اتوار، 4 جنوری، 2015

عارفہ شہزاد سے دس سوالات


عارفہ شہزاد کی تحریروں سے میرا تعارف حاشیہ نام کے اسی ادبی فورم پر ہوا تھا، جس پر نئی نظم کی تفہیم کا سلسلہ ظفر سید کی جانب سے شروع کیا گیا تھا۔وہ پاکستان کی نئی نسل کی ایک اہم ناقد اور شاعرہ ہیں۔ان کی  ایک تنقیدی کتاب 'جدید اردو شاعری میں کرداری نظمیں 'کے عنوان سے شائع ہوئی ہے ، گو ابھی شاعری کا کوئی مجموعہ شائع نہیں ہوا ہے، مگر ان کی نظمیں رسائل اور انٹرنیٹ کے توسط سے پڑھنے کو ملتی رہتی ہیں۔وہ غزل بھی کہتی ہیں اور نظم بھی۔ اس وقت پنجاب یونیورسٹی، لاہور میں بطور لکچرر اپنے فرائض انجام دے رہی ہیں۔ میرا ان سے دس سوالوں پر مشتمل یہ مکالمہ ان کی شاعری، تنقید، فہم اور تعلیمی میدان میں ان کے بنائے معیار کی ترسیل میں مدد دینے میں شاید کچھ کامیاب ہوا ہے۔ امید ہے کہ آپ بھی اس مکالمے کو پسند کریں گے، اور بلاگ پر اپنی رائے سے نوازیں گے۔

تصنیف حیدر۔اچھی شاعری کی بنیادی پہچان آپ کے نزدیک کیا ہے؟

عارفہ شہزاد- میرے نزدیک بنیادی پہچان ہےتاثیر! یعنی پڑھ کے خوشی ، غم ، حیرت ، محبت ، نفرت کوئی تو اثر پیدا ہو۔۔۔! لفظوں کے طومار بندهے ہوں اور اثر ندارد تو پهر اچهی شاعری تو کجا اسے شاعری ہی کیونکر کہیے! عام طور پر ہمارے ادیب اور نقاد یہ کہہ کر اپنے تئیں تعریف متعین کردیتے ہیں کہ اچهی شاعری وہ ہے جس میں شعری جمالیات کو ملحوظ رکها گیا ہو۔۔۔لیکن شعری جمالیات ہے کیا ؟کوئی تشبیہ ، استعارہ ، علامت اور تمثال کے استعمال کو شعریت قرار دیتا ہے ۔۔۔کوئی مفرس و معرب تراکیب پر مشتمل" جناتی زبان " کے شعری جمالیات تسلیم کیے جانے پر مصر ہے ۔کسی کوجدیدیت کا بخار آجائے توانگریزی الفاظ اور سائنسی اصطلاحات معراج فن قرار دیتا ہے ۔ہر شاعر اپنے انداز سے مختلف لفظیات دیکهتے ہی" کلیشے بو کلیشے بو" کی گرجدار آواز سے دوسروں کو ڈرا کر بهگا دینا چاہتا ہے یا شاید کچا چباناچاہتا ہے تاکہ اعلی شاعری کی مسند پر تن تنہا براجمان ہو سکے---! الفاظ کی نشست وبرخاست کا سلیقہ اور ان سے جڑا اثرہی دراصل شعری جمالیات کا پیمانہ ہے شاعر کی لفظیات (diction)خواہ سادہ ہو یا مرصع۔اس میں امیجزہوں یا محض بیانیہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا دیکهنا یہ چاہیے کہ لفظیات شعر یا نظم کی اکائی میں کس طرح مستعمل ہیں اور نتیجتہ کیا وہی اثر ابهرا ہے جو شاعر کا مقصود تها؟قاری اساس متن کے تنقیدی زاویہ نظر سے بهی آخر ہر قاری میں کوئی نہ کوئی اثر تو مرتب ہو گا نا۔۔۔۔ بلکہ متن جتنی کثیر الجہات معنویت رکهتا ہو اتنا خوبصورت ہے ایک پہلو تجریدی یا ابہام پر مشتمل شاعری کے حوالے سے بهی پیش نظر رہنا چاہیے۔ بالعموم لایعنیت کو معنی کے التوا کے نظریے کی روشنی میں عظیم قرار دینے کی روش رواج پاتی جا رہی ہے۔ یہ تو ایسے ہی ہے جیسے کسی دیوانے کی بے معنی بڑبڑاہٹ اور الٹی پلٹی حرکات پر اسے مجذوب یا اللہ والا قرار دے دیں!آخر یہ ابہام سوچ کو کوئی تو تحرک بخشے، کوئی تعبیر تو سجهائے ۔یہ بهی یقینا اثر ہی کی ایک شکل ہو گی۔ ایسا ابہام جو قاری کو دماغی پچی کاری سے دوچار کردے اور جس کی تفہیم کے لیے پہلے جدید تنقیدی تهیوریوں کا پورا قاعدہ رٹنا پڑے۔۔۔ میں تو اسے اثر سے خالی ہی قرار دوں گی۔ایسی شاعری ساحری نہیں "قاہری "ہے! اسی طرح لسانی تشکیلات کے نام پر لفظوں کو پنکهے سے الٹا لٹکانے سے لوگ ایک لمحے کو چونک کر دیکهتے ضرور ہیں مگر تشکیلات اپنی نہاد میں کوئی پر معنی اثر نہ رکهتی ہوں تو یہ لفظوں کا پهندا بالآخر آپ کی شاعری کے گلے ہی آپڑے گا!

تصنیف حیدر: اردو ادب کے پاس ایک بهی ایسی نقاد عورت نہیں ہے جیسے شمس الرحمن فاروقی،گوپی چند نارنگ،وارث علوی وزیر آغا وغیرہ وغیره؟ کیا یہ بات سچ ہے اور کیوں؟

عارفہ شہزاد:بغیر صنفی طرفداری کے کہوں گی ۔۔۔سو فیصد سچ ہے!لے دے کر ایک نام ممتاز شیریں کا ذہن میں گونجتاہے مگر اس کے بعد؟؟؟ممتاز شیریں کا بهی ان نقادوں سے تقابل کریں تو تو ایک دلچسپ پہلو آپ کے سامنے آئے گا جس میں آپ کی کیوں کا جواب مضمر ہے! ممتاز شیریں وسعت مطالعہ میں کم نہیں۔۔۔تجزیاتی صلاحیت میں کم نہیں۔۔۔ادبی مباحث اٹهانے میں پیچهے نہیں مگر نظریاتی چٹکیاں نہیں کاٹتیں کہ مخالف تلملا اٹهے اور چومکهی لڑنے کی فضا پیدا ہو جائے! میں ان نقادوں کے مرتبے کو گهٹانے کی کوشش نہیں کر رہی ہر ایک کا علم مسلم! تنقیدی صلاحیت سقہ بند! مگر کیا یہ تنقید کے ستون۔۔۔۔ باہم نظریاتی چپقلشوں اور اٹها پٹخ کی بنا پر نمایاں نہیں؟شمس الرحمن فاروقی بہ مقابلہ گوپی چند نارنگ! وزیر آغا بہ مقابلہ احمد ندیم قاسمی!وارث علوی کے ہاں نقادوں کے لتے لیتے کاٹ دار جملے کیا ادبی فضا کو گرماتے نہیں رہے؟ ممتاز شیریں اس فن سے ناآشنا تهیں سو آپ نے ان کو اس قطار میں نہیں گنا۔۔۔بات عورتوں ہی کی نہیں ہے صلح کل کی روش کے حامل کتنے نقاد ہیں جو یاد رہے؟ ادبی مخالفتیں مول لینے اورتنقیدی نظریات کے اختلاف کی جنگ میں ہمہ دم مصروف رہنے کے لیےوقت ہی نہیں معاشرتی جرات بهی درکار ہے۔ اجازتوں اور ذمہ داریوں کے بوجھ تلے دبی عورت سے آپ کیسے توقع رکھتے ہیں کہ سب کچھ پس پشت ڈال کر ادبی چومکهی لڑے؟ ابهی تو تخلیق کے حوالے سے "بی بی اشرف " کے زمانے والا رویہ ختم نہیں ہوسکا کجا تنقید۔۔۔!

تصنیف حیدر:اردو ادب کی جگہ یونی ورسٹیوں اور کالجوں میں نہیں ہے وہاں صرف مشینی طور پر لوگ تعلیم حاصل کرتے ہیں۔نصاب فہم پیدا نہیں کروا پاتا۔اس کی کیا وجہ ہے؟

عارفہ شہزاد:کیا صرف اردو ادب ہی کے ساتھ ایسا ہے؟ بالعموم ہمارا نظام تعلیم ایسا نہیں کہ فہم پیدا ہی نہیں ہوتا! اس میں کچھ قصور استاد کا بهی ہے استاد اچها ہو تو گهسے پٹے نصاب سے بهی طالبعلموں کے ذوق کو مہمیز لگا سکتا ہے اور فی الزمانہ ایسے مخلص استاد بہت کم ہیں۔پهر داخلہ پالیسی ۔۔۔جس کسی کو کہیں داخلہ نہیں ملتا وہ محض ڈگری کے حصول کی آرزو میں اردو ادب میں داخلہ لے لیتا ہے ایسے بے دلی سے آئے طالبعلموں کا اچها استاد بهی کچھ نہیں بگاڑ سکتا! رہی بات یہ کہ اردو ادب کی جگہ یونی ورسٹیوں اور کالجوں میں نہیں ۔۔۔تو کیالازما ان اداروں اور اسناد سے پرہیز کرنے والا ہی اچها ادیب ، اچها نقاد بن پائے گا۔۔۔ تو ایسا بهی نہیں ہے ۔۔۔! کہیں نہ کہیں تو کوئی سیکهنے سکهانے کا مربوط نظام بہر حال درکار ہوتا ہے تو کالج اور یونیورسٹیاں اس ابتدائی ضرورت کو تو پورا کر رہی ہیں ۔۔۔کہیں کم کہیں زیادہ۔

تصنیف حیدر:آپ کی شاعری محبوب کی بربادی پر کئی جگہ آمادہ نظر آتی ہے۔اس تیور کی کوئی مخصوص وجہ؟

عارفہ شہزاد:اس سوال پر میرا فوری ردعمل مسکراہٹ نہیں ایک قہقہہ تها۔۔۔کیا ضروری ہے کہ شاعری کے واحد غائب یا "تم" کے صیغے کو محبوب کے کهونٹے سے باندها جائے؟ یہ "تم"کوئی اور شخص نہیں ہو سکتا؟یہ کوئی گول مول جواب نہیں ہے ۔ کیا عورت دشمن دار نہیں ہو سکتی؟ تو پهر اس تیور کو محب اور محبوب کے کهانچے پر چڑها کر کیوں پرکها جائے!محبوب کو تو میں بہت سینت کر رکهنے کی قائل ہوں۔آپ نے کہا میری شاعری کئی جگہ اس تیور کی حامل ہے۔۔۔ساٹھ غزلوں میں چار شعر ایسے ہوں تو کیا اسے حاوی رویہ کہنا چاہیے؟ نظم تو ایک بهی اس تیور کی نہیں۔ آپ کے ذہن میں یہ سوال ابهرنے کی سادہ سی وجہ یہ ہےکہ ان دو چار اشعار میں تیکها پن اور شدت اتنی تهی کہ آپ چونکے اور آپ کو بهی یاد رہا۔رہی یہ بات کہ ایسا کیوں ہے تو جب نفرت ہے تو ہے!میرے مزاج میں سٹریٹ فاروڈنیس اور انتہاپسندی ہے سو تخلیق میں بهی نظر تو آئے گی!

تصنیف حیدر:نظم نگاری زیادہ پسند ہے آپ کو یا غزل گوئی؟ کیوں؟

عارفہ شہزاد: پسند ناپسند پر لکهتے ہوئے میرا اختیار نہیں ہوتا۔کبهی یہ سوچ کر کاغذ قلم نہیں اٹهایا کہ آج غزل لکهوں گی یا نظم کہوں گی۔ایک رو میں خیال آتا ہے اور اتنی شدت سے ہوتا ہے کہ بعض اوقات کاغذ قلم اٹهاتے تک ذہن سے محو ہو جاتا ہے۔جب سے موبائل فون کی سہولت میسر آئی ہے فورا ریکارڈ کر لیتی ہوں بعد میں سن کر ، لکھ کر دیکهتی ہوں کیا صنف ہے کیا ہئیت ہے۔ہاں طبعی میلان نظم کی طرف ہے ۔اس میلان کی تشکیل کی وجہ بهی بڑی دلچسپ ہے۔بچپن سے میری عادت ہے جو کتاب پڑهنے کو اٹهاتی ہوں پہلے آخر سے کهول کر پڑهتی ہوں ۔ٹین ایج سے جب تواتر سے شعری مجموعے مطالعے میں آئے تو ان کے ساتھ بهی یہی سلوک کیا۔تب جو مجموعے ہاتھ لگے ان کی ترتیب میں غزلیں پہلے اور نظمیں بعد میں تهیں۔میں عادتا نظمیں پہلے پڑھ لیتی اور غزلوں تک پہنچتے بور ہو جاتی اس لیے ایک طرف رکھ دیتی۔ہوتے ہوتے یوں ہونے لگا کہ شعری مجموعے میں نظمیں ہی ڈهونڈ کر پہلے پڑهنے لگی غزلیں خواہ آخر میں ہوتیں سو جب لکهنا شروع کیا تو ایک عرصے تک کچی پکی ہی سہی نظمیں ہی لکهیں ۔پہلی غزل بی اے کے دوران لکهی تهی اور زبردستی قافیے سامنے رکھ کر۔مگر اب ایسا نہیں ہوتا جہاں قافیہ سوچنا پڑے خیال کا سلسلہ ٹوٹ جاتا ہے اور میں مزید کہہ نہیں پاتی ۔دو چار اشعار کے بعد بس! اور پهر کسی دن خود ہی اس قافیے ردیف میں مزید اشعار خود ہی گونجتے ہیں اور غزل مکمل ہو جاتی ہے۔ اس تخلیقی تجربے کو سامنے رکھ کر آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ معاملہ میری ترجیحات کا ہے ہی نہیں۔

تصنیف حیدر: تنقید کی بے غیرتی، بے مروتی اور ڈهٹائی کو آپ کہاں تک مناسب خیال کرتی ہیں؟

عارفہ شہزاد:بے مروت بے شک ہو ، بے غیرت اور ڈهیٹ نہ ہو! کہنے کا مطلب یہ ہے لگی لپٹی کے بغیر اپنی رائے کا جراتمندانہ اظہار ہو خواہ کسی کا بت ٹوٹتا ہے تو ٹوٹے! مگر اس ملبے پر اپنا قد بڑا کرنے کی کوشش نہ ہو۔تنقید کا سارا کهیل دلیل کی بنیاد پر استوار ہوتا ہے۔کسی فن پارے پر اعتراض ہو تو ہوا میں تیر چلانے یا پهلجڑیاں چهوڑنے کا انداز نہیں چلتا۔تعریف بهی دلیل مانگتی ہے۔اپنے نقطئہ نظر کے لیے استدلال فراہم کرنا ہو گا آپ کو ۔اس ضمن میں مختلف علوم آپ کی دستگیری کرتے ہیں۔ان علوم سے روشنی حاصل کر کےآپ دلیل نہیں دے سکتے تو آپ کے نقاد ہونے پر مجهے شبہ ہے۔اپنی دلیل غلط ثابت ہونے پر اپنی رائے پر ڈٹے رہنا سراسر علمی بے غیرتی اور ڈهٹائی ہے۔تنقید نقاد کا جهنڈا گاڑنے کا نام نہیں یہ تخلیق کی تفہیم کا عمل ہے۔یہ کوشش درست سمت میں بهی ہو سکتی ہے اور غلط سمت میں بهی۔کسی اور کی دلیل مضبوط ہو تو اپنی غلطی تسلیم کر لینی چاہیے۔ تب ہی آپ تنقید کا منصب نبها سکتے ہیں ورنہ تنقید اور بڑک میں کیا فرق رہ جائے گا۔

تصنیف حیدر : آپ کی نسل میں کون سی ایسی شاعرہ ہے جسے آپ بہت زیادہ پسند کرتی ہیں اور کیوں؟

عارفہ شہزاد: ایک نہیں تین چارہیں۔گلناز کوثر، سدرہ سحر عمران، عنبرین صلاح الدین اور نینا عادل ۔معاملہ ڈپلومیسی کا نہیں ان شاعرات کی صلاحیتوں کو میں واقعی رشک کی نگاہ سے دیکهتی ہوں۔گلناز کوثر میں چهوٹی سی کیفیت کوفنی پختگی اور شدت کے ساتھ نظم میں ڈهالنے کی بے پناہ صلاحیت ہے۔ان کا ایک شعری مجموعہ چهپا ہے مگر فنی گرفت ایسی مضبوط ہے کہ ایک بهی نظم بهرتی کی نہیں، سدرہ سحرعمران جب نثری نظم میں تمثالیں تراشتی ہے اور جرات مندانہ سوال اٹهاتی ہے تو بہت متاثر کرتی ہےمگر کبهی بے معنی تجریدیت سے بور بهی کرتی ہے۔عروضی شکنجے میں کم کم سانس لے پاتی ہے۔عنبرین کے دو شعری مجموعے چهپے ہیں ۔دوسرے مجموعے کے بعد اس کی نظم زیادہ زیر بحث لائی گئی ہے مجهے بهی اس کی کئی ایک نظمیں اپنی فنی پختگی اور موضوع کی ٹریٹمنٹ کے اعتبار سے متاثر کرتی ہیں مگر اس کی غزل پر گرفت زیاده مضبوط ہے۔دوسرے مجموعے میں کوئی غزل ایسی نہیں جسے بهرتی کی کہا جا سکے۔ہر غزل سے کئی اشعار ایسے نکلتے ہیں جنہیں حاصل غزل کہنے کو جی چاہتا ہے۔نینا عادل کو کم کم پڑها مگر جب پڑها اس کی غزل اور نظم دونوں کا فنی رچاو اچها لگا۔

تصنیف حیدر:فیمینزم کے حوالے سے آپ کا نقطئہ نظر کیا ہے آپ اس کے حق میں ہیں یا خلاف؟

عارفہ شہزاد:جہاں تک عورت کی گهٹن ، معاشرتی جبر اور استحصال کے اظہار میں شعریت کو ملحوظ رکها جاتا ہے وہاں تک میں اس کے حق میں ہوں ۔جہاں یہ نعرہ بن جائے اور اپنے انداز سے اس کا تصنع جهلکنے لگے وہاں میں بهی کان لپیٹ لیتی ہوں کہ بی بی! لکهے جاو یہ شہرت زدہ ہذیان ہم تو سمیٹنے سے رہے! بات یہ ہے کہ تانیثیت کے رویے کو آپ یکسر کالعدم قرار نہیں دے سکتے۔یہ رویہ انسانوں ہی کے ایک گروہ کی نفسی واردات ہے تو اسے اس بنا پر رد کرنا کہ یہ عورت پن کا واویلا ہے کہاں تک درست ہے؟اگر عورت اپنے احساس کو تخلیقی تجربے میں ڈهالتی ہے تو قدغن کیوں؟ کیا محض خدا سے مکالمہ ، فرد کی تنہائی آفاقی مسائل ہیں؟عورت کی گهٹن آفاقی مسئلہ نہیں؟بیشتر مرد شعرا کے ہاں یہ موضوعات یہ فلسفیانہ مسائل روایت کے اخذواکتساب سے آئے ہیں۔کتنوں کا یہ واقعی ذہنی تجربہ ہے؟ عورت کم از کم اپنی بات تو کر رہی ہے تو پهر فیمینزم کا اظہار قابل نفرین کیوں؟ ایگزسٹنشلزم، سوشلزم اور ہر طرح کے دیگر "ازم" تو شاعری میں سمونے پر کوئی اعتراض نہہں اٹهتا۔بس تخلیقیت ملحوظ رہے تو کوئی بهی خاص زاویہ نظر شاعری میں آ بهی جائے تو کیا برا ہے ہاں نظریاتی کهینچ تان نہیں ہونی چاہیے!

تصنیف حیدر:انسان کونہایت عجیب وغریب جذباتی کیفیت میں مبتلا کر دینے والی تحریر ادبی ہی ہو کیا یہ ضروری ہے؟

عارفہ شہزاد:ادب کی بات کریں گے تو ادبیت تو لازم ہے مگر سوال یہ ہے کہ ادبیت کی تعریف آپ کے نزدیک کیا ہے ؟ کیا نک سک سے درست جملہ فنی لوازمات سے پر عبارت؟ یہی بات میں نے شعریت کے ضمن میں کی تهی آپ کسی خاص ڈکشن کو کسی خاص پیرایہ بیان کو موثر ترین قرار نہیں دے سکتے ۔ڈکشن کوئی ہو اس میں الفاظ کی بنت ، نشست و برخاست خاص اثر پیدا کرتی ہے یہ اثر ڈیفائنڈ بهی ہو سکتا ہے اور ان ڈیفائینڈ بهی جسے آپ عجیب وغریب نفسیاتی کیفیت کہہ رہے ہیں۔

تصنیف حیدر:ہندوستان میں لکهی جانے والی اردو تنقید اور شاعری کا مزاج کیا پاکستانی ادب سے بالکل مختلف ہے؟  

عارفہ شہزاد: دیکهیے زمینی حقائق ادبی مزاج پر اثر انداز تو ہوتے ہیں۔اس قسم کے موازنے کے لیے دونوں طرف کے ادب اور تنقید کا بالاستعیاب مطالعہ ہونا ضروری ہے۔ہندوستانی تنقیدی کتب پاکستان میں پهر بهی دستیاب ہیں تخلیقی کتب ڈهونڈے سے بهی نہیں ملتیں۔گنتی کے چند ہندوستانی ادیب اور نقاد پڑھ کر میں کیا تقابلی رائے دوں!

کوئی تبصرے نہیں:

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *