'آج کی کہانیاں'نامی سلسلے کی پہلی کہانی پیش خدمت ہے۔یہ کہانی آج کے شمارہ نمبر 55 میں شائع ہوئی تھی۔جس میں اس کےعلاوہ جلال آل احمد کی سات اور کہانیاں شامل تھیں۔اس کہانی کا انتخاب اجمل کمال جیسے اہم مدیر نے موقع کی مناسبت سے بہت خوب کیا ہے۔جلال آل احمدایک ایرانی افسانہ نگار ہیں۔وہ 2دسمبر 1923 کو پیدا ہوئے اور 9ستمبر 1969 کو ایران کے شہر اسالم میں ان کا انتقال ہوا۔وہ نہ صرف ایک ادیب تھے، بلکہ ایک سیاسی اور سماجی تجزیہ نگار بھی تھے۔انہوں نے 1950 میں مشہور ناول اور افسانہ نگار خاتون سیمیں دانشور سے شادی کی۔تعلیمی لحاظ سے انہوں نے 1946 میں پرشین ٹیچرز کالج سے ایم اے کی ڈگری حاصل کی، اور خود اتالیق کے فرائض انجام دینے لگے۔رسالہ آج کے مطابق''جلال آل احمد کی تمام تر تخلیقی اور سیاسی زندگی شاہی آمریت اور غیر ملکی سامراج کی مداخلت کے دور میں بسر ہوئی اور اس ماحول کے اثرات ان کی تحریروں میں اسی طرح محسوس کیے جاسکتے ہیں جیسے ان کے خاندانی مذہبی پس منظر کے اثرات۔۔۔۔۔ان کی کہانیاں 'زیارت'، 'بے وقت افطار'،'گناہ' اور 'سہ تار'بنیادی طور پر ایرانی معاشرے پر مذہب کے سماجی اثرات کا مطالعہ کرتی ہیں۔سیاسی اور سماجی تبصرے کی زیریں رو جلال کے تمام فکشن میں بہت نمایاں طور پر محسوس ہوتی ہے۔اور 'امریکی شوہر'، 'کانچ کا گلدان' اور 'فالتوعورت'اس کی عمدہ مثالیں ہیں۔'' آج شمارہ نمبر 55 پر کلک کرکے آپ جلال آل احمد کی باقی سات کہانیوں کا آن لائن مطالعہ کرسکتے ہیں۔
بے وقت افطار
آمیز رضا اپنے نچلے بدن پر پرانا کمبل اوڑھے، ہاتھ میں جھلنے والا پنکھا لیے، چھت پربچھے اپنے بستر پر لیٹا ہوا تھا۔
گرم ہوا جو شہر کے اس جنوبی حصے کی دھوپ کھائی ہوئی کچی اینٹوں کی چھتوں کے اوپر چل رہی تھی، شہر کی بھیڑبھری سڑکوں کے شوروغل، کسی بس کے ہارن کی لمبی چیخ یا کسی خوشحال گھر میں بجتے ریڈیو کی دوردست اور خوابناک آواز کو اپنے ساتھ لے آئی تھی۔ یہ ہوا اس کی پسینے سے تر قمیص کو چھو رہی تھی لیکن اترتی شام کی سخت گرمی کو کم کرنے کے لیے کافی نہ تھی، اور اسے، جو قمیص اوپر کیے دستی پنکھا جھلنے میں مصروف تھا، کسی طرح ٹھنڈک نہ پہنچا رہی تھی۔
گردوغبار، جو معمول کے مطابق مغرب کے قریب تہران کے آسمان کو ڈھانپ لیتا ہے، اب تک جنوبِ شہر کے اس خاک آلود محلے میں تیرتا پھر رہا تھا، اور ایک کھمبے پر لگا ٹمٹماتا بلب اور کھمبے کے تار دھندلی، نیم تاریک ہوا میں سے اب بھی دکھائی دے رہے تھے۔ اگر ریڈیو کے آڑے ترچھے ایریل یا مچھردانیوں کے بانس نہ ہوتے تو ہر شے ان کچی اینٹوں سے ڈھکی ہوئی معلوم ہوتی۔ جہاں تک نگاہ کام کرتی تھی، خاک رنگ چھتیں اور ان کی چھوٹی بڑی بَلّیاں دکھائی دیتی تھیں اور کہیں کہیں کوئی اونچا سا بھدّا بادگیر، تہہ خانے کی گھٹی ہوئی سیلن زدہ ہوا کو محلے کے تنگ آسمان تک پہنچاتا ہوا، چاند کی پھیکی روشنی میں دکھائی دے جاتا۔
چھت کی اونچی نیچی منڈیروں میں سے اردگرد ہونے والی ہر چیز آدمی کو کم یا بیش دکھائی دے سکتی تھی۔ گلی کے کھمبے میں لگے بلب اورشروع مہینے کے بےنور چاند کی روشنی میں ہمسائے کے گھر کی چھت پر تازہ بچھائے ہوے بستر نظر آ رہے تھے، اور ان کے نیچے بچھی ہوئی چٹائیاں اور پرانے لحاف گدوں کی مسکی ہوئی جگہوں میں سے جھانکتی روئی بھی دکھائی دے رہی تھی۔
چھتیں اب تک خالی تھیں۔ لوگ رات کے لیے اپنے بستر وہاں بچھا کر اس وقت تک کے لیے لوٹ گئے تھے جب جلتے ہوے سورج کی تپش چھتوں سے چلی جائے اور وہ اپنے تھکے ہوے سروں اور خستہ حال جسموں کو رات بھر کی نیند کے لیے ان بستروں پر پھیلا سکیں اور دم بھر کو آرام پا سکیں۔
شہر کے شمالی حصے کا شوروشغب اب تک نہ تھما تھا، نہ گاڑیوں کے ہارنوں کی کرخت آوازیں کم ہوئی تھیں۔ دور کہیں دو اخبارفروشوں کی اونچی آوازیں، اس تمام شوروغل کے درمیان سے، اخبار کی خاص خاص خبروں کو جنوب شہر کے باشندوں تک پہنچا رہی تھیں، جو نہ تو پڑھنا جانتے تھے اور نہ )اگر پڑھنا جانتے بھی ہوتے تو( اخبار خریدنے کی سکت رکھتے تھے۔
گلیوں میں بھیک مانگنے والوں کی صدائیں رفتہ رفتہ خاموش پڑتی جا رہی تھیں۔ یہ لوگ، جو صبح سویرے راستے کے کنارے پر اپنی ہزار طرح کی بساطیں بچھا کر بیٹھ جاتے، اور ایک سے ایک بڑھ کر رقت انگیز طریقوں سے راہگیروں کے سامنے اپنی بدبختی اور مفلسی کے اسباب کی نمائش کیا کرتے تھے، اب گلیوں میں اترتے اندھیرے کا فائدہ اٹھا کر اپنے معرکے کے میدان سے ایک ایک کر کے کھسکتے اور پیچھے کی تنگ گلیوں کے الجھاوے میں گم ہوتے جا رہے تھے اور اپنی بےسود آہ و بکا اور رائیگاں دعاؤں کو بھی اپنے پیچھے گھسیٹتے ہوے لے جا رہے تھے۔
ماہِ مبارک کی ساتویں شب تھی۔ آمیزرضا، جس نے افطار کے وقت پیٹ بھر کر تربوز کھایا تھا اور برف کے پانی کے گلاس پر گلاس پیے تھے، دوسرے لوگوں سے پہلے ہی چھت پر چلا آیا تھا اور چاند کی پھیکی روشنی میں بستر پر دراز ہو کر اپنے پھولے ہوے پیٹ کو ہوا جھل رہا تھا۔ سوچ رہا تھا کہ پورے مہینے وہ کس طرح روزے رکھ سکے گا۔ ابھی پہلے چھ روزے ہی گزرے تھے اور وہ جس نے احتیاطاً ایک روز پہلے ہی سے روزے رکھنے شروع کر دیے تھے، ساتویں روزے پر اپنا دم نکلتا محسوس کر رہا تھا۔
بھوک کی اس کے نزدیک کوئی خاص اہمیت نہ تھی، لیکن پیاس...الامان! وہ جو محض ایک خردہ فروش دلال تھا، اور جسے ان لمبے دنوں کی تیز دھوپ میں صبح سے شام تک اِدھر سے اُدھر آناجانا پڑتا تھا، کس طرح اپنی پیاس کو قابو میں رکھ سکتا تھا۔
وہ بازار کے ان خوشحال دلالوں میں سے نہ تھا جو گرم بازاری میں اتنا کما لیتے ہیں کہ ان کے لیے سال بھر کو کافی ہو، جو جامع مسجد کے چالیس ستونوں والے خنک ہال کے ایک کونے میں صبح دس بجے سے سہ پہر تین بجے تک نماز اور دعا میں مشغول رہ سکتے ہیں اور وہاں سے نکل کر سیدھے اپنے گھروں کے ٹھنڈے تہہ خانے میں جا پہنچتے ہیں اور افطار سے پہلے وہاں سے باہر نہیں نکلتے۔ اور نہ وہ کوئی ایسا معتبر، صاحبِ دفتر تاجر تھا جو دوپہر سے کچھ پہلے اپنی گاڑی میں بیٹھ کر بازار پہنچے کہ اپنے کاروبار کا جائزہ لے سکے اور پھر شمیران کے مالدار محلے کو لوٹ کر اپنے باغیچے کے گوشے میں گدےدار آرام کرسی پر دراز ہو جائے جبکہ اس کی تازہ بیاہ کر لائی ہوئی دلہن اس کے پہلو میں ہو۔ اور وہ خدا کو بھولے ہوے ان بےدین لوگوں میں سے بھی نہ تھا کہ کسی نہ کسی بہانے سے اس مبارک مہینے کے روزوں سے دور رہتے تھے۔
آمیزرضا ایک بےمایہ مگر خداترس دلال تھا اور ہرگز اس پر تیار نہ تھا کہ پچھلے چند برسوں کے اپنے ہمکاروں کی طرح غلط سلط طریقوں سے اپنی آمدنی بڑھائے۔ وہ اب تک اپنا اور اپنے بیوی بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے اسی دوڑبھاگ پر مجبور تھا۔
اب تک اس کی ایک بیٹی کی شادی ہوئی تھی اور چوتھا بیٹا جو ابھی پانچ مہینے کا ہوا تھا، دودھ کی کمی اور سخت گرمی کے باعث رو رو کر اس کے اور اس کی بیوی کے لیے دن کے اجالے کو اندھیری رات کیے دیتا تھا۔ خاص طور پر ماہِ مبارک کے ان دنوں میں، جب اس کی بیوی روزہ چھوڑنے پر تیار نہ تھی، بچہ مسلسل رویا کرتا، یہاں تک کہ متواتر چیخ پکار سے اس کے فوطے پھول گئے اور اس کے ماں باپ کی زندگی اجیرن ہو گئی تھی۔
آمیزرضا دن بھر میں چار بوری شکر یا دو تھیلے ہلدی کے سودے پر بھی مطمئن ہو جاتا اور اس سے زیادہ کے لیے دوڑدھوپ نہ کرتا، کیونکہ اس کا عقیدہ تھا کہ اگر اس سے زیادہ کی ہوس کی تو سواے جوتے گھسانے کے کوئی فائدہ نہ ہو گا۔ اسے گویا معلوم تھا کہ روزِازل سے اس کی قسمت میں اس سے بھی کم روزی لکھ دی گئی تھی۔ جب کبھی اس کی آمدنی اس سطح سے بڑھ جاتی یا مہینے میں ایک آدھ سودا زیادہ ہو جاتا تو وہ بوکھلا جاتا اور اسے یقین ہو جاتا کہ وہ کسی اور کی روزی چھین رہا ہے، اور اس خیال سے کہ دوسروں سے چھینا ہوا نوالہ کہیں اس کے حلق میں اٹک نہ جائے، جاڑوں میں قم جا کر چند دن زیارت میں مصروف رہتا اور اگر آج کل کی طرح گرمیاں ہوتیں تو بیوی بچوں کو ساتھ لے کر امامزادہ داؤد کے مزار کی زیارت کے لیے کچھ روز فرح زاد یا اوین کے مقام پر گزارتا۔
ابھی تک کربلا یا مکہ جانے کی آرزو تک نے اس کے ذہن میں سر نہ اٹھایا تھا اور جب کبھی وہ مسجد میں یا اور جگہوں پر لوگوں کو نماز کے بعد گڑگڑا گڑگڑا کر دعائیں مانگتے دیکھتا کہ خدا ان کی آرزو پوری کر دے، تو اپنے خیالوں میں ڈوب جاتا۔ اپنی دعا یا آیت کو بھول کر وہ ٹکٹکی باندھ کر اپنی سجدہ گاہ کو تکنے لگتا اور مسحور سا ہو جاتا۔ وہ نہیں سمجھ سکتا تھا کہ ایسے وقت میں کون سے خیالات اس کے ذہن سے گزرتے تھے۔ لیکن اسے اتنا یقین تھا کہ ایسی دوردراز کی آرزو کا اس کے ذہن میں کبھی گزر نہیں ہوا تھا اور اس نے اس کے لیے کبھی چھوٹی سی دعا تک نہ کی تھی۔
اپنی واجبی حرف شناسی کی بدولت، جب کبھی اس کا بڑا بیٹا اخبار گھر میں لے آتا تو وہ اخبا ر کا نام اور سرخیاں پڑھ سکتا تھا لیکن سمجھ کچھ نہ پاتا، اور بیٹے سے اس کی تشریح کرنے کو کہتا۔
ایک بات پر اس کا دل بہت جلتا تھا، وہ یہ کہ اس کا بیٹا، جس نے پارسال چھٹی جماعت پاس کی تھی، قرآن پڑھنے سے نابلد تھا، اور اس سے بھی بدتر یہ کہ جب کبھی وہ یہ شکایت لے کر اس کے اسکول گیا تو اسے یہ ڈھٹائی بھرا جواب ملا: ’’...ارے صاحب، اس پر کیوں اصرار کرتے ہیں! آخر آگے چل کر اس کا بچے کو کیا فائدہ ہو گا؟ اور آج کل کون ان چیزوں کی پروا کرتا ہے!...‘‘ لیکن وہ اس مبہم جواب سے مطمئن نہ ہوتا اور اس بےدین پرور نظام پر لعنت بھیجا کرتا، مگر چونکہ اس کے پاس کوئی چارہ نہ تھا، اپنی یہ کوفت وہ اپنی بیوی پر اتارتا اور تمام قصوراسی کے سر منڈھتا۔
دن بھر تہران کی سڑکوں پر دوڑتے بھاگتے اسے یہ سوچنے کی مہلت نہ ملتی کہ لوگ پچھلے برسوں کی بہ نسبت اس قدر بےدین کیوں ہو گئے ہیں۔ لیکن وہ یہ بات برداشت نہ کر سکتا تھا کہ کوئی بےدین شخص سرِبازار کچھ کھا رہا ہو یا سگریٹ پی رہا ہو اور وہ خاموش رہے۔
گلی میں چلتے اور زیرِلب دعا پڑھتے ہوے وہ سوچا کرتا: خدا کی پناہ! اِمسال مشکل ہی سے کوئی ایسا شخص نظر آتا ہے جو ان بےدینوں میں سے نہ ہو۔ شاید یہ لوگ اس مبارک مہینے سے اپنی عداوت ظاہر کرنے کے لیے جان بوجھ کر گلیوں میں سگریٹ پھونکا کرتے ہیں۔ یا نہیں، صرف اس کو اشتعال دلانے کے لیے یہ دکھاوا کرتے ہیں۔
اسے باور نہ آتا تھا کہ بےدینی اس قدر بڑھ گئی ہے اورلوگ اتنے بےپروا، بےشرم اور خوفِ خدا وبندگانِ خدا سے اتنے بے نیاز ہو گئے ہیں کہ سرِعام اسے جتاتے پھرتے ہیں۔اب تک کئی بار ایسا ہو چکا تھا کہ وہ ان لندھوروں سے الجھ پڑا اور انھیں وہ تمام آبدار اور ناتراشیدہ گالیاں سنا ڈالیں جو اس کی روزہ دار زبان سے ادا ہو سکتی تھیں۔ یہاں تک کہ ایک بار تو اسے اس کا پانچ تومان اور دس ریال جرمانہ بھی ادا کرنا پڑا، اور اگر تھانیدار، خدا اس کے باپ کی مغفرت کرے، مسلمان آدمی نہ ہوتا اور انھی لاابالی لوگوں کی قماش کا ہوتا تو یقیناً اس سے کہیں زیادہ جرمانہ وصول کرتا۔ بلکہ اس بھک منگے کو ہرجانہ دینے کا بھی مطالبہ کرتا اور کچھ دن کے لیے حوالات میں بھی ڈال دیتا۔
اس واقعے کا، جو ماہِ مبارک کی دوسری تاریخ کو پیش آیا تھا، اس نے اپنی بیوی سے بالکل ذکر نہ کیا تھا، اور کوئی اور شخص بھی نہ جانتا تھا کہ کس طرح اس نے سڑک کے کنارے بیٹھ کر چلم پیتے ہوے اس بھک منگے کے منھ پر طمانچہ مارا تھا اور اس کی ناک کو خونم خون کر دیا تھا۔
وہ بھک منگا بھی غالباً اپنا سبق خوب یاد کیے ہوے تھا۔ اس نے ایسی چیخ پکار مچائی اور اس شہر میں اپنے نووارد اجنبی ہونے کی ایسی دہائی دی کہ لوگ جمع ہو گئے اور اسے ملامت کرنے لگے کہ ’’صاحب، تمھیں کیا پتا، شاید یہ بیمار ہو۔ایسی بات خدا کو پسند نہیں آئے گی۔‘‘ اور آمیزرضا نے، جس کی گردن کی رگیں پھولی ہوئی تھیں اور چہرہ شعلے کی طرح سرخ ہو رہا تھا، چیخ کر ان لوگوں کو جواب دیا تھا، ’’اس حرامزادے کی گردن ٹوٹے! یہ کسی کونے کھدرے میں جا کر زہرماری کیوں نہیں کرتا! سرِبازار چلم پینا، یہ تو خدا کے خلاف اعلانِ جنگ ہے!‘‘ اس کے بعد کہیں سے سپاہی نمودار ہو گیا اور ان دونوں کو تھانے لے گیا۔ لیکن پھربھی شکر کا مقام ہے کہ جرمانہ زیادہ نہیں ہوا۔ اس کے باوجود، سچ یہ ہے کہ دل کی تہہ میں وہ خوش تھا کہ اس نے نہی عن المنکر کا فرض نبھا دیا۔
آمیزرضا پر اس قدر تھکن طاری تھی کہ اسے سونا مشکل ہو رہا تھا۔ وہ اب تک خود کو پنکھا جھل رہا تھا اور اس کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ ایسی حالت میں، اور تربوز اور پانی کے گلاسوں سے افطار کرنے کے نتیجے میں پھولے ہوے پیٹ کے ساتھ، وہ کیونکر برکت بھری راتوں میں شب زندہ داری کر سکے گا، اور کس طرح کل صبح منھ اندھیرے اٹھ کر مسجد جا سکے گا۔
ان چھ دنوں میں وہ خود کو ہر شام بڑی دقت سے چھت تک پہنچاتا رہا تھا۔ پھر مسجد تک جانا، چھ شبانہ روز قضا نماز پڑھنا، صبح تک جاگنا، ہر رات کم سے کم تین مرتبہ دعاےکمیل اور سمات اور جوشن کبیر ختم کرنا، اور آخر قرآن سر پر رکھ کر بلند آواز سے یااﷲ والغوث پڑھنا... سچ مچ وہ ایک طرح کی بند گلی میں پھنس گیا تھا۔
روزہ خوری تو وہ ہرگز نہیں کرسکتا تھا۔ لیکن اگر روزہ رکھنے کے بعد ہر شام اس کی یہی حالت ہو اور وہ اسی طرح بستر پر لاش کی طرح پڑ جایا کرے تب بھی ان برکت بھری راتوں کے فرائض کو کیسے نظرانداز کر سکتا تھا۔
وہ سوچ رہا تھا: سال میں یہی دو تین راتیں ہوتی ہیں جن میں سب کچھ پیش آتا ہے — عفوورحمت، تقسیمِ روزی، تعینِ تقدیر، سب کچھ انھی راتوں میں پیشانی سے لوح ِمحفوظ پر منتقل ہوتا ہے۔ اور اگر وہ اس موقعے سے فائدہ اٹھا کر ان بابرکت راتوں میں اپنے گناہوں کی تلافی نہ کر سکا، اور شاید اس پر کوئی افتاد آ پڑے اور وہ مر جائے، اگلا رمضان دیکھ ہی نہ سکے، تو اپنے سر پر کیسی کیسی خاک ڈالے گا۔
آمیزرضا یہیں تک سوچ پایا تھا کہ اسے نیند نے آ لیا۔
سہ پہر دو بجے کا وقت تھا۔ سڑکوں پر دکانیں سب بند تھیں اور ان کے مالک یا تو دکانوں کے بند دروازوں کے پیچھے چھپ کر کھانا کھا رہے تھے یا اگر مومن تھے تو وعظ سننے مسجد گئے ہوے تھے۔
بازار سنسان تھا۔ لوگ جنھیں کوئی کام نہ تھا، تیز دھوپ سے نڈھال ہو کر بازار کے گنبدوں اور محرابوں کے سائے میں پناہ لیے ہوے تھے۔ دکاندار مکھیاں اڑا رہے تھے اور کارندوں اور منشیوں کو چھٹی مل گئی تھی کہ حال میں پائی ہوئی بخشش یا مالک سے چوری چھپے بیچے ہوے مال کے بارے میں بات چیت کریں اور آپس میں صلاح مشورے کریں۔
آمیزرضا ، جس کا دن بھر کی دوڑدھوپ کے باوجود کوئی سودا نہ پٹا تھا، اور جس کی دو تھیلے ہلدی مسالہ فروش نے اس سے وعدہ کرنے کے باوجود اس سے ایک شاہی فی تومان کم پر کسی اور کو بیچ دی تھی، افسردہ اور نڈھال جامع مسجد سے باہر نکلا۔
اس کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ ایسی حالت میں وہ باجماعت نماز کیونکر ادا کرے۔ قرآن کی جو سورت اسے پڑھنی تھی اس نے نہ پڑھی اور واعظ کا بھی انتظار نہ کیا جسے آنے میں کچھ دیر ہو گئی تھی۔ اس نے اپنی جانماز سمیٹ لی اور اپنے چپل مسجد کے ستون کے پاس سے اٹھا کر بغل میں داب لیے، اور تسبیح ہاتھ میں تھامے، کہ نماز کے بعد کی دعا راستے میں پڑھ سکے، مسجد سے باہر نکل آیا۔
اسے معلوم نہ تھا کہ اس صبح اس نے کتنی مسافت طے کی۔ جو بھی ہو، اس کی زبان ماچس کی تیلی کی طرح سوکھ گئی تھی اور پیاس کے مارے دماغ پھٹا جاتا تھا۔ اس نے کربلا کے صحرا اور فرزندانِ زہرا کی تشنگی کو یاد کرنے کی کتنی ہی کوشش کی، اس کی پیاس رفع نہ ہوئی۔ جیب میں رکھے پیتل کے جام کو مسجد کے تالاب کے پانی سے بھر کر سر اور منھ پر ڈالتا رہا، لیکن کچھ فائدہ نہ ہوا۔ وہ پاگل سا ہوا جا رہا تھا۔
مسجد کے دروازے سے باہر آیا۔ لیکن کہاں جائے؟اسے کچھ معلوم نہ تھا۔ وہ ہر روز کے مقابلے میں زیادہ دیر تک بازار میں رہا تھا اور اب اس نے خود کو سڑک کے بیچ سہ پہر کے وقت سخت دھوپ میں پایا۔ وہ کسی ارادے کے بغیر چل رہا تھا، لیکن کدھر؟...شاید اپنے دماغ کی تہہ میں وہ جانتا تھا کہ کدھر جا رہا ہے لیکن اسے اپنے تخیل پر آشکار اور بےپردہ کرنا نہیں چاہتا تھا اس لیے اس کوشش میں تھا کہ اس کے روبرو نہ ہونا پڑے۔
شب کُلاہ اس نے جیب سے نکال کر سر پر اوڑھ لی۔ تسبیح، جس پر ذکر پڑھنا اب تک اس کے ذہن سے فراموش رہا تھا، جیب میں ڈال لی اور قدم تیز کر دیے۔ دو نمبر کی بس میں سوار ہوا اور سیدھا قزوین کے بس اڈے پر جا اترا۔
اسے کچھ ٹھیک سے یاد نہ تھا کہ کس گاڑی یا بس میں سوار ہوا تھا، لیکن آخر بچہ تہران کا تھا اور اس کے کونوں کھدروں سے اچھی طرح واقف۔ اور پھر پیاس کی شدت اسے دیوانہ کیے دے رہی تھی۔
کرج کو جانے والی بس بھر چکی تھی اور روانہ ہونے ہی کو تھی کہ آمیزرضا نے اسے جا لیا۔ وہ سیدھے ہاتھ پر مسافروں کے درمیان جا بیٹھا۔ بس بہت تیز چل رہی تھی۔ راستے میں نہ اس کا ٹائر پنکچر ہوا نہ اس میں پانی ڈالنے کی ضرورت پڑی۔ لیکن کوئی نہ جان سکا کہ آمیزرضا نے یہ مدت کس طرح بسر کی۔ صرف ڈرائیور کا شاگرد کرایہ جمع کرتا ہوا اس کے پاس پہنچا تو اسے سویا ہوا پایا اور اس کا دل نہ ہوا کہ جگا دے۔ اس نے سوچا کہ اترتے وقت کرایہ وصول کر لے گا۔ اس رات، افطار کے بعد، جب وہ اس دن کے واقعات اپنی بیوی کو سنا رہا تھا، اور سونے کے بعد ہونے والے معاملے کی تفصیل بیان کر رہا تھا، تب بھی اس کی سمجھ میں نہ آیا کہ وہ بس میں بیٹھ کر کس طرح کرج جا پہنچا، اور آیا وہ سو رہا تھا کہ اپنے حال سے بےخبر ہو چکا تھا۔
بس روانہ ہونے کے گھنٹے بھر کے اندر کرج جا پہنچی۔ سب مسافر اتر کر اپنے اپنے کاموں کی سمت چل پڑے۔آمیزرضا، جو اس تمام مملکت میں شاہ عبدالعظیم اور شمیران کے سوا کسی مقام سے واقف نہ تھا، پوچھتا پاچھتا کسی طرح ایک قہوہ خانے تک پہنچا۔اس نے قہوہ خانے کے دروازے کا ایک پٹ آہستہ سے کھولا اور اندر داخل ہو گیا۔
ایک دو گھنٹے بعد، جب اسے کرج لانے والی بس کے تہران واپس جانے کا وقت ہوا، وہ اس میں سوار ہو کر افطار کے وقت تہران واپس پہنچ گیا۔
افطار کے وقت نہ اس نے تربوز کھایا اور نہ برف کے پانی کی طرف کچھ رغبت دکھائی۔اس نے صرف چند لقمے نان کے شامی کوفتوں کے ساتھ کھائے اور اس پر چائے کے دو تین پیالے پیے۔ اس کی بیوی، جو کہیں زیادہ ہوشیار تھی، فوراً تاڑ گئی کہ کچھ بات ضرور ہے۔ اس نے بھی خود میں بات چھپانے کا بوتا نہ پا کر سب کچھ کہہ سنایا۔
اس کا بیٹا یہ بات سن کر بے اختیار ہنس پڑا، لیکن پھر ماں کی جھڑکی سن کر بسورتا ہوا ایک کونے میں جا بیٹھا۔موضوع چنداں بحث کے قابل نہ تھا۔ لیکن اس کی بیوی، جو خداجانے مسجد میں کسی سے جانماز پر جھگڑا ہونے پر چڑی ہوئی تھی یا اس روز بھوک جھیلنے سے بےحال ہو رہی تھی، معاملے کو یوں جانے دینے پر تیار نہ ہوئی۔ اس نے اپنا منھ کھولا اور ملامت اور کوسنوں کا ایک سیلاب امڈ آیا:
’’واہ! احمق گدھے! میں تو جیسے آدمی کا بچہ ہوں نہیں جو دن بھر شیرخوار بچے کے ساتھ اپنا جگر نوچا کروں، جیسے پیٹ میں کسی نے چاقو گھونپ دیا ہو۔ شرم نہیں آتی کہ کرج آنے جانے میں چار تومان خرچ کر ڈالے اور وہاں چائے کے پیالے سے روزہ توڑ ڈالا؟ اور وہ بھی سہ پہر کے وقت؟ اور اس پر خدا سے رحم کی بھی امید رکھتے ہو؟ اگر مرد نہیں ہو تو روزہ رکھنے ہی کی کیا ضرورت تھی؟ کسی نے تمھیں مجبور کیا تھا؟ یہ نہ ہوا کہ ان چار تومان کے انگور خرید لاتے کہ میں اور تمھاری اولادیں افطار کے وقت زہرمار کر لیتیں!‘‘
آمیزرضا، جو جھگڑا بڑھانا نہیں چاہتا تھا ، ڈرتا تھا کہ چیخ پکار سن کر ہمسائے اپنی چھتوں کی منڈیروں پر آ کر تماشا دیکھنے لگیں گے اور پوری بات جان جائیں گے، دبی ہوئی آواز میں اپنی بیوی کو چپ کرانے کی کوشش کرنے لگا۔ ’’بڑھیا، اب بس کر! خدا ناراض ہو گا۔ چھتوں پر سب لوگ سن رہے ہیں۔ عورت! آخر سوچ کہ تو کیا کہہ رہی ہے! مجھے اپنے فرائض تجھ سے اچھی طرح معلوم ہیں۔ میں نے آقا سے مسئلہ پوچھ لیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ اس میں کوئی اشکال نہیں۔ تو پھر تو کیوں ضد پر اڑی ہوئی ہے...‘‘
جب اس کی بیوی کو پتا چلا کہ اس نے آقا سے مسئلہ بھی دریافت کر لیا ہے تو بےاختیار ہنسنے لگی۔ اپنا غصہ بھول کر ہنسی روکتے ہوے مذاق کے انداز میں کہنے لگی،’’واہ! تمھارے سر میں خاک! تم اور تمھارا آقا! شرم تو نہیں آتی۔ واجبات تک کے مسئلوں سے واقف نہیں!‘‘
آمیزرضا اس آخری بات پر یقین نہیں کرنا چاہتا تھا۔ بڑی مشکلوں سے اس نے عورت کو خاموش کرایا اور اس تمام جھگڑے کو جلدی سے نمٹانے کی کوشش میں اپنا دستی پنکھا لے کر چھت پر چلا آیا۔
شیرخوار بچہ متواتر چیخ چیخ کر رو رہا تھا۔ گرم ہوا، جو اب تک چل رہی تھی، کہیں دور سے عزاداری کی آوازیں اپنے ساتھ لا رہی تھی۔ شہر کے کسی کونے سے آتی ہوئی ’یاحسین!‘ اور ’یاابوالفضل!‘ کی صدائیں اور سینہ زنی کی ہم آہنگ گونج شہر کے اوپر ہر طرف پھیل رہی تھی۔ ہمسایوں کی چھت پر دھویں سے اٹی لالٹین کی کمزور روشنی میں کچھ لوگ حلقہ بنا کر کسی سے مثنوی سننے میں ہمہ تن گوش تھے۔
آٹھویں تاریخ کا چاند آسمان کے ایک کونے میں دبکا ہوا تھا اور افسردہ اور غمگین قیافے کے ساتھ اس پوری بساط کو حسرت سے تک رہا تھا۔ ستارے کچھ تو اس تمام بےعقلی اور مفلسی کو تکتے رہنے سے اپنی تاب وتواں گنوا کر ناگہاں موت کا شکار ہو گئے تھے اور آسمان میں اپنے مقام سے گر کر تاریکی اور وحشت کی دنیا میں گم ہو رہے تھے اور اپنے پیچھے اپنی زندگی کی آخری رمق کے طور پر روشنی کی ایک لکیر چھوڑتے جا رہے تھے، اور کچھ جو زیادہ دلیراور قوی تھے وہ، سورج کو نگاہ جما کر دیکھنے والے لوگوں کی طرح، اس رنج و مذلت کی دنیا کو خیرہ ہو کر تک رہے تھے اور ان کی پلکیں نابینا ہو جانے کے خوف سے باربار بند ہو رہی تھیں۔ یا...میں نہیں کہہ سکتا، شاید اس تمام بدبختی اور جہل کو دیکھ کر ہنس رہے ہوں، ایک دوسرے کو چشم و ابرو سے اشارے کر کر کے ہمارا مذاق اڑا رہے ہوں!
(فارسی عنوان: ’’افطارِ بیموقع‘‘)
فارسی سے ترجمہ: اجمل کمال
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں