میراجی مر گیا، مگر اس کے دور کی جنسی مجبوریاں، جبلتیں اور حیرانیاں سب کی سب زندہ ہیں، میراجی کی آنکھ نے جن مسائل کو دیکھا تھا، جن خونی، جنونی اور عبرت ناک حبس میں اپنی زندگی گزاری تھی، اس میں ذاتی کرب کا اظہار شاید سب سے بڑا مسئلہ تھا، جو ایک رستے سے نہ ہوپایا تو اس نے اپنی ہزاروں چھوٹی بڑی تخلیقی صورتیں ایجاد کرلیں۔ نئی دنیا کا آدمی، خاص طور پر برصغیر میں اپنی جنسی محرومیوں کو اب ایک نئے آئنے میں دیکھ رہا ہے، سماج، مذہب، شرافت اور تہذیب کی سیاستیں اس کی جنسی خواہشوں کے رسائومیں تو آڑے آہی رہی تھیں، اب تو ہمیں نفرت اور باغیانہ عہد کے دور میں بلاوجہ کے بہت سے مسائل تھما دیے گئے ہیں، ماتھے پر اپنی شناخت کی حفاظت کا بھبھوت مل دیا گیا ہے، اور ہم بائولوں کی طرح ایک دوسرے کے استروں پر نظر رکھے ہوئے ہیں، اور کیوں نہ رکھیں ، چاہے ہر شہری ذہنی طور پر جنگ کی خواہش کرنے والا، وطن، مذہب، سماج، تہذیب کی سرحد پر تعینات کیا گیا سپاہی ہی کیوں نہ بنادیا جائے، وہ جنس کی محرومی سے تو بچ نہیں سکتا۔ یہ تو موت کی طرح اٹل اور زندگی کی طرح سفاک ہے۔اسے تو ہونا ہے، ہوکر رہنا ہے۔زاہد کی یہ چھ نظمیں اکیسویں صدی میں مشرق کے ان پست ذہن لوگوں کی جنسی خواہشوں کو نمایاں کرتی ہیں، جن کو فیض نے کبھی 'کتوں'سے تعبیر کیا تھا۔فیض نے کتے کا لفظ اس لیے بھی استعمال کیا تھا کہ اسے اپنی پچھڑی ہوئی، سڑی گلی اور مردہ و بے روح وجودیت پر کوئی اعتراض بھی نہیں ہوتا، مگر زاہد نے ایک قدم آگے بڑھ کر ان کتوں کی بھی ایک ایسی دکھتی رگ پر انگلی رکھی ہے، جن تک شاید فیض کی نظر نہیں پہنچی اوروہ ہے جنسی روگ۔یہ نظمیں نہیں ہیں، خون میں لت پت شہری کی جنسی خواہشیں ہیں، زاہد نے اس خون اور خواہش کو لفظ کردیا ہے۔ نثری نظم اردو زبان میں ابھی تک بدلتے ہوئے منظرنامے میں اپنی بھرپور شعری نمائندگی درج نہیں کراسکی ہے۔ اس میں جتنا قصور نثری نظم کے نام پر اوندھی سیدھی لکیریں کھینچنے والے شاعروں کا ہے، اتنا ہی اردو کے اس قاری کا بھی ہے، جس کو آج بھی غزل کے دلار اور دیسی گھی میں سنے نوالے کی ہی عادت ہے۔غزل اور نظم کا موازنہ میرا مقصد نہیں، مگر بدلتے ہوئے دور مسائل کی نمائندگی کرپانے کی صلاحیت ابھی غزل میں نہیں ہے، اور ادریس بابر کی غزل کو ہضم کرنے کا حوصلہ بھی ہم میں نہیں۔چنانچہ زاہد کی ایسی نظموں کے بارے میں کسی قسم کی بھوشیہ وانی کرنا میرا مقصد نہیں، مگر غزل کے مقابلے میں آزاد یانثری نظم اب میرے نزدیک زیادہ پائدار، اصل تخلیقی اور ضروری صنف ہے۔
(1)
آ ہم جسموں کاروزہ افطار کریں
اور جب شہر کی گلیوں میں
رات کی زخمی لاش آگرتی ہے
سورج اپنی سرخی سے
کچھ قبروں کے کتبے لکھ جاتا ہے
دن کی بوسیدہ الماری سے
ٹڈیوں کے غول برآمد ہوتے ہیں
اور جگہ جگہ سے اُجلی صبح کے خواب کتر جاتے ہیں
اِس موہوم سی حسرت پر
کہ ہم اندھی تقدیروں کے غار سے نکلیں
کوئی ہمیں جیون کی دلدل میں کھینچتارہتا ہے
کوئی ہماری شریانوں میں
خوف کی بھاری زنجیریں چھنکاتا ہے
دنیا اِس جھنکار میں جکڑی جاتی ہے
جب محرومی کی ریت بدن میں اُڑتی ہے
ایسے میں بس ایک سہولت ہے
اپنے تالُوکی خشکی میں
میں تیرے لمس کی شیرینی چکھ لیتا ہوں
مجھ کو تیری طلب کا روزہ لگنے لگتا ہے
اس سے پہلے کہ یہ روزہ
موت کے برہم ہاتھ میں ٹوٹے
آہم اِس کو
اپنے جسم کے میٹھے پھل سے اِفطار کریں
رات کی زخمی لاش شہر پر گرنے سے پہلے!
(2)
تمہاری چھاتیاں دو خدا ہیں جن سے میں ملنا چاہتا ہوں
تمہارے پستانوں کو میرے ہاتھوں کی پیاس نہیں لگی؟
نو سو چھبیس گھنٹوں سے میں نے تمہیں چھوا نہیں
تم اب تک زندہ کیسے ہو؟
میں اپنے زیر جامے میں سکڑ آیا ہوں
تمہاری زبان کا ذائقہ میرے عضو سے
پیٹ کی گہرائی تک اُتر آیا ہے
تمہارے ہاتھوں کی نیل پالش میری ناف کے نیچے جم چکی ہے
بھرا ہوا آسمان خالی ہے
تمہاری چھاتیاں دو خدا ہیں
جن کے سامنے کائنات
شام کی روشنی میں سجدہ ریز ہے
میرے ہاتھ
میری لاپروا آنکھیں
اورتمہارے بوسوں سے محروم
میرے سینے اور پیٹ کے درمیان دنیا
متشدد خواہش سے بھر گئے ہیں
لیکن ابھی تک میرے پاس
اِس کیفیت کا کوئی نام نہیں
جس میں سارا دن
میَں تمہارے کولہوں پر سویا رہتا ہوں
اور شعلوں کی لپک
زیرجاموں میں پگھل جاتی ہے
(3)
میرے آنسوؤں سے زمین حاملہ ہو جاتی ہے
ہوا میرے آنسو روتی ہے
اور خاموشی
میری سسکیوں میں سسکتی رہتی ہے
میں نے روشنی کے لیے دروازے کھولے
تو دِلوں میں اندھیرا دَر آیا
دِن مجھے چوری کرتے رہتے ہیں
اور رات مجھے خالی پن سے بھر دیتی ہے
میں نے چیونٹی تک نہ ماری
پھر بھی قاتل میرا لقب بنا
لاشیں نہلادی گئیں
اور ان کامُردہ پانی
میری جڑوں نے چوس لیا
مشک کافور بھری میری خاموشی
اب میرے خون کا کفارہ ہے
جہاں میری میّت پڑی ہے
وہاں کبھی میرا بچپن کھیلا تھا
اور جہاں زمین حاملہ ہوئی
وہاں میری قبر لکھی ہے
(4)
آوازیں ہم کو شہر ِعدم تک لے جاتی ہیں
آوازیں آتی ہیں
اَن جانی سمتوں سے اَن جان آوازیں آتی ہیں
روشنیوں کے دائرے ٹوٹتے رہتے ہیں
کہنے کو تو کتنا کچھ انسان کے دست ِبیش بہا میں ہے
کتنے سیّاروں کی روشنیاں اِ ن آنکھوں کی قید میں ہیں
کتنی دنیاؤں کی آوازیں اِن کانوں کے قفل میں ہیں
پھر بھی اَن جان آوازیں آتی ہیں
رات کے خالی برتن میں یہ کیسا شور بھرا ہے!
دن کی ٹانگیں کائنات کے رعب سے کانپتی رہتی ہیں
اِس لاغر،کانپتی ٹانگوں والے دن سے کون اُمید کرے
کون اِس دل کے چیختے ویرانوں میں گونجتی آوازوں کی گونج بنے!
اَن جان آوازیں آتی ہیں
جیسے آفاق پہ کوئی دَیو دھاڑتا ہے
جس کی سانسیں سہمے سینوں میں پھنکارتی ہیں
جس کے دانت اِن جسموں کے پاتال میں اُتر گئے ہیں
جس کے پنجے پُشت کی گہرائی تک پھیل گئے ہیں
آوازیں آتی ہیں
اَن جانی روشنیوں کے سائے
سورج کو گہنا دیتے ہیں
اور ہم آوازوں کے تعاقب میں
شہر ِ عدم تک آجاتے ہیں
(5)
دنیا تم کو جیسے بھی دیکھے
دنیا تم کو جیسے بھی دیکھے
میرے لیے تم
سرما کی شام کی ٹھنڈک ہو
شب کے شکم میں ڈھلتے ڈھلتے
تم میری روح پر بوسے لکھ جاتی ہو
جب تم رات کے گہرے جوف میں ڈھل جاتی ہو
صف بہ صف
تمہاری یاد کی چیونٹیاں آتی ہیں
اور رینگتے رینگتے میرے دل میں رینگنے لگتی ہیں
خواہش اور خوراک
محبت اور مایوسی
وہ دانہ دانہ سب کچھ چُن لیتی ہیں
ذرّہ ذرّہ مجھ کو
جسموں کے خالی بِل میں بھر لیتی ہیں
دنیا تم کو جیسے بھی دیکھے
میرے لیے تم
کوہِ نمک کی ڈھلوانوں کی ناہمواری ہو
اپنی اُترائی پہ تمہارے کولہے
پوٹھوہار کی رات سے ہم بستر ہوجاتے ہیں
تمہارے دل کی چھت پر دو مہتاب چمکتے ہیں
جن کی ضَو میں میری روح غسل کرتی ہے
دُھلی ہوئی اِس روح میں تم
اپنے ہونٹوں کا رَس بھردیتی ہو
جس کو تمہاری یاد کی چیونٹیاں
قطرہ قطرہ پیتی ہیں
اور لمحہ لمحہ جیتی ہیں
(6)
تم وہی رہو، جو ہو
جیسے میں چاند کے دو پستان بنانا چاہتا ہوں
جیسے میں چاہتا ہوں
سورج میری بانہوں میں ڈوبے
اور تمہارے سینے کی گھاٹی سے اُبھرے
میں دن کو شب کی ناف سے پیدا کرنا چاہتا ہوں
میں دیکھتا ہوں
جیسے ہر دو چیزیں
اِک دوجے سے دور ہوئی جاتی ہیں
جیسے میری روح خزاں کا پھول ہے
جیسے میرا دل ایک سمندری گھونگا ہے
جیسے ساری دنیا ایسی ہے
جیسی وہ رہنا چاہتی ہے
اِسی طرح جو تم ہو
گندم کا دودھیا خوشہ
چھلی ہوئی بے پردہ چھلّی
اِسی طرح تم وہی رہو
پوری اور ادھوری
جس کا دل ہے سیّاروں کا سورج
جس کا جسم ہے ساری کائنات
اِسی طرح تم وہی رہو
عیاری اور منافقتوں سے پاکیزہ
جس کو پوجنا چاہتا ہے
دنیا کا مکّار خدا!
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں