پیر، 2 فروری، 2015

ظفر اقبال سے دس سوالات

ظفر اقبال کے بارے میں عام طور پر جن خیالات کا اظہار ہم اپنی گفتگوؤں، تحریروں اور مذاکروں میں کرتے ہیں، ان میں سے بہت سی ایسی باتیں ہیں جو خاصی نزاعی رہ چکی ہیں، نزاعی اس لیے ہیں کہ ظفر اقبال کی شخصیت ان کی شاعری ہی کی طرح بہت بڑے کینوس پر پھیلی ہوئی ہے، اور بہت سی باتیں اس لمبے عہد میں تردید، تشکیک اور تضاد کا شکارہوئی ہیں۔ایک دفعہ ہمارے ایک دوست پراگ اگروال نے یہ قصہ سنایا تھا کہ محمد علوی کی جب انہوں نے ظفر اقبال سے فون پر بات کروائی توباتوں باتوں میں دونوں کی ضعیفی کا ذکر بھی آیا، ظفر اقبال نے بتایا کہ اب انہوں نے لوگوں سے ملنا جلنا، پروگراموں میں جانایا اسی طرح کی مصروفیات سے ہاتھ اٹھالیا ہے اور اس کا سبب یہ ہے کہ ان کے گھٹنوں میں بھی درد رہتا ہے اور وہ زیادہ چلنے پھرنے سے پرہیز کرتے ہیں۔علوی نے جواباً کہا کہ ارے یار! مجھے دیکھو، میں تو تم سے عمر میں بڑا ہوں، مگر ہٹا کٹا ہوں، لوگوں سے ملتا ملاتا بھی ہوں، تقریبات میں بھی جاتا ہوں، اس پر ظفر اقبال نے ہنستے ہوئے بس اتنا کہا کہ’ میں نے استعمال بھی تو اپنے آپ کو تم سے زیادہ کیا ہے۔‘بات حالانکہ مذاق میں کہی گئی تھی مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ ظفر اقبال نے خود کو اپنے تمام معاصرین کے مقابلے میں سب سے زیادہ ادبی و شعری خدمات کے لیے وقف کیا ہے۔ان سوالات کے جواب انہوں نے ہاتھوں میں فریکچر ہونے کے باوجود دیے ہیں، اس کے لیے میں ان کا شکر گزار ہوں اور عارفہ شہزاد کا بھی، جن کے بغیر آپ تک یہ انٹرویو پیش کرنے میں شاید مجھے بڑی دقتوں کا سامنا کرنا پڑتا۔امید ہے کہ اس مختصر انٹرویو سے ظفر صاحب کی شخصیت اور ان کے خیالات کو سمجھنے اور جاننے میں مدد ملے گی۔

تصنیف حیدر:غزل کے نئے تجربات کا ظہور کیا آپ کے بعد غیر ممکن ہے؟اگر غزل واقعی نئی ہونی چاہتی ہے تو اس میں کون سے جدید تخلیقی امکانات کی موجودگی ضروری ہے؟

ظفراقبال: جہاں تک نئے تجربات کا تعلق ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ میں نے اپنے حصے کا کام کردیا ہے، برا ہے یا بھلا، نیز جو تجربے میں نے کیے ہیں زیادہ تر زبان کے حوالے سے تھے اور مجھے ان کی ضرورت بھی تھی۔اگر کسی اور کو ضرورت ہوئی تو وہ بھی کرے گا کہ ضرورت ایجاد کی ماں ہے۔نیز میں نے غزل کا ماحول تبدیل کرنے کی کوشش کی ہے، جس سے اس کا کینوس وسیع بھی ہوا ہے۔جوں جوں وقت گزرتا ہے غزل میں نئے تخلیقی امکانات کا ظہور خود ہی ہوتا رہتا ہے۔میں نے ایک بار لکھا تھا کہ بقول ڈاکٹر انیس ناگی غزل میں نئی مابعد الطبیعات وضع کرنے کی ضرورت ہے۔شاید یہ کام بھی کوئی کرڈالے۔

تصنیف حیدر:کلاسیکل شاعری کا مبالغہ آمیز کلام، جس کی حالی نے مخالفت کی تھی، آپ بھی اس کو برا بھلا کہتے ہیں ، تو کیا شعر میں سچ، جھوٹ ہی سب کچھ ہوتا ہے، مشکل الفاظ والے یا مبالغہ آمیز اشعار جن میں بلاغت کا زبردست حسن ہو، انہیں خارج یا متروک کردینا چاہیے؟

ظفراقبال:مبالغہ تو شاعری کی جان ہے لیکن جب یہ مبالغہ حد سے بڑھ جائے تو شعر مضحک ہوجاتا ہے۔اسی حوالے سے میں نے غالب کی مزاحیہ شاعری کے حوالے سے ایک مضمون بھی لکھ رکھا ہے۔گویا شعر میں مبالغہ ایک حد تک ہی اچھا لگتا ہے۔

تصنیف حیدر:آپ اس وقت اردو غزل کے سب سے اہم شاعر ہیں، آپ کے اسلوب اور طریق کار کا اثر نئی غزل کے بہت سے شاعروں پر نظر آتا ہے، مگر شمس الرحمٰن فاروقی کا کہنا ہے کہ آپ اپنے وقت کی اچھی شاعری کرچکے ہیں، اب آپ جو کچھ لکھ رہے ہیں، اس میں کچھ خاص نہیں۔اس بات سے آپ کتنا اتفاق و اختلاف رکھتے ہیں؟

ظفراقبال:میرے دوست شمس الرحمٰن فاروقی جب سے میرے ساتھ ناراض ہوئے ہیں ، اسی طرح کے فتوے جاری کرتے رہتے ہیں۔ایک جگہ انہوں نے لکھا ہے کہ ظفر اقبال کی شاعری کا ایک حصہ باقی رہ جائے گا۔حالانکہ یہ بات ہر قابل ذکر یا بڑے سے بڑے شاعر کے بارے میں بھی کہی جاسکتی ہے۔میں اگر اچھی شاعری کرچکا ہوں جو میرے تیس مجموعوں پر مشتمل ہے تو فاروقی ابھی اور مجھ سے کتنی اچھی شاعری کروانا چاہتے ہیں؟نیز ، اگر وہ اس بیان پر بھی قائم ہیں تو غنیمت ہے ورنہ میرے کبھی اچھا شاعر ہونے کے بیان سے بھی رجوع کرجائیں۔

تصنیف حیدر:تنقید اور نقاد کو غیر اہم کہنے کے باوجود آپ کی کلیات پر ناقدین یا ادیبوں کے تنقیدی مضامین کا آپ کے پاس کیا جواز ہے؟

ظفر اقبال:میں نقاد کو غیر اہم اس لیے کہتا ہوں کہ وہ بالعموم جانبدار ہے۔خود برادرم شمس الرحمٰن فاروقی ایک انٹرویو میں کہہ چکے ہیں کہ رائے دینے سے پہلے ہم دیکھتے ہیں کہ یہ کس کا آدمی ہے؟جبکہ محبی گوپی چند نارنگ کا کہنا ہے کہ نقاد کی سلیٹ صاف نہیں ہوتی کیونکہ اس کی اپنی ترجیحات ہوتی ہیں اس لیے اس سے بے لوث اور غیر جانبداری کی توقع نہیں کی جاسکتی۔انہوں نے ایک جگہ یہ بھی کہہ رکھا ہے کہ تنقید ادب سینے کاناسور ہے۔

تصنیف حیدر:پاکستان میں لکھی جارہی نثری نظم نے غزل کا گلا تقریباً گھونٹ دیا ہے، اب غزل ایک سنجیدہ اور تشفی بخش ذریعۂ اظہار کی اہمیت کھوتی جارہی ہے، آپ کیا اس بات سے اتفاق کرتے ہیں؟

ظفر اقبال:غزل اور نثری نظم کا کوئی تنازعہ یا مقابلہ نہیں ہے۔دونوں اپنے اپنے دائرۂ کار میں رہتے ہوئے اپنا اپنا کردار ادا کررہی ہیں۔نثری نظم کو اگر اب خداخدا کرکے ایک اعتراف حاصل ہوا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس نے غزل کا گلا گھونٹ دیا ہے نہ غزل کا گلا گھونٹنا ممکن ہے۔آج بھی شاعری کا سب سے زیادہ ٹیلنٹ غزل ہی کو زیب دے رہا ہے جبکہ غزل اس قدر متمول اور پر اعتماد ہے کہ اس نے نظم یا نثری نظم کے خلاف کبھی کسی تعصب کا اظہار نہیں کیا کیونکہ اسے اس کی ضرورت ہی نہیں ہے۔غزل کا کمال یہ ہے کہ اس کا ہر شعر دو مصرعوں کی مکمل نظم ہے جبکہ دنیا اختصار کی طرف جارہی ہے۔نظم اور نثری نظم دونوں میں یہ بات نہیں ہے۔غزل آپ کے جذبات اور وجدان سے براہ راست مخاطب ہوتی ہے اور معاملات دل اس کا اساسی موضوع ہے۔دنیا میں جب تک محبت ہوتی یا کی جاتی رہے گی، غزل بھی کہی جاتی رہے گی۔

تصنیف حیدر:کیا نئے اچھی غزل کہنے والے آپ کو خوفزدہ کرتے ہیں یا آپ نئے لکھنے والوں کی غزلیں دیکھ کر خوش ہوتے ہیں، اپنے مرتبے کو قائم رکھنے اور اس کی گردان کرتے رہنے کی خواہش کے تعلق سے آپ کو بہت بدنام کیا گیا ہے، کیا واقعی اس میں کچھ سچائی ہے یا یہ محض ایک الزام ہے؟

ظفر اقبال:میں نے نئی اور اچھی غزل کہنے والوں کو ہمیشہ پروموٹ کیا ہے اور یہ کام میں گزشتہ چالیس سال سے کررہا ہوں جبکہ کوئی اور سینئر غزل گو یہ کام نہیں کرتا۔اسی سے ثابت ہے کہ میں نئے غزل گوؤں کی چیزیں دیکھ کر خوش ہوتا ہوں یا خوفزدہ۔جہاں تک اپنے مرتبے کو قائم رکھنے کی گردان کا تعلق ہے تو فاروقی جب ایک بات کہہ کر مکر گئے تھے تو یہ انہیں چھیڑنے کا ایک بہانہ تھا ورنہ بقول شہزاد احمد میں تو رد تعلی کا شاعر ہوں اور میری ساری شاعری میں تعلی کا کوئی شعر ڈھونڈنے سے ہی ملے گا بلکہ میں تو سیلف پیروڈائزیشن کا قائل ہوں اور میری شاعری جابجا اسی کی مظہربھی ہے۔باقی جہاں تک مقام اور مرتبے کا تعلق ہے یہ نہ کسی کا مرہون منت ہے اور نہ ہی کسی کے کہنے سے کم یا زیادہ ہوسکتا ہے۔اور جسے اس میں کوئی شک ہو میری شاعری اس کے سامنے ہے۔خود یہ الزام ہی اس قدر مضحکہ خیز اور ماورائے حقیقت ہے کہ اس کی تردید کرنے کی بھی ضرورت نہیں کیونکہ میں تو خود شروع سے اپنا انکار ہی کرتا چلا آیا ہوں۔

تصنیف حیدر:آپ کے نزدیک اس وقت ہندوستان اور پاکستان میں زیادہ بہتر شاعری کہاں کی جارہی ہے اور کیوں؟

ظفراقبال:شاعری تو ہمیشہ سے ہوتی چلی آرہی ہے۔اچھی اور بڑی شاعری کا فیصلہ میں کیسے کرسکتا ہوں کہ یہ تو نقاد حضرات ہی کا کام ہے اگرچہ ان کی بات کم کم ہی قابل اعتبار ہوتی ہے۔قصہ مختصر ، مجھ سے سبھی اچھے ہیں۔

تصنیف حیدر:آپ ایک اہم غزل گو شاعر ہیں، فاروقی نے کبھی آپ کو غالب کے ہم پلہ یا اس سے بڑا شاعر ثابت کرنے کی کوشش کی یا نہیں، اس سے کیا فرق پڑتا ہے، آپ اتنی سی بات پر قرآن کی قسمین کھانے یا کھلوانے پر کیوں تلے ہوئے تھے، کیا غالب کے ہم پلہ یا ان سے بڑے شاعر ہونے کے لیے فاروقی کی رائے سند کا درجہ رکھتی ہے؟

ظفر اقبال:فاروقی موڈ کے آدمی ہیں، ان کا موڈ ٹھیک ہو تو میں غالب سے بڑا شاعر ہوں اور اگر وہ مجھ سے ناراض ہوں تو میں کچھ بھی نہیں ہوں۔وہ ایک بات کہہ کر مکر گئے ہیں حالانکہ وہ کہہ سکتے تھے کہ میں کبھی ایسا سمجھتا تھا لیکن اب نہیں۔میں یہ بھی لکھ چکا ہوں کہ فاروقی میرے لیے سند کی حیثیت نہیں رکھتے اور ان کے کہنے سے میں غالب سے بڑا شاعر نہیں ہوسکتا۔میں تو اپنے آپ کو غالب کی خاک پا کے برابر بھی نہیں سمجھتا جس کی انگلی پکڑ کر میں نے قدم قدم چلنا شروع کیا۔اب جب فاروقی مکر گئے ہیں تو میں نے چیلنج کیا تھا کہ کوئی وہاں اگر اس سوال میں دلچسپی رکھتا ہو تو وہ فاروقی کے سر پر قرآن رکھ کر پوچھے کہ کیا انہوں نے ایک ریڈیو ٹاک میں یہ بات نہیں کہی تھی؟اس سلسلے کی دلچسپ بات یہ ہے کہ یہاں یہ بات کافی عرصے سے چل رہی تھی لیکن فاروقی اس پر خاموش رہے اور تردید بھی انہوں نے کئی سال بعد جاکر کی ، حالانکہ یہ بات مری اور محبی انتظار حسین کی تحریروں میں بھی چل رہی تھی جو کراچی کے رسالہ دنیا زاد میں چھپتی بھی رہی ، جس میں فاروقی بھی مسلسل چھپ رہے تھے۔

تصنیف حیدر:بطور کالم نگار اگر آپ کی اہم خدمات کو آپ کے منہ سے کوئی جاننا چاہے تو آپ کیا کہیں گے؟

ظفراقبال:اپنی کالم نگاری کے بارے میں بھی وہی رائے ہے جو میری اپنی شاعری کے بارے میں ہے، میں اپنے مضمون بعنوان’ہم کو شاعر نہ کہو میر’،مطبوعہ ’لاتنقید‘کلیات نثر جلد اول میں لکھ چکا ہوں کہ یار لوگ خواہ مخواہ فکر مند ہورہے ہیں۔میں تو اپنے آپ کو شاعر سمجھتا ہی نہیں۔میں تو اس کوچے میں محض سیر سپاٹا ہی کرنے آیا ہوں۔

تصنیف حیدر:کیا گل آفتاب آپ کا سب سے اچھا شعری مجموعہ ہے؟کیوں؟

ظفر اقبال:یہ بتانا بھی مرا کام نہیں ہے بلکہ یہ بات آپ فاروقی صاحب سے پوچھیں جنہوں نے کبھی لکھا تھا کہ گلآفتاب ، دیوان غالب کی شاعت کے بعد تہلکہ خیز ترین کتاب آئی ہے۔اگرچہ وہ یہ بات لکھ کہہ چکے ہیں لیکن انہیں حق حق پہنچتا ہے کہ اپنے اس بیان سے بھی رجوع کرلیں کیونکہ نقاد کو یہ
حق ہر وقت حاصل رہتا ہے ۔میں یہ بات بھی لکھ چکا ہوں کہ ہوسکتا ہے کسی سہانی صبح کو میں اپنی ساری شاعری منسوخ قرار دے دوں۔

1 تبصرہ:

Razi Shahab کہا...

مختصر مگر دلچسپ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تشنگی باقی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *