پیر، 8 دسمبر، 2014

عذرا عباس سے دس سوالات


عذرا عباس کا نام میں نے پہلی بار دہلی آنے سے پہلے سنا تھا، غالبا کسی ادیب سے۔اس وقت تو یہ بھی نہ سمجھ میں آیا کہ ادب کی کس خاص صنف کے تعلق سے ان صاحب نے عذرا عباس کا نام لیا تھا۔ تاہم جب میں نے عذرا عباس کی 'میرا بچپن'پڑھی تو ایک خاص رنگ کی آگ نے مجھے اپنی جانب کھینچنا شروع کیا۔ عذرا عباس کی نظمیں مجھے جہاں نظر آتیں ، میں ضرور پڑھتا۔میں ان سے کبھی نہیں ملا پھر بھی ان کی شخصیت کا جادو میرے سر چڑھ کر بولتا رہا ہے۔ان کو دیکھ کر، ان سے بات کرکے لگتا ہے کہ ہاں ، ادیب کو ایسا ہی ہونا چاہیے، اتنا ہی بے پروا، ایسا ہی صاف گو۔ میں نے اپنے بلاگ کے لیے کچھ اچھے انٹرویوز کرنے کا ارادہ کیا ہے۔ انٹرویو دراصل کسی بھی شخصٰت کی ذات میں جھانکنے کا ایک ذریعہ ہے، اسی لیے تو اسے انٹرویو کہا جاتا ہے۔ لیکن میں ایسے سوالوں سے بچنا چاہتا ہوں، جو نہایت روایتی ہوں۔ اس لیے میں نے فیصلہ کیا کہ ہر ادیب سے دس سوالات پوچھے جائیں۔سوال جب غیر روایتی اور بے ساختہ ہوتے ہیں تو کبھی کبھار بچکانے بھی ہوتے ہیں، یا بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی سوال اپنے آپ میں بڑا طرم خاں بنا گھوم رہا ہو، اور جواب کی ایک ہلکی سی ایڑھ اسے چاروں خانے چت کردے،بقول شمیم عباس ایڑھ لگائی گویائی نے ہم چت چاروں خانے تھے۔ عذرا عباس نے ان سارے سوالوں کا جواب بہت اچھی طرح دیا ہے۔ وہ اپنے عہد کی ایک بڑی شاعرہ ہیں، افسانہ نگار ہیں۔ اور ان کی اہمیت سے اچھا ادب پڑھنے والے بخوبی واقف ہیں۔امید ہے کہ یہ سوال وجواب کا سلسلہ آپ کو ضرور پسند آئے گا۔شکریہ!

تصنیف حیدر:آپ غزل لکھنا پسند نہیں کرتیں یا لکھ نہیں سکتیں آپ اس صنف کے بارے میں کے بارے میں کیا سوچتی ہیں-

عذراعباس:کون کہتا ہے مجھے غزل پسند نہیں –مجھے غالب اور میر بہت پسند ہیں شروع میں توہمارے نصاب میں انھیں سے پہلے پہل ملاقات ہوئی- اور انکی شاعری نے مجھے حیران کیا کہ یہ وقت کے ساتھ ساتھ چلنے والی شاعری ہےاور یہ تو سب کہتے ہیں کہ ایسا ہی ہے-میں صرف میر اور غالب پر اکتفا نہیں کروں گی ہمارے لاتعداد شاعر بہت اچھی غزلیں لکھ رہے تھے اور لکھ رہے ہیں –جہاں جہاں خیال زندگی کی حیرتوں کو پیش کرتا رہا اور اس خیال کو اپنے انداز میں –وہاں وہاں شاعری کمال دکھاتی رہی غزل کی شکل میں-اب رہا یہ کہ میں غزل کیوں نہیں لکھتی یا لکھ نہیں سکتی تو یہ جواب لمبا ہو جائے گا-لیکن جواب تو دینا ہے-شروع یعنی بہت شروع میں جب میں کہیں سکون سے بیٹھتی تھی یا اپنی حرکتوں کے جواب میں میرے ساتھ اچھا سلوک نہیں ہوتا تھا تو غمزدہ تو ہوتی تھی –اور یہ غم میں کس کو سناتی تو میں نے اس غم کو لکھنا شروع کیا –بات آگے بڑھی چیزیں تبدیل ہونے لگیں –لیکن لکھنا شروع ہو چکا تھایہ شروع شروع دراصل بہت پہلے جہاں سے میں نے سوچنا شروع کیا تھا اس کو میرا لڑکپن بھی کہہ سکتے ہیں-اور یہ لکھائی کے ٹکڑے میں جمع نہیں کر سکی لکھا اور پھینک دیا-لیکن ایک وقت ایسا آیا کہ میرادل کسی کو سنانے پر بھی آمادہ ہوا لیکن سنتا کون ؟ گھر کے ماحول میں ماں بہت سیدھی ،بھائی صرف جاسوسی ناول پڑھتے ہوئے ،بہنیں کچھ کچھ ماں پر چلی گئی تھیں ،اب رہ گئےتھے باپ،جو مجھے سمجھانےکی کوشش کرتے تھے کہ میں کس دھارے کی طرف جا رہی ہوں-وہ بہت پڑھے لکھے علی گڑھ یونیورسٹی سے گریجویٹ تھے فارسی اور انگلش بہت اچھی ،چونکہ وہ بھی سیلف میڈتھے لہذا بچوں سے بھی یہی توقع تھی-میرے معاملے میں جو میری سمجھ میں آیا وہ یہ کہ یہ کیا سوچ رہی ہے،سخت تھے لیکن میرے معاملے میں کچھ نرم ،مجھے یہ تو یقین ہے کہ مجھ سے بہت محبت کرتے تھے۔جب مجھے یہ پتہ چلا کہ جو میں لکھ رہی ہوں وہ نثری نظم ہےاور یہ راستہ بھی کھلا کہ قمر جمیل نے نثری نظم کی تحریک شروع کی ہے –تو میں وہاں پہنچ گئی-بلکہ پہنچا دی گئی ثروت حسین میرے کلاس فیلو تھے انھوں نے میری ملاقات قمر جمیل سے کرائی جن کے ڈرائنگ روم میں نثری نظم کی تحریک پروان چڑھ رہی تھی-میں بھی اس میں شامل ہو گئی ،لیکن ایک دن جب ان کے گھر بہت سے شاعر جمع تھے –وہاں کا ماحول مختلف تھا –زیادہ تر شاعر وہ جمع تھے جنھوں نے غزل لکھی ہوئی تھی اور ماحول نثری نظم کا نہیں تھا صرف غزلیں سنائی جا رہی تھیں اورگفتگو میں واضح تھا کہ وہ شاعر نہیں ہے جس نے غزل پر طبع آزمائی نہیں کی ،لہذا شاعری سنانے والوں میں میرا نام نہیں آیا –اور مجھ پر یہ ثابت کیا گیا کہ میں شاعر نہیں ہوں –ان کے گھر سے باہر آ کر میں خوب روئی اس ملال میں کہ میں شاعر نہیں ہوں-گھر پہنچی تو ابا نے میری شکل دیکھ کر سوال شروع کئے اور میں نے رو رو کر ان سے پوچھا ،کیا میں شاعرنہیں ہوں-ابا ہنسے اور کہا تمہاری حرکتیں تو نری شاعروں والی ہیں-میں روتے روتے سوگئی اور تم یقین کرو یا نہ کرو میرے خواب میں غزل کےچار شعر آئے میں حیران ہو کراٹھی اور ابا کو چینخ کر پکارا،جوچار شعر نیند میں کہے،ابا نے کہا یاد ہیں ؟اور میں نے وہ چار شعر ابا کو سنائے وہ حیران ہوئے-وہ چار شعر بحر اور ردیف اور قافیہ سے مزین تھے –مجھے خود میرے سوالوں اور دوسروں کے سوالوں کا جواب مل گیا تھا –لیکن یقین مانوپانچواں شعر نہیں لکھ سکی،میرے پاس خیالات کا جو بہاؤ تھا وہ مجھے روکتا تھا اور میری طبعیت کا مزاج مجھے غزل نہیں لکھنے دیتا تھا شروع میں میں نے بہت تکلیف اٹھائی کوئی رسا لا نثری نظم چھاپتا نہیں تھا،لیکن جب میں نے نیند کی مسافتیں لکھنا شروع کی تو سب حیران تھے وہ بھی جنھوں نے نثری نظم کی مخالفت کی تھی – لیکن یہ بھی بہت آہستہ آہستہ ہوا –اس بارے میں میں ہو سکتا ہے آگے جا کر کچھ کہوں-

تصنیف حیدر:آپ کے ہاں جو بولڈنیس ہمیں دکھائی دیتی ہےوہ کتنی اوریجنل ہے-آپ کی نظموں سے لگتا ہےکہ آپ ایک سخت گیر مذہبی معاشرے کو پسند نہیں کرتیں کیا ایسے معاشرے میں اچھا ادب نہیں لکھا جا سکتا؟

عذرا عباس:اگر تم نے میرا بچپن پڑھا ہےتو ایک جگہ میں نے لکھا ہے کہ ایک رات میں گھر سے باہر گلی کے نکڑ پر بیر چننے کے لئے نکل گئی اگر چہ کہ ابا دروازے سے ذرا دور صحن میں تہجد کی نمازپڑھ رہے تھے اور جب میں بیر چن کر واپس آئی،تو اباہکا بکا رہ گئے،پتہ نہیں کب تک وہ میری اس حرکت پر نالاں رہے لیکن بہت محتاط ہوگئے تھے-میں سمجھتی ہوں یہ ایک ایسی صفت ہے جو میں پیدائش سے لے کر آئی –تم کو بتاؤں کہ مجھے اپنی اس بےخوفی سے ڈر لگتا ہے کب نا جانے کیا کر بیٹھوں –اور خاص طور پر وہاں جہاں ناجائزصورتِحال میرے سامنےہو-اب اس کو تم جو چاہو کہو-یہ اوریجنل ہے کہ نہیں۔اب رہا سخت گیر مذہبی معاشرہ ،تو اس کا جواب یہ ہے کہ فرد کی آزادی کی میں قائل ہوں –یہ آج سے نہیں جب میں کچھ بھی نہیں جانتی تھی اس وقت بھی میں یہ سمجھتی تھی کہ برقعہ مجھے نہیں پہننا ،یہ برقعہ مجھے چھپا لے گا اور بےشمار باتیں اور واقعات جو مجھے ان باتوں سے روکتے تھے جو میرا انکارکرتے تھےمیں نے ان تمام باتوں سےایک خاموش جنگ جاری رکھی جو میری آزادی میں خلل ڈالتی تھیں –اور لکھنے کے لئے بھی میں نے کسی رکاوٹ کو قبول نہیں کیا -ہاں وہاں میں نے کوئی آزادی نہیں قبول کی جہاں میرے بچوں کو میری ضرورت تھی-

تصنیف حیدر:فیمینزم کے تعلق سے آپ کے کیا خیا لات ہیں؟

عذرا عباس:میں اپنے خیالوں میں فیمنسٹ نہیں ہوں –اور نہ اسے فیشن کے طور پر استعمال کرکے اس سے کوئی فائدہ اٹھاتی ہوں –مجھے یہ معلوم ہے کہ ظلم و جبر کی بے پناہ قسمیں ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے-جس کے پاس طاقت ہے اور وہ اس کا ناجائز استعمال کرتا ہے جہاں عورت پر ظلم ہوتا ہے وہاں میں اپنے ارادوں کو ایک شکل دیتی ہوں جوظلم کے خلاف چینختے ہیں او رایک نظم مجھ سے لکھواتے ہیں-اور یہ بھی بڑا گنجلک معاملہ ہے۔یہ سب کو معلوم ہے کہ عورتوں پرظلم کرنے والوں میں عورت بھی ہوسکتی ہے بلکہ ہوتی ہے میں نےبڑی بڑی آوازیں اٹھانے والی عورتوں کو ان مردوں سے شادی کرتے دیکھا ہے جو پہلے سے شادی شدہ تھے،وہ بھی جو خود کو فیمنسٹ کہتی ہیں-لیکن یہ دیکھو چائلڈ لیبر ،کم اجرت پر کام کرنے والے مزدور اور عورتیں اور بےشمار ظلم کی قسمیں کسی ایک کے خلاف ہونا زیادتی ہے۔

تصنیف حیدر:شاعری میں معاشرے کے مسائل کا لکھنا کتنا درست ہے آپ کے نزدیک ؟

عذرا عباس:جو معاشرے کے مسائل ہیں وہ ہمارے بھی ہیں –کبھی انِڈور کبھی آوٹ ڈور-ہم معاشرے کا حصہ ہیں-جب ہم مسائل کہتے ہیں تو وہ کتنے پھیلے ہوئے ہیں اور کتنے ہولناک ہیں -ہم سب اس کی زد میں ہیں –اگر ہم کچھ کہنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور کہتے نہیں توہم گونگے ،بہرے اور معذور ہیں ،اس سے آگے بزدل ہیں۔

تصنیف حیدر: کیاہماری اخلاقیات مردوں کے معاشرے کی ایجاد ہیں ؟ کیوں؟

عذرا عباس:دیکھویہ تو ہےکہ جس کے پاس پاور ہےاس کے پاس سب کچھ ہے-ہماری اخلاقیات مردوں کی بنائی ہوئی ہے یا نہیں ہے –جب سے میں نے شعور سنبھالا ہےیہ سن رہی ہوں کہ یہ مردوں کا معاشرہ ہے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ اخلاقیات کا ٹھیکہ بھی عرصہ دراز سے ان کے پاس ہے –اور وہ تمام باتیں جو عورتوں کے لئے گناہِ کبیرہ ہیں ان کے لئے مردمادر پدر آزاد ہے۔

تصنیف حیدر:عذرا عباس کو شاعری زیادہ پسند ہے یا زندگی؟

عذرا عباس:یہ سوال بہت عجیب ہے عذرا عباس پیدا ہوئی تھی اس لئے کہ زندگی تو سب گزارتے ہیں ،میں بھی گزار آئی لیکن اگر شاعری میرا ساتھ نہیں دیتی تو یہ زندگی عذاب ہوجاتی- ہاں زندگی کے گزارے جانے کی مدت میں زندگی نے مجھے بہت کچھ سکھایا او ردکھایا ---شاعری کو بہت کچھ ملا –یہ کہنے میں مجھے کوئی آر نہیں کہ میں نے زندگی کو اس حالت میں بھی انجوائےکیا ،جب لوگ ایسی زندگی کی دہائی دیتے نظر آئے۔

تصنیف حیدر:آپ زندگی کو کس طرح انجوائے کرتی ہیں؟

عذرا عباس:اگر شاعری میرے چاروں طرف منڈلاتی رہے اور مجھے نت نئےموسموں میں گھماتی رہے ،توپھر کیا بات ہے-جب شاعری میرے پاس نہیں ہوتی کہیں دور نکل جاتی ہے میرے لئے وہ خزاں کا موسم ہوتا ہے

تصنیف حیدر:افسانہ لکھنے کے باوجود پاکستان کے ناقدین آپ کو نظر انداز کرتے رہے –اس کی وجہ آپ کیا سمجھتی ہیں ۔

عذرا عباس:پتہ نہیں بھئی،لوگ میرے افسانے پسند بھی کرتے ہیں -اور میں نے لکھے بھی بہت کم ہیں-لیکن تمھارے ہاں ایک خاتون نے میرا افسانہ(پوٹریٹ)انگلش میں ٹرانسلیٹ کیا تھا-میرے افسانےتین یا چارآصف فرخی نے ٹرانسلیٹ کئے ،یقینی ان کو پسند آئے ہوں گےوہ امریکہ کے ایک جرنل میں چھپے بھی ہیں اور انڈیا کے ایک میگزین میں بھی –ہاں جس طرح ''میرا بچپن"پسند کیا گیا -وہ افسانوں کے حصے میں نہیں آیا-جہاں تک پاکستان کے ناقدین کی پسند اور نا پسند کا سوال ہے تو میں اس چکر میں نہیں پڑتی ،میں نے کبھی کسی سے اپنے بارے میں لکھنے کے لئے نہیں کہا،میں اپنی کتاب پرکسی کا فلیپ بھی نہیں لگاتی -

تصنیف حیدر: اردو ادب میں چیل کی آنکھ والی بات ہے یا نہیں؟ہے تو کتنے لوگوں میں ہے۔

عذرا عباس:دیکھو ہمارےجو بھی اچھے لکھنے والے ہیں ان کے یہاں اگر یہ خاصیت نہیں ہوتی تو ان کو پسند کیسے کیا جاتا۔

تصنیف حیدر:کن ادیبوں نے آپ کو متاثر کیا؟

عذرا عباس:پسند کرنا اور متاثر ہونا یہ الگ رویے ہیں -سب سے پہلی کتاب گورکی کی (ماں )میں نے بارہ سال کی عمرمیں پڑھی اور میں اس سے اتنی متاثر ہوئی کہ اس میں موجود ماں کو اس وقت میں اپنی ماں میں تلاش کرتی رہی-اس کے ہیرو پاویل کو میں نے اپنا ہیروبنالیا تھااور کئی سال میں اس کو اپنے دل میں بسائے رہی-اور وہ جدوجہد جو اس ناول میں تھی وہ طاقت بن کر میری رگ وپے میں اتر گئی-رہا پسند کا سوال تو بہت سے لکھنے والے مجھے پسند ہیں-الگ الگ نام لینے میں بڑی لمبی لسٹ بنے گی


(یہ انٹرویو بلاگ کے حوالہ دیے،یا عذرا عباس سے اجازت لیے بغیر کہیں شائع نہ کیا جائے۔ایسا کرنے پر قانونی چارہ جوئی کا حق بلاگ پوسٹ کی جانب سے محفوظ ہے۔)

کوئی تبصرے نہیں:

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *