جمعرات، 12 فروری، 2015

تصور جدیدیت پر ایک سوال


حالانکہ میرا مطالعہ بہت نحیف اور میری نظر بہت کمزور ہے۔ مگر کچھ سوالات جو میرے ذہن میں آرہے ہیں، سوچتا ہوں کہ سوچنے والوں کے حوالے کردوں! اس تحریر کا اصلی مقصد تو یہی ہے، باقی کوئی اپنی سی جو کہنا چاہے کہہ سکتا ہے۔جدیدیت کے حوالے سے میں جب بھی اردو کے نقادوں کا مطالعہ کرتا ہوں تو ایک خاص قسم کی کشمکش کو دیکھتا ہوں، جدید شاعری یا جدید شعریات کا تصور ہمارے یہاں مختلف ناقدین کے یہاں مختلف ہے۔بالکل ویسا ہی کنفیوزن جیسا کہ ترقی پسند نقادوں میں تھا، وزیر آغا، شمس الرحمٰن فاروقی، شمیم حنفی، عمیق حنفی، سلیم احمد وغیرہ وغیرہ۔کوئی کہہ رہا ہے کہ جدیدیت فرد کو وہ لکھنے کی آزادی دیتی ہے، جو وہ لکھنا چاہتا ہے، دوسری طرف سے آواز آرہی ہے کہ معاشی جبر کے خلاف اندرون کی آواز کا اظہار دراصل جدیدیت ہے، ایک کا زور اس بات پر ہے کہ جدیدیت روایت کی بازیافت کا نام ہے تو دوسرے کا نکتہ یہ ہے کہ جدیدیت فرد کی تنہائی، نئے شہروں اور ان میں بسائی جانے والی زندگی سے اکتاہٹ پر مامور ہے۔اس کے لیے ہر ناقدجاتا ہے اور دوڑ کر مغرب کے کسی نقاد کا فقرہ یا سطریں اٹھا کر لے آتا ہے، ہمارے سامنے رکھتا ہے، پھر اللہ اللہ خیر صلا۔مجھے پوچھنا ہے کہ اگر جدیدیت یہی ہے تو ترقی پسندی کو میں جدیدیت کیوں نہ کہوں کہ وہاں بھی فرد (خواہ وہ مزدور ہو)ایک زبردست قسم کے معاشی جبر کا شکار ہے، جدیدیت نے بھی میرے خیال میں تو کسی رئیس زادے کی کتھا نہیں سنائی کیونکہ نئی زندگی میں فٹ نہ ہوپانا، بڑے بڑے دالان، صحن اور خوابگاہوں کے عوض میں چھوٹے بڑے فلیٹوں میں خود کو ایڈجسٹ نہ کرپانایہ تو متوسط یا غریب قسم کے کسی آدمی کی ذہنی پریشانی یا طرز زندگی کو اجاگر کرتے ہیں۔سلیم احمد نے وزیر آغا کی کتاب 'اردو شاعری کا مزاج'پر تنقید کرتے ہوئے لکھا تھا کہ یہ شاعر کا باہر کے کسی آدمی سے خطاب کرنا ان کی سمجھ سے باہر ہے کیونکہ انسانی خیالات کو بازار میں بیٹھ کر اونچے داموں میں فروخت کرنا دراصل ترقی پسندوں کا کام ہے، جدیدیت کا نہیں۔وہ وزیر آغا کی اس بات سے تو مطمئین تھے کہ اندر کا ایک آدمی اندر ہی موجود دوسرے آدمی تک اپنی ذات کی ترسیل کا ذریعہ بنتا ہے۔لیکن اس جملے کی طلسمی تاثیر سے قطع نظر کیا اس کی کوئی حقیقت ہے بھی؟بدلتے ہوئے شہروں میں خود کو فٹ کرلینے یا بدلتی ہوئی زندگی کو وقت کی عین ضرورت مان کر فرد کو ترقی کے ایک نئے زاویے سے تعبیر کرنا جدید ہونا چاہیے، مگر یہاں تو بات الٹی ہے، مجھے کہنے دیجیے کہ غالب تو جدیدیوں سے بھی زیادہ جدید تھا، سرسید بھی اور حالی صاحب بھی۔خیر یہ تو جدیدیت کو گھول کر پی لینے والے ہمارے اہم ناقدین بتاپائیں گے کہ بیٹا جدیدیت وہ نہیں ہے جو آپ سمجھ رہے ہیں، آپ بھٹک رہے ہیں، مگر ان کی اونچی اونچی فلسفیانہ تعبیریں، تخلیقی تاریخ پر اثر انداز نہیں ہوتیں، وہ لوگ جنہوں نے جدیدیت کے ابتدائی دور میں نئی نئی شاعری کی یا افسانے لکھے انہوں نے تو مذکورہ بالا فکر کو محرک کے طور پر استعمال کیا تو سوال یہ پیدا ہوا کہ جب ہر دور ایک خاص قسم کی تخلیقی شعریات وضع کرتا ہے تو کون مائی کا لال یہ کہہ سکتا ہے کہ ہم لکھنے والے ایک شعوری طور پر پیدا کی جانے والی تخلیقی رو کے غلام نہیں۔ظفر اقبال پر افتخار جالب کا مضمون پڑھتے ہوئے مجھے اس بات کا احساس ہوا کہ جدیدیت کے نام پر ہمارے یہاں سب سے بڑااختراعی ذہن اگر کوئی پیدا ہوا تو وہ ظفر اقبال تھا، مگر ظفر اقبال کا بڑا کنٹری بیوشن کیا ہے، کیا شاعری میں سے پنکچوئیشنز کو ہٹا کر، گلاب کو اگلاب، فتور کو افتور اور دوسرے بہت سے پرانے تلفظات کو بدل کر نئے تلفظات پیدا کرنایا نئے تلفظات کو رائج کرنا جدیدیت کا سب سے بڑا کنٹریبویشن ہے تو پھر مجھے کہنے دیجیے کہ آپ دھوکا کھا گئے،شاعری زبان کی ماں ہے۔کس طرح، اس جملے پرغور کیجیے۔وہ شاعری جو کسی بھی تہذیبی، مذہبی، روایتی، سماجی اور سیاسی تاریخ یا واقعے کو ایک فکر میں ڈھال کر نئے محاورے یا کہاوتیں تخلیق نہ کرپائے، شاید غیر ضروری ہے۔کیا آپ نے کبھی غور کیا، میرا خیال ہے کیا ہوگا کہ ظفر اقبال کی شاعری ہمیں یاد کیوں نہیں رہتی، اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم جس شاعرانہ مزاج کی تربیت پچھلے سات سو سالوں سے کرتے آتے تھے، جدیدیت کے نقلی تصور نے زبان کے ظاہر ڈھانچے کو تبدیل کرنے کی غلطی سے اسے بہت نقصان پہنچایا ہے۔ایک مثال جو افتخار جالب نے ہی مجھے فراہم کرائی ہے، وہ یہ ہے کہ ہم مرنے کے لیے 'دارفانی سے کوچ'کرجانے کا محاورہ استعامل کرتے ہیں، اس کے پیچھے ایک پورا مذہبی پس منظر ہے، یعنی انسان مرتا ہے تو دار فانی سے دار باقی کی طرف سفر کرتا ہے، یعنی وہ مرا نہیں ، موت کو اس نے ایک ماندگی کے وقفے سے تعبیر کیا ہے، مجھے بتائیے کیا ہم نے جدیدیت کے صحیح تصور کو سمجھتے یا قبول کرتے ہوئے، نئی سائنسی، سماجی، معاشی اور ذہنی تبدیلیوں کے لیے کسی ایسی روزمرہ کو جنم دیاہے ، جو ہمارے تخلیقی پروسز کو کامیاب کرنے میں مددگار ہو، اگر نہیں تو جدیدیت کی بہتی ہوئی اس الٹی گنگا کا تصور بے کارہے،نئے لفظ بنانایا نئے تلفظات کو رائج کرنا اور وہ بھی بغیر کسی ایسے ارتقا کے جس میں تخلیقی روایت کا کنٹربیوشن بھی نہ ہو اور بلکہ اسے رد کیا گیا ہو، ہمارے لیے ایک بڑا مسئلہ ہے،میری باتوں سے یہ نہ سمجھیے کہ میں ظفر اقبال کے سارے تخلیقی عمل یا دورانیے پر سوالیہ نشان قائم کررہا ہوں، ظفر اقبال نے تو جدیدیت کے اس تصور کو نظر میں رکھتے ہوئے یہ بڑی تبدیلیاں شاعری میں روا رکھی تھیں، جو کہ مغرب سے سیدھی ہماری زمین پر اتری تھیں،مگر اردو کو کیا واقعی ایسی جدیدیت کی ضرورت تھی، بات اس پر ہونی چاہیے، اور اس پر بھی کہ ہم جدیدیت کو سمجھ بھی پائے یا نہیں؟


مضمون نگار: تصنیف حیدر

کوئی تبصرے نہیں:

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *