اتوار، 7 دسمبر، 2014

زیب غوری اور روایت آفرینی کا مناسب مفہوم


جن لوگوں نے ٹھیک سے زیب غوری کی شاعری کا مطالعہ کیا ہوگا، انہیں یہ بات معلوم ہوگی کہ زیب خود بھی 1970سے پہلے کی جانے والی اپنی شاعری سے بہت زیادہ خوش نہیں تھے۔اور پھر اس شاعری کو پڑھ کر محسوس بھی یہی ہوتا ہے کہ زیب کو اس شاعری سے زیادہ خوش ہونا بھی نہیں چاہیے تھا، وہ شاعری پیلے پتوں کی طرح تھی، بہت حد تک روایتی، بے حد سمٹی، سکڑی ہوئی اور کہیں کہیں تو بڑی مرجھائی مرجھائی سی۔لیکن اس میں بھی بعض شعر زیب نے ایسے کہے ہیں کہ اس سے محسوس ہوتا تھا کہ ان کے یہاں تبدیلی کا دور جلدی پوری آب و تاب کے ساتھ آنے والا ہے۔کچھ ایک شعر جو اس دوران کے ہیں سناتا چلوں تاکہ بات واضح ہو کہ کون سے ایسے شعر تھے، جن میں اسلوب اور لفظیات کی سطح پر ایک جدت پیدا کرنے کی شعوری کوشش صاف دکھائی دیتی ہے۔
ٹیلیفون کے تاروں پر کچھ طوطے بیٹھے دھیان لگائے
کس دلچسپی سے سنتے ہیں سب کی باتیں کان لگائے

سیاہ پیڑ پہ الٹی لٹک گئیں آنکھیں
الجھ کے شاخوں سے کچھ سائے پھڑپھڑانے لگے
فکری سطح پر بھی کچھ اتھل پتھل اس دوران کی شاعری میں نظر آتی ہے، مگر وہ ایسی قابل ذکر نہیں، مگر 70کے بعد شعوری طور پر زیب نے اپنا رنگ بدلا، اسے لگا کہ وہ شاعری کی اس محدود لغت سے لپٹ کر کیوں رہ گیا ہے جس کی وجہ سے اچھی اور بڑی شاعری کا ظہور تقریباً ناممکن ہوجاتا ہے۔زیب غوری کی شاعری کوئی ایسی بہت بڑی شاعری نہیں ہے، لیکن یہ بہت اچھی شاعری ہے اور اس کا ایک اہم کارنامہ یہ ہے کہ اس نے اردو شاعری کو ایک نئے اسلوب سے آشنا کیا، ایک نئی روایت کو جنم دیا۔زیب کے اعترافات پڑھ کر یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اسے احساس ہوگیا تھا کہ اچھی شاعری کے لیے خیال اور لغات کے معاملے میں خود کو بڑی حد تک آزاد رکھنا ہوگا۔چنانچہ ایک جگہ زیب نے لکھا ہے:
’’
میرا اب تک کا تجربہ رہا ہے کہ ہر دور کی شاعری میں چاہے وہ روایتی ہو،ترقی پسندانہ ہو یا جدید ، ہر نوع کی شاعری کی اپنی ایک مخصوص و محدود لغت رہی ہے۔’’زدرزرخیز‘‘ کی اشاعت تک ہر دور میں ، میں بھی ان پابندیوں کو بھگتتا رہا ۔بعد میں مجھے خیال آیا کہ جب لفظ ہی شاعری کا وسیلہ ہیں تو اپنی شاعری کے لیے ایک محدود و مخصوص لغت اپنا کر اپنے ذریعۂ اظہار کو غیر ضروری طور پر کسی آزمائش میں کیوں ڈالوں۔شاعر اگر تخلیقی سطح پر لفظوں کو استعمال کرنے کی قدرت رکھتا ہے تو پھر لفظوں کی کوئی حد بندی کیسی؟‘‘
زیب سے بس ہلکی سی چوک یہ ہوئی کہ وہ اپنی تخلیقی بغاوت کو بہت حد تک شاعری میں روا نہیں رکھ سکا۔ورنہ اس کی تحریریں پڑھ کر اس بات کا شدت سے احساس ہوتا ہے کہ جو تخلیقی گنجائشیں پیدا کرنے کے ہنر سے واقف ہو، اس کے یہاں اندرونی تجربوں کی کھپت اتنی کم کیسے ہوسکتی ہے، میں نے زیب کو جتنا پڑھا ہے اتنا ہی زیادہ اس بات کا احساس مجھ پر گہرا ہوتا چلا گیا ہے کہ اس کے یہاں جو جرات تھی، اس کی آنچ اس کے پورے دور شاعری پراپنا سایہ قائم کیے ہوئے ہے، مگر اس آنچ میں ایک آنچ کی کسر رہ گئی ہے، ہوسکتا ہے کہ زیب کو اپنی اس الجھن کا احساس اکثر ہوتا رہا ہو، مگر زندگی کے دوسرے مصائب بھی تو شاعر کے ساتھ لگے ہوتے ہیں، ہم اپنی عام زندگی میں اکثر ایسی الجھنوں میں رہ جاتے ہیں کہ اظہار کے جتنے منفرد پیرائے ہمارے ذہن میں جھمکتے ہیں، وہ کاغذ تک آتے آتے اکثر کوئی دوسری شکل لے لیتے ہیں۔پھر بھی زیب کا اسلوب اپنے دور کے بہت سے دوسروں شاعروں سے الگ اور نرالا ہے اور اس کے یہاں جدیدیت کی وہ آرٹیفیشل جدت پسندی اور اکیلے آدمی کا کرب بہت زیادہ اسی لیے کھڑکھڑاتا ہوا دکھائی نہیں دیتا ہے کیونکہ اس نے اپنے تخلیقی دھارے کو جدیدیت کے نام نہاد اسلوبیاتی تجربوں سے بالکل الٹا بہانے کی کوشش کی ہے۔اس نے عشق کی اداسی سے بالکل الگ ہٹ کر دنیا کے ساتھ اپنے معاملات کا ایک الگ نقشہ شاعری میں کھینچا ہے، وہ فرد اور سماج کے درمیان جاری ایک ذہنی جنگ اور کشمکش کاجس طرح مطالعہ کرتا نظر آتا ہے ، اس کے دور کے بہت سے لوگ اس تجربے کے ٹخنے تک بھی نہیں پہنچ پائے ہیں۔مذہب اور انسان کی مظلومیت کا ڈنکا بھی زیب کے یہاں خوب بجتا دکھائی دیتا ہے۔ان مضامین کے ساتھ بلا شبہ زیب نے خود کو دوسروں سے ممتاز اور الگ حیثیت دینے کی بھرپور کوششیں کی ہیں۔کچھ مثالیں اپنی اوپر کی باتوں کو ثابت کرنے کے لیے اس کے کلام سے پیش کرتا ہوں۔
مجھ کو ڈر ہے جو یونہی خاموش رہا
میرے لبوں پر مکڑی جالا بن دے گی
۰۰۰
زیب اس آسیب سے ہے جان بچانا مشکل
دل میں کچھ خوف نہ آئے تو خدا سے ڈرنا
۰۰۰
میں پیمبر ترا نہیں لیکن
مجھ سے بھی بات کر خدا میرے
۰۰۰
نہیں کہ اپنے دوستوں سے کچھ امید ہو مجھے
مگر کسی کو میرا حال پوچھنا تو چاہیے
۰۰۰
میرے قاتل نے بڑھاد ی مرے سچ کی توقیر
اس صلہ کے لیے موزوں تھا پیمبر کوئی
۰۰۰
ہم دونوں تہذیب کا ایک مرقع ہیں
میں بھی تہی تو بھی باطن سے عاری ہے
 

ہم کسی بھی شاعر کی تخلیقی قوت کا اندازہ اس کے مکمل کلام سے لگا سکتے ہیں، ایسا نہیں ہوتا کہ آپ نے کسی کی دس غزلیں پڑھیں اور اس میں چونکادینے یا وقتی فرحت بخشنے والے سات آٹھ اشعار کی بنیاد پر آپ نے شاعر کو منفرد مان لیا۔اگر تنقید کا یہی پیمانہ ہے تو سمجھ لیجیے، آپ شاعری نہیں پڑھ رہے،بھاڑ جھونک رہے ہیں۔شاعری کوئی افسانہ یا ناول نہیں ، جو اپنی اکائی میں بھی کل کی حیثیت رکھتی ہو۔شاعری کو پڑھنے کے لیے عاشق جیسا صبر چاہیے۔اس میں جلدی فیصلے اکثر ناقدین کو منہ کے بل گرادیتے ہیں۔زیب کی شاعری کو نظر انداز کیے جانے کے پیچھے کچھ وجوہات ہیں، جن پر نظر ڈالنی چاہیے۔زیب شاعروں کی بھیڑ میں اپنی قدر وقیمت سے واقف ایک فنکار کی حیثیت رکھتا ہے،کم از کم سوچنے کی حد تک تو اسے خود پر مکمل اعتماد ہے۔اسے ہر اچھے فنکار کی طرح اپنے منفرد ہونے کا اندازہ ہے۔اسی وجہ سے زیب کے یہاں تخلیقیت میں تبدیلی پر زبردست اصرار موجود ہے۔افسوس صرف بات کا ہے کہ شاعر اس تبدیلی کو پوری طرح برتنے میں کامیاب نہیں ہوپایا، پھر بھی بہت حد تک اس کے یہاں اس تبدیلی کی خواہش دیمک کی طرح پھیل گئی ہے اور اس کا ایک سب سے اہم فائدہ یہ ہوا کہ پرانی روایت کو ختم کرکے زیب نے نئی روایت کی داغ بیل ڈالنے کا مناسب طریقہ دریافت کرلیا۔زیب کی اس کامیابی کو ہمارے یہاں بہت زیادہ توجہ نہیں دی گئی کہ اس نے جدیدیت کے خمار آلود کہر سے الگ ہوکر اپنے لیے ایک راہ بنائی ہے، اس کے مضامین، اسلوب اور آہنگ کی سطح پر ایک شعوری تبدیلی کی خواہش اور دوسروں سے الگ ہونے کی جستجو بہت حد تک کارفرما ہے۔جہاں تک مجھے علم ہے، زیب ہی وہ پہلا شاعر ہے جس نے لفظوں کی سختی اور متروکات کی الجھن سے خود کو دور کیا اور پوری آزادی اور بھرپورتخلیقی جواز کے ساتھ خود کو شعری اظہار سے جوڑے رکھا۔بدنصیبی یہ کہ زیب نے عمر بھی ساٹھ سال سے کم پائی ، ستر میں اس کی شاعری نے کروٹ لینی شروع کی اور اس کے بعد وہ تقریباً پندرہ سال اور زندہ رہ پایا۔اتنے میں بھی اس نے ایسے ایسے شعر نکالے جس نے اس کا قد ناصر کاظمی، شکیب جلالی اور دوسرے بہت سے اہم شاعروں سے بڑھا دیا۔زیب کی قدر صحیح طور پر نہیں ہوسکی تو اس کی دو وجہیں ہیں۔اول تو ہمارا وہی روایتی خراج عقیدت والا طریقہ کہ ہم ہر شاعر کے بارے میں صرف یہ کہتے رہتے ہیں کہ ’وہ بلا کا شاعر ہے‘، ’وہ بہت کمال شاعر ہے‘۔مگر خود ہم نے کبھی اس کے کلام کو نہ ٹھیک سے پڑھا ہوتا ہے نہ اپنی تنقیدی صلاحیت سے اسے ٹھوک بجا کر دیکھا ہوتا ہے۔مطالعے کی کمی اور رومانیت کی وبا نے اردو شاعری کو جتنا نقصان پہنچایا ہے ، اس کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ہم نے زیب جیسے شاعروں کو ان کی مکمل قدر کیے بغیر تقدس کے طاق میں دھردیا ہے۔ان کی کتابیں دھول چاٹتی ہیں، مگر بازار احمد فراز اور بشیر بدر کی فارمولے باز شاعری سے اٹا پڑا ہے۔مجھے شکایت نہیں ہوتی اگر کچی عمر کے لڑکے لڑکیاں اس شاعری کے دلدادہ ہوتے، افسوس اس بات کاہوتا ہے کہ اچھی شاعری کرنے اور سمجھنے والے بھی زیب جیسے شاعروں کی بازیافت پر زور نہیں دیتے نہ یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان مختلف اسالیب سے جو ان لوگوں نے برتے، کس قسم کے مزید فائدے شاعری میں اٹھائے جاسکتے ہیں۔اپنی اپنی ڈفلی بجانے کے دور میں ایک بانسری کے گم ہوجانے پر کون دل پکڑکر بیٹھے۔خیر، کہنا یہ چاہتا ہوں کہ زیب نے اپنی شاعری کے ذریعے جدید سے جدید تر کا سفر شروع کردیا تھا۔آخر میں زیب کے کچھ اچھے اشعار سنا کر اپنی راہ لیتا ہوں، مگر اتنی بات ضرور کہوں گا کہ زیب کو نظرانداز کرکے ہم نئی شاعری کی تعریف کبھی ٹھیک طور پر سمجھ نہیں پائیں گے۔کسی اور موقع پر زیب غوری کی شاعری کا تفصیلی جائزہ لوں گا کہ ہمیں شاعری کے علاوہ شاید دوسرے اشارے مشکل سے سمجھ میں آتے ہیں۔
موضوع سخن ہمت عالی ہی رہے گی
جو طرز نکالوں گا نرالی ہی رہے گی
اب مجھ سے یہ دنیا مرا سر مانگ رہی ہے
کمبخت مرے آگے سوالی ہی رہے گی
۰۰۰
بے حسی پر وہ مری خوش تھا کہ پتھر ہی تو ہے
میں بھی چپ تھا کہ چلو سینے میں خنجر ہی تو ہے
۰۰۰
ڈس بھی لیتے ہیں مجھے پالے ہوئے سانپ اکثر
کیا کروں شوق ہی رکھتا ہوں نرالا اپنا
۰۰۰
ہوا میں اڑتا کوئی خنجر جاتا ہے
سر اونچا کرتا ہوں تو سرجاتا ہے
دھوپ اتنی ہے بند ہوئی جاتی ہے آنکھ
اور پلک جھپکوں تو منظر جاتا ہے
اندر اندر کھوکھلے ہوجاتے ہیں گھر
جب دیواروں میں پانی مرجاتا ہے
۰۰۰
سب کچھ دیکھ رہا ہوں میں بھی خدا کے ساتھ
خیر مری تو مجبوری لاچاری ہے
۰۰۰
اس خزانے کو اٹھا کر میں کہاں لے جاؤں
دیکھنا سبزے کو تو اپنی ہی دولت لگنا
۰۰۰
اتنے گہرے جانا تیرے بس میں نہیں
مجھ کو پتہ ہے دریا سے تو لایا کیا
دل آئینہ بن جائے تو بہت جانو
ورنہ مٹی کیا مٹی کی مایا کیا
ooo

مضمون نگار: تصنیف حیدر

رابطہ:009540391666
sayyed.tasneef@gmail.com
یہ مضمون7دسمبر2014کو ممبئی سے شائع ہونے والے اخبار 'اودھ نامہ'کے ادبی صفحے پر شائع ہوا ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *