جمعہ، 22 مئی، 2015

زندہ/مردہ(باد)

مارک ٹوئن کا اصل نام سیموئل لینگون کلیمنزتھا، وہ 1835 میں فلوریڈا، مسوری، امریکہ میں پیدا ہوئے اور 1910میں کنیکٹیکٹ میں ان کا انتقال ہوا۔ بارہ سال کی عمر میں اپنی تعلیم کا سلسلہ ذمہ داریوں کی وجہ سے منقطع کرنا پڑاچنانچہ مارک ٹوئن نے اسکول چھوڑ دیا اور اسٹیم بوٹ پائلٹ، جرنی مین اور سپاہی کے فرائض مختلف اوقات میں اد ا کیے مگر اپنی تحریروں سےخاص طور پر مارک نے اچھی خاصی رقم کمائی اور کچھ کاموں میں بغیر سوچے سمجھے رقم لگانے کی وجہ سے انہیں بہت سے معاشی مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑا۔1870 میں اولیویالینگرون نام کی ایک عورت سے ان کی شادی ہوئ جو کہ 1904 تک ان کی رفیق حیات رہیں اور پھر انتقال کرگئیں۔مارک ٹوئن نے اپنی زندگی میں سخت مذہبی رویوں پر زبردست تنقید کی ہے، مثال کے طور پر انہوں نے ایک جگہ لکھا ہے کہ 'عقیدہ اس بات کو مانتے رہنے کا نام ہے، جس کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ اس کا کوئی وجود نہیں ہے۔'اسی طرح انہوں نے ایک اور جگہ لکھا کہ'اگر عیسی مسیح آج ہمارے درمیان ہوتے تو بالضرور وہ تو بالکل نہ ہوتے جو ہم ہیں۔۔۔یعنی مسیحی!'مارک ٹوئن کی درج ذیل کہانی Party cries in Irelandکا ترجمہ ہے۔ حالانکہ یہ کہانی بے حد مختصر ہے لیکن مارک ٹوئن کے مذہب، سماج اور لوگوں کی اندھی عقیدت کے بارے میں خیالات کونمایاں کرنے میں کامیاب ہے۔
...

بیلفاسٹ ایک مذہبی شهر ہے، جو کہا جاسکتا ہے کہ پورے شمالی آئرلینڈ میں آباد ہے۔یہاں آباد لوگوں میں سے آدھے پروٹسٹنٹ ہیں اور آدھے کیتھولک۔ہر فرقہ کو اپنے مذہبی اصولوں کی تبلیغ کرنے کی آزادی حاصل ہے، ہر بار ان کی تقاریر کو شدید اشتیاق کے ساتھ سنا جاتا ہے۔ایک ہفتہ قبل، اک بڑی تعداد میں کیتھولک لوگ ایک نئے چرچ کی بنیاد ڈالنے کی غرض سے آرمغ نامی جگہ پر جمع ہوئے۔مگر جب انہوں نے واپس گھر کی راہ لی تو راستے میں ہی ان پر حلیم و نیک طبع پروٹسٹنٹس نے پتھروں سے حملہ کردیا، یہاں تک کہ وہ تمام راستہ خون سے لبالب بھر گیا۔مجھے لگتا تھا کہ صرف کیتھولک ہی تشدد کی اس زبان میں بات کرنا جانتے ہیں مگر اب معلوم ہوا کہ یہ میری بہت بڑی غلط فہمی تھی۔
فرقے کا ہر آدمی مبلغ بنا ہوا ہے اور لعنت و ملامت کی ایک اینٹ ہاتھ میں اٹھائے پھر رہا ہے۔قانون نے اس پر لگام کسنے کی بہت کوشش کی مگر مکمل کامیابی کبھی نہیں ملی۔آخر کار فیصلہ ہوا کہ اس طرح کی فرقہ پرستی کو برداشت نہیں کیا جائے گااور جو لوگ بھی اس طرح کی حرکت میں ملوث پائے گئے انہیں چالیس شلنگ کا جرمانہ ادا کرنا ہوگا۔پولس روزانہ اس کی رپورٹ جمع کرے اور کوئی نگراں ان ریکارڈز کا جائزہ لے ۔پچھلے ہفتے ایک بارہ سال کی لڑکی پربھری سڑک پر چلا چلا کر اپنے پروٹسٹنٹ ہونے کا اعلان کرنے کے عوض اسی قسم کا جرمانہ عائد ہوا۔’پوپ مردہ باد’ یا ’پروٹسٹنٹ مردہ باد‘ اب دونوں جانب کے شدت پسندوں کاایک عام نعرہ بن گئے تھے ۔
بیلفاسٹ کا ایک مقامی لطیفہ اس معاملے میں سننے سے تعلق رکھتا ہے۔یہ پولس اور اسی قسم کے مذہبی نعروں اور چالیس شلنگ کے جرمانے سے متعلق ہے، اور کسی غریب کے لیے یہ جرمانہ ہر صورت میں کافی مہنگا تھا۔لوگ بتاتے ہیں کہ ایک پولس والے نے ، ایک تنگ و تاریک گلی میں زمین پر لیٹے ہوئے ایک شرابی کو دیکھا جو کہ اپنی ترنگ میں چلا رہا تھا۔
’’مردہ باد، مردہ باد۔۔۔۔‘‘
پولس والا بیتابی سے آگے بڑھا کیونکہ اطلاع کرنے والے کو جرمانے کی آدھی رقم دی جاتی تھی۔
’کیا کہہ رہے ہو تم؟‘
’مردہ باد!‘
’کون مردہ باد! کیا مردہ باد؟‘
’ابے جا۔۔۔۔اسے اپنے آپ پورا کرلے۔یہ پورا نعرہ مجھے بہت مہنگا پڑے گا!‘
میرے خیال میں مفسدانہ رویے کی راہ میں صرف معاشی مجبوری ہی سب سے بڑی رکاوٹ ہوسکتی ہے۔

ترجمہ نگار:تصنیف حیدر

کوئی تبصرے نہیں:

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *