شمس الرحمٰن فاروقی نے اثبات کے مدیر اشعر نجمی کے چند
سوالوں کے جواب سعادت حسن منٹو کی شخصیت اور فن کے حوالے سے دیے تھے جو کہ تفصیلی
جوابات تھے۔اور اسی وجہ سے بعد میں وہ سوالات و جوابات ہندوستان اور پاکستان دونوں
ہی جگہوں سے کتابی صورت میں بھی شائع ہوئے۔ یہ تمام سوال و جواب اثبات پبلی کیشنز
کی ویب سائٹ پر موجود ہیں۔ جنہیں ہمارے لیے منٹو صاحب پر کلک کرکے پڑھا جاسکتا
ہے۔ان جوابات پر پاکستان کے شہر اسلام آباد میں مقیم اردو کے اہم نقاد اور افسانہ
نگار محمد حمید شاہد کو کچھ اعتراضات تھے، چنانچہ انہوں نے منٹو کے تعلق سے فاروقی
کےمعروضات کے جواب میں ایک مقالہ قلم بند کیا، جو کہ ان کی کتاب 'سعادت حسن
منٹو،جادوئی حقیقت نگاری اور آج کا افسانہ 'میں شامل ہے۔آج ادبی دنیا پر اس مضمون
کو میں محمد حمید شاہد کی اجازت سے اپلوڈ کررہا ہوں۔ امید ہے کہ جن لوگوں تک یہ
مضمون نہیں پہنچا ہے، یا جو لوگ اسے آن لائن یا آف لائن پڑھنا چاہتے ہیں، وہ اب ان
دونوں ہی مضامین کو بہ آسانی پڑھ کر اپنی رائے کا اظہار کرسکیں گے۔میں اس اہم
مضمون کی اشاعت کے لیے محمد حمید شاہد کا بے حد شکر گزار ہوں۔
ہمارے
منٹو صاحب
)محمد حمید شاہدبنام شمس الرحمن فاروقی(
ہمارے لیے منٹو صاحب
محترم شمس لرحمن فاروقی
آداب!
میرے اس خط کا فوری جواز آپ کی کتاب ’’ہمارے لیے منٹو صاحب‘‘ بن رہی ہے ، جو آصف فرخی صاحب نے مجھے بھیج دِی ہے ۔ کتاب اتنی دلچسپ ہے کہ میں نے اسے پڑھ بھی لیا ہے۔ عین آغاز میں کہہ دوں کہ میں اِس مختصر کتاب کو بھی آپ کی تنقید کے کرشموں میں سے ایک کہوں گا؛ یہ الگ بات کہ میں آگے چل کرآپ سے بہت سی جگہوں پر اِختلاف کرنے جارہا ہوں۔ اِس اِختلاف کی وجہ کوئی اور نہیں ،محض اور صرف یہ ہے کہ منٹو صاحب، ہمارے لیے کچھ مختلف ہو گئے ہیں ۔ بل کہ جب وہ ہمارے زمانے میں پہنچتے ہیں تو کچھ اور ’’ہمارے‘‘ ہو جاتے ہیں۔ غالب صاحب کا حوالہ آپ نے خوب دیا؛ ’’نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پروا ‘‘ مگر مرزا نوشہ جس ڈھنگ سے بات کررہے ہیں ؛ صاف دِکھتا ہے کہ جناب کو ستائش کی تمنا تھی اور صلے کی پروا بھی۔ آپ نے اپنی کتاب میں کہا ؛’’آپ میں تھوڑی سی خود نمائی ہے‘‘ (ص۔ ۱۹) اور میں کہتا ہوں آپ کی اِسی خود نمائی نے اور جگہ جگہ علم کے اِظہار نے ، آپ کی تحریر اِس مرتبہ پرپہنچا دِی کہ اِسے پڑھیں اور پڑھتے چلے جائیں۔
آج فون پر میں نے آصف فرخی صاحب سے وعدہ کر لیا کہ اِس کتاب پر ضرور کچھ نہ کچھ لکھوں گا اور اَب لکھنے بیٹھا ہوں تو جی چاہنے لگا ہے کہ آپ کو مخاطب کروں اور آپ ہی سے اِس کتاب کے حوالے سے کچھ باتیں کروں ۔ تاہم اِرادہ ہے کہ اِس خط کی نقول تین افراد کو ضرور بھیجوں گا؛محمد عمر میمن،آصف فرخی اور اشعر نجمی ۔ ایک سے مراسلت یہاں مقتبس ہوگی، باقی دونوں نے آپ کی گفتگو کو چھاپ کر مجھے کچھ کہنے پر اُکسایاہے، اِس لیے۔
آصف فرخی کے ادارہ ’’شہرزاد‘‘ سے چھپنے والی ۱۱۳ صفحات پر مشتمل کتاب ’’ہمارے لیے منٹو صاحب‘‘جو دراصل ’’اثبات‘‘ کے اشعر نجمی کے سوالات کو زیر بحث لاتا ایک طویل خط ہے ؛ میرے لیے دلچسپی کا بہت سامان لیے ہوئے ہے۔ کچھ دن ہوتے ہیں، اشعر نجمی نے اپنی فیس بُک وَال پر آپ کے اس خط نما مکالمہ سے ایک ٹکڑا مقتبس کیا اور میرے تجسس کوہوا دِی ۔ لیجئے وہ اقتباس میں یہاں دِے دِیتا ہوں، تاکہ اَندازہ ہو کہ آپ کی تحریریں ہم پر کیسے اَثر کرتی ہیں، اُلجھاتی ہیں اور بعض اوقات مشتعل بھی کرتی ہیں۔ یہی زندہ تحریروں کی خوبی ہوا کرتی ہے۔ خدا کا شکر ہے نہ آپ خود ’’ٹھس‘‘ ہیں نہ آپ کی تحریریں اَپنے قاری کو’’ ٹھس‘‘ رہنے دیتی ہیں۔
اچھا، یہیں بتادوں کہ وقفے وقفے سے محمد عمر میمن صاحب مجھے’’ ای خط ‘‘ لکھنے کو اُکساتے رہتے ہیں، مگر میں اس معاملے میں’’بحرالکاہل‘‘ واقع ہواہوں لہذا اکثر انہیں ناراض ہونے کے مواقع دِے دِیا کرتا ہوں۔ ۲۶ جولائی والی ای میل میں انہوں نے اسی جانب اشارہ کرتے ہوئے مجھ سے اپنی ناراضی کا کچھ یوں اظہار کیا تھا :
)محمد حمید شاہدبنام شمس الرحمن فاروقی(
ہمارے لیے منٹو صاحب
محترم شمس لرحمن فاروقی
آداب!
میرے اس خط کا فوری جواز آپ کی کتاب ’’ہمارے لیے منٹو صاحب‘‘ بن رہی ہے ، جو آصف فرخی صاحب نے مجھے بھیج دِی ہے ۔ کتاب اتنی دلچسپ ہے کہ میں نے اسے پڑھ بھی لیا ہے۔ عین آغاز میں کہہ دوں کہ میں اِس مختصر کتاب کو بھی آپ کی تنقید کے کرشموں میں سے ایک کہوں گا؛ یہ الگ بات کہ میں آگے چل کرآپ سے بہت سی جگہوں پر اِختلاف کرنے جارہا ہوں۔ اِس اِختلاف کی وجہ کوئی اور نہیں ،محض اور صرف یہ ہے کہ منٹو صاحب، ہمارے لیے کچھ مختلف ہو گئے ہیں ۔ بل کہ جب وہ ہمارے زمانے میں پہنچتے ہیں تو کچھ اور ’’ہمارے‘‘ ہو جاتے ہیں۔ غالب صاحب کا حوالہ آپ نے خوب دیا؛ ’’نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پروا ‘‘ مگر مرزا نوشہ جس ڈھنگ سے بات کررہے ہیں ؛ صاف دِکھتا ہے کہ جناب کو ستائش کی تمنا تھی اور صلے کی پروا بھی۔ آپ نے اپنی کتاب میں کہا ؛’’آپ میں تھوڑی سی خود نمائی ہے‘‘ (ص۔ ۱۹) اور میں کہتا ہوں آپ کی اِسی خود نمائی نے اور جگہ جگہ علم کے اِظہار نے ، آپ کی تحریر اِس مرتبہ پرپہنچا دِی کہ اِسے پڑھیں اور پڑھتے چلے جائیں۔
آج فون پر میں نے آصف فرخی صاحب سے وعدہ کر لیا کہ اِس کتاب پر ضرور کچھ نہ کچھ لکھوں گا اور اَب لکھنے بیٹھا ہوں تو جی چاہنے لگا ہے کہ آپ کو مخاطب کروں اور آپ ہی سے اِس کتاب کے حوالے سے کچھ باتیں کروں ۔ تاہم اِرادہ ہے کہ اِس خط کی نقول تین افراد کو ضرور بھیجوں گا؛محمد عمر میمن،آصف فرخی اور اشعر نجمی ۔ ایک سے مراسلت یہاں مقتبس ہوگی، باقی دونوں نے آپ کی گفتگو کو چھاپ کر مجھے کچھ کہنے پر اُکسایاہے، اِس لیے۔
آصف فرخی کے ادارہ ’’شہرزاد‘‘ سے چھپنے والی ۱۱۳ صفحات پر مشتمل کتاب ’’ہمارے لیے منٹو صاحب‘‘جو دراصل ’’اثبات‘‘ کے اشعر نجمی کے سوالات کو زیر بحث لاتا ایک طویل خط ہے ؛ میرے لیے دلچسپی کا بہت سامان لیے ہوئے ہے۔ کچھ دن ہوتے ہیں، اشعر نجمی نے اپنی فیس بُک وَال پر آپ کے اس خط نما مکالمہ سے ایک ٹکڑا مقتبس کیا اور میرے تجسس کوہوا دِی ۔ لیجئے وہ اقتباس میں یہاں دِے دِیتا ہوں، تاکہ اَندازہ ہو کہ آپ کی تحریریں ہم پر کیسے اَثر کرتی ہیں، اُلجھاتی ہیں اور بعض اوقات مشتعل بھی کرتی ہیں۔ یہی زندہ تحریروں کی خوبی ہوا کرتی ہے۔ خدا کا شکر ہے نہ آپ خود ’’ٹھس‘‘ ہیں نہ آپ کی تحریریں اَپنے قاری کو’’ ٹھس‘‘ رہنے دیتی ہیں۔
اچھا، یہیں بتادوں کہ وقفے وقفے سے محمد عمر میمن صاحب مجھے’’ ای خط ‘‘ لکھنے کو اُکساتے رہتے ہیں، مگر میں اس معاملے میں’’بحرالکاہل‘‘ واقع ہواہوں لہذا اکثر انہیں ناراض ہونے کے مواقع دِے دِیا کرتا ہوں۔ ۲۶ جولائی والی ای میل میں انہوں نے اسی جانب اشارہ کرتے ہوئے مجھ سے اپنی ناراضی کا کچھ یوں اظہار کیا تھا :
My
dear Hameed Shahid,
Unless I write to you, you don't. What kind of friendship is this. I'm thirsting for news, of you, of Farshi Sahib, of our friends. So how are you? Have you written something new?
Muhammad Umar Memon
Unless I write to you, you don't. What kind of friendship is this. I'm thirsting for news, of you, of Farshi Sahib, of our friends. So how are you? Have you written something new?
Muhammad Umar Memon
..........
’’کھول دو‘‘: پہلا ردعمل
محمد عمر میمن صاحب نے اِسی اِی میل میں آپ کے ناول کے انگریزی ترجمے ’’The Mirror of Beauty ‘‘ کاریویو اور منٹو پر’’The Missing Slate‘‘ میں چھپنے والے اپنے ایک تازہ مضمون ’’Recounting Irregular Verbs and Counting She-Goats ‘‘کے رابطے (Links)فراہم کیے تھے لہذا میں نے سوچا کہ میمن صاحب کو، ’’ نیوز‘‘ والی پیاس کے باب میں، اَشعر نجمی صاحب کی طرف سے فیس بک پر اَپ لوڈ کیاگیا ،منٹوپر آپ کی تحریر کا وہی ٹکڑابھیجا جا سکتا تھا جسے میں یہاں دینے والا تھا۔ اب مناسب یہی ہے کہ میں اپنا میمن صاحب کے نام خط یہاں دے دوں، اس میں آپ کی تحریر کے مذکورہ ٹکڑے کے ساتھ ساتھ میرا پہلا ردعمل بھی آپ تک پہنچ جائے گا :
’’پیارے میمن جی:آداب
منٹو کے حوالے سے آپ کی تحریر کا لنک کھولا اور لطف لیا۔ جی ،آپ کی تحریر کا لُطف اور اِس تحریر کے ساتھ پیچھا ننگا کیے، منھ اُدھر کو کرکے پہلو کے بل لیٹی عورت کا بھی۔ خیر انٹرنیٹ پر اِس طرح کا اِہتمام تو ہوتا ہی ہے۔ ہاں آپ کی تحریر میں بہ طورخاص جب یہ مقام آیا تو میں نے خود کو آپ کے بہت قریب پایا۔ :
’’کھول دو‘‘: پہلا ردعمل
محمد عمر میمن صاحب نے اِسی اِی میل میں آپ کے ناول کے انگریزی ترجمے ’’The Mirror of Beauty ‘‘ کاریویو اور منٹو پر’’The Missing Slate‘‘ میں چھپنے والے اپنے ایک تازہ مضمون ’’Recounting Irregular Verbs and Counting She-Goats ‘‘کے رابطے (Links)فراہم کیے تھے لہذا میں نے سوچا کہ میمن صاحب کو، ’’ نیوز‘‘ والی پیاس کے باب میں، اَشعر نجمی صاحب کی طرف سے فیس بک پر اَپ لوڈ کیاگیا ،منٹوپر آپ کی تحریر کا وہی ٹکڑابھیجا جا سکتا تھا جسے میں یہاں دینے والا تھا۔ اب مناسب یہی ہے کہ میں اپنا میمن صاحب کے نام خط یہاں دے دوں، اس میں آپ کی تحریر کے مذکورہ ٹکڑے کے ساتھ ساتھ میرا پہلا ردعمل بھی آپ تک پہنچ جائے گا :
’’پیارے میمن جی:آداب
منٹو کے حوالے سے آپ کی تحریر کا لنک کھولا اور لطف لیا۔ جی ،آپ کی تحریر کا لُطف اور اِس تحریر کے ساتھ پیچھا ننگا کیے، منھ اُدھر کو کرکے پہلو کے بل لیٹی عورت کا بھی۔ خیر انٹرنیٹ پر اِس طرح کا اِہتمام تو ہوتا ہی ہے۔ ہاں آپ کی تحریر میں بہ طورخاص جب یہ مقام آیا تو میں نے خود کو آپ کے بہت قریب پایا۔ :
"No
exceptional intelligence is required to detect that at the back of this almost
pathological engagement with prostitutes, is Mantos defense of himself against frequent
charges of obscenity."
اچھا
،اَب تو منٹو کے بارے بہت کچھ لکھا جانے لگا ہے ۔ اَبھی اَبھی اِنٹر نیٹ پر شمس
الرحمن فاروقی صاحب کی تازہ گفتگو کا ایک ٹکڑا دِیکھا ۔ اشعر نجمی صاحب نے یہ
گفتگو’’ اثبات‘‘ کے نئے شمارے میں چھاپی ہے۔ یہ پرچہ ابھی تک مجھے نہیں ملا لہذا
ساری گفتگو بھی پڑھ نہیں پایا ہوں تاہم جو طویل ٹکڑا فیس بک پر چڑھایا گیا ہے، وہ
منٹو کے افسانے ’’کھول دو‘‘ کے حوالے سے ہے ۔ لیجئے آپ بھی پڑھ کر اس کا مزا لیں:
’’کھول دو کا دارومدار صر ف ایک دو لفظی فقرے’’ کھول دو‘‘ پر ہے۔ ایک نوجوان لڑکی جو فسادات کے دوران ریلوے لائن کے پاس بے ہوش پڑی تھی ہسپتال لائی جاتی ہے۔ اس کا باپ اس کی تلاش میں سرگرداں تھا، اس نے سنا کہ ایک بے ہوش لڑکی اسپتال میں لائی گئی ہے۔ وہ دوڑتا ہوا اسپتال کے اس کے کمرے تک پہنچتا ہے جس میں:
کوئی بھی نہیں تھا، بس ایک اسٹریچر تھا، جس پر ایک لاش پڑی تھی۔
...ڈاکٹر نے ، جس نے کمرے میں روشنی کی تھی، اس سے پوچھا: ’’کیا ہے؟‘‘
اس کے حلق سے صرف اتنا نکل سکا، ’’جی میں...جی میں اس کا باپ ہوں۔‘‘
ڈاکٹر نے اسٹریچر پر پڑی ہوئی لاش کی طرف دیکھا، پھر لاش کی نبض ٹٹولی اور اس سے کہا،’’ کھڑکی کھول دو۔۔‘‘
مردہ جسم میں جنبش ہوئی۔
بے جان ہاتھوں نے ازاربند کھولا۔
اور شلوار نیچے سرکا دی۔
بوڑھا سراج الدین خوشی سے چلایا، ’’زندہ ہے...میری بیٹی زندہ...‘‘
ڈاکٹرسر سے پیر تک پسینے میں غرق ہوچکا تھا۔
افسانہ یہاں ختم ہوجاتا ہے۔ ہے نہ نہایت’’دردناک ‘‘اور’’ غم انگیز ‘‘اور ’’دل دہلادینے والا‘‘ انجام؟ آخری جملے کی فضولیت اور لچر پن کو چھوڑدیں تو انجام اور بھی ’’دردناک‘‘ ہو جاتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ افسانہ نگار نے کچھ کہے بغیر ہی ہم پر سب کچھ ظاہر کردیا ہے۔ یہ حزم اور یہ ضبط فسادات تقسیم کے بارے میں افسانوں میں کم نظر آتا ہے اور منٹو اس کے لیے ہمارے شکریے کے حق دار ہیں۔ سراج الدین کی بیٹی اجتماعی زنا بالجبر کا شکار ہوئی ہے اور بار بار ہوئی ہے۔ اور ظلم اور تشدد کے ذریعہ اس کو جابر زنا کاروں کا اس قدر پابند بنا دیا گیا ہے کہ ان کے حکم کی فوراً اور بے سوچے سمجھے تعمیل کرنا اُس کی فطرت ثانیہ بن چکا ہے۔ جب ڈاکٹر کہتا ہے،’’ کھڑکی کھول دو‘‘ تو وہ ’’کھڑکی‘‘ کا لفظ سنتی ہی نہیں، اسے صرف’’ کھول دو‘‘ سنائی دِیتا ہے ۔
اب تم یہ غور کروکہ زنا بالجبر کرنے والے اسے کیا حکم دیتے ہوں گے؟ یا کیا اُنھیں ضرورت بھی پڑتی ہوگی کہ اپنی شیطانی ہوس پوری کرنے کے لیے کوئی حکم بھی دیں؟ کیا یہ زیادہ’’ فطری ‘‘نہیں کہ وہ اُس کی شلوار کو کھنچ کر،ا ور شاید پھاڑ کر پھینک دیں، اوراَپنا مقصد پورا کرنے کے بعد اُسے حکم دِیں کہ اَب تو شلوار پہن سکتی ہے؟بل کہ اُسے کپڑے پہنے رہنے دینے کی ضرورت ہی کیا تھی؟ کیا حالات کے زیادہ موافق یہ نہیں کہ لڑکی یوں ہی پڑی رہے اور زنا کار اُس پر جب چاہیں حملہ کرتے رہیں۔یا بہت سے بہت اِنسانیت دِکھائیں تو اُس پر کوئی چادر،یا اُس کی اوڑھنی کھینچ ڈال دِیں اورپھر جب چاہیں اُسے اُتار پھینکیں؟
یا،چلو مان لیتے ہیں کہ کسی خوف (یا کسی خیال)کی بنا پر اُس کے حملہ آور اُسے شلوار پہنے رہنے دیتے ہیں اور پھر جب چاہتے ہیں اُس کو حکم دیتے ہیں کہ’’ شلوار کھول دو‘‘۔
مگر ٹھہرو، یہ تو کچھ عجیب سی بات معلوم ہوتی ہے۔جس قسم کے اِنسان وہ ہیں، کیا وہ اِس کی شلوار اُتروانے کے لیے گفتگو کے لہجے میںیوں کہیں گے کہ’’ شلوار کھول دو!؟‘‘زیادہ مناسب (اور اُردو روز مرہ کے عین مطابق)تو یہ ہوتا کہ وہ تحکمانہ لہجے میں لڑکی سے کہتے، ’’شلوار کھول!‘‘یا اُسے گالی دِے کر چیختے،’’ شلوار اُتار!‘‘ یا شاید اِس طرح کہتے،’’ کھول دِے شلوار!‘‘ یا پھر شاید اس طرح کہتے،’’ابے ننگی ہو جا!شلوار کھول!‘‘ پھر یہ’’ کھول دو‘‘ منٹو صاحب نے کہاں سے سوچ لیا؟ وہ ظالم جفا کار کیا کوئی مہذب لوگ تھے، اور کیا وہ موقع اِنتہائی شائستگی کا تھا کہ کہتے،’’ شلوار کھول دو‘‘۔ اس سے تو بہتر یہ تھا کہ منٹو صاحب بات چیت کے شائستہ لہجے میں اُن کی زبان سے کلام یوں ادا کراتے:’’براہ کرم شلوار کھول دیجیے۔ہم آپ کے ساتھ زنا بالجبر کریں گے، شکریہ۔‘‘ منٹو صاحب تو بڑے زبان شناس تھے۔ اُنھیں روزمرہ کا اِتنا بھی لحاظ نہ رہا کہ وہاں شیطان صفت دِرندوں کی زُبان سے صرف ’’کھول!‘‘کے بجاے کھول دو کہلاتے، اور وہ بھی ڈاکٹر کے لہجے اور ہلکی آواز میں؟ معاف کیجئے گا،منٹو صاحب کی زبان شناسی کے بارے میں میری رائے اتنی پست نہیں ہے۔‘‘
جہاں اِقتباس ختم ہوا وہاں اشعر نجمی صاحب نے قوسین میں (لکھاجاری ہے)۔۔۔ گویا اس باب میں فاروقی صاحب نے اور بھی بہت کچھ فرمایا ہوگا ۔ فاروقی صاحب گفتگو بہت دلچسپ بنا لیا کرتے ہیں ؛ یہاں بھی ایسا ہی ہوا لیکن مجھے لگتا ہے گفتگو کے اس ٹکڑے میں منٹوکے افسانے ’’کھول دو‘‘ کے ساتھ اِنصاف نہیں ہوا ۔ مجھے حیرت ہے کہ اُن کا دھیان پنجاب کے روزمرہ کی طرف کیوں نہیں گیا جہاں اِس طرح کا تخاطب اِتنا شائستہ بھی نہیں رہتا(لہجہ دھیان میں رہے)، جتنا فاروقی صاحب نے ثابت کرنا چاہا ہے۔ اچھا، جو حکم ’’کھول‘‘ کے ساتھ دِیا جاسکتا تھا ، اُس کے لیے منٹو نے ’’کھول دو‘‘کیوں لکھا، فاروقی صاحب کا یہ سوال( کہانی اُچٹتی نظر سے دیکھیں تو )بہ ظاہردرست لگتا ہے مگر یہ ایسا ہے نہیں ۔ منٹو صاحب نے اِسے بڑے سلیقے سے برتا ہے۔ کیسے ؟یہ میں ذرا بعد میں بتاؤں گا۔ پہلے یہ بتانا چاہتا ہوں کہ منٹو بھی جانتے تھے کہ اس کی اختتامی سطور بہت اہم ہیں اور انہی سے افسانہ بنے گا۔ منٹو نے اس کے اختتام کی اہمیت کے بارے میں اپنے مضمون’’ زحمت مہر درخشاں‘‘ میں بتا رکھا ہے :
’’ قاسمی صاحب ،جب دوسرے روز شام کو تشریف لائے تو میں اپنے دوسرے افسانے’’ کھول دو‘‘ کی اختتامی سطور لکھ رہا تھا۔ میں نے قاسمی صاحب سے کہا۔آپ بیٹھیے میں افسانہ مکمل کرکے آپ کو دیتا ہوں۔ افسانے کی اِختتامی سطور چوں کہ بہت ہی اہم تھیں ، اِس لیے قاسمی صاحب کو کافی اِنتظار کرنا پڑا۔ ‘‘
صاحب ! پنجاب کا جو محاورہ ہے اُس سے منٹو کیسے نابلد ہو سکتے تھے ۔ اِسے پڑھ کراحمد ندیم قاسمی پر کیا اثر ہوا وہ بھی خود قاسمی صاحب سے سن لیجئے۔ فرماتے ہیں :
’’ میں افسانہ پڑھ کر سناٹے میں آگیا تھا ۔ اگرمنٹو کے بجائے کوئی اور میرے پاس ہوتا تو میں باآواز بلند رونے لگتا۔‘‘
جو جملہ منٹو نے لکھا اور پوری ذمہ داری سے لکھا اور اس احساس کے ساتھ لکھا کہ اسی سے افسانے نے بننا تھا ۔جی ،وہی جملہ جو قاسمی صاحب کو رُلا سکتا تھا کہ وہ پنجابی روزمرہ سے آگاہ تھے؛ وہ جملہ اور آخری جملہ فاروقی صاحب کے نزدیک اپنے اندر’’فضولیت‘‘،’’لچر پن‘‘ اور’’ شائستگی‘‘ کو لے آتا ہے ؟ تو مجھے حیرت ہوتی ہے ۔ اچھا، یہ لطیفہ گھڑا جا سکتا ہے کہ وہ جنہوں نے اِس افسانے کو چھاپنے پر’’نقوش‘‘ کو سیفٹی ایکٹ کے تحت چھ ماہ کے لیے بند کر دیا تھا ،’’ کھول دو‘‘ کی فاروقی صاحب کی دریافت کردہ’’ شائستگی‘‘ سے آگاہ ہوتے تو شاید’’ نقوش‘‘ سیفٹی ایکٹ کی زد میں نہ آتا۔
اب رہا معاملہ’’ کھول ‘‘اور’’ کھول دو‘‘ والا ؛ تو یوں ہے کہ یہاں بھی میں منٹو صاحب کے ساتھ خود کو کھڑا پاتا ہوں۔ دیکھیے افسانے کے متن نے پہلے سے بتا رکھا ہے کہ تقسیم کے زمانے میں، سترہ سالہ سکینہ کو جنسی تشدد کا نشانہ بنانے والے آٹھ رضا کار تھے ؛ سب نوجوان۔اُنہیں لڑکی کواُردو والے روز مرہ کے عین مطابق(تحکمانہ لہجے)میں کہنے کی ضرورت نہ تھی کہ شلوار کھول! ۔نہ اُسے گالی دے کر اُس پرچیخنے اور’’شلوار اتار!‘‘،’’کھول دے شلوار!‘‘یا پھر’’ابے ننگی ہو!‘‘،’’شلوار کھول! ‘‘وغیرہ وغیرہ( فاروقی صاحب کے ذہن میں آنے والا کوئی اُردو کامناسب جملہ)کہتے ۔ منٹو نے پنجابی والے روزمرہ کے قریب ’’ کھول دو‘‘ کو لیا تو اِس لیے کہ منٹو صاحب جانتے تھے، جس مزاج کو وہ لکھ رہے تھے اُس کے روزمرہ میں شلوار کھولی نہیں جاتی، اُتاری جاتی ہے۔ہاں ناڑہ کھولا جاتا ہے۔ اچھا، میں نے کہا نا کہ افسانے نے اُن کی تعداد آٹھ بتائی تھی ۔ جس طرح کا نقشہ فاروقی صاحب نے کھینچا ہے اُس سے لگتا ہے ،وہ سب سکینہ کے سامنے قطار بنا کر کھڑے ہو گئے تھے؛ حکم دینے ’’کھول‘‘ یا درخواست کرنے کہ ’’براہ کرم شلوار کھول دیجیے۔ہم آپ کے ساتھ زنا بالجبر کریں گے، شکریہ۔‘‘ جب کہ واقعہ یہ ہے کہ منٹو نے’’ کھول دو‘‘ لکھ کر اِس کا اہتمام بھی کر دیا ہے کہ ہم اُن آٹھوں کو نظر میں رکھیں جن میں سے کوئی سکینہ کو گرفت میں لے سکتا تھا؛ اُس کے ہاتھ پاؤں قابو کرنے۔ اورجب اُن میں سے ایک اُس کا نالا (بل کہ ناڑا)جی وہی اُردو والا’’ ازاربند ‘‘گرفت میں لیتا تو دوسرا کہہ سکتا تھا :’’کھول دو‘‘ اور پہلے والاکھول دیتا ۔ پھر یہ ناڑا اتنی بار کھلتا کہ’’ کھول دو‘‘ پر نیم مردہ سکینہ کے اپنے ہاتھ خود بخود حرکت میں آ جاتے؛ وہی پہلے سے سکھلایا گیا عمل بالکل میکانکی انداز میں دہرانے کے لیے ۔ جب حواس کا ناس مار دیا گیا ہو تو سماعت اگلے پچھلے الفاظ نہیں سنا کرتی، ایسے میں اگر’’کھڑکی‘‘ کا ڈاکٹر کا کہا ہوا لفظ سکینہ کی سماعت سے ٹکرانے سے پہلے ہی کہیں گر جاتا ہے تو اِس لیے کہ اُس کے لیے’’ کھول دو‘‘ والا کاشن ہی کافی تھا جس سے اُس کی نفسیات جڑی ہوئی تھی ۔ ایک بار پھر حیران ہوں کہ فاروقی صاحب نے منٹو کے اِس قرینے کو کیوں نظر انداز کر دیا جس میں ایک جملے کے ذریعہ ایک دہرائے جانے والے عمل کی مختلف صورتیں دِکھا دِی جاتی ہیں ۔
خیر ،یاد کیجئے کہ اِسی افسانے کے حوالے سے، ہماری مراسلت کے زمانے میں بھی بات ہو چکی ہے۔ جی چاہتا ہے اُسے بھی اِس سے جوڑ کر دِیکھ لیں تاکہ میرا نقطہ نظر مربوط ہو جائے اور اگر آپ کو کچھ کہنا ہو تو کہہ ڈالیں اور جہاں کہیں میں نے تفہیم یا تعبیر میں ٹھوکر کھائی، اُس کی نشان دِہی ہو۔
محبت کے ساتھ،محمد حمید شاہد‘‘
میمن صاحب نے اس ای میل کے جواب میں کیا لکھا، پورا خط دینا چاہتا تھا مگر دوچار سطریں بوجوہ نکال دینا پڑی ہیں ۔ وہ لکھتے ہیں:
’’پیارے بھائی حمید شاہد
منٹو کے حوالے سے اس طویل خط کا لُطف آگیا۔ یوں لگا جیسے پہلے والا حمید شاہد سامنے آن کھڑا ہوا ہے۔ میں نے خط پڑھنا شروع ہی کیا تھا کہ مجھے یوسا کے ضمن میں تمہارا وہ خط یاد آگیا جس میں تم نے منٹو کے اسی افسانے پر بڑی مدلل، اثر انگیز اور دِل کو لگنے والی بحث کی ہے۔ شاید تمھیں یاد ہو کہ میں نے اَپنے پیش لفظ میں اُس کا ذِکر بھی کیا تھا۔
فاروقی صاحب کے کئی رخ ہیں۔ ایک بات جو اُنہوں نے یکسر نظر انداز کردی ہے وہ یہ ہے کہ ڈاکٹر کے فقرے کا مخاطب سکینہ نہیں بلکہ اُس کا باپ ہے۔ ظاہر ہے، وہ اُس سے کھڑکی کھولنے کے لیے ہی کہہ سکتا ہے۔ اگر مخاطب کو سامنے رکھا جائے تو فقرہ بالکل بامحاورہ ہے۔ پنجاب ہو یا یو۔ پی۔ بات اسی طرح کی جائے گی۔ جو لن ترانی کی گئی ہے وہ اس وجہ سے جائز نہیں کہ رضا کار کس طرح عمل اور کلام کرتے تھے اس کی کوئی اہمیت نہیں۔ ہمیں تو بس سکینہ کا ردِعمل دِکھایا گیا ہے۔ وہ خود موضوع بحث نہیں۔ سکینہ سکتے یا نیم سکتے کے جس عالم میں ہے اُس میں اسے صرف ایک ہی لفظ سنائی دے رہا ہے اور وہ ہے’’ کھول‘‘۔ اسے دہلی یا لکھنو کے محاورے سے کوئی غرض نہیں، اور وہ تو دھندلکے کی جس دہلیز پر کھڑی ہے وہاں صحت زبان کا گزر نہیں۔ ہم سب انتہائی استغراق کے عالم میں وہی سنتے اور دیکھتے ہیں جس میں ہمارے حواس گم ہوں۔ قواعد کی پابندی میں نہیں پڑتے۔
تو، بھائی، اس ناچیز کی تو یہ رائے ہے، باقی فاروقی صاحب جانیں۔ تم چاہو تو اس پر ایک مضمون لکھ سکتے ہو۔
چند دِن پہلے میری احمد مشتاق سے فون پر بات ہورہی تھی۔ اُن کا بھی یہی کہنا ہے کہ دوستی اپنی جگہ لیکن لکھنے کے معاملے میں بے خوفی اَز بس ضروری ہے۔
تمھیں تو اندازہ ہوگا کہ لوگ منھ پر میری تعریف کرنے سے نہیں چوکتے لیکن جہاں اُن کا بس چلتا ہے مجھے نظرانداز کرنے سے بھی نہیں رہتے۔ اس کی صرف ایک وجہ ہے۔ انہیں خوب معلوم ہے کہ میں جو سوچتا ہوں وہی کہتا ہوں، لیکن اگر میری رائے کسی امر میں لوگوں کے حسبِ حال نہ ہو تو ان کے بارے میں میرے جو جذبات ہیں وہ میری منفی رائے سے بالکل گھائل نہیں ہوتے۔ [۔۔۔۔۔۔۔۔۔] اب میں آپ سے تم پر آگیا ہوں۔ نوٹ کیا ہوگا۔ اور یہ بالکل بے ساختہ ہوا ہے۔ اب تو خوش ہو نا؟
تمہارا
محمد عمر میمن‘‘
محترم فاروقی صاحب !،میں نے یوں کیا تھا کہ اپنے والے خط کی ایک کاپی اشعر نجمی صاحب کو بھی بھیج دِی وہاں سے اِطلاع دی گئی کہ فاروقی صاحب کاان کے نام مراسلہ نما یہ مضمون منٹو کے حوالے سے اُن کے آٹھ سوالات کے جواب میں رقم کیا گیا تھا ۔ اس میں کئی افسانے زیر بحث ہیں؛ لہذا پورا پڑھوں گا تو مزہ آئے گا۔بس اس کے بعد کیا تھا میرا اشتیاق بڑھ گیا۔ ’’اثبات‘‘ کا اِنتظار کرنے لگا کہ میں جاننا چاہتا تھا فاروقی صاحب! کہ آپ منٹو کے بارے میں کیا کہتے ہیں ۔ پھر جب کتاب ملی تو میرے لیے دلچسپی کا سامان صرف متن کے وہ علاقے تھے جہاں جہاں منٹو پرآپ راست بات کر رہے تھے ۔ حسن عسکری، وارث علوی، ممتاز شیریں،اجمل کمال وغیرہ کے حوالہ جات اور اُن کی تنقید پرآپ کی تنقید،جہاں کہیں تھی مجھے نہ روک پائی کہ میں اُن مقامات کو نہایت توجہ سے دِیکھ رہا تھا جہاں آپ اپنی نظر سے منٹو صاحب کو دِیکھ رہے تھے ۔کاش آپ نے بھی دوسرے ناقدین کو نظر انداز کرکے منٹو کے افسانوں پر بات کی ہوتی تو کچھ اور افسانے بھی اِس زور دار مکالمے کا حصہ ہو جاتے ۔
..........
علم کا ہیضہ ،لیوسا اور یوسا
خیر، کتاب کی طرف آتا ہوں اور اعتراف کرتا ہوں کہ اِسے پڑھتے ہوئے مجھے اِس پر حیرت ہو رہی تھی کہ ابھی تک آپ کا قلم بپھرنے ، کٹاری کی طرح کاٹنے اور مقابل کے بخیے اُدھیڑنے کا چلن اَپنائے ہوئے ہے ۔ وہاں وہاں تو بہ طور خاص قلم کٹاری کا کھچاکا سارے میں گونجنے لگتا ہے جہاں جہاں وارث علوی کا نام آیا ۔ ایک مقام پر تو مجھے لگا؛ وارث علوی صاحب کے ساتھ کچھ زیادتی ہو گئی ہے۔ جی، وہیں جہاں آپ نے ہمارے ہاں کے اس تنقیدی عجز کو نشان زد کیا ہے جو منٹو کو صرف جنس نگار سمجھ کر بات کرتی ہے ،آپ نے لکھا :
’’اس طرح منٹو کا تو کچھ نہیں بگڑا[۔۔۔]، نقصان تو منٹو کے بعد کی نسلوں کا ہوا کہ انھوں نے منٹو کو صرف ایک آنکھ سے، اور وہ بھی کانی آنکھ کے کونے سے دیکھااور وارث علوی جیسے بڑے نقاد کو’’بو‘‘ جیسے معمولی افسانے کی تعریف میں منھ سے(اور کیا معلوم کہیں اور سے بھی) رال ٹپکاتے ہوئے رطب اللسان ہونے پر مجبور ہونا پڑا۔‘‘
)گفتار اوّل:ص۔۶(
آپ نے لگ بھگ ایسا ہی وار ہم پر کیا ہے۔ ہم؛ جو آپ کے چاہنے والے ہیں ۔ اس ’’ہم‘‘ میں محمد عمر میمن کا حصہ بہت زیادہ ہے اور میرا بس سائے کا سا۔ اچھا، آپ نے ہماری طرف پچھونڈی کرکے جس جملے کا ترپھلا پھینکا ،پہلے میں اُسے نقل کیے دیتا ہوں:
’’ماریوبارگاس لیوسا(جسے بعض لوگ قابلیت کے ہیضے میں مبتلا ہو کر’’یوسا‘‘ کہتے ہیں اور جنھوں نے اس کا ایک ناول بھی نہیں پڑھااور جگہ جگہ اس کے اقوال نقل کرتے پھرتے ہیں جو ہمارے دوست محمد عمر میمن نے عام کیے ہیں،) اس نے اپنے ایک کردار کی زبان سے کیا عمدہ بات کہی ہے۔۔۔۔۔‘‘
)گفتار اوّل:ص۔۱۰(
اگرچہ اپنے دوست محمد عمر میمن کو اِس جملے کی زد سے نکال باہر دکھایا گیا ہے مگر اس کا پہلا نشانہ وہی بنے ، دوسرا یہ فقیر(یقیناًفاروقی صاحب ،آپ ہمیں نشانہ نہ بنانا چاہتے ہوں گے مگر واقعہ یہ ہے کہ ہم ہی اس کی زد پر ہیں) اور باقی والے وہ جو’’ جگہ جگہ اُس کے اقوال نقل کرتے پھرتے ہیں‘‘۔یہی سبب ہے کہ میں نے، فاروقی صاحب !آپ کے اس جملے کو’’ترپھلا ‘‘ کہا۔ اب یہ بھی سن لیجئے کہ ہم بہ اصرار ’’ ماریو برگس یو سا ‘‘ کیوں لکھتے رہے۔ یہ نام اگرچہ انگریزی میں ’’Mario Vargas Llosa ‘‘ ہی لکھا ہوا ملتا ہے مگر اسے Spanish میں یوں لکھا گیا ہے ’’ ..........‘‘ میںSpanish سے نابلد ہوں لہذا میمن صاحب نے ا نگریزی سے ترجمہ کرتے ہوئے، جیسے اسے اپنایا ، میں نے نہ صرف اسے قبول کیا ( اپنے تئیں مطمئن ہو کر ) ، اسی طرح لکھتے رہنے پر اصرار بھی کیا۔
عالی جناب، یوں کرتے ہیں کہ جس پر آپ کو اعتراض ہے یعنی ’’یوسا ‘‘ اور جس پر آپ کو اصرار ہے یعنی ’’لیوسا‘‘ پہلے اس پر بات کر لیتے ہیں۔ یہ جسے آپ نے ’’لیوسا‘‘ لکھا ہے، انگریزی میں اسے ’’Llosa‘‘ لکھا گیا ہے ۔یہاں سوال کیا جا سکتا ہے یہ ’’لیوسا‘‘ ہی کیوں؟، ’’للوسا‘‘ کیوں نہیں ۔ شاید آپ نے اردو والے’’للو‘‘ سے گھبرا کر اس کی صوت کچھ کچھ بدل دی یا پھر(اِس کا زیادہ امکان ہے کہ) آپ نے کسی ضابطے کو کام کرنے دِیا اور ایک ’’ایل‘‘ کی آواز منہا کر دی ؟ ؛ جب کوئی اصول کام کرنے لگے تو ایسا ہوتا رہتا ہے۔ لیکن کیایہ نہیں ہے کہ ایسا کرتے ہوئے آپ نے اسے نظر انداز کر دیا کہ یہ Spanish نام ہے اور اس میں ’’ .......... ‘‘ کے الٹے y" " کیصوت ’’الف‘‘ اور’’ یے‘‘ کی درمیان والی بنتی ہے۔ میں نے کہا نا کہ میں Spanish نہیں جانتا ہوں مگر مجھے بتایا گیا ہے کہ جب انگریزی والے دو ایل اکٹھے ہوں تو وہ وائی کی سی آواز دینے لگتے ہیں ۔ میں نے یوں کیا کہ اسے گوگل پر جاکر لکھا اور اس کی آواز کو کئی بار سنا ، آپ سنیں گے تو شاید آپ ’’اوسا ‘‘ لکھنے کا درس دیں (’’لیوسا ‘‘ تو بالکل نہیں) مگر میں نے کہا نا یہ آواز ’’الف‘‘ اور ’’یے‘‘ کے درمیان کہیں پڑتی ہے ؛ شاید’’ الف‘‘کے قریب اور ’’ے‘‘ سے دور ؛ تاہم مجھے یوں ’’یوسا‘‘ کی صورت درست معلوم ہوئی کہ ناول نگار کے نام’’.......... ‘‘ میں انگریزی والا ’’ y‘‘ الٹا پڑا ہوا نظر آتا ہے۔ یہی ’’وائی‘‘ ہمیں اُکساتا ہے کہ اس کی مناسبت سے، اردو میں لکھتے ہوئے ہم ’’ی‘‘ کی آوازکو بروئے کار لائیں۔ لہذا ’’یوسا‘‘ ہی قبول کیا جائے ۔ یہی سبب ہے کہ میمن صاحب کا اِسے ’’ یوسا‘‘ لکھنا اور میرا اسے اِسی طرح قبول کرنا ایسا گناہ نہیں ہے جس پر آپ ہمیں یوں رَگید ڈالیں ۔
صاحب! مجھے حیرت ہے کہ آپ نے اسے کیوں درگزر کیوں کر دیا کہ ہم جگہ جگہ ’’ماریو برگس یوسا ‘‘کے نام کادرمیانی حصہ؛ یعنی اس کے خاندانی نام (انگریزی والے) ’’ Vargas‘‘کو ’’ورگس ‘‘ یا’’ورگاس‘‘ نہیں لکھ رہے تھے ۔ یا پھر آپ نے اِس کی وضاحت نہیں فرمائی کہ یہ ’’ Vargas‘‘ آپ کے ہاں ’’ورگاس‘‘ سے ’’بارگاس‘‘ کیسے ہو گیا؟۔ کیا یہاں بھی وہی اصول اپنایا جانا نہیں جانا چاہیے تھا جو آپ نے ’’لیوسا‘‘ کے باب میں اپنایا؟ اَچھا، یہ ایسا مقام تھا کہ آپ چاہتے تو ہمیں شدّت سے ایک بار پھر لتاڑ سکتے تھے۔ یقین جانیے کہ آپ جس مقام پر ہیں وہاں سے آپ کی جھڑکیاں بھی ہمیں پھول سی لگتی ہیں۔ بہت سے ایسے مقام آئے ہیں کہ ہم نے آپ سے سیکھا ہے ۔ آپ کو مانا ہے اور یہی سبب ہے کہ آپ کا احترام سچے دِل سے کرتا ہوں ۔ خیر،میں یہاں اندازہ لگالیتا ہوں کہ اپنے محبت کرنے والے، ہم دونوں دوستوں کو، آپ نے جان بوجھ کر یہاں رعایتی نمبر دے دیے ہوں گے۔
میمن صاحب اگرچہ شروع ہی سے ’’Vargas‘‘ کو اُردو میں’’ برگس‘‘ لکھتے رہے تھے۔ انہوں نے یوسا کی کتاب’’Letters to a Young Novelist‘‘ سے جو تراجم علی محمد فرشی کے رسالہ’’سمبل ‘‘ راول پنڈی میں چھپوائے ان سب میں’’Vargas‘‘ کو’’ برگس ‘‘ہی لکھا گیا تھا؛ لہذا ہمارے خطوط’’کہانی اور یوسا سے معاملہ‘‘ مطبوعہ2011ء میں ’’برگس‘‘ کو ہی اپنایا گیا تھا۔ وہ اپنے ترجمہ شدہ متن کی برقی فائل بناتے ہوئے اس کا نام’’Llosa‘‘ رکھتے اور جہاں مصنف کا نام اردو میں دینا ہوتا وہاں ’’ماریو برگس یوسا‘‘ کر دیتے ۔ ای میل کے ذریعہ ہمارا مکالمہ 11۔ اپریل2008 ء کو شروع ہوا،اور..........0 اگست 2008 ء تک چلتا رہا ۔ میمن صاحب اپنے ترجمہ کیے ہوئے صفحات کی ’پی ڈی ایف ‘ مجھے بھیجتے رہے ۔ لگ بھگ یوسا کی نصف سے زائد کتاب کا ترجمہ بھیج چکنے کے بعد ، میمن صاحب نے ایک ایسی ای میل کی ،جس میں لف ہونے والی فائل میں مصنف کا نام’’ماریو برگس یوسا‘‘ کی بہ جائے’’ماریو ورگس یوسا‘‘ کر دیا گیا تھا ۔ میں نے اِس باب میں اپنی اِی میل محررہ6 مئی2008ء میں بہ اصرار لکھا:
’’یوسا کے نئے خطوط مِل گئے ہیں ۔ مجھے کچھ وقت درکار ہوگا کہ توجہ سے پڑھ سکوں تاہم میں اس کا نام’’ماریو ورگس یوسا‘‘ پڑھ کر چونک گیا ہوں ۔ پہلے تم ’’ورگس‘‘ کی جگہ ’’برگس ‘‘ لکھتے رہے ہو ۔ کیا یہ مناسب نہیں ہوگا کہ یہ برگس ہی رہے۔‘‘
)مشمولہ ’’کہانی اور یوسا سے معاملہ‘‘ ،ص ۔۴۶ (
میمن صاحب نے اگر ’’ورگس‘‘ کر لیا تھا، چاہتے تو ’’ورگاس‘‘ بھی اپنا لیتے مگر میں نے اُنہیں ایسے کرنے سے روک دیا تو اس کا میرے پاس ، اپنے تئیں ایک جواز تھا؛جیسے آپ کے پاس انگریزی والے ’’ Vargas‘‘کو ’’ بارگاس‘‘ لکھنے کا یقیناً جواز ہوگا( اگرچہ زیر نظر مراسلہ میں اس جواز کو سامنے نہیں لایا گیا )۔ میں نے ادب کے ایک طالب علم کی حیثیت سے اس کا جواز ڈھونڈنے کا حیلہ کیا اور انٹر نیٹ پرجاکر IPA for Spanish سے مدد لی ۔ میں نے دیکھا تھا کہ انگریزی والا ’’ Vargas‘‘ دراصل Spanish میں’’..........‘‘ ہے۔ اور یہ جو شروع میں ’’B‘‘ جیسا نظر آ رہا ہے اس کی آواز انگریزی والے’’ baby‘‘ کے’’ b‘‘ اور اُردو والی’’بیوی‘‘ کے ’’ب‘‘ کے درمیان کہیں بنتی ہے لہذا میمن نے جو ’’برگس ‘‘ لکھا وہی درست معلوم ہوا تھا۔
لیجئے، اس باب میں تازہ ترین شہادت یہ ہے کہ ہمارے دوست ظفر سید( ناول ’’آدھی رات کا سورج‘‘ والے زیف سید) نے مجھے اس نام کودرست درست سنوانے کے لیے انٹر نیٹ کا ایک لنک بھیج دیا ہے۔
(www.forvo.com/word/mario_vargas_llosa/)
میں نے وہاں جاکر اس نام کو تین مختلف آوازوں میں سنا۔ پہلی اور تیسری آوازیں اسپین کے دومردوں کی تھیں، جب کہ درمیان والے لنک پر جس آواز میں یہ نام سنوانے کی سہولت فراہم کی گئی تھی ، وہ پیرو کے ایک شخص کی تھی ۔ ان تینوں آوازوں نے تصدیق کی کہ ’’یوسا‘‘ لکھا جانا ہی مناسب تھا۔ آپ جانتے ہی ہیں کہ یوساArequipa, Peru میں پیدا ہوا تھا؛ یوں درمیان والے لنک کی یہ گواہی تو اس کے گھر کی ہی سمجھئے ۔
..........
بھک سے اُڑ جانے والاسیاسی شعور
اوہ ، ہمیں تو بات منٹو کی کرنا تھی اور درمیان میںیوسا صاحب ٹپک پڑے ۔ اَب کوشش ہوگی کہ اِدھر اُدھر نہ بھٹکوں اور اپنی بات کو آپ کی تحریر کے صرف اُن علاقوں تک محدود رَکھوں جہاں جہاں منٹو کا افسانہ زِیرِ بحث آیا ہے۔ جی منٹو کی دیگر ہلکی پھلکی تحریروں پر آپ نے( گفتار دوم ص ۱۱ تا ۱۵ )ایسی باتیں کی ہیں جن پر دِل ٹُھکتا ہے مگر ان پر کوئی کامنٹ کیے بغیر میں اِس لیے گزر رہا ہوں ، کہ ہمیں زیادہ علاقہ منٹو کے اُس سیاسی شعور سے رَکھنا ہوگا جو اس کے تخلیقی وجود میں ڈھل کر فکشن ہوا ۔ آپ نے کہا :
’’اس میں عقل مندی کی باتیں بھی ہیں اور بہت سی ہیں ۔‘‘
)گفتاردوم :ص ۱۱(
اس ’’بھی‘‘نے اور بھی لطف دِیا ہوتا اگر کسی ’’ نہایت ’’سنجیدہ موضوع‘‘ پر’’ طنزیہ‘‘ اور تھوڑے سے’’ مزاحیہ‘‘ مضمون(ص۔ ۱۱) ‘‘ کو منٹو کے کسی افسانے سے جوڑ کر دیکھا گیا ہوتا ۔ آپ نے یہ بھی درست فرمایا کہ:
’’ منٹو کی اکثر تحریروں کی طرح [چچا سام کے نام ] ان خطوط کو بھی توجہ سے پڑھا نہیں گیا ورنہ یہ ہمارے زمانے کے سیاسی اور سماجی موضوعات پر انتہائی بیدار مغز اورزندہ تحریریں ہیں ‘‘
) گفتار دوم :ص ۔۱۵(
جس کسی کو فکشن سے کوئی واسطہ نہ ہوگا اور وہ منٹو کا سیاسی شعور نشان زد کرنا چاہتا ہوگا بلا شبہ ’’گفتار دوم‘‘ والی آپ کی باتیں اسے بہ جا طور پر بہت کچھ سجھا دیں گی مگر میرے لیے اہم یہ ہے کہ یہ والا’’ شعور‘‘ منٹو کے کس کس افسانے میں اور کس اسلوب میں ڈھلا۔
آگے چل کر ، جہاں آپ نے فیض احمد فیض کے اس بیان کی طرف اشارہ کیا تھا جو ’’ٹھنڈا گوشت‘‘ پر مقدمہ چلنے کے دنوں میں دیا گیا تھا ؛ جی وہی جس میں’’سیاسی شعور کے پالے ہوئے‘‘ فیض صاحب(بل کہ کرنل فیض احمد فیض :صفائی کے گواہ نمبر ۵) نے منٹو کے افسانے’’ٹھنڈا گوشت‘‘ کے بارے میں فرمایا تھا:
’’اس افسانے میں مصنف نے فحش نگاری نہیں کی لیکن ادب کے اعلی تقاضوں کو بھی پورا نہیں کیا ۔کیوں کہ اس میں زندگی کے بنیادی مسائل کا تسلی بخش تجزیہ نہیں ۔‘‘
اچھا، جب آپ اس بیان کو رد کر رہے تھے تو میں چاہ رہا تھا کہ اس افسانے میں منٹو کا سیاسی شعور اور انسانی نفسیات اور توفیقات کا مطالعہ جس سلیقے سے کیا گیا ہے اُس پر آپ ضرور بات کرتے۔ جیسا کہ افسانہ پڑھتے ہی ہم پرکُھل جاتا ہے کہ ’’ ٹھنڈاگوشت‘‘ کے عقبی منظر نامے میں تقسیم کے فسادات ہیں ۔ جو حادثہ ایشر سنگھ کے ساتھ پیش آیا ؛وہ محض ایک کیس ہسٹری نہیں تھا؛ اگرچہ اس مقدمے کے ایک گواہ اور نفسیات کے اُستاد نے ایسا گمان باندھا اور کہہ دیا تھا:
’’یہ کسی سائنسی رسالے میں کیس ہسٹری کے طور پر چھپتا تو اس پر فحاشی کا الزام عائد نہیں ہو سکتا تھا‘‘
یہ افسانہ تو فرد کی نفسیات پر بڑے پیمانے پر ہونے والی سیاسی اَکھاڑ پچھاڑ کا ایسا مطالعہ تھا جو فن پارہ بن گیا ہے ۔منٹو کا سیاسی شعور اسے اپنے ڈھنگ سے دیکھتا ہے اور اپنے افسانوں میں دِکھاتا رہا ہے اس حوالے سے ، اس کے مطالعہ کی طرف آپ آتے تو یقیناً ہمیں اور بھی بہت سی کام کی باتیں پڑھنے کو ملتیں۔
..........
میر اور منٹو:خیال کی باریکی کا کرشمہ
’’گفتار سوم ‘‘ والی گفتگو بھی بہت اعلی اور عالمانہ ہے ، یہاں منٹو کے چلن کی مناسبتیں صوفیا کے طرزِ عمل سے یوں ڈھونڈ نکالی گئی ہیں جیسے ہمارے محترم دوست فتح محمد ملک نے’’ فیض‘‘ کے اندر سے صوفی ڈھونڈ نکالا تھا ۔ یہ والا صوفی؛ کہیں کہیں ’’مردوں کے حیض‘‘ میں مبتلا نظر آتا ہے اور کہیں ’’دعوائے مردانگی‘‘ میں مگن ۔ خیر،کتاب کے اس حصہ میں آپ نے بہ جا طور پر فرمایا ہے :
’’ جو شخص اپنے زمانے کے بہت بعد آنے والے مسائل منٹو کی طرح روشن آنکھوں سے دیکھ سکے ، اسے ’’خیال و فکر‘‘ کی ’’گہرائی‘‘ سے کیا لینا دیناہو سکتا ہے؟ معاملات کو اتنی گہرائی اور اس قدر سلجھے ہوئے ذِہن کے ساتھ دِیکھنا اور سمجھنا کہ آج ہی کے مسائل نہیں، ان کے آئندہ مضمرات بھی نظر آجائیں ، یہ اگر فکر کی گہرائی اور خیال کی باریکی کا کرشمہ نہیں تو پھر اور کیا ہے؟‘‘
) گفتارسوم :ص ۱۶(
کیا ہی اچھا ہوتا کہ’’ جنس‘‘ اور’’ فساد‘‘کے علاوہ بھی منٹو کے موضوعات آپ کے ہاں باقاعدہ ایک موضوع بنتے خصوصاً معاملات کی یہ گہرائی ان کے افسانوں میں کہاں کہاں ظاہر ہوتی ہے(اگر آپ کے نزدیک ایسا ہے تو؟)، اور وہاں تخلیق کیا چھب دکھاتی ہے ۔ جنس کو بہ طور جبلت اور فساد کو بہ طور وقوعہ پر آپ نے اس مراسلہ /مضمون میں بھرپور انداز میں گفتگو کی ہے مگر اپنی فکریات ( اور خیال کی باریکی کے کرشمے) کو منٹو صاحب نے کس طرح افسانے میں برتا ، اس پر بات تشنہ رہی۔ میرا خیال ہے اگر اس باب میں’’نیا قانون‘‘ جیسا ایک آدھ افسانہ ہی زیر بحث آ جاتا تو آپ کا قلم اِدھر اُدھر کے بہت سے نقاط کو سمیٹتا چلا جاتا۔
میں نے اِسے بہت دِل چسپی سے پڑھا:
’’اُردو ادب میں میر کے سوا اگر کوئی شخص اور ہے ، جس کے یہاں زندگی کی رنگا رنگیاں ، دُکھ درد ، وجد و شوق ، غم اور مسرت ، اِنسانی وجود کا اِحترام اور اس کی کمزوریوں کا احساس ، یہ سب باتیں تخلیقی سطح پر بیان ہوئی ہیں تو وہ سعات حسن منٹو ہے ۔ مجھے تو لگتا ہے کہ میر کا یہ قول منٹو پر صادق آتا ہے :
اشعار میر پر ہے اب ہائے وائے ہر سو
کچھ سحر تو نہیں ہے لیکن ہوا تو دیکھو
)گفتار سوم:ص ۱۸(
محترم فاروقی صاحب!، ہم میرصاحب سے آپ کی محبت اور کام سے آگاہ ہیں اور جب آپ میرصاحب کے ساتھ منٹو کا ذِکر لے آتے ہیں ، تو اس کے کیا معنی بنتے ہیں اس کا اندازہ بھی لگایا جا سکتا ہے مگر میں ابھی تک آپ کے میر والے دعوی کو سمجھنے سے قاصر ہو ں؛ اس لیے کہ آگے چل کر آپ نے اس کہے کو کاٹ ڈالنے والی باتیں کی ہیں ۔ مثلاً:
’’منٹو صاحب کی نثر درحقیقت زود نویسی اور بات کو جلد از جلد ختم کرنے کی مجبوری(یا ضرورت) کے باعث انسجام اور استعارے کی چمک سے محروم ہے۔‘‘
)گفتار پنجم : ص ۔۲۷(
’’انہیں افسانہ بنانے کی فرصت نہیں تھی ۔‘‘
)گفتار پنجم : ص۔ ۳۵(
’’منٹو صاحب کو صبر کہاں تھا جو افسانہ اور کردار میں کچھ تو مطابقت پیدا کرتے ‘‘۔
)گفتار پنجم : ص۔ ۴۵(
’’منٹوتھوڑا بہت تجسس قائم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن انجام کی سستی پھر بھی باقی رہتی ہے۔‘‘
)گفتار ہشتم : ص ۔۴۷(
ایسا لکھتے ہوئے آپ کی نظر سے وہ والا منٹو اوجھل ہو جاتا ہے ، جس کے ہاں آپ ’’فکر کی گہرائی اور خیال کی باریکی‘‘ کو ایک ’’ کرشمہ‘‘ کی صورت بتا چکے ہیں۔ اچھا یہاں تو میر تقی میر بھی ایک طرف ہو کر بیٹھ جاتے ہیں ۔ میر صاحب ایسے تو کہیں بھی نہیں تھے ۔ وہ تو آپ کے ہاں ایسے شاعر کے طور پر شناخت ہوتے ہیں جنہوں نے کئی طرح کے لسانی وسائل استعمال کیے تھے اور اس ترکیب و تناسب سے کہ ان کا مجموعہ اپنی بہترین صورت میں اپنی طرح کا بہترین شاعرانہ اظہار بن گیا (میر کی زبان :روز مرہ یا استعارہ/شمس الرحمن فاروقی)۔ ایک طرف ایسی نثر جواِنسجام اور اِستعارے کی چمک سے محروم ہو، جسے لکھنے والے کے پاس اتنی فرصت نہ ہو کہ وہ اسے بنائے سنوارے، جو کرداروں میں مطابقت پیدا کرنے کا اہتمام نہ کرتا ہو، کہانی میں تجسس اُبھارتا ہو مگر انجام کی سستی غالب رہتی ہو؛ اُس کا میر سے کیا مقابلہ؟ کہ میر نے بہ قول آپ کے’’ زبان کو تازہ کار اور تہ دار بنادیا تھا‘‘ ۔ اچھا ،زبان کے ایسے انسجام کے ساتھ آپ میر صاحب کو ’’باؤ کے گھوڑے پر سوار ‘‘ دیکھیں تو بات سمجھ میں آتی ہے مگر ہمارے منٹو صاحب اس’’ باغ کے ساکن سوار‘‘ نہ تھے ۔ مجھے تو لگتا ہے آپ نے اس میدان میں ہمارے منٹو صاحب کو لا کر مروانا چاہا ہے ۔
مذکورہ بالا مضمون میں آپ ہی نے توبتا رکھا ہے کہ’ میر نے عربی کے غریب الاستعمال الفاظ اور تراکیب اور عربی کے ایسے الفاظ جو غزل میں شاذ ہی دکھائی دیتے ہیں خوب استعمال کیے ‘‘اور یہ کہ’’ میر کا عالم یہ تھا کہ ان کی کم غزلیں ایسی ہوں گی جن میں کم سے کم ایک نادر فقرہ یا لفظ یا اصطلاح اور چھے سات نسبتاً کم مانوس الفاظ یا فقرے استعمال ہوئے ہوں ۔‘‘ واقعہ یہ ہے کہ میر کے شاعرانہ اِستعمال والے قرینے کا مقابلہ منٹو کی فکشن کی زبان سے نہ تھا؛نہ ہی کیا جانا چاہیے،جو اُنہوں نے صاف ، رواں اور روز مرہ کے قریب رہ کر اپنے افسانے کے لیے اس قدر موزوں بنالی تھی کہ اُس کے اِستعمال سے افسانہ میں کہانی سریع ہوئی اور بیانیہ چست ہو گیا تھا۔ کہہ لیجئے کہ منٹو صاحب کا بیانیہ سادہ اور اکہرا تھا مگر اُس زمانے میں جو لکھ رہے تھے اُن کا معاملہ کیا تھا؟ منٹو کی آنکھ سے ہی اس کی جھلک دیکھ لیتے ہیں ۔منٹو صاحب نے احمد ندیم قاسمی کو لکھا تھا:’’میں خود بہت sentimentalہوں مگر میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں افسانوں میں sentiments زیادہ نہیں بھرنا چاہئیں۔آپ کے افسانوں کا مطالعہ کرنے کے بعد مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ sentiment آپ کی میخ[مُخ] تک پہنچ چکا ہے‘اِس کو دَبانے کی کوشش کیجئے۔‘‘ایک اور جگہ قاسمی صاحب ہی کو لکھا تھا: ’’آپ بقدر کفایت ضبط کو کام میں نہیں لاتے۔آپ کا دماغ اصراف کا زیادہ قائل ہے۔‘‘ راجندر سنگھ بیدی کا افسانہ’’ دس منٹ کی بارش‘‘ پڑھنے کے بعد منٹو صاحب نے کہا تھا :’’طرزِ بیان بہت اُلجھا ہوا ہے۔‘‘ اور پریم چند کے بارے میں منٹو صاحب کا فیصلہ تھا:’’ان سے ہم کچھ بھی نہیں سیکھ سکتے۔‘‘خود منٹو صاحب نے غیر ضروری تفاصیل کے بیان سے اجتناب کیا اور بیانئے کو اُلجھاوؤں سے باہر نکال لائے اُسے چست کر دیا۔بے شک وہ سادہ رہااوراکہرا بھی ‘ مگر اُنہوں نے جملوں کو کاٹ دار بنا یاور اُن میں اتنا زہر بھر دیا کہ خون میں اُتر کر سارے بدن کو نیلا تھوتھا سا بنا دیتے ہیں۔ شاید یہی سبب ہے کہ کرشن چندر نے کہا تھا:’’وہ اس قدر بے رحم ہے کہ کلوروفارم دینا بھی پسند نہیں کرتا۔‘‘
یہ جو میں نے منٹوصاحب کے ہاں جملوں کے یک سطحی رہ جانے کی بات کی ہے تو واقعہ یہ ہے کہ خود منٹو کو بھی اس کا ادراک تھا‘ تب ہی تو اُنہوں نے لکھا تھا:
’’ وہ لفظوں کے پیچھے یوں بھاگتا ہے جیسے کوئی جال والا شکاری تتلیوں کے پیچھے۔وہ اس کے ہاتھ نہیں آتیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس کہ تحریروں میں خوب صورت الفاظ کی کمی ہے۔‘‘
)بقلم خود: منٹو(
کہیں کہیں وہ اِس کمی کو پورا کرنے کی شعوری کو شش کرتے بھی ہیں مگر بالعموم وہ کہانی کے بہاؤ، کرداروں کے مزاج اور کرداروں کے وسیب سے مطابقت رَکھنے والی زبان ہی اِستعمال کرتے ہیں ؛ جی فکشن کی زبان ۔ انسجام اور اِستعارے کی چمک کو خاطر میں نہ لانے والی ، مگر بیانیے کو چست بنانے والی فکشن کے لیے مناسب زبان ۔ ایسی زبان لکھنے کی اُن کے پاس فرصت ہی فرصت تھی اور اسی زبان نے اُن کی کہانی میں ایسا جادو بھر دیا، جوسرچڑھ کر بولتا تھا۔
..........
میرصاحب کا فکشن اور ہمارے منٹو صاحب
امام بخش ناسخ نے میرصاحب کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا تھا:
شبہ ناسخ نہیں کچھ میر کی اُستادی میں
آپ بے بہرہ ہے جو معتقد میر نہیں
اور محمد ابراہیم ذوق نے کسی غزل کہنے والے کی طرف تیکھی نظروں سے دیکھا اور طنز کا تیر برساتے ہوئے کہا تھا :
’’کھول دو کا دارومدار صر ف ایک دو لفظی فقرے’’ کھول دو‘‘ پر ہے۔ ایک نوجوان لڑکی جو فسادات کے دوران ریلوے لائن کے پاس بے ہوش پڑی تھی ہسپتال لائی جاتی ہے۔ اس کا باپ اس کی تلاش میں سرگرداں تھا، اس نے سنا کہ ایک بے ہوش لڑکی اسپتال میں لائی گئی ہے۔ وہ دوڑتا ہوا اسپتال کے اس کے کمرے تک پہنچتا ہے جس میں:
کوئی بھی نہیں تھا، بس ایک اسٹریچر تھا، جس پر ایک لاش پڑی تھی۔
...ڈاکٹر نے ، جس نے کمرے میں روشنی کی تھی، اس سے پوچھا: ’’کیا ہے؟‘‘
اس کے حلق سے صرف اتنا نکل سکا، ’’جی میں...جی میں اس کا باپ ہوں۔‘‘
ڈاکٹر نے اسٹریچر پر پڑی ہوئی لاش کی طرف دیکھا، پھر لاش کی نبض ٹٹولی اور اس سے کہا،’’ کھڑکی کھول دو۔۔‘‘
مردہ جسم میں جنبش ہوئی۔
بے جان ہاتھوں نے ازاربند کھولا۔
اور شلوار نیچے سرکا دی۔
بوڑھا سراج الدین خوشی سے چلایا، ’’زندہ ہے...میری بیٹی زندہ...‘‘
ڈاکٹرسر سے پیر تک پسینے میں غرق ہوچکا تھا۔
افسانہ یہاں ختم ہوجاتا ہے۔ ہے نہ نہایت’’دردناک ‘‘اور’’ غم انگیز ‘‘اور ’’دل دہلادینے والا‘‘ انجام؟ آخری جملے کی فضولیت اور لچر پن کو چھوڑدیں تو انجام اور بھی ’’دردناک‘‘ ہو جاتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ افسانہ نگار نے کچھ کہے بغیر ہی ہم پر سب کچھ ظاہر کردیا ہے۔ یہ حزم اور یہ ضبط فسادات تقسیم کے بارے میں افسانوں میں کم نظر آتا ہے اور منٹو اس کے لیے ہمارے شکریے کے حق دار ہیں۔ سراج الدین کی بیٹی اجتماعی زنا بالجبر کا شکار ہوئی ہے اور بار بار ہوئی ہے۔ اور ظلم اور تشدد کے ذریعہ اس کو جابر زنا کاروں کا اس قدر پابند بنا دیا گیا ہے کہ ان کے حکم کی فوراً اور بے سوچے سمجھے تعمیل کرنا اُس کی فطرت ثانیہ بن چکا ہے۔ جب ڈاکٹر کہتا ہے،’’ کھڑکی کھول دو‘‘ تو وہ ’’کھڑکی‘‘ کا لفظ سنتی ہی نہیں، اسے صرف’’ کھول دو‘‘ سنائی دِیتا ہے ۔
اب تم یہ غور کروکہ زنا بالجبر کرنے والے اسے کیا حکم دیتے ہوں گے؟ یا کیا اُنھیں ضرورت بھی پڑتی ہوگی کہ اپنی شیطانی ہوس پوری کرنے کے لیے کوئی حکم بھی دیں؟ کیا یہ زیادہ’’ فطری ‘‘نہیں کہ وہ اُس کی شلوار کو کھنچ کر،ا ور شاید پھاڑ کر پھینک دیں، اوراَپنا مقصد پورا کرنے کے بعد اُسے حکم دِیں کہ اَب تو شلوار پہن سکتی ہے؟بل کہ اُسے کپڑے پہنے رہنے دینے کی ضرورت ہی کیا تھی؟ کیا حالات کے زیادہ موافق یہ نہیں کہ لڑکی یوں ہی پڑی رہے اور زنا کار اُس پر جب چاہیں حملہ کرتے رہیں۔یا بہت سے بہت اِنسانیت دِکھائیں تو اُس پر کوئی چادر،یا اُس کی اوڑھنی کھینچ ڈال دِیں اورپھر جب چاہیں اُسے اُتار پھینکیں؟
یا،چلو مان لیتے ہیں کہ کسی خوف (یا کسی خیال)کی بنا پر اُس کے حملہ آور اُسے شلوار پہنے رہنے دیتے ہیں اور پھر جب چاہتے ہیں اُس کو حکم دیتے ہیں کہ’’ شلوار کھول دو‘‘۔
مگر ٹھہرو، یہ تو کچھ عجیب سی بات معلوم ہوتی ہے۔جس قسم کے اِنسان وہ ہیں، کیا وہ اِس کی شلوار اُتروانے کے لیے گفتگو کے لہجے میںیوں کہیں گے کہ’’ شلوار کھول دو!؟‘‘زیادہ مناسب (اور اُردو روز مرہ کے عین مطابق)تو یہ ہوتا کہ وہ تحکمانہ لہجے میں لڑکی سے کہتے، ’’شلوار کھول!‘‘یا اُسے گالی دِے کر چیختے،’’ شلوار اُتار!‘‘ یا شاید اِس طرح کہتے،’’ کھول دِے شلوار!‘‘ یا پھر شاید اس طرح کہتے،’’ابے ننگی ہو جا!شلوار کھول!‘‘ پھر یہ’’ کھول دو‘‘ منٹو صاحب نے کہاں سے سوچ لیا؟ وہ ظالم جفا کار کیا کوئی مہذب لوگ تھے، اور کیا وہ موقع اِنتہائی شائستگی کا تھا کہ کہتے،’’ شلوار کھول دو‘‘۔ اس سے تو بہتر یہ تھا کہ منٹو صاحب بات چیت کے شائستہ لہجے میں اُن کی زبان سے کلام یوں ادا کراتے:’’براہ کرم شلوار کھول دیجیے۔ہم آپ کے ساتھ زنا بالجبر کریں گے، شکریہ۔‘‘ منٹو صاحب تو بڑے زبان شناس تھے۔ اُنھیں روزمرہ کا اِتنا بھی لحاظ نہ رہا کہ وہاں شیطان صفت دِرندوں کی زُبان سے صرف ’’کھول!‘‘کے بجاے کھول دو کہلاتے، اور وہ بھی ڈاکٹر کے لہجے اور ہلکی آواز میں؟ معاف کیجئے گا،منٹو صاحب کی زبان شناسی کے بارے میں میری رائے اتنی پست نہیں ہے۔‘‘
جہاں اِقتباس ختم ہوا وہاں اشعر نجمی صاحب نے قوسین میں (لکھاجاری ہے)۔۔۔ گویا اس باب میں فاروقی صاحب نے اور بھی بہت کچھ فرمایا ہوگا ۔ فاروقی صاحب گفتگو بہت دلچسپ بنا لیا کرتے ہیں ؛ یہاں بھی ایسا ہی ہوا لیکن مجھے لگتا ہے گفتگو کے اس ٹکڑے میں منٹوکے افسانے ’’کھول دو‘‘ کے ساتھ اِنصاف نہیں ہوا ۔ مجھے حیرت ہے کہ اُن کا دھیان پنجاب کے روزمرہ کی طرف کیوں نہیں گیا جہاں اِس طرح کا تخاطب اِتنا شائستہ بھی نہیں رہتا(لہجہ دھیان میں رہے)، جتنا فاروقی صاحب نے ثابت کرنا چاہا ہے۔ اچھا، جو حکم ’’کھول‘‘ کے ساتھ دِیا جاسکتا تھا ، اُس کے لیے منٹو نے ’’کھول دو‘‘کیوں لکھا، فاروقی صاحب کا یہ سوال( کہانی اُچٹتی نظر سے دیکھیں تو )بہ ظاہردرست لگتا ہے مگر یہ ایسا ہے نہیں ۔ منٹو صاحب نے اِسے بڑے سلیقے سے برتا ہے۔ کیسے ؟یہ میں ذرا بعد میں بتاؤں گا۔ پہلے یہ بتانا چاہتا ہوں کہ منٹو بھی جانتے تھے کہ اس کی اختتامی سطور بہت اہم ہیں اور انہی سے افسانہ بنے گا۔ منٹو نے اس کے اختتام کی اہمیت کے بارے میں اپنے مضمون’’ زحمت مہر درخشاں‘‘ میں بتا رکھا ہے :
’’ قاسمی صاحب ،جب دوسرے روز شام کو تشریف لائے تو میں اپنے دوسرے افسانے’’ کھول دو‘‘ کی اختتامی سطور لکھ رہا تھا۔ میں نے قاسمی صاحب سے کہا۔آپ بیٹھیے میں افسانہ مکمل کرکے آپ کو دیتا ہوں۔ افسانے کی اِختتامی سطور چوں کہ بہت ہی اہم تھیں ، اِس لیے قاسمی صاحب کو کافی اِنتظار کرنا پڑا۔ ‘‘
صاحب ! پنجاب کا جو محاورہ ہے اُس سے منٹو کیسے نابلد ہو سکتے تھے ۔ اِسے پڑھ کراحمد ندیم قاسمی پر کیا اثر ہوا وہ بھی خود قاسمی صاحب سے سن لیجئے۔ فرماتے ہیں :
’’ میں افسانہ پڑھ کر سناٹے میں آگیا تھا ۔ اگرمنٹو کے بجائے کوئی اور میرے پاس ہوتا تو میں باآواز بلند رونے لگتا۔‘‘
جو جملہ منٹو نے لکھا اور پوری ذمہ داری سے لکھا اور اس احساس کے ساتھ لکھا کہ اسی سے افسانے نے بننا تھا ۔جی ،وہی جملہ جو قاسمی صاحب کو رُلا سکتا تھا کہ وہ پنجابی روزمرہ سے آگاہ تھے؛ وہ جملہ اور آخری جملہ فاروقی صاحب کے نزدیک اپنے اندر’’فضولیت‘‘،’’لچر پن‘‘ اور’’ شائستگی‘‘ کو لے آتا ہے ؟ تو مجھے حیرت ہوتی ہے ۔ اچھا، یہ لطیفہ گھڑا جا سکتا ہے کہ وہ جنہوں نے اِس افسانے کو چھاپنے پر’’نقوش‘‘ کو سیفٹی ایکٹ کے تحت چھ ماہ کے لیے بند کر دیا تھا ،’’ کھول دو‘‘ کی فاروقی صاحب کی دریافت کردہ’’ شائستگی‘‘ سے آگاہ ہوتے تو شاید’’ نقوش‘‘ سیفٹی ایکٹ کی زد میں نہ آتا۔
اب رہا معاملہ’’ کھول ‘‘اور’’ کھول دو‘‘ والا ؛ تو یوں ہے کہ یہاں بھی میں منٹو صاحب کے ساتھ خود کو کھڑا پاتا ہوں۔ دیکھیے افسانے کے متن نے پہلے سے بتا رکھا ہے کہ تقسیم کے زمانے میں، سترہ سالہ سکینہ کو جنسی تشدد کا نشانہ بنانے والے آٹھ رضا کار تھے ؛ سب نوجوان۔اُنہیں لڑکی کواُردو والے روز مرہ کے عین مطابق(تحکمانہ لہجے)میں کہنے کی ضرورت نہ تھی کہ شلوار کھول! ۔نہ اُسے گالی دے کر اُس پرچیخنے اور’’شلوار اتار!‘‘،’’کھول دے شلوار!‘‘یا پھر’’ابے ننگی ہو!‘‘،’’شلوار کھول! ‘‘وغیرہ وغیرہ( فاروقی صاحب کے ذہن میں آنے والا کوئی اُردو کامناسب جملہ)کہتے ۔ منٹو نے پنجابی والے روزمرہ کے قریب ’’ کھول دو‘‘ کو لیا تو اِس لیے کہ منٹو صاحب جانتے تھے، جس مزاج کو وہ لکھ رہے تھے اُس کے روزمرہ میں شلوار کھولی نہیں جاتی، اُتاری جاتی ہے۔ہاں ناڑہ کھولا جاتا ہے۔ اچھا، میں نے کہا نا کہ افسانے نے اُن کی تعداد آٹھ بتائی تھی ۔ جس طرح کا نقشہ فاروقی صاحب نے کھینچا ہے اُس سے لگتا ہے ،وہ سب سکینہ کے سامنے قطار بنا کر کھڑے ہو گئے تھے؛ حکم دینے ’’کھول‘‘ یا درخواست کرنے کہ ’’براہ کرم شلوار کھول دیجیے۔ہم آپ کے ساتھ زنا بالجبر کریں گے، شکریہ۔‘‘ جب کہ واقعہ یہ ہے کہ منٹو نے’’ کھول دو‘‘ لکھ کر اِس کا اہتمام بھی کر دیا ہے کہ ہم اُن آٹھوں کو نظر میں رکھیں جن میں سے کوئی سکینہ کو گرفت میں لے سکتا تھا؛ اُس کے ہاتھ پاؤں قابو کرنے۔ اورجب اُن میں سے ایک اُس کا نالا (بل کہ ناڑا)جی وہی اُردو والا’’ ازاربند ‘‘گرفت میں لیتا تو دوسرا کہہ سکتا تھا :’’کھول دو‘‘ اور پہلے والاکھول دیتا ۔ پھر یہ ناڑا اتنی بار کھلتا کہ’’ کھول دو‘‘ پر نیم مردہ سکینہ کے اپنے ہاتھ خود بخود حرکت میں آ جاتے؛ وہی پہلے سے سکھلایا گیا عمل بالکل میکانکی انداز میں دہرانے کے لیے ۔ جب حواس کا ناس مار دیا گیا ہو تو سماعت اگلے پچھلے الفاظ نہیں سنا کرتی، ایسے میں اگر’’کھڑکی‘‘ کا ڈاکٹر کا کہا ہوا لفظ سکینہ کی سماعت سے ٹکرانے سے پہلے ہی کہیں گر جاتا ہے تو اِس لیے کہ اُس کے لیے’’ کھول دو‘‘ والا کاشن ہی کافی تھا جس سے اُس کی نفسیات جڑی ہوئی تھی ۔ ایک بار پھر حیران ہوں کہ فاروقی صاحب نے منٹو کے اِس قرینے کو کیوں نظر انداز کر دیا جس میں ایک جملے کے ذریعہ ایک دہرائے جانے والے عمل کی مختلف صورتیں دِکھا دِی جاتی ہیں ۔
خیر ،یاد کیجئے کہ اِسی افسانے کے حوالے سے، ہماری مراسلت کے زمانے میں بھی بات ہو چکی ہے۔ جی چاہتا ہے اُسے بھی اِس سے جوڑ کر دِیکھ لیں تاکہ میرا نقطہ نظر مربوط ہو جائے اور اگر آپ کو کچھ کہنا ہو تو کہہ ڈالیں اور جہاں کہیں میں نے تفہیم یا تعبیر میں ٹھوکر کھائی، اُس کی نشان دِہی ہو۔
محبت کے ساتھ،محمد حمید شاہد‘‘
میمن صاحب نے اس ای میل کے جواب میں کیا لکھا، پورا خط دینا چاہتا تھا مگر دوچار سطریں بوجوہ نکال دینا پڑی ہیں ۔ وہ لکھتے ہیں:
’’پیارے بھائی حمید شاہد
منٹو کے حوالے سے اس طویل خط کا لُطف آگیا۔ یوں لگا جیسے پہلے والا حمید شاہد سامنے آن کھڑا ہوا ہے۔ میں نے خط پڑھنا شروع ہی کیا تھا کہ مجھے یوسا کے ضمن میں تمہارا وہ خط یاد آگیا جس میں تم نے منٹو کے اسی افسانے پر بڑی مدلل، اثر انگیز اور دِل کو لگنے والی بحث کی ہے۔ شاید تمھیں یاد ہو کہ میں نے اَپنے پیش لفظ میں اُس کا ذِکر بھی کیا تھا۔
فاروقی صاحب کے کئی رخ ہیں۔ ایک بات جو اُنہوں نے یکسر نظر انداز کردی ہے وہ یہ ہے کہ ڈاکٹر کے فقرے کا مخاطب سکینہ نہیں بلکہ اُس کا باپ ہے۔ ظاہر ہے، وہ اُس سے کھڑکی کھولنے کے لیے ہی کہہ سکتا ہے۔ اگر مخاطب کو سامنے رکھا جائے تو فقرہ بالکل بامحاورہ ہے۔ پنجاب ہو یا یو۔ پی۔ بات اسی طرح کی جائے گی۔ جو لن ترانی کی گئی ہے وہ اس وجہ سے جائز نہیں کہ رضا کار کس طرح عمل اور کلام کرتے تھے اس کی کوئی اہمیت نہیں۔ ہمیں تو بس سکینہ کا ردِعمل دِکھایا گیا ہے۔ وہ خود موضوع بحث نہیں۔ سکینہ سکتے یا نیم سکتے کے جس عالم میں ہے اُس میں اسے صرف ایک ہی لفظ سنائی دے رہا ہے اور وہ ہے’’ کھول‘‘۔ اسے دہلی یا لکھنو کے محاورے سے کوئی غرض نہیں، اور وہ تو دھندلکے کی جس دہلیز پر کھڑی ہے وہاں صحت زبان کا گزر نہیں۔ ہم سب انتہائی استغراق کے عالم میں وہی سنتے اور دیکھتے ہیں جس میں ہمارے حواس گم ہوں۔ قواعد کی پابندی میں نہیں پڑتے۔
تو، بھائی، اس ناچیز کی تو یہ رائے ہے، باقی فاروقی صاحب جانیں۔ تم چاہو تو اس پر ایک مضمون لکھ سکتے ہو۔
چند دِن پہلے میری احمد مشتاق سے فون پر بات ہورہی تھی۔ اُن کا بھی یہی کہنا ہے کہ دوستی اپنی جگہ لیکن لکھنے کے معاملے میں بے خوفی اَز بس ضروری ہے۔
تمھیں تو اندازہ ہوگا کہ لوگ منھ پر میری تعریف کرنے سے نہیں چوکتے لیکن جہاں اُن کا بس چلتا ہے مجھے نظرانداز کرنے سے بھی نہیں رہتے۔ اس کی صرف ایک وجہ ہے۔ انہیں خوب معلوم ہے کہ میں جو سوچتا ہوں وہی کہتا ہوں، لیکن اگر میری رائے کسی امر میں لوگوں کے حسبِ حال نہ ہو تو ان کے بارے میں میرے جو جذبات ہیں وہ میری منفی رائے سے بالکل گھائل نہیں ہوتے۔ [۔۔۔۔۔۔۔۔۔] اب میں آپ سے تم پر آگیا ہوں۔ نوٹ کیا ہوگا۔ اور یہ بالکل بے ساختہ ہوا ہے۔ اب تو خوش ہو نا؟
تمہارا
محمد عمر میمن‘‘
محترم فاروقی صاحب !،میں نے یوں کیا تھا کہ اپنے والے خط کی ایک کاپی اشعر نجمی صاحب کو بھی بھیج دِی وہاں سے اِطلاع دی گئی کہ فاروقی صاحب کاان کے نام مراسلہ نما یہ مضمون منٹو کے حوالے سے اُن کے آٹھ سوالات کے جواب میں رقم کیا گیا تھا ۔ اس میں کئی افسانے زیر بحث ہیں؛ لہذا پورا پڑھوں گا تو مزہ آئے گا۔بس اس کے بعد کیا تھا میرا اشتیاق بڑھ گیا۔ ’’اثبات‘‘ کا اِنتظار کرنے لگا کہ میں جاننا چاہتا تھا فاروقی صاحب! کہ آپ منٹو کے بارے میں کیا کہتے ہیں ۔ پھر جب کتاب ملی تو میرے لیے دلچسپی کا سامان صرف متن کے وہ علاقے تھے جہاں جہاں منٹو پرآپ راست بات کر رہے تھے ۔ حسن عسکری، وارث علوی، ممتاز شیریں،اجمل کمال وغیرہ کے حوالہ جات اور اُن کی تنقید پرآپ کی تنقید،جہاں کہیں تھی مجھے نہ روک پائی کہ میں اُن مقامات کو نہایت توجہ سے دِیکھ رہا تھا جہاں آپ اپنی نظر سے منٹو صاحب کو دِیکھ رہے تھے ۔کاش آپ نے بھی دوسرے ناقدین کو نظر انداز کرکے منٹو کے افسانوں پر بات کی ہوتی تو کچھ اور افسانے بھی اِس زور دار مکالمے کا حصہ ہو جاتے ۔
..........
علم کا ہیضہ ،لیوسا اور یوسا
خیر، کتاب کی طرف آتا ہوں اور اعتراف کرتا ہوں کہ اِسے پڑھتے ہوئے مجھے اِس پر حیرت ہو رہی تھی کہ ابھی تک آپ کا قلم بپھرنے ، کٹاری کی طرح کاٹنے اور مقابل کے بخیے اُدھیڑنے کا چلن اَپنائے ہوئے ہے ۔ وہاں وہاں تو بہ طور خاص قلم کٹاری کا کھچاکا سارے میں گونجنے لگتا ہے جہاں جہاں وارث علوی کا نام آیا ۔ ایک مقام پر تو مجھے لگا؛ وارث علوی صاحب کے ساتھ کچھ زیادتی ہو گئی ہے۔ جی، وہیں جہاں آپ نے ہمارے ہاں کے اس تنقیدی عجز کو نشان زد کیا ہے جو منٹو کو صرف جنس نگار سمجھ کر بات کرتی ہے ،آپ نے لکھا :
’’اس طرح منٹو کا تو کچھ نہیں بگڑا[۔۔۔]، نقصان تو منٹو کے بعد کی نسلوں کا ہوا کہ انھوں نے منٹو کو صرف ایک آنکھ سے، اور وہ بھی کانی آنکھ کے کونے سے دیکھااور وارث علوی جیسے بڑے نقاد کو’’بو‘‘ جیسے معمولی افسانے کی تعریف میں منھ سے(اور کیا معلوم کہیں اور سے بھی) رال ٹپکاتے ہوئے رطب اللسان ہونے پر مجبور ہونا پڑا۔‘‘
)گفتار اوّل:ص۔۶(
آپ نے لگ بھگ ایسا ہی وار ہم پر کیا ہے۔ ہم؛ جو آپ کے چاہنے والے ہیں ۔ اس ’’ہم‘‘ میں محمد عمر میمن کا حصہ بہت زیادہ ہے اور میرا بس سائے کا سا۔ اچھا، آپ نے ہماری طرف پچھونڈی کرکے جس جملے کا ترپھلا پھینکا ،پہلے میں اُسے نقل کیے دیتا ہوں:
’’ماریوبارگاس لیوسا(جسے بعض لوگ قابلیت کے ہیضے میں مبتلا ہو کر’’یوسا‘‘ کہتے ہیں اور جنھوں نے اس کا ایک ناول بھی نہیں پڑھااور جگہ جگہ اس کے اقوال نقل کرتے پھرتے ہیں جو ہمارے دوست محمد عمر میمن نے عام کیے ہیں،) اس نے اپنے ایک کردار کی زبان سے کیا عمدہ بات کہی ہے۔۔۔۔۔‘‘
)گفتار اوّل:ص۔۱۰(
اگرچہ اپنے دوست محمد عمر میمن کو اِس جملے کی زد سے نکال باہر دکھایا گیا ہے مگر اس کا پہلا نشانہ وہی بنے ، دوسرا یہ فقیر(یقیناًفاروقی صاحب ،آپ ہمیں نشانہ نہ بنانا چاہتے ہوں گے مگر واقعہ یہ ہے کہ ہم ہی اس کی زد پر ہیں) اور باقی والے وہ جو’’ جگہ جگہ اُس کے اقوال نقل کرتے پھرتے ہیں‘‘۔یہی سبب ہے کہ میں نے، فاروقی صاحب !آپ کے اس جملے کو’’ترپھلا ‘‘ کہا۔ اب یہ بھی سن لیجئے کہ ہم بہ اصرار ’’ ماریو برگس یو سا ‘‘ کیوں لکھتے رہے۔ یہ نام اگرچہ انگریزی میں ’’Mario Vargas Llosa ‘‘ ہی لکھا ہوا ملتا ہے مگر اسے Spanish میں یوں لکھا گیا ہے ’’ ..........‘‘ میںSpanish سے نابلد ہوں لہذا میمن صاحب نے ا نگریزی سے ترجمہ کرتے ہوئے، جیسے اسے اپنایا ، میں نے نہ صرف اسے قبول کیا ( اپنے تئیں مطمئن ہو کر ) ، اسی طرح لکھتے رہنے پر اصرار بھی کیا۔
عالی جناب، یوں کرتے ہیں کہ جس پر آپ کو اعتراض ہے یعنی ’’یوسا ‘‘ اور جس پر آپ کو اصرار ہے یعنی ’’لیوسا‘‘ پہلے اس پر بات کر لیتے ہیں۔ یہ جسے آپ نے ’’لیوسا‘‘ لکھا ہے، انگریزی میں اسے ’’Llosa‘‘ لکھا گیا ہے ۔یہاں سوال کیا جا سکتا ہے یہ ’’لیوسا‘‘ ہی کیوں؟، ’’للوسا‘‘ کیوں نہیں ۔ شاید آپ نے اردو والے’’للو‘‘ سے گھبرا کر اس کی صوت کچھ کچھ بدل دی یا پھر(اِس کا زیادہ امکان ہے کہ) آپ نے کسی ضابطے کو کام کرنے دِیا اور ایک ’’ایل‘‘ کی آواز منہا کر دی ؟ ؛ جب کوئی اصول کام کرنے لگے تو ایسا ہوتا رہتا ہے۔ لیکن کیایہ نہیں ہے کہ ایسا کرتے ہوئے آپ نے اسے نظر انداز کر دیا کہ یہ Spanish نام ہے اور اس میں ’’ .......... ‘‘ کے الٹے y" " کیصوت ’’الف‘‘ اور’’ یے‘‘ کی درمیان والی بنتی ہے۔ میں نے کہا نا کہ میں Spanish نہیں جانتا ہوں مگر مجھے بتایا گیا ہے کہ جب انگریزی والے دو ایل اکٹھے ہوں تو وہ وائی کی سی آواز دینے لگتے ہیں ۔ میں نے یوں کیا کہ اسے گوگل پر جاکر لکھا اور اس کی آواز کو کئی بار سنا ، آپ سنیں گے تو شاید آپ ’’اوسا ‘‘ لکھنے کا درس دیں (’’لیوسا ‘‘ تو بالکل نہیں) مگر میں نے کہا نا یہ آواز ’’الف‘‘ اور ’’یے‘‘ کے درمیان کہیں پڑتی ہے ؛ شاید’’ الف‘‘کے قریب اور ’’ے‘‘ سے دور ؛ تاہم مجھے یوں ’’یوسا‘‘ کی صورت درست معلوم ہوئی کہ ناول نگار کے نام’’.......... ‘‘ میں انگریزی والا ’’ y‘‘ الٹا پڑا ہوا نظر آتا ہے۔ یہی ’’وائی‘‘ ہمیں اُکساتا ہے کہ اس کی مناسبت سے، اردو میں لکھتے ہوئے ہم ’’ی‘‘ کی آوازکو بروئے کار لائیں۔ لہذا ’’یوسا‘‘ ہی قبول کیا جائے ۔ یہی سبب ہے کہ میمن صاحب کا اِسے ’’ یوسا‘‘ لکھنا اور میرا اسے اِسی طرح قبول کرنا ایسا گناہ نہیں ہے جس پر آپ ہمیں یوں رَگید ڈالیں ۔
صاحب! مجھے حیرت ہے کہ آپ نے اسے کیوں درگزر کیوں کر دیا کہ ہم جگہ جگہ ’’ماریو برگس یوسا ‘‘کے نام کادرمیانی حصہ؛ یعنی اس کے خاندانی نام (انگریزی والے) ’’ Vargas‘‘کو ’’ورگس ‘‘ یا’’ورگاس‘‘ نہیں لکھ رہے تھے ۔ یا پھر آپ نے اِس کی وضاحت نہیں فرمائی کہ یہ ’’ Vargas‘‘ آپ کے ہاں ’’ورگاس‘‘ سے ’’بارگاس‘‘ کیسے ہو گیا؟۔ کیا یہاں بھی وہی اصول اپنایا جانا نہیں جانا چاہیے تھا جو آپ نے ’’لیوسا‘‘ کے باب میں اپنایا؟ اَچھا، یہ ایسا مقام تھا کہ آپ چاہتے تو ہمیں شدّت سے ایک بار پھر لتاڑ سکتے تھے۔ یقین جانیے کہ آپ جس مقام پر ہیں وہاں سے آپ کی جھڑکیاں بھی ہمیں پھول سی لگتی ہیں۔ بہت سے ایسے مقام آئے ہیں کہ ہم نے آپ سے سیکھا ہے ۔ آپ کو مانا ہے اور یہی سبب ہے کہ آپ کا احترام سچے دِل سے کرتا ہوں ۔ خیر،میں یہاں اندازہ لگالیتا ہوں کہ اپنے محبت کرنے والے، ہم دونوں دوستوں کو، آپ نے جان بوجھ کر یہاں رعایتی نمبر دے دیے ہوں گے۔
میمن صاحب اگرچہ شروع ہی سے ’’Vargas‘‘ کو اُردو میں’’ برگس‘‘ لکھتے رہے تھے۔ انہوں نے یوسا کی کتاب’’Letters to a Young Novelist‘‘ سے جو تراجم علی محمد فرشی کے رسالہ’’سمبل ‘‘ راول پنڈی میں چھپوائے ان سب میں’’Vargas‘‘ کو’’ برگس ‘‘ہی لکھا گیا تھا؛ لہذا ہمارے خطوط’’کہانی اور یوسا سے معاملہ‘‘ مطبوعہ2011ء میں ’’برگس‘‘ کو ہی اپنایا گیا تھا۔ وہ اپنے ترجمہ شدہ متن کی برقی فائل بناتے ہوئے اس کا نام’’Llosa‘‘ رکھتے اور جہاں مصنف کا نام اردو میں دینا ہوتا وہاں ’’ماریو برگس یوسا‘‘ کر دیتے ۔ ای میل کے ذریعہ ہمارا مکالمہ 11۔ اپریل2008 ء کو شروع ہوا،اور..........0 اگست 2008 ء تک چلتا رہا ۔ میمن صاحب اپنے ترجمہ کیے ہوئے صفحات کی ’پی ڈی ایف ‘ مجھے بھیجتے رہے ۔ لگ بھگ یوسا کی نصف سے زائد کتاب کا ترجمہ بھیج چکنے کے بعد ، میمن صاحب نے ایک ایسی ای میل کی ،جس میں لف ہونے والی فائل میں مصنف کا نام’’ماریو برگس یوسا‘‘ کی بہ جائے’’ماریو ورگس یوسا‘‘ کر دیا گیا تھا ۔ میں نے اِس باب میں اپنی اِی میل محررہ6 مئی2008ء میں بہ اصرار لکھا:
’’یوسا کے نئے خطوط مِل گئے ہیں ۔ مجھے کچھ وقت درکار ہوگا کہ توجہ سے پڑھ سکوں تاہم میں اس کا نام’’ماریو ورگس یوسا‘‘ پڑھ کر چونک گیا ہوں ۔ پہلے تم ’’ورگس‘‘ کی جگہ ’’برگس ‘‘ لکھتے رہے ہو ۔ کیا یہ مناسب نہیں ہوگا کہ یہ برگس ہی رہے۔‘‘
)مشمولہ ’’کہانی اور یوسا سے معاملہ‘‘ ،ص ۔۴۶ (
میمن صاحب نے اگر ’’ورگس‘‘ کر لیا تھا، چاہتے تو ’’ورگاس‘‘ بھی اپنا لیتے مگر میں نے اُنہیں ایسے کرنے سے روک دیا تو اس کا میرے پاس ، اپنے تئیں ایک جواز تھا؛جیسے آپ کے پاس انگریزی والے ’’ Vargas‘‘کو ’’ بارگاس‘‘ لکھنے کا یقیناً جواز ہوگا( اگرچہ زیر نظر مراسلہ میں اس جواز کو سامنے نہیں لایا گیا )۔ میں نے ادب کے ایک طالب علم کی حیثیت سے اس کا جواز ڈھونڈنے کا حیلہ کیا اور انٹر نیٹ پرجاکر IPA for Spanish سے مدد لی ۔ میں نے دیکھا تھا کہ انگریزی والا ’’ Vargas‘‘ دراصل Spanish میں’’..........‘‘ ہے۔ اور یہ جو شروع میں ’’B‘‘ جیسا نظر آ رہا ہے اس کی آواز انگریزی والے’’ baby‘‘ کے’’ b‘‘ اور اُردو والی’’بیوی‘‘ کے ’’ب‘‘ کے درمیان کہیں بنتی ہے لہذا میمن نے جو ’’برگس ‘‘ لکھا وہی درست معلوم ہوا تھا۔
لیجئے، اس باب میں تازہ ترین شہادت یہ ہے کہ ہمارے دوست ظفر سید( ناول ’’آدھی رات کا سورج‘‘ والے زیف سید) نے مجھے اس نام کودرست درست سنوانے کے لیے انٹر نیٹ کا ایک لنک بھیج دیا ہے۔
(www.forvo.com/word/mario_vargas_llosa/)
میں نے وہاں جاکر اس نام کو تین مختلف آوازوں میں سنا۔ پہلی اور تیسری آوازیں اسپین کے دومردوں کی تھیں، جب کہ درمیان والے لنک پر جس آواز میں یہ نام سنوانے کی سہولت فراہم کی گئی تھی ، وہ پیرو کے ایک شخص کی تھی ۔ ان تینوں آوازوں نے تصدیق کی کہ ’’یوسا‘‘ لکھا جانا ہی مناسب تھا۔ آپ جانتے ہی ہیں کہ یوساArequipa, Peru میں پیدا ہوا تھا؛ یوں درمیان والے لنک کی یہ گواہی تو اس کے گھر کی ہی سمجھئے ۔
..........
بھک سے اُڑ جانے والاسیاسی شعور
اوہ ، ہمیں تو بات منٹو کی کرنا تھی اور درمیان میںیوسا صاحب ٹپک پڑے ۔ اَب کوشش ہوگی کہ اِدھر اُدھر نہ بھٹکوں اور اپنی بات کو آپ کی تحریر کے صرف اُن علاقوں تک محدود رَکھوں جہاں جہاں منٹو کا افسانہ زِیرِ بحث آیا ہے۔ جی منٹو کی دیگر ہلکی پھلکی تحریروں پر آپ نے( گفتار دوم ص ۱۱ تا ۱۵ )ایسی باتیں کی ہیں جن پر دِل ٹُھکتا ہے مگر ان پر کوئی کامنٹ کیے بغیر میں اِس لیے گزر رہا ہوں ، کہ ہمیں زیادہ علاقہ منٹو کے اُس سیاسی شعور سے رَکھنا ہوگا جو اس کے تخلیقی وجود میں ڈھل کر فکشن ہوا ۔ آپ نے کہا :
’’اس میں عقل مندی کی باتیں بھی ہیں اور بہت سی ہیں ۔‘‘
)گفتاردوم :ص ۱۱(
اس ’’بھی‘‘نے اور بھی لطف دِیا ہوتا اگر کسی ’’ نہایت ’’سنجیدہ موضوع‘‘ پر’’ طنزیہ‘‘ اور تھوڑے سے’’ مزاحیہ‘‘ مضمون(ص۔ ۱۱) ‘‘ کو منٹو کے کسی افسانے سے جوڑ کر دیکھا گیا ہوتا ۔ آپ نے یہ بھی درست فرمایا کہ:
’’ منٹو کی اکثر تحریروں کی طرح [چچا سام کے نام ] ان خطوط کو بھی توجہ سے پڑھا نہیں گیا ورنہ یہ ہمارے زمانے کے سیاسی اور سماجی موضوعات پر انتہائی بیدار مغز اورزندہ تحریریں ہیں ‘‘
) گفتار دوم :ص ۔۱۵(
جس کسی کو فکشن سے کوئی واسطہ نہ ہوگا اور وہ منٹو کا سیاسی شعور نشان زد کرنا چاہتا ہوگا بلا شبہ ’’گفتار دوم‘‘ والی آپ کی باتیں اسے بہ جا طور پر بہت کچھ سجھا دیں گی مگر میرے لیے اہم یہ ہے کہ یہ والا’’ شعور‘‘ منٹو کے کس کس افسانے میں اور کس اسلوب میں ڈھلا۔
آگے چل کر ، جہاں آپ نے فیض احمد فیض کے اس بیان کی طرف اشارہ کیا تھا جو ’’ٹھنڈا گوشت‘‘ پر مقدمہ چلنے کے دنوں میں دیا گیا تھا ؛ جی وہی جس میں’’سیاسی شعور کے پالے ہوئے‘‘ فیض صاحب(بل کہ کرنل فیض احمد فیض :صفائی کے گواہ نمبر ۵) نے منٹو کے افسانے’’ٹھنڈا گوشت‘‘ کے بارے میں فرمایا تھا:
’’اس افسانے میں مصنف نے فحش نگاری نہیں کی لیکن ادب کے اعلی تقاضوں کو بھی پورا نہیں کیا ۔کیوں کہ اس میں زندگی کے بنیادی مسائل کا تسلی بخش تجزیہ نہیں ۔‘‘
اچھا، جب آپ اس بیان کو رد کر رہے تھے تو میں چاہ رہا تھا کہ اس افسانے میں منٹو کا سیاسی شعور اور انسانی نفسیات اور توفیقات کا مطالعہ جس سلیقے سے کیا گیا ہے اُس پر آپ ضرور بات کرتے۔ جیسا کہ افسانہ پڑھتے ہی ہم پرکُھل جاتا ہے کہ ’’ ٹھنڈاگوشت‘‘ کے عقبی منظر نامے میں تقسیم کے فسادات ہیں ۔ جو حادثہ ایشر سنگھ کے ساتھ پیش آیا ؛وہ محض ایک کیس ہسٹری نہیں تھا؛ اگرچہ اس مقدمے کے ایک گواہ اور نفسیات کے اُستاد نے ایسا گمان باندھا اور کہہ دیا تھا:
’’یہ کسی سائنسی رسالے میں کیس ہسٹری کے طور پر چھپتا تو اس پر فحاشی کا الزام عائد نہیں ہو سکتا تھا‘‘
یہ افسانہ تو فرد کی نفسیات پر بڑے پیمانے پر ہونے والی سیاسی اَکھاڑ پچھاڑ کا ایسا مطالعہ تھا جو فن پارہ بن گیا ہے ۔منٹو کا سیاسی شعور اسے اپنے ڈھنگ سے دیکھتا ہے اور اپنے افسانوں میں دِکھاتا رہا ہے اس حوالے سے ، اس کے مطالعہ کی طرف آپ آتے تو یقیناً ہمیں اور بھی بہت سی کام کی باتیں پڑھنے کو ملتیں۔
..........
میر اور منٹو:خیال کی باریکی کا کرشمہ
’’گفتار سوم ‘‘ والی گفتگو بھی بہت اعلی اور عالمانہ ہے ، یہاں منٹو کے چلن کی مناسبتیں صوفیا کے طرزِ عمل سے یوں ڈھونڈ نکالی گئی ہیں جیسے ہمارے محترم دوست فتح محمد ملک نے’’ فیض‘‘ کے اندر سے صوفی ڈھونڈ نکالا تھا ۔ یہ والا صوفی؛ کہیں کہیں ’’مردوں کے حیض‘‘ میں مبتلا نظر آتا ہے اور کہیں ’’دعوائے مردانگی‘‘ میں مگن ۔ خیر،کتاب کے اس حصہ میں آپ نے بہ جا طور پر فرمایا ہے :
’’ جو شخص اپنے زمانے کے بہت بعد آنے والے مسائل منٹو کی طرح روشن آنکھوں سے دیکھ سکے ، اسے ’’خیال و فکر‘‘ کی ’’گہرائی‘‘ سے کیا لینا دیناہو سکتا ہے؟ معاملات کو اتنی گہرائی اور اس قدر سلجھے ہوئے ذِہن کے ساتھ دِیکھنا اور سمجھنا کہ آج ہی کے مسائل نہیں، ان کے آئندہ مضمرات بھی نظر آجائیں ، یہ اگر فکر کی گہرائی اور خیال کی باریکی کا کرشمہ نہیں تو پھر اور کیا ہے؟‘‘
) گفتارسوم :ص ۱۶(
کیا ہی اچھا ہوتا کہ’’ جنس‘‘ اور’’ فساد‘‘کے علاوہ بھی منٹو کے موضوعات آپ کے ہاں باقاعدہ ایک موضوع بنتے خصوصاً معاملات کی یہ گہرائی ان کے افسانوں میں کہاں کہاں ظاہر ہوتی ہے(اگر آپ کے نزدیک ایسا ہے تو؟)، اور وہاں تخلیق کیا چھب دکھاتی ہے ۔ جنس کو بہ طور جبلت اور فساد کو بہ طور وقوعہ پر آپ نے اس مراسلہ /مضمون میں بھرپور انداز میں گفتگو کی ہے مگر اپنی فکریات ( اور خیال کی باریکی کے کرشمے) کو منٹو صاحب نے کس طرح افسانے میں برتا ، اس پر بات تشنہ رہی۔ میرا خیال ہے اگر اس باب میں’’نیا قانون‘‘ جیسا ایک آدھ افسانہ ہی زیر بحث آ جاتا تو آپ کا قلم اِدھر اُدھر کے بہت سے نقاط کو سمیٹتا چلا جاتا۔
میں نے اِسے بہت دِل چسپی سے پڑھا:
’’اُردو ادب میں میر کے سوا اگر کوئی شخص اور ہے ، جس کے یہاں زندگی کی رنگا رنگیاں ، دُکھ درد ، وجد و شوق ، غم اور مسرت ، اِنسانی وجود کا اِحترام اور اس کی کمزوریوں کا احساس ، یہ سب باتیں تخلیقی سطح پر بیان ہوئی ہیں تو وہ سعات حسن منٹو ہے ۔ مجھے تو لگتا ہے کہ میر کا یہ قول منٹو پر صادق آتا ہے :
اشعار میر پر ہے اب ہائے وائے ہر سو
کچھ سحر تو نہیں ہے لیکن ہوا تو دیکھو
)گفتار سوم:ص ۱۸(
محترم فاروقی صاحب!، ہم میرصاحب سے آپ کی محبت اور کام سے آگاہ ہیں اور جب آپ میرصاحب کے ساتھ منٹو کا ذِکر لے آتے ہیں ، تو اس کے کیا معنی بنتے ہیں اس کا اندازہ بھی لگایا جا سکتا ہے مگر میں ابھی تک آپ کے میر والے دعوی کو سمجھنے سے قاصر ہو ں؛ اس لیے کہ آگے چل کر آپ نے اس کہے کو کاٹ ڈالنے والی باتیں کی ہیں ۔ مثلاً:
’’منٹو صاحب کی نثر درحقیقت زود نویسی اور بات کو جلد از جلد ختم کرنے کی مجبوری(یا ضرورت) کے باعث انسجام اور استعارے کی چمک سے محروم ہے۔‘‘
)گفتار پنجم : ص ۔۲۷(
’’انہیں افسانہ بنانے کی فرصت نہیں تھی ۔‘‘
)گفتار پنجم : ص۔ ۳۵(
’’منٹو صاحب کو صبر کہاں تھا جو افسانہ اور کردار میں کچھ تو مطابقت پیدا کرتے ‘‘۔
)گفتار پنجم : ص۔ ۴۵(
’’منٹوتھوڑا بہت تجسس قائم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن انجام کی سستی پھر بھی باقی رہتی ہے۔‘‘
)گفتار ہشتم : ص ۔۴۷(
ایسا لکھتے ہوئے آپ کی نظر سے وہ والا منٹو اوجھل ہو جاتا ہے ، جس کے ہاں آپ ’’فکر کی گہرائی اور خیال کی باریکی‘‘ کو ایک ’’ کرشمہ‘‘ کی صورت بتا چکے ہیں۔ اچھا یہاں تو میر تقی میر بھی ایک طرف ہو کر بیٹھ جاتے ہیں ۔ میر صاحب ایسے تو کہیں بھی نہیں تھے ۔ وہ تو آپ کے ہاں ایسے شاعر کے طور پر شناخت ہوتے ہیں جنہوں نے کئی طرح کے لسانی وسائل استعمال کیے تھے اور اس ترکیب و تناسب سے کہ ان کا مجموعہ اپنی بہترین صورت میں اپنی طرح کا بہترین شاعرانہ اظہار بن گیا (میر کی زبان :روز مرہ یا استعارہ/شمس الرحمن فاروقی)۔ ایک طرف ایسی نثر جواِنسجام اور اِستعارے کی چمک سے محروم ہو، جسے لکھنے والے کے پاس اتنی فرصت نہ ہو کہ وہ اسے بنائے سنوارے، جو کرداروں میں مطابقت پیدا کرنے کا اہتمام نہ کرتا ہو، کہانی میں تجسس اُبھارتا ہو مگر انجام کی سستی غالب رہتی ہو؛ اُس کا میر سے کیا مقابلہ؟ کہ میر نے بہ قول آپ کے’’ زبان کو تازہ کار اور تہ دار بنادیا تھا‘‘ ۔ اچھا ،زبان کے ایسے انسجام کے ساتھ آپ میر صاحب کو ’’باؤ کے گھوڑے پر سوار ‘‘ دیکھیں تو بات سمجھ میں آتی ہے مگر ہمارے منٹو صاحب اس’’ باغ کے ساکن سوار‘‘ نہ تھے ۔ مجھے تو لگتا ہے آپ نے اس میدان میں ہمارے منٹو صاحب کو لا کر مروانا چاہا ہے ۔
مذکورہ بالا مضمون میں آپ ہی نے توبتا رکھا ہے کہ’ میر نے عربی کے غریب الاستعمال الفاظ اور تراکیب اور عربی کے ایسے الفاظ جو غزل میں شاذ ہی دکھائی دیتے ہیں خوب استعمال کیے ‘‘اور یہ کہ’’ میر کا عالم یہ تھا کہ ان کی کم غزلیں ایسی ہوں گی جن میں کم سے کم ایک نادر فقرہ یا لفظ یا اصطلاح اور چھے سات نسبتاً کم مانوس الفاظ یا فقرے استعمال ہوئے ہوں ۔‘‘ واقعہ یہ ہے کہ میر کے شاعرانہ اِستعمال والے قرینے کا مقابلہ منٹو کی فکشن کی زبان سے نہ تھا؛نہ ہی کیا جانا چاہیے،جو اُنہوں نے صاف ، رواں اور روز مرہ کے قریب رہ کر اپنے افسانے کے لیے اس قدر موزوں بنالی تھی کہ اُس کے اِستعمال سے افسانہ میں کہانی سریع ہوئی اور بیانیہ چست ہو گیا تھا۔ کہہ لیجئے کہ منٹو صاحب کا بیانیہ سادہ اور اکہرا تھا مگر اُس زمانے میں جو لکھ رہے تھے اُن کا معاملہ کیا تھا؟ منٹو کی آنکھ سے ہی اس کی جھلک دیکھ لیتے ہیں ۔منٹو صاحب نے احمد ندیم قاسمی کو لکھا تھا:’’میں خود بہت sentimentalہوں مگر میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں افسانوں میں sentiments زیادہ نہیں بھرنا چاہئیں۔آپ کے افسانوں کا مطالعہ کرنے کے بعد مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ sentiment آپ کی میخ[مُخ] تک پہنچ چکا ہے‘اِس کو دَبانے کی کوشش کیجئے۔‘‘ایک اور جگہ قاسمی صاحب ہی کو لکھا تھا: ’’آپ بقدر کفایت ضبط کو کام میں نہیں لاتے۔آپ کا دماغ اصراف کا زیادہ قائل ہے۔‘‘ راجندر سنگھ بیدی کا افسانہ’’ دس منٹ کی بارش‘‘ پڑھنے کے بعد منٹو صاحب نے کہا تھا :’’طرزِ بیان بہت اُلجھا ہوا ہے۔‘‘ اور پریم چند کے بارے میں منٹو صاحب کا فیصلہ تھا:’’ان سے ہم کچھ بھی نہیں سیکھ سکتے۔‘‘خود منٹو صاحب نے غیر ضروری تفاصیل کے بیان سے اجتناب کیا اور بیانئے کو اُلجھاوؤں سے باہر نکال لائے اُسے چست کر دیا۔بے شک وہ سادہ رہااوراکہرا بھی ‘ مگر اُنہوں نے جملوں کو کاٹ دار بنا یاور اُن میں اتنا زہر بھر دیا کہ خون میں اُتر کر سارے بدن کو نیلا تھوتھا سا بنا دیتے ہیں۔ شاید یہی سبب ہے کہ کرشن چندر نے کہا تھا:’’وہ اس قدر بے رحم ہے کہ کلوروفارم دینا بھی پسند نہیں کرتا۔‘‘
یہ جو میں نے منٹوصاحب کے ہاں جملوں کے یک سطحی رہ جانے کی بات کی ہے تو واقعہ یہ ہے کہ خود منٹو کو بھی اس کا ادراک تھا‘ تب ہی تو اُنہوں نے لکھا تھا:
’’ وہ لفظوں کے پیچھے یوں بھاگتا ہے جیسے کوئی جال والا شکاری تتلیوں کے پیچھے۔وہ اس کے ہاتھ نہیں آتیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس کہ تحریروں میں خوب صورت الفاظ کی کمی ہے۔‘‘
)بقلم خود: منٹو(
کہیں کہیں وہ اِس کمی کو پورا کرنے کی شعوری کو شش کرتے بھی ہیں مگر بالعموم وہ کہانی کے بہاؤ، کرداروں کے مزاج اور کرداروں کے وسیب سے مطابقت رَکھنے والی زبان ہی اِستعمال کرتے ہیں ؛ جی فکشن کی زبان ۔ انسجام اور اِستعارے کی چمک کو خاطر میں نہ لانے والی ، مگر بیانیے کو چست بنانے والی فکشن کے لیے مناسب زبان ۔ ایسی زبان لکھنے کی اُن کے پاس فرصت ہی فرصت تھی اور اسی زبان نے اُن کی کہانی میں ایسا جادو بھر دیا، جوسرچڑھ کر بولتا تھا۔
..........
میرصاحب کا فکشن اور ہمارے منٹو صاحب
امام بخش ناسخ نے میرصاحب کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا تھا:
شبہ ناسخ نہیں کچھ میر کی اُستادی میں
آپ بے بہرہ ہے جو معتقد میر نہیں
اور محمد ابراہیم ذوق نے کسی غزل کہنے والے کی طرف تیکھی نظروں سے دیکھا اور طنز کا تیر برساتے ہوئے کہا تھا :
نہ
ہوا پر نہ ہوا میر کا انداز نصیب
ذوق یاروں نے بہت زور غزل میں مارا
یہی میر صاحب آپ کے محبوب ہوتے ہیں جن کو معیار مان کر آپ نے منٹو صاحب کو بھی دِیکھا اورپَرکھا ہے ۔ میر صاحب کا تصور زندگی کیاوہی تھا جو ہمارے منٹو صاحب کو بعد میں محبوب ہو گیا تھا؟ مجھے یقین ہے؛ آپ بھی کہہ دیں گے ’’نہیں‘‘ ۔ میرصاحب کے ہاں حزنیہ لے تیز ہو جاتی ہے ۔
مجھ کو شاعر نہ کہو میر کہ صاحب میں نے
دردو غم کتنے کیے جمع تو دیوان کیا
درد و غم جمع کرنا اور دیوان کرنے کے لیے اُنہیں سینت سینت کر رَکھتے چلے جانے کا نام میر ہے تواِن دُکھوں کو سہنے اور دردوں کو جھلینے والے کے اندر سے نیلا تھوتھا ہو جانے والے اِنسان کوبرآمد کرنے والے کا نام منٹو ہے ۔ لیجئے ،مان لیتے ہیں کہ یہ حزنیہ لے، جو آپ کا دل اپنے قابو میں کیے ہوئے ہے ، ہمارے دلوں پر دیرپا اثر نقش کرتی ہے ۔ ایسے میں مجھے جاپانی سائنس دانوں کی ایک تحقیق یاد آ گئی ہے جس کے مطابق سوز بھرے نغموں کی طرح فن سے جس اداسی کو تحریک ملتی ہے وہ اس دِل ڈھانے والی صورت حال سے مختلف ہوتی ہے جو حقیقی ناخوشگوار واقعات سے پیدا ہوتی ہے۔ فن سے متحرک ہونے والی اداسی سے جذبوں کوجِلا ملتی ہے اور اس کاراست زندگی پر کوئی بُرا اَثر نہیں پڑتا۔اِسی تحقیق کے مطابق فن سے متحرک ہونے والی اُداسی ،تلخ زِندگی کے معمولات کے ہاتھوں پیدا ہونے والے منفی جذبات کو ختم کر سکتی ہے ۔ جاپان کی ٹوکیویونی ورسٹی اور ریکن برین سائنس انسٹی ٹیوٹ کے سائنس دانوں کی یہ تحقیق نفسیات کے ایک جریدے Frontiers in Psychology میں شائع ہوئی تھی۔ خیر، بات میر اور منٹو کے موازنے کی ہو رہی ہے ، اسی طرف آتا ہوں اور یہاں میرا پوچھنا ہے کہ کیا منٹو کسی اداسی کو متحرک کرتے ہیں یا اداس اور دل ڈھا دینے والی صورت حال سے باہر نکلنے کے لیے کچوکے لگاتے ہیں ۔ آپ اتفاق کریں گے منٹو کے افسانے کا منصب ہمارے بے حس ہو چکے وجودوں پر کچوکے لگانا ہے ۔
یہیں جی چاہتا ہے کہ ’’فیض میر‘‘ کا حوالہ دے دوں ۔ اگر چہ یہ کتاب اب کسی شمار قطار میں نہیں ہے مگر اس کا حوالہ دینے کو یوں جی چاہنے لگا ہے کہ اس کا مطالعہ گویا ایک اعتبار سے میر صاحب کے فکشن اور فکشن کے باب میں اُن کی توفیقات کا مطالعہ ہے ۔ یہ تصنیف میرصاحب نے اپنے بیٹے فیض علی کو سامنے رکھ کر تخلیق کی تھی۔ ہاں تو، جسے میں میرصاحب کا فکشن کہہ رہا ہوں یہ پانچ حکایات ہیں ۔ درویشوں ، مجذبوں اور فقیروں کے قصے۔ اسی حکایت کی تیکنیک کو جس کامیابی سے انتظار حسین نے برتا بعد کی بات ہے ۔ بہ ظاہر سمجھ میں نہ آنے والے درویش ، مجذوب اور فقیراشفاق احمد کو بھی بہت عزیزرہے ۔ جدید افسانے کے حوالے سے نام پانے والے ڈاکٹر رشید امجد کی کہانیوں کے مرشد ، اُن کے افسانوں میں زندگی کی ایسی گلی میں ظاہر ہوتے ہیں جس سے نکلنے کی کوئی راہ نہ ہوتی اگر مرشد وہاں پہنچ نہ جاتے ۔ میرصاحب کی حکایات کے واقعات محیر العقول ہیں ۔ ان کے مقابلہ میں منٹو صاحب جن واقعات کو چنتے ہیں وہ زندگی کی ٹھوس حقیقتیں ہیں۔ میرصاحب نے اپنے قاری کی توجہ حاصل کرنے کے لیے یہ حیلہ کیا ہے کہ ان واقعات کا بیانیہ واحد متکلم راوی کے ذریعہ قائم کیا ہے اور یہ راوی ایسا ہے کہ خود بھی اس کہانی کا حصہ ہوگیا ہے۔ منٹو صاحب بھی کہیں کہیں اسی کو وتیرہ کرتے ہیں مگر محض کسی اَن ہونی بات پر یقین دلانے کے لیے نہیں، اپنے قاری کی حسوں پر براہ راست وار کرنے کے لیے ۔
فاروقی صاحب! آپ نے خودنشان زَد کر رکھا ہے کہ میرصاحب کو داستان سے دلچسپی تھی ۔ مگر ہمارے منٹو صاحب ، داستان سے کسی دلچسپی کو اپنے فکشن میں ظاہر نہیں ہونے دیتے ۔ میر صاحب کا فکشن تو ٹھیک سے فکشن بھی نہ بن پایا تھا کہ اسے’’ذہنی اختراع‘‘ اور’’ دروغ گوئی‘‘ سے تعبیر دی گئی یا پھر محض ’’اعتقادی کہانیوں‘‘ کے ذُمرہ میں رَکھا گیا؛ ایسی اعتقادی کہانیاں ،جنہیں ’’عہد نو کا ذہن کسی بھی صورت قبول نہیں کر سکتا۔‘‘ منٹو صاحب کے سامنے جیتی جاگتی زندگی موجود تھی ۔ اگر کہیں یہ زندگی اُس ذبیح کی صورت میں تھی جس کی کھال کھینچ اُتاری گئی ہو، ’’دھواں‘‘ میں قصائی کی دکان پر پڑے دو تازہ بکروں کی طرح ؛ تو بھی اپنے قاری کے سامنے یوں پھڑکتے ہوئے آتی تھی، جیسے مسعود نے ننگے گوشت کو چھوا تو وہ پھڑکنے لگا تھا۔فکشن کے میدان میں میرصاحب اُترے جو اُن کا میدان نہیں تھا اور مارے گئے۔ حتی کہ اُن کا فکشن بھلا دِیا گیا۔اگرچہ ’’فیض میر‘‘کو پروفیسر شریف قاسمی نے ازسر نو مرتب کرکے قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان ، نئی دہلی سے ۲۰۱۰ء میں شائع کرا دیاہے، مگر یہ تو بس اس لیے ہے کہ اسے میر صاحب نے لکھا جو شاعری کے باب میں خدائے سخن ہواکرتے ہیں۔اِدھر منٹو صاحب کا معاملہ یہ ہے؛ اُنہوں نے بھی اپنی زندگی میں ہی اپنی قبر کا کتبہ ’’بقلم خود‘‘ لکھتے ہوئے افسانے کے باب میں’’خدا‘‘ ہونے کا اعزاز پالیا تھا۔ مان لیجئے کہ دونوں کی کائنات الگ الگ ہے اور آپس میں مقابلہ یا موازنہ بنتا ہی نہیں ہے۔
..........
’’دھواں‘‘: یہ ناکام افسانہ نہیں ہے
’’گفتار چہارم‘‘ میں آپ نے منٹو صاحب کے افسانے ’’دھواں‘‘ کا تجزیہ کیا اور اسے اس لیے’’ ناکام افسانہ‘‘ قرار دیا کہ منٹو صاحب نے اپنی توجہ اس کے صرف ایک کردار یعنی مسعود پر مرکوز رکھی تھی۔ معاف کیجئے گا ، کہ میں اس باب میں آپ سے مختلف نقطہ نظر رکھتا ہوں ۔ میں اسے ناکام افسانہ ہر گز نہیں کہوں گا ؛ کم از کم اُن بنیادوں پر تو بالکل نہیں جن بنیادوں پر آپ نے اسے ناکام قرار دے ڈالا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ منٹو صاحب کی اس کہانی کا مرکزی کردار مسعود ہی ہے۔ سکول میں پڑھنے والا دس بارہ برس کا ایک ایسا لڑکا جس کے ہاں ابھی جنس بیدا ر ہو رہی ہے۔ یہ کیسے بیدار ہوتی ہے؛ منٹو صاحب نے اسے بہت چابکدستی سے لکھا ہے، سنبھل سنبھل کر اور سلیقے سے ۔ اس موضوع میں لذّت اور اس کے چٹخارے سے بچنے کے لیے خلاف معمول منٹو صاحب لفظوں کی تتلیوں کے پیچھے بھی بھاگے ہیں ۔ مجھے حیرت ہے کہ جہاں منٹو نے تازہ ذبح کیے ہوئے اور اُتری ہوئی کھالوں والے بکروں کے ننگے گوشت سے اُٹھتا ہوا دھواں دِکھایا تھا ۔ مسعود کے ٹھنڈے گالوں پر گرمی کی لہروں کا دوڑنا ننگے گوشت سے اُٹھتے دھویں سے جوڑ کر آپ نے کیوں نہ دیکھا۔ سردی کے موسم میں صبح کے وقت راگیروں کے مونھوں سے نکلتا سفید دھواں، ہو یا گرم گرم سماوار کی ٹونٹیوں والا گاڑھا سفید دھواں ، مدھم آوازوں اور سرگوشوں سے جڑ کر جس طرح دھند میں پڑی ہوئی جنس کے ساتھ جڑ جاتا ہے اس کا اعتراف نہیں کیا جارہا تو مجھے دُکھ ہوتا ہے۔ اچھا، ذبح کیے ہوئے بکرے کے ننگے گوشت کی تھرتھراہٹ کو منٹو صاحب نے جس قرینے سے مسعود کے پاؤں تلے آنے والی پھڑکن سے جوڑا اوربے جاتلذذ پیدا کیے بغیر، ’’باریک کام‘‘ کرتے ہوئے اپنے موضوع کی نزاکت کو اُبھارا وہ بھی تو، توجہ طلب تھا مگر آپ ایک اور طرف اُلجھ گئے :
’’۔۔۔کلثوم کے ہم جنسی کے رجحان کو افسانے میں داخل کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ اگر وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ آغاز عمر میں اکثر لوگ ہم جنسی کی طرف ایک کشش محسوس کرتے ہیں ، تو انہوں نے اس بات کو قائم کرنے کے لیے ایک دو صفحے کیوں نہ خرچ کیے۔ اس وقت تو افسانے کا انجام ہمیں مایوس کن لگتا ہے ۔ ہمیں لگتا ہے کہ کہیں کچھ کم رہ گیا ہے ۔ یا ہمارے ساتھ کچھ دھوکا ہوا ہے۔ ‘‘
)گفتار چہارم : ص ۔۲۲(
جناب عالی ،بے حد احترام کے ساتھ مجھے کہنا ہے کہ کلثوم کے ہم جنسی کے رجحان کو افسانے میں داخل کرنے کی بس اتنی ہی ضرورت تھی جتنی کہ اُس کے کلیدی کردار کو ، اس موضوع کے اعتبار سے، اس سے اِکتساب اور انگیخت کی ضرورت تھی ؛ کم نہ زیادہ ، منٹوصاحب ان ضمنی کرداروں کو اتنا ہی لائے ۔ دیکھئے ایسے معاشرے میں جہاں جنسی تعلیم اور تہذیب کا کوئی ذریعہ نہ ہو، وہاں کچی پکی جنس کی ایسی ہی جھلکیاں اور جھماکے ہوتے ہیں ۔ اِن ضمنی کرداروں پر صفحات خرچ کرنے کی ضرورت نہ تھی ، یہ منٹوصاحب جانتے تھے۔ اُنہیں بتانا تھا کہ جس سوسائٹی میں ہم رہتے ہیں اس میں مسعود جیسے نوجوانوں کو جنسی تعلیم گھر سے نہیں مل سکتی تھی، انہوں نے کلیدی کردار کو اُس کی اَپنی ماں کے پاس بٹھایا اور معصومیت سے بکرے کے ننگے گوشت سے اُٹھتے دھوئیں والا منظربتانے دِیا ۔ ہم افسانے میں پڑھتے ہیں کہ اپنے ہی بیٹے کے جسم سے اُٹھتے دھوئیں سے بے خبر ماں اُٹھ کر باہر نکل گئی تھی ۔ اسے اپنے باپ سے اس بابت کچھ پوچھنے کا حوصلہ نہ تھا جو ایک جنازہ میں شرکت کے بعد گھر پہنچا تھا ۔ لہذا کچھ اس نے براہ راست کلثوم سے سیکھا ، کچھ کلثوم اور اس کی سہیلی کے عملی مظاہرے سے ، کچھ باپ سے جو ایک موت جنازے سے آنے کے بعد اس کی ماں سے سر دبوانے کی خواہش میں کمرے میں گھس گیا تھا ۔ یہ سب ضمنی کردار تھے اور حسب ضرورت آئے ۔ اور ہاں، منٹو کا یہ موضوع تھا ہی نہیں کہ آغاز عمر میں اکثر لوگ ہم جنسی کی طرف ایک کشش محسوس کرتے ہیں؛بملا اور کلثوم کے ’’اختلاط ظاہری‘‘ کا جھپاکا تو ایسے ہی تھا جیسے بے کھال بکرے کا لرزتا ہوا گوشت، راہگیروں کے مونہوں سے اُٹھتا ہوا دھواں، اماں ابا کا اپنے کمرے میں گھس جانا یا کلثوم کااُس سے کمر دبوانا ۔ ہم جانتے ہیں کہ ضمنی کرداروں کو تفصیل سے لکھنے یا ان ثانوی کرداروں کو ضرورت سے زیادہ قائم کر دینے سے مرکزی کردار دھند لاجایا کرتا ہے اور اچھی بھلی کہانی بر باد ہو جاتی ہے۔ منٹو صاحب بھی یہ جانتے تھے ، لہذا اُنہوں نے اپنی کہانی کو برباد ہونے سے بچا لیا ۔
اسی حصہ میں آپ نے منٹو صاحب کے افسانہ ’’بارش‘‘ پر بھی بات کی ہے جس سے میں ایک حد تک متفق ہوں ۔
..........
منٹو صاحب کے تیرہ شاہکار افسانے
گفتار پنجم میں آپ نے میلو ڈارما پر بات کی اوہنری اور موپاساں کے افسانے ملخص کیے ۔ یہ سب بہت علمی باتیں ہیں اور ان سے بہت کچھ سیکھا جاسکتا ہے ۔چوں کہ مجھے تاہنگ آپ کے منٹو اور اس کے افسانوں کے بارہ میں خیالات کو جاننے کی رہی ، لہذا ان صفحات سے فی الحال تیزی سے گزر جاتا ہوں۔ یہیں آپ نے منٹو کے ایسے تیرہ افسانوں کی فہرست بنائی ہے جو قدرے طویل ہیں اور جن کے بارے میں آپ کا کہنا ہے کہ یہ سارے نہیں تو ان میں سے اکثر شاہکار تسلیم کیے جاتے ہیں ۔ نو صفحات سے زیادہ اور پندرہ سے بیس صفحات والے افسانوں کی بنائی ہوئی آپ کی فہرست یہاں نقل کر رہا ہوں تاکہ ہم آگے چل کر جان سکیں کہ ان افسانوں کا تجزیہ کرتے ہوئے آپ ان ’’شاہکار افسانوں‘‘ سے کیا اخذ کرتے ہیں ۔
’’۱۔ موذیل
۲۔ بابو گوپی ناتھ
۳۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ
۴۔ ہتک
۵۔ جانکی
۶۔ بادشاہت کا خاتمہ
۷ ۔ میرا نام رادھا ہے
۸۔ پھندنے
۹۔ خوشیا
۱۰۔ نیا قانون
۱۱۔ شاردا
۱۲۔ کالی شلوار
۱۳ ۔ لتیکا رانی‘‘
(گفتار پنجم : ص ۲۸)
..........
’’سرکنڈوں کے پیچھے‘‘:لاحول ولا قوۃ
محترم فاروقی صاحب! آپ نے یہیں بیدی صاحب کی نثر ،وارث علوی کی تنقید اور ممتاز شیریں کے خیالات پر باتیں کیں اور خوب پُرلطف باتیں کیں مگر مجھے تو منٹو صاحب اور اُن کے افسانے پر راست آپ کے خیالات جاننا تھے؛ سیدھا وہاں پہنچتا ہوں، جہاں آپ نے منٹو صاحب کے افسانہ ’’سرکنڈوں کے پیچھے‘‘ پر بات کی ہے۔جی وہاں، جہاں آپ نے ’’لاحول ولا قوۃ‘‘ پڑھ کر کہا ہے، اسے میلو ڈراما اور سنسنی خیزی کی بہ جائے سرا سر گھناؤنا خوف انگیز افسانہ ، یعنی Horror Story قرار دیا جائے ۔ واقعی یہ افسانہ منٹو صاحب نے کسی تیاری کے بغیر لکھا تب ہی تو اس کا بیانیہ سست، پھسپھسا اور کہانی میں سو طرح کے رَخنے ہیں ۔ آپ کی طرح مجھے بھی یہ افسانہ اچھا نہیں لگا بل کہ میں تو اِسے منٹوصاحب کے کمزور ترین افسانوں میں سے ایک سمجھتا ہوں(اور ایسا ممکن بھی نہیں ہے کہ سب افسانے اعلیٰ درجے کے ہوتے) ۔ اچھا ، جیسا کہ آپ نے تجویز کیا(ص ۳۱)؛اگر منٹو صاحب کہانی کے اِسی مواد کے ساتھ، رقابت کی بنا پر ہیبت خان کو شاہینہ کے ہاتھوں قتل کروا بھی دیتے تو بھی یہ کہانی اتنی ہی ناکام رہتی(ص:۴۵) ۔منٹو صاحب نے سرکنڈوں کے پیچھے چھپے ہوئے گھر میں دھندا کرنے والی سردار اور اس کی بیٹی (یا وہ جو بھی اس کی تھی )نواب کے کردار اگرچہ جان دار بنائے ہیں مگر ان کے بارے میں جو کچھ بتایا ہے ، اس پر بہ سہولت اعتبار ممکن نہیں ۔ مثلاً نواب اور سردار کا اپنے گاہکوں کے سوا، کسی بھی قریبی آبادی اور اس کے مکینوں سے کوئی رابطہ نہ ہونا؛ جب کہ گھرداری چلانے کے لیے سودا سلف لانا اور ایک جوان لڑکی کا ضد کرکے کچھ اور مقامات دیکھنے کی خواہش رکھنا اور وہاں سے اثرات لینا وغیرہ جیسے امکانات کو نظر اَنداز نہیں کیا جا سکتا۔ مگر یہاں ایسا ہوا ہے اور جس بے دردی سے ہوا ہے ،اُس کی ضرورت نہ تھی ۔ اچھا، جس طرح شاہینہ نے نواب کا خون کیا اورسردار کو خبر ہی نہ ہوئی؛ گھر میں ایک عورت مہمان ہے، گھروالی لاکھ باورچی خانے میں مصروف سہی ، کیا اُس طرف اس کا دھیان بالکل نہیں رہے گا؟ منٹو صاحب نے سردار کو باورچی خانے میں داخل کرکے اُس کا باقی گھر سے یوں رابطہ منقطع کردیا جس طرح سرکنڈے والے گھر اور اس کے مکینوں کا قریبی بستی اور اس کے مکینوں سے رابطہ کٹا ہوا تھا۔ یہ بیان بھی لائق اعتبار نہیں رہتا کہ سردار کے گھر ہی میں اسی کی نواب کو قتل کرکے اس کی بوٹیاں پکانے کے لیے پیش کی جا ئیں اور وہ بالکل نہ چونکے۔ یادرہے منٹو صاحب نے پہلے ہی اس بات کا التزام متن میں رَکھ چھوڑا ہے کہ گھر میں پکانے کو گوشت نہیں ہے اور سرکنڈوں کے پیچھے والا یہ گھر آبادی سے کٹا ہوا ہے:
’’اُس عورت [شاہینہ]کی ٹانگ ہلنا بند ہوئی اور وہ سردار سے مخاطب ہوئی:’’ہم آئے ہیں۔ کھانے پینے کا بندوبست کرو۔‘‘
سردار نے سر تا پا مہمان نواز بن کر کہا :’’جو تم کہو، ابھی تیار ہو جائے گا۔‘‘[۔۔۔۔۔۔]۔
[شاہینہ نے] سردار سے کہا:’’تو چلو باورچی خانے میں، چولہا سلگاؤ؛ بڑی دیگچی ہے گھر میں؟‘‘
’’ہے!‘‘ سردار نے اپنا وزنی سر ہلایا۔
’’تو جاؤ اس کو دھو کر صاف کرو ۔ [۔۔۔۔]۔
سردار نے معذرت بھرے لہجے میں اُس سے کہا:’’گوشت وغیرہ تو یہاں نہیں ملے گا‘‘[۔۔۔۔]۔
’’مل جائے گا۔ تم سے جو کہا ہے، وہ کرو۔۔۔اور دیکھو آگ کافی ہو۔‘‘
)افسانہ:’’سرکنڈوں کے پیچھے‘‘(
گھر میں گوشت تھا نہیں،اور شاہینہ بڑی دیگچی اور بہت سی آگ کا مطالبہ کر رہی تھی ۔ چلو مان لیا شاہینہ قتل کرنے اور لاش کے’’ بہترین حصے‘‘ کی بوٹیاں بنانے میں طاق ہوگی مگر کچھ تو وقت لگا ہوگا اس قتل میں۔ یہ بھی مان لیا کہ سردار افیونی تھی مگر باورچی خانے میں تو اس نے افیون کی گولی نہیں نگل رکھی تھی وغیرہ وغیرہ ؛ تو یوں ہے صاحب کہ میں آپ ہی کی زبان سے بے ساختہ نکلا ہوا ’’لاحول ولا قوۃ‘‘ دہرا دیتا ہوں اور آگے چلتا ہوں۔
..........
’’قیمے کے بجائے بوٹیاں‘‘:افسانہ نہیں شرارت
منٹو صاحب کی بلا نوشی اور عجلت نویسی کی کچھ اور گواہیاں بہم کرنے، اور ممتاز شیریں کے اس افسانے کے بارے میں نقطہ نظر پر تنقید وغیرہ (اس وغیرہ میں، میں اس زور دارجملے کو بھی شامل سمجھتا ہوں ’’بے چاری ہلاکت/ شاہینہ، تو لیڈی میکبتھ کے دروازے پرجھاڑو لگانے کے بھی لائق نہیں ہے‘‘ ) اور وارث علوی کے سہو کی نشان دہی سے گزرتا صفحہ ۴۵ پر پہنچتا ہوں؛ وہیں جہاں آپ نے منٹو صاحب کے ایک اور افسانے’’قیمے کے بجائے بوٹیاں‘‘ کو ’’سرکنڈوں کے پیچھے‘‘ کا عکس قرار دیا ہے۔آپ نے خیال ظاہر کیا کہ منٹو نے شرارتاً یہ افسانہ لکھ دیا ہوگا ؛جی، میں بھی یہی سمجھتا ہوں، ایک ایسا فراڈ افسانہ جس کا راوی کردار سعادت حسن منٹو ہے۔ اور یہ ایسا راوی ہے کہ شرارت پر اترے تو گوشت کے بڑے لوتھڑے کے ساتھ انسانی بانہوں کو خود تو شناخت کرکے اپنا جی متلا سکتا ہے مگر مکان کے باہر دھڑا دھڑ بوٹیاں کاٹنے والے قصابوں کوخبر تک نہیں ہونے دیتا کہ وہ کس کے جسم کی بوٹیاں بنا رہے ہیں ۔ کیا ایک بار پھر یہ مقام ’’لاحول ولا قوۃ‘‘ پڑھنے کا نہیں ہے۔
محترم فاروقی صاحب! (گفتار ششم،کے تحت اگر کوئی تحریر لکھی گئی تھی ، تو وہ آپ کی کتاب میں شامل نہیں ہے ، کہ گفتار پنجم کے ختم کرتے ہی ہم گفتار ہشتم پر پہنچ جاتے ہیں)آپ نے’’ گفتار ہشتم‘‘ میں بہ جا فرمایا ہے کہ’’سرکنڈوں کے پیچھے‘‘، اور اس طرح کے کچھ افسانوں میں منٹو صاحب نے قاری کے بارے میں ایک طرح کی عدم دلچسپی کا ثبوت دیا ہے‘‘(گفتارہشتم : ص۴۷)۔ کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ منٹو صاحب کو پڑھنے والوں اور اس کے فن کو سراہنے والوں نے ایسے افسانوں کو لائق اعتنا نہیں جانا ہے۔ میرا خیال ہے ہماری تنقید کے حافظے سے بھی ایسے افسانوں کو محو ہونا چاہیے کہ تنقید کامقصد ناکام فن پاروں پر اپنا وقت ضائع کرنے کی بجائے،بہترین کو زیر بحث لانا ہوتا ہے ۔ افسانہ ’’مائی جنتے‘‘ کا آپ سرسری ذکر کرکے آگے نکل گئے(گفتار ہشتم : ص ۴۷)۔اچھا کیا ۔ منٹو صاحب کے ناکام افسانے اب تک آپ کو بہت اُلجھا چکے ؛ یہ الگ بات ، ان ناکام افسانوں پر بات کرتے ہوئے بھی آپ بہت ساری کام کی باتیں کر گئے ہیں۔ یہ بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ اس طرح آپ کے علم کا فائدہ ہم سب کو ہوا۔
گفتار نہم کے آغاز میں آپ نے بہ جا طور پر کہا ہے کہ:
’’[بعض افسانوں میں] منٹو کی زبان بہت رواں اور اکثر جگہ غیر معمولی بلندیوں کو چھو لیتی تھی اور افسانے کے لیے موضوع وہ ہمیشہ اتنا تازہ ، اتنا نپا تلااور کسا ہوا ڈھونڈ لاتے تھے کہ داد دیتے ہی بنتی تھی‘‘
)گفتار نہم : ص۴۹(
تاہم ابھی تک ایسے افسانوں اور ان میں زبان کی غیر معمولی بلندیوں کو آپ کی جانب سے نشان زد ہونا باقی ہے ۔
..........
’’ننگی آوازیں ‘‘: انجام بھرپور ہے
’’ننگی آوازیں‘‘ ایسا افسانہ نہیں کہا جاسکتا، جس میں اُن خواص کو تلاش کیا جاسکے ، جو منٹو صاحب کو آپ کے نزدیک لائق اعتنا بناتے ہیں تاہم اس افسانے کا مطالعہ بھی آپ کے ہاں توجہ سے ملتا ہے۔ جی ، یہ ایسا افسانہ ہے جس میں بہ قول آپ کے منٹو صاحب نے اپنے ’’سب ٹریڈ مارک‘‘ داخل کر دیے تھے ۔اچھا جہاں تک آپ نے اس افسانے کو خوب کہا ہے اگرچہ میں نہیں سمجھتا وہاں بھی اس کا بیانیہ کسی بلندی کو چھوتا ہے تاہم یہ رواں دواں ہے۔ گرمی کے موسم میں کھلی چھت پر مردوں اور عورتوں کا سونا اور وہ بھی ایسے عالم میں ، کہ ٹاٹ کا پردہ ادھر ادھر تان لیا جائے۔ایسی ’’کھلی خواب گاہوں ‘‘ میں لوگوں کا اپنی کھاٹوں پر کروٹ بدلنا، کھانسنااور سرگوشیاں کرنا،لذیذ تصویروں میں ڈھلتا ہے ۔ افسانے کا کلیدی کردار بھولو انہی لذیذ آوازوں کو سن کر شادی پر مصر ہوا تھا۔ پھر جب دلہن آگئی اورآدھی رات گزرنے کے بعد گرمی سے تنگ آکر وہ دلہن کو لیے چھت پر پہنچا تو اسے لگا تھا ؛چاروں طرف جو نیند بکھری ہوئی تھی چونک کر جاگ اُٹھی ہے۔ ادھر ادھر کی سرگوشیوں اور چارپائیوں کی’’ چرچوں‘‘ نے اسے یخ کر دیا تھا ۔ بیوی گٹھڑی بنی پرے پڑی رہی اور وہ آوازوں کے خوف سے دم سادھ کر پڑا رہا کہ جس طرح وہ آوازوں سے تصویر بنا لیا کرتا تھا، وہ سوچتا؛ دوسرے بھی تو ویسی تصویریں بنا سکتے تھے۔ کھسر پھسر ، چرچوں چرچوں، کھانسنے کھنگارنے ، دبی دبی ہنسی اور اس طرح کی دوسری آوازیں جو ٹاٹ کے پرووں کے پیچھے سے آتی تھیں ؛ سب کو ننگا کر دیتی تھیں ۔ صبح بھولو کی دلہن میکے چلی گئی ۔ پانچ روز بعد آئی تو راتوں کو پھر بھولو انہی لذیذ آوازوں سے پسپا ہو کردم سادھے پڑا رہتا۔ بھولو کی بیوی عائشہ ایک بار پھر میکے میں تھی اور یہیں ایک بات، جی صرف ایک بات بھولو کے کان میں پڑتی ہے اور اس کا دماغ الٹ جاتا ہے۔
میرے محترم فاروقی صاحب ،میں نے آپ کی تحریر سے اندازہ لگایا ہے کہ یہاں تک آپ کو افسانہ پسند آیا۔ آپ نے اس کے مرکزی خیال کوانتہائی تازہ اور انسانی صورت حال کی جیتی جاگتی تصویر قرار دیا ۔ اچھا اسے بھی آپ نے قبول کر لیا کہ ’’جب یہ خبر اُڑتی ہے کہ وہ نویلا دولہا بھولو اپنی دلہن کی طرف اس لیے راغب نہیں ہوتا کہ وہ عنین ہے۔۔۔ تو اس[بھولو] کے دل میں چھری سی پیوست ہوگئی (گفتارنہم : ص ۴۹)‘‘ اوہ میں یہاں رُک رہا ہوں کہ منٹو صاحب نے لفظ ’’عنین‘‘ اِستعمال نہیں کیا تھا ۔منٹو صاحب کا بیانیہ بہت رواں رہا اور انہوں بڑے ڈھنگ سے بات کی تھی ، لہذا مجھے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ بہتر تفہیم کے لیے ہم منٹو کے اپنے لغت کی طرف دیکھیں ۔ افسانے سے مقتبس کر رہا ہوں:
’’ بھولو اُٹھ کر کوارٹر کے باہر چلا گیا ۔ چارپائی پڑی تھی اس پر بیٹھ گیا۔ اندر سے اُس کو اپنی بھابی کی آواز سنائی دی ۔ وہ [اپنے شوہر]گاما سے کہہ رہی تھی ’’تم جو کہتے ہو نا کہ بھولو کو عائشہ پسند نہیں آئی ،غلط ہے۔‘‘
گاما کی آواز آئی’’ تو اور کیا بات ہے۔بھولو کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں ۔‘‘
’’دلچسپی کیا ہو۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
گاما کی بیوی کا جواب بھولو نہ سن سکا مگر اس کے باوجود اُس کو محسوس ہوا کہ اس کی ساری ہستی کسی ہاون میں ڈال کر کوٹ دی ہے۔ ایک دم گاما اونچی آواز میں بولا ۔
’’نہیں نہیں ۔۔۔یہ تم سے کس نے کہا۔‘‘
گاما کی بیوی بولی۔ ’’عائشہ نے اپنی کسی سہیلی سے ذکر کیا۔ بات اُڑتی اُڑتی مجھ تک پہنچ گئی۔‘‘
)افسانہ:’’ننگی آوازیں‘‘(
یہاں افسانے سے اقتباس ختم کرتا ہوں کہ اسی میں بھولو کے دماغی توازن کے بگڑنے کا سامان جواز موجود ہے اور کوٹھوں پر چڑھ کر ٹاٹ اکھیڑنے کا بھی ۔ پھر جب کلن نے بانس اٹھا کر بھولو کے سر پر دے مارا تھا تو چکرا کر گرنے، بے ہوش ہونے اور مکمل پاگل ہوکر الف ننگا بازاروں میں گھومتے پھرتے ہر تنے ہوئے ٹاٹ کو اتار کر ٹکڑے ٹکڑے کرنا بھی قابل یقین ہو جاتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں،بھابی کی زبان سے ، اپنی دلہن کی کہی گئی بات سن کر ’’دماغی توازن کے بگڑنے ‘‘اور چوٹ کھا کر ’’دماغ کے چلنے‘‘ میں یہی فرق تھا جو منٹوصاحب نے ، میر کی سی زبان نہ لکھنے کے سبب، سادگی سے بیان کردیا تھا۔ ایک اقتباس آپ کے تجزیے سے:
’’لیکن خدایا یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں۔؟ انھیں تو ایسی ہی چھت پر ٹاٹ کے پردوں کا کانا پردہ کرکے اپنی بیویوں کے ساتھ سونا پڑتا ہے ۔غور کرو، کس قدر قوت مند موضوع تھا لیکن منٹو صاحب کو افسانہ ختم کرنے کی بے حساب جلدی تھی ۔ انھوں نے انجام ایسا سوچ لیا جو دھچکا پہنچائے اور یاد رہ جائے۔ باقی رہی یہ بات کہ انھوں نے انجام کو وقوع پذیر کرنے کے لیے کچھ تیاری کی ہے؟‘‘
)گفتارنہم : ص۔۵۰(
جی ، اس کا خود افسانہ جواب دے رہا ہے کہ منٹو صاحب نے انجام کو وقوع پذیر کرنے کے لیے اس موضوع کی مناسبت سے خوب تیاری کی تھی ۔ افسانہ وہیں ختم ہوا جہاں اسے ختم ہونا چاہیے تھا۔ یہ تو آپ نے مانا کہ موضوع قوت بخش تھا ۔ افسانے نے جیسی اٹھان پکڑی وہ بھی آپ کو پسند آئی ۔ اس کا انجام بھی، بہ قول آپ کے ؛منٹو صاحب نے ایسا چنا ہے، کہ وہ یاد رہ جاتا ہے اور اگر افسانے کا مقتبس ہونے والا ٹکڑا سامنے رکھا جائے تواس افسانے کا انجام بھی بھرپور تیاری والا لگتا ہے جو افسانے کو قابل توجہ بنا دیتا ہے ۔
..........
’’پڑھیے کلمہ‘‘: فسادات کا بہترین افسانہ؟
منٹو صاحب کے افسانے’’پڑھیے کلمہ‘‘ پر آپ نے بات کی، اِسے پہلے جملے میں ’’سنسنی خیز‘‘کہا اور کچھ آگے چل کر یہ بھی کہہ دیا:
’’کئی لحاظ سے اسے ’’سرکنڈوں کے پیچھے‘‘ کا تتمہ کہا جا سکتا ہے۔یہاں بھی عورت بڑی جابر ہے اور جرم انگیز معلوم ہوتی ہے۔ لیکن افسانہ میلو ڈرامہ نہیں ، سنسنی خیز نہیں ، کیوں کہ اس کے سب تار مضبوط جڑے ہوئے ہیں‘‘
)گفتارنہم : ص ۵۰(
میلوڈرامہ کیا ہوتا ہے؛ یہ آپ تفصیل سے پہلے ہی بتا چکے تھے ، لہذا اس وضاحت میں نہ پڑنا اچھا لگا کہ ’’پڑھیے کلمہ‘‘ میلوڈرامہ کیوں نہیں ہے؟تاہم اس افسانے کو پہلے آپ نے ’’ سنسنی خیز‘‘بتایا جو آگے چل کرآپ کے لیے ’’سنسنی خیز‘‘ نہیں رہتا تو بات سمجھ میں نہیں آتی؛ اُلجھن ہوتی ہے۔جی ہاں ‘ اِس سے اتفاق کیا جانا چاہیے کہ یہ افسانہ منٹو صاحب نے ’’سرکنڈوں کے پیچھے‘‘ کا بہ طور تتمہ لکھا ہے۔’’ قیمے کی بجائے بوٹیاں‘‘، ’’سرکنڈوں کے پیچھے‘‘’’پڑھیے کلمہ‘‘ اور ’’ٹھنڈا گوشت‘‘ جیسے افسانے جن کرداروں کو نمایاں کرتے ہیں اُن میں بے پناہ جنسی طلب بھی مل جائے گی سفاک ہوکر قتل تک کرڈالنا بھی ؛ گویا کہا جا سکتا ہے کہ یہ سب لگ بھگ ایک سی ذہنی ساخت رکھنے والوں کی کرداری کہانیاں ہیں ۔ خیر ، یہ تو میں اپنی طرف سے کہنے لگا ہوں جب کہ مجھے یہ جاننا ہے کہ منٹوصاحب کا یہ افسانہ آپ کے ہاں کیا معنی پاتا ہے؛ اس پر آپ نے تفصیل سے لکھا ہے ۔حتی کہ آپ نے یہاں تک کہہ دیا ہے :
’’کھول دو‘‘،’’ٹھنڈا گوشت‘‘ وغیرہ کے زورمیں ہم اس افسانے کو بھول گئے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ تقسیم کے فسادات پر ’’پڑھیے کلمہ‘‘ سے بہتر افسانہ نہیں لکھا گیا۔‘‘
)گفتارنہم : ص۵۱(
محترم فاروقی صاحب !مجھے اجازت دیجئے کہ میں اس باب میں آپ سے اختلاف کر سکوں ۔ آپ نے فرمایا ہے’’ اس[افسانے] کے سب تار مضبوط جڑے ہوئے ہیں۔‘‘ تو کیا اس سے یہ سمجھا جائے کہ آپ کے نزدیک یہ ایک انتہائی کامیاب افسانہ رہا ؛بیانیے اور واقعاتی ترتیب کے اعتبار سے ؟ مگر میں تو اس باب میں اُلجھا ہوں ۔ یہ ایک جھوٹے کلمہ گوخونی کا افسانہ ہے، اورعبدالکریم/ عبدل ایسے کرداروں کا ہونا بعید از قیاس نہیں ہے۔ مردوں سے اپنے بدن کی مالش کروانے والی، سولہ نمبر کھولی کی مکین رکما بائی جیسی عورتوں کے بارے میں بھی گمان باندھا جاسکتا ہے اور لکڑی کے کھلونے بیچنے والے گردھاری جیسے مرد بھی ہماری سوسائٹی کا حصہ ہیں، جو خود بھی لکڑی کی طرح کاٹ دیے جاتے ہیں۔ میری اُلجھن تو رکما بائی کی لاش کے حوالے سے ہے۔جی، منٹو صاحب نے عبدل کے اقبالی بیان کو کہانی کا بیانیہ بنایا اور اس سے کہلوایا تھا کہ:
’’ایک دم میرے اَندر مقابلے کی بے پناہ طاقت آگئی ۔ بلکہ میں نے ارادہ کر لیا کہ رکما کے ٹکڑے ٹکڑے کردوں گا۔غسل خانے سے باہر نکلا تو دیکھا کہ وہ بڑی کھڑکی کے پٹ کھولے باہر جھانک رہی ہے۔ میں ایک دم لپکا۔ چوتڑوں پر سے اوپر اُٹھایا اور باہر دھکیل دیا۔ ‘‘
)افسانہ:’’پڑھیے کلمہ‘‘(
بس اس کے بعد لاش غائب ہوگئی تھی ۔ عبدل کے لیے لاش کا غیاب ممکن ہے مگر اس کا افسانے کے قاری کے لیے غائب ہو جانا،اِس کی کمزوری بن گیا ہے۔ منٹوصاحب کے لیے مشکل یہ ہو گئی تھی کہ اُنہوں نے راوی کردار کے اقبالی بیان پر تکیہ کیا ۔کہانی کے پلاٹ کے مطابق یہاں رکما کی لاش کوغائب ہونا تھا، بالکل ویسے ہی جیسے گردھاری کی ٹکڑے ٹکڑے کی گئی اور مسجد میں پھینکی گئی لاش غیب ہو گئی تھی ۔ گردھاری کی لاش کا ہندوؤں کے ہاتھوں مسجد جلنے پر جل جانے کے باعث نہ ملنا سمجھ میں آتا ہے کہ اس کا التزام افسانے میں رکھ دیا گیا ہے مگر رکماجسے گلی میں گرایا گیا تھا ، اور گرانے والے نے دَھپ کی آواز بھی سنی تھی کہا ں گئی ؟ اچھا مان لیتے ہیں کہ منٹو صاحب کا منشا یہی تھا کہ عبدل کو یہ معلوم نہیں ہونا چاہیے ۔ بہ جا ، مگر قاری سے اُن کا کیا پردہ تھا؛ وہ ایسا قرینہ رَکھ سکتے تھے کہ افسانے کے کسی کردار کو کچھ خبر نہ ہو اور قاری یہ راز جان لے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس افسانے میں راوی کے نادرست انتخاب نے منٹو صاحب کو اس باب میں بے بس کر دیا ہوگا۔انسپکٹر صاحب کے سامنے ایک اقبالی بیان سے یہ راز افسانے کے قاری پر نہیں کھل سکتا تھا لہذادبدا کر منٹو صاحب نے رکما کی لاش کوافسانے کے قاری کے لیے بھی غائب ہی رہنے دیا ۔
ایک اور تماشا دیکھے۔ ہمیں ذہن میں حاضر رکھنا ہوگا کہ کچھ دیر پہلے ؛ یعنی رکما کے کھڑکی سے گرائے جانے سے پہلے، لیکن اس کے بعد کہ جب رکما نے عبدل کی گردن کو تار والی رسی میں جکڑ کر مارنا چاہا تھا مگر وہ بچ نکلا، ایک ایسا واقعہ ہوا کہ پڑوسی بھاگتے آئے تھے۔ جی افسانے میں بتایا گیا ہے کہ عبدل جب ہوش آنے پر اُٹھ بیٹھا تھا تو رکما کے نئے عاشق تکارام( جس نے عبدل کے قتل کی کامیابی پر اس کی لاش ٹھکانے لگانی تھی ) کی چیخ نکل گئی اور وہ دروازہ کھول کر بھاگ گیا تھا ۔ اس چیخ کو سن کر پڑوسی بھاگتے ہوئے آئے تھے ۔ حیرت ہے جب گردھاری کی لاش کے تین ٹکڑے کیے گئے اور افسانے کے متن کے مطابق ؛ ’’ٹھک ٹھک کافی ہوئی تھی‘‘ تو یہ پڑوسی کیوں نہ آئے۔ چلیے ہم منٹو صاحب کی تاویل مان لیتے ہیں؛چوں کہ گردھاری لکڑی کے کھلونے بنانے کا کام کرتا تھا اور اس ٹھک ٹھک سے سمجھا گیا ہوگا کہ وہ کھلونے بنا رہا ہوگا مگر تکارام کی چیخ کو انہوں نے جب رکما کی چیخ بنا دیا تو یہی پڑوسی کیسے مطمئن ہوگئے تھے۔ چلیے مان لیتے ہیں کہ خوف میں مرد اور عورت کی آواز بگڑ کر بدل جاتی ہوگی، مگر کیا اتنی بدل جاتی ہے کہ تمیز ہی نہ کی جاسکے ۔ تکارام کی چیخ کی بابت منٹو صاحب نے رکما کی زبانی متن میں یہ حیلہ رَکھ دِیا ہے کہ وہ سوتے میں چلنے کی عادی تھی ، ایسے میں دیوار سے ٹکرائی اورڈر کر اُس کی چیخ نکل گئی تھی ۔ افسانے کا متن کہتا ہے ’’پڑوس کے آدمی یہ سن کر چلے گئے تھے ۔ ‘‘ ہم کیسے یقین کر لیں کہ نیند میں چلتے ہوئے دیوار سے ٹکرا جانے سے بوکھلاہٹ میں/ڈرکر جو چیخ نکلتی ہے ، ایک شخص جسے قتل کیا جا چکا ہو وہ یکایک اُٹھ بیٹھے تو دہشت کے مارے حلقوم سے جو چیخ نکلتی ہے؛ دونوں ایک سی ہوتی ہیں۔ پھر اس کا کیا کریں کہ رکما کھڑکی سے گرائی گئی تھی، جی وہ تیسری منزل سے گرائی گئی تھی ۔ تیسری منزل سے زمین تک کا فاصلہ اتنا ہوتا ہے کہ دہشت کے مارے چیخ نکلے اور اسے گرنے سے پہلے حلقوم فضا میں اُچھال دے‘ مگررکما کی کوئی چیخ نہ نکلی تھی ؛ اگر نکلی بھی تھی تو پڑوسیوں کو سنائی نہ دی۔ منٹو صاحب نے چوں کہ یہاں رکما کی چیخ کا ذِکر نہیں کیا، رکما کے دَھپ سے گرنے کا ذکر کیا ہے؛ تواس چیخ کو ہم بھی ایک طرف رکھ دیتے ہیں۔ کہیے، بلندی سے گرائی جانے والی رکما کے زمین پر زور سے ٹکرانے سے جو ’’دھپ‘‘ منٹو صاحب نے تیسری منزل میں کھڑکی کے پاس موجود عبدل کو سنوا دی تھی، پڑوسیوں نے اسے کیوں نہیں سنا۔ حیرت ہے فاروقی صاحب! کہ اتنے بڑے رخنے آپ کی نظروں سے اوجھل رہے ؛ اور اگرنگاہ میں تھے تو انہیں نشان زد کیوں نہ کیا ؟ اور اس نتیجہ پر کیسے پہنچ گئے کہ’’ اس[افسانے] کے سب تار مضبوط جڑے ہوئے ہیں‘‘
بے شک عسکری صاحب نے ، اور آپ نے فسادات کے فارمولا افسانوں کے جو اجزائے ترکیبی بتائے ہیں ویسا ہی دیکھنے پڑھنے میں آتا رہا ہے مگر واقعہ یہ ہے کہ منٹو صاحب کے بارے میں ایسا کوئی فارمولا کام کرتا دکھائی نہیں دیتا حتیٰ کہ ان افسانوں میں بھی نہیں (’’کھول دو‘‘،’’ٹھنڈا گوشت‘‘ وغیرہ ) جن کے مقابلے میں آپ نے ’’پڑھیے کلمہ ‘‘ جیسے کمزور افسانے کو رکھ کر بہت سراہا ہے۔ اب رہی آپ کی یہ بات کہ،یہ افسانہ تقسیم کے فسادات پر لکھا گیا ہے۔ اس ضمن میں میرا کہنا ہے : جی نہیں، یہ فسادات پر نہیں، فسادات کے زمانے میں لکھا گیا ہے ۔ سفاک قاتل اور نام کا مسلمان عبدل، جو’’پڑھیے کلمہ‘‘ کو محض تکیہ کلام کے طور پر استعمال کرتاتھا، جس نے ہندو مسلم فسادات میں تین ہندو مارے تھے ۔ جو قرآن کی قسمیں کھا کر جھوٹ بولتا تھا ؛ مگر محض ان کمزور نشانیوں سے اسے ’’تقسیم کے فسادات ‘‘ کا ’’ بہترین افسانہ‘‘ کیسے قرار دیا جا سکتا ہے جب کہ ہم صاف دیکھتے ہیں فسادات کا بیانیہ الگ پڑا ہے اور کہانی رکمابائی اور اس کے عاشقوں کے بیچ چل رہی ہے ۔ اب تو یہ ایسے قاتل کا افسانہ ضرور ہے جس نے تقسیم کے زمانے میں مارا ماری کی تھی۔ یہ تو ایسے مسلمان کا افسانہ بھی نہیں کہا جاسکتا ہے جس کا مذہب کبھی مسئلہ بنا ہو ؛ افسانے کے نام ’’کلمہ پڑھیے ‘‘ کو چونکانے کے لیے منٹوصاحب نے استعمال کیا تھااور بس۔ باقی کی کہانی تو رکما بائی ،گردھاری، تکارام اور عبدل کی کہانی ہے ؛ تقسیم کے زمانے کی کہانی ، جب کرفیو لگا ، مسجد جلنے کا واقعہ ہوا، گردھاری کی لاش اس میں جل گئی ۔ فسادات کے زمانے میں فسادات سے کٹی ہوئی کہانی کا موازنہ ’’کھول دو‘‘ اور’’ٹھنڈا گوشت‘‘ جیسے افسانوں سے بنتا ہی نہیں ہے ۔
..........
ناکام اور سنسنی خیز افسانے
ناکام اور سنسنی خیز افسانوں کی ذیل میں آپ نے ’’اولاد‘‘ اور’’خالد میاں‘‘ کو بھی رکھا ہے۔ یہ دونوں افسانے بالعموم منٹو صاحب کے بڑے اور کامیاب افسانوں میں شمار نہیں کیے جاتے ؛ تاہم فاروقی صاحب ، آپ نے ان ناکام افسانوں کو بھی کچھ دوسرے کمزور افسانوں کی طرح بھرپور توجہ دی ہے۔کچھ ایسا ہی معاملہ ’’بادشاہت کا خاتمہ‘‘ کا ہے جس پر کچھ لکھنے کے لیے آپ کو بہت تردد کرنا پڑا آپ کی کئی باتوں نے میرے علم میں اضافہ کیا مگر منٹو کی اس عظمت کی دلیلیں چوں کہ ’’گفتار نہم‘‘ کا بھی حصہ نہ بن سکی تھیں لہذ ا آپ کے اس جملہ کے معنی بھی کھل نہ پائے ۔
’’ مجھے میر کے سوا کوئی شخص اردو ادب میں دکھائی نہیں دیتا کہ جسے میں منٹو کے مقابل رکھ سکوں‘‘
)گفتارنہم : ص۶۲(
فاروقی صاحب ،آپ تنقیدی جملہ خوب لکھتے ہیں ۔’’گفتار دہم‘‘ کے شروع ہوتے ہی ، میں ان جملوں کا لطف لیتا رہا :
’’انھیں[منٹوکو] لکھنے اور بیچنے کی بہت جلدی رہتی تھی ، خواہ افسانہ کمزور ہی نکل جائے۔‘‘
)گفتاردہم : ص ۶۳(
’’ مشکل یہ تھی کہ وہ اپنی شہرت(بدنامی) کے قیدی ہو گئے تھے۔
)گفتاردہم : ص ۶۳(
’’منٹو کو یاروں نے گھیر گھار کر فحش نگار بنا دیا تو وہ بھی اپنے بارے میں یقین کرنے لگے کہ میں فحاش ہوں۔‘‘
)گفتاردہم : ص ۶۳(
..........
منٹو، میر اور شیکسپیئر:ایک زنجیر تین کڑیاں
آخر کار منٹو صاحب کے ایسے افسانوں کی باری آ ہی گئی تھی جن کے بارے میں ، مجھے فاروقی صاحب، آپ کے خیالات بہ طور خاص سننے کی تاہنگ تھی یعنی ’’ٹھنڈا گوشت‘‘،’’کھول دو‘‘، اور’’ بو‘‘۔ آپ نے ’’کھول دو‘‘ کو جن بنیادوں پر رد کیا وہ میں نے پہلے ہی ہلے میں نہیں مانی تھیں؛ جی، تب کہ جب اس کا ایک اقتباس اشعر نجمی نے اپنی ’’فیس بُک وال‘‘ پر فراہم کیا تھا۔اب آپ کی مکمل گفتگو دیکھ رہا ہوں تو بھی اپنے خیال میں کوئی تبدیلی محسوس نہیں کرتا۔ آپ نے اس کامیاب افسانے کو بھی ناکام کہا اور فرمایا کہ منٹوصاحب کو اسے انجام تک پہنچانے کی جلدی تھی۔۔۔ وہ چاہتے تھے کہ سکینہ کی مظلومیت کا احساس قاری کے منھ پر تھپڑ کی طرح پڑے اس لیے اچھے کا م کو اچھا نہ رہنے دیا اور ہماری اشک باری کا انتظام کرتے رہے (ص ۸۲) آپ کا لاحول ولا قوۃ پڑھنا بھی مجھے سنائی دے گیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ وہی منٹو کو میر سے بھڑانے والی بات، جس میں اب شیکسپیئر کو بھی داخل کر دیا گیا ہے: اچھا اپنی سہولت کے لیے اور آپ کی اس مختلف بات کو حاضر رکھنے کے لیے یہاں نقل کر لیتا ہوں ۔
’’میں نے کچھ دیر پہلے تم سے کہا تھا کہ ’’اردوادب میں میر کے سوا اگر کوئی شخص اور ہے جس کے یہاں رنگا رنگی، دُکھ درد، وجد و شوق، غم اور مسرت ،انسانی وجود کا احترام اور اس کی کمزوریوں کا احساس، یہ سب باتیں تخلیقی سطح پر بیان ہوئی ہیں تو وہ سعادت حسن منٹو ہے‘‘ اور تم نے میر کے بارے میں میرا یہ قول بھی کہیں پڑھا ہوگا کہ اردو میں اگر کوئی ایسا ہے جسے اس دنیا کی معموری،تنوع، اور اس کے مشاہدے کی گہرائی ، باریکی اور فن پر مکمل قدرت کے لحاظ سے شیکسپیئر سے مشابہ کہا جا سکتا ہے تو وہ میر تقی میر ہیں۔ اس طرح شیکسپیئر ، میر ،اور منٹو سب ایک ہی زنجیر کی کڑیاں کہے جا سکتے ہیں ۔‘‘
(گفتاردہم : ص۸۲)
یہ جو آپ نے کہا ، بہت بڑی بات تھی ،آپ نے منٹو، میر اور شیکسپیئر کو ایک زنجیر کی کڑیاں کہا تھا توبہت ذمہ داری سے یہاں اسے ثابت کیا جانا چاہیے تھا۔ جب کہ لگ بھگ آپ منٹو کے ہر اچھے افسانے کو رد کرتے آئے ہیں ، انہیں عجلت میں اپنے افسانوں کے انجام کا ناس مارنے والا ثابت کرتے ہیں ؛ ہاں کچھ کمزور افسانوں کو آپ نے بڑا بنانے کی کوشش کی مگر اس سے منٹو اور کمزور ہوا اور اوپر والی منٹو، میر اور شیکسپیئر والی زنجیر بناتے ہوئے آپ کو اس کا احساس تھا تب ہی تو آپ نے یہاں اپنی بات میں گنجائشیں رکھنے کے لیے یہ بھی فرمادیا تھا:
’’لیکن افسوس کہ منٹو صاحب کی کڑی یہاں کمزور، بہت ہی کمزور ہے۔ ،،
)گفتاردہم : ص ۸۲(
چلیے ایک لمحہ کے لیے آپ کی بات مان لیتے ہیں ؛منٹوصاحب ، میرصاحب اور شیکسپیئرصاحب سے بہت زیادہ کمزور ہیں ۔ آپ نے انہیں اُن دونوں کے میدان میں اتار کر اور کمزور دکھا کر مروانا چاہا ؛ہم انہیں وہاں سے نکال کر اُردو کے افسانے کے میدان میں لے آتے ہیں ۔ اب میر صاحب کا حوالہ چوں کہ منہا ہو گیا ہے تو آپ کا بیان منٹو صاحب کے حوالے سے یوں ہو جائے گا:
’’اردو[افسانے] میں[۔۔۔] اگر کوئی شخص[۔۔] ہے جس کے یہاں رنگا رنگی، دُکھ درد، وجد و شوق، غم اور مسرت ،انسانی وجود کا احترام اور اس کی کمزوریوں کا احساس، یہ سب باتیں تخلیقی سطح پر بیان ہوئی ہیں تو وہ سعادت حسن منٹو ہے‘‘
لائق احترام فاروقی صاحب ! کیا آپ کو نہیں لگتا کہ جس طرح منٹو صاحب بعض افسانوں میں بہ قول آپ کے، بغیر تیاری کے انجام تک لے گئے آپ نے بھی ضروری تیاری کے بغیر ایک نتیجہ اخذ کیا تھا ۔ اب معاملہ یہ ہے کہ اس تنقیدی مواد کے ساتھ اور ان فنی کمزوریوں کی موجودگی میں ہم کیسے مان پائیں گے کہ منٹو صاحب نے ’’سب باتیں تخلیقی سطح پر بیان‘‘ کی ہیں۔
..........
’’کھول دو‘‘:کچھ اور
اچھا بات افسانہ’’کھول دو‘‘ پر ختم نہیں ہوئی تھی؛ منٹو، میر اور شیکسپیئر کی زنجیر میں منٹو کو بہت ہی کمزور کڑی ثابت کرنے کے لیے آپ نے ہمیں اس افسانے کی آخری سطروں کی طرف متوجہ کیا تھا؛
’’مردہ جسم میں جنبش ہوئی
بے جان ہاتھوں نے ازار بند کھولا
اور شلوار نیچے سرکادی
بوڑھا سراج الدین خوشی سے چلایا:’’زندہ ہے۔۔۔میری بیٹی زندہ۔۔۔‘‘
)افسانہ:’’ کھول دو‘(
منٹو صاحب کے افسانے’’کھول دو‘‘ سے اقتباس آپ نے صفحہ ۸۳ کے آغاز میں دیا اور فوراً بعد شیکسپیئرصاحب کے کنگ لیئر(King Lear) کو مقتبس کرنے اور اس پر بات کرنے میں مشغول ہو گئے تھے ۔ جب تک آپ اس پر بات کرتے ہیں، میں نے اس باب میں اپنی وہ بات جس کا حوالہ محمد عمر میمن نے دیا تھا ، جی، یوسا کے حوالے سے ای مکالمے والی بات، اُسے ڈھونڈھ کر یہاں نقل کرتا ہوں ۔ شاید اس طرح ہم اس افسانے کو ایک اوررُخ سے دیکھنے لگیں:
’’تمھیں یاد ہوگاکہ اس [’’کھول دو‘‘]افسانے کی سکینہ جب ڈاکٹر کی آواز پر اپنی شلوار نیچے سرکا رہی تھی تو پوری انسانیت ننگی ہونے لگی تھی۔ ایسے میں ہم سب کا دھیان سکینہ کے بوڑھے باپ سراج الدین کی طرف نہیں گیا ہوگا جو زندگی کی رمق پاکر خوشی سے چلانے لگا تھا کہ [اس کہانی پررنگ رنگ کی تنقیدپڑھنے والا قاری نہیں، ] اس کہانی کو پڑھنے والا قاری ایک طرف زقند لگا چکا تھا؛ اُس جانب، جہاں وہ آٹھ رضا کار ہو سکتے تھے کہ انہیں دبوچ کر ان کے بدکردار بدنوں سے آخری سانسیں تک کھینچ لے۔ یہاں میں یہ اضافہ کرنا چاہتا ہوں کہ’’کھول دو‘‘ کا جملہ ایک سفاک لطیفے کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ ایک بے اولاد مجبور عورت کے ساتھ ،جو پیر کے پاس اولاد ہونے کے لیے تعویز لینے گئی تھی اور پیر کی نیت میں ایسا فتور آیا کہ اُسے اکیلا پاکر وہی حیلہ آزمانا چاہا جس کا وہ عادی تھا؛ کہا:’’ناڑا کھول۔‘‘ وہ گھبرا گئی ۔ اپنی سماعت پر اسے یقین نہ آرہا تھا۔ تعجب اور گھبراہٹ ہوئی تو پوچھا:’’ سرکار آپ نے مجھے کچھ کہا ہے؟‘‘، وہ ادھر اُدھر دیکھ کر تسلی کر رہی تھی؛وہاں کوئی اور نہ تھا۔ پیر نے کہا:’’ ہاں ،بھلیے لوکے،میں نے تمھیں ہی کہا ہے، ناڑا کھول اور آجا۔‘‘ وہ ناڑے کی سچی تھی۔ طیش میں آگئی ؛جو منھ میں آیا ،بک دیا ۔ پیر کے ہاتھ پاؤں پھول گئے،مگر پرلے درجے کا مکار تھا،پینترا بدلا،کہا:’’اے نیک بخت،برہم کیوں ہوتی ہے۔ وہ پیچھے دیکھ ، دیوار میں ٹھکی ہوئی کیل سے ناڑا بندھا ہے، اسے کھول کر لے آ کہ وہ دَم کرکے تمھیں دوں۔‘‘ میمن جی ، یہی لطیفہ اس’’کھول دو‘‘ کے پیچھے گونج سکتا تھامگر منٹو نے کچی گولیاں نہیں کھیلی تھیں ۔ڈاکٹر ،جب کھڑکی کھولنے کو کہہ رہا تھا اور سکینہ اپنا ناڑا ڈھیلا کرکے شلوار نیچے کھسکا رہی تھی ؛ایسے میںیہ لطیفہ اپنا وجود معدوم کر چکا تھا۔ اب سکینہ تھی: جس کے ہاتھ عصمت دری کے تسلسل کے باعث میکانکی انداز میں چل رہے تھے ، یا پھر وہ باپ تھا، جو اپنی بیٹی میں زندگی کے آثار پاکر خوشی سے کھل اُٹھا تھا ۔ اور وہ ڈاکٹر بھی تو وہیں تھا جس نے ننگی پنڈلیاں دیکھی تھیں تو اُس کے چہرے کے مسام پسینہ باہر پھینکنے لگے تھے ۔ تو اے پیارے میمن، افسانہ تو بنتا ہی تب ہے، جب کہانی زقند لگاتی ہے/پلٹا کھاتی ہے۔ قاری کے اندر کو ہلا کر رکھ دیتی ہے اور واقعہ وہ نہیں رہتا جیسا کہ وہ پہلے بیان ہو رہا ہوتا ہے۔،،
)کہانی اور یوسا سے معاملہ۔ محمد حمید شاہد/محمد عمر میمن: ص ۱۰۶(
اس پر اب میں کیا اضافہ کروں ، آپ کی کتاب کا اگلا صفحہ الٹتا ہوں اور وہاں پہنچتا ہوں جہاں ’’کنگ لیئرکے ایکٹ پنجم، منظر سوم، سطور ۲۵۹ تا۲۶۵ والا اقتباس دینے کے بعد، آپ نے فرمایا تھا:
’’تم یقین کرو، یہ منظر میں نے کاغذ پر بار ہا پڑھا ہے اور اسٹیج پر کم سے کم ایک بار دیکھا ہے۔ لیکن اس وقت بھی ان الفاظ کو نقل کرتے وقت میرے ہاتھ کانپ رہے ہیں اور سانس رُک رُک کر آرہی ہے ۔کاش منٹو صاحب نے ’’کھول دو‘‘ کی جگہ کچھ اور سوچا ہوتا ، اور کاش اُنھوں نے ڈاکٹر کے پسینے میں غرق ہو جانے والا جملہ نہ لکھا ہوتا۔ ‘‘
)گفتاردہم : ص ۸۴(
لیجئے صاحب میر جیسے منٹو صاحب کے اس افسانے پر آپ کی گفتگو یہاں تمام ہو جاتی ہے ؛ آپ کے نزدیک اس کی خوبیاں خامیاں ہو گئیں مگر یقین کیجئے میں منٹو صاحب کے اس افسانے کی آخری سطروں کو نقل کرنے لگا تو میرے ہاتھ ویسے ہی کانپ رہے تھے ۔ آپ معترض ہوئے کہ سکینہ کی مظلومیت کا احساس قاری کو منھ پر ایک طمانچے کا سا کیوں لگا ؟اور اسی سانس میں کہہ دیا، منٹو صاحب ہماری اشک باری کا انتظام کرتے رہے ۔ یہ طمانچہ جہاں قاری کی آنکھوں میں آنسو بھرتا ہے وہاں طیش بھی تو دلاتا ہے ۔ایسے میں سانسوں میں رخنے پڑنے لگیں، تو یہ کہاں کا انصاف ہوگا کہ کنگ لیئر کو پڑھتے ہوئے تو یہ رد عمل مباح ہو اور ’’کھول دو‘‘کے باب میں خرابی ہو جائے ۔
..........
ذوق یاروں نے بہت زور غزل میں مارا
یہی میر صاحب آپ کے محبوب ہوتے ہیں جن کو معیار مان کر آپ نے منٹو صاحب کو بھی دِیکھا اورپَرکھا ہے ۔ میر صاحب کا تصور زندگی کیاوہی تھا جو ہمارے منٹو صاحب کو بعد میں محبوب ہو گیا تھا؟ مجھے یقین ہے؛ آپ بھی کہہ دیں گے ’’نہیں‘‘ ۔ میرصاحب کے ہاں حزنیہ لے تیز ہو جاتی ہے ۔
مجھ کو شاعر نہ کہو میر کہ صاحب میں نے
دردو غم کتنے کیے جمع تو دیوان کیا
درد و غم جمع کرنا اور دیوان کرنے کے لیے اُنہیں سینت سینت کر رَکھتے چلے جانے کا نام میر ہے تواِن دُکھوں کو سہنے اور دردوں کو جھلینے والے کے اندر سے نیلا تھوتھا ہو جانے والے اِنسان کوبرآمد کرنے والے کا نام منٹو ہے ۔ لیجئے ،مان لیتے ہیں کہ یہ حزنیہ لے، جو آپ کا دل اپنے قابو میں کیے ہوئے ہے ، ہمارے دلوں پر دیرپا اثر نقش کرتی ہے ۔ ایسے میں مجھے جاپانی سائنس دانوں کی ایک تحقیق یاد آ گئی ہے جس کے مطابق سوز بھرے نغموں کی طرح فن سے جس اداسی کو تحریک ملتی ہے وہ اس دِل ڈھانے والی صورت حال سے مختلف ہوتی ہے جو حقیقی ناخوشگوار واقعات سے پیدا ہوتی ہے۔ فن سے متحرک ہونے والی اداسی سے جذبوں کوجِلا ملتی ہے اور اس کاراست زندگی پر کوئی بُرا اَثر نہیں پڑتا۔اِسی تحقیق کے مطابق فن سے متحرک ہونے والی اُداسی ،تلخ زِندگی کے معمولات کے ہاتھوں پیدا ہونے والے منفی جذبات کو ختم کر سکتی ہے ۔ جاپان کی ٹوکیویونی ورسٹی اور ریکن برین سائنس انسٹی ٹیوٹ کے سائنس دانوں کی یہ تحقیق نفسیات کے ایک جریدے Frontiers in Psychology میں شائع ہوئی تھی۔ خیر، بات میر اور منٹو کے موازنے کی ہو رہی ہے ، اسی طرف آتا ہوں اور یہاں میرا پوچھنا ہے کہ کیا منٹو کسی اداسی کو متحرک کرتے ہیں یا اداس اور دل ڈھا دینے والی صورت حال سے باہر نکلنے کے لیے کچوکے لگاتے ہیں ۔ آپ اتفاق کریں گے منٹو کے افسانے کا منصب ہمارے بے حس ہو چکے وجودوں پر کچوکے لگانا ہے ۔
یہیں جی چاہتا ہے کہ ’’فیض میر‘‘ کا حوالہ دے دوں ۔ اگر چہ یہ کتاب اب کسی شمار قطار میں نہیں ہے مگر اس کا حوالہ دینے کو یوں جی چاہنے لگا ہے کہ اس کا مطالعہ گویا ایک اعتبار سے میر صاحب کے فکشن اور فکشن کے باب میں اُن کی توفیقات کا مطالعہ ہے ۔ یہ تصنیف میرصاحب نے اپنے بیٹے فیض علی کو سامنے رکھ کر تخلیق کی تھی۔ ہاں تو، جسے میں میرصاحب کا فکشن کہہ رہا ہوں یہ پانچ حکایات ہیں ۔ درویشوں ، مجذبوں اور فقیروں کے قصے۔ اسی حکایت کی تیکنیک کو جس کامیابی سے انتظار حسین نے برتا بعد کی بات ہے ۔ بہ ظاہر سمجھ میں نہ آنے والے درویش ، مجذوب اور فقیراشفاق احمد کو بھی بہت عزیزرہے ۔ جدید افسانے کے حوالے سے نام پانے والے ڈاکٹر رشید امجد کی کہانیوں کے مرشد ، اُن کے افسانوں میں زندگی کی ایسی گلی میں ظاہر ہوتے ہیں جس سے نکلنے کی کوئی راہ نہ ہوتی اگر مرشد وہاں پہنچ نہ جاتے ۔ میرصاحب کی حکایات کے واقعات محیر العقول ہیں ۔ ان کے مقابلہ میں منٹو صاحب جن واقعات کو چنتے ہیں وہ زندگی کی ٹھوس حقیقتیں ہیں۔ میرصاحب نے اپنے قاری کی توجہ حاصل کرنے کے لیے یہ حیلہ کیا ہے کہ ان واقعات کا بیانیہ واحد متکلم راوی کے ذریعہ قائم کیا ہے اور یہ راوی ایسا ہے کہ خود بھی اس کہانی کا حصہ ہوگیا ہے۔ منٹو صاحب بھی کہیں کہیں اسی کو وتیرہ کرتے ہیں مگر محض کسی اَن ہونی بات پر یقین دلانے کے لیے نہیں، اپنے قاری کی حسوں پر براہ راست وار کرنے کے لیے ۔
فاروقی صاحب! آپ نے خودنشان زَد کر رکھا ہے کہ میرصاحب کو داستان سے دلچسپی تھی ۔ مگر ہمارے منٹو صاحب ، داستان سے کسی دلچسپی کو اپنے فکشن میں ظاہر نہیں ہونے دیتے ۔ میر صاحب کا فکشن تو ٹھیک سے فکشن بھی نہ بن پایا تھا کہ اسے’’ذہنی اختراع‘‘ اور’’ دروغ گوئی‘‘ سے تعبیر دی گئی یا پھر محض ’’اعتقادی کہانیوں‘‘ کے ذُمرہ میں رَکھا گیا؛ ایسی اعتقادی کہانیاں ،جنہیں ’’عہد نو کا ذہن کسی بھی صورت قبول نہیں کر سکتا۔‘‘ منٹو صاحب کے سامنے جیتی جاگتی زندگی موجود تھی ۔ اگر کہیں یہ زندگی اُس ذبیح کی صورت میں تھی جس کی کھال کھینچ اُتاری گئی ہو، ’’دھواں‘‘ میں قصائی کی دکان پر پڑے دو تازہ بکروں کی طرح ؛ تو بھی اپنے قاری کے سامنے یوں پھڑکتے ہوئے آتی تھی، جیسے مسعود نے ننگے گوشت کو چھوا تو وہ پھڑکنے لگا تھا۔فکشن کے میدان میں میرصاحب اُترے جو اُن کا میدان نہیں تھا اور مارے گئے۔ حتی کہ اُن کا فکشن بھلا دِیا گیا۔اگرچہ ’’فیض میر‘‘کو پروفیسر شریف قاسمی نے ازسر نو مرتب کرکے قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان ، نئی دہلی سے ۲۰۱۰ء میں شائع کرا دیاہے، مگر یہ تو بس اس لیے ہے کہ اسے میر صاحب نے لکھا جو شاعری کے باب میں خدائے سخن ہواکرتے ہیں۔اِدھر منٹو صاحب کا معاملہ یہ ہے؛ اُنہوں نے بھی اپنی زندگی میں ہی اپنی قبر کا کتبہ ’’بقلم خود‘‘ لکھتے ہوئے افسانے کے باب میں’’خدا‘‘ ہونے کا اعزاز پالیا تھا۔ مان لیجئے کہ دونوں کی کائنات الگ الگ ہے اور آپس میں مقابلہ یا موازنہ بنتا ہی نہیں ہے۔
..........
’’دھواں‘‘: یہ ناکام افسانہ نہیں ہے
’’گفتار چہارم‘‘ میں آپ نے منٹو صاحب کے افسانے ’’دھواں‘‘ کا تجزیہ کیا اور اسے اس لیے’’ ناکام افسانہ‘‘ قرار دیا کہ منٹو صاحب نے اپنی توجہ اس کے صرف ایک کردار یعنی مسعود پر مرکوز رکھی تھی۔ معاف کیجئے گا ، کہ میں اس باب میں آپ سے مختلف نقطہ نظر رکھتا ہوں ۔ میں اسے ناکام افسانہ ہر گز نہیں کہوں گا ؛ کم از کم اُن بنیادوں پر تو بالکل نہیں جن بنیادوں پر آپ نے اسے ناکام قرار دے ڈالا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ منٹو صاحب کی اس کہانی کا مرکزی کردار مسعود ہی ہے۔ سکول میں پڑھنے والا دس بارہ برس کا ایک ایسا لڑکا جس کے ہاں ابھی جنس بیدا ر ہو رہی ہے۔ یہ کیسے بیدار ہوتی ہے؛ منٹو صاحب نے اسے بہت چابکدستی سے لکھا ہے، سنبھل سنبھل کر اور سلیقے سے ۔ اس موضوع میں لذّت اور اس کے چٹخارے سے بچنے کے لیے خلاف معمول منٹو صاحب لفظوں کی تتلیوں کے پیچھے بھی بھاگے ہیں ۔ مجھے حیرت ہے کہ جہاں منٹو نے تازہ ذبح کیے ہوئے اور اُتری ہوئی کھالوں والے بکروں کے ننگے گوشت سے اُٹھتا ہوا دھواں دِکھایا تھا ۔ مسعود کے ٹھنڈے گالوں پر گرمی کی لہروں کا دوڑنا ننگے گوشت سے اُٹھتے دھویں سے جوڑ کر آپ نے کیوں نہ دیکھا۔ سردی کے موسم میں صبح کے وقت راگیروں کے مونھوں سے نکلتا سفید دھواں، ہو یا گرم گرم سماوار کی ٹونٹیوں والا گاڑھا سفید دھواں ، مدھم آوازوں اور سرگوشوں سے جڑ کر جس طرح دھند میں پڑی ہوئی جنس کے ساتھ جڑ جاتا ہے اس کا اعتراف نہیں کیا جارہا تو مجھے دُکھ ہوتا ہے۔ اچھا، ذبح کیے ہوئے بکرے کے ننگے گوشت کی تھرتھراہٹ کو منٹو صاحب نے جس قرینے سے مسعود کے پاؤں تلے آنے والی پھڑکن سے جوڑا اوربے جاتلذذ پیدا کیے بغیر، ’’باریک کام‘‘ کرتے ہوئے اپنے موضوع کی نزاکت کو اُبھارا وہ بھی تو، توجہ طلب تھا مگر آپ ایک اور طرف اُلجھ گئے :
’’۔۔۔کلثوم کے ہم جنسی کے رجحان کو افسانے میں داخل کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ اگر وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ آغاز عمر میں اکثر لوگ ہم جنسی کی طرف ایک کشش محسوس کرتے ہیں ، تو انہوں نے اس بات کو قائم کرنے کے لیے ایک دو صفحے کیوں نہ خرچ کیے۔ اس وقت تو افسانے کا انجام ہمیں مایوس کن لگتا ہے ۔ ہمیں لگتا ہے کہ کہیں کچھ کم رہ گیا ہے ۔ یا ہمارے ساتھ کچھ دھوکا ہوا ہے۔ ‘‘
)گفتار چہارم : ص ۔۲۲(
جناب عالی ،بے حد احترام کے ساتھ مجھے کہنا ہے کہ کلثوم کے ہم جنسی کے رجحان کو افسانے میں داخل کرنے کی بس اتنی ہی ضرورت تھی جتنی کہ اُس کے کلیدی کردار کو ، اس موضوع کے اعتبار سے، اس سے اِکتساب اور انگیخت کی ضرورت تھی ؛ کم نہ زیادہ ، منٹوصاحب ان ضمنی کرداروں کو اتنا ہی لائے ۔ دیکھئے ایسے معاشرے میں جہاں جنسی تعلیم اور تہذیب کا کوئی ذریعہ نہ ہو، وہاں کچی پکی جنس کی ایسی ہی جھلکیاں اور جھماکے ہوتے ہیں ۔ اِن ضمنی کرداروں پر صفحات خرچ کرنے کی ضرورت نہ تھی ، یہ منٹوصاحب جانتے تھے۔ اُنہیں بتانا تھا کہ جس سوسائٹی میں ہم رہتے ہیں اس میں مسعود جیسے نوجوانوں کو جنسی تعلیم گھر سے نہیں مل سکتی تھی، انہوں نے کلیدی کردار کو اُس کی اَپنی ماں کے پاس بٹھایا اور معصومیت سے بکرے کے ننگے گوشت سے اُٹھتے دھوئیں والا منظربتانے دِیا ۔ ہم افسانے میں پڑھتے ہیں کہ اپنے ہی بیٹے کے جسم سے اُٹھتے دھوئیں سے بے خبر ماں اُٹھ کر باہر نکل گئی تھی ۔ اسے اپنے باپ سے اس بابت کچھ پوچھنے کا حوصلہ نہ تھا جو ایک جنازہ میں شرکت کے بعد گھر پہنچا تھا ۔ لہذا کچھ اس نے براہ راست کلثوم سے سیکھا ، کچھ کلثوم اور اس کی سہیلی کے عملی مظاہرے سے ، کچھ باپ سے جو ایک موت جنازے سے آنے کے بعد اس کی ماں سے سر دبوانے کی خواہش میں کمرے میں گھس گیا تھا ۔ یہ سب ضمنی کردار تھے اور حسب ضرورت آئے ۔ اور ہاں، منٹو کا یہ موضوع تھا ہی نہیں کہ آغاز عمر میں اکثر لوگ ہم جنسی کی طرف ایک کشش محسوس کرتے ہیں؛بملا اور کلثوم کے ’’اختلاط ظاہری‘‘ کا جھپاکا تو ایسے ہی تھا جیسے بے کھال بکرے کا لرزتا ہوا گوشت، راہگیروں کے مونہوں سے اُٹھتا ہوا دھواں، اماں ابا کا اپنے کمرے میں گھس جانا یا کلثوم کااُس سے کمر دبوانا ۔ ہم جانتے ہیں کہ ضمنی کرداروں کو تفصیل سے لکھنے یا ان ثانوی کرداروں کو ضرورت سے زیادہ قائم کر دینے سے مرکزی کردار دھند لاجایا کرتا ہے اور اچھی بھلی کہانی بر باد ہو جاتی ہے۔ منٹو صاحب بھی یہ جانتے تھے ، لہذا اُنہوں نے اپنی کہانی کو برباد ہونے سے بچا لیا ۔
اسی حصہ میں آپ نے منٹو صاحب کے افسانہ ’’بارش‘‘ پر بھی بات کی ہے جس سے میں ایک حد تک متفق ہوں ۔
..........
منٹو صاحب کے تیرہ شاہکار افسانے
گفتار پنجم میں آپ نے میلو ڈارما پر بات کی اوہنری اور موپاساں کے افسانے ملخص کیے ۔ یہ سب بہت علمی باتیں ہیں اور ان سے بہت کچھ سیکھا جاسکتا ہے ۔چوں کہ مجھے تاہنگ آپ کے منٹو اور اس کے افسانوں کے بارہ میں خیالات کو جاننے کی رہی ، لہذا ان صفحات سے فی الحال تیزی سے گزر جاتا ہوں۔ یہیں آپ نے منٹو کے ایسے تیرہ افسانوں کی فہرست بنائی ہے جو قدرے طویل ہیں اور جن کے بارے میں آپ کا کہنا ہے کہ یہ سارے نہیں تو ان میں سے اکثر شاہکار تسلیم کیے جاتے ہیں ۔ نو صفحات سے زیادہ اور پندرہ سے بیس صفحات والے افسانوں کی بنائی ہوئی آپ کی فہرست یہاں نقل کر رہا ہوں تاکہ ہم آگے چل کر جان سکیں کہ ان افسانوں کا تجزیہ کرتے ہوئے آپ ان ’’شاہکار افسانوں‘‘ سے کیا اخذ کرتے ہیں ۔
’’۱۔ موذیل
۲۔ بابو گوپی ناتھ
۳۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ
۴۔ ہتک
۵۔ جانکی
۶۔ بادشاہت کا خاتمہ
۷ ۔ میرا نام رادھا ہے
۸۔ پھندنے
۹۔ خوشیا
۱۰۔ نیا قانون
۱۱۔ شاردا
۱۲۔ کالی شلوار
۱۳ ۔ لتیکا رانی‘‘
(گفتار پنجم : ص ۲۸)
..........
’’سرکنڈوں کے پیچھے‘‘:لاحول ولا قوۃ
محترم فاروقی صاحب! آپ نے یہیں بیدی صاحب کی نثر ،وارث علوی کی تنقید اور ممتاز شیریں کے خیالات پر باتیں کیں اور خوب پُرلطف باتیں کیں مگر مجھے تو منٹو صاحب اور اُن کے افسانے پر راست آپ کے خیالات جاننا تھے؛ سیدھا وہاں پہنچتا ہوں، جہاں آپ نے منٹو صاحب کے افسانہ ’’سرکنڈوں کے پیچھے‘‘ پر بات کی ہے۔جی وہاں، جہاں آپ نے ’’لاحول ولا قوۃ‘‘ پڑھ کر کہا ہے، اسے میلو ڈراما اور سنسنی خیزی کی بہ جائے سرا سر گھناؤنا خوف انگیز افسانہ ، یعنی Horror Story قرار دیا جائے ۔ واقعی یہ افسانہ منٹو صاحب نے کسی تیاری کے بغیر لکھا تب ہی تو اس کا بیانیہ سست، پھسپھسا اور کہانی میں سو طرح کے رَخنے ہیں ۔ آپ کی طرح مجھے بھی یہ افسانہ اچھا نہیں لگا بل کہ میں تو اِسے منٹوصاحب کے کمزور ترین افسانوں میں سے ایک سمجھتا ہوں(اور ایسا ممکن بھی نہیں ہے کہ سب افسانے اعلیٰ درجے کے ہوتے) ۔ اچھا ، جیسا کہ آپ نے تجویز کیا(ص ۳۱)؛اگر منٹو صاحب کہانی کے اِسی مواد کے ساتھ، رقابت کی بنا پر ہیبت خان کو شاہینہ کے ہاتھوں قتل کروا بھی دیتے تو بھی یہ کہانی اتنی ہی ناکام رہتی(ص:۴۵) ۔منٹو صاحب نے سرکنڈوں کے پیچھے چھپے ہوئے گھر میں دھندا کرنے والی سردار اور اس کی بیٹی (یا وہ جو بھی اس کی تھی )نواب کے کردار اگرچہ جان دار بنائے ہیں مگر ان کے بارے میں جو کچھ بتایا ہے ، اس پر بہ سہولت اعتبار ممکن نہیں ۔ مثلاً نواب اور سردار کا اپنے گاہکوں کے سوا، کسی بھی قریبی آبادی اور اس کے مکینوں سے کوئی رابطہ نہ ہونا؛ جب کہ گھرداری چلانے کے لیے سودا سلف لانا اور ایک جوان لڑکی کا ضد کرکے کچھ اور مقامات دیکھنے کی خواہش رکھنا اور وہاں سے اثرات لینا وغیرہ جیسے امکانات کو نظر اَنداز نہیں کیا جا سکتا۔ مگر یہاں ایسا ہوا ہے اور جس بے دردی سے ہوا ہے ،اُس کی ضرورت نہ تھی ۔ اچھا، جس طرح شاہینہ نے نواب کا خون کیا اورسردار کو خبر ہی نہ ہوئی؛ گھر میں ایک عورت مہمان ہے، گھروالی لاکھ باورچی خانے میں مصروف سہی ، کیا اُس طرف اس کا دھیان بالکل نہیں رہے گا؟ منٹو صاحب نے سردار کو باورچی خانے میں داخل کرکے اُس کا باقی گھر سے یوں رابطہ منقطع کردیا جس طرح سرکنڈے والے گھر اور اس کے مکینوں کا قریبی بستی اور اس کے مکینوں سے رابطہ کٹا ہوا تھا۔ یہ بیان بھی لائق اعتبار نہیں رہتا کہ سردار کے گھر ہی میں اسی کی نواب کو قتل کرکے اس کی بوٹیاں پکانے کے لیے پیش کی جا ئیں اور وہ بالکل نہ چونکے۔ یادرہے منٹو صاحب نے پہلے ہی اس بات کا التزام متن میں رَکھ چھوڑا ہے کہ گھر میں پکانے کو گوشت نہیں ہے اور سرکنڈوں کے پیچھے والا یہ گھر آبادی سے کٹا ہوا ہے:
’’اُس عورت [شاہینہ]کی ٹانگ ہلنا بند ہوئی اور وہ سردار سے مخاطب ہوئی:’’ہم آئے ہیں۔ کھانے پینے کا بندوبست کرو۔‘‘
سردار نے سر تا پا مہمان نواز بن کر کہا :’’جو تم کہو، ابھی تیار ہو جائے گا۔‘‘[۔۔۔۔۔۔]۔
[شاہینہ نے] سردار سے کہا:’’تو چلو باورچی خانے میں، چولہا سلگاؤ؛ بڑی دیگچی ہے گھر میں؟‘‘
’’ہے!‘‘ سردار نے اپنا وزنی سر ہلایا۔
’’تو جاؤ اس کو دھو کر صاف کرو ۔ [۔۔۔۔]۔
سردار نے معذرت بھرے لہجے میں اُس سے کہا:’’گوشت وغیرہ تو یہاں نہیں ملے گا‘‘[۔۔۔۔]۔
’’مل جائے گا۔ تم سے جو کہا ہے، وہ کرو۔۔۔اور دیکھو آگ کافی ہو۔‘‘
)افسانہ:’’سرکنڈوں کے پیچھے‘‘(
گھر میں گوشت تھا نہیں،اور شاہینہ بڑی دیگچی اور بہت سی آگ کا مطالبہ کر رہی تھی ۔ چلو مان لیا شاہینہ قتل کرنے اور لاش کے’’ بہترین حصے‘‘ کی بوٹیاں بنانے میں طاق ہوگی مگر کچھ تو وقت لگا ہوگا اس قتل میں۔ یہ بھی مان لیا کہ سردار افیونی تھی مگر باورچی خانے میں تو اس نے افیون کی گولی نہیں نگل رکھی تھی وغیرہ وغیرہ ؛ تو یوں ہے صاحب کہ میں آپ ہی کی زبان سے بے ساختہ نکلا ہوا ’’لاحول ولا قوۃ‘‘ دہرا دیتا ہوں اور آگے چلتا ہوں۔
..........
’’قیمے کے بجائے بوٹیاں‘‘:افسانہ نہیں شرارت
منٹو صاحب کی بلا نوشی اور عجلت نویسی کی کچھ اور گواہیاں بہم کرنے، اور ممتاز شیریں کے اس افسانے کے بارے میں نقطہ نظر پر تنقید وغیرہ (اس وغیرہ میں، میں اس زور دارجملے کو بھی شامل سمجھتا ہوں ’’بے چاری ہلاکت/ شاہینہ، تو لیڈی میکبتھ کے دروازے پرجھاڑو لگانے کے بھی لائق نہیں ہے‘‘ ) اور وارث علوی کے سہو کی نشان دہی سے گزرتا صفحہ ۴۵ پر پہنچتا ہوں؛ وہیں جہاں آپ نے منٹو صاحب کے ایک اور افسانے’’قیمے کے بجائے بوٹیاں‘‘ کو ’’سرکنڈوں کے پیچھے‘‘ کا عکس قرار دیا ہے۔آپ نے خیال ظاہر کیا کہ منٹو نے شرارتاً یہ افسانہ لکھ دیا ہوگا ؛جی، میں بھی یہی سمجھتا ہوں، ایک ایسا فراڈ افسانہ جس کا راوی کردار سعادت حسن منٹو ہے۔ اور یہ ایسا راوی ہے کہ شرارت پر اترے تو گوشت کے بڑے لوتھڑے کے ساتھ انسانی بانہوں کو خود تو شناخت کرکے اپنا جی متلا سکتا ہے مگر مکان کے باہر دھڑا دھڑ بوٹیاں کاٹنے والے قصابوں کوخبر تک نہیں ہونے دیتا کہ وہ کس کے جسم کی بوٹیاں بنا رہے ہیں ۔ کیا ایک بار پھر یہ مقام ’’لاحول ولا قوۃ‘‘ پڑھنے کا نہیں ہے۔
محترم فاروقی صاحب! (گفتار ششم،کے تحت اگر کوئی تحریر لکھی گئی تھی ، تو وہ آپ کی کتاب میں شامل نہیں ہے ، کہ گفتار پنجم کے ختم کرتے ہی ہم گفتار ہشتم پر پہنچ جاتے ہیں)آپ نے’’ گفتار ہشتم‘‘ میں بہ جا فرمایا ہے کہ’’سرکنڈوں کے پیچھے‘‘، اور اس طرح کے کچھ افسانوں میں منٹو صاحب نے قاری کے بارے میں ایک طرح کی عدم دلچسپی کا ثبوت دیا ہے‘‘(گفتارہشتم : ص۴۷)۔ کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ منٹو صاحب کو پڑھنے والوں اور اس کے فن کو سراہنے والوں نے ایسے افسانوں کو لائق اعتنا نہیں جانا ہے۔ میرا خیال ہے ہماری تنقید کے حافظے سے بھی ایسے افسانوں کو محو ہونا چاہیے کہ تنقید کامقصد ناکام فن پاروں پر اپنا وقت ضائع کرنے کی بجائے،بہترین کو زیر بحث لانا ہوتا ہے ۔ افسانہ ’’مائی جنتے‘‘ کا آپ سرسری ذکر کرکے آگے نکل گئے(گفتار ہشتم : ص ۴۷)۔اچھا کیا ۔ منٹو صاحب کے ناکام افسانے اب تک آپ کو بہت اُلجھا چکے ؛ یہ الگ بات ، ان ناکام افسانوں پر بات کرتے ہوئے بھی آپ بہت ساری کام کی باتیں کر گئے ہیں۔ یہ بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ اس طرح آپ کے علم کا فائدہ ہم سب کو ہوا۔
گفتار نہم کے آغاز میں آپ نے بہ جا طور پر کہا ہے کہ:
’’[بعض افسانوں میں] منٹو کی زبان بہت رواں اور اکثر جگہ غیر معمولی بلندیوں کو چھو لیتی تھی اور افسانے کے لیے موضوع وہ ہمیشہ اتنا تازہ ، اتنا نپا تلااور کسا ہوا ڈھونڈ لاتے تھے کہ داد دیتے ہی بنتی تھی‘‘
)گفتار نہم : ص۴۹(
تاہم ابھی تک ایسے افسانوں اور ان میں زبان کی غیر معمولی بلندیوں کو آپ کی جانب سے نشان زد ہونا باقی ہے ۔
..........
’’ننگی آوازیں ‘‘: انجام بھرپور ہے
’’ننگی آوازیں‘‘ ایسا افسانہ نہیں کہا جاسکتا، جس میں اُن خواص کو تلاش کیا جاسکے ، جو منٹو صاحب کو آپ کے نزدیک لائق اعتنا بناتے ہیں تاہم اس افسانے کا مطالعہ بھی آپ کے ہاں توجہ سے ملتا ہے۔ جی ، یہ ایسا افسانہ ہے جس میں بہ قول آپ کے منٹو صاحب نے اپنے ’’سب ٹریڈ مارک‘‘ داخل کر دیے تھے ۔اچھا جہاں تک آپ نے اس افسانے کو خوب کہا ہے اگرچہ میں نہیں سمجھتا وہاں بھی اس کا بیانیہ کسی بلندی کو چھوتا ہے تاہم یہ رواں دواں ہے۔ گرمی کے موسم میں کھلی چھت پر مردوں اور عورتوں کا سونا اور وہ بھی ایسے عالم میں ، کہ ٹاٹ کا پردہ ادھر ادھر تان لیا جائے۔ایسی ’’کھلی خواب گاہوں ‘‘ میں لوگوں کا اپنی کھاٹوں پر کروٹ بدلنا، کھانسنااور سرگوشیاں کرنا،لذیذ تصویروں میں ڈھلتا ہے ۔ افسانے کا کلیدی کردار بھولو انہی لذیذ آوازوں کو سن کر شادی پر مصر ہوا تھا۔ پھر جب دلہن آگئی اورآدھی رات گزرنے کے بعد گرمی سے تنگ آکر وہ دلہن کو لیے چھت پر پہنچا تو اسے لگا تھا ؛چاروں طرف جو نیند بکھری ہوئی تھی چونک کر جاگ اُٹھی ہے۔ ادھر ادھر کی سرگوشیوں اور چارپائیوں کی’’ چرچوں‘‘ نے اسے یخ کر دیا تھا ۔ بیوی گٹھڑی بنی پرے پڑی رہی اور وہ آوازوں کے خوف سے دم سادھ کر پڑا رہا کہ جس طرح وہ آوازوں سے تصویر بنا لیا کرتا تھا، وہ سوچتا؛ دوسرے بھی تو ویسی تصویریں بنا سکتے تھے۔ کھسر پھسر ، چرچوں چرچوں، کھانسنے کھنگارنے ، دبی دبی ہنسی اور اس طرح کی دوسری آوازیں جو ٹاٹ کے پرووں کے پیچھے سے آتی تھیں ؛ سب کو ننگا کر دیتی تھیں ۔ صبح بھولو کی دلہن میکے چلی گئی ۔ پانچ روز بعد آئی تو راتوں کو پھر بھولو انہی لذیذ آوازوں سے پسپا ہو کردم سادھے پڑا رہتا۔ بھولو کی بیوی عائشہ ایک بار پھر میکے میں تھی اور یہیں ایک بات، جی صرف ایک بات بھولو کے کان میں پڑتی ہے اور اس کا دماغ الٹ جاتا ہے۔
میرے محترم فاروقی صاحب ،میں نے آپ کی تحریر سے اندازہ لگایا ہے کہ یہاں تک آپ کو افسانہ پسند آیا۔ آپ نے اس کے مرکزی خیال کوانتہائی تازہ اور انسانی صورت حال کی جیتی جاگتی تصویر قرار دیا ۔ اچھا اسے بھی آپ نے قبول کر لیا کہ ’’جب یہ خبر اُڑتی ہے کہ وہ نویلا دولہا بھولو اپنی دلہن کی طرف اس لیے راغب نہیں ہوتا کہ وہ عنین ہے۔۔۔ تو اس[بھولو] کے دل میں چھری سی پیوست ہوگئی (گفتارنہم : ص ۴۹)‘‘ اوہ میں یہاں رُک رہا ہوں کہ منٹو صاحب نے لفظ ’’عنین‘‘ اِستعمال نہیں کیا تھا ۔منٹو صاحب کا بیانیہ بہت رواں رہا اور انہوں بڑے ڈھنگ سے بات کی تھی ، لہذا مجھے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ بہتر تفہیم کے لیے ہم منٹو کے اپنے لغت کی طرف دیکھیں ۔ افسانے سے مقتبس کر رہا ہوں:
’’ بھولو اُٹھ کر کوارٹر کے باہر چلا گیا ۔ چارپائی پڑی تھی اس پر بیٹھ گیا۔ اندر سے اُس کو اپنی بھابی کی آواز سنائی دی ۔ وہ [اپنے شوہر]گاما سے کہہ رہی تھی ’’تم جو کہتے ہو نا کہ بھولو کو عائشہ پسند نہیں آئی ،غلط ہے۔‘‘
گاما کی آواز آئی’’ تو اور کیا بات ہے۔بھولو کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں ۔‘‘
’’دلچسپی کیا ہو۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
گاما کی بیوی کا جواب بھولو نہ سن سکا مگر اس کے باوجود اُس کو محسوس ہوا کہ اس کی ساری ہستی کسی ہاون میں ڈال کر کوٹ دی ہے۔ ایک دم گاما اونچی آواز میں بولا ۔
’’نہیں نہیں ۔۔۔یہ تم سے کس نے کہا۔‘‘
گاما کی بیوی بولی۔ ’’عائشہ نے اپنی کسی سہیلی سے ذکر کیا۔ بات اُڑتی اُڑتی مجھ تک پہنچ گئی۔‘‘
)افسانہ:’’ننگی آوازیں‘‘(
یہاں افسانے سے اقتباس ختم کرتا ہوں کہ اسی میں بھولو کے دماغی توازن کے بگڑنے کا سامان جواز موجود ہے اور کوٹھوں پر چڑھ کر ٹاٹ اکھیڑنے کا بھی ۔ پھر جب کلن نے بانس اٹھا کر بھولو کے سر پر دے مارا تھا تو چکرا کر گرنے، بے ہوش ہونے اور مکمل پاگل ہوکر الف ننگا بازاروں میں گھومتے پھرتے ہر تنے ہوئے ٹاٹ کو اتار کر ٹکڑے ٹکڑے کرنا بھی قابل یقین ہو جاتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں،بھابی کی زبان سے ، اپنی دلہن کی کہی گئی بات سن کر ’’دماغی توازن کے بگڑنے ‘‘اور چوٹ کھا کر ’’دماغ کے چلنے‘‘ میں یہی فرق تھا جو منٹوصاحب نے ، میر کی سی زبان نہ لکھنے کے سبب، سادگی سے بیان کردیا تھا۔ ایک اقتباس آپ کے تجزیے سے:
’’لیکن خدایا یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں۔؟ انھیں تو ایسی ہی چھت پر ٹاٹ کے پردوں کا کانا پردہ کرکے اپنی بیویوں کے ساتھ سونا پڑتا ہے ۔غور کرو، کس قدر قوت مند موضوع تھا لیکن منٹو صاحب کو افسانہ ختم کرنے کی بے حساب جلدی تھی ۔ انھوں نے انجام ایسا سوچ لیا جو دھچکا پہنچائے اور یاد رہ جائے۔ باقی رہی یہ بات کہ انھوں نے انجام کو وقوع پذیر کرنے کے لیے کچھ تیاری کی ہے؟‘‘
)گفتارنہم : ص۔۵۰(
جی ، اس کا خود افسانہ جواب دے رہا ہے کہ منٹو صاحب نے انجام کو وقوع پذیر کرنے کے لیے اس موضوع کی مناسبت سے خوب تیاری کی تھی ۔ افسانہ وہیں ختم ہوا جہاں اسے ختم ہونا چاہیے تھا۔ یہ تو آپ نے مانا کہ موضوع قوت بخش تھا ۔ افسانے نے جیسی اٹھان پکڑی وہ بھی آپ کو پسند آئی ۔ اس کا انجام بھی، بہ قول آپ کے ؛منٹو صاحب نے ایسا چنا ہے، کہ وہ یاد رہ جاتا ہے اور اگر افسانے کا مقتبس ہونے والا ٹکڑا سامنے رکھا جائے تواس افسانے کا انجام بھی بھرپور تیاری والا لگتا ہے جو افسانے کو قابل توجہ بنا دیتا ہے ۔
..........
’’پڑھیے کلمہ‘‘: فسادات کا بہترین افسانہ؟
منٹو صاحب کے افسانے’’پڑھیے کلمہ‘‘ پر آپ نے بات کی، اِسے پہلے جملے میں ’’سنسنی خیز‘‘کہا اور کچھ آگے چل کر یہ بھی کہہ دیا:
’’کئی لحاظ سے اسے ’’سرکنڈوں کے پیچھے‘‘ کا تتمہ کہا جا سکتا ہے۔یہاں بھی عورت بڑی جابر ہے اور جرم انگیز معلوم ہوتی ہے۔ لیکن افسانہ میلو ڈرامہ نہیں ، سنسنی خیز نہیں ، کیوں کہ اس کے سب تار مضبوط جڑے ہوئے ہیں‘‘
)گفتارنہم : ص ۵۰(
میلوڈرامہ کیا ہوتا ہے؛ یہ آپ تفصیل سے پہلے ہی بتا چکے تھے ، لہذا اس وضاحت میں نہ پڑنا اچھا لگا کہ ’’پڑھیے کلمہ‘‘ میلوڈرامہ کیوں نہیں ہے؟تاہم اس افسانے کو پہلے آپ نے ’’ سنسنی خیز‘‘بتایا جو آگے چل کرآپ کے لیے ’’سنسنی خیز‘‘ نہیں رہتا تو بات سمجھ میں نہیں آتی؛ اُلجھن ہوتی ہے۔جی ہاں ‘ اِس سے اتفاق کیا جانا چاہیے کہ یہ افسانہ منٹو صاحب نے ’’سرکنڈوں کے پیچھے‘‘ کا بہ طور تتمہ لکھا ہے۔’’ قیمے کی بجائے بوٹیاں‘‘، ’’سرکنڈوں کے پیچھے‘‘’’پڑھیے کلمہ‘‘ اور ’’ٹھنڈا گوشت‘‘ جیسے افسانے جن کرداروں کو نمایاں کرتے ہیں اُن میں بے پناہ جنسی طلب بھی مل جائے گی سفاک ہوکر قتل تک کرڈالنا بھی ؛ گویا کہا جا سکتا ہے کہ یہ سب لگ بھگ ایک سی ذہنی ساخت رکھنے والوں کی کرداری کہانیاں ہیں ۔ خیر ، یہ تو میں اپنی طرف سے کہنے لگا ہوں جب کہ مجھے یہ جاننا ہے کہ منٹوصاحب کا یہ افسانہ آپ کے ہاں کیا معنی پاتا ہے؛ اس پر آپ نے تفصیل سے لکھا ہے ۔حتی کہ آپ نے یہاں تک کہہ دیا ہے :
’’کھول دو‘‘،’’ٹھنڈا گوشت‘‘ وغیرہ کے زورمیں ہم اس افسانے کو بھول گئے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ تقسیم کے فسادات پر ’’پڑھیے کلمہ‘‘ سے بہتر افسانہ نہیں لکھا گیا۔‘‘
)گفتارنہم : ص۵۱(
محترم فاروقی صاحب !مجھے اجازت دیجئے کہ میں اس باب میں آپ سے اختلاف کر سکوں ۔ آپ نے فرمایا ہے’’ اس[افسانے] کے سب تار مضبوط جڑے ہوئے ہیں۔‘‘ تو کیا اس سے یہ سمجھا جائے کہ آپ کے نزدیک یہ ایک انتہائی کامیاب افسانہ رہا ؛بیانیے اور واقعاتی ترتیب کے اعتبار سے ؟ مگر میں تو اس باب میں اُلجھا ہوں ۔ یہ ایک جھوٹے کلمہ گوخونی کا افسانہ ہے، اورعبدالکریم/ عبدل ایسے کرداروں کا ہونا بعید از قیاس نہیں ہے۔ مردوں سے اپنے بدن کی مالش کروانے والی، سولہ نمبر کھولی کی مکین رکما بائی جیسی عورتوں کے بارے میں بھی گمان باندھا جاسکتا ہے اور لکڑی کے کھلونے بیچنے والے گردھاری جیسے مرد بھی ہماری سوسائٹی کا حصہ ہیں، جو خود بھی لکڑی کی طرح کاٹ دیے جاتے ہیں۔ میری اُلجھن تو رکما بائی کی لاش کے حوالے سے ہے۔جی، منٹو صاحب نے عبدل کے اقبالی بیان کو کہانی کا بیانیہ بنایا اور اس سے کہلوایا تھا کہ:
’’ایک دم میرے اَندر مقابلے کی بے پناہ طاقت آگئی ۔ بلکہ میں نے ارادہ کر لیا کہ رکما کے ٹکڑے ٹکڑے کردوں گا۔غسل خانے سے باہر نکلا تو دیکھا کہ وہ بڑی کھڑکی کے پٹ کھولے باہر جھانک رہی ہے۔ میں ایک دم لپکا۔ چوتڑوں پر سے اوپر اُٹھایا اور باہر دھکیل دیا۔ ‘‘
)افسانہ:’’پڑھیے کلمہ‘‘(
بس اس کے بعد لاش غائب ہوگئی تھی ۔ عبدل کے لیے لاش کا غیاب ممکن ہے مگر اس کا افسانے کے قاری کے لیے غائب ہو جانا،اِس کی کمزوری بن گیا ہے۔ منٹوصاحب کے لیے مشکل یہ ہو گئی تھی کہ اُنہوں نے راوی کردار کے اقبالی بیان پر تکیہ کیا ۔کہانی کے پلاٹ کے مطابق یہاں رکما کی لاش کوغائب ہونا تھا، بالکل ویسے ہی جیسے گردھاری کی ٹکڑے ٹکڑے کی گئی اور مسجد میں پھینکی گئی لاش غیب ہو گئی تھی ۔ گردھاری کی لاش کا ہندوؤں کے ہاتھوں مسجد جلنے پر جل جانے کے باعث نہ ملنا سمجھ میں آتا ہے کہ اس کا التزام افسانے میں رکھ دیا گیا ہے مگر رکماجسے گلی میں گرایا گیا تھا ، اور گرانے والے نے دَھپ کی آواز بھی سنی تھی کہا ں گئی ؟ اچھا مان لیتے ہیں کہ منٹو صاحب کا منشا یہی تھا کہ عبدل کو یہ معلوم نہیں ہونا چاہیے ۔ بہ جا ، مگر قاری سے اُن کا کیا پردہ تھا؛ وہ ایسا قرینہ رَکھ سکتے تھے کہ افسانے کے کسی کردار کو کچھ خبر نہ ہو اور قاری یہ راز جان لے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس افسانے میں راوی کے نادرست انتخاب نے منٹو صاحب کو اس باب میں بے بس کر دیا ہوگا۔انسپکٹر صاحب کے سامنے ایک اقبالی بیان سے یہ راز افسانے کے قاری پر نہیں کھل سکتا تھا لہذادبدا کر منٹو صاحب نے رکما کی لاش کوافسانے کے قاری کے لیے بھی غائب ہی رہنے دیا ۔
ایک اور تماشا دیکھے۔ ہمیں ذہن میں حاضر رکھنا ہوگا کہ کچھ دیر پہلے ؛ یعنی رکما کے کھڑکی سے گرائے جانے سے پہلے، لیکن اس کے بعد کہ جب رکما نے عبدل کی گردن کو تار والی رسی میں جکڑ کر مارنا چاہا تھا مگر وہ بچ نکلا، ایک ایسا واقعہ ہوا کہ پڑوسی بھاگتے آئے تھے۔ جی افسانے میں بتایا گیا ہے کہ عبدل جب ہوش آنے پر اُٹھ بیٹھا تھا تو رکما کے نئے عاشق تکارام( جس نے عبدل کے قتل کی کامیابی پر اس کی لاش ٹھکانے لگانی تھی ) کی چیخ نکل گئی اور وہ دروازہ کھول کر بھاگ گیا تھا ۔ اس چیخ کو سن کر پڑوسی بھاگتے ہوئے آئے تھے ۔ حیرت ہے جب گردھاری کی لاش کے تین ٹکڑے کیے گئے اور افسانے کے متن کے مطابق ؛ ’’ٹھک ٹھک کافی ہوئی تھی‘‘ تو یہ پڑوسی کیوں نہ آئے۔ چلیے ہم منٹو صاحب کی تاویل مان لیتے ہیں؛چوں کہ گردھاری لکڑی کے کھلونے بنانے کا کام کرتا تھا اور اس ٹھک ٹھک سے سمجھا گیا ہوگا کہ وہ کھلونے بنا رہا ہوگا مگر تکارام کی چیخ کو انہوں نے جب رکما کی چیخ بنا دیا تو یہی پڑوسی کیسے مطمئن ہوگئے تھے۔ چلیے مان لیتے ہیں کہ خوف میں مرد اور عورت کی آواز بگڑ کر بدل جاتی ہوگی، مگر کیا اتنی بدل جاتی ہے کہ تمیز ہی نہ کی جاسکے ۔ تکارام کی چیخ کی بابت منٹو صاحب نے رکما کی زبانی متن میں یہ حیلہ رَکھ دِیا ہے کہ وہ سوتے میں چلنے کی عادی تھی ، ایسے میں دیوار سے ٹکرائی اورڈر کر اُس کی چیخ نکل گئی تھی ۔ افسانے کا متن کہتا ہے ’’پڑوس کے آدمی یہ سن کر چلے گئے تھے ۔ ‘‘ ہم کیسے یقین کر لیں کہ نیند میں چلتے ہوئے دیوار سے ٹکرا جانے سے بوکھلاہٹ میں/ڈرکر جو چیخ نکلتی ہے ، ایک شخص جسے قتل کیا جا چکا ہو وہ یکایک اُٹھ بیٹھے تو دہشت کے مارے حلقوم سے جو چیخ نکلتی ہے؛ دونوں ایک سی ہوتی ہیں۔ پھر اس کا کیا کریں کہ رکما کھڑکی سے گرائی گئی تھی، جی وہ تیسری منزل سے گرائی گئی تھی ۔ تیسری منزل سے زمین تک کا فاصلہ اتنا ہوتا ہے کہ دہشت کے مارے چیخ نکلے اور اسے گرنے سے پہلے حلقوم فضا میں اُچھال دے‘ مگررکما کی کوئی چیخ نہ نکلی تھی ؛ اگر نکلی بھی تھی تو پڑوسیوں کو سنائی نہ دی۔ منٹو صاحب نے چوں کہ یہاں رکما کی چیخ کا ذِکر نہیں کیا، رکما کے دَھپ سے گرنے کا ذکر کیا ہے؛ تواس چیخ کو ہم بھی ایک طرف رکھ دیتے ہیں۔ کہیے، بلندی سے گرائی جانے والی رکما کے زمین پر زور سے ٹکرانے سے جو ’’دھپ‘‘ منٹو صاحب نے تیسری منزل میں کھڑکی کے پاس موجود عبدل کو سنوا دی تھی، پڑوسیوں نے اسے کیوں نہیں سنا۔ حیرت ہے فاروقی صاحب! کہ اتنے بڑے رخنے آپ کی نظروں سے اوجھل رہے ؛ اور اگرنگاہ میں تھے تو انہیں نشان زد کیوں نہ کیا ؟ اور اس نتیجہ پر کیسے پہنچ گئے کہ’’ اس[افسانے] کے سب تار مضبوط جڑے ہوئے ہیں‘‘
بے شک عسکری صاحب نے ، اور آپ نے فسادات کے فارمولا افسانوں کے جو اجزائے ترکیبی بتائے ہیں ویسا ہی دیکھنے پڑھنے میں آتا رہا ہے مگر واقعہ یہ ہے کہ منٹو صاحب کے بارے میں ایسا کوئی فارمولا کام کرتا دکھائی نہیں دیتا حتیٰ کہ ان افسانوں میں بھی نہیں (’’کھول دو‘‘،’’ٹھنڈا گوشت‘‘ وغیرہ ) جن کے مقابلے میں آپ نے ’’پڑھیے کلمہ ‘‘ جیسے کمزور افسانے کو رکھ کر بہت سراہا ہے۔ اب رہی آپ کی یہ بات کہ،یہ افسانہ تقسیم کے فسادات پر لکھا گیا ہے۔ اس ضمن میں میرا کہنا ہے : جی نہیں، یہ فسادات پر نہیں، فسادات کے زمانے میں لکھا گیا ہے ۔ سفاک قاتل اور نام کا مسلمان عبدل، جو’’پڑھیے کلمہ‘‘ کو محض تکیہ کلام کے طور پر استعمال کرتاتھا، جس نے ہندو مسلم فسادات میں تین ہندو مارے تھے ۔ جو قرآن کی قسمیں کھا کر جھوٹ بولتا تھا ؛ مگر محض ان کمزور نشانیوں سے اسے ’’تقسیم کے فسادات ‘‘ کا ’’ بہترین افسانہ‘‘ کیسے قرار دیا جا سکتا ہے جب کہ ہم صاف دیکھتے ہیں فسادات کا بیانیہ الگ پڑا ہے اور کہانی رکمابائی اور اس کے عاشقوں کے بیچ چل رہی ہے ۔ اب تو یہ ایسے قاتل کا افسانہ ضرور ہے جس نے تقسیم کے زمانے میں مارا ماری کی تھی۔ یہ تو ایسے مسلمان کا افسانہ بھی نہیں کہا جاسکتا ہے جس کا مذہب کبھی مسئلہ بنا ہو ؛ افسانے کے نام ’’کلمہ پڑھیے ‘‘ کو چونکانے کے لیے منٹوصاحب نے استعمال کیا تھااور بس۔ باقی کی کہانی تو رکما بائی ،گردھاری، تکارام اور عبدل کی کہانی ہے ؛ تقسیم کے زمانے کی کہانی ، جب کرفیو لگا ، مسجد جلنے کا واقعہ ہوا، گردھاری کی لاش اس میں جل گئی ۔ فسادات کے زمانے میں فسادات سے کٹی ہوئی کہانی کا موازنہ ’’کھول دو‘‘ اور’’ٹھنڈا گوشت‘‘ جیسے افسانوں سے بنتا ہی نہیں ہے ۔
..........
ناکام اور سنسنی خیز افسانے
ناکام اور سنسنی خیز افسانوں کی ذیل میں آپ نے ’’اولاد‘‘ اور’’خالد میاں‘‘ کو بھی رکھا ہے۔ یہ دونوں افسانے بالعموم منٹو صاحب کے بڑے اور کامیاب افسانوں میں شمار نہیں کیے جاتے ؛ تاہم فاروقی صاحب ، آپ نے ان ناکام افسانوں کو بھی کچھ دوسرے کمزور افسانوں کی طرح بھرپور توجہ دی ہے۔کچھ ایسا ہی معاملہ ’’بادشاہت کا خاتمہ‘‘ کا ہے جس پر کچھ لکھنے کے لیے آپ کو بہت تردد کرنا پڑا آپ کی کئی باتوں نے میرے علم میں اضافہ کیا مگر منٹو کی اس عظمت کی دلیلیں چوں کہ ’’گفتار نہم‘‘ کا بھی حصہ نہ بن سکی تھیں لہذ ا آپ کے اس جملہ کے معنی بھی کھل نہ پائے ۔
’’ مجھے میر کے سوا کوئی شخص اردو ادب میں دکھائی نہیں دیتا کہ جسے میں منٹو کے مقابل رکھ سکوں‘‘
)گفتارنہم : ص۶۲(
فاروقی صاحب ،آپ تنقیدی جملہ خوب لکھتے ہیں ۔’’گفتار دہم‘‘ کے شروع ہوتے ہی ، میں ان جملوں کا لطف لیتا رہا :
’’انھیں[منٹوکو] لکھنے اور بیچنے کی بہت جلدی رہتی تھی ، خواہ افسانہ کمزور ہی نکل جائے۔‘‘
)گفتاردہم : ص ۶۳(
’’ مشکل یہ تھی کہ وہ اپنی شہرت(بدنامی) کے قیدی ہو گئے تھے۔
)گفتاردہم : ص ۶۳(
’’منٹو کو یاروں نے گھیر گھار کر فحش نگار بنا دیا تو وہ بھی اپنے بارے میں یقین کرنے لگے کہ میں فحاش ہوں۔‘‘
)گفتاردہم : ص ۶۳(
..........
منٹو، میر اور شیکسپیئر:ایک زنجیر تین کڑیاں
آخر کار منٹو صاحب کے ایسے افسانوں کی باری آ ہی گئی تھی جن کے بارے میں ، مجھے فاروقی صاحب، آپ کے خیالات بہ طور خاص سننے کی تاہنگ تھی یعنی ’’ٹھنڈا گوشت‘‘،’’کھول دو‘‘، اور’’ بو‘‘۔ آپ نے ’’کھول دو‘‘ کو جن بنیادوں پر رد کیا وہ میں نے پہلے ہی ہلے میں نہیں مانی تھیں؛ جی، تب کہ جب اس کا ایک اقتباس اشعر نجمی نے اپنی ’’فیس بُک وال‘‘ پر فراہم کیا تھا۔اب آپ کی مکمل گفتگو دیکھ رہا ہوں تو بھی اپنے خیال میں کوئی تبدیلی محسوس نہیں کرتا۔ آپ نے اس کامیاب افسانے کو بھی ناکام کہا اور فرمایا کہ منٹوصاحب کو اسے انجام تک پہنچانے کی جلدی تھی۔۔۔ وہ چاہتے تھے کہ سکینہ کی مظلومیت کا احساس قاری کے منھ پر تھپڑ کی طرح پڑے اس لیے اچھے کا م کو اچھا نہ رہنے دیا اور ہماری اشک باری کا انتظام کرتے رہے (ص ۸۲) آپ کا لاحول ولا قوۃ پڑھنا بھی مجھے سنائی دے گیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ وہی منٹو کو میر سے بھڑانے والی بات، جس میں اب شیکسپیئر کو بھی داخل کر دیا گیا ہے: اچھا اپنی سہولت کے لیے اور آپ کی اس مختلف بات کو حاضر رکھنے کے لیے یہاں نقل کر لیتا ہوں ۔
’’میں نے کچھ دیر پہلے تم سے کہا تھا کہ ’’اردوادب میں میر کے سوا اگر کوئی شخص اور ہے جس کے یہاں رنگا رنگی، دُکھ درد، وجد و شوق، غم اور مسرت ،انسانی وجود کا احترام اور اس کی کمزوریوں کا احساس، یہ سب باتیں تخلیقی سطح پر بیان ہوئی ہیں تو وہ سعادت حسن منٹو ہے‘‘ اور تم نے میر کے بارے میں میرا یہ قول بھی کہیں پڑھا ہوگا کہ اردو میں اگر کوئی ایسا ہے جسے اس دنیا کی معموری،تنوع، اور اس کے مشاہدے کی گہرائی ، باریکی اور فن پر مکمل قدرت کے لحاظ سے شیکسپیئر سے مشابہ کہا جا سکتا ہے تو وہ میر تقی میر ہیں۔ اس طرح شیکسپیئر ، میر ،اور منٹو سب ایک ہی زنجیر کی کڑیاں کہے جا سکتے ہیں ۔‘‘
(گفتاردہم : ص۸۲)
یہ جو آپ نے کہا ، بہت بڑی بات تھی ،آپ نے منٹو، میر اور شیکسپیئر کو ایک زنجیر کی کڑیاں کہا تھا توبہت ذمہ داری سے یہاں اسے ثابت کیا جانا چاہیے تھا۔ جب کہ لگ بھگ آپ منٹو کے ہر اچھے افسانے کو رد کرتے آئے ہیں ، انہیں عجلت میں اپنے افسانوں کے انجام کا ناس مارنے والا ثابت کرتے ہیں ؛ ہاں کچھ کمزور افسانوں کو آپ نے بڑا بنانے کی کوشش کی مگر اس سے منٹو اور کمزور ہوا اور اوپر والی منٹو، میر اور شیکسپیئر والی زنجیر بناتے ہوئے آپ کو اس کا احساس تھا تب ہی تو آپ نے یہاں اپنی بات میں گنجائشیں رکھنے کے لیے یہ بھی فرمادیا تھا:
’’لیکن افسوس کہ منٹو صاحب کی کڑی یہاں کمزور، بہت ہی کمزور ہے۔ ،،
)گفتاردہم : ص ۸۲(
چلیے ایک لمحہ کے لیے آپ کی بات مان لیتے ہیں ؛منٹوصاحب ، میرصاحب اور شیکسپیئرصاحب سے بہت زیادہ کمزور ہیں ۔ آپ نے انہیں اُن دونوں کے میدان میں اتار کر اور کمزور دکھا کر مروانا چاہا ؛ہم انہیں وہاں سے نکال کر اُردو کے افسانے کے میدان میں لے آتے ہیں ۔ اب میر صاحب کا حوالہ چوں کہ منہا ہو گیا ہے تو آپ کا بیان منٹو صاحب کے حوالے سے یوں ہو جائے گا:
’’اردو[افسانے] میں[۔۔۔] اگر کوئی شخص[۔۔] ہے جس کے یہاں رنگا رنگی، دُکھ درد، وجد و شوق، غم اور مسرت ،انسانی وجود کا احترام اور اس کی کمزوریوں کا احساس، یہ سب باتیں تخلیقی سطح پر بیان ہوئی ہیں تو وہ سعادت حسن منٹو ہے‘‘
لائق احترام فاروقی صاحب ! کیا آپ کو نہیں لگتا کہ جس طرح منٹو صاحب بعض افسانوں میں بہ قول آپ کے، بغیر تیاری کے انجام تک لے گئے آپ نے بھی ضروری تیاری کے بغیر ایک نتیجہ اخذ کیا تھا ۔ اب معاملہ یہ ہے کہ اس تنقیدی مواد کے ساتھ اور ان فنی کمزوریوں کی موجودگی میں ہم کیسے مان پائیں گے کہ منٹو صاحب نے ’’سب باتیں تخلیقی سطح پر بیان‘‘ کی ہیں۔
..........
’’کھول دو‘‘:کچھ اور
اچھا بات افسانہ’’کھول دو‘‘ پر ختم نہیں ہوئی تھی؛ منٹو، میر اور شیکسپیئر کی زنجیر میں منٹو کو بہت ہی کمزور کڑی ثابت کرنے کے لیے آپ نے ہمیں اس افسانے کی آخری سطروں کی طرف متوجہ کیا تھا؛
’’مردہ جسم میں جنبش ہوئی
بے جان ہاتھوں نے ازار بند کھولا
اور شلوار نیچے سرکادی
بوڑھا سراج الدین خوشی سے چلایا:’’زندہ ہے۔۔۔میری بیٹی زندہ۔۔۔‘‘
)افسانہ:’’ کھول دو‘(
منٹو صاحب کے افسانے’’کھول دو‘‘ سے اقتباس آپ نے صفحہ ۸۳ کے آغاز میں دیا اور فوراً بعد شیکسپیئرصاحب کے کنگ لیئر(King Lear) کو مقتبس کرنے اور اس پر بات کرنے میں مشغول ہو گئے تھے ۔ جب تک آپ اس پر بات کرتے ہیں، میں نے اس باب میں اپنی وہ بات جس کا حوالہ محمد عمر میمن نے دیا تھا ، جی، یوسا کے حوالے سے ای مکالمے والی بات، اُسے ڈھونڈھ کر یہاں نقل کرتا ہوں ۔ شاید اس طرح ہم اس افسانے کو ایک اوررُخ سے دیکھنے لگیں:
’’تمھیں یاد ہوگاکہ اس [’’کھول دو‘‘]افسانے کی سکینہ جب ڈاکٹر کی آواز پر اپنی شلوار نیچے سرکا رہی تھی تو پوری انسانیت ننگی ہونے لگی تھی۔ ایسے میں ہم سب کا دھیان سکینہ کے بوڑھے باپ سراج الدین کی طرف نہیں گیا ہوگا جو زندگی کی رمق پاکر خوشی سے چلانے لگا تھا کہ [اس کہانی پررنگ رنگ کی تنقیدپڑھنے والا قاری نہیں، ] اس کہانی کو پڑھنے والا قاری ایک طرف زقند لگا چکا تھا؛ اُس جانب، جہاں وہ آٹھ رضا کار ہو سکتے تھے کہ انہیں دبوچ کر ان کے بدکردار بدنوں سے آخری سانسیں تک کھینچ لے۔ یہاں میں یہ اضافہ کرنا چاہتا ہوں کہ’’کھول دو‘‘ کا جملہ ایک سفاک لطیفے کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ ایک بے اولاد مجبور عورت کے ساتھ ،جو پیر کے پاس اولاد ہونے کے لیے تعویز لینے گئی تھی اور پیر کی نیت میں ایسا فتور آیا کہ اُسے اکیلا پاکر وہی حیلہ آزمانا چاہا جس کا وہ عادی تھا؛ کہا:’’ناڑا کھول۔‘‘ وہ گھبرا گئی ۔ اپنی سماعت پر اسے یقین نہ آرہا تھا۔ تعجب اور گھبراہٹ ہوئی تو پوچھا:’’ سرکار آپ نے مجھے کچھ کہا ہے؟‘‘، وہ ادھر اُدھر دیکھ کر تسلی کر رہی تھی؛وہاں کوئی اور نہ تھا۔ پیر نے کہا:’’ ہاں ،بھلیے لوکے،میں نے تمھیں ہی کہا ہے، ناڑا کھول اور آجا۔‘‘ وہ ناڑے کی سچی تھی۔ طیش میں آگئی ؛جو منھ میں آیا ،بک دیا ۔ پیر کے ہاتھ پاؤں پھول گئے،مگر پرلے درجے کا مکار تھا،پینترا بدلا،کہا:’’اے نیک بخت،برہم کیوں ہوتی ہے۔ وہ پیچھے دیکھ ، دیوار میں ٹھکی ہوئی کیل سے ناڑا بندھا ہے، اسے کھول کر لے آ کہ وہ دَم کرکے تمھیں دوں۔‘‘ میمن جی ، یہی لطیفہ اس’’کھول دو‘‘ کے پیچھے گونج سکتا تھامگر منٹو نے کچی گولیاں نہیں کھیلی تھیں ۔ڈاکٹر ،جب کھڑکی کھولنے کو کہہ رہا تھا اور سکینہ اپنا ناڑا ڈھیلا کرکے شلوار نیچے کھسکا رہی تھی ؛ایسے میںیہ لطیفہ اپنا وجود معدوم کر چکا تھا۔ اب سکینہ تھی: جس کے ہاتھ عصمت دری کے تسلسل کے باعث میکانکی انداز میں چل رہے تھے ، یا پھر وہ باپ تھا، جو اپنی بیٹی میں زندگی کے آثار پاکر خوشی سے کھل اُٹھا تھا ۔ اور وہ ڈاکٹر بھی تو وہیں تھا جس نے ننگی پنڈلیاں دیکھی تھیں تو اُس کے چہرے کے مسام پسینہ باہر پھینکنے لگے تھے ۔ تو اے پیارے میمن، افسانہ تو بنتا ہی تب ہے، جب کہانی زقند لگاتی ہے/پلٹا کھاتی ہے۔ قاری کے اندر کو ہلا کر رکھ دیتی ہے اور واقعہ وہ نہیں رہتا جیسا کہ وہ پہلے بیان ہو رہا ہوتا ہے۔،،
)کہانی اور یوسا سے معاملہ۔ محمد حمید شاہد/محمد عمر میمن: ص ۱۰۶(
اس پر اب میں کیا اضافہ کروں ، آپ کی کتاب کا اگلا صفحہ الٹتا ہوں اور وہاں پہنچتا ہوں جہاں ’’کنگ لیئرکے ایکٹ پنجم، منظر سوم، سطور ۲۵۹ تا۲۶۵ والا اقتباس دینے کے بعد، آپ نے فرمایا تھا:
’’تم یقین کرو، یہ منظر میں نے کاغذ پر بار ہا پڑھا ہے اور اسٹیج پر کم سے کم ایک بار دیکھا ہے۔ لیکن اس وقت بھی ان الفاظ کو نقل کرتے وقت میرے ہاتھ کانپ رہے ہیں اور سانس رُک رُک کر آرہی ہے ۔کاش منٹو صاحب نے ’’کھول دو‘‘ کی جگہ کچھ اور سوچا ہوتا ، اور کاش اُنھوں نے ڈاکٹر کے پسینے میں غرق ہو جانے والا جملہ نہ لکھا ہوتا۔ ‘‘
)گفتاردہم : ص ۸۴(
لیجئے صاحب میر جیسے منٹو صاحب کے اس افسانے پر آپ کی گفتگو یہاں تمام ہو جاتی ہے ؛ آپ کے نزدیک اس کی خوبیاں خامیاں ہو گئیں مگر یقین کیجئے میں منٹو صاحب کے اس افسانے کی آخری سطروں کو نقل کرنے لگا تو میرے ہاتھ ویسے ہی کانپ رہے تھے ۔ آپ معترض ہوئے کہ سکینہ کی مظلومیت کا احساس قاری کو منھ پر ایک طمانچے کا سا کیوں لگا ؟اور اسی سانس میں کہہ دیا، منٹو صاحب ہماری اشک باری کا انتظام کرتے رہے ۔ یہ طمانچہ جہاں قاری کی آنکھوں میں آنسو بھرتا ہے وہاں طیش بھی تو دلاتا ہے ۔ایسے میں سانسوں میں رخنے پڑنے لگیں، تو یہ کہاں کا انصاف ہوگا کہ کنگ لیئر کو پڑھتے ہوئے تو یہ رد عمل مباح ہو اور ’’کھول دو‘‘کے باب میں خرابی ہو جائے ۔
..........
’’
بُو‘‘:اوسط
درجے کا افسانہ؟
منٹو صاحب کے افسانہ ’’بُو‘‘ کے متن اور کہانی کے بہاؤ پر آپ نے بات کم کم کی مگر اس میں سے ’’خاص بو‘‘ کے حوالے سے ممتاز شیریں نے جو کہا اس میں سے کئی نقاط نکالے اور ’’بو ‘‘ اور’’ جنسی کشش‘‘ کے مضمون کے کئی رنگ دکھائے۔ لیڈی چیٹرلی کے مالی کا جنسی طور پر مستحکم ہونا، انیسویں صدی کیDuchess of Wellington کے صاحب کا مستی میں دن دیہاڑے کپڑے اُتارے بغیرچار چار بار خوب پینگیں دینا۔ اپنی عمر کے اوائل میں پڑھے ہوئے رشید اختر ندوی کے ناول ’’رونق‘‘ کی بھولی بھالی لڑکی کے بدن سے ’’بو‘‘ کا اُٹھنا ، غالب کا بیگموں کے ڈومنی پن کا ذکر کرنا، بعض جانوروں کے جسم سے خارج ہونے والی خاص بو کا صنف مخالف کو خبردینا ۔ یوسا(آپ کے نزدیک لیوسا) کے ناول سے موئے زہار کی بو،پیشاب کی بو،یوسا کے اسی ناول The Note Book of Don Rigoberto کی لکریشا کے کموڈ پر بیٹھنے کا منظر اور پاخانہ خارج کرنے کی بو، پابلو نرودا کی نظم کا حوالہ کہ شاعر کی معشوقہ’’شہد کی دھار‘‘ زمین پر گراتی تھی، پروکاش کے ناول کے مطابق ؛بائرن کو اپنی معشوقوں کی ریاح کی’’ مہک‘‘ کا اچھا لگنا ،مارکوئی دَساد کی اپنی عورتوں کا اس کے مطالبے پر اُس کے منھ پر ریاح چھوڑنا اور سب سے زیادہ بدبودار اور زور داراخراج کے مزے لینا۔ جیمس جوائس کا عورتوں سے مباشرت کے دوران اخراج النسائم کا لطف لینا، پیشاب کی دھار کے گرنے کی خاص آواز کہ جب رنڈی رات کو اُٹھ کر برتن میں پیشاب کرے، چرکین کے معاملات بول براز وغیرہ وغیرہ وغیرہ، یہ ’’بو‘‘ جو کتاب کے صفحات پر پھیلی ہوئی ہے؛ میں نے سمیٹ کر لکھنا چاہی تو بھی کئی سطروں میں گھس گئی۔ سچ پوچھیں کہ علم چاہے جس باب میں ہو جس طرح آپ کے ہاں ہمیشہ مستحضر رہا ، اس پر حیرت ہوتی ہے اور جی عش عش بل کہ اَش اَش کر اُٹھتا ہے۔ ہاں تو اب جو پلٹ کر دیکھتا ہوں توکچھ کچھ افسوس بھی ہوتا ہے کہ یہاں تعبیر اور تعیین قدر منٹو صاحب کے افسانے ’’بو‘‘کی ہو رہی تھی مگر افسانہ ایک طرف رہ گیا اور بات بو کی طرح محض لفظ ’’بو‘‘ اور اس کے نمونوں تک پھیل گئی۔
لیجئے، میں اس افسانے کے باب میں آپ کے تنقیدی فیصلوں کی طرف دیکھتا ہوں جن کی فہرست یوں بنائی جا سکتی ہے :
۱۔ ’’بو ‘ ‘ کو میں معرض بحث میں اس لیے لا رہا ہوں کہ اسے زیادہ تر لوگوں نے تھوڑا بہت فحش ،لیکن شاہکار افسانہ سمجھا ہے،‘‘
)گفتاردہم : ص۔۶۴(
۲۔ ’’ میں یہ بات فوراً ہی کہہ دیتا ہوں کہ’’بو ‘‘ میرے خیال میں کوئی عظیم افسانہ نہیں ہے۔‘‘
)گفتاردہم : ص۔۶۵(
۳۔ اپنے مقصد کی حد تک،وہ بڑی حد تک کامیاب ضرور ہے یعنی اس میں یہ دعویٰ بڑی قوت سے کیا گیا ہے کہ جنس کی جبلت کی پوری قوت اورعظمت اور حسن کا اظہار نام نہاد’’اشرافی،شائستہ‘‘ تہذیبی رویوں میں نہیں، بلکہ ’’فطرت سے قرب اور ہم آہنگی‘‘ میں حاصل ہو سکتا ہے۔‘‘
)گفتاردہم : ص۔۶۵(
۴۔ ’’مجھے اس افسانے پر سجاد ظہیر کے اس اعتراض سے کوئی دلچسپی نہیں اور نہ ہی اس کی کوئی وقعت میری نظرمیں ہے کہ یہ افسانہ ’’بورژوا طبقے کے ایک فرد کی بیکار، بے مصرف ، عیاشانہ زندگی کا تجربہ ہے۔یہ تنقید نہیں ، پرانے ترقی پسند صاحبان کے اس خود کار ردعمل کی مثال ہے جسے knee jerk reactionکہتے ہیں۔
)گفتاردہم : ص۔۶۵(
۵۔ ’’بو‘‘ کا سارا فلسفہ(اگر وہ فلسفہ ہے) لارنس سے مستعار ہے۔‘‘۔۔۔[جب کہ] ’’لارنس خاصا بے وقوف تھا ، لیکن اسے اتنا تو ضرور معلوم رہاہو گا کہ جنسی لذت اور قوت کسی ’’زمینی تہذیب ‘‘ یا ’’فطرت سے قرب‘‘ کا اظہار نہیں۔
)گفتاردہم : ص۔۶۶(
۶۔ ’’ تو میاں ،’’بو‘‘ اوسط درجے کا افسانہ ہے[۔۔۔۔]یہ ایک سادہ سا، جنسی عمل کی لذت کے محتاط بیان کی بڑی حدتک کامیاب کوشش ہے۔‘‘
)گفتاردہم : ص۔۷۱(
۷۔ ’’اس کا سب سے بڑا عیب، اس کی نام نہاد فحاشی نہیں، بل کہ یہ ہے کہ سارا افسانہ رندھیر کے نقطہ نظر سے لکھا گیا ہے۔‘‘ [۔۔۔]’’ اس [گھاٹن]لڑکی کو منٹو نے صرف ایک جنسی شے(Sex Object) بنا کر پیش کیا ہے۔خود اس گھاٹن عورت کے نقطہ نظر سے منٹو صاحب نے ایک حرف بھی نہیں لکھا ہے۔ ‘‘
گفتاردہم : ص۔۷۱(
۸۔ ’’شہر کی پلی بڑھی، اسکول کالج میں پڑھی ، عروسی لباس سے مزین اور عروسی عطر سے معطر، کچھ اس نو بیاہتا کا بھی تو رد عمل ہوگا ۔ ممکن ہے اس نے رندھیر کو نا مرد سمجھ لیا ہو۔‘‘
)گفتاردہم : ص۔۷۲(
۹۔ ’’فطرت‘‘ اور ’’شہر‘‘ کی یہ تفریق مصنوعی اور فرضی ہے۔[۔۔۔] منٹو صاحب خوش نصیب تھے کہ اتنے اوسط درجے کے افسانے کو اس قدر اہمیت ملی اور اس کے باعث انھیں شہرت ملی۔
)گفتاردہم : ص۔۷۲(
جناب فاروقی صاحب، مجھے تو منٹو صاحب کے ’’اوسط درجے کے افسانے ‘‘ پر رَشک آنے لگا ہے کہ اس نے آپ کے ہاں اتنی بھر پور توجہ پائی ،خوب خوب مصروف رکھا ، لگ بھگ نو جان دارصفحات لکھوائے، اتنے ہی بھرپور تنقیدی فیصلے دینے پر اُکسایا اور ساتھ ہی ساتھ ڈھیر سارا علم بھی ہتھیا لیا ۔ ایسے نصیب تو منٹو کے ان تیرہ افسانوں کا بخت بھی نہ بن پائے تھے، جو بہ قول آپ کے سارے نہیں تو ان میں سے اکثر شاہکار ہیں ۔مثلاً دیکھئے ابھی تک ’’موذیل ‘‘ کا ذکر ہوا نہ ’’بابو گوپی ناتھ‘‘ جب کہ دونوں ایسے افسانے تھے کہ ان کے بغیر منٹو صاحب کو ڈھنگ سے سمجھا ہی نہیں جا سکتا۔ ’’ ٹوبہ ٹیک سنگھ‘‘ کی کیا کیا تعبیریں ہو رہی ہیں اور آپ ہیں کہ اس افسانے کو لائق اعتنا ہی نہ جانا۔ ’’ہتک‘‘ پر بات ہوئی مگر آپ بیدی کی طرف نکل گئے ۔ ’’جانکی‘‘،’’شاردا‘‘، ’’لتیکا رانی‘‘،’’ میرا نام رادھا‘‘ یہ سب، آپ نے تیرہ افسانوں والی فہرست میں شامل کیے تھے مگر کتاب ختم ہونے کو ہے اور ان پر آپ بات کرنے پر خود کو مائل نہیں کر پاتے ۔ واپس جاکر ’’بادشاہت کا خاتمہ‘‘ کا تجزیہ دیکھتا ہوں اور اگلے صفحات پر آنے والی ’’پھندنے‘‘ پر آپ کی تنقید پڑھتا ہوں تو دونوں ’’بو ‘‘ کے مقابلے میں بہت کم وقت لے پائیں ۔ مجھے حیرت ہوتی ہے اور دُکھ بھی جب’’ نیا قانون‘‘ اور ’’ کالی شلوار‘‘ جیسے افسانے بھی آپ کو کچھ کہنے پر اُکسا نہیں پاتے ۔ تو یوں ہے کہ منٹو صاحب کا افسانہ’’بو‘‘ تو اس اعتبار سے سب پر بازی لے گیا۔
اس کے باوجود محترم فاروقی صاحب مجھے کہنا ہے کہ افسانے پر کچھ اور زاویوں سے بات ہونی چاہیے تھی۔ مثلاً :
)الف)۔ منٹو صاحب نے اس افسانے کانام ’’بو‘‘ رکھا تھا اور ’’بو‘‘ ،’’خوش بو‘‘ کے معنی دیتی ہے اور’’ بدبو‘‘ کے بھی۔ جرات نے کہا تھا؛’’ اس کی بوباس میں لوں اور وہ بدن سونگھے مرا‘‘۔ اور مرزا نوشہ کہتے تھے :’’ ظاہر ہے کہ گھبرا کے نہ بھاگیں گے نکرین/ہاں منھ سے مگر بادہ ءِ دوشینہ کی بو آئے۔‘‘ تو یوں ہے کہ منٹو صاحب نے اِس عنوان کو ان دو معنوں میں قائم کیا جب کہ ہماری تنقید محض ’’بدبو‘‘والی ’’بو ‘‘کو لے اُڑی ہے ۔ افسانے سے ایک اقتباس :
’’ ساری رات رندھیر کو اس کے بدن سے عجیب و غریب قسم کی بو آتی رہی تھی۔ اس بو کو جو بیک وقت خوش بو اور بدبو تھی وہ تمام رات پیتا رہا تھا‘‘
)افسانہ:’’بُو‘‘(
)ب)۔ افسانے کی زبان میں بھی دوسطحوں پر معاملہ کیا گیا ہے ایک طرف گھاٹن اور اس کے تصور سے وابستہ بھیگی ہوئی میلی مہک ہے اور دوسری طرف کھڑکی کے باہر پیپل کے پتے رات کے دودھیالے اندھیرے میں جھمکوں کی طرح تھرتھرا رہے ہیں اور نہا رہے ہیں اور وہ گھاٹن لونڈیا رندھیر کے ساتھ کپکپاہٹ بن کر چمٹی ہوئی ہے ۔ دیکھیے منٹو صاحب نے منظر کی خوب صورتیاں بیان کی ہیں اور اس میں سے اور کپکپاہٹ بنی گھاٹن کے بدن سے خوش بو نکل کر بہنے لگی ہے ۔
(ج)۔ اس افسانے کی تنقید کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ منٹو صاحب نے اس افسانے کے اندر ایک خاص ماحول بناکر اپنے قاری کو درپیش صورت حال کے لیے تیار کیا ہے ۔ جنگ عظیم دوم چھڑ چکی ہے اور اس باعث رندھیر کی زندگی میں بھی ایک تبدیلی وقوع پذیر ہو چکی ہے ۔وہ کئی دنوں سے تنہائی جھیل رہا ہے۔
(د)۔ اسے بھی نگاہ میں رکھنا چاہیے کہ رندھیرہیزل کو پٹانا چاہتا تھا جو ہر روز صبح صبح وردی پہن کر اور اپنے کٹے ہوئے بالوں پر خاکی ٹوپی ترچھی رکھ کر باہر یوں نکلتی تھی کہ فٹ پاتھ پر تمام جانے والے گویا اس کے قدموں کے آگے ٹاٹ کی طرح بچھ جایا کرتے تھے ۔ اس نے تو ہیزل کی تازہ تازہ رعونت کا بدلہ لینے کے لیے گھاٹن لڑکی کو اشارہ کیا تھا۔
یہ چار باتیں نگاہ میں رہیں تو باقی سارے شکوے خود بہ خود ہوا ہو جاتے ہیں ۔ ایک ماحول جس کے آپ عادی ہو گئے ہیں اس سے اوب کر نکلنے دوسرے ماحول میں جانے کے بعد ایک لطف سے ہم کنار ہونا کوئی خلاف واقعہ بات نہیں ہے۔ کرسچین چھوکریاں، مہذب تھیں اور جنسی کشش اُن میں بھی تھی۔ اسی کو ہر جسم کی الگ الگ مہک کہہ لیں ۔ افسانے کا کام ایک متھ قائم کرنا ہے ؛ حقیقت میں ویسا ہوتا ہے یا نہیں ، یہ اس کا مسئلہ ہے نہ منصب ۔ بس ہونا یہ چاہیے کہ پڑھتے ہوئے اِس پر اعتبار آئے ۔ اور فاروقی صاحب آپ کے اوپر والے ایک تنقیدی بیان کے مطابق ، جو میں نمبر۳ پر درج کر آیا ہوں منٹو صاحب اپنے مقصد میں بڑی حد تک کامیاب ہیں یعنی اس افسانے میں جو دعویٰ کیا گیا یا متھ بنائی گئی اس میں بڑی قوت ہے اور قاری کو تسلیم کیے ہی بنتی ہے کہ جنس کی جبلت کی پوری قوت اورعظمت اور حسن کا اظہار تہذیبی رویوں میں نہیں، بلکہ فطرت سے قرب اور ہم آہنگی میں ہے۔ آپ جیسا ناقدچاہے تو اس بات کو نادرست ثابت کرسکتا ہے مگر افسانے کے متن کے اندر یہ متھ قائم ہوگئی ہے۔ یہاں گھاٹن محض جنسی شے یعنی Sex Object نہیں ہے۔ وہ خود بھی اُکتائی ہوئی ہے ۔ رَسیوں کے ایک کارخانے میں کام کرنے والی جوان صحت مند لڑکی ، بارش سے بچنے کے لیے املی کے درخت کے نیچے کھڑی ہونے والی۔ رندھیر کی کھانس کھنگار پر اس کی طرف متوجہ ہوتی ہے اور اشارے پر اس کے پاس چلی آتی ہے تو ایسے میں اس کا رندھیر کے بدن کی کپکپی ہو جانا اس کے اپنے جذبوں کی شراکت کے بغیر ممکن نہ تھا ۔ تاہم یاد رکھنا چاہیے کہ اس کا کلیدی کردار رندھیر ہے؛ گھاٹن لڑکی اوردودھ جیسی سفید چھاتیوں والی لڑکی نہیں دونوں محض ’’بو‘‘ کی علامتیں ہیں۔اب رہا یہ اعتراض کہ رندھیر کی دلہن نے( جو فرسٹ کلاس مجسٹریٹ کی بیوی تھی) اپنے شوہر کو نامرد سمجھ لیا ہوگا ۔ وہ رندھیر کو کیا سمجھتی ہے یہ اس افسانے کا مسئلہ نہیں ہے لہذا افسانے کے متن کا حصہ بھی نہیں ہے ۔ ہاں، اس سوال کو منٹو صاحب نے اپنے افسانے ’’ننگی آوازیں‘‘ میں مسئلہ بنایا تھا ۔ تب جب بھولو کی دلہن میکے چلی گئی تھی کہ راتوں کو کھلے آسمان تلے سوتے ہوئے اِدھر اُدھر کی ننگی آوازیں اسے عائشہ سے پرے گٹھڑی بنائے رکھتی تھیں ۔ میرا خیال ہے اس افسانے کو درست تناظر میں پڑھا جائے گا تو ہمارے تنقیدی فیصلے بھی درست ہو جائیں گے۔
..........
’’ٹھنڈا گوشت‘‘:تھوڑی سی نرم فحاشی
’’گفتار دہم‘‘ ہی میں فاروقی صاحب ،آپ نے منٹو صاحب کے ایک اور افسانے’’ٹھنڈا گوشت ‘‘ پر بات کی ہے۔ تقسیم کے فسادات کے نمایاں ترین اور کامیاب افسانوں میں اس افسانے کو رکھا جاتا رہا ہے مگر آپ کے ہاں یہی افسانہ مردود ہو جاتا ہے اور ادبی تقاضے بھی پورے کرتا نظر نہیں آتا (ص ۷۲)۔ آپ نے اس افسانے پر بات آغاز کرتے ہوئے جب یہ فرمایا کہ’’اگر’’بو‘‘ اوسط درجے کا افسانہ ہے تو ’’ٹھنڈا گوشت‘‘ اوسط سے فروتر ہے(ص۷۲)‘‘ تو میں چونکا تھا۔ لگ بھگ آپ نے منٹو صاحب کے ہر مقبول افسانے کو رد کیا تھا۔ اس افسانے کے مقدر میں بھی آپ کی دھتکار لکھی ہوئی تھی ۔ اچھا آپ کے پاس اس کا جو جواز بنتا ہے پہلے اُسے ایک نظر دیکھ لیتے ہیں۔ آپ کا کہنا ہے کہ افسانہ نگار نے کسی خاص وقوعے ، اور خاص کر افسانے کے انجام کے لیے زمین تیار نہیں کی؟(ص۷۲) اس باب میں آپ کا اعتراض نقل کرتا ہوں:
’’ جب آپ واقعیت یا توافق یعنیVerisimilitude کی دنیا کے افسانے لکھیں گے ، آپ کو اتنا تو کرنا ہوگا کہ ایشر سنگھ کے نامرد ہوجانے کے لیے کچھ نفسیاتی اشارے کرتے۔ اس وقت تو یہ خیال ہوتا ہے کہ ایشر سنگھ کی نامردی محض بہانہ ہے، تھوڑی سی نرم فحاشی کا۔ ‘‘
)گفتاردہم : ص۔۷۲،۷۳(
لطف کی بات دیکھیے کہ کچھ ہی سطروں کے بعد آپ کے قلم سے یہ حقیقت بھی ٹپک پڑی ہے کہ:
’’ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایشر سنگھ کی نامری بالکل فطری ہے لیکن اس میں بھی کچھ شک نہیں کہ یہ نامردی ناگزیر نہیں ہے۔‘‘
)گفتاردہم : ص ۷۳(
فاروقی صاحب !یہاں آپ نے جو بات کی اُس سے مکمل اِتفاق کیا جانا چاہیے۔ ہاں منٹوصاحب چاہتے تو یہاں ایشر سنگھ کی جنسی توانائی بحال کر سکتے تھے ۔یہ آٹھ دِن پہلے کا واقعہ تھا کہ اُس نے سات میں سے چھ کو مار دیا تھا اور ایک لڑکی کو کندھے پر ڈالا اور لاشوں سے دور ،نہر کی پٹڑی کے پاس ، تھوہر کی جھاڑی تلے اسے لٹا دیا تھا ۔ منٹو صاحب نے کس سلیقے سے کلونت کور اور ایشر سنگھ کا مکالمہ قائم کیا اس کی داد دی جانے چاہیے تھی ۔ ایشر سنگھ کو کلونت کے سامنے بات کرنا مشکل ہو رہی ہے قاری کے سامنے نہیں ، لہذا کہانی کے اس حصہ میں جملوں کا ٹوٹ ٹوٹ کر مکمل ہونا اور منٹوصاحب کا ان میں نقطے لگائے چلے جانا سمجھ میں آتا ہے ۔ مگر آپ نے نہ جانے کیوں بیانیے کی خوبی کو خامی بناڈالا ہے؛ جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے :
’’ اب یہ غور کرو کہ منٹوکو یہ انجام فنی طور پر قائم کرنے میں کتنی مشکل ہو رہی ہے۔ مکالمے کس قدر بے جان اور مصنوعی ہیں ۔مجبوراً منٹوصاحب نے بے شمار نقطے لگا لگا کر بات کو ادا کیا ہے۔ تم جانتے ہو یہ انداز گھٹیا درجے کے افسانہ نگاروں کا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں ،جتنے زیادہ نقطے (یعنی ...کا نشان) لگائیں گے، مکالمہ اتنا ہی جان دار ہوگا ۔‘‘
)گفتاردہم : ص ۷۵(
اچھا ،آپ نے یہیں آگے یہ بھی لکھ رکھا ہے کہ منٹوصاحب کے دیگر افسانوں میں نقطے لگانے والی یہ علت کم نظر آتی ہے ۔ اب آپ غور سے دیکھیں گے تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ ایسااس افسانے میں بھی ہے۔ جہاں نقطوں کی ضرورت نہیں تھی ؛وہاں بالکل نہیں ہیں ۔ مثلاً انہوں نے کلونت کے بیان میں کہیں بھی ایسے نقطے نہیں لگائے ۔
بات ہو رہی تھی ایشر سنگھ کی۔ اس کی جنسی تندی پہلے کا سا مظاہر نہیں کر رہی تھی حالاں کے وہ اپنے تئیں بہت کوشش کر رہا تھا، چوڑے چکلے کولہوں اورتھل تھل کرتے گوشت سے بھرپور؛کچھ زیادہ ہی اوپر کو اُٹھے ہوئے سینے والی جی دار دھڑلے دار عورت کلونت۔ وہ جنس کے معاملے میں ایشر سنگھ کے مقابلے کی تھی مگر اپنے مقابل کی ساری کوششیں( جنہیں فاروقی صاحب،آپ نے جملہ کسنے کو ہلکا پھلکا کوک شاستر کہہ دیا) ناکام جا رہی تھی۔ ایسا پہلے نہیں ہوتا تھا، جی اس روز سے پہلے کہ ایشر سنگھ شہر سے لوٹ مار کرکے آیا اور کلونت کولُوٹا ہوا سارا زیور پہنا کر اس کے ساتھ لیٹا تھا مگر کچھ دیر بعد اچانک اُٹھاکپڑے پہنے اور باہر نکل گیا تھا۔ جی ہاں، دیکھئے منٹوصاحب نے کیسے اپنے قاری کو تیار کیا ہے ۔ اسے بتا دیا گیا ہے کہ آٹھ روز پہلے والے اس واقعہ سے پہلے ایشر سنگھ جیسا قاتل ایسے ذہنی کر ب میں مبتلا نہ تھا ۔ اور یہیں متن میں یہ قرینہ بھی رکھ دیا گیا ہے کہ کلونت شک میں پڑ جائے اور پوچھ ڈالے:’’کون ہے وہ چور پتاّ؟‘‘ معاملہ چوں کہ جنس کا تھا لہذا کلونت جیسی کراری اور جنسی طور پر فعال عورت کا بپھرنا بھڑکنا اورکرپان اٹھا کراچانک ایشر سنگھ کو زخمی کرنا ، اس کے کیس وحشی بلیوں کی طرح نوچ ڈالنا ، کچھ بھی ایسا نہیں ہے جو اس جیسے موضوع کو قائم کرنے کے حوالے سے نامناسب ہو ۔
ہم یہ بات تو متن پڑھتے ہی جان جاتے ہیں کہ ایشر سنگھ سفاک قاتل تھا، مگر حسن پرست بھی تھا۔ ایسا حسن پرست اور اس معاملے میں نازک خیال کہ لاشیں گرا رہا تھا اور سامنے ایک ’سندر لڑکی‘ آگئی تو اس کا ہاتھ رُک گیا۔ صرف سندر نہیں؛’’ بہت ہی سندر لڑکی‘‘۔ کلونت کور کے مقابلے کی ؛یا پھر اس سے بھی کہیں زیادہ سندر:
’’کلونت جانی، میں تم سے کیا کہوں، کتنی سندر تھی وہ ۔۔۔ میں اُسے بھی مارڈالتا ، پر میں نے کہا، نہیں ایشر سیاں، کلونت کور کے تو روز مزے لیتا ہے، یہ میوہ بھی چکھ دیکھ۔۔۔‘‘
)افسانہ :’’ٹھنڈا گوشت‘‘(
آپ نے سوال کیا ، جب ایشر سنگھ اوروں کو مار رہا تھا گھر میں گھس کر،تو کیا لڑکی سو رہی تھی؟
’’لیکن جب ایشر سنگھ اُسے اٹھا کر اَپنے ساتھ لے آیا ، تو وہ کیا کر رہی تھی ؟ کیا تب بھی وہ بالکل چپ تھی ،اتنی چپ اور بے حس و حرکت کہ اس میں اور کسی لاش میں کوئی فرق نہ تھا ؟۔ بھلا کیا فضول گفتگو ہے ، ایسا بھلا ہو سکتا ہے؟ ‘‘
)گفتاردہم : ص ۔۷۶(
اور میرا جواب ہے، جی ہاں! ایسا ممکن ہے اوریہ قطعاً فضول گفتگو نہیں ہے۔ دہشت سے لڑکی کے حلقوم میں چیخ کا پھنس جانا اور پھر بے ہوش ہو جانے کا تصور باندھا جا سکتا ہے۔ منٹو نے اسے لکھا نہیں مگر جس سلیقے سے واقعہ ایشر سنگھ کی زبانی بیان کروایا ہے اس کے اندر سے اس سندر لڑکی کی چپ باہر چھلک پڑتی ہے۔
آپ نے فرمایا:
’’تم یہ بھی تو سوچو کہ جب گھر کے سارے لوگ مر چکے تھے اور قبضہ بے شرکت غیرے ایشر سنگھ کا ہے تو وہ لڑکی کو لے کر بھاگا کیوں ؟ سب سے بہتر تو یہ تھا کہ وہ گھر کو اندر سے بند کر لیتا ، سب روشنیاں (اگر وہ جل رہی تھیں) بجھا دیتا اور پھر لڑکی کے ساتھ جو اسے کرنا تھا، اطمینان سے اور بے کھٹکے کرتا۔‘‘
)گفتاردہم : ص۔۷۷(
ایک خونی زناکار کے لیے آپ کے مشورے تو خوب ہیں یہاں ،مگر مشکل یہ ہے کہ منٹو نے’’ٹھنڈا گوشت‘‘ کے ایشر سنگھ کا یہ کردار، آپ کو بہت محبوب ہو جانے والے منٹو صاحب کے افسانے’’پڑھیے کلمہ‘‘ کے خونی زناکارعبدالکریم عرف عبدل سے بہت مختلف بنایا ہے۔ عبدل اپنے ’’رقیب‘‘کی اکڑی ہوئی مقتول لاش کے سامنے گردھاری کی قاتل رکما کماری سے رات بھر پرجوش ہم بستری کر سکتا تھا، ایشر سنگھ نہیں۔ اور اسی بہ ظاہر معمولی سے فرق نے اس کردار کی نفسیات کو بالکل بدل کر رکھ دیا تھا ۔ اب آپ اطمینان سے منٹو کے یہ جملے پڑھیے افسانے کا لطف دوبالا ہو جائے گا:
’’اورمیں اسے کندھے پر ڈال کر چل دیا ۔۔۔راستے میں۔۔۔ کیا کہہ رہا تھا میں۔۔۔۔ ہاں راستے میں ۔۔۔ نہر کی پٹری کے پاس ، تھوہر کی جھاڑیوں تلے ،میں نے اسے لٹادیا۔۔۔۔ پہلے سوچا کہ پھینٹوں ، لیکن خیال آیا کہ نہیں ۔۔۔۔یہ کہتے کہتے ایشرسنگھ کی زبان سوکھ گئی۔
کلونت کور نے تھوک نگل کر اپنا حلق تر کیا اور پوچھا، ’’پھر کیا ہوا؟‘‘
ایشر سنگھ کے حلق سے بمشکل یہ الفاظ نکلے : ’’میں نے ۔۔۔پتا پھینکا۔۔۔ لیکن۔۔۔لیکن۔‘‘
اس کی آواز ڈوب گئی۔
کلونت کور نے اسے جھنجھوڑا: ’’پھر کیا ہوا؟‘‘
ایشر سنگھ نے اپنی بند ہوتی ہوئی آنکھیں اور کلونت کور کے جسم کی طرف دیکھا جس کی بوٹی بوٹی تھرک رہی تھی۔ ’’وہ مری ہوئی تھی۔۔۔لاش تھی۔۔۔بالکل ٹھنڈا گوشت۔۔۔ جانی مجھے اَپنا ہاتھ دے۔۔۔‘‘
کلونت کور نے اَپنا ہاتھ ایشر سنگھ کے ہاتھ پر رَکھاجو برف سے بھی زِیادہ ٹھنڈا تھا۔‘‘
)افسانہ :ٹھنڈا گوشت(
محترم فاروقی صاحب !میں مانتا ہوں کہ زبان کے معاملے میں، ہم سب نے آپ سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ اور صاف کہے دیتا ہوں کہ اس باب میںآپ کی خدمات کو نہ ماننے والاحد درجے کا بخیل ہی کوئی ہو سکتا ہے مگر یہاں جو منٹو صاحب نے اپنے متن میں کلونت کور کے جسم کی بوٹی بوٹی کو تھرکایا ہے ، اس پر آپ کا عتراض یوں نہیں بنتا کہ اُنہوں نے، کلونت کے جیتے جاگتے وجود کو ایک سندر لڑکی کے لاش ہو جانے والے بدن کے مقابل رَکھ کردِیکھا ہے؛ خود نہیں دیکھا ،بل کہ ایشر سنگھ کی آنکھ سے دِیکھا اور دِکھایا ہے ۔ اچھا صاحب، ایک لمحہ کے لیے مان لیتا ہوں کہ یہاں کوئی اور مناسب لفظ لایا جا سکتا تھا ؛ لاش کے مقابل زندگی اور سانسوں سے معمور جسم کے لیے کوئی اور لفظ ؛ مگرایسے میں ماننا پڑے گاکہ منٹو ، میر نہیں تھے ۔ میر ہوتے تو ایسا ضرور کرتے۔خیر، مجھے اپنا بیان بدل لینے دیجئے کہ میر شاعر نہ ہوتے تو ’’حور بعد الکور‘‘(یاالہی فضل کر یہ حور بعد الکور ہے:دیوان پنجم)لکھنے کی بہ جائے صاف صاف لکھ دیتے ’’فروانی کے بعد قلت‘‘ ۔اور وہ افسانہ لکھتے(مگر کیوں لکھتے کہ’’فیض میر‘‘ لکھ کر کون سی عزت کمالی تھی) تونامانوس الفاظ کا اِستعمال بھی اُنہیں بہت مرغوب نہ ہوتا۔ اور یہ بھی تو ممکن تھا کہ انہیں ایسا ہی وقوعہ لکھنا پڑتا تو وہ سامنے کے بہ ظاہر مناسب نظر نہ آنے والے لفظ کو جملے میں جڑ دیتے ،اور وہ وہاں جچ جاتا؛ جیسا کہ یہاں منٹو صاحب کے باب میں ہوا ہے ۔
..........
سیاہ حاشیے، گنجے فرشتے
’’ میرے محترم ، آپ نے اچھا کیا کہ ’’سیاہ حاشیے ‘‘ میں شامل تحریریں بھی گفتاریاز دہم ‘‘ میں زِیرِ بحث لے آئے ۔ ہلکے پھلکے مضامین پر بات ’’گفتار دوم‘‘ میں ہو چکی تھی۔ منٹو صاحب کی شخصیت پر آپ کے کامنٹ، کتاب کے متن میں اِدھر اُدھر بکھرے مل جاتے ہیں ،بس ایک ’’گنجے فرشتے‘‘ اور ’’لاؤڈ سپیکر‘‘کے خاکے ہیں جو کہیں موضوع نہ بن پائے۔ یوں دیکھیں تو آپ نے اَپنے لیے پورے منٹو صاحب کی ایک تصویر بنالی ہے ۔ منٹو کی خاکہ نگاری کی بات چل نکلی تو کہتا چلوں کہ یہ ایسے نہیں ہیں جنہیں آپ سہولت سے نظر انداز کر دِیں ۔ انہیں لکھنے والے کے ہاں عجب طرح کا اِعتماد ہے جو سطر سطر سے جھلک رہا ہوتا ہے ۔ اسی اعتماد نے انہیں بے باک بنایا اور بے باک نگاری پر اُکسایا۔ منٹو صاحب نے ’’ گنجے فرشتے‘‘ میں ہی کہہ رکھا ہے کہ اُن کے اِصلاح خانے میں کوئی شانہ ہے نہ کوئی شمپو اور گھونگھر پیدا کرنے والی مشین کہ وہ جس کا خاکہ لکھنے جارہے تھے اُس کا پہلے بناؤ سنگھار کرتے ۔ اُن کا کہنا تھا:
’’آغا حشر کی بھینگی آنکھ مجھ سے سیدھی نہیں ہوسکی۔ اُس کے منھ سے میں گالیوں کے بہ جائے پھول نہیں جھڑا سکا ۔ میرا جی کی ضلالت پر مجھ سے اِستری نہیں ہو سکی اور نہ ہی اَپنے دوست شیام کو مجبور کر سکا ہوں کہ وہ برخود [غلط] عورتوں کو سالیاں نہ کہے۔‘‘
اتنے منھ پھٹ اور صاف گو تھے ہمارے منٹو صاحب، کہ جو کہنا ہوتا بے دھڑک کہہ گزرتے۔ ’’سیاہ حاشیے‘‘ کی جن تحریروں نے آپ کی توجہ کھینچی ہے ان میں سے شاید کم کم فکشن بن پائی ہوں ، مگر وہ ہیں بہت اہم ۔مجھے تو آپ کے اِس جملے نے چونکادیا ہے :
’’[۔۔۔] منٹو صاحب انسان سے مایوس نہیں تھے اور ’’سیاہ حاشیے‘‘ بہت بڑی کتاب ہے، لیکن اگر ایسی دو چار کتابیں میں اور پڑھ لوں تو مجھے زندگی سے نفرت ہو جائے۔‘‘
)گفتاریازدہم : ص۔۸۸(
میں نے کہا تھا کہ اوروں نے جو کہا اس سے علاقہ نہ رکھوں گا مگر حسن عسکری صاحب کی طرف دیکھنا پڑتا ہے اور ان کا کہنا تھا کہ جب قتل ایک عام مشغلہ بن چکا ہو تو اس میں کوئی خوف کی بات نہیں رہ جاتی، مگر جب قاتلوں کو یہ فکر ہو رہی ہو کہ ریل میں قتل سے جو خون بہے گا، اس سے ریل کا ڈبہ گندا ہو سکتاہے تو ہمیں اس خیال سے دہشت ہوتی ہے کہ جن لوگوں میں صفائی اور گندگی کی تمیز باقی ہے وہ بھی قتل کر سکتے ہیں ؛ جب آپ نے کہا؛’’ منٹو صاحب انسان سے مایوس نہیں تھے تو میرے ذہن میں عسکری صاحب تازہ تھے ، اس لیے نہیں چونکا تھا مگر جب آپ نے دوسرے والی بات کی تھی تو میں چونکا اور چونکنے کے بعد دوبارہ ’’سیاہ حاشیے‘‘ کو دیکھا ، اِس اِرادے کے ساتھ کہ اسے ایک دفعہ پھر سے پڑھوں گا ۔ اِس بار رُک رُک کر؛ اَپنے اِردگرد کو دیکھتے ہوئے ۔ اوررَواں منظر نامے کو اس کے متن سے جوڑتے ہوئے۔ زندگی سے اور آدمی سے۔ نفرت کرنے کے لیے نہیں ؛ان دونوں سے محبت کرنے کے لیے۔
..........
افسانہ اور سیاسی موقف
’’گفتار دو از دہم ‘‘ میں آپ منٹو صاحب کے ناقدین سے نمٹتے رہے اور میں آپ کے خیالات متن میں سے ڈھونڈ تا رہا ۔ لیجئے میں نے دو انتہائی اہم باتیں الگ کر لی ہیں۔ پہلی ان ناقدین کو مسکت جواب ہے ، جو منٹو صاحب اور ترقی پسندوں کے سیاسی موقف کو ایک سا قرار دیتے ہیں اور دوسری میں منٹوصاحب کی بڑائی اور عطا کو نشا ن زد کیا گیا ہے :
۱۔ ’’اگر’’ٹھنڈا گوشت‘‘، ’’کھول دو‘‘،’’ موذیلِ ‘‘،’’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘‘ اور’’موتری‘‘ کا سیاسی موقف (واضح نہ سہی ، زیر زمین سہی)ترقی پسندوں کے موقف سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ،تو کیا وجہ ہے کہ ’’مستند‘‘ یا ’’معتبر‘‘ ترقی پسند افسانہ نگاروں کے کسی بھی افسانے میں منٹو کے محولہ بالا افسانوں کی کمزوراور دھندلی سی بھی جھلک نہیں ہے؟ تو کیا یوں کہا جائے کہ کرشن چندر،یا احمد ندیم قاسمی، یا رامانندساگر، ’’ٹھنڈا گوشت‘‘ نہ سہی ،’’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘‘ یا ’’موتری‘‘جیسا افسانہ لکھنے کی(فنی یا سیاسی یا اخلاقی)قدرت نہ رکھتے تھے؟‘‘
)گفتاردوازدہم : ص۔ ۹۰(
۲۔ منٹو کی بڑائی اس بات میں ہے کہ وہ ہمیں (صحافیوں کے معنی میں) ’’المیہ‘‘، ’’قتل و غارت گری‘‘ ، ’’انسانیت کا خون‘‘، ’’زنابالجبر‘‘ وغیرہ اصطلاحوں سے الگ ہٹ کر سوچنے اور محسوس کرنے کی دعوت دیتے ہیں ۔ ‘‘
)گفتاردوازدہم :ص ۔۹۱(
کاش ،آپ منٹو صاحب کے سیاسی موقف پر ذرا کھل کر بات کرتے۔ آپ نے فرمایا؛ سیاسی موقف بھک سے اُڑ جانے والی شے ہے اور یہ کہ اِسے سیاست دانوں کے لیے چھوڑ کر اَدب کی بات کرنا چاہیے۔(ص۔۹۰) جی ہاں، آپ نے درست کہا کہ ادب کی بات کرنا چاہیے ؛ اب اگر سیاست ہماری زندگیوں میں بہت دخیل ہو گئی ہے ، اس میں بھونچال لا رہی ہے، اتنی اکھاڑ پچھاڑ کر رہی ہے کہ ہماری حسیات کی امی جمی کا ناس مار کے رَکھ دیتی ہے تو یہ لاکھ بدبودار سہی ؛ اتنی ہی جتنی لکریشا کے کموڈ پر بیٹھنے ،پاخانہ خارج کرنے اور یاجیمس جوائس کی عورتوں کے اخراج النسائم سے بو اُٹھتی تھی تو ماحول بدبودار ہو جایا کرتا تھا ، تو بھی یہ آپ کے تخلیقی تجربے کا حصہ ہو جاتی ہے ۔ آپ چاہیں نہ چاہیں۔ جب رنڈی ادب کا موضوع ہو سکتی ہے اور کوٹھا بھی؛ دہشت کو ادبی متن اپنے اندر جگہ دے دیتا ہے اور قاتلوں کو بھی؛ تو یوں ہے کہ اتنی سیاست پر تو بات کرنے میں کیا قباحت ہو سکتی ہے جو لکھنے والوں کے فن کا حصہ ہو جاتی ہے۔ تسلیم کیا جانا چاہیے ، بلکہ یہی لازم ہے کہ ادیب کو سیاست دان ہونا چاہیے نہ سیاسی کارکن ؛ تب ہی وہ ادب کے تقاضوں کو مقدم رکھ پائے گا۔ لیکن سیاست سے اثر لے لینا کہ وہ ہماری زندگیوں میں اندر تک گھس آئی ہے ، اب معمول کی بات ہو گئی ہے۔ ایسے میں کسی کی تخلیقات سے اس کا سیاسی موقف چھلک پڑے؛یہ بھی انہونی بات نہ ہوگی اور اسے تلاش کرنے کی بات کی جائے تو یہ قطعاً غیر ادبی مطالبہ نہ ہوگا ۔ یہی سبب ہے کہ منٹو صاحب نے ’’نیا قانون ‘‘ لکھا ، ’’موتری‘‘ ،’’یزید‘‘،’’ٹیٹوال کا کتا‘‘ اور اس طرح کے دوسرے افسانے بھی ۔کبھی کبھی یہ بھی ہوتا کہ منٹو صاحب کا بیانیہ خالصتاً سیاسی ہو جاتا مگر انہیں اس کی ذرہ برابر فکر نہ ہوتی تھی۔ایک اقتباس :
’’ آگ لینے آئے تھے ۔ اب گھر کے مالک بن گئے ہیں ۔ ناک میں دم کر رکھا ہے ان بندروں کی اولاد نے ۔ یوں رعب گانٹھتے ہیں گویا ہم ان کے باوا کے نوکر ہیں۔‘‘
)افسانہ:’’نیا قانون‘‘(
بس یوں ہے سیاست ادب کے گھر میں اس آگ لینے والی کی طرح نہ آئے ، جو گھروالی بن بیٹھتی ہے ؛آئے آگ لے کر (اور آگ دینے بھی) مگر ایک طرف ہو جائے تاکہ ادب اور اس کے قرینے اپنی آزادی سے مروّجہ سیاسی چلن کو اِنسانی زندگیوں اور اُس کے دُکھوں اور لذّتوں کے ساتھ جوڑ کر دیکھ سکیں اور تخلیقی سطح پر آنک پائیں ۔ اور ہاں کچھ آگے چل کر آپ نے کہہ رکھا ہے کہ منٹو صاحب کے ہاں مقاومت(Resistance) اورموت(Death) تو ہیں ، مگر بغاوت (Rebellion) نہیں ہے ۔(گفتارسیز دہم :ص ۔۱۰۲) کامیو کے تین کڑیوں والے زنجیرہ میں سے جو کڑی آپ کو نہ ملی ، میرا خیال ہے اگر ’’ نیاقانون ‘‘ کو تجزیہ کے لیے منتخب کرتے تو وہ بھی ضرور مل جانی تھی۔
..........
’’ہتک‘‘ کی سوگندھی
’’گفتار سیز دہم‘‘ کے آغاز میں آپ نے منٹو کے محبوب کرداروں کو نشان زد کیا ہے:
’’منٹوصاحب کے بارے میں یہ بات کئی بار کہی گئی اور زور دے کر کہی گئی کہ اُنھیں’’ پست طبقے‘‘(Low Life) والے مردوں اور عورتوں سے بہت دلچسپی ہے،(عورتوں سے تو بہت ہی زیادہ ، اور شاید یہ اُن کا دماغی خلل رہا ہو)۔ ‘‘
)گفتارسیزدہم :ص ۔۹۲(
اچھا‘ جو بات اوروں نے کہی تھی ؛ آپ آگے چل کر اُس سے متفق نظر آتے ہیں تاہم ایک فرق کے ساتھ تو میں توجہ سے یہ فرق جاننا چاہتا ہوں ۔ فرق، یہ بتایا جارہا ہے کہ’منٹو نام نہاد’’پست طبقے‘‘ والوں کو روایتی (یا ترقی پسند) معنی میں’’اُوپر اُٹھانے ‘‘ میں دِل چسپی نہ رکھتے تھے ۔ وہ تو اُنھیں کسی نہ کسی قسم کا اقتدار دینے یا اُس اقتدار میں حق دار سمجھتے ہیں۔‘ (ص ۹۲) آپ نے اپنی یہ بات افسانہ’’ ہتک‘‘ کے ساتھ جوڑ کر سمجھانا چاہی ہے اور میں خوش ہوں کہ کتاب کے اس حصے میں ،میں منٹو صاحب کی’’ ہتک‘‘ اور ’’ہتک‘‘ کی ’’سوگندھی ‘‘ پر آپ کے خیالات پڑھنے جا رہا ہوں۔
منٹو صاحب کی ’’ہتک‘‘ پر بات آپ نے وہاں سے آغاز کی ہے جہاں یہ افسانہ تمام ہورہا ہے ۔ جی، وہاں سے جہاں سوگندھی،( جسے مردوں سے نمٹنے کے سو گر آتے تھے) گھائل پڑی تھی اورمہینے میں پونا سے ایک بار آنے والا لسوڑی کی لیس کی طرح چپکو ہو جانے والا شرمناک حد تک مفت خورا مادھو ؛ آخری بار اس کے سامنے تھا ۔ وہاں سے نہیں جہاں ان دونوں کے درمیان تعلق کی نوعیت افسانے کا حصہ بنی تھی بلکہ وہاں سے جہاں یہ تعلق ٹوٹ گیا تھا۔ سوگندھی کا مادھو سے تعلق ایسا تھا کہ وہ طوائف اور تماش بین سے بہت مختلف ہو گیا تھا ۔ ایسا تعلق جس کے شروع میں مادھو نے کہہ دیا تھا:
’’تجھے لاج نہیں آتی ، اپنا بھاؤ کرتے!جانتی ہے تو میرے ساتھ کس چیز کا سودا کر رہی ہے؟۔ اور میں تیرے پاس کیوں آیا ہوں؟۔چھی چھی چھی۔دس روپے، اور جیسا کہ تو کہتی ہے ڈھائی روپے دلال کے، باقی رہے ساڑھے سات، رہے نا ساڑھے سات؟۔اب ان ساڑھے سات روپیوں پر تو مجھے ایسی چیز دینے کا وچن دیتی ہے جو تو دے ہی نہیں سکتی اور میں ایسی چیز لینے آیا ہوں جو میں لے ہی نہیں سکتا۔ [۔۔۔] تیرا میرا ناطہ بھی کیا ہے ، کچھ نہیں ۔‘‘
)افسانہ :’’ہتک‘‘(
یہ ’’کچھ نہیں‘‘ والا ناطہ سوگندھی اور مادھو کے لیے’’ بہت کچھ‘‘ بن گیا تھا۔وہ مہینے میں ایک بار پونے سے آتا تین چار روز کے لیے اور واپس جاتے ہوئے ہمیشہ سوگندھی سے ، کہ جسے مادھو اور اس کی باتوں کی ضرورت تھی ، کچھ کما کر لے جاتا تھا ۔ جاتے جاتے کہا کرتا :
’’دیکھ سوگندھی ! اگر تو نے پھر سے اپنا دھندا شروع کیا تو بس تیری میری ٹوٹ جائے گی ۔ اگر تو نے ایک بار پھر کسی مرد کو اپنے یہاں ٹھہرایا تو چٹیا سے پکڑ کر باہر نکال دوں گا۔ دیکھ اس مہینے کا خرچ تجھے پونا پہنچتے ہی منی آرڈر کردوں گا۔۔۔ ہاں کیا بھاڑا ہے اس کھولی کا۔۔۔‘‘
)افسانہ :’’ہتک‘‘(
دونوں کے بیچ تعلق ایسا تھاکہ محض باتوں سے خوب نبھ رہا تھا ۔مادھو نے پونا سے کوئی رقم بھیجی نہ سوگندھی نے اپنا دھندا بند کیا؛ ایسے تعلق میں شاید اس کی ضرورت ہی نہ تھی اور یوں دونوں خوش تھے۔ اسی دوران وہ گاڑی والا واقعہ ہوتا ہے اور تعلق شدید نفرت کو اُچھال کر ٹوٹ جاتا ہے ۔ رات دو بجے والا واقعہ ؛ واقعہ نہ کہیں حادثہ یاسانحہ کہہ لیں ۔ سوگندھی کا سر درد سے پھٹا جا رہا تھا مگر اُسے تیار ہو کر اور پھولدار ساڑھی پہن کر رام لال دلال کے لائے ہوئے ’’جنٹر مین آدمی‘‘ کے لیے اپنی کھولی سے نکل کر باہر سڑک پر آنا پڑا تھا۔ اپنے لیے نہیں ، ساتھ والی کھولی کی ایک مدراسی عورت کے لیے جس کا خاوند موٹر تلے آکر مرگیا تھا لیکن اس کے پاس کرایہ نہیں تھا کہ اپنی جوان بیٹی کے ساتھ اپنے وطن جا سکے۔ یہ ساڑھے سات روپے اس کے کام آنا تھے اور سانحہ یہ ہوا کہ اس کا اپنا وجود اس کی نظروں کے سامنے منہدم ہو گیا۔ سوگندھی گھپ اندھیری رات میں موٹر کے پاس پہنچی اور موٹر کے دروازے کے پاس کھڑی ہو گئی تھی۔ موٹر میں آنے والے نے(جو دلال کے مطابق سیٹھ جی تھا) بیٹری سے سوگندھی پر روشنی اُچھالی ، پھر بٹن دبا دیا؛ روشنی بجھ گئی۔ ساتھ ہی سیٹھ کے منھ سے نکلا ’’ہونہہ‘‘ موٹر کااِ نجن پھڑپھڑایا اور وہ یہ جا وہ جا ۔ ’’ہونہہ‘‘ پیچھے رہ گئی اور اس ’’ہونہہ‘‘ کے ایک لفظ کے ساتھ مسترد کی جانے والی سوگندھی بھی، جو اب پہلے جیسی نہیں رہی تھی ۔ فاروقی صاحب ، آپ نے اپنی ہتک کو شدت سے محسوس کرنے والی سوگندھی کی کہانی پر بات ، ان سارے واقعات کے گزر جانے کے بعد ، وہاں سے کی آغاز ہے جہاں بدلی ہو ئی سوگندھی اور پچاس روپے ہتھیانے کے لیے پونا سے آنے والے مادھو کے بیچ پہلے والا تعلق ٹوٹ گیا تھا۔ آپ کے مطابق:
’’مادھو کی ریا کاریوں سے تنگ آکر سوگندھی اسے گالیاں دے کر کھولی سے نکال دیتی ہے۔ اس کا خارش زدہ کتا بھی بھونک بھونک کر مادھو کو کمرے سے باہر بھاگ جانے پر مجبور کر دیتا ہے۔ تم صاف دیکھ سکتے ہو کہ منٹو صاحب نے سوگندھی کو ایک اور طرح کے اقتدار کا حامل بنادیا ۔ اور وہ اقتدار اس وقت مکمل ہوتا ہے جب مادھو کے دُم دبا کر بھاگ نکلنے کے بعد سوگندھی اپنے کتے کو پہلو میں میں لٹا کر سو جاتی ہے۔‘‘
)گفتار سیزدہم: ص۔ ۹۲۔۹۳(
معاف کیجئے محترم فاروقی صاحب !کہ مجھے اوپر کہانی کی تلخیص کرنا پڑی اور اس کا سبب یہ بنا کہ کم از کم اس افسانے کے حوالے سے یہ’’ اقتدار ‘‘والی بات مجھے ہضم نہیں ہو رہی تھی ۔ یہاں خارش زدہ کتے کو پاس لٹا لینے کو آپ نے ،خود سوگندھی کے اپنے دھتکارے جانے سے الگ کر کے محض مادھو کی معزولی سے جوڑ کر دیکھا ہے ۔ سوگندھی صرف طوائف نہیں تھی، عورت بھی تھی ؛ اوروں کے دُکھ درد سمجھنے والی، پریم کر سکنے کی اہلیت رکھنے والی، کریہہ صورت گاہک کے ساتھ،گھِن کو پرے دھکیل کر سو جانے والی، قائم ہو چکے بے نام رشتوں سے بھی نبھاہ کرنے والی اور مادھو جیسے نکھٹو سے جان بوجھ کر لٹتے چلے جانے والی عورت۔جس کا اپنا وجود اس کے لیے بہت محترم تھا مگر جس کی رات دو بجے، سڑک کے بیچوں بیچ ، ’’ٹارچ کی روشنی‘‘ کا جھپاکا اور ’’ہونہہ‘‘ کا طمانچہ مارتے ہوئے’’ ہتک‘‘ کی گئی تھی۔خیر، آگے چل کر، آپ نے بیدی پر بات کرتے کرتے رُک کر یہ بھی تو فرمادیاہے:
’’سوگندھی اپنے ریاکار معمولہ عاشق اور دراصل ایک نہایت ناکارہ گاہک مادھو کو اب تک سہارتی رہی تھی ،لیکن سیٹھ نے جب اُسے مسترد کر دیا تو سو گندھی اس کا بدلہ یوں لیتی ہے کہ مادھو کو دھتکار دیتی ہے، اس کی ٹھکائی کرتی ہے اور اس کے دُم دَبا کر بھاگ نکلنے کے بعد اَپنے خارش زدہ کتے کو پہلو میں لٹا کر سو جاتی ہے‘‘
)گفتار سیز دہم :ص۹۷،۹۸) ۔
یہ دوسری تعبیر، جس میں ایک مرد کی جانب سے کی جانے والی ’’ ہتک‘‘ کا بدلہ ایک دوسرے مرد کی’’ہتک‘‘ اور دھتکار کی صورت میں نکلتا ہے ، دِل کو لگتی ہے۔ آپ نے بہ جا فرمایا کہ ’فکشن ایسی صنف سخن ہے جس میں ہر قدم پر پوچھنا پڑتا ہے کہ زندگی کے بارے میں، ان واقعات کے بارے میں ، جو یہاں بیان کیے جارہے ہیں ، مصنف ہمیں کیا بتانا چاہتا ہے‘‘ (ص ۱۰۰) ۔ میں یہاں یہ اضافہ کروں گا کہ فکشن میں مصنف کو بہ ہر حال واقعات کے سلسلے کے اندر ہی جو کچھ بھی بتانا ہوتا ہے ،بتاتا ہے اوراس افسانے میں منٹو صاحب نے مرد کی تذلیل ہوتے دکھانا چاہی ہے اور یوں کیا ہے کہ وہاں جہاں پر ایک مرد ہوا کرتا تھا،ایک خارش زدہ کتے کو لٹا دیا گیا ہے۔یوں ،یہ کسی (کتے )کو اقتدار دینے کے لیے نہیں بلکہ پہلے سے اقتدار پر موجود مرد( جو عورت کی تذلیل اور ہتک کا مرتکب ہوا ) کی ہتک آمیز معزولی کا افسانہ ہے۔
..........
اپنا’’خوشیا‘‘ ہی تو ہے !
جب آپ نے منٹو صاحب کے افسانہ ’’خوشیا ‘‘ کی بات کی ،تو میں خوش ہوا تھا کہ اس کا مفصل تجزیہ بھی پڑھنے کو ملے گا، جیسا کہ ’’بو‘‘ کے باب میں ہو ا مگر آپ اس افسانے سے بھی سرسری گزر گئے اپنے سوال کنندہ سے بس اتنی شکایت کرکے کہ ’’تم نے ’’خوشیا‘‘ کو بھی کچھ کہے بغیر چھوڑ دیا ، حالاں کہ خوشیا اور کانتا میں ایک طرح کی نفسیاتی برابری ہے جو سوگندھی اور مادھو کی یاد دلاتی ہے‘‘(ص۔ ۹۲) اوریہ کہ’’ کانتا اپنے دلال خوشیا کو مرد نہیں سمجھتی ۔ ‘‘ (ص۹۳) جی، یہ بھی کہ’’ خوشیا اس’’ ہتک‘‘ کا’’ بدلہ‘‘ یوں لیتا ہے کہ کانتا کو گھر میں ڈال لیتا ہے، یا شاید شادی کر لیتا ہے۔‘‘(ص ۹۳)اور اس سے جو نتیجہ اخذ کیا ہے یہ وہ بنتا ہے:
’’۔۔۔خوشیا جیسا کردار توفیق سے خالی نہیں ، جیسا کہ منٹو نے کچھ تفصیل سے کام لے کر ہمیں بتایا ہے ۔[’’ہتک‘‘ اور ’’خوشیا‘‘] دونوں افسانے ایک ساتھ یکے بعد دیگرے پڑھے جائیں تو یہ بصیرت ہم پر عیاں ہو سکتی ہے کہ سوگندھی اور خوشیا ایک ہی سکے کے دو پہلو ہیں ۔ سوگندھی میں ایک طرح کا ’’مردانہ پن‘‘ ہے اور خوشیا میں ایک طرح کا ’’زنانہ پن‘‘ لیکن دونوں کا’’ شکارپن‘‘ ایک ہی طرح کا ہے۔‘‘
)گفتار سیز دہم :ص ۹۳(
اس سے اتفاق کیا جانا چاہیے کہ خوشیا اور سوگندھی میں مشابہتیں پائی جاتی ہیں اس کے باوجود کہ ایک مرد ہے اور دوسری عورت، ایک دلال ہے اور دوسری رنڈی ، ایک اپنے وجود پر نظر ڈالتی ہے تو اس کا اپنے آپ پر اعتماد گہرا ہو جاتا ہے اور دوسرے کی نظر میں اس کے اپنے وجود کے کوئی معنی نہیں ہیں ۔ یہ اپنے وجود پر اعتماد والی بات، میں نے یوں ہی نہیں کر دی، منٹو صاحب نے ’’ ہتک ‘‘ کا متن ترتیب دیتے ہوئے قاری پر اس کے منکشف ہونے کا قرینہ رکھا ہے ۔ گنیش جی کی مورتی سے روپے چھوا کر بوہنی کرنے والی سوگندھی کی اُبھری ہوئی چھاتیاں یاد رہیں جو سوگندھی کو اپنے بدن میں سب سے زیادہ پسند تھیں ؛ نیچے سے سیب کے گولوں جیسی۔ وہ اپنے وجود کے دوسرے حصوں میں/پر پھیل جانے پر بھی قادر تھی ۔ جی، سارے وجود پر اور سارے وجود میں ۔ یہ وجود تھکن چاہتا تھا ؛ ایسی تھکن جو سارے اعضا کو جھنجھوڑ ڈالتی ہو، توڑ دیتی ہو؛ اپنے جسم کو نگاہ میں رکھنے والی، اس سے لذت کشید کرنے والی اور اس کے لیے لذت کا تسلسل اور تھکن کے سلسلوں کی تمنا کرنے والی سوگندھی کے مقابلے میں خوشیا کے کردار پر اس کا جسم ابھی منکشف نہ ہوا تھا ۔ یوں دیکھیں تو منٹوصاحب نے اپنے باریک کام سے دونوں کو مختلف کر لیا تھا ۔
ایک دو باتیں اس باب میں اور دیکھیے: منٹو صاحب نے ’’ہتک‘‘ میں سوگندھی کے بچپن کی آنکھ مچولی اور ایک بڑے صندوق میں اس کے چھپنے کونمایاں کیا ہے۔ صندوق میں ناکافی ہوا ہوتی لہذا دَم گھٹنے کے ساتھ ساتھ پکڑے جانے کے خوف سے اُس کے دِل کی دھڑکن تیز ہو جاتی تو اُسے مزہ آتا تھا ۔ منٹو صاحب نے اسی سے متصل سوگندھی کی ایک خواہش بھی متن میں رَکھ دی ہے؛ یہی کہ وہ چاہتی تھی، جس صندوق میں وہ چھپی، ساری عمر اس کے باہر اسے ڈھونڈنے والے، ڈھونڈتے رہیں یا پھر وہ اُنہیں ڈھونڈا کرے ۔
’’خوشیا‘‘ کا بچپن ایسی کسی خواہش اور دھڑکنوں کے لطف سے خالی ہے۔ یہ بات اپنے قاری پر واضح کرنے کے لیے افسانے کے متن میں اس کا خاص اہتمام ملتا ہے ؛ وہیں، جہاں بتایا گیا ہے کہ ’’خوشیا ‘‘ افسانے کے کلیدی کردار کے بچپن کے زمانے میں اس کی پڑوسن کا وتیرہ تھا کہ وہ خوشیا کو پانی کی بالٹی بھر کے لانے کا کہتی اور خود دھوتی سے بنائے ہوئے پردے کے پیچھے ننگی ہو کر بیٹھ جاتی۔وہ پانی بھر کر لاتا تو وہ کہتی؛ پردہ ہٹا کر بالٹی اندر رکھ دے ۔ وہ تب ننگی عورت دیکھتا تھا مگر دِل کی دھڑکن بر ہم نہ ہوتی تھی، کوئی ہیجان پیدا نہ ہوتا۔ پھر جب جوان ہوکر وہ رنگ رنگ کی رنڈیوں کا دلال بن گیا تو بھی ( فاروقی صاحب، آپ ہی کے لفظوں میں) وہ ’’بھڑوے کا بھڑوا ‘‘ہی رہا ۔ تو یوں ہے کہ اس مختلف ہو جانے والے کردار کے سامنے اپنا جسم اور اُس کے جنسی سطح پر زور کرنے والے تقاضے نہ تھے ۔ جس ماحول میں وہ تھا لگتا ہے اس کا عادی ہو کر’’بھڑوا ‘‘ ہو گیا تھا، مگر ننگی کانتا نے اُسے جب اس لیے اندر آنے دیا کہ ’’اپنا خوشیا ہی تو ہے‘‘ تو اسے بُرا لگا ہے تھا ۔
جی، میں اسے آغاز میں ’’برا لگنا‘‘ ہی کہوں گا ۔ اس لیے کہ ایک ایسی عورت جس کا جسم خوب صورت اور جوان تھا اُس نے اس کے اندر کسی’’توفیق ‘‘ کو نہیں جگایا تھا ۔ یہ اگر کوئی ’’توفیق‘‘ تھی تو بہت بعد میں جاگی تھی ۔ تب تو وہ حیران ہوا تھا کہ کانتا اُس کے سامنے ننگ دھڑنگ کھڑی تھی اور متعجب بھی کہ جسم بیچنے والی عورت ایسا سڈول جسم رکھتی تھی۔ اس کے جسم میں تب تک کوئی ہیجان تھا، نہ اپنی توہین کا احساس ۔ اپنی’’ ہتک ‘‘ کو تواُس نے کچھ کر گزرنے کے لمحے کے ٹلنے کے بعد، کہ جب وہ ایک بند دکان کے باہر، سنگین چبوترے پر بیٹھا سوچ رہا تھا، تب محسوس کیا تھا۔ سوچ سوچ کر وجود پر طاری کی جانے والی ہتک کے احساس کو بجلی کے کوندے کی طرح جسم کو بھسم کرنے والی ہتک سے مختلف ہونا تھا ،سو منٹو صاحب نے اُسے مختلف کرکے دِکھا دِیا ہے۔
اور یہیں یہ کہنے کی اجازت بھی چاہوں گا کہ افسانے کا متن، آپ کےِ اس بیان کی تصدیق نہیں کرتا کہ’’ خوشیا نے ’’ ہتک‘‘ کا’’ بدلہ‘‘ لینے کے لیے کانتا کو گھر میں ڈال لیا یا اُس سے شادی کرلی تھی (ص ۹۳)، بل کہ صاف صاف بتا دیا گیا ہے کہ جب خوشیا اپنے ایک دوست کے ساتھ کانتا کے گھر گیا تھا ، تو خود ٹیکسی میں بیٹھا رہا تھا، اندر نہیں گیا تھا۔ ایسے کردارمیں اتنی ’’توفیق ‘‘ کہاں کہ وہ اپنی شادی کے لیے کانتا سے بات کرپاتا ۔ وہ تو وہاں اپنے آپ کوخوشیا نہیں ایک ’’تماشبین مرد‘‘ ثابت کرنے پہنچا تھا ۔ ایک ’’رنڈی‘‘ کا’’ گاہک‘‘ مرد ۔ پہلی بار وہ ایسا مرد بننے کا سوانگ بھر رہا تھا۔ دوسری بار شیو کرانے سے لے کر دوست کے ہاتھوں بھاڑا دِلوا کر کانتا کو بغیر گاہک کا نام ظاہر کئے باہر بلوانے اور گاڑی میں بٹھانے تک اُس کا دِل دھڑکتا رہا تھا ، یوں جیسے بیکار میں انجن چالو ہو۔ اچھا پھر اس افسانے کے آخری جملے کو کیوں نظر انداز کر دیا جائے جو خوشیا کے بعد میں نظر نہ آنے کی بات تو کرتا ہے ، کانتا کے بارے میں ایسی کوئی اطلاع نہیں دیتا ۔ منٹو صاحب نے انجام کو قدرے اوپن رَکھ کر اس کی معنویت ضروربڑھا دی ہے مگر اسے کسی صورت میں ’’گھر ڈالنے‘‘ اور’’ شادی کر لینے‘‘ سے تعبیر نہیں دِی جا سکتی۔
..........
’’سڑک کے کنارے‘‘:بے ایمانی اورفراڈ
منٹو صاحب کے افسانے ’’سڑک کے کنارے‘‘ کا نام لے کر آپ نے اقبال کو یاد اور اس افسانے کی حد تک اسے اس خیال کے رومانویت سے پھوٹنے کے باوجود راحت انگیز قرار دیا تھا کہ ادب زندگی کی قوتوں کی تائید کانام ہے۔ تاہم ساتھ ہی ساتھ ا فسانے کو فراڈ بھی کہہ ڈالا ۔ آپ کے نزدیک اس افسانے کی نثر عمدہ تھی مگر اس میں سے ایک طرح کی بے ایمانی جھلک دے جاتی تھی ۔ (ص۱۰۳(وضع حمل کے فوراًبعد ایک ماں کا ’’اپنی ناجائز‘‘ بچی کو ٹھنڈے بھیگے کپڑے میں لپیٹ کرسڑک کے کنارے پھینک جانا لیکن بچی کا نہ مرنا آپ کے نزدیک فراڈ ہوا؛ جب کہ پولیس اس نوزائدہ بچی کو اُٹھا کر لے گئی تھی ۔
بچی کیوں نہیں مری؟ اِس کا سیدھا سا جواب تو یہ ہے کہ افسانہ نگار نے اِسے متن میں بچا لینے کا قرینہ رکھ دیا تھا، اِس لیے ۔ ہاں ،میں اس سے متفق ہوں کہ بچی مر جاتی تو یہ پست درجے کا افسانہ ہوتا ۔ منٹوصاحب کے بنائے ہوئے انجام کے ساتھ زندگی کی قوت کی تصدیق ہو جاتی ہے اور اس نے آپ کو اقبال کی یاد دلا دِی۔
جی ، آپ نے اس کی نثر کو عمدہ قرار دیا تو مجھے اچھا لگا ؛منٹو صاحب کے ہاں انسجام اور استعارے کی چمک کی عدم موجودگی والی شکایت ، یقیناً آپ کو یہاں نہ ہوئی ہوگی ۔ عین آغاز ہی میں منٹوصاحب ، اس افسانے پر بہت توجہ دیتے اور محنت صرف کرتے نظر آرہے ہیں :
’’یہی دن تھے۔ آسمان اس آنکھوں کی طرح ایسا ہی نیلا تھا جیسا کہ آج ہے۔ دُھلا ہوا۔ نتھرا ہوا۔ ۔۔اور دھوپ بھی ایسی ہی کنکتی تھی ۔سہانے خوابوں کی طرح ۔ مٹی کی باس بھی ایسی ہی تھی جیسی کہ اس وقت میرے دِل دِماغ میں رچ رہی تھی ۔۔۔۔اور میں نے اسی طرح لیٹے لیٹے اپنی پھڑپھڑاتی ہوئی روح اس کے حوالے کر دی تھی۔‘‘
)افسانہ :’’سڑک کے کنارے‘‘(
جب منٹوصاحب اس طرح سنبھل سنبھل کر نثر لکھ رہے ہوں، توہم جان جاتے ہیں کہ وہ کسی مشکل یا پھر نازک موضوع پر ہاتھ ڈالنے والے ہیں ؛ جی ایسے موضوع پر ،جسے سیدھے سبھاؤ لکھتے چلنے جانے میں کچھ رکاوٹیں یا خطرے ہوں۔ منٹوصاحب میں حوصلہ تھا کہ وہ رکاوٹوں کو الانگ پھلانگ جائیں اور خطرات سے بھڑ جائیں(کوئی مضمون یا خاکہ لکھنا ہوتا تو ایسا ہی کرتے) مگر افسانہ لکھتے ہوئے انہیں ، اُسے فن پارہ بنا نا ہوتا تھا ؛ سو وہ ایسے میں، اسی طرح زبان کو آڑ بنا لیا کرتے تھے ۔ ’’دھواں ‘‘ کے آغاز کو دیکھ لیجئے ، اس میں بھی آغاز ہی سے آپ منٹو صاحب کو سنبھلے پائیں گے ؛ اپنے موضوع کو تھام کر سلیقے سے آگے بڑھتے ہوئے ۔
’’سڑک کے کنارے‘‘ بہ قول منٹو صاحب ایسی ماں کی کہانی تھی جو وجود کو جنم دیتے ہی زچگی کے بستر پر فنا ہو گئی تھی۔ لفظوں کی تتلیاں اُڑتی ہیں اور منٹوصاحب انہیں پکڑنے کو دوڑتے ہیں اور لگتا ہے اس افسانے میں کامیاب بھی رہتے ہیں ۔ کہانی میں واقعات تھم گئے ہیں مگر ان تتلیوں نے خوب چہل پہل کر دی ہے حتی کہ تین صفحات ختم ہو جاتے ہیں تب جاکر کہانی آگے بڑھتی ہے اور منٹوصاحب کہانی کے آغاز والی سطروں کو دہرا کر وہ لکھنے لگتے ہیں جسے پڑھنے کے لیے وہ ہمیں تیار کرتے رہے تھے:
’’میرے سینے کی گولائیوں میں مسجدوں کے محرابوں ایسی تقدیس کیوں آرہی ہے؟‘‘[۔۔۔۔۔۔] یہ نقش قدم کس کا ہے جو میرے پیٹ کی گہرائیوں میں تڑپ رہا ہے۔ [۔۔۔۔۔] میری روح پسینے میں غرق ہے۔اس کا ہر مسام کھلا ہواہے۔چاروں طرف آگ دہک رہی ہے۔ میرے اند کٹھالی میں سونا پگھل رہا ہے۔[۔۔۔] میری بانہیں کھل رہی ہیں ۔[۔۔۔] میرے سینے کی گولائیاں پیالیاں بن رہی ہیں ۔ لاؤ اس گوشت کے لوتھڑے کو میرے دِل کے دُھنکے ہوئے خون کے نرم نرم گالوں میں لٹا دو۔۔‘‘
)افسانہ :’’سڑک کے کنارے‘‘ (
آپ نے دیکھا منٹو صاحب کے ہاں سنبھل سنبھل کر چلنے اور سلیقے سے موضوع کھولنے اور انجام کی طرف بڑھنے کا کتنا حوصلہ ہے۔ ایک ایسی عورت کی کہانی ؛ جو ماں بنتی ہے مگر ماں بننے کا یہ عمل ’’گناہ کا کڑوا پھل‘‘ ہو گیا ہے۔
کہانی کو یہاں پہنچا کر جس سلیقے سے اس کی راوی کو الگ کر دیا گیا ہے اور انجام کو ایک اخبار میں شائع ہونے والی ایک خبر بنایا گیا ہے ، اس قرینے کی داد بنتی ہے ۔ بچی جسے کسی سنگدل نے گیلے کپڑے میں مرنے کے لیے سڑک پر پھینک دیا تھا مر کیوں نہیں گئی؟ ایک دفعہ پھر دہراتا ہوں؛ اس لیے کہ افسانہ نگار اُسے مارنا نہیں چاہتا تھا ۔ افسانہ نگار اپنی کہانی کا خدا ہوتا ہے؛ جسے چاہتا ہے مار دیتا ہے، کوئی بھی بہانہ بنا کر اور بچانے پر آتا ہے تو دھوبی منڈی کی پولیس کو زندگی کا فرشتہ بنا کر بھیج دیتا ہے کہ وہ ایک گیلے کپڑے میں لپٹی ہوئی نیلی آنکھوں والی خوب صورت بچی کو بچا لے ۔ ہاں، یہ منٹو صاحب بھی جانتے تھے کہ بچی مر جاتی تو یہ پست درجے کا افسانہ ہوتا۔
..........
’’فرشتہ‘‘ ،’’پھندنے‘‘،’’باردہ شمالی‘‘ اور آج کا افسانہ
’’گفتار چار دہم‘‘ منٹو صاحب پر آپ کے خیالات کا آخری حصہ ہے۔ گفتار کے اس باب میں افسانہ ’’فرشتہ‘‘ کو زیر بحث لایا گیا ہے اور اس باب میں آپ نے فیصلہ دیا ہے کہ یہ ایک طرح کا تجریدی افسانہ ہے ۔ آپ نے بجا طور پر اس افسانے کی زبان میں شدت اور موسیقیاتی تناؤ کو نشان زد کیا ۔ ایسے میں آپ کو انور سجاد صاحب کا یاد آنا یقینی تھا اوروہ آئے ؛یہ الگ بات کہ اُنہوں نے اِن دنوں اپنے آپ کو، ایک فکشن نگار کی حیثیت میں ، شاید ہی یاد رکھا ہوا ہو۔ خیر انور سجاد اردو فکشن کو چاہے بھول جائے؛ یہ اسے نہیں بھولے گی ۔ اچھا، جب ’’فرشتہ‘‘ افسانے کی علامتی فضا کی بات ہوئی، اس کی زبان کے گٹھاؤ کی اور اس کو نثری نظم کا سا کہا گیا تو جس طرح اس انداز کے سحر میں مبتلا ہونے والوں کا ذکر ہوا ،اسے ویسا ہی نقل کیے دیتا ہوں:
’’ کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ انور سجاد کاجدِاعلٰی [افسانہ ’’فرشتہ کا افسانہ نگار منٹو] تمھارے سامنے موجود ہے؟ کیا تم دیکھتے نہیں ہوکہ خالدہ حسین(اصغر) اور احمد ہمیش سے لے کر شرون کمار ورما، قمر احسن ، انور خان، حسین الحق، سلام بن رزاق، اکرام باگ۔ عوض سعید ، پھر(شروع کے زمانے کے)منشایاد اور رشید امجد، اور آج کے محمد حمید شاہد نے نثر لکھنا کس سے سیکھا ؟ حتیٰ کہ ضمیر الدین احمد(’’گلبیا‘‘) بھی منٹو کے سحر سے نہ بچ سکے۔‘‘
)گفتار چار دہم:ص۔ ۱۰۶(
مجھے شکریہ ادا کرنے دیجئے کہ آپ نے اوروں کے ساتھ آج کے محمد حمید شاہد کو بھی یاد رکھا ؛ تاہم یہیں مجھے یہ کہنا ہے کہ آج کے اَفسانہ نگارنے منٹو کی اس کہانی کو بھی رد نہیں کیا ہے جو’’ فرشتہ‘‘ ، ’’پھندنے ‘‘ اور ’’باردہ شمالی‘‘جیسی ہوجانے سے انکاری ہے ۔آج کے افسانہ نگاروں نے کہانی کے خارجی ٹھوس پن کو جدید اَفسانے کا نعرہ لگانے والوں کی طرح ٹھینگا نہیں دکھایا اور نہ ہی جدید اَفسانے کی حقیقی باطنی پیچ داری کو زِر غَل اور اَرذَل قرار دے کر منھ موڑا ہے۔ بلکہ ہوا یہ ہے کہ کہانی کا خارج سالم ہو گیا ہے‘ جملے بالکل سادہ نہیں رہے کہ ساری رات ممیائی اور ایک بچہ بیائی کی مثل فقط ایک معنی کو کافی جانیں‘یہ کچھ کچھ پرزم کا وصف اپنانے لگے ہیں۔ کہانیاں مجرد ذات کی ناقابل شناخت لاشیں نہیں رہیں‘ ان میں زندگی اور عصر کی توانائی روح بن کر دوڑنے لگی ہے۔ اور یہ بات میں منٹو کے حوالے سے ایک مضمون میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں ؛ یہاں محض دہرا دی ہے۔
..........
آخری بات:ہم منٹو سے محبت کرتے ہیں
بات منٹو صاحب کی ہو رہی تھی اور میں اپنے زمانے کے افسانے کا ذکر لے آیا۔ خیر یہ ذکر منٹو سے کٹا ہوا بھی نہیں ہے ۔ مانتا ہوں کہ ترقی پسندوں نے منٹو کو مسترد کر دیا تھا اور ’’ فرشتہ‘‘ ، ’’پھندنے ‘‘ اور ’’باردہ شمالی‘‘ جیسے افسانے لکھ کر ’’جدید افسانہ‘‘ لکھنے والوں کے رشتے میں جد اعلیٰ ہونے والے کی بابت کہا گیا کہ منٹو صاحب فرسودہ ہو چکے مگر ہم دیکھتے ہیں کہ جوں ہی زمانہ کروٹ لیتا ہے رہے سہے ترقی پسندوں کو منٹو صاحب شدت سے یاد آنے لگتے ہیں اور ’’جدید‘‘ افسانہ ایک ہی ہلے میں ’’باسی‘‘ ہو جاتا ہے مگر آج کا افسانہ منٹو سے جڑنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا۔ آپ کی اس خصوصی گفتگو کی بابت یہاں یہ اعتراف کرنا چاہوں گا کہ آپ نے مجھے ایک بار پھر منٹو صاحب کے فن کو سمجھنے کی طرف راغب کیا،آپ کے لیے منٹو صاحب کیسے ہیں ؛ وہ ہم نے اس کتاب میں دیکھا اور ہمارے لیے منٹو صاحب ؛ آپ نے دیکھا ہو گا کہ کچھ زیادہ ہی ہمارے ہو گئے ہیں۔ جی ترقی پسندوں اور جدید افسانے والوں سے کہیں زیادہ ہمارے۔ جس طرح آپ نے منٹو صاحب کے فن کی تفہیم نو کے باب میں سنجیدہ گفتگو کی، اس کی قدر کی جانی چاہیے کہ یہ صحت مند مکالمے کا باعث ہوگی ۔ یقیناًآپ اور دوسرے لوگ بھی مجھ سے اختلاف کرنا چاہیں گے ،بالکل ایسے ہی جیسا کہ میں نے آپ سے کئی مقامات پر اختلاف کیا ۔ اگر ایسا ہوتا ہے اور شائستگی اور ادبی وقار سے منٹو صاحب پر مکالمہ آگے چلتا ہے اور نئی نئی بصیرتیں سامنے آتی ہیں توپھر کسی کو یہ کہنے کی ضرورت نہ ہوگی کہ ’’منٹو صاحب کو کسی نقاد کی ضرورت نہیں تھی ۔‘‘ اور اسے بھی شمس الرحمن فاروقی کی عطا سمجھا جائے گا کہ منٹو صاحب اور ان کے فن کواور طرح سے دیکھا جا رہا ہے ۔ آخر میں مجھے منٹو صاحب اور ان کی فکریات اور فن کے بارے میں آپ کی ایک ایسی بات عین مین نقل کر دینی ہے جو ہم سب کو بہت معتبر اور لائق اعتنا ہو گئی ہے :
’’ہم منٹو صاحب کی قدر اس لیے کرتے ہیں ،ان سے محبت اس لیے کرتے ہیں کہ ان کے یہاں انسان، محض انسان ہے ۔ ان کے یہاں عورت محض عورت ہے؛ آبرو باختہ قحبہ ، جنسی لذت کے پیچھے دیوانی پھرنے والی خیلا چھتیسی ، مردوں کو لبھانے کے لیے جان توڑ محنت کرنے والی ، اور مرد سے ایک بار پھنس جائے تو پھر تاحیات اس کی نوکرانی،اس کی رنڈی، اس کی بچوں کی ماں،وغیرہ وغیرہ نہیں ہے۔ منٹو صاحب کی دنیا میں مرد اور عورت دونوںیکساں ہیں، یعنی دونوں انسان ہیں،دونوں فاعل (subject) ہیں ، جس حد تک اِنسان اِس دنیا میں فاعلیت رَکھ سکتا ہے۔ ‘‘
)گفتارسیز دہم:ص۔۱۰۰(
۱۷ اگست ۲۰۱۳ء محبت اور احترام کے ساتھ
اسلام آباد محمد حمید شاہد
منٹو صاحب کے افسانہ ’’بُو‘‘ کے متن اور کہانی کے بہاؤ پر آپ نے بات کم کم کی مگر اس میں سے ’’خاص بو‘‘ کے حوالے سے ممتاز شیریں نے جو کہا اس میں سے کئی نقاط نکالے اور ’’بو ‘‘ اور’’ جنسی کشش‘‘ کے مضمون کے کئی رنگ دکھائے۔ لیڈی چیٹرلی کے مالی کا جنسی طور پر مستحکم ہونا، انیسویں صدی کیDuchess of Wellington کے صاحب کا مستی میں دن دیہاڑے کپڑے اُتارے بغیرچار چار بار خوب پینگیں دینا۔ اپنی عمر کے اوائل میں پڑھے ہوئے رشید اختر ندوی کے ناول ’’رونق‘‘ کی بھولی بھالی لڑکی کے بدن سے ’’بو‘‘ کا اُٹھنا ، غالب کا بیگموں کے ڈومنی پن کا ذکر کرنا، بعض جانوروں کے جسم سے خارج ہونے والی خاص بو کا صنف مخالف کو خبردینا ۔ یوسا(آپ کے نزدیک لیوسا) کے ناول سے موئے زہار کی بو،پیشاب کی بو،یوسا کے اسی ناول The Note Book of Don Rigoberto کی لکریشا کے کموڈ پر بیٹھنے کا منظر اور پاخانہ خارج کرنے کی بو، پابلو نرودا کی نظم کا حوالہ کہ شاعر کی معشوقہ’’شہد کی دھار‘‘ زمین پر گراتی تھی، پروکاش کے ناول کے مطابق ؛بائرن کو اپنی معشوقوں کی ریاح کی’’ مہک‘‘ کا اچھا لگنا ،مارکوئی دَساد کی اپنی عورتوں کا اس کے مطالبے پر اُس کے منھ پر ریاح چھوڑنا اور سب سے زیادہ بدبودار اور زور داراخراج کے مزے لینا۔ جیمس جوائس کا عورتوں سے مباشرت کے دوران اخراج النسائم کا لطف لینا، پیشاب کی دھار کے گرنے کی خاص آواز کہ جب رنڈی رات کو اُٹھ کر برتن میں پیشاب کرے، چرکین کے معاملات بول براز وغیرہ وغیرہ وغیرہ، یہ ’’بو‘‘ جو کتاب کے صفحات پر پھیلی ہوئی ہے؛ میں نے سمیٹ کر لکھنا چاہی تو بھی کئی سطروں میں گھس گئی۔ سچ پوچھیں کہ علم چاہے جس باب میں ہو جس طرح آپ کے ہاں ہمیشہ مستحضر رہا ، اس پر حیرت ہوتی ہے اور جی عش عش بل کہ اَش اَش کر اُٹھتا ہے۔ ہاں تو اب جو پلٹ کر دیکھتا ہوں توکچھ کچھ افسوس بھی ہوتا ہے کہ یہاں تعبیر اور تعیین قدر منٹو صاحب کے افسانے ’’بو‘‘کی ہو رہی تھی مگر افسانہ ایک طرف رہ گیا اور بات بو کی طرح محض لفظ ’’بو‘‘ اور اس کے نمونوں تک پھیل گئی۔
لیجئے، میں اس افسانے کے باب میں آپ کے تنقیدی فیصلوں کی طرف دیکھتا ہوں جن کی فہرست یوں بنائی جا سکتی ہے :
۱۔ ’’بو ‘ ‘ کو میں معرض بحث میں اس لیے لا رہا ہوں کہ اسے زیادہ تر لوگوں نے تھوڑا بہت فحش ،لیکن شاہکار افسانہ سمجھا ہے،‘‘
)گفتاردہم : ص۔۶۴(
۲۔ ’’ میں یہ بات فوراً ہی کہہ دیتا ہوں کہ’’بو ‘‘ میرے خیال میں کوئی عظیم افسانہ نہیں ہے۔‘‘
)گفتاردہم : ص۔۶۵(
۳۔ اپنے مقصد کی حد تک،وہ بڑی حد تک کامیاب ضرور ہے یعنی اس میں یہ دعویٰ بڑی قوت سے کیا گیا ہے کہ جنس کی جبلت کی پوری قوت اورعظمت اور حسن کا اظہار نام نہاد’’اشرافی،شائستہ‘‘ تہذیبی رویوں میں نہیں، بلکہ ’’فطرت سے قرب اور ہم آہنگی‘‘ میں حاصل ہو سکتا ہے۔‘‘
)گفتاردہم : ص۔۶۵(
۴۔ ’’مجھے اس افسانے پر سجاد ظہیر کے اس اعتراض سے کوئی دلچسپی نہیں اور نہ ہی اس کی کوئی وقعت میری نظرمیں ہے کہ یہ افسانہ ’’بورژوا طبقے کے ایک فرد کی بیکار، بے مصرف ، عیاشانہ زندگی کا تجربہ ہے۔یہ تنقید نہیں ، پرانے ترقی پسند صاحبان کے اس خود کار ردعمل کی مثال ہے جسے knee jerk reactionکہتے ہیں۔
)گفتاردہم : ص۔۶۵(
۵۔ ’’بو‘‘ کا سارا فلسفہ(اگر وہ فلسفہ ہے) لارنس سے مستعار ہے۔‘‘۔۔۔[جب کہ] ’’لارنس خاصا بے وقوف تھا ، لیکن اسے اتنا تو ضرور معلوم رہاہو گا کہ جنسی لذت اور قوت کسی ’’زمینی تہذیب ‘‘ یا ’’فطرت سے قرب‘‘ کا اظہار نہیں۔
)گفتاردہم : ص۔۶۶(
۶۔ ’’ تو میاں ،’’بو‘‘ اوسط درجے کا افسانہ ہے[۔۔۔۔]یہ ایک سادہ سا، جنسی عمل کی لذت کے محتاط بیان کی بڑی حدتک کامیاب کوشش ہے۔‘‘
)گفتاردہم : ص۔۷۱(
۷۔ ’’اس کا سب سے بڑا عیب، اس کی نام نہاد فحاشی نہیں، بل کہ یہ ہے کہ سارا افسانہ رندھیر کے نقطہ نظر سے لکھا گیا ہے۔‘‘ [۔۔۔]’’ اس [گھاٹن]لڑکی کو منٹو نے صرف ایک جنسی شے(Sex Object) بنا کر پیش کیا ہے۔خود اس گھاٹن عورت کے نقطہ نظر سے منٹو صاحب نے ایک حرف بھی نہیں لکھا ہے۔ ‘‘
گفتاردہم : ص۔۷۱(
۸۔ ’’شہر کی پلی بڑھی، اسکول کالج میں پڑھی ، عروسی لباس سے مزین اور عروسی عطر سے معطر، کچھ اس نو بیاہتا کا بھی تو رد عمل ہوگا ۔ ممکن ہے اس نے رندھیر کو نا مرد سمجھ لیا ہو۔‘‘
)گفتاردہم : ص۔۷۲(
۹۔ ’’فطرت‘‘ اور ’’شہر‘‘ کی یہ تفریق مصنوعی اور فرضی ہے۔[۔۔۔] منٹو صاحب خوش نصیب تھے کہ اتنے اوسط درجے کے افسانے کو اس قدر اہمیت ملی اور اس کے باعث انھیں شہرت ملی۔
)گفتاردہم : ص۔۷۲(
جناب فاروقی صاحب، مجھے تو منٹو صاحب کے ’’اوسط درجے کے افسانے ‘‘ پر رَشک آنے لگا ہے کہ اس نے آپ کے ہاں اتنی بھر پور توجہ پائی ،خوب خوب مصروف رکھا ، لگ بھگ نو جان دارصفحات لکھوائے، اتنے ہی بھرپور تنقیدی فیصلے دینے پر اُکسایا اور ساتھ ہی ساتھ ڈھیر سارا علم بھی ہتھیا لیا ۔ ایسے نصیب تو منٹو کے ان تیرہ افسانوں کا بخت بھی نہ بن پائے تھے، جو بہ قول آپ کے سارے نہیں تو ان میں سے اکثر شاہکار ہیں ۔مثلاً دیکھئے ابھی تک ’’موذیل ‘‘ کا ذکر ہوا نہ ’’بابو گوپی ناتھ‘‘ جب کہ دونوں ایسے افسانے تھے کہ ان کے بغیر منٹو صاحب کو ڈھنگ سے سمجھا ہی نہیں جا سکتا۔ ’’ ٹوبہ ٹیک سنگھ‘‘ کی کیا کیا تعبیریں ہو رہی ہیں اور آپ ہیں کہ اس افسانے کو لائق اعتنا ہی نہ جانا۔ ’’ہتک‘‘ پر بات ہوئی مگر آپ بیدی کی طرف نکل گئے ۔ ’’جانکی‘‘،’’شاردا‘‘، ’’لتیکا رانی‘‘،’’ میرا نام رادھا‘‘ یہ سب، آپ نے تیرہ افسانوں والی فہرست میں شامل کیے تھے مگر کتاب ختم ہونے کو ہے اور ان پر آپ بات کرنے پر خود کو مائل نہیں کر پاتے ۔ واپس جاکر ’’بادشاہت کا خاتمہ‘‘ کا تجزیہ دیکھتا ہوں اور اگلے صفحات پر آنے والی ’’پھندنے‘‘ پر آپ کی تنقید پڑھتا ہوں تو دونوں ’’بو ‘‘ کے مقابلے میں بہت کم وقت لے پائیں ۔ مجھے حیرت ہوتی ہے اور دُکھ بھی جب’’ نیا قانون‘‘ اور ’’ کالی شلوار‘‘ جیسے افسانے بھی آپ کو کچھ کہنے پر اُکسا نہیں پاتے ۔ تو یوں ہے کہ منٹو صاحب کا افسانہ’’بو‘‘ تو اس اعتبار سے سب پر بازی لے گیا۔
اس کے باوجود محترم فاروقی صاحب مجھے کہنا ہے کہ افسانے پر کچھ اور زاویوں سے بات ہونی چاہیے تھی۔ مثلاً :
)الف)۔ منٹو صاحب نے اس افسانے کانام ’’بو‘‘ رکھا تھا اور ’’بو‘‘ ،’’خوش بو‘‘ کے معنی دیتی ہے اور’’ بدبو‘‘ کے بھی۔ جرات نے کہا تھا؛’’ اس کی بوباس میں لوں اور وہ بدن سونگھے مرا‘‘۔ اور مرزا نوشہ کہتے تھے :’’ ظاہر ہے کہ گھبرا کے نہ بھاگیں گے نکرین/ہاں منھ سے مگر بادہ ءِ دوشینہ کی بو آئے۔‘‘ تو یوں ہے کہ منٹو صاحب نے اِس عنوان کو ان دو معنوں میں قائم کیا جب کہ ہماری تنقید محض ’’بدبو‘‘والی ’’بو ‘‘کو لے اُڑی ہے ۔ افسانے سے ایک اقتباس :
’’ ساری رات رندھیر کو اس کے بدن سے عجیب و غریب قسم کی بو آتی رہی تھی۔ اس بو کو جو بیک وقت خوش بو اور بدبو تھی وہ تمام رات پیتا رہا تھا‘‘
)افسانہ:’’بُو‘‘(
)ب)۔ افسانے کی زبان میں بھی دوسطحوں پر معاملہ کیا گیا ہے ایک طرف گھاٹن اور اس کے تصور سے وابستہ بھیگی ہوئی میلی مہک ہے اور دوسری طرف کھڑکی کے باہر پیپل کے پتے رات کے دودھیالے اندھیرے میں جھمکوں کی طرح تھرتھرا رہے ہیں اور نہا رہے ہیں اور وہ گھاٹن لونڈیا رندھیر کے ساتھ کپکپاہٹ بن کر چمٹی ہوئی ہے ۔ دیکھیے منٹو صاحب نے منظر کی خوب صورتیاں بیان کی ہیں اور اس میں سے اور کپکپاہٹ بنی گھاٹن کے بدن سے خوش بو نکل کر بہنے لگی ہے ۔
(ج)۔ اس افسانے کی تنقید کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ منٹو صاحب نے اس افسانے کے اندر ایک خاص ماحول بناکر اپنے قاری کو درپیش صورت حال کے لیے تیار کیا ہے ۔ جنگ عظیم دوم چھڑ چکی ہے اور اس باعث رندھیر کی زندگی میں بھی ایک تبدیلی وقوع پذیر ہو چکی ہے ۔وہ کئی دنوں سے تنہائی جھیل رہا ہے۔
(د)۔ اسے بھی نگاہ میں رکھنا چاہیے کہ رندھیرہیزل کو پٹانا چاہتا تھا جو ہر روز صبح صبح وردی پہن کر اور اپنے کٹے ہوئے بالوں پر خاکی ٹوپی ترچھی رکھ کر باہر یوں نکلتی تھی کہ فٹ پاتھ پر تمام جانے والے گویا اس کے قدموں کے آگے ٹاٹ کی طرح بچھ جایا کرتے تھے ۔ اس نے تو ہیزل کی تازہ تازہ رعونت کا بدلہ لینے کے لیے گھاٹن لڑکی کو اشارہ کیا تھا۔
یہ چار باتیں نگاہ میں رہیں تو باقی سارے شکوے خود بہ خود ہوا ہو جاتے ہیں ۔ ایک ماحول جس کے آپ عادی ہو گئے ہیں اس سے اوب کر نکلنے دوسرے ماحول میں جانے کے بعد ایک لطف سے ہم کنار ہونا کوئی خلاف واقعہ بات نہیں ہے۔ کرسچین چھوکریاں، مہذب تھیں اور جنسی کشش اُن میں بھی تھی۔ اسی کو ہر جسم کی الگ الگ مہک کہہ لیں ۔ افسانے کا کام ایک متھ قائم کرنا ہے ؛ حقیقت میں ویسا ہوتا ہے یا نہیں ، یہ اس کا مسئلہ ہے نہ منصب ۔ بس ہونا یہ چاہیے کہ پڑھتے ہوئے اِس پر اعتبار آئے ۔ اور فاروقی صاحب آپ کے اوپر والے ایک تنقیدی بیان کے مطابق ، جو میں نمبر۳ پر درج کر آیا ہوں منٹو صاحب اپنے مقصد میں بڑی حد تک کامیاب ہیں یعنی اس افسانے میں جو دعویٰ کیا گیا یا متھ بنائی گئی اس میں بڑی قوت ہے اور قاری کو تسلیم کیے ہی بنتی ہے کہ جنس کی جبلت کی پوری قوت اورعظمت اور حسن کا اظہار تہذیبی رویوں میں نہیں، بلکہ فطرت سے قرب اور ہم آہنگی میں ہے۔ آپ جیسا ناقدچاہے تو اس بات کو نادرست ثابت کرسکتا ہے مگر افسانے کے متن کے اندر یہ متھ قائم ہوگئی ہے۔ یہاں گھاٹن محض جنسی شے یعنی Sex Object نہیں ہے۔ وہ خود بھی اُکتائی ہوئی ہے ۔ رَسیوں کے ایک کارخانے میں کام کرنے والی جوان صحت مند لڑکی ، بارش سے بچنے کے لیے املی کے درخت کے نیچے کھڑی ہونے والی۔ رندھیر کی کھانس کھنگار پر اس کی طرف متوجہ ہوتی ہے اور اشارے پر اس کے پاس چلی آتی ہے تو ایسے میں اس کا رندھیر کے بدن کی کپکپی ہو جانا اس کے اپنے جذبوں کی شراکت کے بغیر ممکن نہ تھا ۔ تاہم یاد رکھنا چاہیے کہ اس کا کلیدی کردار رندھیر ہے؛ گھاٹن لڑکی اوردودھ جیسی سفید چھاتیوں والی لڑکی نہیں دونوں محض ’’بو‘‘ کی علامتیں ہیں۔اب رہا یہ اعتراض کہ رندھیر کی دلہن نے( جو فرسٹ کلاس مجسٹریٹ کی بیوی تھی) اپنے شوہر کو نامرد سمجھ لیا ہوگا ۔ وہ رندھیر کو کیا سمجھتی ہے یہ اس افسانے کا مسئلہ نہیں ہے لہذا افسانے کے متن کا حصہ بھی نہیں ہے ۔ ہاں، اس سوال کو منٹو صاحب نے اپنے افسانے ’’ننگی آوازیں‘‘ میں مسئلہ بنایا تھا ۔ تب جب بھولو کی دلہن میکے چلی گئی تھی کہ راتوں کو کھلے آسمان تلے سوتے ہوئے اِدھر اُدھر کی ننگی آوازیں اسے عائشہ سے پرے گٹھڑی بنائے رکھتی تھیں ۔ میرا خیال ہے اس افسانے کو درست تناظر میں پڑھا جائے گا تو ہمارے تنقیدی فیصلے بھی درست ہو جائیں گے۔
..........
’’ٹھنڈا گوشت‘‘:تھوڑی سی نرم فحاشی
’’گفتار دہم‘‘ ہی میں فاروقی صاحب ،آپ نے منٹو صاحب کے ایک اور افسانے’’ٹھنڈا گوشت ‘‘ پر بات کی ہے۔ تقسیم کے فسادات کے نمایاں ترین اور کامیاب افسانوں میں اس افسانے کو رکھا جاتا رہا ہے مگر آپ کے ہاں یہی افسانہ مردود ہو جاتا ہے اور ادبی تقاضے بھی پورے کرتا نظر نہیں آتا (ص ۷۲)۔ آپ نے اس افسانے پر بات آغاز کرتے ہوئے جب یہ فرمایا کہ’’اگر’’بو‘‘ اوسط درجے کا افسانہ ہے تو ’’ٹھنڈا گوشت‘‘ اوسط سے فروتر ہے(ص۷۲)‘‘ تو میں چونکا تھا۔ لگ بھگ آپ نے منٹو صاحب کے ہر مقبول افسانے کو رد کیا تھا۔ اس افسانے کے مقدر میں بھی آپ کی دھتکار لکھی ہوئی تھی ۔ اچھا آپ کے پاس اس کا جو جواز بنتا ہے پہلے اُسے ایک نظر دیکھ لیتے ہیں۔ آپ کا کہنا ہے کہ افسانہ نگار نے کسی خاص وقوعے ، اور خاص کر افسانے کے انجام کے لیے زمین تیار نہیں کی؟(ص۷۲) اس باب میں آپ کا اعتراض نقل کرتا ہوں:
’’ جب آپ واقعیت یا توافق یعنیVerisimilitude کی دنیا کے افسانے لکھیں گے ، آپ کو اتنا تو کرنا ہوگا کہ ایشر سنگھ کے نامرد ہوجانے کے لیے کچھ نفسیاتی اشارے کرتے۔ اس وقت تو یہ خیال ہوتا ہے کہ ایشر سنگھ کی نامردی محض بہانہ ہے، تھوڑی سی نرم فحاشی کا۔ ‘‘
)گفتاردہم : ص۔۷۲،۷۳(
لطف کی بات دیکھیے کہ کچھ ہی سطروں کے بعد آپ کے قلم سے یہ حقیقت بھی ٹپک پڑی ہے کہ:
’’ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایشر سنگھ کی نامری بالکل فطری ہے لیکن اس میں بھی کچھ شک نہیں کہ یہ نامردی ناگزیر نہیں ہے۔‘‘
)گفتاردہم : ص ۷۳(
فاروقی صاحب !یہاں آپ نے جو بات کی اُس سے مکمل اِتفاق کیا جانا چاہیے۔ ہاں منٹوصاحب چاہتے تو یہاں ایشر سنگھ کی جنسی توانائی بحال کر سکتے تھے ۔یہ آٹھ دِن پہلے کا واقعہ تھا کہ اُس نے سات میں سے چھ کو مار دیا تھا اور ایک لڑکی کو کندھے پر ڈالا اور لاشوں سے دور ،نہر کی پٹڑی کے پاس ، تھوہر کی جھاڑی تلے اسے لٹا دیا تھا ۔ منٹو صاحب نے کس سلیقے سے کلونت کور اور ایشر سنگھ کا مکالمہ قائم کیا اس کی داد دی جانے چاہیے تھی ۔ ایشر سنگھ کو کلونت کے سامنے بات کرنا مشکل ہو رہی ہے قاری کے سامنے نہیں ، لہذا کہانی کے اس حصہ میں جملوں کا ٹوٹ ٹوٹ کر مکمل ہونا اور منٹوصاحب کا ان میں نقطے لگائے چلے جانا سمجھ میں آتا ہے ۔ مگر آپ نے نہ جانے کیوں بیانیے کی خوبی کو خامی بناڈالا ہے؛ جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے :
’’ اب یہ غور کرو کہ منٹوکو یہ انجام فنی طور پر قائم کرنے میں کتنی مشکل ہو رہی ہے۔ مکالمے کس قدر بے جان اور مصنوعی ہیں ۔مجبوراً منٹوصاحب نے بے شمار نقطے لگا لگا کر بات کو ادا کیا ہے۔ تم جانتے ہو یہ انداز گھٹیا درجے کے افسانہ نگاروں کا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں ،جتنے زیادہ نقطے (یعنی ...کا نشان) لگائیں گے، مکالمہ اتنا ہی جان دار ہوگا ۔‘‘
)گفتاردہم : ص ۷۵(
اچھا ،آپ نے یہیں آگے یہ بھی لکھ رکھا ہے کہ منٹوصاحب کے دیگر افسانوں میں نقطے لگانے والی یہ علت کم نظر آتی ہے ۔ اب آپ غور سے دیکھیں گے تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ ایسااس افسانے میں بھی ہے۔ جہاں نقطوں کی ضرورت نہیں تھی ؛وہاں بالکل نہیں ہیں ۔ مثلاً انہوں نے کلونت کے بیان میں کہیں بھی ایسے نقطے نہیں لگائے ۔
بات ہو رہی تھی ایشر سنگھ کی۔ اس کی جنسی تندی پہلے کا سا مظاہر نہیں کر رہی تھی حالاں کے وہ اپنے تئیں بہت کوشش کر رہا تھا، چوڑے چکلے کولہوں اورتھل تھل کرتے گوشت سے بھرپور؛کچھ زیادہ ہی اوپر کو اُٹھے ہوئے سینے والی جی دار دھڑلے دار عورت کلونت۔ وہ جنس کے معاملے میں ایشر سنگھ کے مقابلے کی تھی مگر اپنے مقابل کی ساری کوششیں( جنہیں فاروقی صاحب،آپ نے جملہ کسنے کو ہلکا پھلکا کوک شاستر کہہ دیا) ناکام جا رہی تھی۔ ایسا پہلے نہیں ہوتا تھا، جی اس روز سے پہلے کہ ایشر سنگھ شہر سے لوٹ مار کرکے آیا اور کلونت کولُوٹا ہوا سارا زیور پہنا کر اس کے ساتھ لیٹا تھا مگر کچھ دیر بعد اچانک اُٹھاکپڑے پہنے اور باہر نکل گیا تھا۔ جی ہاں، دیکھئے منٹوصاحب نے کیسے اپنے قاری کو تیار کیا ہے ۔ اسے بتا دیا گیا ہے کہ آٹھ روز پہلے والے اس واقعہ سے پہلے ایشر سنگھ جیسا قاتل ایسے ذہنی کر ب میں مبتلا نہ تھا ۔ اور یہیں متن میں یہ قرینہ بھی رکھ دیا گیا ہے کہ کلونت شک میں پڑ جائے اور پوچھ ڈالے:’’کون ہے وہ چور پتاّ؟‘‘ معاملہ چوں کہ جنس کا تھا لہذا کلونت جیسی کراری اور جنسی طور پر فعال عورت کا بپھرنا بھڑکنا اورکرپان اٹھا کراچانک ایشر سنگھ کو زخمی کرنا ، اس کے کیس وحشی بلیوں کی طرح نوچ ڈالنا ، کچھ بھی ایسا نہیں ہے جو اس جیسے موضوع کو قائم کرنے کے حوالے سے نامناسب ہو ۔
ہم یہ بات تو متن پڑھتے ہی جان جاتے ہیں کہ ایشر سنگھ سفاک قاتل تھا، مگر حسن پرست بھی تھا۔ ایسا حسن پرست اور اس معاملے میں نازک خیال کہ لاشیں گرا رہا تھا اور سامنے ایک ’سندر لڑکی‘ آگئی تو اس کا ہاتھ رُک گیا۔ صرف سندر نہیں؛’’ بہت ہی سندر لڑکی‘‘۔ کلونت کور کے مقابلے کی ؛یا پھر اس سے بھی کہیں زیادہ سندر:
’’کلونت جانی، میں تم سے کیا کہوں، کتنی سندر تھی وہ ۔۔۔ میں اُسے بھی مارڈالتا ، پر میں نے کہا، نہیں ایشر سیاں، کلونت کور کے تو روز مزے لیتا ہے، یہ میوہ بھی چکھ دیکھ۔۔۔‘‘
)افسانہ :’’ٹھنڈا گوشت‘‘(
آپ نے سوال کیا ، جب ایشر سنگھ اوروں کو مار رہا تھا گھر میں گھس کر،تو کیا لڑکی سو رہی تھی؟
’’لیکن جب ایشر سنگھ اُسے اٹھا کر اَپنے ساتھ لے آیا ، تو وہ کیا کر رہی تھی ؟ کیا تب بھی وہ بالکل چپ تھی ،اتنی چپ اور بے حس و حرکت کہ اس میں اور کسی لاش میں کوئی فرق نہ تھا ؟۔ بھلا کیا فضول گفتگو ہے ، ایسا بھلا ہو سکتا ہے؟ ‘‘
)گفتاردہم : ص ۔۷۶(
اور میرا جواب ہے، جی ہاں! ایسا ممکن ہے اوریہ قطعاً فضول گفتگو نہیں ہے۔ دہشت سے لڑکی کے حلقوم میں چیخ کا پھنس جانا اور پھر بے ہوش ہو جانے کا تصور باندھا جا سکتا ہے۔ منٹو نے اسے لکھا نہیں مگر جس سلیقے سے واقعہ ایشر سنگھ کی زبانی بیان کروایا ہے اس کے اندر سے اس سندر لڑکی کی چپ باہر چھلک پڑتی ہے۔
آپ نے فرمایا:
’’تم یہ بھی تو سوچو کہ جب گھر کے سارے لوگ مر چکے تھے اور قبضہ بے شرکت غیرے ایشر سنگھ کا ہے تو وہ لڑکی کو لے کر بھاگا کیوں ؟ سب سے بہتر تو یہ تھا کہ وہ گھر کو اندر سے بند کر لیتا ، سب روشنیاں (اگر وہ جل رہی تھیں) بجھا دیتا اور پھر لڑکی کے ساتھ جو اسے کرنا تھا، اطمینان سے اور بے کھٹکے کرتا۔‘‘
)گفتاردہم : ص۔۷۷(
ایک خونی زناکار کے لیے آپ کے مشورے تو خوب ہیں یہاں ،مگر مشکل یہ ہے کہ منٹو نے’’ٹھنڈا گوشت‘‘ کے ایشر سنگھ کا یہ کردار، آپ کو بہت محبوب ہو جانے والے منٹو صاحب کے افسانے’’پڑھیے کلمہ‘‘ کے خونی زناکارعبدالکریم عرف عبدل سے بہت مختلف بنایا ہے۔ عبدل اپنے ’’رقیب‘‘کی اکڑی ہوئی مقتول لاش کے سامنے گردھاری کی قاتل رکما کماری سے رات بھر پرجوش ہم بستری کر سکتا تھا، ایشر سنگھ نہیں۔ اور اسی بہ ظاہر معمولی سے فرق نے اس کردار کی نفسیات کو بالکل بدل کر رکھ دیا تھا ۔ اب آپ اطمینان سے منٹو کے یہ جملے پڑھیے افسانے کا لطف دوبالا ہو جائے گا:
’’اورمیں اسے کندھے پر ڈال کر چل دیا ۔۔۔راستے میں۔۔۔ کیا کہہ رہا تھا میں۔۔۔۔ ہاں راستے میں ۔۔۔ نہر کی پٹری کے پاس ، تھوہر کی جھاڑیوں تلے ،میں نے اسے لٹادیا۔۔۔۔ پہلے سوچا کہ پھینٹوں ، لیکن خیال آیا کہ نہیں ۔۔۔۔یہ کہتے کہتے ایشرسنگھ کی زبان سوکھ گئی۔
کلونت کور نے تھوک نگل کر اپنا حلق تر کیا اور پوچھا، ’’پھر کیا ہوا؟‘‘
ایشر سنگھ کے حلق سے بمشکل یہ الفاظ نکلے : ’’میں نے ۔۔۔پتا پھینکا۔۔۔ لیکن۔۔۔لیکن۔‘‘
اس کی آواز ڈوب گئی۔
کلونت کور نے اسے جھنجھوڑا: ’’پھر کیا ہوا؟‘‘
ایشر سنگھ نے اپنی بند ہوتی ہوئی آنکھیں اور کلونت کور کے جسم کی طرف دیکھا جس کی بوٹی بوٹی تھرک رہی تھی۔ ’’وہ مری ہوئی تھی۔۔۔لاش تھی۔۔۔بالکل ٹھنڈا گوشت۔۔۔ جانی مجھے اَپنا ہاتھ دے۔۔۔‘‘
کلونت کور نے اَپنا ہاتھ ایشر سنگھ کے ہاتھ پر رَکھاجو برف سے بھی زِیادہ ٹھنڈا تھا۔‘‘
)افسانہ :ٹھنڈا گوشت(
محترم فاروقی صاحب !میں مانتا ہوں کہ زبان کے معاملے میں، ہم سب نے آپ سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ اور صاف کہے دیتا ہوں کہ اس باب میںآپ کی خدمات کو نہ ماننے والاحد درجے کا بخیل ہی کوئی ہو سکتا ہے مگر یہاں جو منٹو صاحب نے اپنے متن میں کلونت کور کے جسم کی بوٹی بوٹی کو تھرکایا ہے ، اس پر آپ کا عتراض یوں نہیں بنتا کہ اُنہوں نے، کلونت کے جیتے جاگتے وجود کو ایک سندر لڑکی کے لاش ہو جانے والے بدن کے مقابل رَکھ کردِیکھا ہے؛ خود نہیں دیکھا ،بل کہ ایشر سنگھ کی آنکھ سے دِیکھا اور دِکھایا ہے ۔ اچھا صاحب، ایک لمحہ کے لیے مان لیتا ہوں کہ یہاں کوئی اور مناسب لفظ لایا جا سکتا تھا ؛ لاش کے مقابل زندگی اور سانسوں سے معمور جسم کے لیے کوئی اور لفظ ؛ مگرایسے میں ماننا پڑے گاکہ منٹو ، میر نہیں تھے ۔ میر ہوتے تو ایسا ضرور کرتے۔خیر، مجھے اپنا بیان بدل لینے دیجئے کہ میر شاعر نہ ہوتے تو ’’حور بعد الکور‘‘(یاالہی فضل کر یہ حور بعد الکور ہے:دیوان پنجم)لکھنے کی بہ جائے صاف صاف لکھ دیتے ’’فروانی کے بعد قلت‘‘ ۔اور وہ افسانہ لکھتے(مگر کیوں لکھتے کہ’’فیض میر‘‘ لکھ کر کون سی عزت کمالی تھی) تونامانوس الفاظ کا اِستعمال بھی اُنہیں بہت مرغوب نہ ہوتا۔ اور یہ بھی تو ممکن تھا کہ انہیں ایسا ہی وقوعہ لکھنا پڑتا تو وہ سامنے کے بہ ظاہر مناسب نظر نہ آنے والے لفظ کو جملے میں جڑ دیتے ،اور وہ وہاں جچ جاتا؛ جیسا کہ یہاں منٹو صاحب کے باب میں ہوا ہے ۔
..........
سیاہ حاشیے، گنجے فرشتے
’’ میرے محترم ، آپ نے اچھا کیا کہ ’’سیاہ حاشیے ‘‘ میں شامل تحریریں بھی گفتاریاز دہم ‘‘ میں زِیرِ بحث لے آئے ۔ ہلکے پھلکے مضامین پر بات ’’گفتار دوم‘‘ میں ہو چکی تھی۔ منٹو صاحب کی شخصیت پر آپ کے کامنٹ، کتاب کے متن میں اِدھر اُدھر بکھرے مل جاتے ہیں ،بس ایک ’’گنجے فرشتے‘‘ اور ’’لاؤڈ سپیکر‘‘کے خاکے ہیں جو کہیں موضوع نہ بن پائے۔ یوں دیکھیں تو آپ نے اَپنے لیے پورے منٹو صاحب کی ایک تصویر بنالی ہے ۔ منٹو کی خاکہ نگاری کی بات چل نکلی تو کہتا چلوں کہ یہ ایسے نہیں ہیں جنہیں آپ سہولت سے نظر انداز کر دِیں ۔ انہیں لکھنے والے کے ہاں عجب طرح کا اِعتماد ہے جو سطر سطر سے جھلک رہا ہوتا ہے ۔ اسی اعتماد نے انہیں بے باک بنایا اور بے باک نگاری پر اُکسایا۔ منٹو صاحب نے ’’ گنجے فرشتے‘‘ میں ہی کہہ رکھا ہے کہ اُن کے اِصلاح خانے میں کوئی شانہ ہے نہ کوئی شمپو اور گھونگھر پیدا کرنے والی مشین کہ وہ جس کا خاکہ لکھنے جارہے تھے اُس کا پہلے بناؤ سنگھار کرتے ۔ اُن کا کہنا تھا:
’’آغا حشر کی بھینگی آنکھ مجھ سے سیدھی نہیں ہوسکی۔ اُس کے منھ سے میں گالیوں کے بہ جائے پھول نہیں جھڑا سکا ۔ میرا جی کی ضلالت پر مجھ سے اِستری نہیں ہو سکی اور نہ ہی اَپنے دوست شیام کو مجبور کر سکا ہوں کہ وہ برخود [غلط] عورتوں کو سالیاں نہ کہے۔‘‘
اتنے منھ پھٹ اور صاف گو تھے ہمارے منٹو صاحب، کہ جو کہنا ہوتا بے دھڑک کہہ گزرتے۔ ’’سیاہ حاشیے‘‘ کی جن تحریروں نے آپ کی توجہ کھینچی ہے ان میں سے شاید کم کم فکشن بن پائی ہوں ، مگر وہ ہیں بہت اہم ۔مجھے تو آپ کے اِس جملے نے چونکادیا ہے :
’’[۔۔۔] منٹو صاحب انسان سے مایوس نہیں تھے اور ’’سیاہ حاشیے‘‘ بہت بڑی کتاب ہے، لیکن اگر ایسی دو چار کتابیں میں اور پڑھ لوں تو مجھے زندگی سے نفرت ہو جائے۔‘‘
)گفتاریازدہم : ص۔۸۸(
میں نے کہا تھا کہ اوروں نے جو کہا اس سے علاقہ نہ رکھوں گا مگر حسن عسکری صاحب کی طرف دیکھنا پڑتا ہے اور ان کا کہنا تھا کہ جب قتل ایک عام مشغلہ بن چکا ہو تو اس میں کوئی خوف کی بات نہیں رہ جاتی، مگر جب قاتلوں کو یہ فکر ہو رہی ہو کہ ریل میں قتل سے جو خون بہے گا، اس سے ریل کا ڈبہ گندا ہو سکتاہے تو ہمیں اس خیال سے دہشت ہوتی ہے کہ جن لوگوں میں صفائی اور گندگی کی تمیز باقی ہے وہ بھی قتل کر سکتے ہیں ؛ جب آپ نے کہا؛’’ منٹو صاحب انسان سے مایوس نہیں تھے تو میرے ذہن میں عسکری صاحب تازہ تھے ، اس لیے نہیں چونکا تھا مگر جب آپ نے دوسرے والی بات کی تھی تو میں چونکا اور چونکنے کے بعد دوبارہ ’’سیاہ حاشیے‘‘ کو دیکھا ، اِس اِرادے کے ساتھ کہ اسے ایک دفعہ پھر سے پڑھوں گا ۔ اِس بار رُک رُک کر؛ اَپنے اِردگرد کو دیکھتے ہوئے ۔ اوررَواں منظر نامے کو اس کے متن سے جوڑتے ہوئے۔ زندگی سے اور آدمی سے۔ نفرت کرنے کے لیے نہیں ؛ان دونوں سے محبت کرنے کے لیے۔
..........
افسانہ اور سیاسی موقف
’’گفتار دو از دہم ‘‘ میں آپ منٹو صاحب کے ناقدین سے نمٹتے رہے اور میں آپ کے خیالات متن میں سے ڈھونڈ تا رہا ۔ لیجئے میں نے دو انتہائی اہم باتیں الگ کر لی ہیں۔ پہلی ان ناقدین کو مسکت جواب ہے ، جو منٹو صاحب اور ترقی پسندوں کے سیاسی موقف کو ایک سا قرار دیتے ہیں اور دوسری میں منٹوصاحب کی بڑائی اور عطا کو نشا ن زد کیا گیا ہے :
۱۔ ’’اگر’’ٹھنڈا گوشت‘‘، ’’کھول دو‘‘،’’ موذیلِ ‘‘،’’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘‘ اور’’موتری‘‘ کا سیاسی موقف (واضح نہ سہی ، زیر زمین سہی)ترقی پسندوں کے موقف سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ،تو کیا وجہ ہے کہ ’’مستند‘‘ یا ’’معتبر‘‘ ترقی پسند افسانہ نگاروں کے کسی بھی افسانے میں منٹو کے محولہ بالا افسانوں کی کمزوراور دھندلی سی بھی جھلک نہیں ہے؟ تو کیا یوں کہا جائے کہ کرشن چندر،یا احمد ندیم قاسمی، یا رامانندساگر، ’’ٹھنڈا گوشت‘‘ نہ سہی ،’’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘‘ یا ’’موتری‘‘جیسا افسانہ لکھنے کی(فنی یا سیاسی یا اخلاقی)قدرت نہ رکھتے تھے؟‘‘
)گفتاردوازدہم : ص۔ ۹۰(
۲۔ منٹو کی بڑائی اس بات میں ہے کہ وہ ہمیں (صحافیوں کے معنی میں) ’’المیہ‘‘، ’’قتل و غارت گری‘‘ ، ’’انسانیت کا خون‘‘، ’’زنابالجبر‘‘ وغیرہ اصطلاحوں سے الگ ہٹ کر سوچنے اور محسوس کرنے کی دعوت دیتے ہیں ۔ ‘‘
)گفتاردوازدہم :ص ۔۹۱(
کاش ،آپ منٹو صاحب کے سیاسی موقف پر ذرا کھل کر بات کرتے۔ آپ نے فرمایا؛ سیاسی موقف بھک سے اُڑ جانے والی شے ہے اور یہ کہ اِسے سیاست دانوں کے لیے چھوڑ کر اَدب کی بات کرنا چاہیے۔(ص۔۹۰) جی ہاں، آپ نے درست کہا کہ ادب کی بات کرنا چاہیے ؛ اب اگر سیاست ہماری زندگیوں میں بہت دخیل ہو گئی ہے ، اس میں بھونچال لا رہی ہے، اتنی اکھاڑ پچھاڑ کر رہی ہے کہ ہماری حسیات کی امی جمی کا ناس مار کے رَکھ دیتی ہے تو یہ لاکھ بدبودار سہی ؛ اتنی ہی جتنی لکریشا کے کموڈ پر بیٹھنے ،پاخانہ خارج کرنے اور یاجیمس جوائس کی عورتوں کے اخراج النسائم سے بو اُٹھتی تھی تو ماحول بدبودار ہو جایا کرتا تھا ، تو بھی یہ آپ کے تخلیقی تجربے کا حصہ ہو جاتی ہے ۔ آپ چاہیں نہ چاہیں۔ جب رنڈی ادب کا موضوع ہو سکتی ہے اور کوٹھا بھی؛ دہشت کو ادبی متن اپنے اندر جگہ دے دیتا ہے اور قاتلوں کو بھی؛ تو یوں ہے کہ اتنی سیاست پر تو بات کرنے میں کیا قباحت ہو سکتی ہے جو لکھنے والوں کے فن کا حصہ ہو جاتی ہے۔ تسلیم کیا جانا چاہیے ، بلکہ یہی لازم ہے کہ ادیب کو سیاست دان ہونا چاہیے نہ سیاسی کارکن ؛ تب ہی وہ ادب کے تقاضوں کو مقدم رکھ پائے گا۔ لیکن سیاست سے اثر لے لینا کہ وہ ہماری زندگیوں میں اندر تک گھس آئی ہے ، اب معمول کی بات ہو گئی ہے۔ ایسے میں کسی کی تخلیقات سے اس کا سیاسی موقف چھلک پڑے؛یہ بھی انہونی بات نہ ہوگی اور اسے تلاش کرنے کی بات کی جائے تو یہ قطعاً غیر ادبی مطالبہ نہ ہوگا ۔ یہی سبب ہے کہ منٹو صاحب نے ’’نیا قانون ‘‘ لکھا ، ’’موتری‘‘ ،’’یزید‘‘،’’ٹیٹوال کا کتا‘‘ اور اس طرح کے دوسرے افسانے بھی ۔کبھی کبھی یہ بھی ہوتا کہ منٹو صاحب کا بیانیہ خالصتاً سیاسی ہو جاتا مگر انہیں اس کی ذرہ برابر فکر نہ ہوتی تھی۔ایک اقتباس :
’’ آگ لینے آئے تھے ۔ اب گھر کے مالک بن گئے ہیں ۔ ناک میں دم کر رکھا ہے ان بندروں کی اولاد نے ۔ یوں رعب گانٹھتے ہیں گویا ہم ان کے باوا کے نوکر ہیں۔‘‘
)افسانہ:’’نیا قانون‘‘(
بس یوں ہے سیاست ادب کے گھر میں اس آگ لینے والی کی طرح نہ آئے ، جو گھروالی بن بیٹھتی ہے ؛آئے آگ لے کر (اور آگ دینے بھی) مگر ایک طرف ہو جائے تاکہ ادب اور اس کے قرینے اپنی آزادی سے مروّجہ سیاسی چلن کو اِنسانی زندگیوں اور اُس کے دُکھوں اور لذّتوں کے ساتھ جوڑ کر دیکھ سکیں اور تخلیقی سطح پر آنک پائیں ۔ اور ہاں کچھ آگے چل کر آپ نے کہہ رکھا ہے کہ منٹو صاحب کے ہاں مقاومت(Resistance) اورموت(Death) تو ہیں ، مگر بغاوت (Rebellion) نہیں ہے ۔(گفتارسیز دہم :ص ۔۱۰۲) کامیو کے تین کڑیوں والے زنجیرہ میں سے جو کڑی آپ کو نہ ملی ، میرا خیال ہے اگر ’’ نیاقانون ‘‘ کو تجزیہ کے لیے منتخب کرتے تو وہ بھی ضرور مل جانی تھی۔
..........
’’ہتک‘‘ کی سوگندھی
’’گفتار سیز دہم‘‘ کے آغاز میں آپ نے منٹو کے محبوب کرداروں کو نشان زد کیا ہے:
’’منٹوصاحب کے بارے میں یہ بات کئی بار کہی گئی اور زور دے کر کہی گئی کہ اُنھیں’’ پست طبقے‘‘(Low Life) والے مردوں اور عورتوں سے بہت دلچسپی ہے،(عورتوں سے تو بہت ہی زیادہ ، اور شاید یہ اُن کا دماغی خلل رہا ہو)۔ ‘‘
)گفتارسیزدہم :ص ۔۹۲(
اچھا‘ جو بات اوروں نے کہی تھی ؛ آپ آگے چل کر اُس سے متفق نظر آتے ہیں تاہم ایک فرق کے ساتھ تو میں توجہ سے یہ فرق جاننا چاہتا ہوں ۔ فرق، یہ بتایا جارہا ہے کہ’منٹو نام نہاد’’پست طبقے‘‘ والوں کو روایتی (یا ترقی پسند) معنی میں’’اُوپر اُٹھانے ‘‘ میں دِل چسپی نہ رکھتے تھے ۔ وہ تو اُنھیں کسی نہ کسی قسم کا اقتدار دینے یا اُس اقتدار میں حق دار سمجھتے ہیں۔‘ (ص ۹۲) آپ نے اپنی یہ بات افسانہ’’ ہتک‘‘ کے ساتھ جوڑ کر سمجھانا چاہی ہے اور میں خوش ہوں کہ کتاب کے اس حصے میں ،میں منٹو صاحب کی’’ ہتک‘‘ اور ’’ہتک‘‘ کی ’’سوگندھی ‘‘ پر آپ کے خیالات پڑھنے جا رہا ہوں۔
منٹو صاحب کی ’’ہتک‘‘ پر بات آپ نے وہاں سے آغاز کی ہے جہاں یہ افسانہ تمام ہورہا ہے ۔ جی، وہاں سے جہاں سوگندھی،( جسے مردوں سے نمٹنے کے سو گر آتے تھے) گھائل پڑی تھی اورمہینے میں پونا سے ایک بار آنے والا لسوڑی کی لیس کی طرح چپکو ہو جانے والا شرمناک حد تک مفت خورا مادھو ؛ آخری بار اس کے سامنے تھا ۔ وہاں سے نہیں جہاں ان دونوں کے درمیان تعلق کی نوعیت افسانے کا حصہ بنی تھی بلکہ وہاں سے جہاں یہ تعلق ٹوٹ گیا تھا۔ سوگندھی کا مادھو سے تعلق ایسا تھا کہ وہ طوائف اور تماش بین سے بہت مختلف ہو گیا تھا ۔ ایسا تعلق جس کے شروع میں مادھو نے کہہ دیا تھا:
’’تجھے لاج نہیں آتی ، اپنا بھاؤ کرتے!جانتی ہے تو میرے ساتھ کس چیز کا سودا کر رہی ہے؟۔ اور میں تیرے پاس کیوں آیا ہوں؟۔چھی چھی چھی۔دس روپے، اور جیسا کہ تو کہتی ہے ڈھائی روپے دلال کے، باقی رہے ساڑھے سات، رہے نا ساڑھے سات؟۔اب ان ساڑھے سات روپیوں پر تو مجھے ایسی چیز دینے کا وچن دیتی ہے جو تو دے ہی نہیں سکتی اور میں ایسی چیز لینے آیا ہوں جو میں لے ہی نہیں سکتا۔ [۔۔۔] تیرا میرا ناطہ بھی کیا ہے ، کچھ نہیں ۔‘‘
)افسانہ :’’ہتک‘‘(
یہ ’’کچھ نہیں‘‘ والا ناطہ سوگندھی اور مادھو کے لیے’’ بہت کچھ‘‘ بن گیا تھا۔وہ مہینے میں ایک بار پونے سے آتا تین چار روز کے لیے اور واپس جاتے ہوئے ہمیشہ سوگندھی سے ، کہ جسے مادھو اور اس کی باتوں کی ضرورت تھی ، کچھ کما کر لے جاتا تھا ۔ جاتے جاتے کہا کرتا :
’’دیکھ سوگندھی ! اگر تو نے پھر سے اپنا دھندا شروع کیا تو بس تیری میری ٹوٹ جائے گی ۔ اگر تو نے ایک بار پھر کسی مرد کو اپنے یہاں ٹھہرایا تو چٹیا سے پکڑ کر باہر نکال دوں گا۔ دیکھ اس مہینے کا خرچ تجھے پونا پہنچتے ہی منی آرڈر کردوں گا۔۔۔ ہاں کیا بھاڑا ہے اس کھولی کا۔۔۔‘‘
)افسانہ :’’ہتک‘‘(
دونوں کے بیچ تعلق ایسا تھاکہ محض باتوں سے خوب نبھ رہا تھا ۔مادھو نے پونا سے کوئی رقم بھیجی نہ سوگندھی نے اپنا دھندا بند کیا؛ ایسے تعلق میں شاید اس کی ضرورت ہی نہ تھی اور یوں دونوں خوش تھے۔ اسی دوران وہ گاڑی والا واقعہ ہوتا ہے اور تعلق شدید نفرت کو اُچھال کر ٹوٹ جاتا ہے ۔ رات دو بجے والا واقعہ ؛ واقعہ نہ کہیں حادثہ یاسانحہ کہہ لیں ۔ سوگندھی کا سر درد سے پھٹا جا رہا تھا مگر اُسے تیار ہو کر اور پھولدار ساڑھی پہن کر رام لال دلال کے لائے ہوئے ’’جنٹر مین آدمی‘‘ کے لیے اپنی کھولی سے نکل کر باہر سڑک پر آنا پڑا تھا۔ اپنے لیے نہیں ، ساتھ والی کھولی کی ایک مدراسی عورت کے لیے جس کا خاوند موٹر تلے آکر مرگیا تھا لیکن اس کے پاس کرایہ نہیں تھا کہ اپنی جوان بیٹی کے ساتھ اپنے وطن جا سکے۔ یہ ساڑھے سات روپے اس کے کام آنا تھے اور سانحہ یہ ہوا کہ اس کا اپنا وجود اس کی نظروں کے سامنے منہدم ہو گیا۔ سوگندھی گھپ اندھیری رات میں موٹر کے پاس پہنچی اور موٹر کے دروازے کے پاس کھڑی ہو گئی تھی۔ موٹر میں آنے والے نے(جو دلال کے مطابق سیٹھ جی تھا) بیٹری سے سوگندھی پر روشنی اُچھالی ، پھر بٹن دبا دیا؛ روشنی بجھ گئی۔ ساتھ ہی سیٹھ کے منھ سے نکلا ’’ہونہہ‘‘ موٹر کااِ نجن پھڑپھڑایا اور وہ یہ جا وہ جا ۔ ’’ہونہہ‘‘ پیچھے رہ گئی اور اس ’’ہونہہ‘‘ کے ایک لفظ کے ساتھ مسترد کی جانے والی سوگندھی بھی، جو اب پہلے جیسی نہیں رہی تھی ۔ فاروقی صاحب ، آپ نے اپنی ہتک کو شدت سے محسوس کرنے والی سوگندھی کی کہانی پر بات ، ان سارے واقعات کے گزر جانے کے بعد ، وہاں سے کی آغاز ہے جہاں بدلی ہو ئی سوگندھی اور پچاس روپے ہتھیانے کے لیے پونا سے آنے والے مادھو کے بیچ پہلے والا تعلق ٹوٹ گیا تھا۔ آپ کے مطابق:
’’مادھو کی ریا کاریوں سے تنگ آکر سوگندھی اسے گالیاں دے کر کھولی سے نکال دیتی ہے۔ اس کا خارش زدہ کتا بھی بھونک بھونک کر مادھو کو کمرے سے باہر بھاگ جانے پر مجبور کر دیتا ہے۔ تم صاف دیکھ سکتے ہو کہ منٹو صاحب نے سوگندھی کو ایک اور طرح کے اقتدار کا حامل بنادیا ۔ اور وہ اقتدار اس وقت مکمل ہوتا ہے جب مادھو کے دُم دبا کر بھاگ نکلنے کے بعد سوگندھی اپنے کتے کو پہلو میں میں لٹا کر سو جاتی ہے۔‘‘
)گفتار سیزدہم: ص۔ ۹۲۔۹۳(
معاف کیجئے محترم فاروقی صاحب !کہ مجھے اوپر کہانی کی تلخیص کرنا پڑی اور اس کا سبب یہ بنا کہ کم از کم اس افسانے کے حوالے سے یہ’’ اقتدار ‘‘والی بات مجھے ہضم نہیں ہو رہی تھی ۔ یہاں خارش زدہ کتے کو پاس لٹا لینے کو آپ نے ،خود سوگندھی کے اپنے دھتکارے جانے سے الگ کر کے محض مادھو کی معزولی سے جوڑ کر دیکھا ہے ۔ سوگندھی صرف طوائف نہیں تھی، عورت بھی تھی ؛ اوروں کے دُکھ درد سمجھنے والی، پریم کر سکنے کی اہلیت رکھنے والی، کریہہ صورت گاہک کے ساتھ،گھِن کو پرے دھکیل کر سو جانے والی، قائم ہو چکے بے نام رشتوں سے بھی نبھاہ کرنے والی اور مادھو جیسے نکھٹو سے جان بوجھ کر لٹتے چلے جانے والی عورت۔جس کا اپنا وجود اس کے لیے بہت محترم تھا مگر جس کی رات دو بجے، سڑک کے بیچوں بیچ ، ’’ٹارچ کی روشنی‘‘ کا جھپاکا اور ’’ہونہہ‘‘ کا طمانچہ مارتے ہوئے’’ ہتک‘‘ کی گئی تھی۔خیر، آگے چل کر، آپ نے بیدی پر بات کرتے کرتے رُک کر یہ بھی تو فرمادیاہے:
’’سوگندھی اپنے ریاکار معمولہ عاشق اور دراصل ایک نہایت ناکارہ گاہک مادھو کو اب تک سہارتی رہی تھی ،لیکن سیٹھ نے جب اُسے مسترد کر دیا تو سو گندھی اس کا بدلہ یوں لیتی ہے کہ مادھو کو دھتکار دیتی ہے، اس کی ٹھکائی کرتی ہے اور اس کے دُم دَبا کر بھاگ نکلنے کے بعد اَپنے خارش زدہ کتے کو پہلو میں لٹا کر سو جاتی ہے‘‘
)گفتار سیز دہم :ص۹۷،۹۸) ۔
یہ دوسری تعبیر، جس میں ایک مرد کی جانب سے کی جانے والی ’’ ہتک‘‘ کا بدلہ ایک دوسرے مرد کی’’ہتک‘‘ اور دھتکار کی صورت میں نکلتا ہے ، دِل کو لگتی ہے۔ آپ نے بہ جا فرمایا کہ ’فکشن ایسی صنف سخن ہے جس میں ہر قدم پر پوچھنا پڑتا ہے کہ زندگی کے بارے میں، ان واقعات کے بارے میں ، جو یہاں بیان کیے جارہے ہیں ، مصنف ہمیں کیا بتانا چاہتا ہے‘‘ (ص ۱۰۰) ۔ میں یہاں یہ اضافہ کروں گا کہ فکشن میں مصنف کو بہ ہر حال واقعات کے سلسلے کے اندر ہی جو کچھ بھی بتانا ہوتا ہے ،بتاتا ہے اوراس افسانے میں منٹو صاحب نے مرد کی تذلیل ہوتے دکھانا چاہی ہے اور یوں کیا ہے کہ وہاں جہاں پر ایک مرد ہوا کرتا تھا،ایک خارش زدہ کتے کو لٹا دیا گیا ہے۔یوں ،یہ کسی (کتے )کو اقتدار دینے کے لیے نہیں بلکہ پہلے سے اقتدار پر موجود مرد( جو عورت کی تذلیل اور ہتک کا مرتکب ہوا ) کی ہتک آمیز معزولی کا افسانہ ہے۔
..........
اپنا’’خوشیا‘‘ ہی تو ہے !
جب آپ نے منٹو صاحب کے افسانہ ’’خوشیا ‘‘ کی بات کی ،تو میں خوش ہوا تھا کہ اس کا مفصل تجزیہ بھی پڑھنے کو ملے گا، جیسا کہ ’’بو‘‘ کے باب میں ہو ا مگر آپ اس افسانے سے بھی سرسری گزر گئے اپنے سوال کنندہ سے بس اتنی شکایت کرکے کہ ’’تم نے ’’خوشیا‘‘ کو بھی کچھ کہے بغیر چھوڑ دیا ، حالاں کہ خوشیا اور کانتا میں ایک طرح کی نفسیاتی برابری ہے جو سوگندھی اور مادھو کی یاد دلاتی ہے‘‘(ص۔ ۹۲) اوریہ کہ’’ کانتا اپنے دلال خوشیا کو مرد نہیں سمجھتی ۔ ‘‘ (ص۹۳) جی، یہ بھی کہ’’ خوشیا اس’’ ہتک‘‘ کا’’ بدلہ‘‘ یوں لیتا ہے کہ کانتا کو گھر میں ڈال لیتا ہے، یا شاید شادی کر لیتا ہے۔‘‘(ص ۹۳)اور اس سے جو نتیجہ اخذ کیا ہے یہ وہ بنتا ہے:
’’۔۔۔خوشیا جیسا کردار توفیق سے خالی نہیں ، جیسا کہ منٹو نے کچھ تفصیل سے کام لے کر ہمیں بتایا ہے ۔[’’ہتک‘‘ اور ’’خوشیا‘‘] دونوں افسانے ایک ساتھ یکے بعد دیگرے پڑھے جائیں تو یہ بصیرت ہم پر عیاں ہو سکتی ہے کہ سوگندھی اور خوشیا ایک ہی سکے کے دو پہلو ہیں ۔ سوگندھی میں ایک طرح کا ’’مردانہ پن‘‘ ہے اور خوشیا میں ایک طرح کا ’’زنانہ پن‘‘ لیکن دونوں کا’’ شکارپن‘‘ ایک ہی طرح کا ہے۔‘‘
)گفتار سیز دہم :ص ۹۳(
اس سے اتفاق کیا جانا چاہیے کہ خوشیا اور سوگندھی میں مشابہتیں پائی جاتی ہیں اس کے باوجود کہ ایک مرد ہے اور دوسری عورت، ایک دلال ہے اور دوسری رنڈی ، ایک اپنے وجود پر نظر ڈالتی ہے تو اس کا اپنے آپ پر اعتماد گہرا ہو جاتا ہے اور دوسرے کی نظر میں اس کے اپنے وجود کے کوئی معنی نہیں ہیں ۔ یہ اپنے وجود پر اعتماد والی بات، میں نے یوں ہی نہیں کر دی، منٹو صاحب نے ’’ ہتک ‘‘ کا متن ترتیب دیتے ہوئے قاری پر اس کے منکشف ہونے کا قرینہ رکھا ہے ۔ گنیش جی کی مورتی سے روپے چھوا کر بوہنی کرنے والی سوگندھی کی اُبھری ہوئی چھاتیاں یاد رہیں جو سوگندھی کو اپنے بدن میں سب سے زیادہ پسند تھیں ؛ نیچے سے سیب کے گولوں جیسی۔ وہ اپنے وجود کے دوسرے حصوں میں/پر پھیل جانے پر بھی قادر تھی ۔ جی، سارے وجود پر اور سارے وجود میں ۔ یہ وجود تھکن چاہتا تھا ؛ ایسی تھکن جو سارے اعضا کو جھنجھوڑ ڈالتی ہو، توڑ دیتی ہو؛ اپنے جسم کو نگاہ میں رکھنے والی، اس سے لذت کشید کرنے والی اور اس کے لیے لذت کا تسلسل اور تھکن کے سلسلوں کی تمنا کرنے والی سوگندھی کے مقابلے میں خوشیا کے کردار پر اس کا جسم ابھی منکشف نہ ہوا تھا ۔ یوں دیکھیں تو منٹوصاحب نے اپنے باریک کام سے دونوں کو مختلف کر لیا تھا ۔
ایک دو باتیں اس باب میں اور دیکھیے: منٹو صاحب نے ’’ہتک‘‘ میں سوگندھی کے بچپن کی آنکھ مچولی اور ایک بڑے صندوق میں اس کے چھپنے کونمایاں کیا ہے۔ صندوق میں ناکافی ہوا ہوتی لہذا دَم گھٹنے کے ساتھ ساتھ پکڑے جانے کے خوف سے اُس کے دِل کی دھڑکن تیز ہو جاتی تو اُسے مزہ آتا تھا ۔ منٹو صاحب نے اسی سے متصل سوگندھی کی ایک خواہش بھی متن میں رَکھ دی ہے؛ یہی کہ وہ چاہتی تھی، جس صندوق میں وہ چھپی، ساری عمر اس کے باہر اسے ڈھونڈنے والے، ڈھونڈتے رہیں یا پھر وہ اُنہیں ڈھونڈا کرے ۔
’’خوشیا‘‘ کا بچپن ایسی کسی خواہش اور دھڑکنوں کے لطف سے خالی ہے۔ یہ بات اپنے قاری پر واضح کرنے کے لیے افسانے کے متن میں اس کا خاص اہتمام ملتا ہے ؛ وہیں، جہاں بتایا گیا ہے کہ ’’خوشیا ‘‘ افسانے کے کلیدی کردار کے بچپن کے زمانے میں اس کی پڑوسن کا وتیرہ تھا کہ وہ خوشیا کو پانی کی بالٹی بھر کے لانے کا کہتی اور خود دھوتی سے بنائے ہوئے پردے کے پیچھے ننگی ہو کر بیٹھ جاتی۔وہ پانی بھر کر لاتا تو وہ کہتی؛ پردہ ہٹا کر بالٹی اندر رکھ دے ۔ وہ تب ننگی عورت دیکھتا تھا مگر دِل کی دھڑکن بر ہم نہ ہوتی تھی، کوئی ہیجان پیدا نہ ہوتا۔ پھر جب جوان ہوکر وہ رنگ رنگ کی رنڈیوں کا دلال بن گیا تو بھی ( فاروقی صاحب، آپ ہی کے لفظوں میں) وہ ’’بھڑوے کا بھڑوا ‘‘ہی رہا ۔ تو یوں ہے کہ اس مختلف ہو جانے والے کردار کے سامنے اپنا جسم اور اُس کے جنسی سطح پر زور کرنے والے تقاضے نہ تھے ۔ جس ماحول میں وہ تھا لگتا ہے اس کا عادی ہو کر’’بھڑوا ‘‘ ہو گیا تھا، مگر ننگی کانتا نے اُسے جب اس لیے اندر آنے دیا کہ ’’اپنا خوشیا ہی تو ہے‘‘ تو اسے بُرا لگا ہے تھا ۔
جی، میں اسے آغاز میں ’’برا لگنا‘‘ ہی کہوں گا ۔ اس لیے کہ ایک ایسی عورت جس کا جسم خوب صورت اور جوان تھا اُس نے اس کے اندر کسی’’توفیق ‘‘ کو نہیں جگایا تھا ۔ یہ اگر کوئی ’’توفیق‘‘ تھی تو بہت بعد میں جاگی تھی ۔ تب تو وہ حیران ہوا تھا کہ کانتا اُس کے سامنے ننگ دھڑنگ کھڑی تھی اور متعجب بھی کہ جسم بیچنے والی عورت ایسا سڈول جسم رکھتی تھی۔ اس کے جسم میں تب تک کوئی ہیجان تھا، نہ اپنی توہین کا احساس ۔ اپنی’’ ہتک ‘‘ کو تواُس نے کچھ کر گزرنے کے لمحے کے ٹلنے کے بعد، کہ جب وہ ایک بند دکان کے باہر، سنگین چبوترے پر بیٹھا سوچ رہا تھا، تب محسوس کیا تھا۔ سوچ سوچ کر وجود پر طاری کی جانے والی ہتک کے احساس کو بجلی کے کوندے کی طرح جسم کو بھسم کرنے والی ہتک سے مختلف ہونا تھا ،سو منٹو صاحب نے اُسے مختلف کرکے دِکھا دِیا ہے۔
اور یہیں یہ کہنے کی اجازت بھی چاہوں گا کہ افسانے کا متن، آپ کےِ اس بیان کی تصدیق نہیں کرتا کہ’’ خوشیا نے ’’ ہتک‘‘ کا’’ بدلہ‘‘ لینے کے لیے کانتا کو گھر میں ڈال لیا یا اُس سے شادی کرلی تھی (ص ۹۳)، بل کہ صاف صاف بتا دیا گیا ہے کہ جب خوشیا اپنے ایک دوست کے ساتھ کانتا کے گھر گیا تھا ، تو خود ٹیکسی میں بیٹھا رہا تھا، اندر نہیں گیا تھا۔ ایسے کردارمیں اتنی ’’توفیق ‘‘ کہاں کہ وہ اپنی شادی کے لیے کانتا سے بات کرپاتا ۔ وہ تو وہاں اپنے آپ کوخوشیا نہیں ایک ’’تماشبین مرد‘‘ ثابت کرنے پہنچا تھا ۔ ایک ’’رنڈی‘‘ کا’’ گاہک‘‘ مرد ۔ پہلی بار وہ ایسا مرد بننے کا سوانگ بھر رہا تھا۔ دوسری بار شیو کرانے سے لے کر دوست کے ہاتھوں بھاڑا دِلوا کر کانتا کو بغیر گاہک کا نام ظاہر کئے باہر بلوانے اور گاڑی میں بٹھانے تک اُس کا دِل دھڑکتا رہا تھا ، یوں جیسے بیکار میں انجن چالو ہو۔ اچھا پھر اس افسانے کے آخری جملے کو کیوں نظر انداز کر دیا جائے جو خوشیا کے بعد میں نظر نہ آنے کی بات تو کرتا ہے ، کانتا کے بارے میں ایسی کوئی اطلاع نہیں دیتا ۔ منٹو صاحب نے انجام کو قدرے اوپن رَکھ کر اس کی معنویت ضروربڑھا دی ہے مگر اسے کسی صورت میں ’’گھر ڈالنے‘‘ اور’’ شادی کر لینے‘‘ سے تعبیر نہیں دِی جا سکتی۔
..........
’’سڑک کے کنارے‘‘:بے ایمانی اورفراڈ
منٹو صاحب کے افسانے ’’سڑک کے کنارے‘‘ کا نام لے کر آپ نے اقبال کو یاد اور اس افسانے کی حد تک اسے اس خیال کے رومانویت سے پھوٹنے کے باوجود راحت انگیز قرار دیا تھا کہ ادب زندگی کی قوتوں کی تائید کانام ہے۔ تاہم ساتھ ہی ساتھ ا فسانے کو فراڈ بھی کہہ ڈالا ۔ آپ کے نزدیک اس افسانے کی نثر عمدہ تھی مگر اس میں سے ایک طرح کی بے ایمانی جھلک دے جاتی تھی ۔ (ص۱۰۳(وضع حمل کے فوراًبعد ایک ماں کا ’’اپنی ناجائز‘‘ بچی کو ٹھنڈے بھیگے کپڑے میں لپیٹ کرسڑک کے کنارے پھینک جانا لیکن بچی کا نہ مرنا آپ کے نزدیک فراڈ ہوا؛ جب کہ پولیس اس نوزائدہ بچی کو اُٹھا کر لے گئی تھی ۔
بچی کیوں نہیں مری؟ اِس کا سیدھا سا جواب تو یہ ہے کہ افسانہ نگار نے اِسے متن میں بچا لینے کا قرینہ رکھ دیا تھا، اِس لیے ۔ ہاں ،میں اس سے متفق ہوں کہ بچی مر جاتی تو یہ پست درجے کا افسانہ ہوتا ۔ منٹوصاحب کے بنائے ہوئے انجام کے ساتھ زندگی کی قوت کی تصدیق ہو جاتی ہے اور اس نے آپ کو اقبال کی یاد دلا دِی۔
جی ، آپ نے اس کی نثر کو عمدہ قرار دیا تو مجھے اچھا لگا ؛منٹو صاحب کے ہاں انسجام اور استعارے کی چمک کی عدم موجودگی والی شکایت ، یقیناً آپ کو یہاں نہ ہوئی ہوگی ۔ عین آغاز ہی میں منٹوصاحب ، اس افسانے پر بہت توجہ دیتے اور محنت صرف کرتے نظر آرہے ہیں :
’’یہی دن تھے۔ آسمان اس آنکھوں کی طرح ایسا ہی نیلا تھا جیسا کہ آج ہے۔ دُھلا ہوا۔ نتھرا ہوا۔ ۔۔اور دھوپ بھی ایسی ہی کنکتی تھی ۔سہانے خوابوں کی طرح ۔ مٹی کی باس بھی ایسی ہی تھی جیسی کہ اس وقت میرے دِل دِماغ میں رچ رہی تھی ۔۔۔۔اور میں نے اسی طرح لیٹے لیٹے اپنی پھڑپھڑاتی ہوئی روح اس کے حوالے کر دی تھی۔‘‘
)افسانہ :’’سڑک کے کنارے‘‘(
جب منٹوصاحب اس طرح سنبھل سنبھل کر نثر لکھ رہے ہوں، توہم جان جاتے ہیں کہ وہ کسی مشکل یا پھر نازک موضوع پر ہاتھ ڈالنے والے ہیں ؛ جی ایسے موضوع پر ،جسے سیدھے سبھاؤ لکھتے چلنے جانے میں کچھ رکاوٹیں یا خطرے ہوں۔ منٹوصاحب میں حوصلہ تھا کہ وہ رکاوٹوں کو الانگ پھلانگ جائیں اور خطرات سے بھڑ جائیں(کوئی مضمون یا خاکہ لکھنا ہوتا تو ایسا ہی کرتے) مگر افسانہ لکھتے ہوئے انہیں ، اُسے فن پارہ بنا نا ہوتا تھا ؛ سو وہ ایسے میں، اسی طرح زبان کو آڑ بنا لیا کرتے تھے ۔ ’’دھواں ‘‘ کے آغاز کو دیکھ لیجئے ، اس میں بھی آغاز ہی سے آپ منٹو صاحب کو سنبھلے پائیں گے ؛ اپنے موضوع کو تھام کر سلیقے سے آگے بڑھتے ہوئے ۔
’’سڑک کے کنارے‘‘ بہ قول منٹو صاحب ایسی ماں کی کہانی تھی جو وجود کو جنم دیتے ہی زچگی کے بستر پر فنا ہو گئی تھی۔ لفظوں کی تتلیاں اُڑتی ہیں اور منٹوصاحب انہیں پکڑنے کو دوڑتے ہیں اور لگتا ہے اس افسانے میں کامیاب بھی رہتے ہیں ۔ کہانی میں واقعات تھم گئے ہیں مگر ان تتلیوں نے خوب چہل پہل کر دی ہے حتی کہ تین صفحات ختم ہو جاتے ہیں تب جاکر کہانی آگے بڑھتی ہے اور منٹوصاحب کہانی کے آغاز والی سطروں کو دہرا کر وہ لکھنے لگتے ہیں جسے پڑھنے کے لیے وہ ہمیں تیار کرتے رہے تھے:
’’میرے سینے کی گولائیوں میں مسجدوں کے محرابوں ایسی تقدیس کیوں آرہی ہے؟‘‘[۔۔۔۔۔۔] یہ نقش قدم کس کا ہے جو میرے پیٹ کی گہرائیوں میں تڑپ رہا ہے۔ [۔۔۔۔۔] میری روح پسینے میں غرق ہے۔اس کا ہر مسام کھلا ہواہے۔چاروں طرف آگ دہک رہی ہے۔ میرے اند کٹھالی میں سونا پگھل رہا ہے۔[۔۔۔] میری بانہیں کھل رہی ہیں ۔[۔۔۔] میرے سینے کی گولائیاں پیالیاں بن رہی ہیں ۔ لاؤ اس گوشت کے لوتھڑے کو میرے دِل کے دُھنکے ہوئے خون کے نرم نرم گالوں میں لٹا دو۔۔‘‘
)افسانہ :’’سڑک کے کنارے‘‘ (
آپ نے دیکھا منٹو صاحب کے ہاں سنبھل سنبھل کر چلنے اور سلیقے سے موضوع کھولنے اور انجام کی طرف بڑھنے کا کتنا حوصلہ ہے۔ ایک ایسی عورت کی کہانی ؛ جو ماں بنتی ہے مگر ماں بننے کا یہ عمل ’’گناہ کا کڑوا پھل‘‘ ہو گیا ہے۔
کہانی کو یہاں پہنچا کر جس سلیقے سے اس کی راوی کو الگ کر دیا گیا ہے اور انجام کو ایک اخبار میں شائع ہونے والی ایک خبر بنایا گیا ہے ، اس قرینے کی داد بنتی ہے ۔ بچی جسے کسی سنگدل نے گیلے کپڑے میں مرنے کے لیے سڑک پر پھینک دیا تھا مر کیوں نہیں گئی؟ ایک دفعہ پھر دہراتا ہوں؛ اس لیے کہ افسانہ نگار اُسے مارنا نہیں چاہتا تھا ۔ افسانہ نگار اپنی کہانی کا خدا ہوتا ہے؛ جسے چاہتا ہے مار دیتا ہے، کوئی بھی بہانہ بنا کر اور بچانے پر آتا ہے تو دھوبی منڈی کی پولیس کو زندگی کا فرشتہ بنا کر بھیج دیتا ہے کہ وہ ایک گیلے کپڑے میں لپٹی ہوئی نیلی آنکھوں والی خوب صورت بچی کو بچا لے ۔ ہاں، یہ منٹو صاحب بھی جانتے تھے کہ بچی مر جاتی تو یہ پست درجے کا افسانہ ہوتا۔
..........
’’فرشتہ‘‘ ،’’پھندنے‘‘،’’باردہ شمالی‘‘ اور آج کا افسانہ
’’گفتار چار دہم‘‘ منٹو صاحب پر آپ کے خیالات کا آخری حصہ ہے۔ گفتار کے اس باب میں افسانہ ’’فرشتہ‘‘ کو زیر بحث لایا گیا ہے اور اس باب میں آپ نے فیصلہ دیا ہے کہ یہ ایک طرح کا تجریدی افسانہ ہے ۔ آپ نے بجا طور پر اس افسانے کی زبان میں شدت اور موسیقیاتی تناؤ کو نشان زد کیا ۔ ایسے میں آپ کو انور سجاد صاحب کا یاد آنا یقینی تھا اوروہ آئے ؛یہ الگ بات کہ اُنہوں نے اِن دنوں اپنے آپ کو، ایک فکشن نگار کی حیثیت میں ، شاید ہی یاد رکھا ہوا ہو۔ خیر انور سجاد اردو فکشن کو چاہے بھول جائے؛ یہ اسے نہیں بھولے گی ۔ اچھا، جب ’’فرشتہ‘‘ افسانے کی علامتی فضا کی بات ہوئی، اس کی زبان کے گٹھاؤ کی اور اس کو نثری نظم کا سا کہا گیا تو جس طرح اس انداز کے سحر میں مبتلا ہونے والوں کا ذکر ہوا ،اسے ویسا ہی نقل کیے دیتا ہوں:
’’ کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ انور سجاد کاجدِاعلٰی [افسانہ ’’فرشتہ کا افسانہ نگار منٹو] تمھارے سامنے موجود ہے؟ کیا تم دیکھتے نہیں ہوکہ خالدہ حسین(اصغر) اور احمد ہمیش سے لے کر شرون کمار ورما، قمر احسن ، انور خان، حسین الحق، سلام بن رزاق، اکرام باگ۔ عوض سعید ، پھر(شروع کے زمانے کے)منشایاد اور رشید امجد، اور آج کے محمد حمید شاہد نے نثر لکھنا کس سے سیکھا ؟ حتیٰ کہ ضمیر الدین احمد(’’گلبیا‘‘) بھی منٹو کے سحر سے نہ بچ سکے۔‘‘
)گفتار چار دہم:ص۔ ۱۰۶(
مجھے شکریہ ادا کرنے دیجئے کہ آپ نے اوروں کے ساتھ آج کے محمد حمید شاہد کو بھی یاد رکھا ؛ تاہم یہیں مجھے یہ کہنا ہے کہ آج کے اَفسانہ نگارنے منٹو کی اس کہانی کو بھی رد نہیں کیا ہے جو’’ فرشتہ‘‘ ، ’’پھندنے ‘‘ اور ’’باردہ شمالی‘‘جیسی ہوجانے سے انکاری ہے ۔آج کے افسانہ نگاروں نے کہانی کے خارجی ٹھوس پن کو جدید اَفسانے کا نعرہ لگانے والوں کی طرح ٹھینگا نہیں دکھایا اور نہ ہی جدید اَفسانے کی حقیقی باطنی پیچ داری کو زِر غَل اور اَرذَل قرار دے کر منھ موڑا ہے۔ بلکہ ہوا یہ ہے کہ کہانی کا خارج سالم ہو گیا ہے‘ جملے بالکل سادہ نہیں رہے کہ ساری رات ممیائی اور ایک بچہ بیائی کی مثل فقط ایک معنی کو کافی جانیں‘یہ کچھ کچھ پرزم کا وصف اپنانے لگے ہیں۔ کہانیاں مجرد ذات کی ناقابل شناخت لاشیں نہیں رہیں‘ ان میں زندگی اور عصر کی توانائی روح بن کر دوڑنے لگی ہے۔ اور یہ بات میں منٹو کے حوالے سے ایک مضمون میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں ؛ یہاں محض دہرا دی ہے۔
..........
آخری بات:ہم منٹو سے محبت کرتے ہیں
بات منٹو صاحب کی ہو رہی تھی اور میں اپنے زمانے کے افسانے کا ذکر لے آیا۔ خیر یہ ذکر منٹو سے کٹا ہوا بھی نہیں ہے ۔ مانتا ہوں کہ ترقی پسندوں نے منٹو کو مسترد کر دیا تھا اور ’’ فرشتہ‘‘ ، ’’پھندنے ‘‘ اور ’’باردہ شمالی‘‘ جیسے افسانے لکھ کر ’’جدید افسانہ‘‘ لکھنے والوں کے رشتے میں جد اعلیٰ ہونے والے کی بابت کہا گیا کہ منٹو صاحب فرسودہ ہو چکے مگر ہم دیکھتے ہیں کہ جوں ہی زمانہ کروٹ لیتا ہے رہے سہے ترقی پسندوں کو منٹو صاحب شدت سے یاد آنے لگتے ہیں اور ’’جدید‘‘ افسانہ ایک ہی ہلے میں ’’باسی‘‘ ہو جاتا ہے مگر آج کا افسانہ منٹو سے جڑنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا۔ آپ کی اس خصوصی گفتگو کی بابت یہاں یہ اعتراف کرنا چاہوں گا کہ آپ نے مجھے ایک بار پھر منٹو صاحب کے فن کو سمجھنے کی طرف راغب کیا،آپ کے لیے منٹو صاحب کیسے ہیں ؛ وہ ہم نے اس کتاب میں دیکھا اور ہمارے لیے منٹو صاحب ؛ آپ نے دیکھا ہو گا کہ کچھ زیادہ ہی ہمارے ہو گئے ہیں۔ جی ترقی پسندوں اور جدید افسانے والوں سے کہیں زیادہ ہمارے۔ جس طرح آپ نے منٹو صاحب کے فن کی تفہیم نو کے باب میں سنجیدہ گفتگو کی، اس کی قدر کی جانی چاہیے کہ یہ صحت مند مکالمے کا باعث ہوگی ۔ یقیناًآپ اور دوسرے لوگ بھی مجھ سے اختلاف کرنا چاہیں گے ،بالکل ایسے ہی جیسا کہ میں نے آپ سے کئی مقامات پر اختلاف کیا ۔ اگر ایسا ہوتا ہے اور شائستگی اور ادبی وقار سے منٹو صاحب پر مکالمہ آگے چلتا ہے اور نئی نئی بصیرتیں سامنے آتی ہیں توپھر کسی کو یہ کہنے کی ضرورت نہ ہوگی کہ ’’منٹو صاحب کو کسی نقاد کی ضرورت نہیں تھی ۔‘‘ اور اسے بھی شمس الرحمن فاروقی کی عطا سمجھا جائے گا کہ منٹو صاحب اور ان کے فن کواور طرح سے دیکھا جا رہا ہے ۔ آخر میں مجھے منٹو صاحب اور ان کی فکریات اور فن کے بارے میں آپ کی ایک ایسی بات عین مین نقل کر دینی ہے جو ہم سب کو بہت معتبر اور لائق اعتنا ہو گئی ہے :
’’ہم منٹو صاحب کی قدر اس لیے کرتے ہیں ،ان سے محبت اس لیے کرتے ہیں کہ ان کے یہاں انسان، محض انسان ہے ۔ ان کے یہاں عورت محض عورت ہے؛ آبرو باختہ قحبہ ، جنسی لذت کے پیچھے دیوانی پھرنے والی خیلا چھتیسی ، مردوں کو لبھانے کے لیے جان توڑ محنت کرنے والی ، اور مرد سے ایک بار پھنس جائے تو پھر تاحیات اس کی نوکرانی،اس کی رنڈی، اس کی بچوں کی ماں،وغیرہ وغیرہ نہیں ہے۔ منٹو صاحب کی دنیا میں مرد اور عورت دونوںیکساں ہیں، یعنی دونوں انسان ہیں،دونوں فاعل (subject) ہیں ، جس حد تک اِنسان اِس دنیا میں فاعلیت رَکھ سکتا ہے۔ ‘‘
)گفتارسیز دہم:ص۔۱۰۰(
۱۷ اگست ۲۰۱۳ء محبت اور احترام کے ساتھ
اسلام آباد محمد حمید شاہد
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں