جمعرات، 22 ستمبر، 2016

جاوید انور کی نظمیں

جاوید انور کی نظموں کی تکنیک اپنے ہم عصر نظم نگاروں سے ذرا مختلف رہی۔افسوس کہ وہ جلد انتقال کرگئے ۔ان سے میری شناسائی کا ذریعہ حاشیہ فورم تھا۔جو کہ ظفر سید نے نئی نظم کے معماروں کے لیے قائم کیا تھااور اس پر فیض احمد فیض، راشد، مجیدامجد اور میراجی سے لے کر ساقی فاروقی، ابرار احمد،یامین ، جاوید انور اور دوسرے اہم نظم نگاروں کی کسی مخصوص نظم پر بھرپور تنقیدی گفتگو کی جاتی تھی۔ان کی نظم 'ہزارے کا مہمان کیا بولتا'پر جس وقت گفتگو ہونی شروع ہوئی تو میں نے بہت سے بے جا اعتراضات کیے۔افسوس کہ ان کی زندگی میں ان کی نظموں کو اس سلیقے سے پڑھنے کا ہنر مجھے نہ آسکا تھا، جس سے اب شدبد رکھتاہوں۔وقت کے ساتھ میری ذات اور میرے ذہن میں ہونے والی ان تبدیلیوں نے ان نظموں کو بھی بہت حد تک تبدیل کیا ہے۔تخلیق کے مطالعے کے لیے صرف آنکھیں نہیں، نظر کی بھی ضرورت ہے۔نظر دھیرے دھیرے ، تجربے اور مشاہدے سے پیدا ہوتی ہے۔میں شکرگزار ہوں حسین عابد صاحب کا، جن کے توسط سے یہ نظمیں مجھ تک پہنچ سکیں اور اب ان کو ادبی دنیا کے ذریعے میں آپ سب تک پہنچا رہا ہوں۔یہ نظمیں جلد آڈیو میں بھی اپلوڈ کی جائیں گی۔بے حد شکریہ!
***

بولتا کیوں نہیں

تو نے کیوں اپنے گالوں پہ سرسوں ملی
تو نے کیوں اپنی آنکھوں میں چونا بھرا
تیری گویائی کس دشت کے بھیڑئیے لے گئے
بولتا کیوں نہیں
بولتا کیوں نہیں، طفلِ معصوم، تو کب سے بیمار ہے
کیسا آزار ہے، جس نے تیری شبوں سے تری نیند، تیرے دنوں سے
کھلونے چرائے،
تو سویا نہیں ہے مگر جاگتا کیوں نہیں!
دیکھتا کیوں نہیں تیرے بابا کے بالوں میں کھجلی ہے اور انگلیاں جھڑ چکی ہیں
حسابِ شب وروز کرتے ہوئے
تیری اماں کے رعشہ زدہ ہاتھ خوشحالیاں ڈھونڈتے ڈھونڈتے
ان دھُلے برتنوں میں پڑے رہ گئے
صبحِ تعبیر نے شاخ پر سبز ہونے کی حسرت لکھی
آنکھ کو موتیا دے دیا!
دیکھتا کیوں نہیں آج بازار میں جشنِ افلاس ہے
شہر کی بھوک چوری ہوئی
اور خبروں نے اخبار گُم کر دیا!
لوگ روتے رہے!
لوگ ہنستے رہے!
تیرے بستر پہ اشکوں کی چمپا کھلی
اور تو چُپ رہا!
تیرے ماتھے پہ مُسکان کا عطر چھڑکا گیا
اور تو چُپ رہا!
میری ہنڈیا جلی
میرا چولہا بُجھا
میری جھولی سے حرفِ دعا گرگیا
میرے بچے تو لب کھولتا کیوں نہیں
بولتا کیوں نہیں!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اپاہج دنوں کی ندامت

کھڑکیاں کھول دو
ضبط کی کھڑکیاں کھول دو
میں کھِلوں جُون کی دوپہر میں
دسمبر کی شب میں
سبھی موسموں کے کٹہرے میں اپنی نفی کا میں اثبات بن کر کھِلوں
خواہشوں
نیند کی جنگلی جھاڑیوں
اپنے ہی خون کی دلدلوں میں کھِلوں
بھائیوں کی پھٹی آستینوں میں
بہنوں کے سجدوں میں
ماں باپ کے بے زباں درد میں ادھ جلے سگرٹوں کا تماشہ بنوں
ہر نئی صبح کے بس سٹاپوں پہ ٹھہری ہوئی لڑکیوں کی کتابوں میں
مصلوب ہونے چلوں
میں اپاہج دنوں کی ندامت بنوں
کھڑکیاں کھول دو
چھوڑ دو راستے
شہرِ بے خواب میں گھومنے دو مجھے
صبح سے شام تک، شام سے صبح تک
اس اندھیرے کی اک اک کرن چومنے دو مجھے
جس میں بیزار لمحوں کی سازش ہوئی
اور دہلوں سے نہلے بڑے ہوگئے
جس میں بے نور کرنوں کی بارش ہوئی
بحرِ شب زاد میں جو سفینے اتارے بھنور بن گئے
خواب میں خواب کے پھول کھلنے لگے، کھڑکیاں کھول دو
جاگنے دو مجھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مجھے شام آئی ہے شہر میں

میں سفر میں ہوں
مرے جسم پر
ہیں ہزار رنگوں کی یورشیں
کہیں سرخ پھول کھلا ہوا
کہیں نِیل ہے
کہیں سبز رنگ ہے زہر کا
مگر آئینہ شبِ شہر کا
مری ڈھال ہے!
جو وصال ہے
وہی اصل ہجر مثال ہے
مرے سامنے وہی راستے
وہی بام و در
وہی سنگ ہیں، وہی سولیاں
مجھے شام آئی ہے شہر میں

مجھے شام آئی ہے شہر میں
جہاں آسمان کی وسعتوں سے
سوال کاسہ بدست لوٹے تھے
یاد ہے!
شبِ حیلہ جو ، تجھے یاد ہے
وہ صلیب،
جس پہ مچان، نجمِ سحر کی تھی
وہ خطیب،
جس کا خطاب ابرو ہوا سے تھا
۔۔۔ وہ صدائے ضبط عجیب تھی
کہیں کوڑھیوں کی شفا بنی
کہیں ابرو باد سے
چوبِ خشک تڑخ رہی تھی سویر سے!
بڑی دیر سے یہاں مرقدوں کے گلاب
پاوٗں کی دھول ہیں
میں سفر میں ہوں
مجھے شام آئی ہے شہر میں
مرے ہاتھ میں بھی کمان ہے
مجھے تیر دے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نوائے گمراہِ شب

اے خوابِ خندہ
تجھے تو میں ڈھونڈنے چلا تھا
مجھے خبر ہی نہیں تھی تو میری انگلیوں میں کھِلا ہوا ہے
مرے صدف میںترے ہی موتی ہیں
میری جیبوں میں تیرے سِکے کھنک رہے ہیں
نوائے گمراہِ دشتِ شب کے نجوم تیری ہتھیلیوں پر چہک رہے ہیں
مرے خلا میں تمام سمتیں ترے خلا سے اتر رہی ہیں
مجھے خبر ہی نہ تھی
کہ میری نظر کی عینک میں تیر ے شیشے جڑے ہوئے ہیں
تجھے تو میں ڈھونڈنے چلا تھا
تجھے تو میں ڈھونڈنے چلا تھا!
کسی صلیبِ کُہن پہ، دار و رسن کے تاریک راستوں کی
تھکن میں، فرہاد کوہکُن کی صدائے صدچاک میں، کسی چوک
میں اُبلتے ہوئے لہو میں کھِلے گُلِ طفلِ بے گنہ کے بکھرتے رنگوں
کی انگلی تھامے تجھے تو میں ڈھونڈنے چلا تھا

شبِ طرب ہے
شبِ طرب میں نہ ساز اترے نہ نور بکھرا
نہ بادلوں نے پھوار بھیجی
نہ جھیل نے ماہتاب اُگلا

شبِ طرب ہے اے خوابِ خندہ!
شبِ طرب میں مری طلب کا رباب بن جا
بجھی رگوں میں شراب بن جا
اے خوابِ خندہ، مری انگیٹھی کا خواب بن جا
کہ شب کا آہن پگھلنے تک میری چمنیوں کے دھوئیں میں
جگنو ملہار گائیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تم کہو تو کہوں

حرف کے تار میں جتنے آنسو پروئے گئے
درد اُن سے فزوں تھا
سنو، تو کہوں
تم کہو تو کہوں ظرف کی داستاں
کھیتیوں کو گِلہ بادلوں سے نہیں سورجوں سے بھی تھا
بازووٗں سے بھی تھا، ہل پکڑنے سے پہلے ہی جو تھک گئے
کشتِ زرخیز پر آبِ نمکین جم سا گیا
رقص تھم سا گیا
ایڑیاں گھومتے گھومتے رُک گئیں
اشک رُخسار کی گھاٹیوں سے گرا ۔۔ منجمد ہو گیا
رنگ خوشبو بنا تو ہوا چل پڑی
خواب ناطہ بنا تو کھُلی کھڑکیوں میں سلاخیں اُگیں
ہاتھ زخمی ہوئے
کس کے کشکول سے کتنے سِکے گرے
ہجر کیسا پرندے کی آنکھوں میں تھا
گھاوٗ کیسے پہاڑوں کے سینے پہ تھے
آئینہ گُنگ تھا
فرش پر عکس دھم سے گرا
کرچیاں ہوگیا
تم کہو تو گِنوں
تم کہو تو چُنوں
تم کہو تو سُنوں ان کھِلے پھول کی دھڑکنیں
گُمشدہ تتلیوں کی صدا
زرد ٹہنی کے ہونٹوں پہ رکھی ہوئی بددعا
آسمانوں کی دہلیز پر پھینک دوں
تم کہو تو دکھاوٗں تمہیں
اک تماشہ کہ جو میری مُٹھی میں ہے
ایک گردن کہ جو غم کے پھندے میں ہے
سانس چلتی بھی ہے اور چلتی نہیں
جاں نکلتی نہیں!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اشکوں میں دھنک

اس ریتلے بدن کی
جھُلسی ہوئی رگوں میں
ہے تیل کا تماشہ
اور برف کی تہوں میں
ہے سورجوں کا گِریہ
یا پانیوں کی دہشت
یا خشک سالیاں ہیں

مہتاب سے ٹپکتا
تاریکیوں کا لاوا
رخسار داغتا ہے
اس صبح کا ستارا
چڑیوں کے گھونسلوں میں
بارود بانٹتا ہے

ان چوٹیوں پہ پرچم
انجان وادیوں کے
اور وادیوں پہ دائم
انجان چوٹیوں کے
سایوں کی حکمرانی

یہ میرے آنسووٗں میں
رکھی ہوئی دھنک ہے
اس حُسن کی کہانی
نمکین پانیوں کی
تسکین بن رہی ہے

ان سبز گنبدوں پر
بیٹھے ہوئے کبوتر
آنکھیں نہیں جھپکتے
اور برگدوں کے پیچھے
سوئے ہوئے پیمبر
خوابوں میں جاگتے ہیں

ان آئینوں پہ مٹی
ان کھڑکیوں میں جالے
یہ جام ریزہ ریزہ
یہ تشنہ لب نواگر
یہ بے نوا گداگر
اور ریتلے بدن کی
جھُلسی ہوئی رگوں میں
ہے تیل کا خزانہ

اس برف کی تہوں میں
ان سورجوں کا گِریہ
سیلاب کب بنے گا
یہ ریت کب دُھلے گی
ان خشک ٹہنیوں میں
مہتاب کب بنے گا
صدیوں کا بوجھ اٹھائے
صدیوں سے منتظر ہیں
قرطاسِ احمریں پر
دھبے سے روشنی کے

لاریب یہ رسالت
لاریب یہ صحیفے
لیکن ترے اجالے
دیمک ہی چاٹتی تھی
دیمک ہی چاٹتی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

برف کے شہر کی ویران گزرگاہوں پر

برف کے شہر کی ویران گزرگاہوں پر
میرے ہی نقشِ قدم میرے سپاہی ہیں
مِرا حوصلہ ہیں
زندگیاں
اپنے گناہوں کی پنہ گاہوں میںہیں
رقص کناں
روشنیاں
بند دروازوں کی درزوں سے ٹپکتی ہوئی
قطرہ قطرہ
شب کی دہلیز پہ گرتی ہیں، کبھی
کوئی مدہوش سی لَے
جامہٗ مے اوڑھ کے آتی ہے گزر جاتی ہے
رات کچھ اور بپھر جاتی ہے
اور بڑھ جاتی ہیں خاموش کھڑی دیواریں
بے صدا صدیوں کے چُونے سے چُنی دیواریں
جو کہ ماضی بھی ہیں، مستقبل بھی
جن کے پیچھے ہے کہیں
آتشِ لمحہٗ موجود کہ جو
لمحہٗ موجود کی حسرت ہے
مری نظم کی حیرت ہے،جسے
ڈھونڈتا پھرتا ہوں میں
گھومتا پھرتا ہوں میں برف بھری رات کی ویرانی میں
ان کہی نظم کی طغیانی میں
ہیں بھنور کتنے، گُہر کتنے ہیں
کتنے اِلاّ ہیں پسِ پردہٗ لا
چشمِ نابینا کے آفاق میں
کتنے بے رنگ کُرے
کتنے دھنک رنگ خلا
کتنے سپنے ہیں کہ جو
شہر کے تنگ پُلوں کے نیچے
ریستورانوں کی مہک اوڑھ کے سو جاتے ہیں
کتنی نیندیں ہیں کہ جو اپنے شبستانوں میں
ویلیم چاٹتی ہیں
جاگتی ہیں!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہم کہ ہیرو نہیں

ہم خزاں کی غدُود سے چل کر
خود دسمبر کی کوکھ تک آئے
ہم کو فٹ پاتھ پر حیات ملی
ہم پتنگوں پہ لیٹ کر روئے

سورجوں نے ہمارے ہونٹوںپر
اپنے ہونٹوں کا شہد ٹپکایا
اور ہماری شکم تسلی کو
جُون کی چھاتیوں میں دودھ آیا

برف بستر بنی ہمارے لیے
اور دوزخ کے سرخ ریشم سے
ہم نے اپنے لیے لحاف بُنے

زرد شریان کو دھوئیں سے بھرا
پھیپھڑوں پر سیاہ راکھ ملی
ناگا ساکی میں پھول کاشت کیے
نظم بیروت میں مکمل کی

لورکا کو کلائی پر باندھا
ہوچی مِنہ کو نیام میں رکھا
ساڑھے لینن بجے سکول گئے
صبح عیسیٰ کو شام میں رکھا
ارمغانِ حجاز میں سوئے
ہولی وڈ کی اذان پر جاگے
ڈائری میں سدھارتھا لکھا

درد کو فلسفے کی لوری دی
زخم پر شاعری کا پھاہا رکھا
تن مشینوں کی تھاپ پر تھرکے
دل کتابوں کی تال پر ناچا

ہم نے فرعون کا قصیدہ لکھا
ہم نے کوفے میں مرثیے بیچے
ہم نے بوسوں کا کاروبار کیا
ہم نے آنکھوں کے آئینے بیچے

زندگی کی لگن نہیں ہم کو
زندگی کی ہمیں تھکن بھی نہیں
ہم کہ ہیرو نہیں، ولن بھی نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سمندر مرے بادبانوں میں سویا ہوا ہے

میں یاد کرتا ہوں اس یاد کو جو کہیں بھی نہیں ہے، کسی کی نہیں ہے، فقط یاد ہے میں جسے یاد کرتا ہوں، اندر اداسی ہے، باہر اداسی ہے اور سیب کے پیڑ پر کونپلیں پھوٹتی ہیں تو خوشبو کی رتھ میں نہ تم ہو، نہ وہ گیت ہیں جن کی لَے میں بہاروں کے دکھ کی خوشی ہے، خوشی کی اداسی ہے، برفوں میں سوراخ کرتی ہوئی کونپلیں ہیں کہ سورج نہیں ہے یہ سورج کا سایہ ہے سورج تو مشرق کی مٹی جلانے پہ معمور ہے ، یاد ہے اور کاغذ ہے، خط لکھ رہا ہوں جسے پوسٹ کرنے کی نوبت نہیں آئے گی، مجھ کو معلوم ہے، تم کو معلوم ہے تم نہیں جان پاوٗگے کیا بات تھی جس کے رستے کی دیوار قربت تھی اور جس پہ دوری کی مٹی پڑی ہے، میں اندر ہی اندر خدا ہو چکا ہوں، مرے آسمانوں پہ میں ہوں نہ تم ہو، میں اپنی طلب سے جدا ہوچکا ہوں مگر ساتواں دن کلہاڑی کے، ہل کے، گراری، مِلوں، ہسپتالوں، گھروں، بیویوں، ریستورانوں کے، اخبار، ٹی وی، خبر، ناخبر،
جنگ، جمہوریت، بادشاہی، مقابر، مساجد، کسینو کے، شاہی محلوں کے پیچھے کہیں بھی نہیں ہے، طلب ہی نہیں ہے، مجھے نوچتی ہے طلب کی، اداسی کی، خواہش کی خوشیوں کی، خوابوں کی، یادوں کی جو یاد مجھ سے رہا ہوچکی ہے، ہوا ہو چکی ہے وہ تتلی جو تم تھے، تو کیا ہے یہ سب کچھ، یہ سگرٹ، یہ وہسکی، یہ بادل کا ٹکڑا جو تم تک نہ پہنچا، سمندر مرے بادبانوں میں سویا رہے گا۔۔۔۔۔!!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رات کی حمد

دن میں دیواریں ہزار
دن میں رخنے بے شمار

رات بے دیوارو در
رات کے لشکر کو کوئی روکنے والا نہیں
رات کے رستے میں گھر، کوچے، نگر
کوہ و دمن
دشت و چمن
بحرو بر
خیر و شر
رات اندھیرے کا بھنور
رات خاموشی کا بن
رات خوابیدہ خداوٗں کا کلام
رات نا پیدا و پیدا کائناتوں سے قدیم
رات کے ہاتھوں میں ہے وحشی زمانوں کی زمام
دن بہت اچھا ہے لیکن اس کے آنے کی ضمانت
سورجوں کے ہاتھ میں ہے
بادلوں کے ہاتھ میں ہے
رات آئے گی ضرور!

رات اک پروردگارِپُر غرور
رات کی مُٹھی میں وہ منظر ہے جس کی اک جھلک
کوہساروں میں دراڑیں ڈال دے
کوہساروں سے پرے
بھربھری مٹی ہے اس کے روگ ہیں
ہنہناتی گھوڑیوں کے سوگ ہیں
آسماں کی راکھ ہے چنگاریوں کا کھیل ہے!

نیند میں ڈوبی ہوئی بستی، ہلاکو خان کی فوجیں، اندھیرا، آگ،
کٹتے نرخرے، جلتے ہوئے بچوں کی چیخیں، رقص کرتی
داسیاں، بدمستیاں، مٹکے شرابوں کے، سلاخوں پر ٹنگے
بکرے، ہلاکوخاں کا جشن!
رات کی وحشت ہلاکو خاں کا خواب
شیر خاں کی کائنات
رات
گیدڑ کا جہاں
رات عیّاری کا دن
رات امریکہ کی بمباری کا دن!

رات کے ساحل پہ محفل دوستوں کی، دشمنوں کی، سازشی
ٹولے، بغاوت، پوسٹر، سوروں کی بیٹھک پر نہتّی
مرغیوں، گھوڑوں، گدھوں، کتوں کا حملہ۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کچھ علاقوں،
کچھ زمانوں کا اندھیرا خون سے دُھلتا ہے، بستی بستیاں
بلڈوزروں کی زد پہ آتی ہیں، لہو بارود بنتا ہے، بدن کی
پھُلجڑی کا پھول کھلتا ہے!

رات اک پروردگارِ پُر غرورو مہرباں!
ایک بحرِ بے کراں جس میں ہزاروں سال کے بچھڑے ہوئے
دھارے گلے ملتے ہیں، روحوں کے بدن کی میل، تن میں
کلبلاتی روح کی آلائشیں اور وصل کا پانی۔۔۔۔۔ دعا
کی نگہبانی میں طہارت کا عمل!
رات کی آغوش میں سب مسئلوں کا حل، سوالوں کے جواب
رات کے ملبے میں خواب!

رات بستر کی طلب
آپ سے، دنیا سے، اپنے آپ سے، سب سے پنہ
رات کو رونا ثواب
رات کو سونا گنہ
کروٹیں ہی کروٹیں ہیں، سلوٹیں ہی سلوٹیں ہیں صبحدم جسموں
پہ بھی، روحوں پہ بھی
بھوت ہیں اپنے سوال
بھوت ہیں اپنے جواب

ہاڑ کے دن، آم کا سایہ، ندی، کوئل، کسی کے حُسن کی
جھلمل۔۔۔ فقط اک پل ہے جو قبلے بدل دیتا ہے، سجدوں کی
جگہ پیشانیوں میں آگ بھر جاتی ہے، رستے وہ نہیں رہتے،
نظر پگڈنڈیوں کی کھوج میں رہتی ہے، دل جنگل میں لگتا
ہے۔۔۔ کہیں اندر چھپا اک بھیڑیا ہے، جاگ اٹھتا ہے
اندھیرے سونگھ کر!

رات کی مٹھی میں خوف
رات کے ملبے میں خواب

رات ازلوں کا جہاں ہے ا ور جہانوں کا ابد
بے حد ہے رات!
رات کی حد پر جو دن ہے رات کی حد پر نہیں ہے رات کی آغوش میں ہے
رات ربّ ِ بے نہایت کا پیام
رات کے ہاتھوں میں ہے وحشی زمانوں کی زمام
رات کا سنگِ سیہ
تیری پنہ
میری پنہ

دل پہ دھبے بے شمار
دن ہوا تو داغ سارے ساری دنیا کے لیے
دن کے دریا میں کثافت شہر بھر کی
دن میں دیواریں ہزار
دن کی دیواروں میں رخنے بے شمار

رات بے دیوارو در
رات بے دیوارو در ہے اور پردہ دار بھی
رات کا پانی بڑا شفاف ہے،
فیاض ہے!
توُ بھی اپنے داغ دھو،
رو،
تخلیہ ہے رات میں
توُ ہے یا تیرا خدا ہے رات میں!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لو سالومے

(لوسالومے بیس اکیس سال کی ایک دلبر دوشیزہ تھی، جب اس کا تعارف اڑتیس، انتالیس سالہ پروفیسر یا ریٹائرڈ پروفیسر فریدرک نطشے سے ہوا، نطشے اور لو کے ایک مشترکہ دوست اور فلسفی پاول رے کی وساطت سے۔ بات جلد ہی دوستی کی حدوں سے آگے بڑھ گئی۔ لو کی تجویز پر ایک مثلث دوستی کی بنا ڈالی گئی۔ انجام وہی ہوا جو ہونا تھا، نطشے کو رقابت لا حق ہوگئی۔! اس مثلث دور کی یاد گار ایک تصویر ہے، جس میں ایک بیل گاڑی میں بیلوں کی جگہ نطشے اور رے کھڑے ہیں اور بیل گاڑی پر لوکھڑی ہے، چابک لہراتے ہوئے۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب کچھ ہی عرصہ بعد نطشے اپنی مشہور کتاب’’ تو زر تشت بولا‘‘ لکھنے جا رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سپر مین! نظم کے دونوں کرداروں کی اٹھان مشہور امریکی نفسیات دان طبیب اور کہانی گوارون ڈی یا لوم کی ناول ’’اور نطشے رویا‘‘ سے ہوتی ہے اور اس نظم میں کچھ حوالے درج بالا دونوں کتابوں سے آئے ہیں۔ نظم کا دوسرا کینٹو ایذرا پاونڈ کی ایک پیاری اور چلبلی نظم ’’چینو‘‘ سے ماخوذ ہے اور نظم کے چار مصرعے چینو کے تین مصرعوں کا شعری ترجمہ یا تخلیق نو ہیں۔ نظم لیکن میری ہے اور نظم کے کردار اسی نظم کے کردار ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شاعر)
٭٭٭

(۱)
ہو سکتا ہے
دونوں ہی سچے ہوں
لو بھی
اور نطشے بھی

اس چوٹی پر ڈھلتے سورج
اور ساحل پر بوسہ بوسہ
طغیانی کا قصّہ

کس کو کتنا یاد رہے گا
کون گواہی دے گا
اے سوج، اے شہد کے چھتے
کون گواہی دے گا تیری
شعلہ شعلہ سچائی کی
چلنا
مَیں سے تو تک تنی ہوئی رسی پر چلنا
رُک رُک چلنا
مڑ مڑ دیکھنا
ڈولنا
لحظہ بھر کو رکنا
چلنا
نطشے
وقت پہ مرنا کیا ہے
یعنی
وقت پہ جینا کیا ہے
کیا ہے
جس کی رکھوالی میں
تیری نس نس تنی ہوئی ہے

(لو خط ہی نہیں لکھتی !‘‘)
لو جینا جانتی ہے
لو زندہ رہتی ہے
٭٭٭

(۲)
تو زندہ رہتی ہے
تو جب جب چلتی ہے
دِل دھک دھک کرتا ہے
تو زخم لگاتی ہے
تو مرہم بنتی ہے

دن گزرا جاتا ہے
بنجارہ گاتا ہے

’’مَیں تین زمانوں میں
گا آیا ہوں تتلی کو
سب ایک سی ہوتی ہیں‘‘

سب پیاری لگتی ہیں!
سب مہماں ہوتی ہیں،
خود آ آ کر دِل میں!
سب مر مر جاتی ہیں!
’’تری آنکھیں سپنوں سی
ترے بول، تری تانیں
ترے ہونٹ ترے شانے
مَیں مر مر جاتی ہوں‘‘

’’سب مر مر جاتی ہیں‘‘
بنجارہ گاتا ہے

’’سب سپنے دیکھتی ہیں
سب تارے مانگتی ہیں
سب ایک سی ہوتی ہیں
مَیں سورج گاؤں گا‘‘
٭٭٭

(۳)
’’کچھ ناں دے، انھیں کچھ ناں دے‘‘
بابا بولا
’’لے لے
لے جو کچھ لے سکتا ہے ان سے لے لے‘‘
ان کا بوجھ بٹا
مت جا اس بستی کی جانب
مت دے اپنی خبر کی بھیک
خدا کا نام لے‘‘

یہ خبطی پیرولی!
اسے خبر نہ ہو پائی
وہ جس کے ہاتھ لگا مَیں
وہ جس کے ہاتھ میں چابک تھا، وہ
خواب ازل تھا
خواب ابد ہے

مَیں سورج، مَیںشہد کا چھتا
صدیوں کا رس
ٹپ ٹپ
ٹپک رہا ہے میرے اندر
مَیں لمحوں کا بھانبھڑ

دس سال سے
دس سال سے نقطے جوڑ رہا ہوں
تنہائی کی سب سے اونچی
سب سے تنہا
چوٹی پر بیٹھا ہوں
تارے توڑ رہا ہوں
تمھیں دینے آؤں گا
٭٭٭

(۴)
اے بندر کے کرتب دیکھتے لوگو
سوچو
تم خود کیا ہو
ایک چھلانگ ہو
چوپائے سے دوپائے تک
دیکھو
غور سے دیکھو، آگے
اس ٹیلے پر کھڑا ہوا ہے
وہ، جو تم کو دیکھ رہا ہے
جیسے
تم بندر کو دیکھ رہے ہو
دیکھو،
مَیں آیا ہوں!
٭٭٭

(۵)

وہ آیا ہے
وہ تصویر میں کھڑا ہوا ہے
بیل نہیں ہے
تیرے ہاتھ میں چابک
لو، تیرے ہاتھ میں چابک ہے
تو خط ہی نہیں لکھتی!

مَیں، مَیں پروا
مَیں بادصبا، مَیں صر صر
مَیں پھول نہیں ہوں تیرا، مَیں اک تتلی ہوں
مَیں تجھ تک آئی تھی
خود اڑ کر آئی تھی
مَیںجانا چاہتی ہوں
مَیں آؤں جاؤں گی
مَیں سورج گاؤں گا
بنجارا گاتا ہے
پنجارا بابا ہے
جو تنہا رہتا ہے
جنگل میں رہتا ہے
بنجارا جنگل ہے
جب جنگل گاتا ہے
تو مور مہکتے ہیں
اور پھول چمکتے ہیں
اور تتلی گاتی ہے
٭٭٭

برزخ کے پُھول

ایک ہاتھ کی تین انگلیاں کٹی ہوئی تھیں
شکل تو بھول چکی ہے
نام یاد ہے
علم دین تھا
علم دین کے چاروں جانب علم دین ہی علم دین تھا
خط لکھتا رہتا تھا
علم دین کے خط ہیں
پتہ پتہ
اور خزاں ہے
کتنے اچھے دِن تھے
پھول کھلا کرتے تھے
چاند چڑھا کرتا تھا
سانپ نشہ کرتے تھے
پروائی کا!
٭
دیکھا،
پُل پر دریا چڑھ آیا ہے
مَیں محتاط تھا، پلٹ گیا، اور
دیکھا:
تیرہ چودہ سال کا اک لڑکا ہے
اپنے آپ میں گُم صُم
سر کو جھکائے
اُس جانب کی دائیں سمت سے
اِس جانب کی بائیں سمت چلا آتا ہے
پُل پر دریا
پُل کا جنگلا غائب
اور مَیںگونگا
لڑکا خود میں گُم صُم
میں نے سطحِ آب پہ ہاتھوں کو لہراتے دیکھا!
٭
چرچ میں دیکھی لاش کا بھُوت،
دماغ میں دائیں جانب
مادر زاد فرشتہ!
اور سینے میں بائیں جانب
پسلی پسلی سر ٹکراتا
وحشی اور نابینا
سگِ گرسنہ!
شہزادی
تُم کن محلوں کے، کن کمروں میں، کن نرسوں سے
کب تک
اپنا آپ چھپا پاؤ گی؟
یہ ہلڈول یہ ڈائزی پام تمھاری شام ہیں
شام
جو صبح سویرے اپنا سفر آغاز کیا کرتی ہے!
٭
یوں لگتا ہے
جیسے سب کچھ ہونے سے پہلے ہی ہو جاتا ہے
سچ سچ کہنا،
بستر پر مفلوج سفر کے تیس برس کا سپنا،
کن نیندوں سے، کب ٹوٹا تھا؟
٭
وہ دروازہ کھولیں
جس کے پیچھے ہم ہیں!
٭
کیا وہ مَیں تھی؟
یا وہ ،وہ تھا؟
سات برس کی عمر میں مَیں نے
مُٹھی بھر سورج میں سمٹی
وحشی شب کی جھلکی
دیکھی!
کیا وہ مَیں تھی جس کے زیرِ ناف چھپی تھی
سسکی
لذّت کی
یا
سانپ تھا،
اور پُروائی۔۔۔۔۔۔۔۔!
تازہ تازہ
زخم کا نشہ،
(کبھی چکھا ہے؟)
گرم لہو کی خوشبو۔۔۔۔!
سترہ گولیاں نیند کی
اور بھیڑیا
لال لال آنکھیں ہیں اس کی
سُرخ کوئلے جیسی
دروازے میں کھڑا ہوا تھا
جب مَیں
چیخی
آج رات کو
ڈاکٹر صاب
نرسیں
مجھے چڑیلیں لگتی ہیں اور آپ کے کندھوں
پر کبھی کبھی
کسی سؤر کا چہرہ ہوتا ہے!
٭
تین لڑکیاں
تین جزیرے
تین زمانوں میں اک آدھا روشن تارہ
آدھے گھر میں رات
آدمی
برزخ
٭
علم دین خاموش رہا کرتا تھا
علم دین کے گھر میں
بھوت رہا کرتے تھے
جنگل
علم دین کے سر میں
وہ جنگل میں تنہا
رستہ
بھُولا ہوا شہزادہ!
٭
ہم برزخ کے شہری
ہمیں خدا سے بیر نہیں تھا
سورج اپنا دوست بنا تو رات بھی آئی،
بنی ٹھنی
ہونٹوں پہ سُرخی
آنکھ میں شعلے
ناف کے نیچے جنت!
ہم نے
نہر میں بہتا شہد بھی چکھا
روشن رکھا
جنت کا سورج بھی
آگ چُرا کر
دوزخ سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم
برزخ کے شہری ہیں
٭
سچ کے سائے
سایوں کا سچ
علم دین کے کمرے میں علم دین کا گھر تھا
جس میں دیا نہیں تھا
دیا جلا آئے
بوسہ۔۔۔۔
جس کی تپش سے
لش لش کالا پتھر پگھلا
بوسہ
جس نے
دھڑ دھڑ بہتا دھارا روکا
لحظہ بھر کو
صدیاں
شوقِ دید میں
پتھر
بوسہ ریگِ رواں ہے!
ہجر کا حجر اسود
ندیا
اندھا پانی
کالی رات سے کالا پانی
علم دین ہے
ٹَپ ٹَپ گرتا
تازہ سُرخ لہو ہے
وقت
بہے جاتا ہے
اپنے پُورے زور سے
ٹھہرا
مادر زاد فرشتہ
سکتہ
دماغ کے دائیں نصف کرے میں،
بِگ بینگ کی آہٹ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
٭
وہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
اُس کی گونج ہے، پاگل خانے کے دوزخ میں
گونج رہی ہے:
’’مَیں ہوں
اور اسامہ بن لاڈن اِز گوڈ۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
یہ ہے،
برزخ بھگت چکی ہے،
اللہ الصمد!
٭
رات روشنی۔۔۔۔۔!
رات تہی مہتاب، تہی چراغ ہے
رات روشنی
تیز ہوا ہے
جنگل
لشکر
لٹے پٹے شہزادے کا
شہزادی
اپنے خیمے اندر
اپنے آپ سے باتیں کرتی
تنہا
خواہش
اپنے آپ کو چیر پھاڑ لینے کی
سسکی
کیا وہ مَیں تھی؟
٭
پُل پرپانی
تُو ہے
علم دین اُس پار بھی تُو ہے
اُس وادی میں
اُن قبروں کے آس پاس بھی تُو ہے،
گُم صُم!
٭
کرنا کیا ہے
ہونا کیا ہے؟
کالا پتھر دریا
٭
رات روشنی علم دین کے گھر میں
علم دین کے خط ہیں
باہر
پتہ پتہ
اندر
علم دین ہے، تنہا

بابا
آگ سے وصل منا
تجھ پر
جنت کے دروازے ہیں
بوسہ بوسہ
دوزخ ٹھنڈے کر
پتھر
ندیابَن
٭٭٭

1 تبصرہ:

زہری کہا...

حرف و صوت کا گم ہو جانا، آنکھوں میں سفیدی پھر جانا، اور
میری جھولی سے حرفِ دعا گرگیا
میرے بچے تو لب کھولتا کیوں نہیں
بولتا کیوں نہیں!
چیخ چیخ کر اعلان کر رہے ہیں کہ یہ اس عہد اور مقام کی تخلیق ہے جب اور جہاں اسرافیل کے ہاتھوں میں صور لایعنی ہو کر رہ گیا تھا ۔ انوار کی سوانح سے تو واقف نہیں ہوں لیکن گمان گزرتا ہے کہ انور بھی اسی دور سے گزرے ہیں جس کے متعلق افتخار عارف نے کہا تھا کہ


سپاہ شام کے نیزے پہ آفتاب کا سر
کس اہتمام سے پروردگار شب نکلا

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *