شہرام سرمدی بہت عرصے بعد ہندوستان میں ہونے والی معیاری اردو نظم کا ایک اہم ترین نام ہے۔ان کا ایک شعری مجموعہ 'ناموعود'کے عنوان سے شائع ہوچکا ہے، اس میں شامل نظموں میں سے اپنی پسندیدہ چھ نظموں کو میں اس وقت بلاگ پر پیش کررہا ہوں، جو کہ یقین ہے کہ آپ کو بھی پسند آئیں گی۔آپ شہرام سرمدی کا شعری مجموعہ ناموعود ادبی دنیا سےپی ڈی ایف صورت میں ڈائونلوڈ بھی کرسکتے ہیں، جس کا لنک اس پوسٹ کے آخر میں دیا جارہا ہے۔
شہرام سرمدی کی شاعری میں ایک عمیق صبر کا تجربہ مجھے نظر آتا ہے،یہ تجربہ اتنا گہرا ہے کہ مجھے شہرام کے علمی اور تجزیاتی ہنر پر رشک آتا ہے۔شاعری اور فلسفے کے دوران جو ایک باریک سا فرق ہے، اسے شہرام بہت اچھی طرح سمجھتے ہیں،وہ چیزوں کو جاننے کے بجائے انہیں نہ جاننے کے رمز میں حسن تلاش کرتے ہیں، وہ اہمال کے قائل ہیں، اشکال کےگرویدہ ہیں، زندگی کی گتھی سلجھائی نہیں جاسکتی، بلکہ اس کی الجھن کو سمجھنے کی کوشش سے ہی زندگی کا لطف کشید کیا جاسکتا ہے۔شہرام کی مختصر اور غیر مختصر نظموں میں ایک دھیما غصہ بھی دکھائی دیتا ہے، اور یہ غصہ اسی عمیق صبر کی ایک شکل ہے، جو کہ ان کے یہاں زندگی کے گہرے تجربے کے بعد آیا ہے، یہ پکا ہواغصہ ہے، جس طرح زخم پکنے کے بعد کھل کر مسکراتاہے، اسی طرح شہرام کی نظم'تمہارے بعدبھی'، میں یہ رویہ سب سے زیادہ کھل کر سامنے آیا ہے۔تین مصرعوں کی اس نظم میں ایسا پرکوپ دکھائی دیتا ہے، جس کی تاب لانا، خدا کے بس میں ہو تو ہو، میرے بس میں تو بالکل نہیں۔اسی طرح ان کی ایک نظم تمہیں معلوم ہے، ایک ایسے ابہام کی شکار ہے، جس میں ماورائیت اور مشیت پر شاید سوال پوچھا گیا ہے یا نہیں، شاید اس کوسمجھانے کی کوشش کی گئی ہے، پتہ نہیں، آپ کو کچھ خبر ہو تو بتائیے گا۔
پتنگ اڑانے سے پہلے
پتنگ اڑانے سے پہلے یہ جان لینا تھا
کہ اس کی اصل ہے کیا اور ماہیت کیا ہے
بہت نحیف سی دو بانس کی کھپنچیں ہیں
اور ان سے لپٹا مربعے میں ناتواں کاغذ
یہ جس کے دم پہ ہوا میں کلیلیں بھرتی ہے
ذرا سی ضرب سے وہ ڈور ٹوٹ جاتی ہے
پتنگ کٹ گئی تو اس کا اتنا غم کیوں ہے
پتنگ اڑانے سے پہلے یہ جان لینا تھا
کہ اس کی اصل ہے کیا اور ماہیت کیا ہے
۔۔۔
تمہیں معلوم ہے
تمہیں معلوم ہے میں حافظ شیراز کے اس شعر کو مہمل سمجھتا تھا :’کہ عشق آساں نمود اول ولے افتاد مشکلہا‘مگر کل جب تمہارا خط ملا تو میں لسان الغیب کی معجز بیانی ، شعر کی تہہ داریوں کو سوچ کر حیران تھا۔
تمہیں معلوم ہے کل شام جب اللہ میاں سے دیر تک پوچھا کیا میں:’وہ جو مجھ کو چاہتا ہے کیا مرا ہوگا نہیں۔‘تو میں نے دیکھا غول اندر غول ابابیل آسماں سے چونچوں اور پنجوں میں کنکریاں لیے تیزی سے میرے آشیاں کی سمت بڑھتی آرہی تھیں۔
تمہیں معلوم ہے ، کل رات شیفرڈ روڈ پر، وہ بے ضرور کتا کبھی بھونکا نہیں کرتا تھا، جو خاموش رہتا تھا۔ٹرک کے نیچے آکے مرگیا۔یہ خامشی سنتی ہوتم، اس کی ہی چیخیں ہیں۔
۔۔۔
ابھی میں یہ سوچ ہی رہا تھا
نیاز مندوں کی بھیڑ ہے اک
قطار اندر قطار سارے کھڑے ہوئے ہیں
میں فاصلے پر ہوں، سوچتا ہوں
کہ دست خالی کے اس سفر میں
کمانا کیا اور گنوانا کیا ہے
میں اس مقام عجیب یعنی
’کمانا کیا اور گنوانا کیا ہے‘
پہ جب پہنچتا ہوں دیکھتا کیا ہوں
میں اسی دائرے کے اوپر کھڑا ہوا ہوں
جہاں میں کل تھا
جو فرق آیا تو صرف اتنا
تب اس طرف تھا
اب اس طرف ہوں
ابھی میں یہ سوچ ہی رہا تھا
’۔۔۔۔تو زندگی کیا سفر ہے بس اک طرف طرف کا‘
کہ آگیا موڑ
اشارہ تھا میرے برطرف کا
۔۔۔
تمہارے بعد بھی
تمہارے بعد بھی
میری خدا سے گفتگو ہوتی ہے لیکن
موسموں پر
۔۔۔
تم اپنی سبز آنکھیں بند کرلو
بدلتی رت
مرے ماتھے پہ جو لکھے گی
وہ سب جانتا ہوں میں
کہ میں نے اپنے والد کی
جوانی کی وہ تصویریں
بہت ہی غور سے دیکھی ہیں
جن میں وہ
کسی کی یاد کی پرچھائیوں کو
اپنی آنکھوں میں چھپائے
آسماں کو تک رہے ہیں
اب وہ آنکھیں میری آنکھیں ہیں
تم اپنی سبز آنکھیں بند کرلو
۔۔۔
ایسا ہو کہ نا موعود ہو
وہ غنی ساعت کہ ہم
شاکی نہ ہوں
یا یوں کہیں خاکی نہ ہوں
صد حیف افلاکی نہ ہوں
کاش اس غنی ساعت میں
اک کارغنیمت ایسا ہو
مٹی بد ن کی
روح کی تہذیب سے ہموار ہو
بیدار ہو
یہ نقش پائے رفتگاں
روشن مثال کہکشاں
سب روح کی تہذیب سے بیدار
مٹی کی نمو ہے
عکس ہو ہے
روح کی تہذیب
یا اک سلسلہ جس میں عدم کو ہے ثبات
(اہل زمیں!اک نعرہ’دیوانے کی بات‘)
اور اس عدم سے تاثبات اک بار
ایسا ہو کہ نا موعود ہو
یعنی خدا موجود ہو
خاکی فقط خاکی ہو افلاکی نہ ہو
اور کوئی بھی شاکی نہ ہو
۔۔۔
شہرام سرمدی کا شعری مجموعہ ناموعود یہاں سے ڈائونلوڈ کیجیے:
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں