں
تھرتھراتی ہے
آندھی سی آتی
ہے
وہ لیٹے لیٹے
ہی سنتی ہے
مانوس آواز
لوہے پہ بجتی
ہے
تلووں سے
میخیں سی گرتی ہیں
بازوگلابوں سے
زخمی ہیں
چھلنی ہیں
سانسیں
ہمکتے ہوئے
خواب ہموار سینے پہ شاید
ابھرنے لگے ہیں
جنھیں دیکھ کر
وہ لڑھکنے لگا ہے
۔
وہ ہر دم دراز اس کی راہ میں پڑی سوچتی ہے
کہ آئے گا
میرے بدن سے
وہ گزرے گا
کوئی بات ایسی
بھی ہو گی کبھی
جواسے روک لے
گی
اور آگے نہیں
جائے گا وہ
کہاں جائے گا
اس سے آگے
وہیں تک ہے وہ
بھی
جہاں تم بچھی
ہو
سادہ سی بات
ہر
مشکل
آسانی
سے ملتی ہے
اور
آسانی
مشکل
سے
جنگل میں شام
سفر
آگے بھی باقی ہے
مناسب
ہے کہ اب گھوڑا بھگاؤ
جواں
مردی بچاؤ
کسی
دن کام آئے گی
کہیں
میدان سجنے پر
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں