پیر، 26 جنوری، 2015

مونکا کمار کی نظمیں


یہ مونکا کمار کی نظمیں ہیں۔ان کی نظمیں میں نے اور بھی پڑھی ہیں۔قریب بیس بائیس تو پڑھی ہونگی، ان میں سے یہ پانچ نظمیں یہاں آپ کے مطالعے کے لیے پیش کررہا ہوں۔ ان نظموں کو پڑھتے وقت ہرگز یہ بات فراموش مت کیجیے گا کہ یہ نظمیں ہندی کی ایک نئی نسل کی شاعر کی ہیں۔ایسی شاعر، جس نے کچھ انوکھے خیالات کو جنم دینے اور بننے کی کوشش کی ہے۔ہندی کی نئی نسل میں اور بھی کچھ اہم نام ہیں، جیسے مہیش ورما، اویناش مشرا، سدھانشو فردوس، عنبر رنجناپانڈےاور شبھم شری وغیرہ۔ میں رفتہ رفتہ کوشش کرکے ان سب کو آپ سے متعارف کروائوں گا، یہ نظمیں ہندی کے نئے لہجوں اور سوچ وچار کے نئے طریقوں کو آپ پر نمایاں کریں گی۔ اس ہونہار بروا کے پات کتنے چکنے یا کتنے کھردرے ہیں، اس کا فیصلہ آپ کے مذاق شعر اور کسی بھی تخلیقی تجربے سے آپ کی اصل مرادکیا اس پر بھی منحصر ہے۔امید ہے کہ نظمیں پسند آئیں گی، اور ہمارے اہم ادیب ان  کے بارے میں کچھ نہ کچھ اظہار خیال کریں گے۔


پاسپورٹ

جب ملتے ہو
مسکرانے سے پہلے
میں دیکھتی ہوں
آنکھیں پوری ہیں
کان ثابت ہیں
پیٹھ سیدھی
تمہارے پاسپورٹ کی تصویر میں
تمہارے دل کی دھڑکن رکی ہوئی لگتی ہے

پاسپورٹ کی تصویر کو میں ہمیشہ کے لیے بھولنا چاہتی ہوں
تمہاری چھاتی پر زور سے لگی ہوئی سرکاری مہر
معاف کرنا!کوئی تمغہ نہیں لگتی

اپنے من کی باتیں میں گلہریوں سے کرتی ہوں
میں نے دیکھ ہے گلہریاں ہی ہیں
جنہیں میری باتوں میں کوئی دلچسپی نہیں ہے
انہیں دلچسپی ہے صرف روٹی کے ان ٹکڑوں میں
جو اسکول کے بچے اپنے ٹفن سے گراتے ہیں
دن بھر کودوپھاندو اور کرو انتظار
کوئی ضروری نہیں اطمینان سے بیٹھ کر باتیں کرنا
بس اپنی پونچھ کو سنبھالو
پیڑوں پر چڑھتے ہوئے

چونکہ پاسپورٹ
ویزا آنے والا ہے
چٹھی لکھنے کا وعدہ مت کرنا
میں لکھوں گی اک فریاد
تمہارے جانے کے فورا بعد
ملنا ہو ہمیں اگر پھر کبھی
تم بن جائو میں
اور میں بن جائوں گلہری
 
تربوز دیکھنا
وسعت کا میرا پہلا تجربہ ہے
تربوز دیکھنا
میں اندازے سے کہہ پاتی ہوں
کتنا ہے پیار تم سے
ہاتھ بھر
سمندر جیسے
ذرا بھی نہیں
اندازہ نہیں رہتا
تربوز دیکھتے ہوئے
کتنا ہوگا گدگدا
لال
اور کیسے سجی ہونگی ڈھیروں آنکھیں تابوت میں
تم ضد پر اڑے رہے
دھرتی ہے سنترے سی گول
نہیں مانا تم نے
یہ ہوسکتا ہے کہ تربوز جیسی ہو
خیر!!
میں نےجھوٹ کہا تم سے
اندازے سے کہہ پاتی ہوں
کتنا ہے پیار تم سے
سارے اندازے میری بھاشا کی ناکامی ہیں
مجھے چاہیے کچھ فجائیہ علامتیں!
اورپاگل پن کے اسباب
جو کرتے ہیں ناکامیوں کا
بہترین ترجمہ
قامت دل
آتما کو بنایا گیا
تاکہ اس کے کلیان کے لیے
بے خبری کے ڈھونگ کا سبب گڑھاجاسکے
بے خبری وجود کے کسی بے شکل حصے پرنہیں
سیدھا دل پر وار کرتی ہے
ہر بارکی دھتکار سے
ہمارے دل کاقد چھوٹا ہوجاتاہے
ایک دن یہ اتنا چھوٹا ہوجاتا ہے
جیسے رائی کا دانہ
رائی کا دانہ اتنا چھوٹا ہوتا ہے
جیسے ہے ہی نہیں
لہٰذا چمچ بھر ڈالنے کی صلاح دیتی ہیں چاچیاں
جنہوں نے صدیوں پہلے جان لیا تھا
کہ وہ بے خبری کے اس ڈھونگ کو برداشت کرتے ہوئے بھی
ارہر کی دال میں ذائقہ بھر دیں گی
وہ آتما کوایجادکرنے کے خلاف لڑتے ہوئے
ساری عمر زبان کے لیے
لذت کو ایجاد کرتی رہتی ہیں
محبت کی پیشکش کے دفاع میں
تمہیں دینے کے لیے
میرے پاس رائی کے دانے جیسا دل ہے
یہ تم دیکھو
اتنا چھوٹا دل کیا واقعی کافی ہوگا
محبت کے لیے

شاعر کب خوبصورت لگتے ہیں

شاعر نہیں لگتے سب سے خوبصورت
استغراقی کیفیت میں
لکھتے ہوئے سیلف پورٹریٹ
سٹڈی ٹیبل پر
بتیاتے ہوئے محبوب سے
گاتے ہوئے جوشیلے نغمے
کرتے ہوئے تاناشاہوں پر طنز
سوچتے ہوئے پھولوں پر نظمیں
وہ سب سے خوبصورت لگتے ہیں
جب وہ بات کرتے ہیں
اپنے پسندیدہ شاعروں کے بارے میں
پسندیدہ شاعروں کی بات کرتے ہوئے
ان کے بارے میں لکھتے ہوئے
چمک جاتا ہے ان کا چہرہ
پھوٹتا ہے چشمہ آنکھوں سے
ہتھیلی گھومتی ہوئی
انگلیوں کو امید کی طرح اٹھائے
وہی پل ہے
جب لگتا ہے
شاعر یتیم نہیں ہے

وغیرہ

وغیرہ ہے میری نظم کا موضوع
جس کو درج کرنے کے لیے
میں نے بھی چٹھیوں میں لکھا ہے 'ساتھ محبت کے وغیرہ'
اور نظموں میں بغیر کسی محبوب یا محبت کے
سفرنامے میں لکھا ایک اندیکھا شہر
اس کے بڑے بڑے پل، اتنی ہی خوبصورت ندیاں
گائوں کی سڑکیں اور چھپر چھوڑ دیے نظموں میں
گلے کی خراش بانٹی مجالس میں
اور کھانسی کی آواز اتاردی نظم میں

رام شام وغیرہ میں کون ہے وغیرہ
کہاں ہیں یہ دوسرے مرد؟
دوسرے مرد!تمہارا سواگت ہے میری نظم میں
براجو یہاں رام شام وغیرہ سنگ

چاول بین کر بنی کھچڑی
کنکر وغیرہ سے نظمیں
سوئیٹر سے ادھڑ گئے پھندوں سے بنی گئی نظم
کھو گئی جو کان کی بالی وہ پدھاری ہے یہاں

وغیرہ میں تھی اصل بات
اس کی خموشی میں تھا کتھا ساگر
وغیرہ میں ہیں وہ سب لوگ
بھیڑ میں جن کے صرف سر دکھتے ہیں
وغیرہ کی خاموشی سے سب ڈرتے ہیں
وغیرہ بھی ڈرتا ہے بولنے سے
میرے اندر رہتا ہے'وغیرہ'
اکثر سویا رہتا ہے
جب جب لیتا ہے کروٹ
میں ایک نظم لکھتی ہوں
چنتی ہوں وہ لفظ
جو وغیرہ میں پوشیدہ رہتے ہیں
۔۔۔۔۔

1 تبصرہ:

anwerjawaid53 کہا...

بے خبری کے ڈھونگ کا سبب گڑھاجاسکے

Gadhdha ya GaRhha [hole] yehan imla kia gaya jb k ascl mei yei GhaRhna [mn chahi bat khd sakhta] hey
mumkin hy ye Typo ho ya Tasneef k zehn mei Pani ka maTka ho uss ko bhi GhaRha kaha jata hey Naan. Monika Kumar ki ein muntakheb nazmouN mei aik terhah ki be sakhtagi aour baat ker skney ki maharat numayaN hey.Windows ki hey Urdu option ser e dast nahi eis liey Roman mei raiey per muazeret..Syed Anwer Jawaid Hashmi,,Karachi

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *