شمیل حسین کا تعلق راولپنڈی پاکستان سے ہے، وہ شعر نہیں کہتے، کہانی نہیں لکھتے، یا کہتے لکھتے ہونگے تو مجھے اس کا علم نہیں، علم ہے تو ان کی رنگیں بیانی کا، ان کے لفظ، ان کے نقوش ہیں۔ یہ سوال انہوں نے ایک دفعہ مجھ سے ہی پوچھا تھا کہ لفظ پہلے تھا یا نقش، شمیل صاحب! ہم لفظ و نقش کو جنگ کا بہانہ نہیں بناتے، بلکہ تاریخ کی دیوار پر نظر ڈالتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ کسی نے نقش کو آواز دے کر لفظ بنادیا اور کسی نے لفظ کے اندر زندگی کا نقش پیدا کردیا، بلکہ ہر لفظ ایک نقش ہے، اور ہر نقش ایک لفظ۔ بہرحال شمیل حسین کی یہ پینٹنگز اور ایک اسکیچ میں یہاں پہلی بار ادبی دنیا کے پلیٹ فارم پر پیش کررہا ہوں، ہم لوگوں کو چاہیے کہ اس نقش گری پر بھی کچھ گویائی کے چھینٹے اڑائیں۔ کچھ کہیں، فنکاری کے اس عظیم شعبے تصویر گری کے تعلق سے، ہم جلد ہی ادبی دنیا پر موسیقی، رقص اور آرٹ کے ایسے ہی دوسرے حصوں کو بھی جگہ دیں گے اور دیتے رہیں گے، کیونکہ ادب والے ان کے بغیر اور یہ ادب کے بغیر ادھورے ہیں، آرٹ کے تمام شعبے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں، ایسا مجھے لگتا ہے۔ ان تصویروں کی تجریدیت پر آپ کو صرف واہ واہی نہیں کرنی ہے، یا تو ان پر ایک اچھی نظم کی طرح تنقیدی گفتگو کرنی ہے، یا پھر انہیں سطحی گردان کر ان سے منہ موڑ لینا ہے۔ مگر بس سرسری تعریف و تنقیص سے بچنا ہے۔ شکریہ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں