اسعد بدایونی 1952 میں پیدا ہوئے، اور 2003 میں ان کا انتقال ہوا۔ایک خاص دور میں اردو کے لیے بہ طور خاص علمی وادبی مرکز سمجھے جانے والے علی گڑھ سے ان کا گہرا تعلق رہا۔اسعد بدایونی کی غزلیں پیش خدمت ہیں۔ان غزلوں میں سے کچھ مجھے بمجبوری جگہ کی تنگی کی وجہ سے ہٹانی پڑی ہیں، اس لیے میں نے طے کیا ہے کہ اسعد بدایونی کے اس انتخاب کو حصہ اول سے تعبیر کیا جائے، ان کا ایک اور انتخاب جلد ہی ادبی دنیا پر اپلوڈ کیا جائے گا، جس میں ان کی وہ غزلیں شامل کی جائیں گی جو اس انتخاب میں شامل نہیں کی جاسکی ہیں۔اسعد بدایونی ان شاعروں میں سے ہیں، جن کے کلام کی خوبی کے باوجود وہ بہت حد تک اس طرح اردو تنقید کا موضوع نہیں رہے، جس طرح انہیں ہونا چاہیے تھا، یہ اسی طرح کا سلوک ہے، جیسا کہ دیگر اچھے ہندوستانی شعرابانی، زیب غوری اور آشفتہ چنگیزی وغیرہ کے ساتھ روا رکھا گیا۔اب اس کی وجوہات کچھ بھی ہوں، فی الحال ہمیں ان چیزوں کو یکجا کرکے دوبارہ ان پر غور کرنا چاہیے، جن پر بات کم ہوئی یا سرے سے نہیں ہوئی ہے۔اسعد بدایونی کی غزلوں پر بھی دوبارہ توجہ دنیا ضروری ہے، اور وہ اب آن لائن کاپی ایبل ٹیکسٹ کی صورت میں آپ کے سامنے موجود ہیں۔یہ قریب ساٹھ ستر غزلیں یا ان سے کچھ کم یا زائد ہونگی،امید ہے کہ آپ کو یہ پیشکش پسند آئے گی۔شکریہ!
تلاشِ
رزق میں دیوان کرتارہتا ہوں
ابھی سفر نہیں سامان کرتا رہتا ہوں
خود اپنی راہ میں اکثر پہاڑ اگاتاہوں
خود اپنی مشکلیں آسان کرتا رہتا ہوں
سجاتا رہتاہوں کاغذ کے پھول شاخوں پر
میں تتلیوں کو پریشان کرتارہتا ہوں
میں تخمِ اشک سے طوفاں اگانے کی ضد میں
تمام شہر کو حیران کرتا رہتا ہوں
مرے مکاں میں دھواں بھی گھٹن بھی ہے لیکن
میں خوشبوؤں کوبھی مہمان کرتارہتا ہوں
***
مآلِ برگ، ہوا کو پتہ ہے یامجھ کو
ہر ایک جبر خدا کو پتہ ہے یا مجھ کو
مرے بدن کے فلک پر کئی ستارے ہیں
مگر یہ دل کے خلا کو پتہ ہے یامجھ کو
بس ایک نام سماعت میں زندہ ہے اب تک
وہ راز صرف ہوا کو پتہ ہے یا مجھ کو
جو ایک خواب کی تصویر میں نظر آیا
وہ رنگ برگِ حنا کوپتہ ہے یا مجھ کو
نہیں وہ جسم نہیں پھول ہیں لباس میں قید
یہ بات بندِ قبا کوپتہ ہے یا مجھ کو
اکیلے میں بھی کبھی بھول کر نہ رویامیں
مری شکست خدا کو پتہ ہے یا مجھ کو
***
ضرورت کے بھنور حالات کے پانی میں آتے ہیں
سو اونچے داموں والے لوگ ارزانی میں آتے ہیں
ستارے آسماں سے ٹوٹتے ہیں کس لیے اکثر
بلندی سے یہ کیوں پستی کی مہمانی میںآتے ہیں
تم ان آنکھوں میں آنسو ڈھونڈتے ہوخشک موسم میں
پرندے جھیل پر شامِ زمستانی میں آتے ہیں
فصیلوں پر کھڑی فوجوں کی آنکھیں پھوڑ کر اکثر
کئی دشوار رستے شہر آسانی میں آتے ہیں
گریباں پھاڑنا پستی میں کچھ اچھا نہیں لگتا
مزے وحشت کے صحراؤں کی ویرانی میں آتے ہیں
***
دکھ ازل سے یہاں رائیگانی کے ہیں
سب گرفتار دنیائے فانی کے ہیں
دیکھتاہوں کئی کشتیاں خواب میں
یہ تو آثار نقلِ مکانی کے ہیں
چاند الجھا ہوا ہے درختوں سے کیوں
کیا یہ پرچم کسی شادمانی کے ہیں
یا ہواؤں کے اعصاب کمزور ہیں
یاچراغوں پہ دن مہربانی کے ہیں
اک مکاں یادعاؤں کا اک سائباں
پیڑ جس میں کئی رات رانی کے ہیں
***
نفیِ ذات کے منظر اتارنے والا
وہ کشتیوں میں سمندر اتارنے والا
ہواکی لہر کو نفرت کازہر بھی دے گا
کئی چراغ مرے گھر اتارنے والا
شکستہ تیغ سے پوچھا زمینِ مقتل نے
کہاں گیا وہ ہنر سراتارنے والا
ابھی ابھی کوئی جھونکا اِدھر سے گزرے گا
شجر کے جسم سے زیور اتارنے والا
میں بجھ گیاتو مری راکھ سے طلوع ہوا
فصیلِ خواب کے پتھر اتارنے والا
***
مرے آئنے میں نہ دیکھیے کسی ایسے ویسے ملال کو
میں غبار کرکے اڑاچکاکئی قیمتی مہ وسال کو
مری رات میں ہے جوروشنی اسی اسم کا یہ طلسم ہے
اسی واسطے تو بجھادیا ہے ہر اک چراغ وصال کو
مجھے نجدِ خواب میں چھوڑ کر کوئی شخص کب کابچھڑگیا
مری وحشتوں کی خبر اگر ہے تو صرف اس کے غزال کو
میں دکھوں کی شمعیں جلاؤں گا مگر اس طرح کہ دھواں نہ ہو
میں سوال میں نہ اٹھاؤں گا کبھی اپنے دستِ کمال کو
جنھیں منظروں میں کسی کمی کاگلہ ہے رب کریم سے
سو انھوں نے دیکھا نہیں ابھی ترے روپ کو تری چال کو
***
دعا کا حرف یہاں محترم نہیں ہوگا
یہ ریگ زار ہے اشکوں سے نم نہیں ہوگا
کھلا کہ موج انہیں پانیوں کاحصہ ہے
سو اب مقابلہ بیش وکم نہیں ہوگا
یقیں دلاکے مجھے لے چلے ہیں مقتل کو
ستم گراں کہ نہیں اب ستم نہیں ہوگا
معاملات توبنتے بگڑتے رہتے ہیں
میں وہ کروں گاکبھی جس کاغم نہیں ہوگا
دمِ وصال جو آئے گا اس کے چہرے پر
دھنک کے رنگ سے وہ رنگ کم نہیں ہوگا
مراخیال ہے آباد اس کے ہونے سے
یہ اوربات کہ اب وہ بہم نہیں ہوگا
***
ہم اپنے ہجر میں اپنے وصال میں گم ہیں
وہ سوچتا ہے کہ اس کے خیال میں گم ہیں
ہرایک لمحۂ لذت حساب مانگتا ہے
سو ہم بھی سب کی طرح اک سوال میں گم ہیں
شفق کی آنکھ کسے رورہی ہے مدت سے
دیار و دشت سبھی کس ملال میں گم ہیں
رتوں کے دائرے کیوں آج تک سلامت ہیں
تمام سلسلے کیوں ماہ وسال میں گم ہیں
یہ چاند جھیل کے پانی سے ہم کلام ہے کیوں
کنارے کس لیے رنج وملال میں گم ہیں
***
میں دھول میں پھول کھلاتاہوں اس موجِ رواں کے اشارے پر
کبھی ایک یقیں کی سرحد پر کبھی ایک گماں کے کنارے پر
سب منظر ٹھہرا ٹھہرا تھا سناٹا گہرا گہرا تھا
اک نام نے دل پر دستک دی اک بوند گری انگارے پر
کب آب خنک کی نہر ملی کب کوئی نگاہ مہر ملی
کس دھرتی نے کس مٹی نے احسان کیابنجارے پر
آنکھوں کوتوہر اک منظر سے سمجھوتے کی عادت تھی سورہی
دل دنیا سے بیگانہ تھاافتاد پڑی بیچارے پر
میں عالم سارا چھان گیا ہر چہرے کوپہچان گیا
مرے خوابوں کی آبادی ہے شاید کسی اورستارے پر
***
ترا غرور مری عاجزی ہے کتنی دیر
بذات خود یہ حسیں زندگی ہے کتنی دیر
چراغِ راہگزر سے ہوا نے ہر لمحہ
یہی کہا ہے تری روشنی ہے کتنی دیر
بس ایک لمس ہی کافی ہر اک تباہی کو
مزاجِ غنچہ ہوا پوچھتی ہے کتنی دیر
یہ رت جگے بھی وراثت ہیں اگلی نسلوں کو
ہر ایک آنکھ یہاں جاگتی ہے کتنی دیر
ہر اختتام سفر جسم وجاں کوتوڑتاہے
تھکن دلوں کوسکوں بانٹتی ہے کتنی دیر
بس ایک وہم کا منظر ہے ساری آنکھوں میں
نظر کسی کویہاں دیکھتی ہے کتنی دیر
***
دکھ بہت ہوتے ہیں یادوں کی پذیرائی میں
اب اسے سوچنامت موسمِ تنہائی میں
صرف اک بار مناظر پہ نظر ڈالی تھی
سو اسی دن سے کمی آگئی بینائی میں
بے ضمیری کی بدولت تروتازہ ہیں سبھی
ورنہ اک قہر ہے ہر روح کی گہرائی میں
کوئی زنجیر سے خائف کوئی رسوائی کادوست
بس یہی فرق ہے نادانی ودانائی میں
***
دل وحشی تجھے اک بار پھر زنجیر کرناہے
کہ اب اس سے ملاقاتوں میں کچھ تاخیر کرناہے
مرے پچھلے بہانے اس پہ روشن ہوتے جاتے ہیں
سو اب مجھ کو نیا حیلہ نئی تدبیر کرناہے
کماں داروں کواس سے کیا غرض پہنچے کہ رہ جائے
انہیں تو بس اشارے پر روانہ تیر کرنا ہے
ابھی امکان کے صفحے بہت خالی ہیں دنیا میں
مجھے بھی ایک نوحہ جابجا تحریر کرناہے
***
بدن کے طاقچے میں گرد ہے گزرے زمانوں کی
بشارت دے کوئی شمع ہوس آئینہ خانوں کی
اگرچہ قافلہ رخصت ہوئے مدت ہوئی لیکن
صدائیں دشت میں زندہ ہیں اب بھی سار بانوں کی
ابھی تو میں کسی دیوار پر تکیہ نہیں کرتا
ضرورت دھوپ کے موسم میں ہوگی سائبانوں کی
اصولوں سے زیادہ جان پیاری سب کوہوتی ہے
سو میں نے بھی قصیدے شان میں لکھے کمانوں کی
***
مجھے نظر سے تجھے شاخ سے گرا بھی گئے
ہوا کے ہاتھ چراغوں کے دل بڑھا بھی گئے
سفارتوں پہ رہے عشق کم عیار کی ہم
سو نازِ حسن دو روزہ بہت اٹھا بھی گئے
ہمارا کیاہے مریدانِ عصر ہیں ہم لوگ
ہوا چلی ہے تو پیرانِ پار سا بھی گئے
تمام حیلہ وتدبیر بے اثر ہیں کہ اب
چراغِ انجمن خواب جھلملا بھی گئے
***
مرے ریگ زار میں اس برس یہ کمال موجِ بلا کاتھا
نہ وہ کشتیاں تھیں غبار کی نہ وہ بادبان ہواکاتھا
کبھی چشم شوق کے سامنے کوئی شے دھنک کی طرح کھنچی
کبھی دل کے دشت میں پھول سا کوئی کھل گیاجو بلا کاتھا
کبھی ایک یاد کی لہر نے مرے ساحلوں کوسبک کیا
کبھی اک ستارہ چمک اٹھا جو اسی ستارہ نما کاتھا
کئی رنگ جس میں سما گئے وہ طویل دھوپ کی جھیل تھی
جو کئی چراغ بجھا گیاہے وہ ہاتھ بادِ فنا کاتھا
***
مرے لوگ خیمہ صبر میں، مرے شہر گردِ ملال میں
ابھی کتنا وقت ہے اے خدا ان اداسیوں کے زوال میں
کبھی موجِ خواب میں کھوگیا کبھی تھک کے ریت پہ سوگیا
یونہی عمر ساری گزاردی فقط آرزوئے وصال میں
کہیں گردشوں کے بھنور میں ہوں کسی چاک پر میں چڑھا ہوا
کہیں میری خاک جمی ہوئی کسی دشتِ برف مثال میں
یہ ہوائے غم یہ فضائے نم مجھے خوف ہے کہ نہ ڈال دے
کوئی پردہ میری نگاہ پر کوئی رخنہ تیرے جمال میں
***
کس نے کوئی سچ لکھاہے، یہ فقط الزام ہے
شاعری محرومیوں کاخوبصورت نام ہے
بے غرض ملنے کی ساری منطقیں جھوٹی ہیں یار
توجوآیا ہے تو اب بتلا بھی دے کیاکام ہے
اب کے میخانے کی مٹی پر کوئی دھبہ نہیں
رند ہیں ٹوٹے ہوئے ہاتھوں میں ثابت جام ہے
نے شکوہِ سروری ہے، نے جمالِ دلبری
دل کسی فرعونِ بے سامان کااہرام ہے
***
ابھی دریچہ دل سے ہوا ہے کتنی دور
وہ لمسِ خواب وہ آوازِ پا ہے کتنی دور
میں کس مقام پہ ہوں اے محیطِ تنہائی
یہاں سے منزلِ صبرورضا ہے کتنی دور
تمام دشت میں ظلمت کے شامیانے ہیں
نزولِ صبح ترا قافلہ ہے کتنی دور
جہاں ہواکا گزر ہے نہ تتلیوں کاہجوم
عجیب پھول ہے جاکر کھلا ہے کتنی دور
جوسوچئے توہیں ان دوریوں میں ربط کے رنگ
جو دیکھئے توزمیں سے گھٹا ہے کتنی دور
***
وہ آدمی جو تری آرزو میں مرتاہے
وہ تجھ سے پیار نہیں خود سے عشق کرتاہے
فضا میں خوف کے پرچم بلند ہوتے ہیں
سوادِ شام سے لشکر کوئی گزرتاہے
مری زمیں کے بلاوے غضب کے ہیں لیکن
کوئی جنوں مرے پر رات دن کترتاہے
میں اپنے آپ کو اب کس کے چاک پر رکھوں
شکستہ ظرف دوبارہ کہیں سنورتاہے
لگے ہوئے ہیں جہاں پر وصال کے خیمے
ادھر سے ہجر کا رہوار بھی گزرتاہے
***
نہ کوئی صبح فراق اور نہ کوئی شامِ وصال
چمک کے بجھ گئے آخر سبھی طرح کے خیال
مرے شجر پہ نہ اترا کوئی حسیں طائر
بدل گئے کئی موسم گزرگئے کئی سال
بس ایک جنبش لب داستان سے آگے
بس اک نگاہ نے پیدا کیے بہت سے سوال
ترے سفر پہ روانہ کبھی ہواتھا میں
یہ دیکھ سر میں ابھی تک جمی ہے گردِ ملال
ترے وصال کی خوشبو تلک تھیں سب باتیں
سو دل میں اب نہیں آتا بغاوتوں کاخیال
***
وہ جب ملا تو کسی رنج رائیگاں میں ملا
میں جب کھلا تو کسی شاخ بے اماں پہ کھلا
مرے جہاں سے مرا رابطہ یونہی سا ہے
مجھے بھی اس سے شکایت اسے بھی مجھ سے گلہ
میں ایک بار جوٹوٹا تو پھر جڑا نہ کبھی
وہ ایک بار جو بچھڑا توپھر کہیں نہ ملا
مکانِ خواب کسی برہمی کی زد میں ہے
نہ طاقچوں میں دئیے ہیں نہ آئینوں میں جلا
رفو گراں تو ہنر مند وخوبصورت تھے
مگر کسی سے مرا چاک آرزو نہ سلا
***
مرے چراغ کویہ وہم کھائے جاتاہے
کہ اس کو ہاتھ ہوا کا بلائے جاتاہے
میں اپنے جسم کی سرحد میں گھٹتا جاتاہوں
وہ مملکت کو انا کی بڑھائے جاتاہے
چمک رہا ہے فلک پر بس اک ستارہ ہجر
شبِ سیاہ مری جگمگائے جاتاہے
میں ایسے ہاتھ کی تعظیم کر نہیں سکتا
جو آسماں سے پرندے گرائے جاتاہے
میں سب سے ناتواں انسان ہوں قبیلے کا
پر اک جنوں مجھے میداں میں لائے جاتاہے
***
حریف کوئی نہیں دوسرا بڑا میرا
سدا مجھی سے رہا ہے مقابلہ میرا
مرے بدن پہ زمانوں کی زنگ ہے لیکن
میں کیسے دیکھوں شکستہ ہے آئنہ میرا
مرے خلاف زمانہ بھی ہے زمین بھی ہے
منافقت کے محاذوں پہ مورچہ میرا
میں کشتیوں کوجلانے سے خوف کھاتا نہیں
زمانہ دیکھ چکا ہے یہ حوصلہ میرا
مرے سوال سے ہر شخص کوملال ہوا
پہ حل کیا نہ کسی نے بھی مسئلہ میرا
***
ترا چراغ ، مرا دل بجھانا چاہتے ہیں
ہوا کے ہاتھ کرشمے دکھانا چاہتے ہیں
جبھی تو ڈھیر لگائے ہیں سنگ ریزوں کے
ہمیں یہ اہلِ خرد آزمانا چاہتے ہیں
وہی زمین سمندر کی ہوتی جاتی ہے
کہ ہم جہاں بھی کوئی گھر بنانا چاہتے ہیں
سمیٹ لو تو یہ منظر ہیں ایک لمحے کے
جو طول دو تو یقیناًزمانہ چاہتے ہیں
ہمارا دل کہ تمہارا غرورِ تشنہ لبی!
تمام تیر ستم اک نشانہ چاہتے ہیں
ہمیں پتہ ہے کہ ترسیں گے عکس کو اپنے
وہ سارے لوگ جو آئینہ خانہ چاہتے ہیں
ہمیں سے رکھتے ہیں پرخاش بھی عداوت بھی
ہمیں سے اہل جہاں دوستانہ چاہتے ہیں
***
سچ بول کے بچنے کی روایت نہیں کوئی
اور مجھ کو شہادت کی ضرورت نہیں کوئی
میں رزق کی آواز پہ لبیک کہوں گا
ہاں مجھ کو زمینوں سے محبت نہیں کوئی
میرے بھی کئی خواب تھے میرے بھی کئی عزم
حالات سے انکار کی صورت نہیں کوئی
ہر شام ہی آتاہے کسی چاند کاپیغام
لیکن شبِ مہتاب کی حاجت نہیں کوئی
میں جس کے لیے سارے زمانے سے خفاتھا
اب یوں ہے کہ اس نام سے نسبت نہیں کوئی
لہجہ ہے مراتلخ مرے وار ہیں بھر پور
لیکن مرے سینے میں کدورت نہیں کوئی
***
کچھ جذبے اورجنون لیے مایوس وملول سے رہتے ہیں
ہم انسانوں کے جنگل میں اک شاخ ببول سے رہتے ہیں
یوں تو بنجر ہے پہلے سے لیکن اس دل کی دھرتی پر
کچھ خوشبو عہد گزشتہ کی کچھ چہرے پھول سے رہتے ہیں
ہم درویشانِ عہد کہن ہم سرمستانِ بادہ فن!
کبھی رکھتے ہیں ربط بہاراں سے کبھی رشتے دھول سے رہتے ہیں
صورت بھی نہیں اچھی اپنی سیرت بھی نہیں اچھی اپنی
سرِ کوئے نگاراں ہم لیکن پھر بھی مقبول سے رہتے ہیں
ہر ماہ کٹوتی خرچے میں ہر سال اضافہ اجرت میں
ہر روز بخیلی محنت میں کچھ لوگ اصول سے رہتے ہیں
سرسید کو محدود کیے اک چھوٹی سی کالونی ہے
جہاں کابک نمامکانوں میں چہرے مجہول سے رہتے ہیں
***
دریچے طاقچے، سننے کالطف اٹھاتے ہوئے
دئیے کے ہونٹ کوئی داستاں سناتے ہوئے
بدن میں شامِ زمستاں طلوع ہوتی ہوئی
گداز گرم پرندے گھروں کوجاتے ہوئے
ہر اک مقام پر نادیدہ دشمنوں کاخوف
تمام عمر کٹی دست و پا بچاتے ہوئے
ہمارے دل میں عجب ٹوٹ پھوٹ ہوتی ہوئی
ہم اپنے گھر کو مگر رات دن سجاتے ہوئے
ہم اک طلسم کا در کھولنے گئے تھے مگر
پلٹ کے آئے فقط حیرتیں بڑھاتے ہوئے
زمین اپنے تقاضوں کو تیز کرتی ہوئی
فضائے یاد میں کچھ نام جھلملاتے ہوئے
سکوت، ساحل دریا پہ آنکھ ملتا ہوا
بھنور کے ہاتھ کئی کشتیاں تراتے ہوئے
***
سیلِ گریہ کا سینے سے رشتہ بہت
یعنی ہیں اس خرابے میں دریا بہت
میں نے اس نام سے شام رنگین کی
میں نے اس کے حوالے سے سوچابہت
دیکھنے کے لیے سارا عالم بھی کم
چاہنے کے لیے ایک چہرہ بہت
اس سے آگے توبس خواب ہی خواب تھے
میں نے اس کو مجھے اس نے دیکھا بہت
میں بھی الجھا ہوں منظر کے نیرنگ سے
میرے پیروں سے لپٹی ہے دنیا بہت
رفتگاں کے قدم جیسے آہو کارم
جانے والوں کورستوں نے روکابہت
جنگجو معرکوں میں ہوئے سرخرو
بستیاں بین کرتی ہیں تنہا بہت
***
اب احمق داناؤں جیسی باتیں کرتے ہیں
سو ہم صرف خلاؤں جیسی باتیں کرتے ہیں
جانے کیاافتاد پڑے گی اب کے بستی پر
دھوپ کے لشکر چھاؤں جیسی باتیں کرتے ہیں
جن کے ترکش تیرِ ستم سے خالی ہوتے ہیں
وہ بھی کرم فرماؤں جیسی باتیں کرتے ہیں
ہم نے اپنادستِ سوال قلم کر ڈالا ہے
ہم سے شاہ گداؤں جیسی باتیں کرتے ہیں
ہر دل میں دریاؤں کی طغیانی خوابیدہ
لب لیکن صحراؤں جیسی باتیں کرتے ہیں
کبھی کبھی جب شام کوسورج سونے جاتاہے
جنگل خواب سراؤں جیسی باتیں کرتے ہیں
***
اس شہر عزت داراں میں ہم مال ومنال نہیں رکھتے
کبھی اپنا خیال نہیں رکھتے کبھی اس کاخیال نہیں رکھتے
کبھی چاہاتھا کسی صورت کو کبھی پوجا تھا کسی مورت کو
اب ہجر کی حد سے باہر ہیں اب شوقِ وصال نہیں رکھتے
وہ گل ہیں کون سی کیاری میں، جنھیں مرجھانے کی فکر نہیں
وہ آئینے کس دُکان میں ہیں جوگردِ ملال نہیں رکھتے
یہ اور طرح کے شکاری ہیں، بس تیرِ ستم کے پجاری ہیں
کچھ دانہ ان کے پاس نہیں، یہ کوئی جال نہیں رکھتے
بے بال وپری میں زندہ ہیں پرخود سے کہاں شرمندہ ہیں
ہمیں فکرِ عروج سے کیا لینا جب فکرِ زوال نہیں رکھتے
اسباب وعلل سے دوری ہی ہم لوگوں کی مجبوری ہے
ہم بندے اپنے رب کے ہیں، سوکچھ جنجال نہیں رکھتے
ا س شہر گماں میں مستقبل اورحال کی صورت ایک سی ہے
اس خوف سے اپنے بچے کاہم نام اقبال نہیں رکھتے
***
وصالِ جسم وصالِ نظر سے کم ہے بہت
مگر کسی کے نہ ملنے کادل کوغم ہے بہت
اسی جبیں پہ ہیں روشن اناکے تارے بھی
یہی جبین ترے آستاں پہ خم ہے بہت
خیال یہ تھا کہ دریا اتر ہی جاتے ہیں
ملال یہ ہے کہ وہ آنکھ اب بھی نم ہے بہت
دیارِ جاں کے شجر تھے ہرے بھرے کافی
ہوائے تیز کا اب تو مگر کرم ہے بہت
پلٹ پڑو کہ یہ موسم بدل بھی سکتا ہے
ابھی توشہرِ گماں کی زمین نم ہے بہت
قصیدہ گوئی کے آداب سے بھی واقف ہیں
عزیز ہم کو مگر حرمتِ قلم ہے بہت
***
دل و نظر کو لہو میں ڈبونا آتاہے
نہ اب ہنسی ہمیں آئے نہ روناآتاہے
ہوا کے ہاتھ چراغوں سے کھیلتے ہیں یونہی
کہ ہاتھ بچوں کے جیسے کھلونا آتاہے
ہم اہلِ زر کے دروں پر قدم نہیں رکھتے
گدائے خاک ہیں مٹی پہ سوناآتاہے
خمارِ در بدری چین سے نہ رہنے دے
جو خواب آتاہے اکثر سلونا آتاہے
غزل کے شعر ہیں مفرد مگر وہ شاعر ہے
جسے سب ایک لڑی میں پرونا آتاہے
***
مجھ کو یقیں بہت نہ تھا اس کو گماں بہت ہوا
جل گئی چوبِ سبز بھی گرچہ دھواں بہت ہوا
وہ مرایار تھا مگر اس کے اصول تھے جدا
ضبطِ سخن کے باب میں میرا زیاں بہت ہوا
ہم تو غلام لوگ ہیں ہم سے نہ پوچھئے حضور
ابر کرم کہاں گیا،ظلم کہاں بہت ہوا
اے کسی یاد کے سمنداب نہ ادھر نگاہ کر
تیرے خرام سے خجل آبِ رواں بہت ہوا
لوحِ خیال یار نے آگ کو پھول کردیا
سحر طلسم ذات کا شعلہ فشاں بہت ہوا
***
ابھی سفر نہیں سامان کرتا رہتا ہوں
خود اپنی راہ میں اکثر پہاڑ اگاتاہوں
خود اپنی مشکلیں آسان کرتا رہتا ہوں
سجاتا رہتاہوں کاغذ کے پھول شاخوں پر
میں تتلیوں کو پریشان کرتارہتا ہوں
میں تخمِ اشک سے طوفاں اگانے کی ضد میں
تمام شہر کو حیران کرتا رہتا ہوں
مرے مکاں میں دھواں بھی گھٹن بھی ہے لیکن
میں خوشبوؤں کوبھی مہمان کرتارہتا ہوں
***
مآلِ برگ، ہوا کو پتہ ہے یامجھ کو
ہر ایک جبر خدا کو پتہ ہے یا مجھ کو
مرے بدن کے فلک پر کئی ستارے ہیں
مگر یہ دل کے خلا کو پتہ ہے یامجھ کو
بس ایک نام سماعت میں زندہ ہے اب تک
وہ راز صرف ہوا کو پتہ ہے یا مجھ کو
جو ایک خواب کی تصویر میں نظر آیا
وہ رنگ برگِ حنا کوپتہ ہے یا مجھ کو
نہیں وہ جسم نہیں پھول ہیں لباس میں قید
یہ بات بندِ قبا کوپتہ ہے یا مجھ کو
اکیلے میں بھی کبھی بھول کر نہ رویامیں
مری شکست خدا کو پتہ ہے یا مجھ کو
***
ضرورت کے بھنور حالات کے پانی میں آتے ہیں
سو اونچے داموں والے لوگ ارزانی میں آتے ہیں
ستارے آسماں سے ٹوٹتے ہیں کس لیے اکثر
بلندی سے یہ کیوں پستی کی مہمانی میںآتے ہیں
تم ان آنکھوں میں آنسو ڈھونڈتے ہوخشک موسم میں
پرندے جھیل پر شامِ زمستانی میں آتے ہیں
فصیلوں پر کھڑی فوجوں کی آنکھیں پھوڑ کر اکثر
کئی دشوار رستے شہر آسانی میں آتے ہیں
گریباں پھاڑنا پستی میں کچھ اچھا نہیں لگتا
مزے وحشت کے صحراؤں کی ویرانی میں آتے ہیں
***
دکھ ازل سے یہاں رائیگانی کے ہیں
سب گرفتار دنیائے فانی کے ہیں
دیکھتاہوں کئی کشتیاں خواب میں
یہ تو آثار نقلِ مکانی کے ہیں
چاند الجھا ہوا ہے درختوں سے کیوں
کیا یہ پرچم کسی شادمانی کے ہیں
یا ہواؤں کے اعصاب کمزور ہیں
یاچراغوں پہ دن مہربانی کے ہیں
اک مکاں یادعاؤں کا اک سائباں
پیڑ جس میں کئی رات رانی کے ہیں
***
نفیِ ذات کے منظر اتارنے والا
وہ کشتیوں میں سمندر اتارنے والا
ہواکی لہر کو نفرت کازہر بھی دے گا
کئی چراغ مرے گھر اتارنے والا
شکستہ تیغ سے پوچھا زمینِ مقتل نے
کہاں گیا وہ ہنر سراتارنے والا
ابھی ابھی کوئی جھونکا اِدھر سے گزرے گا
شجر کے جسم سے زیور اتارنے والا
میں بجھ گیاتو مری راکھ سے طلوع ہوا
فصیلِ خواب کے پتھر اتارنے والا
***
مرے آئنے میں نہ دیکھیے کسی ایسے ویسے ملال کو
میں غبار کرکے اڑاچکاکئی قیمتی مہ وسال کو
مری رات میں ہے جوروشنی اسی اسم کا یہ طلسم ہے
اسی واسطے تو بجھادیا ہے ہر اک چراغ وصال کو
مجھے نجدِ خواب میں چھوڑ کر کوئی شخص کب کابچھڑگیا
مری وحشتوں کی خبر اگر ہے تو صرف اس کے غزال کو
میں دکھوں کی شمعیں جلاؤں گا مگر اس طرح کہ دھواں نہ ہو
میں سوال میں نہ اٹھاؤں گا کبھی اپنے دستِ کمال کو
جنھیں منظروں میں کسی کمی کاگلہ ہے رب کریم سے
سو انھوں نے دیکھا نہیں ابھی ترے روپ کو تری چال کو
***
دعا کا حرف یہاں محترم نہیں ہوگا
یہ ریگ زار ہے اشکوں سے نم نہیں ہوگا
کھلا کہ موج انہیں پانیوں کاحصہ ہے
سو اب مقابلہ بیش وکم نہیں ہوگا
یقیں دلاکے مجھے لے چلے ہیں مقتل کو
ستم گراں کہ نہیں اب ستم نہیں ہوگا
معاملات توبنتے بگڑتے رہتے ہیں
میں وہ کروں گاکبھی جس کاغم نہیں ہوگا
دمِ وصال جو آئے گا اس کے چہرے پر
دھنک کے رنگ سے وہ رنگ کم نہیں ہوگا
مراخیال ہے آباد اس کے ہونے سے
یہ اوربات کہ اب وہ بہم نہیں ہوگا
***
ہم اپنے ہجر میں اپنے وصال میں گم ہیں
وہ سوچتا ہے کہ اس کے خیال میں گم ہیں
ہرایک لمحۂ لذت حساب مانگتا ہے
سو ہم بھی سب کی طرح اک سوال میں گم ہیں
شفق کی آنکھ کسے رورہی ہے مدت سے
دیار و دشت سبھی کس ملال میں گم ہیں
رتوں کے دائرے کیوں آج تک سلامت ہیں
تمام سلسلے کیوں ماہ وسال میں گم ہیں
یہ چاند جھیل کے پانی سے ہم کلام ہے کیوں
کنارے کس لیے رنج وملال میں گم ہیں
***
میں دھول میں پھول کھلاتاہوں اس موجِ رواں کے اشارے پر
کبھی ایک یقیں کی سرحد پر کبھی ایک گماں کے کنارے پر
سب منظر ٹھہرا ٹھہرا تھا سناٹا گہرا گہرا تھا
اک نام نے دل پر دستک دی اک بوند گری انگارے پر
کب آب خنک کی نہر ملی کب کوئی نگاہ مہر ملی
کس دھرتی نے کس مٹی نے احسان کیابنجارے پر
آنکھوں کوتوہر اک منظر سے سمجھوتے کی عادت تھی سورہی
دل دنیا سے بیگانہ تھاافتاد پڑی بیچارے پر
میں عالم سارا چھان گیا ہر چہرے کوپہچان گیا
مرے خوابوں کی آبادی ہے شاید کسی اورستارے پر
***
ترا غرور مری عاجزی ہے کتنی دیر
بذات خود یہ حسیں زندگی ہے کتنی دیر
چراغِ راہگزر سے ہوا نے ہر لمحہ
یہی کہا ہے تری روشنی ہے کتنی دیر
بس ایک لمس ہی کافی ہر اک تباہی کو
مزاجِ غنچہ ہوا پوچھتی ہے کتنی دیر
یہ رت جگے بھی وراثت ہیں اگلی نسلوں کو
ہر ایک آنکھ یہاں جاگتی ہے کتنی دیر
ہر اختتام سفر جسم وجاں کوتوڑتاہے
تھکن دلوں کوسکوں بانٹتی ہے کتنی دیر
بس ایک وہم کا منظر ہے ساری آنکھوں میں
نظر کسی کویہاں دیکھتی ہے کتنی دیر
***
دکھ بہت ہوتے ہیں یادوں کی پذیرائی میں
اب اسے سوچنامت موسمِ تنہائی میں
صرف اک بار مناظر پہ نظر ڈالی تھی
سو اسی دن سے کمی آگئی بینائی میں
بے ضمیری کی بدولت تروتازہ ہیں سبھی
ورنہ اک قہر ہے ہر روح کی گہرائی میں
کوئی زنجیر سے خائف کوئی رسوائی کادوست
بس یہی فرق ہے نادانی ودانائی میں
***
دل وحشی تجھے اک بار پھر زنجیر کرناہے
کہ اب اس سے ملاقاتوں میں کچھ تاخیر کرناہے
مرے پچھلے بہانے اس پہ روشن ہوتے جاتے ہیں
سو اب مجھ کو نیا حیلہ نئی تدبیر کرناہے
کماں داروں کواس سے کیا غرض پہنچے کہ رہ جائے
انہیں تو بس اشارے پر روانہ تیر کرنا ہے
ابھی امکان کے صفحے بہت خالی ہیں دنیا میں
مجھے بھی ایک نوحہ جابجا تحریر کرناہے
***
بدن کے طاقچے میں گرد ہے گزرے زمانوں کی
بشارت دے کوئی شمع ہوس آئینہ خانوں کی
اگرچہ قافلہ رخصت ہوئے مدت ہوئی لیکن
صدائیں دشت میں زندہ ہیں اب بھی سار بانوں کی
ابھی تو میں کسی دیوار پر تکیہ نہیں کرتا
ضرورت دھوپ کے موسم میں ہوگی سائبانوں کی
اصولوں سے زیادہ جان پیاری سب کوہوتی ہے
سو میں نے بھی قصیدے شان میں لکھے کمانوں کی
***
مجھے نظر سے تجھے شاخ سے گرا بھی گئے
ہوا کے ہاتھ چراغوں کے دل بڑھا بھی گئے
سفارتوں پہ رہے عشق کم عیار کی ہم
سو نازِ حسن دو روزہ بہت اٹھا بھی گئے
ہمارا کیاہے مریدانِ عصر ہیں ہم لوگ
ہوا چلی ہے تو پیرانِ پار سا بھی گئے
تمام حیلہ وتدبیر بے اثر ہیں کہ اب
چراغِ انجمن خواب جھلملا بھی گئے
***
مرے ریگ زار میں اس برس یہ کمال موجِ بلا کاتھا
نہ وہ کشتیاں تھیں غبار کی نہ وہ بادبان ہواکاتھا
کبھی چشم شوق کے سامنے کوئی شے دھنک کی طرح کھنچی
کبھی دل کے دشت میں پھول سا کوئی کھل گیاجو بلا کاتھا
کبھی ایک یاد کی لہر نے مرے ساحلوں کوسبک کیا
کبھی اک ستارہ چمک اٹھا جو اسی ستارہ نما کاتھا
کئی رنگ جس میں سما گئے وہ طویل دھوپ کی جھیل تھی
جو کئی چراغ بجھا گیاہے وہ ہاتھ بادِ فنا کاتھا
***
مرے لوگ خیمہ صبر میں، مرے شہر گردِ ملال میں
ابھی کتنا وقت ہے اے خدا ان اداسیوں کے زوال میں
کبھی موجِ خواب میں کھوگیا کبھی تھک کے ریت پہ سوگیا
یونہی عمر ساری گزاردی فقط آرزوئے وصال میں
کہیں گردشوں کے بھنور میں ہوں کسی چاک پر میں چڑھا ہوا
کہیں میری خاک جمی ہوئی کسی دشتِ برف مثال میں
یہ ہوائے غم یہ فضائے نم مجھے خوف ہے کہ نہ ڈال دے
کوئی پردہ میری نگاہ پر کوئی رخنہ تیرے جمال میں
***
کس نے کوئی سچ لکھاہے، یہ فقط الزام ہے
شاعری محرومیوں کاخوبصورت نام ہے
بے غرض ملنے کی ساری منطقیں جھوٹی ہیں یار
توجوآیا ہے تو اب بتلا بھی دے کیاکام ہے
اب کے میخانے کی مٹی پر کوئی دھبہ نہیں
رند ہیں ٹوٹے ہوئے ہاتھوں میں ثابت جام ہے
نے شکوہِ سروری ہے، نے جمالِ دلبری
دل کسی فرعونِ بے سامان کااہرام ہے
***
ابھی دریچہ دل سے ہوا ہے کتنی دور
وہ لمسِ خواب وہ آوازِ پا ہے کتنی دور
میں کس مقام پہ ہوں اے محیطِ تنہائی
یہاں سے منزلِ صبرورضا ہے کتنی دور
تمام دشت میں ظلمت کے شامیانے ہیں
نزولِ صبح ترا قافلہ ہے کتنی دور
جہاں ہواکا گزر ہے نہ تتلیوں کاہجوم
عجیب پھول ہے جاکر کھلا ہے کتنی دور
جوسوچئے توہیں ان دوریوں میں ربط کے رنگ
جو دیکھئے توزمیں سے گھٹا ہے کتنی دور
***
وہ آدمی جو تری آرزو میں مرتاہے
وہ تجھ سے پیار نہیں خود سے عشق کرتاہے
فضا میں خوف کے پرچم بلند ہوتے ہیں
سوادِ شام سے لشکر کوئی گزرتاہے
مری زمیں کے بلاوے غضب کے ہیں لیکن
کوئی جنوں مرے پر رات دن کترتاہے
میں اپنے آپ کو اب کس کے چاک پر رکھوں
شکستہ ظرف دوبارہ کہیں سنورتاہے
لگے ہوئے ہیں جہاں پر وصال کے خیمے
ادھر سے ہجر کا رہوار بھی گزرتاہے
***
نہ کوئی صبح فراق اور نہ کوئی شامِ وصال
چمک کے بجھ گئے آخر سبھی طرح کے خیال
مرے شجر پہ نہ اترا کوئی حسیں طائر
بدل گئے کئی موسم گزرگئے کئی سال
بس ایک جنبش لب داستان سے آگے
بس اک نگاہ نے پیدا کیے بہت سے سوال
ترے سفر پہ روانہ کبھی ہواتھا میں
یہ دیکھ سر میں ابھی تک جمی ہے گردِ ملال
ترے وصال کی خوشبو تلک تھیں سب باتیں
سو دل میں اب نہیں آتا بغاوتوں کاخیال
***
وہ جب ملا تو کسی رنج رائیگاں میں ملا
میں جب کھلا تو کسی شاخ بے اماں پہ کھلا
مرے جہاں سے مرا رابطہ یونہی سا ہے
مجھے بھی اس سے شکایت اسے بھی مجھ سے گلہ
میں ایک بار جوٹوٹا تو پھر جڑا نہ کبھی
وہ ایک بار جو بچھڑا توپھر کہیں نہ ملا
مکانِ خواب کسی برہمی کی زد میں ہے
نہ طاقچوں میں دئیے ہیں نہ آئینوں میں جلا
رفو گراں تو ہنر مند وخوبصورت تھے
مگر کسی سے مرا چاک آرزو نہ سلا
***
مرے چراغ کویہ وہم کھائے جاتاہے
کہ اس کو ہاتھ ہوا کا بلائے جاتاہے
میں اپنے جسم کی سرحد میں گھٹتا جاتاہوں
وہ مملکت کو انا کی بڑھائے جاتاہے
چمک رہا ہے فلک پر بس اک ستارہ ہجر
شبِ سیاہ مری جگمگائے جاتاہے
میں ایسے ہاتھ کی تعظیم کر نہیں سکتا
جو آسماں سے پرندے گرائے جاتاہے
میں سب سے ناتواں انسان ہوں قبیلے کا
پر اک جنوں مجھے میداں میں لائے جاتاہے
***
حریف کوئی نہیں دوسرا بڑا میرا
سدا مجھی سے رہا ہے مقابلہ میرا
مرے بدن پہ زمانوں کی زنگ ہے لیکن
میں کیسے دیکھوں شکستہ ہے آئنہ میرا
مرے خلاف زمانہ بھی ہے زمین بھی ہے
منافقت کے محاذوں پہ مورچہ میرا
میں کشتیوں کوجلانے سے خوف کھاتا نہیں
زمانہ دیکھ چکا ہے یہ حوصلہ میرا
مرے سوال سے ہر شخص کوملال ہوا
پہ حل کیا نہ کسی نے بھی مسئلہ میرا
***
ترا چراغ ، مرا دل بجھانا چاہتے ہیں
ہوا کے ہاتھ کرشمے دکھانا چاہتے ہیں
جبھی تو ڈھیر لگائے ہیں سنگ ریزوں کے
ہمیں یہ اہلِ خرد آزمانا چاہتے ہیں
وہی زمین سمندر کی ہوتی جاتی ہے
کہ ہم جہاں بھی کوئی گھر بنانا چاہتے ہیں
سمیٹ لو تو یہ منظر ہیں ایک لمحے کے
جو طول دو تو یقیناًزمانہ چاہتے ہیں
ہمارا دل کہ تمہارا غرورِ تشنہ لبی!
تمام تیر ستم اک نشانہ چاہتے ہیں
ہمیں پتہ ہے کہ ترسیں گے عکس کو اپنے
وہ سارے لوگ جو آئینہ خانہ چاہتے ہیں
ہمیں سے رکھتے ہیں پرخاش بھی عداوت بھی
ہمیں سے اہل جہاں دوستانہ چاہتے ہیں
***
سچ بول کے بچنے کی روایت نہیں کوئی
اور مجھ کو شہادت کی ضرورت نہیں کوئی
میں رزق کی آواز پہ لبیک کہوں گا
ہاں مجھ کو زمینوں سے محبت نہیں کوئی
میرے بھی کئی خواب تھے میرے بھی کئی عزم
حالات سے انکار کی صورت نہیں کوئی
ہر شام ہی آتاہے کسی چاند کاپیغام
لیکن شبِ مہتاب کی حاجت نہیں کوئی
میں جس کے لیے سارے زمانے سے خفاتھا
اب یوں ہے کہ اس نام سے نسبت نہیں کوئی
لہجہ ہے مراتلخ مرے وار ہیں بھر پور
لیکن مرے سینے میں کدورت نہیں کوئی
***
کچھ جذبے اورجنون لیے مایوس وملول سے رہتے ہیں
ہم انسانوں کے جنگل میں اک شاخ ببول سے رہتے ہیں
یوں تو بنجر ہے پہلے سے لیکن اس دل کی دھرتی پر
کچھ خوشبو عہد گزشتہ کی کچھ چہرے پھول سے رہتے ہیں
ہم درویشانِ عہد کہن ہم سرمستانِ بادہ فن!
کبھی رکھتے ہیں ربط بہاراں سے کبھی رشتے دھول سے رہتے ہیں
صورت بھی نہیں اچھی اپنی سیرت بھی نہیں اچھی اپنی
سرِ کوئے نگاراں ہم لیکن پھر بھی مقبول سے رہتے ہیں
ہر ماہ کٹوتی خرچے میں ہر سال اضافہ اجرت میں
ہر روز بخیلی محنت میں کچھ لوگ اصول سے رہتے ہیں
سرسید کو محدود کیے اک چھوٹی سی کالونی ہے
جہاں کابک نمامکانوں میں چہرے مجہول سے رہتے ہیں
***
دریچے طاقچے، سننے کالطف اٹھاتے ہوئے
دئیے کے ہونٹ کوئی داستاں سناتے ہوئے
بدن میں شامِ زمستاں طلوع ہوتی ہوئی
گداز گرم پرندے گھروں کوجاتے ہوئے
ہر اک مقام پر نادیدہ دشمنوں کاخوف
تمام عمر کٹی دست و پا بچاتے ہوئے
ہمارے دل میں عجب ٹوٹ پھوٹ ہوتی ہوئی
ہم اپنے گھر کو مگر رات دن سجاتے ہوئے
ہم اک طلسم کا در کھولنے گئے تھے مگر
پلٹ کے آئے فقط حیرتیں بڑھاتے ہوئے
زمین اپنے تقاضوں کو تیز کرتی ہوئی
فضائے یاد میں کچھ نام جھلملاتے ہوئے
سکوت، ساحل دریا پہ آنکھ ملتا ہوا
بھنور کے ہاتھ کئی کشتیاں تراتے ہوئے
***
سیلِ گریہ کا سینے سے رشتہ بہت
یعنی ہیں اس خرابے میں دریا بہت
میں نے اس نام سے شام رنگین کی
میں نے اس کے حوالے سے سوچابہت
دیکھنے کے لیے سارا عالم بھی کم
چاہنے کے لیے ایک چہرہ بہت
اس سے آگے توبس خواب ہی خواب تھے
میں نے اس کو مجھے اس نے دیکھا بہت
میں بھی الجھا ہوں منظر کے نیرنگ سے
میرے پیروں سے لپٹی ہے دنیا بہت
رفتگاں کے قدم جیسے آہو کارم
جانے والوں کورستوں نے روکابہت
جنگجو معرکوں میں ہوئے سرخرو
بستیاں بین کرتی ہیں تنہا بہت
***
اب احمق داناؤں جیسی باتیں کرتے ہیں
سو ہم صرف خلاؤں جیسی باتیں کرتے ہیں
جانے کیاافتاد پڑے گی اب کے بستی پر
دھوپ کے لشکر چھاؤں جیسی باتیں کرتے ہیں
جن کے ترکش تیرِ ستم سے خالی ہوتے ہیں
وہ بھی کرم فرماؤں جیسی باتیں کرتے ہیں
ہم نے اپنادستِ سوال قلم کر ڈالا ہے
ہم سے شاہ گداؤں جیسی باتیں کرتے ہیں
ہر دل میں دریاؤں کی طغیانی خوابیدہ
لب لیکن صحراؤں جیسی باتیں کرتے ہیں
کبھی کبھی جب شام کوسورج سونے جاتاہے
جنگل خواب سراؤں جیسی باتیں کرتے ہیں
***
اس شہر عزت داراں میں ہم مال ومنال نہیں رکھتے
کبھی اپنا خیال نہیں رکھتے کبھی اس کاخیال نہیں رکھتے
کبھی چاہاتھا کسی صورت کو کبھی پوجا تھا کسی مورت کو
اب ہجر کی حد سے باہر ہیں اب شوقِ وصال نہیں رکھتے
وہ گل ہیں کون سی کیاری میں، جنھیں مرجھانے کی فکر نہیں
وہ آئینے کس دُکان میں ہیں جوگردِ ملال نہیں رکھتے
یہ اور طرح کے شکاری ہیں، بس تیرِ ستم کے پجاری ہیں
کچھ دانہ ان کے پاس نہیں، یہ کوئی جال نہیں رکھتے
بے بال وپری میں زندہ ہیں پرخود سے کہاں شرمندہ ہیں
ہمیں فکرِ عروج سے کیا لینا جب فکرِ زوال نہیں رکھتے
اسباب وعلل سے دوری ہی ہم لوگوں کی مجبوری ہے
ہم بندے اپنے رب کے ہیں، سوکچھ جنجال نہیں رکھتے
ا س شہر گماں میں مستقبل اورحال کی صورت ایک سی ہے
اس خوف سے اپنے بچے کاہم نام اقبال نہیں رکھتے
***
وصالِ جسم وصالِ نظر سے کم ہے بہت
مگر کسی کے نہ ملنے کادل کوغم ہے بہت
اسی جبیں پہ ہیں روشن اناکے تارے بھی
یہی جبین ترے آستاں پہ خم ہے بہت
خیال یہ تھا کہ دریا اتر ہی جاتے ہیں
ملال یہ ہے کہ وہ آنکھ اب بھی نم ہے بہت
دیارِ جاں کے شجر تھے ہرے بھرے کافی
ہوائے تیز کا اب تو مگر کرم ہے بہت
پلٹ پڑو کہ یہ موسم بدل بھی سکتا ہے
ابھی توشہرِ گماں کی زمین نم ہے بہت
قصیدہ گوئی کے آداب سے بھی واقف ہیں
عزیز ہم کو مگر حرمتِ قلم ہے بہت
***
دل و نظر کو لہو میں ڈبونا آتاہے
نہ اب ہنسی ہمیں آئے نہ روناآتاہے
ہوا کے ہاتھ چراغوں سے کھیلتے ہیں یونہی
کہ ہاتھ بچوں کے جیسے کھلونا آتاہے
ہم اہلِ زر کے دروں پر قدم نہیں رکھتے
گدائے خاک ہیں مٹی پہ سوناآتاہے
خمارِ در بدری چین سے نہ رہنے دے
جو خواب آتاہے اکثر سلونا آتاہے
غزل کے شعر ہیں مفرد مگر وہ شاعر ہے
جسے سب ایک لڑی میں پرونا آتاہے
***
مجھ کو یقیں بہت نہ تھا اس کو گماں بہت ہوا
جل گئی چوبِ سبز بھی گرچہ دھواں بہت ہوا
وہ مرایار تھا مگر اس کے اصول تھے جدا
ضبطِ سخن کے باب میں میرا زیاں بہت ہوا
ہم تو غلام لوگ ہیں ہم سے نہ پوچھئے حضور
ابر کرم کہاں گیا،ظلم کہاں بہت ہوا
اے کسی یاد کے سمنداب نہ ادھر نگاہ کر
تیرے خرام سے خجل آبِ رواں بہت ہوا
لوحِ خیال یار نے آگ کو پھول کردیا
سحر طلسم ذات کا شعلہ فشاں بہت ہوا
***
خواب
بچوں کی محبت سے زیادہ تو نہیں
دیکھ سکتا ہوں مگر عزم و ارادہ تو نہیں
میں تجھے کیسے ملوں کیسے پکڑپائے تو
تیری باہیں مرے دل جیسی کشادہ تو نہیں
میں توجیسا ہوں نظر آتاہوں سب کو ویسا
تو جو ہے شاہ نما، شاہ کازادہ تو نہیں
سب اس امید میں زندہ ہیں کہ پائندہ ہوں
صرف مجبوری ہے مرنے کا ارادہ تو نہیں
مجھ پہ احسان وستم دونوں برابر اس کے
میں نے جو کچھ بھی کہا ہے وہ زیادہ تو نہیں
شعر سب لکھتے ہیں در حاشیۂ گم شدگاں
پر شگفتِ گلِ بادام اعادہ تو نہیں
***
وقت اک دریا ہے، دریا سب بہالے جائے گا
ہم مگر تنکے ہیں، ہم تنکوں سے کیالے جائے گا
اک عجب آشوب ہے کیوں بستیوں میں جلوہ گر
کیا یہ ہر انسان سے خوفِ خدالے جائے گا
ہے تو خورشید حقیقت پر بڑا بے مہر ہے
دل سے جذبے آنکھ سے آنسو چرا لے جائے گا
بوریے پر بیٹھنے کالطف ہی کچھ اور ہے
شہر یارِ عصر اس تکیے سے کیا لے جائے گا
ہر گزر گاہِ تمنا پر بہت سی گرد ہے
لیکن اس کوایک ہی جھونکااڑالے جائے گا
عافیت کے دائروں میں یار سارے بند ہیں
کوئی موسم، کوئی طوفاں اس سے کیا لے جائے گا
***
ہم اہل دل ہیں نہ جانے کدھر چلے جائیں
ہمارا کیاہے کہ کس راہ پر چلے جائیں
اب ان پرندوں کے بارے میں کیا کہیں جن کے
اڑان بھرنے کی کوشش میں پر چلے جائیں
کچھ آنے والوں کی عبرت کوچھوڑ دیں منظر
ہم اب اداس نہ ہوں اور گھر چلے جائیں
تمام ہوگئی مجلس چراغِ چشم کے ساتھ
سو اب گھروں کو سبھی نوحہ گر چلے جائیں
ستارہ تاب بھی ہیں، خانماں خراب بھی ہیں
عذاب در بدری ہم کدھر چلے جائیں
جہاں سے سب کاگزر سرسری توہولیکن
برا بھی کیا ہے اگر دیکھ کر چلے جائیں
وہ رت نہ آئے کہ جس کی ہوا کے جھونکوں سے
ہر ایک شخص کے عیب وہنر چلے جائیں
***
سجے سجائے ہوئے سبز منظروں سے نہ جائیں
خدا کرے کہ یہ دریا کبھی گھروں سے نہ جائیں
بنامِ عشق وہوس کچھ نہ کچھ رہے روشن
کچھ ایسا ہو کہ یہ سودے کبھی سروں سے نہ جائیں
فضائے دشتِ طرب ناک کو دوام ملے
گلاب خوشبو سے اورتتلیاں پروں سے نہ جائیں
ضرورتوں کو زیادہ نہ کر خدائے کریم
نکل کے پاؤں بہت دور چادروں سے نہ جائیں
حروف و نطق کی ہر انجمن میں رونق ہو
خیال روٹھ کے ہر گز سخنوروں سے نہ جائیں
اسی طرح صفِ سیارگاں رہے قائم
نجوم وماہ الگ اپنے محوروں سے نہ جائیں
امیرِ عصر سے فریاد کرناچاہتے ہیں
سروں کوپھوڑنے یہ لوگ پتھروں سے نہ جائیں
***
میری نفرت بھی ہے شعروں میں مرے پیار کے ساتھ
میں نے لکھی ہے غزل جرات اظہار کے ساتھ
اقتدار ایک طرف ایک طرف درویشی
دونوں چیزیں نہیں رہ سکتی ہیں فنکار کے ساتھ
اک خلادل میں بہت دن سے مکیں ہے اب تو
یاد گزرا ہوا موسم بھی نہیں یار کے ساتھ
بادبانوں سے الجھتی ہے ہوا روز مگر
کشتیاں سوئی ہیں کس شان سے پتوار کے ساتھ
شہر میں جہل کی ارزانی ہے لیکن اب تک
میں ہی سمجھوتہ نہیں کرتا ہوں معیار کے ساتھ
میرے اشعار ہیں ناقد کے لیے کچھ بھی نہیں
درد کومیں نہیں لکھتا کبھی دشوار کے ساتھ
***
احباب گلاب سے بنے ہیں
ہم خاکِ خراب سے بنے ہیں
کچھ اہل کتاب بن کے آئے
کچھ لوگ کتاب سے بنے ہیں
قصبوں میں مکاں تھے جن کے بے ڈھب
شہروں میں حساب سے بنے ہیں
کچھ نقش و نگار لوحِ دل پر
اک شخص کے خواب سے بنے ہیں
اس شوخ کی بے شکن جبیں پر
کیا نقش جواب سے بنے ہیں
یہ پھول بدن یہ چاند چہرے
کیاموجِ شراب سے بنے ہیں
آنکھوں کی جگہ ہیں دوستارے
ہونٹوں پہ گلاب سے بنے ہیں
***
جس کو ہونا ہے وہ ان آنکھوں سے اوجھل ہوجائے
اس سے پہلے کہ مرا کام مکمل ہوجائے
میں تو بس دیکھتا رہتاہوں زمینوں کے کٹاؤ
آدمی سوچنے والا ہو توپاگل ہوجائے
کہیں ایسا نہ ہوویرانے ہوں پھر سے آباد
کہیں ایسا نہ ہو ہر شہر ہی جنگل ہوجائے
یہ زمیں جس پہ ہے گلزاروں کی تعداد بہت
یہ بھی ہوسکتا ہے کل کو وہی مقتل ہوجائے
ریگ زاروں سے بخارات ہی اٹھتے ہیں مگر
کون جانے کہ یہ گرمی کوئی بادل ہوجائے
میرا پندار ہی دیوار ہے ناکامی کی
یہ جو گرجائے تو ہر خواب مکمل ہوجائے
***
کسی ستارے کی آرزو میں کبھی ستارہ نہیں ملے گا
ہم ایک دریا کے دو کنارے کوئی کنارانہیں ملے گا
اداس موسم کے محرموں نے خزاں کے کانوں میں کہہ دیا ہے
کہ سبزہ وگل کوخاک کردے یہ دن دوبارہ نہیں ملے گا
سبھی کے مہتاب اپنے اپنے علاقہ ہجر میں ہیں روشن
کہیں تمہارا نہیں ملے گا کہیں ہمارا نہیں ملے گا
یہ خاکِ صحرا ہی گرد بن کر بلند ہوگی سروں کے اوپر
گھنے بنوں سے گزر توآئے ہو ابر پارہ نہیں ملے گا
شکستہ پایانِ مصلحت ہی بلندیوں تک پہنچ سکیں گے
جو اپنے پیروں پہ چل رہے ہیں انہیں سہارا نہیں ملے گا
عذاب دانش کی گٹھریوں نے سروں کومجروح کردیاہے
خدائے برتر، بتاکوئی، لمحۂ گوارہ نہیں ملے گا
***
مضموں یہ کنائے نہ اشارے کے لیے ہے
وہ شخص کسی اورستارے کے لیے ہے
کھلتاہوا گل آگ اگلتا ہوا موسم
عبرت کے لیے ہے کہ نظارے کے لیے ہے
خاشاک ہوس، عشق کے پھیلے ہوئے جنگل
ہر چیز مگر وقت کے دھارے کے لیے ہے
سوداگر اسبابِ جنوں گھر سے نکل کر
بازار میں آیا ہی خسارے کے لیے ہے
جب ہجر کی حدت سے جھلس جائیں دل وجاں
یہ درد کی دیوار سہارے کے لیے ہے
مواج سمندر میں ٹھہرتا نہیں کوئی
بے چین ہر اک شخص کنارے کے لیے ہے
***
کسی پردۂ غیب سے ظاہر ہو کوئی صورت ہجر کے جانے کی
کوئی ساعت سعد نوید تو دے پھر تیرے پلٹ کرآنے کی
مری باتیں سن کر کہتے ہیں احباب مرے اغیار مرے
یہ شخص ہے کون سی دنیا کایہ بات ہے کس کے زمانے کی
جو کچھ کہنا ہے کہہ پیارے مت خواب وخیال میں رہ پیارے
یہ لمحے کم کم آتے ہیں یہ رت بھی نہیں شرمانے کی
ہر سمت ہیں شعلوں کے ہالے کہتے ہیں مگر کچھ متوالے
کوئی رستہ اس تک جانے کا کوئی صورت آگ بجھانے کی
دو جملوں میں دروازۂ جاں سب بند کیے دیتے ہیں یہاں
باتیں تو سبھی کرتے ہیں میاں دیوارِ انا کو ڈھانے کی
میں وہ ضدی تھا جس کے لیے ہر کارِ زیاں تھا راحتِ جاں
ویسے تو مرے ہمدردوں نے کوشش کی بہت سمجھانے کی
کیا خرچ کروں کب خرچ کروں اس سوچ میں ڈوبا رہتاہوں
اللہ کادیا سب کچھ ہے میاں مجھے فکر نہیں ہے کمانے کی
***
شورش گریہ و فریاد سے خم ہوگئے کیوں
سارے محراب ومکیں نذر عدم ہوگئے کیوں
سبب غم سے تھے آگاہ نہ اہل غم سے
بھیڑ کو دیکھ کے ہم شامل غم ہوگئے کیوں
یہ سب آنسو تو زمینوں کے لیے تھے لیکن
لمس شبنم سے کئی پھول بھی نم ہوگئے کیوں
اہل دنیا بھی وہی اور یہ دنیا بھی وہی
صرف اس بزم سے کچھ سر پھرے کم ہوگئے کیوں
چاہتے ہم تھے کہ دیں ورثے میں اگلوں کو جنوں
سارے امکان مگر ہم میں ہی ضم ہوگئے کیوں
اب تو زنجیر تعلق کا خدا حافظ ہے
وحشتوں کے بہت اسباب بہم ہوگئے کیوں
***
نہ زمین میری حریف ہے نہ زمان میرے خلاف ہے
میں اک ایسا سچ ہوں جو تلخ ہے سو جہان میرے خلاف ہے
یہ عدالتوں کاہے معجزہ کہ گداگری کاشعورِ نو
سو مرے گواہِ عزیز ہی کابیان میرے خلاف ہے
اک اداس عہد کی حسرتیں اک عجیب دور کی حیرتیں
مرے دل میں کیسے سما گئیں مرادھیان میرے خلاف ہے
میں گداگروں کے دیار میں ہوں جو زندہ دفن مزار میں
مرا شوق میرا زوال ہے مرا گیان میرے خلاف ہے
میں زیاں کی رت کاچراغ تھا مگر عہد سود میں جل اٹھا
یہ سیاہ رات کا ہمنوا یہ جہان میرے خلاف ہے
***
تھا مکان دل کسی اور کا پہ رہا بسا کوئی دوسرا
میں کسی کے ہجر میں مضطرب مجھے چاہتا کوئی دوسرا
ترا رنگ سب سے جدا سہی تری شکل سب سے حسیں مگر
مرا مبتدا کوئی اور ہے مرا منتہا کوئی دوسرا
مرے لوگ گردوغبار میں ترے یار تیرے دیار میں
تو اسیرِ منزل شش جہت مرا راستہ کوئی دوسرا
میں ذرا سی بات پہ روٹھ کر تو نہیں گیا تری بزم سے
مرے مہرباں کبھی سوچتا تھا معاملہ کوئی دوسرا
یہی آسماں مرا آسرا یہی خاک خلعتِ بے بہا
مری جائیداد جنوں جسے نہیں بانٹتا کوئی دوسرا
***
فصیل قصر انا عشق نے گرادی کیا
شکست کھاگئی پھر قوتِ ارادی کیا
تمہارے شہر کی شب دن کو مات دیتی ہے
یہاں سبھی نے چراغوں کی لو بڑھادی کیا
نہ کوئی نعرۂ ہُو ہے کہیں نہ جام وسبو
اجاڑ دی گئی اب کے جنوں کی وادی کیا
جو معرکے میں نہ جائے وہ بادشاہ نہیں
جو عشق ہی نہ کرے پھر وہ شاہ زادی کیا
دیارِ درد میں تھا جس سے روشنی کا وجود
وہ آگ بارشِ حالات نے بجھادی کیا
نہ کوئی پھول، نہ چہرہ، نہ چاندنی، نہ چراغ
یہاں ہر ایک ہے بدصورتی کا عادی کیا
مسائلِ دل ودنیا پہ غور کرتے لوگ
ضرورتوں نے یہ زنجیر سی بنادی کیا
***
کوئی سفر نہ کریں بس گھروں میں رہ جائیں
اگر یہ عشق وہوس،بستروں میں رہ جائیں
ہٹے نہ کوئی ستارہ مدار سے اپنے
دعا یہی ہے کہ سب محوروں میں رہ جائیں
ہم آگ شہر کی ہر چیز کو لگادیں گے
اگر چراغ ہمارے گھروں میں رہ جائیں
جو لوگ آج نمایاں ہیں کل کہاں ہوں گے
ہمارا کیا ہے جو پس منظروں میں رہ جائیں
بدن سے روح کارشتہ توسخت مشکل ہے
بہت ہے دفن اگر مقبروں میں رہ جائیں
ورائے شعر بھی اک بات شعر میں آجائے
نہ استعاروں میں نے پیکروں میں رہ جائیں
***
ملال کس لیے یہ جشنِ شاد کامی کیا
بذاتِ خود ہے کوئی چیز بھی دوامی کیا
پرانے طاق میں رکھی کتاب سے پوچھو
بزرگ کیا تھے بزرگوں کی نیک نامی کیا
یہ آب وگل کابدن ریزہ ریزہ ہوناہے
سو خاکدانِ جہاں میں بلند بامی کیا
بس ایک ضرب فنا، اس کے بعد سناٹا
صباخرامیاں کیا اور تیز گامی کیا
یہ خود فریب صدی جن میں زندہ ہوں میں بھی
یہاں چراغ کی ضو کیا سیاہ فامی کیا
عدو کے سامنے سارا قبیلہ چپ کیوں ہے
سبھی نے ڈال لیا حلقہ غلامی کیا
تمام شہر پہنتا ہے مصلحت کی زرہ
یہاں کرے مرا اندازِ بے نیامی کیا
***
خوبیوں پر دوستوں کی خاک ڈال آتا ہے کیوں
اے دلِ وحشی تجھے بس یہ کمال آتا ہے کیوں
کون لے جاتاہے آنکھوں سے نظاروں کاجمال
بیٹھے بیٹھے ترکِ دنیا کاخیال آتا ہے کیوں
کس لیے خورشید صورت لوگ ہوجاتے ہیں خاک
دفعتاً ہر خواب کے شیشے میں بال آتاہے کیوں
کیا یہاں زنجیر کے حلقوں کی صورت ہیں سبھی
ہجر لوگوں پر برنگِ ماہ وسال آتا ہے کیوں
کیادیارِ درد کی گلیوں میں اب رونق نہیں
جو بھی آتاہے وہاں سے وہ نڈھال آتا ہے کیوں
***
جس کے ہم اہل نہ تھے اب کے تو وہ بات ہوئی
لیلۃ القدر میں لیلیٰ سے ملاقات ہوئی
اختتامِ سفر شوق پہ کیوں سوچاجائے
شام کس دشت میں آئی تھی کہاں رات ہوئی
زندہ رہنے کے بہانے تھے بہت دنیا میں
آب ودانے کے بنا بھی گزر اوقات ہوئی
دل سمندر میں بھنور آج زیادہ کیوں ہیں
کس جزیرے کو رواں کشتی جذبات ہوئی
زندگی بھر رہے اس شخص سے باتیں کرتے
جس سے دوچار ہی لمحوں کو ملاقات ہوئی
ملتفت ہم پہ ہوا تو جو خوشامد کے بعد
یہ تو اے دوست، عنایت نہیں خیرات ہوئی
***
دلوں پر خوف بھی طاری بہت ہے
مگر جنگوں کی تیاری بہت ہے
خرد کی بستیوں کے پھونکنے کو
جنوں کی ایک چنگاری بہت ہے
سبھی زد میں ہیں دشت و کوہ وانساں
یہ ضربِ وقت ہے کاری بہت ہے
پرانا خشک پتہ کہہ رہا تھا
ہوا میں تیز رفتاری بہت ہے
ہم اپنے دل کی دنیا دیکھتے ہیں
ہمیں یہ شغل بیکاری بہت ہے
چلے ہو اس سے ملنے پر یہ سن لو
اسے شوقِ دل آزاری بہت ہے
نہیں ہے ساتھ رہنا گرچہ آساں
بچھڑنے میں بھی دشواری بہت ہے
***
دشتِ ہوس میں پیکِ فنا آنے والا ہے
ان بستیوں پہ قہر خدا آنے والا ہے
شہزاد گانِ عشق و ہوس کو خبر کرو
شہر طلسم ہوشربا آنے والا ہے
گمگشتگی کے دشت میں رہنا ہے عمر بھر
یا کوئی خضرِ سبز قبا آنے والا ہے
رنگت عجیب دشت کے سارے گلوں کی ہے
کیا کوئی انقلاب نیا آنے والا ہے
ہم تم تو رفتگاں کے مقابر کے پیرہن
آیندگاں پہ وقت برا آنے والا ہے
یہ خوش دلی یہ عشق وصداقت ہے چند روز
عہد طویل حرص وہوا آنے والا ہے
دجال عصر آئے گا یا مہدی زماں
کیا جانیے کہ غیب سے کیاآنے والا ہے
***
تھی کبھی اپنی جگہ مسندِ شاہی کے قریب
دوسرے لوگ ہیں اب ظل الہی کے قریب
اب زمانے سے تعلق مرا یوں ہے جیسے
تیغ ٹوٹی ہوئی مجروح سپاہی کے قریب
میں تو سچ کہنے عدالت میں چلا آیا تھا
لرزہ مرگ سا طاری ہے گواہی کے قریب
یہ تو ہر دور میں ہوتاہے سو اب بھی ہوگا
لوگ حاکم سے خفا شہر تباہی کے قریب
یہ فقط رسم ہے یا اور کوئی قصہ ہے
خار کیوں رکھتے ہیں سب آبلہ پا ہی کے قریب
***
دیارِ دل کا سفر نا تمام رہ گیا ہے
ستارہ بجھ کے سرِ بام شام رہ گیاہے
بیاض عشق کو کِرمِ فنا نے چاٹ لیا
ورق ورق پہ مگر ایک نام رہ گیاہے
بجز فراغ ہے کیاآدمی کی آسانی
مگر ہمیں توابھی کتناکام رہ گیا ہے
سفالِ وقت میں آمیزشِ کدورت ہے
ہمارے پاس فقط دل کاجام رہ گیاہے
نمازِ شوق میںآتاہے یاد یہ کس کو
کہاں رکوع و سجود و قیام رہ گیاہے
غزل تو سب نے لکھی ہے مگر وہ شاعر ہے
کہ جس کے بعد بھی اس کاکلام رہ گیاہے
***
شب کو شراب پیجئے دن میں کتاب دیکھئے
غالب خستہ کی طرح جاگ کے خواب دیکھئے
سوچئے زندگی ہے کیا اور یہ سوچتے ہوئے
لوح تصورات پر لاکھوں جواب دیکھئے
باغ میں پھول ہیں مگر ان کی نمو ہے عارضی
خوف خزاں سے ماورا دل کا گلاب دیکھئے
کتنے جہان دار تھے کتنے کمان دار تھے
یعنی کتاب وقت میں عشق کا باب دیکھئے
اب تو ہر ایک ملک میں ان کے ہیں گھر بسے ہوئے
لائے ہیں انقلاب کیا خانہ خراب دیکھئے
عشق وہوس کا فیصلہ اور کسی پہ چھوڑ ئے
چہرۂ زرد دیکھئے چشم پُرآب دیکھئے
***
شفق کے خون سے دریا سہانے ہوتے جاتے ہیں
مری مجبوریاں ان کے بہانے ہوتے جاتے ہیں
مری سانسوں کے سارے چاند تارے بجھ گئے جاناں
ترے ہونٹوں کے سب بوسے پرانے ہوتے جاتے ہیں
اداسی داستانوں کی طلسمی شاہزادی ہے
جدھر جاتی ہے سب اس کے دیوانے ہوتے جاتے ہیں
ہوائیں طائروں کی ہجرتوں پہ بین کرتی ہیں
جدا پیڑوں سے پھر بھی آشیانے ہوتے جاتے ہیں
***
اگر خاکے تمنا کے مکمل ہوگئے ہوتے
ذرا سی دیر میں سب مسئلے حل ہوگئے ہوتے
کبھی دل چاہتا ہے جنگلوں میں بستیاں ہوتیں
کبھی دل چاہتا ہے شہر جنگل ہوگئے ہوتے
بہت خوش ہیں دِوانے بادلوں کی ہوشیاری پر
برس جاتے تو ویرانے بھی جل تھل ہوگئے ہوتے
اجالے بس ترے چہرے کی شادابی تلے رہتے
اندھیرے بس تری آنکھوں کا کاجل ہوگئے ہوتے
فضائے دشت میں کتنا سکوں ہے ایک مدت سے
ہمارے بعد بھی کچھ لوگ پاگل ہوگئے ہوتے
***
ہاتھ باندھے ہوئے الفاظ کھڑے رہتے ہیں
اورمضمون تو چوکھٹ پہ پڑے رہتے ہیں
کھڑکیاں ہیں نہ دریچے نہ ہواؤں کاگزر
ان مکانوں میں مگر لوگ بڑے رہتے ہیں
اک تعلق ہے کسی درد کا دل کے ہمراہ
جیسے زیور میں نگینے بھی جڑے رہتے ہیں
کیاجری لوگ ہیں احباب میں شامل اپنے
جو نہ کرپائیں وہ کرنے پہ اڑے رہتے ہیں
اک سفر ہے کہ کبھی ختم نہ ہوگا شاید
اپنی آنکھوں میں سدا کوس کڑے رہتے ہیں
اپنا کیا ہے کہ فقط رقص انا دیکھنے کو
ہم ہر اک صاحب منصب سے لڑے رہتے ہیں
اپنے حجرے سے فقیری کی سند لینے کو
آج بھی صاحب اعزاز کھڑے رہتے ہیں
***
صبح کے نیزے پر سورج کاسرروشن
ایک دئیے کی چیخ سے سارا گھر روشن
ایک تھکی دوپہر بدن کا سرمایہ
ایک فسردہ شام سے یاد نگر روشن
صحرا میں کچھ دھول کی لہریں رقص کناں
بستی میں کچھ ننھے منے گھر روشن
وادی میں اک گہری لمبی تاریکی
کہساروں پر کچھ دشمن لشکر روشن
ایک دھنک ہر منظر نامے کاحصہ
ایک چمک سے سارے بحر وبر روشن
دیوانوں کا قحط نہیں ہے شکر کرو
صحرا اب بھی ہوتے ہیں اکثر روشن
***
تھے رابطے جہاں سے جنوں میں کمی بھی تھی
ان سب کے درمیان کہیں زندگی بھی تھی
ہم نے شب گناہ جلایا نہیں چراغ
اس کے بدن میں رنگ بھی تھاروشنی بھی تھی
اب جس پہ چند سوکھے ہوئے برگ ہیں جناب
پہلے یہ شاخ ربط وتعلق ہری بھی تھی
ہر آنکھ میں چمکتے ہوئے آرزو کے چاند
لیکن وہ رات درد میں ڈوبی ہوئی بھی تھی
دنیا سے ہم نہ تیری طرح عشق کرسکے
اس کا سبب مزاج بھی تھا شاعری بھی تھی
***
اک عدد ہم نے عشق فرمایا
اور پھر زیست کا مزا پایا
اپنا جھگڑا جہاں میں سب سے ہے
کیوں شماتت کرے نہ ہم سایا
نقد اشعار بے ضرر کے سوا
ہم نے رکھا نہ کوئی سرمایا
ہم غبی ہیں ہماری قدر کرو
ہوش مندو عجیب دور آیا
قوسیں اشعار میں بنائیں مگر
تیرے کولہے کوئی بنا پایا
اس نے ہم سے کہا کہ شعر کہو
یہ نہ سوچو کسے نہیں بھایا
کل کوئی احمق الذی شاید
مستند کردے سارا فرمایا
***
طناب خیمہ جاں ٹوٹنے ہی والی ہے
سو دشت شوق بھی خوش منظری سے خالی ہے
بچھڑنے والوں سے آباد ہے خرابۂ دل
اگرچہ بستی انھوں نے الگ بسالی ہے
رہوگے ٹھیک تو گل چہرے مل سکیں گے بہت
کسی کے ہجر میں یہ شکل کیا بنالی ہے
ہمیں کسی سے کبھی کوئی واسطہ کب تھا
ہمارے ذہن میں تصویر اک خیالی ہے
ذرا سی دیر میں سچ جھوٹ، جھوٹ سچ ہوجائے
یہی بجا ہے کہ دنیا بہت نرالی
تمام کوفہ و بغداد استعارے ہیں
منافقت میں تو یہ شہر بھی مثالی ہے
***
رونے نہیں دیتا ہے سسکنے نہیں دیتا
دریا کو کناروں سے چھلکنے نہیں دیتا
یہ کون مہذب مرے دل میں اتر آیا
گھبراؤں تو وہ گالیاں بکنے نہیں دیتا
وہ مجھ کو پلاتاہے مرے ظرف سے بڑھ کر
مستی میں جو آؤں تو بہکنے نہیں دیتا
یہ شب یہ ہوس مل کے اٹھائیں گے قیامت
کیوں اپنا بدن یار دمکنے نہیں دیتا
ہر شام کوئی مجھ سے چلاآتاہے ملنے
تنہائی کے پھولوں کومہکنے نہیں دیتا
وہ شعر کامیداں ہو کہ ہو عشق وسیاست
دشمن کو کسی جگہ چمکنے نہیں دیتا
***
آنکھ میں خواب بھی نہیں روح پہ قہر ہے کوئی
اب کے ہو ائے شہر میں اور ہی زہر ہے کوئی
وسعت ریگزار میں یوں ہی نہیں ہیں قافلے
سر میں کوئی جنون ہے آنکھ میں شہر ہے کوئی
عشق کی آبنائے کودیکھ کے فیصلہ کریں
کوئی وصال کا بھنور ہجر کی لہر ہے کوئی
میرے قدم کامنتظر میری طلب میں سرگراں
اور ہی آسمان ہے اور ہی دہر ہے کوئی
دشت ودیار خوب ہیں اہل وعیال خوب ہیں
یہ بھی مگر بتائیے قریۂ مہر ہے کوئی
***
دیکھ سکتا ہوں مگر عزم و ارادہ تو نہیں
میں تجھے کیسے ملوں کیسے پکڑپائے تو
تیری باہیں مرے دل جیسی کشادہ تو نہیں
میں توجیسا ہوں نظر آتاہوں سب کو ویسا
تو جو ہے شاہ نما، شاہ کازادہ تو نہیں
سب اس امید میں زندہ ہیں کہ پائندہ ہوں
صرف مجبوری ہے مرنے کا ارادہ تو نہیں
مجھ پہ احسان وستم دونوں برابر اس کے
میں نے جو کچھ بھی کہا ہے وہ زیادہ تو نہیں
شعر سب لکھتے ہیں در حاشیۂ گم شدگاں
پر شگفتِ گلِ بادام اعادہ تو نہیں
***
وقت اک دریا ہے، دریا سب بہالے جائے گا
ہم مگر تنکے ہیں، ہم تنکوں سے کیالے جائے گا
اک عجب آشوب ہے کیوں بستیوں میں جلوہ گر
کیا یہ ہر انسان سے خوفِ خدالے جائے گا
ہے تو خورشید حقیقت پر بڑا بے مہر ہے
دل سے جذبے آنکھ سے آنسو چرا لے جائے گا
بوریے پر بیٹھنے کالطف ہی کچھ اور ہے
شہر یارِ عصر اس تکیے سے کیا لے جائے گا
ہر گزر گاہِ تمنا پر بہت سی گرد ہے
لیکن اس کوایک ہی جھونکااڑالے جائے گا
عافیت کے دائروں میں یار سارے بند ہیں
کوئی موسم، کوئی طوفاں اس سے کیا لے جائے گا
***
ہم اہل دل ہیں نہ جانے کدھر چلے جائیں
ہمارا کیاہے کہ کس راہ پر چلے جائیں
اب ان پرندوں کے بارے میں کیا کہیں جن کے
اڑان بھرنے کی کوشش میں پر چلے جائیں
کچھ آنے والوں کی عبرت کوچھوڑ دیں منظر
ہم اب اداس نہ ہوں اور گھر چلے جائیں
تمام ہوگئی مجلس چراغِ چشم کے ساتھ
سو اب گھروں کو سبھی نوحہ گر چلے جائیں
ستارہ تاب بھی ہیں، خانماں خراب بھی ہیں
عذاب در بدری ہم کدھر چلے جائیں
جہاں سے سب کاگزر سرسری توہولیکن
برا بھی کیا ہے اگر دیکھ کر چلے جائیں
وہ رت نہ آئے کہ جس کی ہوا کے جھونکوں سے
ہر ایک شخص کے عیب وہنر چلے جائیں
***
سجے سجائے ہوئے سبز منظروں سے نہ جائیں
خدا کرے کہ یہ دریا کبھی گھروں سے نہ جائیں
بنامِ عشق وہوس کچھ نہ کچھ رہے روشن
کچھ ایسا ہو کہ یہ سودے کبھی سروں سے نہ جائیں
فضائے دشتِ طرب ناک کو دوام ملے
گلاب خوشبو سے اورتتلیاں پروں سے نہ جائیں
ضرورتوں کو زیادہ نہ کر خدائے کریم
نکل کے پاؤں بہت دور چادروں سے نہ جائیں
حروف و نطق کی ہر انجمن میں رونق ہو
خیال روٹھ کے ہر گز سخنوروں سے نہ جائیں
اسی طرح صفِ سیارگاں رہے قائم
نجوم وماہ الگ اپنے محوروں سے نہ جائیں
امیرِ عصر سے فریاد کرناچاہتے ہیں
سروں کوپھوڑنے یہ لوگ پتھروں سے نہ جائیں
***
میری نفرت بھی ہے شعروں میں مرے پیار کے ساتھ
میں نے لکھی ہے غزل جرات اظہار کے ساتھ
اقتدار ایک طرف ایک طرف درویشی
دونوں چیزیں نہیں رہ سکتی ہیں فنکار کے ساتھ
اک خلادل میں بہت دن سے مکیں ہے اب تو
یاد گزرا ہوا موسم بھی نہیں یار کے ساتھ
بادبانوں سے الجھتی ہے ہوا روز مگر
کشتیاں سوئی ہیں کس شان سے پتوار کے ساتھ
شہر میں جہل کی ارزانی ہے لیکن اب تک
میں ہی سمجھوتہ نہیں کرتا ہوں معیار کے ساتھ
میرے اشعار ہیں ناقد کے لیے کچھ بھی نہیں
درد کومیں نہیں لکھتا کبھی دشوار کے ساتھ
***
احباب گلاب سے بنے ہیں
ہم خاکِ خراب سے بنے ہیں
کچھ اہل کتاب بن کے آئے
کچھ لوگ کتاب سے بنے ہیں
قصبوں میں مکاں تھے جن کے بے ڈھب
شہروں میں حساب سے بنے ہیں
کچھ نقش و نگار لوحِ دل پر
اک شخص کے خواب سے بنے ہیں
اس شوخ کی بے شکن جبیں پر
کیا نقش جواب سے بنے ہیں
یہ پھول بدن یہ چاند چہرے
کیاموجِ شراب سے بنے ہیں
آنکھوں کی جگہ ہیں دوستارے
ہونٹوں پہ گلاب سے بنے ہیں
***
جس کو ہونا ہے وہ ان آنکھوں سے اوجھل ہوجائے
اس سے پہلے کہ مرا کام مکمل ہوجائے
میں تو بس دیکھتا رہتاہوں زمینوں کے کٹاؤ
آدمی سوچنے والا ہو توپاگل ہوجائے
کہیں ایسا نہ ہوویرانے ہوں پھر سے آباد
کہیں ایسا نہ ہو ہر شہر ہی جنگل ہوجائے
یہ زمیں جس پہ ہے گلزاروں کی تعداد بہت
یہ بھی ہوسکتا ہے کل کو وہی مقتل ہوجائے
ریگ زاروں سے بخارات ہی اٹھتے ہیں مگر
کون جانے کہ یہ گرمی کوئی بادل ہوجائے
میرا پندار ہی دیوار ہے ناکامی کی
یہ جو گرجائے تو ہر خواب مکمل ہوجائے
***
کسی ستارے کی آرزو میں کبھی ستارہ نہیں ملے گا
ہم ایک دریا کے دو کنارے کوئی کنارانہیں ملے گا
اداس موسم کے محرموں نے خزاں کے کانوں میں کہہ دیا ہے
کہ سبزہ وگل کوخاک کردے یہ دن دوبارہ نہیں ملے گا
سبھی کے مہتاب اپنے اپنے علاقہ ہجر میں ہیں روشن
کہیں تمہارا نہیں ملے گا کہیں ہمارا نہیں ملے گا
یہ خاکِ صحرا ہی گرد بن کر بلند ہوگی سروں کے اوپر
گھنے بنوں سے گزر توآئے ہو ابر پارہ نہیں ملے گا
شکستہ پایانِ مصلحت ہی بلندیوں تک پہنچ سکیں گے
جو اپنے پیروں پہ چل رہے ہیں انہیں سہارا نہیں ملے گا
عذاب دانش کی گٹھریوں نے سروں کومجروح کردیاہے
خدائے برتر، بتاکوئی، لمحۂ گوارہ نہیں ملے گا
***
مضموں یہ کنائے نہ اشارے کے لیے ہے
وہ شخص کسی اورستارے کے لیے ہے
کھلتاہوا گل آگ اگلتا ہوا موسم
عبرت کے لیے ہے کہ نظارے کے لیے ہے
خاشاک ہوس، عشق کے پھیلے ہوئے جنگل
ہر چیز مگر وقت کے دھارے کے لیے ہے
سوداگر اسبابِ جنوں گھر سے نکل کر
بازار میں آیا ہی خسارے کے لیے ہے
جب ہجر کی حدت سے جھلس جائیں دل وجاں
یہ درد کی دیوار سہارے کے لیے ہے
مواج سمندر میں ٹھہرتا نہیں کوئی
بے چین ہر اک شخص کنارے کے لیے ہے
***
کسی پردۂ غیب سے ظاہر ہو کوئی صورت ہجر کے جانے کی
کوئی ساعت سعد نوید تو دے پھر تیرے پلٹ کرآنے کی
مری باتیں سن کر کہتے ہیں احباب مرے اغیار مرے
یہ شخص ہے کون سی دنیا کایہ بات ہے کس کے زمانے کی
جو کچھ کہنا ہے کہہ پیارے مت خواب وخیال میں رہ پیارے
یہ لمحے کم کم آتے ہیں یہ رت بھی نہیں شرمانے کی
ہر سمت ہیں شعلوں کے ہالے کہتے ہیں مگر کچھ متوالے
کوئی رستہ اس تک جانے کا کوئی صورت آگ بجھانے کی
دو جملوں میں دروازۂ جاں سب بند کیے دیتے ہیں یہاں
باتیں تو سبھی کرتے ہیں میاں دیوارِ انا کو ڈھانے کی
میں وہ ضدی تھا جس کے لیے ہر کارِ زیاں تھا راحتِ جاں
ویسے تو مرے ہمدردوں نے کوشش کی بہت سمجھانے کی
کیا خرچ کروں کب خرچ کروں اس سوچ میں ڈوبا رہتاہوں
اللہ کادیا سب کچھ ہے میاں مجھے فکر نہیں ہے کمانے کی
***
شورش گریہ و فریاد سے خم ہوگئے کیوں
سارے محراب ومکیں نذر عدم ہوگئے کیوں
سبب غم سے تھے آگاہ نہ اہل غم سے
بھیڑ کو دیکھ کے ہم شامل غم ہوگئے کیوں
یہ سب آنسو تو زمینوں کے لیے تھے لیکن
لمس شبنم سے کئی پھول بھی نم ہوگئے کیوں
اہل دنیا بھی وہی اور یہ دنیا بھی وہی
صرف اس بزم سے کچھ سر پھرے کم ہوگئے کیوں
چاہتے ہم تھے کہ دیں ورثے میں اگلوں کو جنوں
سارے امکان مگر ہم میں ہی ضم ہوگئے کیوں
اب تو زنجیر تعلق کا خدا حافظ ہے
وحشتوں کے بہت اسباب بہم ہوگئے کیوں
***
نہ زمین میری حریف ہے نہ زمان میرے خلاف ہے
میں اک ایسا سچ ہوں جو تلخ ہے سو جہان میرے خلاف ہے
یہ عدالتوں کاہے معجزہ کہ گداگری کاشعورِ نو
سو مرے گواہِ عزیز ہی کابیان میرے خلاف ہے
اک اداس عہد کی حسرتیں اک عجیب دور کی حیرتیں
مرے دل میں کیسے سما گئیں مرادھیان میرے خلاف ہے
میں گداگروں کے دیار میں ہوں جو زندہ دفن مزار میں
مرا شوق میرا زوال ہے مرا گیان میرے خلاف ہے
میں زیاں کی رت کاچراغ تھا مگر عہد سود میں جل اٹھا
یہ سیاہ رات کا ہمنوا یہ جہان میرے خلاف ہے
***
تھا مکان دل کسی اور کا پہ رہا بسا کوئی دوسرا
میں کسی کے ہجر میں مضطرب مجھے چاہتا کوئی دوسرا
ترا رنگ سب سے جدا سہی تری شکل سب سے حسیں مگر
مرا مبتدا کوئی اور ہے مرا منتہا کوئی دوسرا
مرے لوگ گردوغبار میں ترے یار تیرے دیار میں
تو اسیرِ منزل شش جہت مرا راستہ کوئی دوسرا
میں ذرا سی بات پہ روٹھ کر تو نہیں گیا تری بزم سے
مرے مہرباں کبھی سوچتا تھا معاملہ کوئی دوسرا
یہی آسماں مرا آسرا یہی خاک خلعتِ بے بہا
مری جائیداد جنوں جسے نہیں بانٹتا کوئی دوسرا
***
فصیل قصر انا عشق نے گرادی کیا
شکست کھاگئی پھر قوتِ ارادی کیا
تمہارے شہر کی شب دن کو مات دیتی ہے
یہاں سبھی نے چراغوں کی لو بڑھادی کیا
نہ کوئی نعرۂ ہُو ہے کہیں نہ جام وسبو
اجاڑ دی گئی اب کے جنوں کی وادی کیا
جو معرکے میں نہ جائے وہ بادشاہ نہیں
جو عشق ہی نہ کرے پھر وہ شاہ زادی کیا
دیارِ درد میں تھا جس سے روشنی کا وجود
وہ آگ بارشِ حالات نے بجھادی کیا
نہ کوئی پھول، نہ چہرہ، نہ چاندنی، نہ چراغ
یہاں ہر ایک ہے بدصورتی کا عادی کیا
مسائلِ دل ودنیا پہ غور کرتے لوگ
ضرورتوں نے یہ زنجیر سی بنادی کیا
***
کوئی سفر نہ کریں بس گھروں میں رہ جائیں
اگر یہ عشق وہوس،بستروں میں رہ جائیں
ہٹے نہ کوئی ستارہ مدار سے اپنے
دعا یہی ہے کہ سب محوروں میں رہ جائیں
ہم آگ شہر کی ہر چیز کو لگادیں گے
اگر چراغ ہمارے گھروں میں رہ جائیں
جو لوگ آج نمایاں ہیں کل کہاں ہوں گے
ہمارا کیا ہے جو پس منظروں میں رہ جائیں
بدن سے روح کارشتہ توسخت مشکل ہے
بہت ہے دفن اگر مقبروں میں رہ جائیں
ورائے شعر بھی اک بات شعر میں آجائے
نہ استعاروں میں نے پیکروں میں رہ جائیں
***
ملال کس لیے یہ جشنِ شاد کامی کیا
بذاتِ خود ہے کوئی چیز بھی دوامی کیا
پرانے طاق میں رکھی کتاب سے پوچھو
بزرگ کیا تھے بزرگوں کی نیک نامی کیا
یہ آب وگل کابدن ریزہ ریزہ ہوناہے
سو خاکدانِ جہاں میں بلند بامی کیا
بس ایک ضرب فنا، اس کے بعد سناٹا
صباخرامیاں کیا اور تیز گامی کیا
یہ خود فریب صدی جن میں زندہ ہوں میں بھی
یہاں چراغ کی ضو کیا سیاہ فامی کیا
عدو کے سامنے سارا قبیلہ چپ کیوں ہے
سبھی نے ڈال لیا حلقہ غلامی کیا
تمام شہر پہنتا ہے مصلحت کی زرہ
یہاں کرے مرا اندازِ بے نیامی کیا
***
خوبیوں پر دوستوں کی خاک ڈال آتا ہے کیوں
اے دلِ وحشی تجھے بس یہ کمال آتا ہے کیوں
کون لے جاتاہے آنکھوں سے نظاروں کاجمال
بیٹھے بیٹھے ترکِ دنیا کاخیال آتا ہے کیوں
کس لیے خورشید صورت لوگ ہوجاتے ہیں خاک
دفعتاً ہر خواب کے شیشے میں بال آتاہے کیوں
کیا یہاں زنجیر کے حلقوں کی صورت ہیں سبھی
ہجر لوگوں پر برنگِ ماہ وسال آتا ہے کیوں
کیادیارِ درد کی گلیوں میں اب رونق نہیں
جو بھی آتاہے وہاں سے وہ نڈھال آتا ہے کیوں
***
جس کے ہم اہل نہ تھے اب کے تو وہ بات ہوئی
لیلۃ القدر میں لیلیٰ سے ملاقات ہوئی
اختتامِ سفر شوق پہ کیوں سوچاجائے
شام کس دشت میں آئی تھی کہاں رات ہوئی
زندہ رہنے کے بہانے تھے بہت دنیا میں
آب ودانے کے بنا بھی گزر اوقات ہوئی
دل سمندر میں بھنور آج زیادہ کیوں ہیں
کس جزیرے کو رواں کشتی جذبات ہوئی
زندگی بھر رہے اس شخص سے باتیں کرتے
جس سے دوچار ہی لمحوں کو ملاقات ہوئی
ملتفت ہم پہ ہوا تو جو خوشامد کے بعد
یہ تو اے دوست، عنایت نہیں خیرات ہوئی
***
دلوں پر خوف بھی طاری بہت ہے
مگر جنگوں کی تیاری بہت ہے
خرد کی بستیوں کے پھونکنے کو
جنوں کی ایک چنگاری بہت ہے
سبھی زد میں ہیں دشت و کوہ وانساں
یہ ضربِ وقت ہے کاری بہت ہے
پرانا خشک پتہ کہہ رہا تھا
ہوا میں تیز رفتاری بہت ہے
ہم اپنے دل کی دنیا دیکھتے ہیں
ہمیں یہ شغل بیکاری بہت ہے
چلے ہو اس سے ملنے پر یہ سن لو
اسے شوقِ دل آزاری بہت ہے
نہیں ہے ساتھ رہنا گرچہ آساں
بچھڑنے میں بھی دشواری بہت ہے
***
دشتِ ہوس میں پیکِ فنا آنے والا ہے
ان بستیوں پہ قہر خدا آنے والا ہے
شہزاد گانِ عشق و ہوس کو خبر کرو
شہر طلسم ہوشربا آنے والا ہے
گمگشتگی کے دشت میں رہنا ہے عمر بھر
یا کوئی خضرِ سبز قبا آنے والا ہے
رنگت عجیب دشت کے سارے گلوں کی ہے
کیا کوئی انقلاب نیا آنے والا ہے
ہم تم تو رفتگاں کے مقابر کے پیرہن
آیندگاں پہ وقت برا آنے والا ہے
یہ خوش دلی یہ عشق وصداقت ہے چند روز
عہد طویل حرص وہوا آنے والا ہے
دجال عصر آئے گا یا مہدی زماں
کیا جانیے کہ غیب سے کیاآنے والا ہے
***
تھی کبھی اپنی جگہ مسندِ شاہی کے قریب
دوسرے لوگ ہیں اب ظل الہی کے قریب
اب زمانے سے تعلق مرا یوں ہے جیسے
تیغ ٹوٹی ہوئی مجروح سپاہی کے قریب
میں تو سچ کہنے عدالت میں چلا آیا تھا
لرزہ مرگ سا طاری ہے گواہی کے قریب
یہ تو ہر دور میں ہوتاہے سو اب بھی ہوگا
لوگ حاکم سے خفا شہر تباہی کے قریب
یہ فقط رسم ہے یا اور کوئی قصہ ہے
خار کیوں رکھتے ہیں سب آبلہ پا ہی کے قریب
***
دیارِ دل کا سفر نا تمام رہ گیا ہے
ستارہ بجھ کے سرِ بام شام رہ گیاہے
بیاض عشق کو کِرمِ فنا نے چاٹ لیا
ورق ورق پہ مگر ایک نام رہ گیاہے
بجز فراغ ہے کیاآدمی کی آسانی
مگر ہمیں توابھی کتناکام رہ گیا ہے
سفالِ وقت میں آمیزشِ کدورت ہے
ہمارے پاس فقط دل کاجام رہ گیاہے
نمازِ شوق میںآتاہے یاد یہ کس کو
کہاں رکوع و سجود و قیام رہ گیاہے
غزل تو سب نے لکھی ہے مگر وہ شاعر ہے
کہ جس کے بعد بھی اس کاکلام رہ گیاہے
***
شب کو شراب پیجئے دن میں کتاب دیکھئے
غالب خستہ کی طرح جاگ کے خواب دیکھئے
سوچئے زندگی ہے کیا اور یہ سوچتے ہوئے
لوح تصورات پر لاکھوں جواب دیکھئے
باغ میں پھول ہیں مگر ان کی نمو ہے عارضی
خوف خزاں سے ماورا دل کا گلاب دیکھئے
کتنے جہان دار تھے کتنے کمان دار تھے
یعنی کتاب وقت میں عشق کا باب دیکھئے
اب تو ہر ایک ملک میں ان کے ہیں گھر بسے ہوئے
لائے ہیں انقلاب کیا خانہ خراب دیکھئے
عشق وہوس کا فیصلہ اور کسی پہ چھوڑ ئے
چہرۂ زرد دیکھئے چشم پُرآب دیکھئے
***
شفق کے خون سے دریا سہانے ہوتے جاتے ہیں
مری مجبوریاں ان کے بہانے ہوتے جاتے ہیں
مری سانسوں کے سارے چاند تارے بجھ گئے جاناں
ترے ہونٹوں کے سب بوسے پرانے ہوتے جاتے ہیں
اداسی داستانوں کی طلسمی شاہزادی ہے
جدھر جاتی ہے سب اس کے دیوانے ہوتے جاتے ہیں
ہوائیں طائروں کی ہجرتوں پہ بین کرتی ہیں
جدا پیڑوں سے پھر بھی آشیانے ہوتے جاتے ہیں
***
اگر خاکے تمنا کے مکمل ہوگئے ہوتے
ذرا سی دیر میں سب مسئلے حل ہوگئے ہوتے
کبھی دل چاہتا ہے جنگلوں میں بستیاں ہوتیں
کبھی دل چاہتا ہے شہر جنگل ہوگئے ہوتے
بہت خوش ہیں دِوانے بادلوں کی ہوشیاری پر
برس جاتے تو ویرانے بھی جل تھل ہوگئے ہوتے
اجالے بس ترے چہرے کی شادابی تلے رہتے
اندھیرے بس تری آنکھوں کا کاجل ہوگئے ہوتے
فضائے دشت میں کتنا سکوں ہے ایک مدت سے
ہمارے بعد بھی کچھ لوگ پاگل ہوگئے ہوتے
***
ہاتھ باندھے ہوئے الفاظ کھڑے رہتے ہیں
اورمضمون تو چوکھٹ پہ پڑے رہتے ہیں
کھڑکیاں ہیں نہ دریچے نہ ہواؤں کاگزر
ان مکانوں میں مگر لوگ بڑے رہتے ہیں
اک تعلق ہے کسی درد کا دل کے ہمراہ
جیسے زیور میں نگینے بھی جڑے رہتے ہیں
کیاجری لوگ ہیں احباب میں شامل اپنے
جو نہ کرپائیں وہ کرنے پہ اڑے رہتے ہیں
اک سفر ہے کہ کبھی ختم نہ ہوگا شاید
اپنی آنکھوں میں سدا کوس کڑے رہتے ہیں
اپنا کیا ہے کہ فقط رقص انا دیکھنے کو
ہم ہر اک صاحب منصب سے لڑے رہتے ہیں
اپنے حجرے سے فقیری کی سند لینے کو
آج بھی صاحب اعزاز کھڑے رہتے ہیں
***
صبح کے نیزے پر سورج کاسرروشن
ایک دئیے کی چیخ سے سارا گھر روشن
ایک تھکی دوپہر بدن کا سرمایہ
ایک فسردہ شام سے یاد نگر روشن
صحرا میں کچھ دھول کی لہریں رقص کناں
بستی میں کچھ ننھے منے گھر روشن
وادی میں اک گہری لمبی تاریکی
کہساروں پر کچھ دشمن لشکر روشن
ایک دھنک ہر منظر نامے کاحصہ
ایک چمک سے سارے بحر وبر روشن
دیوانوں کا قحط نہیں ہے شکر کرو
صحرا اب بھی ہوتے ہیں اکثر روشن
***
تھے رابطے جہاں سے جنوں میں کمی بھی تھی
ان سب کے درمیان کہیں زندگی بھی تھی
ہم نے شب گناہ جلایا نہیں چراغ
اس کے بدن میں رنگ بھی تھاروشنی بھی تھی
اب جس پہ چند سوکھے ہوئے برگ ہیں جناب
پہلے یہ شاخ ربط وتعلق ہری بھی تھی
ہر آنکھ میں چمکتے ہوئے آرزو کے چاند
لیکن وہ رات درد میں ڈوبی ہوئی بھی تھی
دنیا سے ہم نہ تیری طرح عشق کرسکے
اس کا سبب مزاج بھی تھا شاعری بھی تھی
***
اک عدد ہم نے عشق فرمایا
اور پھر زیست کا مزا پایا
اپنا جھگڑا جہاں میں سب سے ہے
کیوں شماتت کرے نہ ہم سایا
نقد اشعار بے ضرر کے سوا
ہم نے رکھا نہ کوئی سرمایا
ہم غبی ہیں ہماری قدر کرو
ہوش مندو عجیب دور آیا
قوسیں اشعار میں بنائیں مگر
تیرے کولہے کوئی بنا پایا
اس نے ہم سے کہا کہ شعر کہو
یہ نہ سوچو کسے نہیں بھایا
کل کوئی احمق الذی شاید
مستند کردے سارا فرمایا
***
طناب خیمہ جاں ٹوٹنے ہی والی ہے
سو دشت شوق بھی خوش منظری سے خالی ہے
بچھڑنے والوں سے آباد ہے خرابۂ دل
اگرچہ بستی انھوں نے الگ بسالی ہے
رہوگے ٹھیک تو گل چہرے مل سکیں گے بہت
کسی کے ہجر میں یہ شکل کیا بنالی ہے
ہمیں کسی سے کبھی کوئی واسطہ کب تھا
ہمارے ذہن میں تصویر اک خیالی ہے
ذرا سی دیر میں سچ جھوٹ، جھوٹ سچ ہوجائے
یہی بجا ہے کہ دنیا بہت نرالی
تمام کوفہ و بغداد استعارے ہیں
منافقت میں تو یہ شہر بھی مثالی ہے
***
رونے نہیں دیتا ہے سسکنے نہیں دیتا
دریا کو کناروں سے چھلکنے نہیں دیتا
یہ کون مہذب مرے دل میں اتر آیا
گھبراؤں تو وہ گالیاں بکنے نہیں دیتا
وہ مجھ کو پلاتاہے مرے ظرف سے بڑھ کر
مستی میں جو آؤں تو بہکنے نہیں دیتا
یہ شب یہ ہوس مل کے اٹھائیں گے قیامت
کیوں اپنا بدن یار دمکنے نہیں دیتا
ہر شام کوئی مجھ سے چلاآتاہے ملنے
تنہائی کے پھولوں کومہکنے نہیں دیتا
وہ شعر کامیداں ہو کہ ہو عشق وسیاست
دشمن کو کسی جگہ چمکنے نہیں دیتا
***
آنکھ میں خواب بھی نہیں روح پہ قہر ہے کوئی
اب کے ہو ائے شہر میں اور ہی زہر ہے کوئی
وسعت ریگزار میں یوں ہی نہیں ہیں قافلے
سر میں کوئی جنون ہے آنکھ میں شہر ہے کوئی
عشق کی آبنائے کودیکھ کے فیصلہ کریں
کوئی وصال کا بھنور ہجر کی لہر ہے کوئی
میرے قدم کامنتظر میری طلب میں سرگراں
اور ہی آسمان ہے اور ہی دہر ہے کوئی
دشت ودیار خوب ہیں اہل وعیال خوب ہیں
یہ بھی مگر بتائیے قریۂ مہر ہے کوئی
***
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں