ہفتہ، 15 اگست، 2015

اے مشفق من۔۔۔!/اسلم فرخی

واہ خواجہ صاحب واہ۔۔۔ مانا کہ آپ داد و ستد کے بڑے کھرے تھے مگر اس قدر عجلت بھی کس کام کی۔ کاش آپ آمنہ بھابھی کی بے قراری دیکھ لیتے۔ اپنے محبّان باوفا، یوسفی صاحب کا اضمحلال، سعید محمود کے چہرے کی پژمُردگی، نسیم کی آنسوؤں سے ڈبڈبائی ہوئی آنکھیں، صوفی کی گریہ و زاری اور ہم سب کے ذہنی اور روحانی کرب کا احساس کرلیتے اور پھر جانے کا فیصلہ کرتے۔ نجانے کا ہے کی جلدی تھی۔ مگر یہ فیصلہ آپ کا نہیں تھا۔ خواجہ صاحب کتابیں شکوہ سنج ہیں کہ اب ایسا قدردان کتاب شناس کہاں سے آئے گا۔ دوستوں کے دل اور محفلیں ویران ہوگئی ہیں۔ انہیں کون سجائے گا۔ حسرتؔ کے ایک شعر کی معنویت اب سمجھ میں آرہی ہے ؂
تم تھے تو مری شام میں تھا صبح کا عالم
تم جب سے گئے شام جھلکتی ہے سحر میں
*
کراچی یونیورسٹی کے دفاتر اور بعض شعبے اُن دنوں پرنسس اسٹریٹ (اب چاند بی بی روڈ) پر تھے۔ ایک بہت چھوٹے سے کمرے میں شعبہ تصنیف و تالیف و ترجمہ کا دفتر تھا۔ میجر آفتاب حسن اس کے سربراہ تھے اور اقتدا حسن (اب ڈاکٹر اقتدا حسن) دفتر کے انچارج۔ اقتدا دوست تھے اس وجہ سے آنا جانا رہتا تھا۔ ایک دن اُن کے یہاں گیا تو برابر کی کُرسی پر ایک نوجوان بیٹھے ہوئے تھے۔ میں انہیں متعدد بار ابنؔ انشا کے ساتھ دیکھ چکا تھا۔ غالباً سولجر بازار میں رہتے تھے کیوں کہ میں نے انہیں وہاں بھی دیکھا تھا مگر تعارف نہیں ہوا تھا۔ اقتدا نے تعارف کرایا۔۔۔ ’’مُشفق خواجہ۔۔۔ انجمن ترقی اُردو میں معاون ادیب ہیں۔ علم و ادب کا سارا بار یہی سنبھالے ہوئے ہیں۔‘‘ میں نے خواجہ صاحب کو نظر بھر کر دیکھا۔ دُہرا جسم، گول مُسکراتا چہرہ، روشن آنکھوں پر عینک، فراخ پیشانی، باتیں کرنے میں ہنسے تو سفید دانت چمکے، آدھی آستین کی عُمدہ سلی ہوئی بش شرٹ۔ اسی کی مناسبت سے پتلون، جوتوں پر پالش، نکھ سے سُکھ دُرست۔ ہم دونوں نے تعارف ہوتے ہی ایک دوسرے کے لیے یگانگت کی ایک لہر محسوس کی، جو ساری زندگی برقرار رہی۔
میں اقتدا کے پاس اس غرض سے گیا تھا کہ میری تھیسس مکمل ہوگئی تھی۔ اس زمانے میں فوٹو اسٹیٹ کا رواج نہیں ہوا تھا۔ ٹائپ سے کام چلتا تھا۔ ایک اچھے اُردو ٹائپ کار کی تلاش میں گیا تھا۔ میں نے مدعا بیان کیا تو خواجہ صاحب نے کہا، ’’اگر آپ پسند فرمائیں تو میں مستعد، کار گزار اور پڑھا لکھا ٹائپ کار فراہم کرسکتا ہوں‘‘ میں نے کہا، ’’اندھا کیا چاہے دو آنکھیں۔ ضرور فراہم کر دیجیے۔‘‘ یہ طے ہوا کہ وہ دو تین دن میں ٹائپ کار میرے پاس بھیجیں گے میں رُخصت ہونے لگا تو خواجہ صاحب نے کہا، ’’کبھی انجمن بھی آیئے۔ میں نے سُنا ہے کہ پہلے آپ کا آنا جانا رہتا تھا۔‘‘ میں نے کہا، ’’جی ہاں، تھیسس کے لیے حوالے تلاش کرنے آتا تھا۔ جب تک قاضی صاحب رہے اُن کے پاس آتا تھا۔ اب انشاء اللہ آپ کے پاس آؤں گا۔‘‘
دو دن بعد خواجہ صاحب کا فون آیا کہ ٹائپ کار آج آپ کے پاس آئیں گے۔ یہ ٹائپ کار شجر نقوی صاحب تھے۔ بڑے محنتی، بڑے مستعد اور بڑے پڑھے لکھے۔ شرائط طے ہوگئیں۔ مُسوّدے کا ایک حصہ میں نے اُن کے حوالے کردیا۔
تین چار دن بعد ریڈیو پاکستان جانے کا اتفّاق ہوا۔ ایک مذاکرہ تھا۔ مذاکرے سے فارغ ہوکر نکلا تو خیال آیا کہ چلو آج خواجہ صاحب سے ملتے چلیں۔ اب ریڈیو پاکستان سے انجمن کا دفتر بہت دور معلوم ہوتا ہے، لیکن وہ زمانہ اور تھا جب زمین پیروں تلے روندتے پھرتے تھے۔ چناں چہ انجمن کا رُخ کیا۔ بڑے گیٹ سے اندر گئے۔ دائیں ہاتھ پر اُردو کالج، بائیں پر انجمن کی عمارت۔ نیچے دائیں ہاتھ پر زینہ اور کتب خانہ عام۔ بائیں ہاتھ پر کتابوں کے گودام۔ زینے سے پہلی منزل پر پہنچے۔ سامنے ایک چھوٹاسا صحن، بابائے اُردو کا کمرہ۔ ان کے پہلو میں جو کمرہ تھا وہاں قاضی احمد میاں بیٹھتے تھے۔ بابائے اُردو کے کمرے کے پہلو میں ایک چھوٹی سی کولکی۔ ایک زینہ اور طے کیا۔ بہت بڑے کمرے میں کتب خانۂ خاص۔ پہلو میں وہی پہلی منزل والی چھوٹی سی کولکی۔ اُسی کولکی میں ایک میز، تین چار کُرسیاں، درمیان میں خواجہ صاحب براجمان، میز پر اخباروں، رسالوں اور ڈاک کا انبار۔ خواجہ صاحب نے مجھے دیکھتے ہی اخّاہ کا نعرہ لگایا، ’’آیئے، آیئے۔ ڈاکٹر صاحب۔‘‘ میں نے کہا، ’’آپ کیوں مجھے کانٹوں میں گھسیٹتے ہیں۔ میں ابھی ڈاکٹر نہیں ہوا۔‘‘ بولے، ’’تو عنقریب ہوجائیں گے۔ میرے بیٹھتے ہی خواجہ صاحب نے آواز دی، ’’سیّد صاحب، چائے لایئے۔‘‘ چائے لانے والے سیّد بدر عالم بھی بابائے اردو کے ایک رتن تھے۔ اُن کے خادم خاص۔ بابائے اُردو کی طرح انہوں نے بھی گھربار کا جنجال نہیں پالا تھا۔ خواجہ صاحب کے بقول ان کے دو شوق تھے۔ اخباروں سے فلم ایکٹریسوں کی تصویریں کاٹ کر ایک رجسٹر میں چپکانا اور اگر کوئی شخص گفتگو میں کوئی نیا لفظ استعمال کرے تو اُسے یاد کرلینا اور اپنی گفتگو میں استعمال کرنا۔ ایک دن اُن کی موجودگی میں کسی صاحب نے ’’ہیچ و پوچ‘‘ کے الفاظ استعمال کیے۔ سیّد صاحب کو یہ الفاظ بڑے بھلے معلوم ہوئے اور انہوں نے یاد کرلیے۔ استعمال کے منتظر رہے۔
اتفّاق یہ کہ دو تین دن کے بعد جگر صاحب انجمن آئے۔ کراچی آئے ہوئے تھے۔ مولوی صاحب سے ملنے آگئے۔ مولوی صاحب نے اُنہیں ہاتھوں ہاتھ لیا۔ جگر صاحب اطمینان سے بیٹھے تو شعر خوانی کا آغاز ہوا۔ جگر صاحب کا لحن اور کلام کی رعنائی، سیّد صاحب مسحور ہوگئے۔ بے اختیار ہوکر بولے، ’’ایسا ہیچ و پوچ کلام تو آج تک نہیں سُنا۔‘‘ جگر صاحب سنّاٹے میں آگئے۔ مولوی صاحب نے ڈانٹا، ’’کیا بکتا ہے۔‘‘ مگر سیّد صاحب بھی اپنی وضع کے ایک ہی تھے۔ کہنے لگے، ’’چاہے مار ڈالو مگر کلام بڑا ہیچ و پوچ ہے۔‘‘ مولوی صاحب نے چھڑی سنبھالی مگر کچھ سوچ کر ٹھہرے۔ پوچھا، ’’کچھ سمجھتا بھی ہے۔ کیا بک رہا ہے۔‘‘ سیّد صاحب نے کہا، ’’سمجھتا کیوں نہیں۔ بڑا اعلیٰ درجے کا کلام ہے۔‘‘ مولوی صاحب ہنس پڑے۔ پوچھا، ’’یہ الفاظ تجھے کس نے سکھائے؟‘‘ سیّد صاحب نے بتایا۔‘‘ فلاں صاحب اس دن آئے تھے۔ انہوں نے یہ الفاظ کہے تھے۔ مجھے اچھے لگے۔ میں نے یاد کرلیے۔‘‘ جگر صاحب یہ سُن کر مُسکرائے اور سیّد صاحب کی گُلو خلاصی ہوئی۔ اس روایت کے ختم ہوتے ہوتے سیّد صاحب چائے لے کر آئے۔ بڑی عمدہ چائے تھی۔ بابائے اُردو اور خواجہ صاحب دونوں سیّد صاحب کی سادہ لوحی گوارا کرتے رہتے تھے۔
چائے کے بعد باتیں شروع ہوئیں۔ دُنیا جہان کی باتیں۔ ادب، شعر، ادیبوں، شاعروں اور ادب دوستوں کی باتیں۔ خواجہ صاحب کی معلومات وسیع تھیں۔ گفتگو کا انداز بڑا دلچسپ تھا۔ برجستہ فقرہ کہتے تھے اور خوب کہتے تھے۔ وقت زیادہ ہوگیا تو میں نے اجازت چاہی۔ خواجہ صاحب نے کہا، ’’دو بج چکے ہیں۔ آپ تین بجے سے پہلے گھر نہیں پہنچ سکیں گے۔ اس لیے کھانا کھا کر جایئے۔‘‘ میں نے کہا، ’’مجھے یہ نہیں معلوم تھا کہ انجمن میں مساکین کے پیٹ بھرنے کا انتظام بھی ہے۔‘‘ خواجہ صاحب نے جواب میں کہا، ’’اجی ہر طرح کا انتظام ہے۔‘‘ پھر آواز دی، ’’سیّد صاحب۔ کھانا لایئے۔‘‘
خواجہ صاحب کی پشت پر ایک چھوٹی سی میز رکھی تھی۔ سیّد صاحب نے کھانا اُس میز پر رکھ دیا۔ قورمہ اور تندوری روٹیاں۔ معلوم ہوا کہ بندر روڈ پر فیروز سنز کے پہلو میں کیفے شیراز ہے۔ کھانا وہاں سے لایا گیا ہے۔ اچھا خاصہ تھا۔ ذائقہ آج تک زبان پر ہے۔ افسوس کہ یہ کیفے مدت ہوئی بند ہوگیا۔ اختتام فیرنی پر ہوا اور سیّد صاحب پھر چائے لے آئے۔
یہ ملاقات بہت زبردست تھی۔ ہم دونوں نے ایک دوسرے کا مزاج سمجھ لیا۔ خواجہ صاحب نے بے تکلّفی کے باوجود میرا احترام مدّنظر رکھا۔ اُن کا ایک فقرہ مجھے اب تک یاد ہے۔ کہنے لگے، ’’اگر میں ایس ایم کالج کا طالب علم ہوتا تو آپ کا شاگرد ہوتا۔‘‘ میں نے کہا، ’’مفروضات بہت سے ہوسکتے ہیں دوستی اور برادرانہ اخلاص حقیقت ہے باقی سب مفروضے۔‘‘ کہنے لگے، ’’آپ نے خود ہی حدود قائم کردیں۔ بڑے بھائی اور چھوٹے بھائی والا معاملہ ہے۔‘‘ میں برابر خواجہ صاحب کے پاس جاتا رہا اور کھانا کھاکر واپس لوٹتا۔ یہ ایک معمول ہوگیا تھا۔ ایک آدھ دفعہ میں کھانا کھا کر گیا یا کھانا نہیں کھایا تو خواجہ صاحب نے برہمی کا اظہار تو نہیں کیا لیکن افسردہ ضرور ہوئے۔ یہ معمول اُس وقت تک جاری رہا جب تک خواجہ صاحب انجمن میں رہے۔۔۔ میں یونیورسٹی منتقل ہوگیا تب بھی خواجہ صاحب کے پاس جاتا رہا۔ ناظم آباد میں وہ کبھی کبھی میرے یہاں آتے تھے۔ یونیورسٹی جانے کے بعد یہ سلسلہ ختم کیا ہوا یک طرفہ ٹریفک بن گیا۔
اس زمانے میں دو دھماکے بڑے زبردست ہوئے۔ پہلا دھماکہ بابائے اُردو کا انتقال تھا۔ میں نے بابائے اُردو کے انتقال پر خواجہ صاحب کی آنکھوں میں غم کے گہرے سائے دیکھے۔ ہم دونوں نے بہت دن تک صرف بابائے اُردو ہی کے بارے میں گفتگو کی تھی۔
دوسرا دھماکہ خواجہ صاحب نے خود کیا تھا۔ ہوا یہ کہ ابتدا میں انٹر کی تعلیم کی نگرانی، نصاب کا تعین اور امتحانوں کا انعقاد یونیورسٹی کی ذمہ داری تھی۔ انٹر کا اُردو نصاب انجمن کا شائع کردہ تھا۔ غالباً شجاع احمد زیبا نے مرّتب کیا تھا۔ یہ متّوسط درجے کا سیدھا سادا انتخاب تھا جس کی اشاعت سے انجمن کو ہر سال کچھ مالی یافت ہوجاتی تھی۔ جب یونیورسٹی میں شعبہ اُردو قائم ہوگیا اور صدر شعبہ کا تقرر بھی ہوگیا تو انہوں نے انجمن کا انتخاب نصاب سے خارج کردیا اور ان کا مرتبہ انتخاب پڑھایا جانے لگا۔
نئے انتخاب میں فرہنگ بھی تھی۔ خواجہ صاحب نے اسے موضوع بنایا۔ یہ فرہنگ عام درسی کتابوں کی فرہنگ کی طرح ناقص اور اغلاط سے پُر تھی۔ خواجہ صاحب نے بڑی محنت سے ’’گر ہمیں مکتب و ہمیں ملّا‘‘ کے عنوان سے ایک طویل مضمون لکھا جو اطہر صدیقی کے رسالے ’’سات رنگ‘‘ کے دو تین شماروں میں شائع ہوا۔ اطہر صدیقی خواجہ صاحب کے ہم جماعت اور گہرے دوست تھے۔ پیرکالونی میں میرے چھوٹے بھائیوں کے پڑوسی تھے اور پروفیسر محمد حسن عسکری کے خاص شاگرد تھے۔ خواجہ صاحب کا مضمون تحقیقی ژرف نگاہی، فرہنگ نگاری کی وسیع معلومات اور شگفتہ بیانی کا بڑا چھّا نمونہ تھا۔ تحقیقی ژرف نگاہی آگے چل کر اُن کی تحقیقی کتابوں میں مستحکم ہو کر ظاہر ہوئی۔ شگفتہ بیانی نے اُن کے کالموں میں نکھر کر کاٹ، طنز، برجستگی اور شوخی طبع کا عمق اور وسعت حاصل کی۔ بڑی دھوم مچی اس مضمون کی۔ بڑی واہ واہ بھی ہوئی، بڑی تھڑی تھڑی بھی ہوئی۔ بہت دن تک اس دھماکے کا اثر رہا۔ شعبہ اُردو اور یونیورسٹی سے خواجہ صاحب کے تعلقات کشیدہ ہوگئے اور مُدّت دراز تک کشیدہ رہے۔ جلد ہی انٹر بھی میٹرک بورڈ کا حصہ بن گیا۔ اُردو کی نئی کتاب مرّتب ہوگئی جو پہلی دونوں کتابوں کے مقابلے میں انتخابی عدم صلاحیت کا شاہکار تھی۔ بہرحال اس مضمون سے خواجہ صاحب کی دھاک بیٹھ گئی۔
اسی اثنا میں خواجہ صاحب دولہا بنے۔ بڑی سُتھری اور شان دار تقریب ہوئی۔ گُل رعنا کلب میں ولیمہ ہوا۔ کراچی کے تقریباً سارے ہی اہل قلم موجود تھے۔ ولیمے میں ڈاکٹر محمد احسن فاروقی نے پُھلجھڑی چھوڑی۔ خواجہ صاحب کو مبارکباد دینے کے بعد کہنے لگے، ’’اب اُردو آپ کی مادری زبان ہوگئی۔‘‘ بڑے قہقہے لگے۔ خواجہ صاحب اُس وقت جواب دینے سے قاصر تھے۔ ذرا دیر بعد فاروقی صاحب نے ایک اور پُھلجھڑی چھوری۔ بولے، ’’یہ صاحب مجھ سے پوچھ رہے ہیں کہ انجمن میں ایک تو بابائے اُردو تھے۔ اب کرتا دھرتا خواجہ صاحب ہیں۔ اُنہیں کیا کہا جاتا ہے۔ تو میں نے کہا یہ ’’داماد اُردو‘‘ ہیں۔‘‘ اس پر بھی بڑے قہقہے لگے۔ اتفّاق یہ کہ بیگم آمنہ مشفق کی چھوٹی بہن عائشہ مصطفی میری بیوی کی ہم جماعت تھیں۔ ملنا جُلنا ساری بہنوں اور خاندان کے دوسرے افراد سے بھی تھا۔ اس وجہ سے خواجہ صاحب سے تعلقات میں کچھ اور استحکام پیدا ہوگیا۔ آمنہ بھابھی شادی سے پہلے ہی ’افکار عبدالحق ‘لکھ کر اہل قلم کے گروہ میں شامل ہوگئی تھیں۔ مگر شادی کے بعد انہوں نے قلم رکھ دیا۔
بابائے اُردو کے بعد اختر حسین انجمن کے صدر ہوئے۔ عالی صاحب سیکریٹری تھے اور ہیں۔ مگر حُکم خواجہ صاحب ہی کا چلتا تھا۔ وہ بدستور اُسی کولکی میں بیٹھے ایک عالم کو زیر و زبر کرتے رہے۔ سارے مُلکی ادیبوں سے ان کی ذاتی واقفیت تھی۔ بیرون ملک کے ادیبوں اور عالموں سے تعلقات تھے۔ باہر سے جو بھی آتا۔ انجمن میں خواجہ صاحب سے ضرور ملتا۔ خواجہ صاحب دن بھر اپنی کولکی میں بیٹھے رہتے۔ شام کو اُٹھتے۔ صدر میں گلڈ، انجمن کتاب گھر تک ٹہلتے ہوئے جاتے۔ وہاں کچھ دیر ٹھہرتے۔ یہ کتاب گھر بھی اُنہیں کی کوششوں سے وجود میں آیا تھا۔ کتابوں اور ادیبوں شاعروں کا اچھّا مرکز تھا۔ ’’خبر نہیں کہ اُسے کھاگئی نظر کس کی۔‘‘
بابائے اُردو کی پہلی برسی ہوئی۔ برسی سے کچھ دن پہلے خواجہ صاحب نے فون کیا، ’’میں بابائے اُردو کی برسی کا مہتمم ہوں۔ آپ کو ایک مضمون پڑھنا ہے۔‘‘ میں نے تعجب سے پوچھا، ’’آپ تو جلسے جلوسوں سے دور بھاگتے ہیں۔ پھر یہ ہمیں کاہے کے لیے گھیر رہے ہیں۔‘‘ کہنے لگے، ’’ذاتی تعلقات کی بنا پر۔ جانتا ہوں کہ آپ انکار نہیں کریں گے۔‘‘ میں نے کہا، ’’شرط یہ ہے کہ آپ کو میرے کالج کی کسی تقریب میں شرکت کرنا پڑے گی۔‘‘ بولے، ’’جان و دل سے۔‘‘ برسی کی تقریب میں میں نے مضمون پڑھا۔ دوسری برسی اور تیسری برسی میں بھی مضمون پڑھے۔ پھر غالباً مضامین کا سلسلہ منقطع ہوگیا۔ قرآن خوانی اور فاتحہ برقرار رہی۔
خواجہ صاحب کے فون برابر آتے رہتے تھے۔ خواجہ صاحب کی انفرادیت ان کے فون کرنے کے انداز سے بھی نمایاں تھی۔ وہ ’’ہیلو‘‘ نہیں کہتے تھے۔ ’’فرمایئے‘‘ کہتے تھے۔ میں نے انفرادیت کا یہ انداز یا تو خواجہ صاحب میں دیکھا یا محب مکرم واصل عثمانی صاحب کے یہاں یہ انداز نظر آیا۔ وہ ہیلو کے بجائے گفتگو ’’السلام علیکم‘‘ سے شروع کرتے ہیں۔ اور سب ہیلو ہی سے کام چلاتے ہیں۔
ایک دن فون آیا، ’’آپ ماشاء اللہ سے ڈاکٹر ہوگئے۔ مقالہ کب تک یونہی رکھا رہے گا۔ اسے شائع کیوں نہیں کرتے۔‘‘ میں نے کہا، ’’اتنی ضخیم کتاب کون شائع کرے گا۔‘‘ کہنے لگے۔ ’’انجمن۔۔۔ اور کون۔‘‘ میں نے پوچھا، ’’یہ آپ کہہ رہے ہیں۔‘‘ مجھے اُن کی زبانی یہ علم ہوچکا تھا کہ صدر انجمن کتابوں کی اشاعت کے سلسلے میں خاصے سخت ہیں۔ کسی کتاب کی اشاعت کی منظوری دینے سے پہلے وہ یہ دریافت کرتے ہیں کہ اس پر لاگت کتنی آئے گی۔ کتنے عرصے میں فروخت ہوئی۔ انجمن کو کتنا منافع ہوگا۔ اس ’’پُرسش احوال‘‘ کا نتیجہ یہ تھا کہ کتابیں کم شائع ہوتی تھیں۔ جب میں نے پوچھا کہ ’’یہ آپ کہہ رہے ہیں‘‘ تو انہوں نے کہا، ’’جی ہاں۔ میں کہہ رہا ہوں۔ میں نے منظوری لے لی ہے۔ آپ مُسّودہ پہنچا دیجیے۔‘‘
میں نے مُسّودہ پہنچا دیا۔ خواجہ صاحب نے مجھ سے ایک اشاعت کے لیے باقاعدہ معاہدہ کیا اور مُسّودہ کاتب کے حوالے کیا۔ کتابت ہوتی رہی۔ پروف پڑھے جاتے رہے۔ ضخیم کتاب تھی۔ بڑا وقت صرف ہُوا لیکن شائع ہوگئی۔ خواجہ صاحب نے اس فراخ دلی کا مظاہرہ کیا کہ مجھ سے کہا، ’’آپ جن جن صاحبوں کو کتاب بھیجنا چاہتے ہیں اُن کے نام اور پتوں کی ایک فہرست مجھے دے دیجیے۔ میں انجمن کی طرف سے بھجوا دوں گا۔‘‘ چنانچہ کتاب اندرون ملک اور بیرونِ ملک متّعدد ادب دوستوں کو ارسال کی گئی۔ پہلی جلد کا اشاریہ بھی خواجہ صاحب نے بنوایا تھا۔ دوسری جلد کا اشاریہ پروفیسر لطیف اللہ صاحب نے بنایا۔ خواجہ صاحب سے اُن کی شناسائی ہوگئی اور آگے چل کر خواجہ صاحب نے اُن سے بہت کام لیا۔
کتاب شائع ہوگئی۔ مجھے اس پر داؤد ادبی انعام بھی ملا۔ دعوت بھی ہوئی۔ شریک ہونے والوں میں سے شاہد احمد دہلوی، جالبی صاحب، عالی صاحب، خواجہ صاحب اور پتلے اکرام کے نام ذہن میں محفوظ ہیں۔اس دعوت میں خواجہ صاحب کی گُل افشانی گفتار اپنے عروج پر تھی۔ اُن کی موجودگی سے محفل کی رونق دوبالا ہوگئی تھی۔ برجستہ فقرے، گرماگرم جُملے۔ یہ محسوس ہوتا تھا کہ اس تقریب کے روح و رواں وہی ہیں۔
یہ سب کچھ ہوچکا تو خواجہ صاحب نے ایک دن فون کیا، ’’اجی ڈاکٹر صاحب۔ کُچھ کام کیجیے۔‘‘ ’’کیا کام۔ آپ ہی کوئی کام تجویز کر دیجیے۔‘‘ کہنے لگے، ’’تجویز کرچکا ہوں۔ کل انجمن آجایئے۔‘‘ دوسرے دن گیا تو انہوں نے ایک پُرانا چھپا ہوا تذکرہ مجھے دکھایا۔ نام تھا، ’’گُلشن ہمیشہ بہار۔‘‘ مؤلف تھے مولوی نصر اللہ خان خویشگی۔۔۔ میں ڈپٹی نذیر احمد کے حوالے سے اُن کے نام سے بخوبی واقف تھا۔ خواجہ صاحب نے بتایا کہ ’’یہ تذکرہ ۷۵۸۱ء کے لگ بھگ چھپا تھا۔ جنگ میں اس کے بیشتر نسخے ضائع ہوگئے۔ یہ ایک نسخہ ہاتھ آیا ہے۔ اب آپ اسے مدوّن کر دیجیے۔‘‘ میں نے کتاب کا ٹائپ شدہ مسوّدہ لے لیا اور کام میں مصروف ہوگیا۔ حُسن اتفّاق یہ کہ اُنہی دنوں میری ملاقات خویشگی خاندان کے ایک بزرگ ابوبکر خویشگی مرحوم سے ہوئی۔ اُن سے مجھے مولوی صاحب کی سواغ عمری دست یاب ہوئی۔ بعض اور کتابیں بھی دیکھیں۔ تذکرہ مدوّن ہوگیا۔ مقدمہ بھی مکمل ہوگیا۔ مُسّودہ خواجہ صاحب کے حوالے کر دیا گیا۔ بڑے خوش ہوئے۔ جلد ہی یہ تذکرہ شائع ہوگیا۔ مجھے آج تک حیرت ہے کہ خواجہ صاحب نے ان دونوں کتابوں کی اشاعت کی منظوری کیسے حاصل کی۔
۱۷ء کی جنگ میں بھی خواجہ صاحب کے جوہر کُھلے۔ اس جنگ میں ہر پاکستانی دامے درمے قدمے سخنے جان و دل سے شریک تھا۔ شاعروں نے ریڈیو کے لیے قومی نغموں کا ڈھیر لگا دیا۔ ’’خطۂ لاہور تیرے جاں نثاروں کو سلام، پاکستانی بڑے لڑّیا۔‘‘ نثر نگاروں نے جنگ کے حوالے سے خوب خوب پروگرام لکھے۔ خواجہ صاحب نے بھی کالموں کا ایک سلسلہ ’’سُنا آپ نے‘‘ کے عنوان سے شروع کیا۔ کاٹ دار، تیز، تُند۔ جس نے سنا پسند کیا۔ یہ اُن کے ادبی کالموں کا ابتدائی روپ تھا۔ جنگ ختم ہوئی تو خواجہ صاحب کا کالم بھی ختم ہوگیا۔ اصل میں یہ کام بدر عالم کے مجبور کرنے سے شروع ہوا تھا۔ بدر عالم خواجہ صاحب کے ہم جماعت اور دوست تھے۔ ان دنوں کراچی ریڈیو سے وابستہ تھے۔ خواجہ صاحب نے ان کی زورازوری ریڈیو کے کچھ اور پروگرام بھی لکھے لیکن وہ ریڈیو کے آدمی نہیں تھے۔ نہ ریڈیو سُنتے تھے نہ اس کے پروگراموں سے دلچسپی رکھتے تھے۔ ایک دفعہ انہوں نے مجھ سے کہا، ’’یہ جو آپ اتنی پابندی سے ریڈیو میں وقت ضائع کرتے ہیں اُس سے کیا فائدہ؟‘‘ میں نے کہا، ’’چور چوری سے جاتا ہے ہیرا پھیری سے نہیں جاتا۔ ریڈیو کسی حد تک میری شناخت بن گیا ہے۔‘‘ اب غور کرتا ہوں تو احساس ہوتا ہے کہ انہوں نے ٹھیک ہی کہا تھا۔ بلامبالغہ پچھلے پچپن برس میں ہزاروں پروگرام لکھے لیکن گل نغمہ اور پردہ ساز دونوں سے ماورا رہا۔
دن بھر کُرسی پر بیٹھے رہنے سے خواجہ صاحب کو ذیابیطس کا عارضہ لاحق ہوگیا۔ شام کو وہ تھوڑی بہت چہل قدمی کرتے تھے لیکن دن بھر کُرسی پر بیٹھے رہتے تھے۔ اس نامراد بیماری نے اُنہیں بڑا پریشان کیا۔ ایک دن انجمن میں اُن کے پُرانے دولت اور ہم جماعت اطہر صدیقی اُن سے ملنے آئے۔ میں بھی موجود تھا۔ دونوں دوستوں میں ملاقات بہت دن بعد ہوئی تھی۔ شکوے شکایتیں ہوئیں۔ اطہر بھی اسی نامراد مرض کے مریض اور کسی حد تک بد پرہیز بھی تھے۔ انہوں نے اپنا احوال بیان کیا۔ خواجہ صاحب نے اپنا حال سنایا۔ دونوں اپنا درد دل کہتے رہے۔ میں خاموش سنتا رہا۔ اُس دن مجھے خواجہ صاحب کے مرض اور تکلیف کا اندازہ ہوا ورنہ وہ اپنی کوئی تکلیف کبھی بیان نہیں کرتے تھے۔ میں نے یہ تو دیکھا تھا کہ بہت دن سے جب کبھی اُن کے ساتھ انجمن میں کھانے کا اتفاق ہوتا تو وہ مٹھاس نہیں کھاتے تھے لیکن میرے لیے مٹھاس ضرور ہوتی تھی۔ خواجہ صاحب پرہیز کے قائل تھے۔ کبھی کبھی کسی دعوت میں میں اُن سے کہتا کہ آپ کے حصے کی مٹھاس بھی کھانا ہے تو وہ کہتے مگر ثواب میری روح کو پہنچے گا۔ مٹھاس نہ کھانے کی تلافی وہ اس طرح کرتے کہ اگر کھانے میں رائتہ ہوتا تو وہ ایک خالی گلاس میں رائتہ بھرتے اور آہستہ آہستہ پیتے رہتے۔ آمنہ بھابھی بھی اس کام میں اپنے شوہر کی مُقلّد تھیں۔۔۔
انجمن میں خواجہ صاحب کے گردا گرد ایک پوری کہکشاں تھی۔ کتب خانے میں افسر صاحب تھے، درویش عالم۔ ہر آنے والا اُن سے استفادہ کرتا تھا۔ میں نے بھی استفادہ کیا ہے۔ سرفراز صاحب تھے کتاب دار۔ کتابیں ہی ان کا اوڑھنا بچھونا تھیں۔ کتب خانہخاصکی جو فہرست انہوں نے مرّتب کی وہ آج بھی مستند اور رائج ہے۔ متعدد نئے لوگ آتے رہے جاتے رہے۔ شمیم احمد، سعید احمد، تحسین سروری، سطوت میرٹھی، ریڈیائی ڈرامے کے ماہر سیّد احمد رفعت، بزرگ شاعر اور معروف ادیب جلیل قدوائی (خواجہ صاحب کی زورا زوری سے انہوں نے اپنی خود نوشت مرتب کی) عباس احمد عباسی۔ کیسے کیسے موتی تھے جو کراچی کی خاک میں رُل گئے۔ اس کہکشاں میں اُستاد راگ انبالوی کے شاگر نسیم احمد بھی تھے جو خواجہ صاحب کی دریافت تھے۔ گلڈ انجمن کتاب گھر سے انجمن آئے اور آج بھی خواجہ صاحب کا دم بھرتے ہیں۔ صوفی عبدالرشید مولوی صاحب کے ہم وطن خادم اور خواجہ صاحب کے اور میرے سرپرست۔ میرے سرپرست تو یوں کہ گاہے گاہے وہ مجھے یاد دلاتے اور دھونس دیتے رہتے ہیں کہ میں آپ کو اُس وقت سے جانتا ہوں جب آپ پڑھتے تھے اور خواجہ صاحب کے سرپرست یوں کہ شیخ چاند، ہاشمی فرید آبادی، الیاس مجیبی، اختر حسین رائے پوری سے لے کر خواجہ صاحب تک ان کی خدمت کا دائرہ پھیلا ہوا تھا۔ اتوار کے اتوار صوفی خواجہ صاحب کے یہاں آنے جانے والوں کو چائے پیش کرتے تھے اور اپنی اہمیت کا احساس بھی دلاتے تھے۔ اتنے بہت سے لوگوں کو جن میں سے ہر شخص خود اک مرکز فکر و فن تھا، ایک مرکز پر قائم رکھنا خواجہ صاحب ہی کا کام تھا۔
انجمن زندگی بھر خواجہ صاحب کی شناخت اور حوالہ رہی لیکن وہ ۳۷ء میں انجمن سے سبک دوش ہوگئے۔ ایک دن فون آیا، ’’میں نے انجمن چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔‘‘ ’’انجمن چھوڑنے کا فیصلہ؟‘‘ بڑا تعجب ہوا۔ انجمن خواجہ صاحب کے بغیر؟ مگر جانے والے کو کون روک سکتا تھا۔ خواجہ صاحب بھی انجمن سے چلے گئے، مگر چلے کیا گئے۔ انجمن کے کاموں میں پہلے سے زیادہ دخیل ہوگئے۔ شہر کے خبر تراشوں اور افواہ سازوں نے یہ خبر مشہور کر دی کہ خواجہ صاحب کو کسی غیر ملکی ادارے نے نہایت معقول معاوضے پر پاکستانی مخطوطات کی فہرست مرتب کرنے کی ذمہ داری سونپی ہے۔ خواجہ صاحب نے ’’جائزہ مخطوطات اُردو‘‘ کی پہلی جلد شائع کی تو دیباچے میں اس افواہ کی واضح طور پر تردید کی۔ اس تردید کا مطلب یہ تھا کہ افواہ خواجہ صاحب تک پہنچ گئی تھی اور انہیں ناگوار گزری تھی۔ خواجہ صاحب اس کا کام لیے موزوں ترین آدمی تھے۔ تاہم ایک دن میں نے اُن سے کہا، ’’یہ کام کوئی اور بھی کرسکتا تھا۔‘‘ کہنے لگے، ’’کر تو سکتا تھا مگر آپ کے پاس جو قلمی کتابیں ہیں وہ مجھے کیسے دیکھنے کو ملتیں۔‘‘ بات ہنسی مذاق میں ختم ہوگئی۔ انجمن کے بجائے ناظم آباد کے بلاک نمبر پانچ میں عباسی شہید اسپتال کے سامنے والی گلی میں ’’مسکن رحمت‘‘ رحمت علم و ادب کا مرکز بن گیا۔ خواجہ صاحب کی زندگی کا نیا دور شروع ہوگیا۔ اب تک وہ وابستگان انجمن میں تھے اب خود انجمن بن گئے۔
انجمن سے علیحدہ ہوکر خواجہ صاحب نے تالیفی اور تخلیقی کام شروع کیا۔ دو سو قلمی نسخوں کی وضاحتی فہرست جائزہ مخطوطات اُردو کے عنوان سے مرّتب کی۔ انجمن میں انہوں نے سعادت خان ناصر کا تذکرہ ’’خوش معرکہ زیبا‘‘ مدوّن کیا تھا۔ اب منشی احمد دین کی کتاب ’اقبال‘ ڈھونڈ کر نکالی اور اسے مرتب کیا۔ اس کتاب کا قصّہ بھی عجیب ہے۔ اس کا پہلا ایڈیشن اقبال کی زندگی میں شائع ہوا تھا مگر جلا دیا گیا۔ خواجہ صاحب نے اسے ازسرنو شائع کیا۔ غالب اور صفیر بلگرامی کے تعلقات پر کتاب مرتب کی۔ تحقیقی مضامین کا مجموعہ ’’تحقیق نامہ‘‘ کے عنوان سے شائع کیا۔ تخلیقی ادب کے نام سے ہم عصر تخلیقی ادب کے جائزے اور منتخب تحریروں کے پانچ مجموعے شائع کیے۔ کلیات یگانہ کی تدوین کی۔ کلیات یگانہ کی تدوین میں انہوں نے نو برس صرف کیے۔ جانے کہاں کہاں سے چیزیں ڈھونڈ کر نکالیں۔ اُنہیں تلاش و جستجو میں ملکہ حاصل تھا۔ برصغیر کے مختلف کتاب خانوں کے قلمی نسخوں سے وہ پوری طرح واقف تھے۔ کون سا نسخہ کہاں ہے۔ کب کا مرقومہ ہے۔ کس حالت میں ہے میں نے بارہا اُن کی اس معلومات سے فائدہ اُٹھایا ہے۔ اسی طرح شعرا اور ادیبوں کے بارے میں بھی اُن کا علم بڑا حاضر تھا۔ انہوں نے اس سلسلے میں بے شمار طلبہ کی رہ نمائی کی۔ تحقیق کرنے والے اُن سے استفادہ کرتے رہتے تھے۔ وہ خندہ پیشانی سے ہر طالب علم کے سوالوں کے جواب زبانی اور تحریری دیتے تھے اور مختلف اخبارات و رسائل میں چٹ پٹے، کاٹ دار ادبی کالم لکھے۔ خوب لکھے اور دھوم مچا دی۔
یہ برجستگی اور شگفتگی اپنی جگہ، مگر برصغیر کے علمائے سلف کی طرح خواجہ صاحب نے بھی اپنی تحقیقی مہارت، تنقیدی بصیرت، جرح و تعدیل کی زکاوت اور ذہنی سُرعت کو تدوین و حاشیہ نگاری میں محدود کرلیا تھا۔ وہ تخلیقی حرارت، برجستگی، تازگی اور لطافت، چُبھنے والی نشتریت اور زور بیان کی ندرت جو ان کے کالموں میں جھلکتی ہے اُن کے تالیفی مزاج کا حصّہ نہ بن سکی۔ حاشیہ نگاری میں انہوں نے کمال حاصل کرلیا تھا۔ کلیّات یگانہ کے حواشی اس کا مُنھ بولتا ثبوت ہیں لیکن حاشیہ نگاری تخلیقی اُپج کی راہ کھوٹی کرتی ہے۔
ان کاموں کے ساتھ ساتھ خواجہ صاحب نے تنظیمی صلاحیت کا بھی اچھا ثبوت دیا۔ ادارہ یادگار غالب، فیض احمد فیض اور مرزا ظفر الحسن کے اشتراک سے قائم ہوا تھا۔ مرزا نے اسے اپنی زندگی کا مقصد وحید بنالیا۔ غالب لائبریری کے لیے اپنے شب و روز وقف کر دیے۔ کیسے کیسے اور کہاں کہاں سے کتابیں حاصل کیں۔ مجھے یاد ہے کہ وہ اکثر اپنی فوکس ویگن میں میرے یونیورسٹی کے مکان پر آتے اور جتنی بھی کتابیں مل جاتیں لے جاتے۔ ان کا یہ روّیہ ہر دوست کے ساتھ تھا۔ اس رویّے کے دو نتیجے نکلے غالب لائبریری ایک مقتدر ادارہ بن گئی اور مرزا دل کے مریض ہوگئے۔ لائبریری ہی کی تگ و دو میں ان کا انتقال ہوا لیکن ان کی زندہ یادگار غالب لائبریری موجود ہے۔
مرزا صاحب کے بعد خواجہ صاحب نے ادارہ یادگار غالب اور غالب لائبریری کو سنبھالا۔ انہوں نے کوئی عہدہ تو قبول نہیں کیا بس کام کرتے رہے۔ برسوں محنت کی۔ بڑی خاموشی اور لگن سے کام کرتے رہے۔ تحقیق کرنے والوں اور طلبہ کی رہ نمائی کے لیے لائق آدمی لائبریری میں رکھے۔ پروفیسر لطیف اللہ نے کچھ دن کام کیا۔ ڈاکٹر مشرف احمد اس کام پر مامور رہے۔ اب شہاب قدوائی یہ خدمت انجام دے رہے ہیں۔ کتابوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ادارے کا رسالہ ’’غالب‘‘ اور ادارے کی جانب سے علمی اور ادبی کتابیں مسلسل شائع ہوتی ہیں۔ مرزا صاحب کے دور میں اشاعتی پروگرام نہیں تھا۔ یہ تشکیل و تعمیر کا دور تھا۔ خواجہ صاحب نے اشاعتی پروگرام کے اضافے سے ادارے کو بہت زیادہ فعال بنا دیا۔ ان کی تنظیمی صلاحیت اور منصوبہ بندی سے ادارے کو بہت فائدہ ہوا۔
خواجہ صاحب کالم بڑے اہتمام سے لکھتے تھے۔ ایک دن میں نے فون کیا۔ چند مسائل پر بات کرنا تھی۔ مگر انہوں نے کہا، ’’آج کالم کا دن ہے۔ آج لمبی بات نہیں ہوگی۔‘‘ ان کے کالم تیز و تند اور برجستہ فقروں سے مزیّن ہوتے تھے۔ پہلودار اور کاٹ دار، متعدد اخباروں اور رسالوں میں نقل ہوتے تھے۔ دو اشخاص خواجہ صاحب کے کالموں کے مستقل ہدف تھے۔ ایک اُستاد اختر انصاری اکبر آبادی۔ بڑی دلچسپ چھیڑ چھاڑ رہتی تھی۔ بڑے گرما گرم فقرے ہوتے تھے مگر قابل غور بات یہ ہے کہ اس ساری چھیڑ چھاڑ کے باوجود جب اختر انصاری کا انتقال ہوا تو گھر میں قطب بن کر بیٹھے رہنے والے مشفق خواجہ حیدرآباد گئے اور ان کی تجہیز و تدفین میں شریک ہوئے۔ غالباً سارا انتظام بھی اُنہوں نے کیا تھا۔
دوسرے ہدف کراچی کے ایک ادبی رسالے کے مدیر تھے۔ ان کے بارے میں خواجہ صاحب کا یہ فقرہ کہ ’’موصوف اپنے رسالے کا اداریہ تک نہیں لکھتے۔‘‘ بڑا مقبول ہوا تھا، خواجہ صاحب نے بارہا ان کے بارے میں لکھا کہ موصوف صاحب ثروت اور تندرست و توانا ہونے کے باوجود معذور ادیبوں کے فنڈ سے پنشن وصول کرتے ہیں۔ وہ ان کے رسالے کے خریدار تھے۔ باقاعدہ سالانہ چندہ ادا کرتے تھے۔ کہتے تھے میں ان کا رسالہ مفت نہیں پڑھتا۔ جب تک خواجہ صاحب کا کالم چلتا رہا، موصوف کی مدّح میں پُھلجھڑیاں چھوٹتی رہیں۔ بڑے برجستہ اور گرما گرم فقرے پڑھنے میں آتے رہے۔
ایک کام خواجہ صاحب نے اور شروع کیا لیکن یہاں ان کی تنظیمی صلاحیت ان کے لیے مالی نقصان کا سبب بن گئی۔ ناتجربہ کاری بھی آڑے آئی۔ انہوں نے مکتبہ اسلوب کے نام سے علمی اور ادبی کتابوں کی اشاعت کا ذاتی ادارہ قائم کیا۔ کتابیں شائع کیں اور اُس زمانے میں انہوں نے مجھ سے کہا کہ ’’میری کتاب اشاعت کے تیسرے دن ملک کے دور دراز گوشوں میں بھی پہنچ جاتی ہے۔ پہنچ تو جاتی تھی لیکن فروخت نہیں ہوتی تھی، خواجہ صاحب نے جو کتابیں شائع کیں اُن میں سے بیشتر علمی تھیں۔ علمی کتابوں کے خریدار بہت کم ہوتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مالی نقصان مسلسل ہوتا رہا اور آخر کار خواجہ صاحب کو مکتبہ اسلوب بند کرنا پڑا۔۔۔ یہی ایک ایسی مہم تھی جس میں سپر ڈالنا پڑی۔
مکتبہ اسلوب کی وجہ سے جو مالی نقصان ہوا سو ہوا۔ ایک دفعہ ایسی صورتِ حال بھی پیدا ہوگئی جس سے دھماکہ ہوسکتا تھا۔ مگر اس کی روداد بیان کرنے سے پہلے میں پس منظر کے طور پر یہ کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ خواجہ صاحب میں یہ صفت تھی کہ وہ ہر نووارد کراچی کو کلیجے سے لگاتے تھے۔ بوڑھوں سے استفادہ کرتے، نوجوانوں کو تربیت دیتے۔ انہوں نے بہت سے نئے آنے والے بزرگوں سے استفادہ کیا اور بہت سے نوجوانوں کو علمی اور ادبی تربیت دے کر ادبی حلقوں میں متعارف کرا دیا۔ استفادے اور تربیت کی مہم میں کبھی کبھی ایسا بھی ہوا کہ خواجہ صاحب کے لیے ’’نقصان مایہ اور شماتت ہمسایہ‘‘ کی نوبت بھی آگئی۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ خواجہ صاحب نے ایک بزرگ عالم کی کتاب شائع کی۔ کتابیں شائع ہوتی رہتی تھیں۔ اُن پر رسالوں، اخباروں، ریڈیو اور ٹی وی سے تبصرے بھی ہوتے رہتے تھے۔
ایک دن ٹی وی سے فون آیا کہ کل فلاں کتاب پر تبصرہ ہے۔ آپ شام کو آٹھ بجے تشریف لے آیئے اور تبصرہ کر دیجیے۔ میں نے کہا، ’’خواجہ صاحب نے یہ کتاب مجھے بھجوائی نہیں ہے۔ نہ میں نے دیکھی ہے۔ کتاب پڑھے بغیر تبصرہ کیسے ہوسکتا ہے۔‘‘ پر وڈیوسر صاحب میرے بہت عزیز شاگرد تھے۔ انہوں نے کہا، ’’کتاب آپ کو ملتی کیسے۔ کل ہی تو چھپ کر آئی ہے۔ پروگرام پہلے سے بن چکا تھا۔ اب آپ ایسا کیجیے کہ مغرب پڑھ کر یہاں آجایئے اور آرام سے میرے کمرے میں بیٹھ کر کتاب دیکھ لیجیے۔‘‘ ان کے اصرار تاجورانہ کے سامنے میری کلاہ درویشی کو جُھکنا پڑا۔ چنانچہ اگلے دن میں ٹی وی اسٹیشن پہنچ گیا۔
پروڈیوسر صاحب نے مجھے آرام سے بٹھایا۔ کتاب میرے حوالے کی۔ میں نے مطالعہ شروع کیا۔ پڑھتا جاتا تھا اور کھولتا جاتا تھا۔ مؤلف نے اختراعی اور وضعی روایتوں کے سہارے بڑے معصوم انداز میں اکابر کی کردار کشی کی تھی۔ خدا معلوم کہاں کہاں کی خرافات جمع کر دی تھیں۔ میں نے پروڈیوسر صاحب سے کہا کہ ’’اس کتاب پر بے لاگ تبصرے سے میری عافیت اور تمہاری ملازمت کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے اور کتاب کے مندرجات عام ہونے پر ایک فرسٹ کلاس فساد بھی ہوسکتا ہے۔‘‘ وہ بڑے پریشان ہوئے۔ پروگرام منسوخ ہوا اور میں ناک کان سلامت لے کر گھر آگیا۔
گھر آکر میں نے خواجہ صاحب کو فون کیا۔ وہ شام کو عموماً سیر و تفریح کے لیے نکل جاتے تھے۔ گھر پر ذرا مشکل ہی سے ملتے تھے مگر اُس دن اتفّاق سے گھر پر موجود تھے۔
پوچھنے لگے، ’’تبصرہ ریکارڈ ہوگیا‘‘۔ ’’میں نے کہا، ’’کیا آپ نے اس کتاب کا مُسّودہ دیکھا تھا۔‘‘ بولے، ’’نہیں۔ کیا ضرورت تھی۔ ایک بزرگ کرم فرما کی کتاب ہے۔ ٹھیک ہی ہوگی۔‘‘ میں نے کہا، ’’آپ صرف ابتدائی پچیّس صفحے پڑھ کر ایک گھنٹے بعد مجھے فون کیجیے۔ میں انتظار کر رہا ہوں۔‘‘
خواجہ صاحب کا فون ایک گھنٹے سے پہلے ہی آگیا۔ کہنے لگے، ’’بڑا غضب ہوا۔ یہ صورتِ حال میری غفلت سے پیدا ہوئی۔ صبح وہ ساری کتابیں واپس منگوا لوں گا جو بازار میں بھیجی ہیں۔ اس وقت اگر آپ کے علاوہ کوئی اور تبصرہ کر دیتا تو آفت ہوجاتی۔ آپ کی وجہ سے صورتِ حال خراب ہونے سے بچ گئی۔‘‘ میں نے کہا، ’’بچانے والا اللہ ہے۔ آپ کی کوئی نیکی کام آگئی۔۔۔ چونا لگانے والے بڑی مشکل سے پہچانے جاتے ہیں۔ پھونک پھونک کر قدم رکھنا چاہیے۔۔۔ لیکن بقول جوش ؂
قدم پست و بلند دہر میں تھرّاہی جاتا ہے
چلے کتنا ہی بچ کر کوئی ٹھوکر کھاہی جاتا ہے
خواجہ صاحب نے خوش طبعی سے کام لیا۔ کہنے لگے، ’’میں تو پان ہی نہیں کھاتا مگر چونا لگ جاتا ہے۔‘‘ اس طرح یہ آئی بلا ٹل گئی۔
*
جب آصف نے لکھنا پڑھنا شروع کیا تو انہوں نے بڑی حوصلہ افزائی کی۔ آصف نے ممتاز شیریں کی کتاب ’’نوری نہ ناری‘‘ مرتب کی تو خواجہ صاحب نے اسے اپنے مکتبے سے شائع کیا۔ آصف کے مرتب کردہ ادیبوں اور شاعروں کے مصاحبوں کے مجموعے کا نام تجویز کیا۔ انھوں نے اس کی اشاعت کا انتظام بھی کیا تھا لیکن ان کا مکتبہ ہی بند ہوگیا۔ وہ آصف کی ادبی کاوشوں کو پسند کرتے تھے اور مفید مشورے دیتے رہتے تھے۔ آصف کبھی آرزدہ ہوتے تو خواجہ صاحب سمجھاتے کہ ’’شکر کرو تم محسود ہو، کبھی حاسد نہ بننا۔ اور حسد کرنے والوں کا جواب نہ دینا۔‘‘ کبھی آصف کی طرف اشارہ کرکے مجھ سے کہتے، ’’یہ آپ کی سب سے وقیع تصنیف ہے۔‘‘ ان کے اس فقرے پر میں لاجواب ہو جاتا۔
کراچی یونیورسٹی میں ایک طویل عرصہ گزارنے کے بعد میری سبک دوشی کا وقت آیا۔ اس وقت سے کچھ پہلے مختار زمن مرحوم نے کہ میرے بزرگ بھی تھے اور دوست بھی تھے، اپنے معمول کے بے تکلفانہ انداز میں کہا، ’’یار اسلم، تم انجمن میں آجاؤ۔‘‘ وہ انجمن ترقی اُردو کی مجلس نظماء کے رُکن تھے۔ پھر ایک دن نور الحسن جعفری صاحب نے فون کیا، ’’آپ انجمن میں آجایئے۔‘‘ وہ انجمن کے ناظم اعلیٰ تھے۔ انہوں نے کہا۔ ’’ہمیں آپ کی ضرورت ہے۔‘‘ میں نے معذرت کی کہ کچھ دن آرام کرلینے دیجیے۔ مگر انہوں نے کہا، ’’آرام وارام کا خیال چھوڑیئے۔ کام کیجیے۔‘‘ چنانچہ یونیورسٹی سے سبک دوش ہوتے ہی میں مشیر علمی و ادبی کی حیثیت سے انجمن پہنچ گیا۔
انجمن جانے سے پہلے میں نے خواجہ صاحب سے مشورہ کیا۔ وہ میری بات سُن کر ہنسے۔ بولے کہ مجھے سب خبر ہے۔ آپ بے کھٹکے آجایئے۔ وہ بھی انجمن کی مجلس نظما کے رکن تھے۔ قدرت اللہ شہاب مرحوم صدر انجمن تھے۔ عالی صاحب جنرل سیکریٹری اور جالبی صاحب خازن، تاہم خواجہ صاحب فعال ترین رُکن تھے۔ سارے معاملات اُنہی کی صوابدید سے طے ہوتے تھے اور ان کے فیصلے قطعی سمجھے جاتے تھے۔
انجمن میں رجوع بکار ہوتے ہی مجھ میں اور خواجہ صاحب میں ایک خاموش معاہدہ ہوگیا۔ جس کی ہم دونوں نے پوری پوری پاسداری کی۔ معاہدہ یہ تھا کہ میں ان کے کسی منصوبے کی مخالفت یا تردید نہیں کروں گا اور وہ میری کسی رائے سے اختلاف نہیں کریں گے۔ اس خاموش معاہدے سے انجمن بہت سے مخمصوں سے محفوظ رہی۔
انجمن کے جنرل سیکریٹری عالی صاحب ادیبوں، شاعروں، اساتذہ اور دانش وروں کے لیے ہمیشہ سے اپنے دل میں ایک نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ ادارہ مصنفین پاکستان میں انہوں نے ادیبوں کی بھلائی کے بہت سے کام کیے۔ آج بھی وہ اپنی اسی روش پر قائم ہیں۔ ان کی اس فراخ دلی سے ہمارے لیے بعض اوقات کوئی نہ کوئی مسئلہ پیدا ہوجاتا تھا۔ مثال کے طور پر ایک بزعم خویش محقق کو دور متاخرین کے ایک شاعر کا مخطوطہ حاصل ہوگیا۔ انہوں نے فوراً اسے نقل کیا۔ ایک الٹا سیدھا دیباچہ لکھا اور عالی صاحب کے حوالے کیا کہ انجمن اسے شائع کر دے۔ عالی صاحب نے یہ مخطوطہ مجھے بھجوا دیا۔ میں نے پہلا صفحہ پڑھا تو دماغ گھوم گیا۔ نقل راچہ عقل کے بمصداق جناب محقق نے نوّے فیصد مصرعے ناموزوں کر دیے تھے۔ حمدیہ قصیدہ تھا۔ دقیق اور غریب الفاظ کا حلیہ اس طرح بگاڑا تھا کہ آب آئینہ زنگار آئینہ میں تبدیل ہوگئی تھی۔ بڑا بھنّایا۔ خواجہ صاحب کو فون کیا۔ صورتِ حال بتائی۔ انہوں نے کہا۔ میرے پاس بھیج دیجیے۔ چنانچہ مسّودہ انہیں بھیج دیا گیا۔ انہوں نے ایک تفصیلی نوٹ لکھا اور مسّودے کے نقائص کو پوری طرح آشکار کر دیا۔ میں نے خواجہ صاحب کی رائے کی تائید کی اور مسّودہ عالی صاحب کو واپس بھجوا دیا۔ خدا معلوم انہوں نے جناب محقق سے کیسے پیچھا چُھڑایا مگر مجھ سے یا خواجہ صاحب سے کوئی شکایت نہیں کی۔
ایک اور واقعہ یاد آیا۔ یہ بھی پہلے ہی واقعے کی طرح کا ہے۔ ایک صاحب نے پی ایچ ڈی کے لیے مقالہ لکھا۔ مقالے پر ڈگری بھی مل گئی۔ اب اُنہیں شوق اشاعت دامن گیر ہوا۔ عالی صاحب سے رجوع کیا اور اُنہیں یہ باور کرانے میں کامیاب ہوگئے کہ یہ مقالہ علمی دید و دریافت کا شاہ کار ہے۔ عالی صاحب نے مقالہ خواجہ صاحب کو بھجوا دیا۔ انجمن کی اشاعتی کمیٹی کے تین رکن تھے۔ عالی صاحب، خواجہ صاحب اور مشیر علمی و ادبی کی حیثیت سے یہ خاکسار، خواجہ صاحب نے مقالہ پڑھ کر مجھے فون کیا کہ اسے آپ سنبھالیں۔ میں نے مقالہ پڑھا تو نزاعی اور مختلف فیہ مسائل کا مجموعہ نظر آیا۔ چنانچہ میں نے پوری دیانت داری سے بے لاگ رائے لکھ کر خواجہ صاحب کو بھیج دی۔ انہوں نے میری رائے پر تائیدی نوٹ لکھ کر عالی صاحب کو بھجوا دیا۔ پھر کیا ہوا۔ یہ مجھے نہیں معلوم لیکن انجمن ایک اشاعتی صدمے سے بچ گئی۔
انجمن میں میں نے خواجہ صاحب کی تائید سے بزرگ ادیبوں کو مدعو کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔ پیر و مرشد حضرت استاذی ڈاکٹر غلام مصطفی خان صاحب قبلہ نے زحمت فرمائی۔ بزرگ ادیب اشرف صبوحی آئے۔ ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری کو بلایا۔ قاسمی صاحب کو بلایا۔ توسیعی خطبات کا آغاز کیا۔ ہندوستان سے ڈاکٹر تنویر احمد علوی آئے۔ ڈاکٹر نثار فاروقی نے غالب پر خطبہ دیا۔ ان کے خطبے کے بارے میں روزنامہ ڈان کے ادبی رپورٹر نے غضب کا فقرہ لکھا تھا:
"The Learned Professor came all the way from Delhi to tell us that Ghalib was a pious Musalman."
عزیز حامد مدنی نے جدید شاعری پر خطبہ دیا جس کی بڑی دھوم ہوئی۔ بعد میں مدنی صاحب نے اسے توسیع دے کر کتابی شکل دے دی۔ یہ کتاب انجمن نے دو حصّوں میں شائع کی۔
یہ سب کچھ ہوا۔ بے شمار لوگ ان جلسوں اور تقریبوں میں آگئے۔ مگر نہیں آئے تو خواجہ صاحب۔ کسی ایک جلسے میں بھی شریک نہیں ہوئے۔ ادبی جلسوں میں نہ جانے کے فیصلے پر قائم رہے اور صاف دامن بچاگئے۔ لیکن میں نے ان کی اصول شکنی بھی دیکھی۔ آغا خان میڈیکل یونیورسٹی نے مشتاق احمد یوسفی صاحب کے ساتھ ایک شام کا اہتمام کیا۔ میں تو یہ سمجھا تھا کہ ڈاکٹروں کو ادب سے کیا واسطہ مگر جب پہنچا تو ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ بمشکل بیٹھنے کی جگہ ملی۔ یوسفی صاحب کا مضمون اور ان کے پڑھنے کا انداز۔ ایک ہندی دوہے کا پہلا مصرع یاد آتا ہے، ’’ایک تو مدھ بھرے نینا دوجے انجن سار۔‘‘ میں نے بہت سے شاعروں کو مشاعرے لوٹتے اور سماں باندھتے دیکھا ہے لیکن نثر نگار یا تو مِن مِن کر کے چلے جاتے ہیں یا مضمون نہیں پڑھتے، گھاس کاٹتے ہیں۔ یوسفی صاحب کا پڑھنا جیسے قوس قزح کے سارے رنگ بکھر گئے ہوں۔ جیسے کلیاں چٹک رہی ہوں۔ جیسے دلوں میں گدگدی ہو رہی ہواور کبھی کبھی حد رفتار بھی ٹوٹتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ جب یوسفی صاحب مضمون پڑھ کر چائے کے لیے باہر آئے تو اُن کے ساتھ خواجہ صاحب بھی تھے۔ ’حق یوسفی‘ ایسا زبردست تھا کہ خواجہ صاحب نے عہد شکنی گوارا کرلی۔ اس تقریب کے علاوہ میں نے انہیں کسی اور ادبی تقریب میں نہیں دیکھا۔ یوسفی صاحب سے ان کے بڑے برادرانہ اور مخلصانہ تعلقات تھے۔ میں نے دعوتوں میں دونوں کو یکجا دیکھا ہے اور بارہا دونوں کی پُرلطف گفتگو سے محظوظ ہوا ہوں۔ فاطمہ حسن کے یہاں ہر کھانے میں یوسفی صاحب اور خواجہ صاحب ضرور ہوتے تھے۔ بڑی رونق رہتی تھی۔
خواجہ صاحب انجمن میں فیصلے بڑی قطعیت سے کرتے تھے۔ بے لاگ رائے دیتے تھے۔ میٹنگوں میں بات کرتے تو لگی لپٹی نہیں رکھتے تھے۔ انجمن کے تمام کاموں پر نظر رکھتے تھے۔ کسی مسئلے پر کچھ لکھتے تو مسئلے کے تمام پہلوؤں کا بغور جائزہ لیتے تھے۔ اُنہیں انجمن کا مفاد عزیز تھا اس وجہ سے وہ ہر ایسے اقدام کی ڈٹ کر مخالفت کرتے تھے جو انجمن کے لیے نقصان دہ ہو۔
ایک دفعہ نور الحسن جعفری مرحوم نے جو اُن دنوں صدر انجمن تھے خود بخود یہ فیصلہ کرلیا کہ کتب خانہ خاص میں انگریزی، فرانسیسی، جرمن اور لاطینی کی جو کتابیں موجود تھیں اُنہیں کسی اور کتب خانے میں دے دیا جائے تاکہ اُردو کی مزید کتابوں کے لیے جگہ نکل آئے۔ جب انہوں نے مجھے اس فیصلے سے آگاہ کیا تو میں بڑا پریشان ہوا۔ بہتیرا سمجھایا کہ یہ سب کتابیں اُردو زبان کی ابتدا، تاریخ، لسانی نظریات اور تاریخ اسلام کے مستند حوالوں کی بنیادی کتابیں ہیں۔ انہیں انجمن ہی میں رہنا چاہیے مگر کوئی اثر نہیں ہوا۔ تنگ اکر میں نے خواجہ صاحب کو صورتِ حال سے آگاہ کیا۔ خواجہ صاحب نے جعفری صاحب کو آڑے ہاتھوں لیا۔ کہنے لگے۔ ’’بابائے اُردو نے جو حوالہ جاتی ذخیرہ ایک عمر کی محنت سے جمع کیا تھا۔ کیا آپ چاہتے ہیں کہ وہ بالکل برباد ہوجائے۔ ان کے کہنے پر جعفری صاحب اس خیال سے باز رہے اور غیر ملکی زبانوں کی نادر کتابوں کا ذخیرہ محفوظ رہا۔ اس طرح کے واقعات آئے دن پیش آتے رہتے تھے۔ خواجہ صاحب کی سوجھ بوجھ اور اثر سے صورتِ حال خراب ہونے سے بچ جاتی تھی۔
آخر کار تمام اچھی چیزوں کی طرح اس برادرانہ رفاقت اور اشتراک کا بھی حسنِ خاتمہ آپہنچا۔ تمّت بالخیر ہوا۔ میں نے خرابی صحت کی وجہ سے انجمن سے علیحدگی اختیار کرلی۔ پہلے روزانہ کم از کم چار فون ہوتے تھے۔ اب دن بھر میں ایک فون کی نوبت آگئی مگر یہ فون بھی دو تین پر بھاری ہوتا تھا۔ فون پر اس ہیچ مدان کی آزمائش بھی ہوتی رہتی تھی۔
وہ شعرائے اُردو کے سارے تذکروں کو چاٹے بیٹھے تھے۔ شعرائے فارسی کے تذکروں پر بھی گہری نظر تھی۔ ’’خوش معرکہ زیبا‘‘ مرتّب کرنے کی وجہ سے شعرائے لکھنؤ سے گہری شناسائی تھی۔ مگر کبھی کبھی اس طرح کے فون بھی آتے تھے اور اس طرح کی گفتگو بھی ہوتی۔
’’ارے ڈاکٹر صاحب! دوسرا مصرع کیا ہے، ’’مے باقی وماہتاب باقی‘‘ ’’مارا بتو صد حساب باقی‘‘۔ ’’اچھا اچھا۔ ہے کس کا؟‘‘ ’’نسبتی تھانیسری سے منسوب ہے‘‘۔ ’’اچھّا تو کچھ اس کے حالات‘‘۔۔۔ ’’آپ سارے تذکرے لیے بیٹھے ہیں۔ کسی میں دیکھ لیجیے۔‘‘
پھر کسی دن فون آیا۔ ’’یہ شعر کس کا ہے ؂
شورے شُد و از خواب عدم چشم کشودیم
دیدیم کہ باقیست شب فتنہ غنودیم‘‘
آپ کے ممدوح محمد حسین آزاد نے سرمد کے کھاتے میں ڈالا ہے۔‘‘ ’’غزالی مشہدی کا شعر ہے۔ میرے ممدوح نے شعر سرمد کے کھاتے میں نہیں ڈالا۔ یہ لکھا ہے کہ جب جلاد شمشیر بکف اُس کے سامنے آیا تو اُسے دیکھ کر کہا کہ تو بہرصورتے کہ می آئی من ترامی شناسم اور یہ شعر پڑھ کر گردن جھکا دی۔‘‘
ایک دن کہنے لگے، ’’شعرائے لکھنو کے کلام میں فطرت کا حسن نہیں ہے۔‘‘ میں نے جواباً کہا۔ ’’ناسخ کی وہ غزل‘‘ ؂
جنوں پسند مجھے چھاؤں ہے ببولوں کی
عجب بہار ہے ان زرد زرد پھولوں کی
آپ کو یاد ہوگی۔ ’’بولے اور آتش۔‘‘ میں نے شعر پڑھا ؂
صحرا کو بھی نہ پایا بغض و حسد سے خالی
کیا کیا جلا ہے ساکھو پھولا جو ڈھاک بن میں
کچھ دیر خاموش رہے۔ پھر بولے، ’’کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔‘‘ میں نے کہا، ’’ڈھاک کے پتّے تو تین ہی ہوتے ہیں لیکن پھول بڑے خوب صورت ہوتے ہیں۔ ڈھاک پھولتا ہے تو بن میں روشنی سی ہوجاتی ہے۔ بہار آجاتی ہے۔ ساکھو۔ سال۔ لکڑی مضبوط اور عمارتی کاموں میں استعمال ہوتی ہے۔ لکھنو میں لمبے تڑنگے آدمی کو دیکھ کر فقرہ کستے تھے۔ ’’ساکھو کا لٹھّا چلا جارہا ہے۔‘‘ یہاں جلنے کے لفظ کا استعمال اُستادانہ ہے‘‘ خواجہ صاحب کہنے لگے، ’’اِسی لیے تو میں کہتا ہوں کہ اگر ایس ایم کالج کا طالب علم ہوتا تو آپ کا شاگرد ہوتا۔ جائے استاد خایست۔‘‘ میں نے کہا، ’’یہ تبادلہ خیال اور معاصرانہ دید و دریافت ہے۔ اُستادی شاگردی نہیں۔ ‘‘ لیکن یہ ایک طرفہ ٹریفک نہیں تھا۔ میں بھی گاہے گاہے اُن کی معلومات سے فائدہ اُٹھاتا تھا۔ یہ سلسلہ ان کی زندگی کے آخری دور تک جاری رہا۔
میری کتاب ’’دبستان نظامؒ ‘‘ شائع ہوئی تو ایک نسخہ اُنہیں بھیجا۔ انہوں نے دوسرے دن فون کیا، ’’آپ سے یہ توقّع نہیں تھی‘‘۔ ’’کیوں؟ خیر تو ہے‘‘۔ ’’پروف ریڈنگ میں ایسی کوتاہی۔ ابتدا میں جو منقبت ہے اُس میں دو قبیح غلطیاں ہیں۔ مصرع یوں ہے۔ وز دوست زماں زماں پیامت۔ کتاب میں زمان کا لفظ تین دفعہ لکھا گیا ہے اور اس مصرعے میں اے خُلق محمدی کے زندہ مفہوم میں زندہ کا لفظ زائد ہے۔‘‘ میں نے کہا، ’’دونوں غلطیاں نہایت قبیح ہیں۔ اچھا ہوا کہ آپ نے مجھے اطلاع دے دی۔‘‘ کہنے لگے، ’’دراصل اب کوئی اچّھا تصحیح کرنے والا نہیں رہا۔ پروف پڑھنے والے پروف سرسری طور پر دیکھتے ہیں۔‘‘ میں نے کہا، ’’ہر شخص آپ کی نظر کہاں سے لائے۔ پوری کتاب پڑھ کر غلط نامہ مرتّب کر دیجیے‘‘ مگر انہوں نے یہ درد سر نہیں پالا۔
ابھی کوئی دس پندرہ دن ہوئے میری بیوی نے بی اے کی دَرسی کتاب میں شامل مُصحفی کی غزل کے ایک مصرعے کی تصحیح چاہی۔ غزل مجھے یاد تھی، ’’جب واقف راہ و روش ناز ہوئے تم۔‘‘ بدقسمتی سے جس مصرعے کی تصحیح مقصود تھی وہی یاد نہیں آیا۔ حافظے کا عجز۔ دیوان مصحفی تلاش کیا۔ نہیں ملا۔ کس سے پوچھوں۔ حسب معمول فون پر نمبر گھمایا، ’’چھیاسٹھ۔ دس۔ چھ سو اڑتالیس۔‘‘ معاًخیال آیا۔ یہ تمہیں کیا ہوگیا تھا۔ فون رکھ دیا اور افسوس کرتا رہا کہ خواجہ صاحب کے بعد اتنے بڑے اور بھرے پُرے شہر میں کوئی ایک مصرع بتانے والا نہیں رہا۔
حضرت سلطان جی قدس سرہ العزیزکے عُرس میں ہر سال میرا دلّی جانا ہوتا تھا۔ خواجہ صاحب کو اطلاع دیتا تو وہ کسی نہ کسی کتاب کی فرمائش کرتے۔ ایک دفعہ انہوں نے ڈپٹی نذیر احمد کے لیکچروں کی فرمائش کی۔ ایک دفعہ واقعات دارالحکومت دہلی کی تیسری جلد منگوائی۔ صرف ایک دفعہ ایسا ہوا کہ میں ان کی فرمائش پوری نہ کرسکا۔ انہوں نے مولانا حسین احمد مدنی کی خود نوشت کی فرمائش کی تھی مگر مکتبہ جامعہ کے مہتمم شاہد علی خان صاحب کی کوشش کے باوجود کتاب دستیاب نہ ہوسکی۔ بعد میں خواجہ صاحب نے کسی اور ذریعے سے یہ کتاب حاصل کرلی۔ اُن کے پاس خودنوشتوں کا بہت بڑا ذخیرہ تھا۔ ایک بار انہوں نے بتایا تھا کہ اُردو کی بیشتر خودنوشتیں اُن کے پاس موجود ہیں۔دو خودنوشتیں اُنھیں خاص طور پر پسند تھیں۔روسو کے اعترافات اور کیسا نووا کی آپ بیتی۔ کیسا نووا کی آپ بیتی مدّتوں ان کی دفتری میز پر رکھی رہی۔ وہ اس کے بڑے مداح تھے۔ ایک آدھ مرتبہ اس کے بارے میں گفتگو بھی ہوئی۔ روسو کے اعترافات کی پسندیدگی اتنی تھی کہ انھوں نے اردو میں اس کا ترجمہ شروع کیا تھا۔ یہ ترجمہ مکمل ہوا یا نہیں، اب کون بتائے۔ آصف سے انھوں نے ایک دفعہ کہا تھا کہ ’’ میں نے روسو کے اعترافات کا فارسی ترجمہ ایران سے منگوایا ہے اور کئی ابواب کا ترجمہ بھی کرچکا ہوں۔‘‘ آصف نے جب ’’دنیا زاد‘‘ کی اشاعت شروع کی تو ان سے ایک آدھ باب اشاعت کے لیے طلب کیا لیکن وہ ٹال گئے۔ غالباً پوری کتاب شائع کرنا چاہتے ہوں گے۔ ویسے ’’ اعترافات‘‘ کاایک ملخص ترجمہ جاسوسی ناولوں کے معروف مترجم منشی تیرتھ رام فیروز پوری نے ۱۴ء میں لاہور سے ’’ روسو کی سیاہ کاریاں‘‘ کے نام سے شائع کیا تھا۔
خواجہ صاحب کو کتابوں سے عشق تھا۔ اُن کا گھر کیا تھا کتب خانہ تھا۔ مرتّب کتب خانہ، اس کے لیے انہوں نے ایک آدھ آدمی بھی رکھ چھوڑا تھا۔ کتابوں کے علاوہ خطوط اور کاغذات کا بھی بڑا نادر ذخیرہ تھا۔ وہ جس نادر کتاب کو دیکھنے کی کوشش کرتے وہ اُن کے کتب خانے کی زینت بن جاتی میرے پاس انشا کا ایک بڑا اچھّا قلمی نسخہ تھا۔ خواجہ صاحب کو خبر ہوئی تو بڑا اشتیاق ظاہر کیا۔ میں نے وہ نسخہ انہیں دے دیا مگر پھر انہوں نے متعدد تقاضوں کے باوجود واپس نہیں کیا۔ کہتے کہ میرے پاس محفوط ہے اور آپ نگہداشت کی زحمت سے بچے ہوئے ہیں۔ اُنہیں میری بعض دوسری قلمی کتابوں کی سُن گُن بھی تھی۔ یہ معلوم تھا کہ مفتی ولی اللہ کی تاریخ فرخ آباد کا نسخہ میرے پاس ہے مگر انہوں نے اس کا مطالبہ نہیں کیا کیوں کہ یہ نسخہ میرے لیے خاندانی یادگار کی حیثیت رکھتا تھا اور خاندانی یادگاروں کا احترام اُنہیں بھی تھا۔ ایک بار انہوں نے مجھ سے ’’نظامی نبسری‘‘ کی فرمائش کی۔ کہنے لگے، میں نے اب تک نہیں پڑھی۔ میرے پاس دو نسخے تھے چنانچہ ایک میں نے اُنہیں یہ کہہ کر بھجوا دیا کہ اسے آپ ہی رکھیے۔ میرے پاس دوسرا نسخہ موجود ہے، تو وہ بہت خوش ہوئے۔ بعض پرانے رسائل کے کچھ شمارے بھی میں نے ان کی نذر کیے تھے۔ میرے پاس مختلف شہروں کی تصاویر کا ایک بڑا نادر ذخیرہ تھا۔ یہ ذخیرہ بھی میں نے اُنہیں دے دیا تھا کیوں کہ میرے لیے اس کا سنبھالنا مُشکل تھا۔
خواجہ صاحب شعر بھی کہتے تھے۔ ان کا شعری مجموعہ ابیات ان کے ذوق شعری اور شعری صلاحیت کا آئینہ ہے۔ میرا خیال ہے کہ ’’ابیات‘‘ کے بعد ان کی شاعری برائے بیت رہ گئی تھی۔ تحقیق کی لذّت اور نثر کی رعنائی نے اُنہیں پوری طرح اپنے گھیرے میں لے لیا تھا۔ وہ مشاعروں میں بھی شریک نہیں ہوتے تھے نہ کسی شعری نشست میں شعر سُناتے تھے۔ طویل تعلقات کے باوجود میں نے صرف ایک دفعہ اُنہیں شعر سُناتے دیکھا۔ جمیل جالبی صاحب کے یہاں حیدرآباد دکن سے آئے ہوئے ایک شاعر کے اعزاز میں کھانا ہوا۔ کھانے کے بعد محفل جمی اور شعرا نے اپنا کلام سنایا۔ خواجہ صاحب کی باری آئی تو وہ انکار نہیں کرسکے۔ ایک غزل سنائی۔ لوگوں نے دوسری کی فرمائش کی مگر وہ سُنی اَن سُنی کرگئے۔ اس محفل کے علاوہ میں نے اُنہیں کہیں اور شعر سناتے نہیں دیکھا۔ وہ شعر کا اعلیٰ ذوق رکھتے تھے۔ شعر کے اچھے پارکھ تھے مگر شعر سنانے سے گریز کرتے تھے، اشعار اور شعرا کی تحقیق میں سرگرم رہتے تھے۔ کتابوں، رسائل، کاغذات اور خطوط کے علاوہ اُنہیں فوٹو گرافی سے بھی شغف تھا۔ ادیبوں، شاعروں، دوستوں اور بچّوں کی تصویریں کھینچتے رہتے تھے۔ بعض اوقات وہ دوستوں کی کسی تقریب میں کھانے سے پہلے یا بعد حاضرین کی تصویریں کھینچتے تھے۔ پلاسٹک کے ایک بیگ میں کیمرہ اور ساز و سامان ساتھ لے کر آتے تھے۔ اس حوالے سے ایک دفعہ اُن پر ایسا برجستہ فقرہ ہوا کہ وہ جواب نہ دے سکے، جھنجھلا گئے۔ ہوا یہ کہ ڈاکٹر نثار فاروقی آئے ہوئے تھے۔ ان کے اعزاز میں مختار زمن مرحوم کے یہاں محفل سماع ہوئی۔ محفل سماع سے پہلے خواجہ صاحب نے کچھ تصویریں کھینچنے کے لیے اپنا بیگ اُٹھایا۔ اس پر نثار فاروقی نے برجستہ کہا، ’’اچھّا تو آج آپ اپنی کسوت بھی ساتھ لائے ہیں۔‘‘ سب نے قہقہہ لگایا مگر خواجہ صاحب کھسیا گئے اور جواب نہ دے سکے۔
خواجہ صاحب اہل علم کی تکریم کرتے تھے۔ طلبہ اور تحقیق و جستجو کا کام کرنے والوں کی مدد کرتے تھے۔ لوگ خطوط کے ذریعے بھی ان سے استفادہ کرتے تھے۔ اتوار کی صبح ان کے یہاں اذنِ عام ہوتا تھا۔ بہت لوگ جمع ہوتے تھے۔ یہ کراچی کے ادیبوں، شاعروں اور دانشوروں کا بڑا فورم تھا۔ ان کی وفات سے یہ فورم بھی ختم ہوگیا۔
ارباب مختلفہ و متفرقہ و متفاوتہ کی یلغار سماعی اور جسمانی سے تنگ آکر انہوں نے بذات خود فون سُننے اور ملنے جلنے میں بہت کمی کر دی تھی۔ وقت بے وقت آنے والوں کے لیے دروازے پر ایک شعر آویزاں کر دیا تھا۔ مگر آنے والے شیر ایسے شعروں کی کیا پروا کرتے ہیں۔ اس پر مجھے یاد آیا کہ پیر و مرشد حضرت استاذی ڈاکٹر غلام مصطفی خان صاحب قبلہ کے صاحبزادے سراج میاں بیان کرتے تھے کہ ایک صاحب ہفتے دس دن کے بعد کراچی سے رات کے دس بجے والی پسنجر سے حیدرآباد روانہ ہوتے۔ کوئی دو بجے ڈاکٹر صاحب قبلہ کے در دولت پر پہنچتے اور اس زور و شور سے آواز دیتے اور دروازہ کھٹ کھٹاتے کہ محلے والے تو کیا قبر کے مُردے بھی اُٹھ بیٹھیں۔ ڈاکٹر صاحب قبلہ باہر نکلتے تو بن بلائے مہمان کہتے، ’’بھوکا آیا ہوں۔ میرے کھانے کا فوراً بندوبست کیجیے‘‘ ڈاکٹر صاحب کے فرمانے سے پہلے ہی گھر والے اس بلائے بے درمان کے چرندم خرندنم کا انتظام شروع کر دیتے تھے۔ وہ صاحب جب تک زندہ رہے اسی طرح کرم فرماتے رہے۔ ڈاکٹر صاحب قبلہ شگفتگی اور درویشانہ انکسار سے ان کی پذیرائی کرتے رہے۔ جہاں تک ممکن ہوتا خواجہ صاحب بھی ناخواندہ مہمانوں کو گوارا کرلیتے تھے۔ لیکن اکثر شکایت بھی کرتے تھے۔ گھبرانے میں بے آرامی اور خرابی صحت کو بھی دخل تھا۔
خواجہ صاحب محبت اور نفرت دونوں میں عمیق تھے۔ محبت کرنے والوں کے ناز اُٹھاتے اور جہاں کہیں کوئی اُن کے مُنھ آتا تو پھر تُرکی بہ تُرکی جواب بھی دیتے۔ ایک دفعہ کراچی کے ایک شاعر نے آرٹس کونسل کی ایک تقریب میں اُنہیں ’ادب کا خواجہ سرا‘ کہا۔ انہوں نے اُسے معاف نہیں کیا۔ اگر اُس کا تذکرہ ہوتا تو ہمیشہ برہمی کا اظہار کرتے۔ ان کی یہ برہمی کبھی ختم نہیں ہوئی۔
اُردو کے ایک استاد حسن اختر نے (میرا خیال ہے یہی نام تھا) خواجہ صاحب کے بارے میں کچھ سخت باتیں لکھ دیں۔ اُنہوں نے بڑا تند جوابی مضمون لکھا اور اُنہیں خاموش کر دیا۔ وہ دُشمنوں کے دُشمن اور دوستوں کے دوست تھے۔ دُشمنوں سے مرعوب نہیں ہوتے تھے۔ ان کے یہاں حصول علم و ادب کا جذبہ بہت نمایاں تھا۔ ایک زمانے میں مطالعہ بیدلؔ کا شوق ہوا۔ ہفتے میں ایک بار ایک چھوٹی سی محفل منعقد ہوتی۔ پروفیسر لطیف اللہ میر محفل ہوتے۔ بیدلؔ کی کوئی غزل پڑھی جاتی اور اُس پر گفتگو ہوتی۔ ایک آدھ دفعہ انہوں نے مجھے بھی اس محفل میں میر محفل بنانا چاہا مگر میں جا نہیں سکا۔ پھر یہ محفل ختم ہوگئی۔
خواجہ صاحب ہوش و گوش کے انسان تھے۔ نہایت باخبر۔ معمولی سے معمولی ادبی واقعے سے پوری طرح باخبر رہتے تھے اور دوستوں کو اس سے آگاہ کرتے تھے۔ کہیں آتے جاتے نہیں تھے۔ بیرونی دُنیا سے اُن کے رابطے کے دو ذریعے تھے، فون اور ڈاک۔ ایک دن میرا فون خراب تھا۔ وہ بات کرنا چاہتے تھے مگر ممکن نہیں ہوا۔ دوسرے دن انہوں نے کہا، ’’میں ڈاکیے کو پچاس روپے مہینہ دیتا ہوں تاکہ میری ڈاک گڑبڑ نہ ہو اور سو روپے ماہانہ فون کے لائن مین کی نذر کرتا ہوں۔ نہ میرا فون خراب ہوتا ہے نہ ڈاک میں گڑ بڑ ہوتی ہے۔‘‘ میں نے کہا، ’’یہ تو صریحاً رشوت ہے‘‘۔ بولے، ’’آپ اسے رشوت کہہ لیں۔ میں اسے ’حق الخدمت‘ کہتا ہوں۔‘‘ میں نے پوچھا۔ ’’اُنہیں تنخواہ کس بات کی ملتی ہے‘‘ مگر انہوں نے میری بات نہیں مانی۔ کہنے لگے، ’’میں انہیں پیسے اپنی خوشی سے دیتا ہوں۔ اُن کی طرف سے کوئی مطالبہ نہیں ہوتا۔‘‘
بعض باتیں خواجہ صاحب میں بڑی عجیب تھیں۔ مثلاً یہ کہ نیا سال شروع ہوا اور اُنہوں نے جوڑیا بازار کا رُخ کیا۔ دو ڈھائی سو آستین والی بنیائنیں خریدیں۔ گھر لے آئے۔ ہر دوسرے دن نئی بنیائین پہنتے۔ پہنی ہوئی پھینک دیتے۔ دن بھر بنیائن پیجامہ پہنے گھر میں کام کرتے رہتے۔ علامّی ابوالفضل کے بارے میں روایت ہے کہ موسم بدلتا تو وہ گزرے موسم کے سارے کپڑے بانٹ دیتا لیکن پیجامے جلوا دیتا۔ وہ تقسیم نہیں ہوتے تھے۔ خواجہ صاحب بنیائنیں کیوں پھینک دیتے تھے ممکن ہے آئین ابوالفضل سے متاثر ہوگئے ہوں۔
خواجہ صاحب خوش پوش آدمی تھے۔ جامہ زیب تھے۔ سگریٹ باقاعدگی سے پیتے تھے اور ہمیشہ غیر ملکی قیمتی سگریٹ پیتے تھے۔ موٹر بھی تھی۔ بڑا اُجلا خرچ تھا۔ بظاہر صحت بھی اچھی تھی مگر کچھ سال پہلے دل کی تکلیف ہوئی۔ اسپتال میں داخل ہونے۔ پھر بہن کے گھر آرام کرتے رہے۔ ٹھیک ہوجانے کے بعد آنا جانا شروع ہوگیا تھا۔ فون پر بات اور دعوتوں میں ملاقات ہوتی تھی۔ ان کے انتقال سے دو تین دن پہلے میں نے فون کیا اور صحت دریافت کی تو کہنے لگے، ’’ویسے تو اب ٹھیک ہوں۔ مگر گُردے تکلیف دے رہے ہیں۔‘‘ میں نے کہا، ’’گردوں وقاری آسانی سے حاصل نہیں ہوتی‘‘ ہنسنے لگے۔ میری اور ان کی آخری بات چیت تھی۔
اکیّس فروری کی شام کو فاطمہ حسن نے فون کرکے کہا، ’’سر! خواجہ صاحب کی حالت ٹھیک نہیں ہے۔ آغا خان کے انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں ہیں۔‘‘ میں نے کہا، ’’اللہ خیر کرے۔ صبح مجھے خود آغا خان اسپتال جانا ہے۔ انہیں بھی دیکھ آؤں گا۔‘‘ اتنے میں آصف آگئے۔ فاطمہ کی گفتگو اُن سے ہوئی مگر آصف نے کچھ بتایا نہیں بس خاموش ہوگئے۔ جیسے ایک دم سنّاٹے میں آگئے ہوں۔ رات کے ساڑھے گیارہ بجے جنگ کے اختر سعیدی کا فون آیا کہ خواجہ صاحب گزر گئے۔ تاثرات ریکارڈ کروا دیجیے۔ اُس وقت فاطمہ کے تذبذب اور آصف کے سنّاٹے کی وجہ سمجھ میں آئی۔ فاطمہ نے جس وقت فون کیا تھا اُس وقت خواجہ صاحب وینٹی لیٹر پر تھے۔ رات کو وینٹی لیٹر ہٹالیا گیا اور وہ رخصت ہوگئے۔ فاطمہ اور آصف نے میری علالت کی وجہ سے مجھے صحیح صورتِ حال سے آگاہ نہیں کیا۔ خواجہ صاحب کے جنازے کو دیکھ کر مجھے نجانے کیوں مصحفی کا شعر یاد آیا ؂
دوستی تھی مجھے ہر اک سے گئے تا لبِ قبر
دوش پر نعش مری گبرو مسلماں لے کر
بڑی بھیڑ تھی۔ سبھی وہاں موجود تھے۔ کراچی کا شاید ہی کوئی ایسا ادیب و شاعر ہو جو وہاں نہ ہو۔
خواجہ صاحب کی وفات کے بعد کراچی کے افواہ سازوں اور خبر تراشوں نے حسب معمول پھر ایک ہوائی چھوڑی، ’’آخری دنوں میں خواجہ صاحب کے مالی حالات ناگفتہ بہ ہوگئے تھے۔ ان کی بیگم نے ایک دن ایک غیرملکی فلاحی ادارے کے سربراہ کو فون کیا اور کہا، ’’یہ تو آپ سے کچھ کہہ نہیں سکتے مگر اب گزر بہت مشکل ہوگئی ہے چنانچہ اُن صاحب کی کوشش سے خواجہ صاحب کے لیے معذور ادیبوں کے فنڈ سے دس ہزار روپے ماہانہ پنشن اور معالجاتی اخراجات منظور ہوگئے۔‘‘ شہر خبرو صاحب نے بڑے رازدارانہ انداز میں مجھ سے کہا، ’’دیکھیے یہ بات کسی کو معلوم نہ ہو۔ میں صرف آپ کو بتا رہا ہوں۔ اور صاحب خدائی انصاف دیکھیے کہ خواجہ صاحب کراچی کے ایک نامور مُدیر کو طعنہ دیتے تھے کہ وہ ہٹّے کٹّے ہوکر معذور ادیبوں کے فنڈ سے پنشن حاصل کر رہے ہیں تو صاحب خود خواجہ صاحب بھی اُنہی کی صف میں شامل ہوگئے‘‘ میں نے اُنہیں غور سے دیکھا۔ وہ اس قسم کی انتہائی اہم خبریں نجانے کتنے ادیبوں اور شاعروں کے بارے میں مجھے سُنا چکے تھے۔ چنانچہ میں نے اُن سے کہا، ’’بھائی مرنے والوں کو تو بخش دیا کیجیے۔ آپ کی دست بُرد کے لیے زندہ افراد کیا کم ہیں۔ اگر وہ حیات ہوتے تو ایسی منھ توڑ تردید کرتے کہ سب کا مزاج درست ہو جاتا۔‘‘
اتنا کچھ لکھنے کے بعد خیال آیا اور کیا لکھوں کہاں تک لکھوں۔ کتنی ہی باتیں ایسی ہیں جن کا اس فسانے میں کوئی ذکر نہیں۔ کتنے مضمون اور کتنے افسوں تشنہ رہ گئے لیکن انگلیاں فگار نہیں ہوئیں۔ خوشبو ہوتی جارہی ہیں۔ معاً طالب آملی کا شعر ذہن میں گونجا ؂
زِ انگشتم نسیمِ غنچۂ فردوس می آید
نمی دانم سحر بندِ گریبانِ کہ وا کردم
نسیم غنچہ فردوس نہ آئے تو اور کیا ہو۔۔۔ گریبان کس کا ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *