جمعہ، 2 جنوری، 2015

ذکیہ مشہدی سے دس سوالات


ذکیہ مشہدی کے نام اور کام سے کون واقف نہیں۔ان کی کہانیوں کو بہت سے اہم لکھنے پڑھنے والے پسند کرتے ہیں، ان سے میری بات سب سے پہلے ان کی کتابیں حاصل کرنے کے لیے فون پر ہوئی تھی، بے حد مشفق اور صاف گو خاتون ہیں۔انٹرنیٹ سے کوئی خاص وابستگی نہ ہونے کے باوجود انہوں نے میرے بلاگ کے لیے ان سوالوں کے جوابات دیے ،اس کے لیے میں ان کا شکر گزار ہوں۔ان کی کہانیوں کے مجموعے’پرائے چہرے‘، ’تاریک راہوں کے مسافر‘،’نقش ناتمام‘ اور صدائے بازگشت‘ اب تک شائع ہوچکے ہیں۔امید ہے کہ یہ مکالمہ آپ کو پسند آئے گا۔

تصنیف حیدر:آپ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ آپ کی تخلیقی صلاحیتیں اور زیادہ بہتر ہوسکتی تھیں،اگر آپ کے یہاں بولڈ نیس ہوتی۔کیا یہ بات درست ہے؟

ذکیہ مشہدی:میرے خیال میں یہ بات محض hypotheticalہے۔اگر آپ مجھ سے پوچھیں تو میں کئی اور ایسے عوامل بتادوں جو اگر ہوتے یا نہ ہوتے تو میری تخلیقی صلاحیتیں بہت بہتر ہوتیں۔نہ صرف بہتر ہوتیں بلکہ ان سے زیادہ کام لیا گیا ہوتا۔سچ پوچھیے تو آپ ہر فنکار کے متعلق اس طرح کی قیاس آرائی کرسکتے ہیں کہ ’یوں ہوتا‘ تو اس کی تخلیقی صلاحیتیں زیادہ بہتر ہوتیں۔جہاں تک بولڈ نیس کا سوال ہے تو میں اپنی افتاد طبع کے مطابق ہی اظہار خیال کرتی ہوں۔اس کے آگے یا اس کے پیچھے جانے کا کوئی تصور میرے ذہن میں نہیں ہے۔جس چیز کی کمی کا خود مجھے شدید احساس ہے وہ ہے باہری دنیا کا تجربہ۔باالفاظ دیگر تجربے حاصل کرنے کی آزادی۔

تصنیف حیدر:آپ کی کہانیوں ،روایات کی اہمیت پر جس طرح زور ڈالا جاتا ہے،ان میں اپنی روایتوں کے ساتھ جذباتی لگاؤ کی اہمیت زیادہ ہوتی ہے؟کیا آپ نئے تیز رفتار عہد میں ایک قسم کی قنوطیت کا شکار ہیں؟

ذکیہ مشہدی:قنوطیت کا شکارتو میں قطعی نہیں ہوں۔پرانی قدروں اور روایات پر دانستہ کوئی زور نہیں ڈالتی۔نہ ہر پرانی چیز کو اچھا سمجھتی ہوں نہ ہر نئی چیز کو برا۔ہاں عمر کے جس دور میں ہوں اس میں تیز رفتار سے آنے والی تبدیلیوں کا ساتھ دینا ذاتی طور پر میرے لیے ممکن نہیں ہے۔پھر بھی فرسودہ روایات کی قطعی قائل نہیں بلکہ ان کی مخالفت کرتی ہوں۔شخصی آزادی کی قائل ہوں لیکن برنارڈ شا سے وابستہ اس مقولے کی مداح ہوں کہ جہاں سے دشمن کی ناک شروع ہوتی ہے وہاں پہلے کی شخصی آزادی ختم ہوجاتی ہے۔بہت سی پرانی اقدار زمان و مکان سے پرے ہیں۔ان سے کوئی انکار نہیں کرسکتا وہ یقیناً میری تحریروں میں در آتی ہوں گی۔

تصنیف حیدر:آپ کا افسانہ ’ماں‘ پڑھتے وقت قاری اگر جنسی اشتعال کا شکار ہوجائے تو کیا وہ آپ کے نزدیک ذہنی طور پر ایک صحت مند قاری ہوگا؟

ذکیہ مشہدی: آپ کے اس سوال کے جواب میں بغیر ایک لمحہ ضائع کیے میں کہوں گی کہ اگر ایسا کوئی قاری ہے تو وہ ذہنی کجروی(Perversion)کا شکار ہے۔جنس میرا موضوع کبھی نہیں رہا صرف تین افسانوں میں محض علامتوں اور اشاروں میں اس کا اظہار ہوا ہے۔اب اگر کوئی قاری اس قدر’ملفوف‘ پیرائے سے بھی اس حد تک متاثر ہوجائے اور اصل مفہوم (میرا مطلب بنیادی تھیم)کو نہ سمجھ سکے تو اسے pervertکے علاوہ اور کیا کہوں؟

تصنیف حیدر:نئی دنیا میں پرانی ثقافت محض ایک یادگار شے ہے۔فاسٹ فوڈ کے دور میں چھپروں اور ٹپروں کی ہی باتیں کرتے رہنا ،زندگی کا محض ایک رخ ہے، آپ کیا کہتی ہیں؟

ذکیہ مشہدی:تصنیف حیدر صاحب! زندگی کے اتنے رخ ہیں کہ اگر کوئی چاہے بھی تو سب اس کی گرفت میں نہیں آسکتے۔پھر ہر رخ کے لاتعداد مظاہر ہیں۔فنکار کسی ایک رخ کو پکڑ کر بھی اعلیٰ تخلیقات پیش کرسکتا ہے لیکن مشاہدہ تیز اور پیراےۂ اظہار موثر نہ ہوتو متعدد پہلوؤں کو ہاتھ لگانے کے باوجود سپاٹ اور بے رنگ رہ جائے گا ویسے صرف چھپر اور ٹپر کی باتیں کون کررہا ہے؟وضاحت کیجیے۔

تصنیف حیدر:آپ کا اسلوب اس وقت تمام افسانہ نگاروں میں سب سے الگ اور بہتر ہے۔کیا آپ اس بات سے اتفاق کرتی ہیں؟

ذکیہ مشہدی::ہر فکشن نگار کا اپنا اسلوب ہوتا ہے اس لیے کہ ہر انسان کی شخصیت منفر د ہوتی ہے۔میں اس کلیے کی استثنائی صورت نہیں ہوں۔میرا اپنا اسلوب ظاہر ہے میرا اپنا ہے اس لیے اوروں سے الگ ہونا فطری ہے۔رہا یہ کہ وہ اوروں سے بہتر بھی ہے تو میں اس خوش فہمی میں قطعی مبتلا نہیں ہوں۔اس کا فیصلہ قارئین کریں گے یا ناقدان فن(بشرطیکہ انہیں میری طرف توجہ کرنے کی فرصت ملی۔)

تصنیف حیدر:فہمیدہ ریاض،زاہدہ حنا، ممتاز شیریں وغیرہ لکھنے والیوں میں آپ کو سب سے بہتر کون لگتا ہے اور کیوں؟

ذکیہ مشہدی:خواتین افسانہ نگاروں میں کئی ایسی خواتین ہیں جو مجھے بہت پسند ہیں۔میں ان کا مقابلہ نہیں کرنا چاہوں گی۔وہ سب اپنے اپنے مقام پر اہم ہیں۔فہمیدہ ریاض نے نظم و نثر دونوں میں جھنڈے گاڑے ہیں لیکن میں ان کی شاعری کی زیادہ مداح ہوں۔زاہدہ حنا جب قرۃ العین حیدر کے سائے سے باہر آکر کچھ لکھتی ہیں تو بڑی اونچائیاں سر کرتی نظر آتی ہیں۔ایک افسانہ ’رقص مقابرآج تک ذہن میں موجود ہے۔ممتاز شیریں اس لیے ممتاز ہیں کہ انہوں نے تنقید کے میدان میں قدم رکھا جسے خواتین نے نظرانداز کررکھا ہے۔کوئی افسانہ نگار کیوں پسند ہے اسے بہت اختصار کے ساتھ بتانا ذرا مشکل ہے۔اسلوب کی دلکشی اور مضامین کی خیال آفرینی تخلیقات کو پسندیدہ اور قابل قدر بنانے والے عوامل ہیں۔ان کا امتزاج فکشن نگاروں کے مقام کا تعین کرتا ہے۔ویسے میں قرۃ العین حیدر کو یکتائے روزگار فکشن نگار تصور کرتی ہوں۔خواتین میں ہی نہیں بلکہ مردوں میں بھی وہ سرفہرست ہیں۔

تصنیف حیدر:تخلیق کار کا انقلاب پسند ہونا نہ ہونا کتنا معنی رکھتا ہے آپ کے نزدیک؟

ذکیہ مشہدی: میری ناقص رائے یہ ہے کہ ہر ادیب کا انقلاب پسند ہونا نہ ضروری ہے نہ ہر ادیب کے لیے ممکن ہے۔اب انقلاب ادیبوں کے قلم سے نہیں آرہے۔انقلاب کے معنی بھی بہت بدل گئے ہیں۔ہاں مصنفین کے سماجی سروکار ضرور ہونے چاہیے جو تعمیری اور مثبت تبدیلیاں لانے کی طرف گامزن ہوں۔مثبت اور تعمیری تبدیلیوں سے میری مراد ان تبدیلیوں سے ہے جو کسی کو نقصان پہونچائے بغیر بنی نوع انسان کے لیے فلاح کا سبب بنیں۔کچھ نہیں تو کم از کم مسائل کی نشاندہی کرکے ان کی طرف فکر کو مائل کریں۔سماجی سروکار رکھنے والے فکشن نگار اور انشا پرداز مصنفین کے ہاتھ مضبوط کرتے ہیں(یا کرسکتے ہیں)ان اقدار کی طرف بھی توجہ دلاسکتے ہیں جو آفاقی ہیں۔

تصنیف حیدر:آپ کو کچھ لوگ شمس الرحمْن فاروقی کے مخصوص گروہ کا فرد سمجھتے ہیں۔اس پر آپ کا رد عمل کیا ہونا چاہیے؟

ذکیہ مشہدی:اگر یہ انٹرویوتحریری نہ ہوکر زبانی ہوتا تو آپ کو میرے لہجے میں برہمی صاف محسوس ہوئی ہوتی۔میں کسی گروہ میں نہیں  ہوں۔کسی ازم کی علمبردار بھی نہیں ہوں۔اردو سے وابستہ جو بھی قابل قدر ہستیاں ہیں جنہوں نے اردو کو باثروت بنایا(یا بنارہی ہیں اس لیے کہ فعال ہیں)ان سب کے لیے میرے دل میں بڑی قدرومنزلت ہے۔جو لوگ خیموں میں بٹ کر کسی ایک کی مدح سرائی کرتے اور دوسرے پر تخریبی نکتہ چینی کرتے ہیں انہیں میں بالکل پسند نہیں کرتی ہوں۔یہ کہنا بے محل نہ ہوگا کہ ان نوجوانوں کی، جن میں آپ بھی شامل ہیں۔میرے دل میں بڑی جگہ ، بڑی محبت ہے جو اردو کے اس پرآشوب دور میں اردو کا چراغ روشن کررہے ہیں۔آپ میں سے ہی وہ جید عالم نکلنے کی امید ہے جو بڑی جگہوں کو پرکرسکیں گے۔

تصنیف حیدر:افسانہ اپنی تکنیک سے بڑا بنتا ہے یا اپنے بنیادی خیال سے؟کیوں؟

ذکیہ مشہدی: افسانے کی کامیابی کے لیے تکنیک اور بنیادی خیال دونوں ضروری ہیں۔کسی ایک کی بھی کمزوری یا فقدان افسانے کو کمزور بناتا ہے۔

تصنیف حیدر:دنیا کی کون سی زبان کاادب آپ کو سب سے زیادہ پسند ہے اور کیوں؟

ذکیہ مشہدی: بھائی، آپ نے غلط نمبر ڈائل کیا۔میرا مطالعہ اتنا وسیع نہیں ہے کہ میں اس طرح کے فیصلے کرسکوں۔انگریزی مصنفین کو خاصی تعداد میں پڑھا ہے، روسی زبان کے ترجمے پڑھے ہیں اور کچھ فرانسیسی ادیبوں کو بھی پڑھا ہے۔ان کے علاوہ شاذ و نادر ہی کسی اور زبان کے ترجمے پڑھے۔مذکورہ بالا تینوں زبانیں نہایت متمول ہیں۔آپ کسی کو کسی پر فوقیت نہیں دے سکتے۔کم از کم میں تو نہیں۔مجھے پیرل بک، ہارڈی، چیخوف، ٹالسٹائی اور موپاساں خاص طور پر پسند ہیں۔ان کی کئی تصنیفات میرے ذاتی کلکشن میں موجود ہیں۔بس ایک ماہ پہلے J.M.Coetzyکا ناولٹ(گرچہ اسے ناول ہی کہا گیا ہے)Life and Times of Micheel Kپڑھا اور سوچتی رہی کہ اس مصنف کو پہلے کیوں نہیں پڑھا تھا۔دنیا عظیم مصنفین سے بھری پڑی ہے۔موازنہ نہ ممکن ہے نہ مناسب۔

مندرجہ ذیل ناموں پر کلک کرکے ان کی کتابیں ریختہ پر بہ آسانی پڑھی جاسکتی ہیں۔




کوئی تبصرے نہیں:

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *