اوپر میں نے عرض کیا ہے کہ انسانی رشتوں کے تعلق سے میر ہمارے سب سے بڑے شاعر ہیں۔ انسانی رشتوں کا یہ اظہار ان کی جنسیت میں بھی ہوا ہے۔ اور ان کی حس مزاح میں بھی ۔ حس مزاح کا عنصر غالب اور میر دونوں میں مشترک ہے۔ لیکن غالب اپنے مزاح کا ہدف زیادہ تر خود اپنے کو ہی بناتے ہیں، جب کہ میر کی حس مزاح معشوق کو بھی نہیں بخشتی۔ میر کو جب موقع ملتا ہے وہ معشوق سے پھکڑپن بھی کر گذرتے ہیں۔ وہ زور زور سے قہقہہ لگانے سے گریز نہیں کرتے، جب کہ غالب کے یہاں عام طور پر تبسم زیر لب کی کیفیت ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ غالب کو اپنی پوزیشن اور اپنے وقار کا احساس میر سے بڑھ کر ہے۔ لیکن بنیادی بات وہی ہے کہ غالب کا مزاج تصوراتی زیادہ ہے۔ اسی بنا پر ان کے یہاں انسانی رشتوں کا تذکرہ بھی تصوراتی اور رسومیاتی سطح پر ہے۔ بہت بھونڈے لفظوں میں کہا جا سکتا ہے کہ میر تو ہر ایک سے بات کر لیتے ہیں، لیکن غالب کی گفتگو زیادہ تر اپنے ہی سے ہوتی ہے
ہے آدمی بجائے خود اک محشر خیال
ہم انجمن سمجھتے ہیں خلوت ہی کیوں نہ ہو
لیکن اس سے بھی آگے بڑھ کر وہ کہتے ہیں
کوئی آگاہ نہیں باطن یک دیگر سے
ہے ہر اک فرد جہاں میں ورق ناخواندہ
اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ غالب کے یہاں جنسی تعلقات کا بیان بہت کم ہے۔ کم نقادوں نے اس بات پر غور کیا ہے کہ غالب کے یہاں جنسیت اس وجہ سے کم نہیں ہے کہ وہ میر کی بہ نسبت زیادہ ’’مہذب‘‘ یا نفیس طبع‘‘ یعنیsophisticatedتھے۔ جنس بہر حال انسانی تعلقات کی سب سے زیادہ اختلاطی صورت اور منزل ہے۔غالب کو انسانی تعلقات سے چنداں دلچسپی نہ تھی، اس لیے انھیں جنس کے معاملات سے بھی وہ لگاؤ نہ تھا، ورنہ نام نہاد نفاست تو مومن کے یہاں بھی بہت ہے، لیکن ان کے یہاں جنس کی کارفرمائی بھی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ بصری تخیل سے محروم ہونے کی وجہ سے مومن کا جنسی اظہار بہت پھیکا ہے۔ ان کے بر خلاف میر کے یہاں بصری تخیل کی فردانی ہے۔ ہماری شاعری میں جنسی مضامین کے لیے بصری تخیل بہت موثرکردار ادا کرتا ہے۔ علاوہ بریں، معاملہ بند شاعر کو بصری تخیل بہت زیادہ درکار بھی نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر، جرأت کے یہاں جنسی مضامین خاصی تعداد میں ہیں، لیکن وہ زیادہ تر معاملہ بندی پر مبنی ہیں ( جیسا کہ آگے مثالوں سے واضح ہوگا۔) لہٰذا جرأت کا کام بصری تخیل کے بغیر چل جاتا ہے۔ عسکری صاحب نے غلط نہیں کہا ہے کہ جرأت دراصل بیانیہ انداز کے شاعر ہیں۔ بیانیہ انداز میں جنسی مضامین کا برتنا آسان ہوتا ہے، کیوں کہ اس میں اپنی اور معشوق کی باتیں اور حرکتیں بیان ہوتی ہیں، خود معشوق کا بیان نہیں ہوتا۔ نواب مرزا شوق اور میر حسن دونوں کے یہاں جنسی مضامین اسی وقت چمکتے ہیں جب معاملہ بندی ہو۔ مومن کی مثنویاں اور غزلیں اس اصول کی عمدہ مثال ہیں۔ غزل میں جنسی بیان کے وقت بھی مومن مضمون آفرینی میں اس قدر مصروف ہو جاتے ہیں کہ جنس کا جذباتی اور لذت آفریں پہلو پس پشت جا پڑتا ہے۔ اور یہی مومن مثنوی میں بہت واضح اور پر اثر طورپر جنسی مضامین کو استعمال کرتے ہیں۔
میر نے جرأت کے بارے میں بقول محمد حسین آزاد اور قدرت اللہ قاسم، ’’چوماچاٹی۱‘‘ کا فقرہ کہا تھا۔ اس فقرے سے دو نتیجے نکالے گئے ہیں، اور دونوں ہی ہماری تنقید میں بہت مقبول و موثر رہے ہیں۔ پہلا نتیجہ تو یہ کہ جرأت کے یہاں جنسی مضامین کی غیر معمولی کثرت ہے، اور دوسرا نتیجہ یہ کہ میر کے یہاں ایسے مضامین بہت کم ہیں۔ میر کا کلام تو لوگوں نے پڑھا نہیں، اس مبینہ قول کی روشنی میں یہ نتیجہ ضرور نکالا کہ اگر میر نے جرأت کی شاعری میں جنسی مضامین کی کثرت دیکھ کر اس کو ’’چوما چاٹی۱‘‘ قرار دیا تو لازم ہے کہ میر نے خود اپنے یہاں اس طرح کے مضامین نہ برتے ہوں گے جن پر ’’چوما چاٹی‘‘ کا الزام لگ سکے۔
اردو تنقید میں مروج تاثراتی فیصلوں کی طرح یہ دونوں فیصلے بھی غلط ہیں۔ نہ تو جرأت کے یہاں جنسی مضامین کی بہتات ہے، اور نہ میر کے یہاں ان کا فقدان۔ اب یہ اور بات ہے کہ بعض لوگ میر کے بارے میں اس درجہ ’’خوش فہمی‘‘ میں مبتلا ہیں کہ ان کو مبتلاے ہر رنج و الم کے ساتھ بالکل ’’معصوم‘‘ اور ’’بھولا بھالا‘‘ اور دل خستہ لیکن عشق کی ’’گندی‘‘ باتوں سے بے خبر کوئی نو عمر صاحبزادہ سمجھتے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ تقریباً تمام چیزوں کی طرح عشقیہ، جنسی اور شہوانیاتی (erotic) مضامین کو بھی میر نے کثرت سے اور بڑی خوبی سے برتا ہے۔ میر نے جرأت کو چوما چاٹی کا شاعر اس لیے نہیں کہا تھا کہ جرأت کے کلام میں جنسی مضامین کی کثرت ہے۔ میر کا اعتراض دراصل یہ تھا کہ جرأت کے یہاں عشق کی گہرائی اور کش مکش نہیں ہے، صرف معاملہ بندی والے جنسی مضامین ہیں۔ عسکری صاحب نے اس نکتے کو پوری وضاحت سے بیان کیا ہے۔ ان کے چند اقتباسات ملاحظہ ہوں: ’’جرأت شاعر سے زیادہ واقعہ نگار ہیں... جرأت کے یہاں کتنے ہی شعر ایسے ملیں گے جو حقیقت نگاری کی وجہ سے پھس پھسے بن کے رہ گئے ہیں۔‘‘ عسکری صاحب کے مطابق جرأت ’’اپنے عشق کو عام طور پر معاشقے کی سطح سے اونچا نہیں اٹھنے دیتے... میر کے یہاں وہ زبان ملے گی جو وسیع ترین انسانی تعلقات کے داخلی پہلو کی نمائندگی کرتی ہے۔ جرأت کے یہاں وہ زبان ہے جو خارجی حرکات کے بیان میں کام آتی ہے... نہ تو ان کے اندر کش مکش پیدا ہوتی ہے، جو حالی کے یہاں ہے، نہ وہ تضاد اور کھینچا تانی جو میر میں ہے۔ میر کے درد کا سبب یہ الجھن ہے کہ آخر عشق بہ یک وقت رحمت اور عذاب کیوں ہے؟‘‘ عسکری صاحب کا آخری نکتہ یہ ہے کہ چونکہ ’’جرأت کا عشق روح کی پکار سے زیادہ جسم کی پکار ہے، اور یہ شخصیت کے باقی حصوں کو متاثر نہیں کرتا، اس لیے ان کے یہاں لگاؤ کے ایک ہی معنی ہیں: یعنی لگاؤ کا خارجی اظہار۔‘‘ لہٰذا میر دراصل اس بات سے ناخوش تھے کہ جرأت کے یہاں معاشقہ نگاری اور سطحی جذباتی تلاطم کیوں ہے، وہ ’’تضاد اور کھینچا تانی‘‘ کیوں نہیں کہ انسانی تعالقات کی آویزش بھی ہو، اپنے دکھ کی کہانی سنانے کا ولولہ ہو، لیکن ان کا مطالعہ کرنے، اپنی معنویت دوسروں پر واضح کرنے، اور دوسرے کی معنویت اپنے اوپر واضح کرنے کا شوق ہو۔
عسکری صاحب کی بنیادی بات بالکل صحیح ہے۔ لیکن انھوں نے جرأت کے ساتھ تھوڑی سی زیادتی یہ کردی ہے کہ جرأت کے یہاں جو محزونی ہے اس کو نظر انداز کر کے انھوں نے صرف معاملہ بندی کو لے لیا ہے، اور تاثریہ دیا ہے کہ جرأت کا کلیات جنسی مضامین سے لبالب ہے۔ پھر، انھوں نے اس بات کو بھی نظرانداز کر دیا ہے کہ معاملہ بندی ہماری غزل میں بہت بڑا انسان ساز (humanizing) عنصر ہے، یعنی وہ معشوق کو انسان کی سطح پر لے آتا ہے، اور اس لیے جنسی مضامین کے لیے یہ بہت اہم اور بنیادی اسلوب کا حکم رکھتا ہے۔ یہ بات اور ہے کہ جرأت کے یہاں میر کی طرح کا بصری تخیل نہ تھا، لہٰذا وہ مومن (اور خود مثنوی’’معاملات عشق‘‘ کے میر) کی طرح محض معاملہ بندی تک رہ گئے۔ میر کی بڑائی اس بات میں ہے کہ وہ دیکھتے اور دکھاتے بہت ہیں، بیان کم کرتے ہیں (جنسی مضامین کی حد تک۔) ان کی دوسری بڑائی یہ ہے کہ وہ جنسی مضامین کو مضمون آفرینی کے لیے نہیں استعمال کرتے، بلکہ ان کا جنسی پہلو مقدم رکھتے ہیں۔ اس لےئے ان کے یہاں وہ بے لطفی (یعنی جنسی مضمون کی حد تک بے لطفی) نہیں آنے پاتی جو ناسخ اور مومن اور لکھنؤ کے اکثرشعرا کے یہاں ملتی ہے۔ تیسری بات یہ کہ میر کے یہاں جنسی مضامین میں بھی خوش طبعی اور طباعی یعنی wit اور اپنے اوپر ہنسنے کا انداز مل جاتا ہے۔ پہلی صفت میر اور مصحفی میں مشترک ہے، باقی میں کوئی ان کا شریک نہیں۔
اس سے پہلے کہ میں بات کو آگے بڑھاؤں، اور مثالوں کی مدد سے اسے مزید واضح کروں، ’’جنسی مضامین‘‘ کی اصطلاح کی وضاحت ضروری ہے۔ میں ’’عریانی‘‘ کا لفظ دو وجہوں سے نہیں استعمال کر رہا ہوں۔ ایک تو یہ کہ جنسی مضامین کے لیے عریانی شرط لازم نہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے ’’عریانی‘‘ میں خواہ مخواہ اخلاقی فیصلے کا رنگ نمایاں ہے، اور میں جنسی مضامین کے خلاف اخلاقی فیصلے کا قائل نہیں۔ ممکن ہے بعض لوگوں کا خیال ہو کہ جو شاعری بہو بیٹیوں کے سامنے نہ پڑھی جا سکے اسے عریاں، مخرب اخلاق اور مذموم کہا ہی جائے گا، چاہے آپ اسے ’’عریاں‘‘ کہیں یا ’’جنسی مضامین‘‘ پر مبنی کہیں۔ ایسے لوگوں سے میرا کوئی جھگڑا نہیں۔ وہ اپنی اپنی بہو بیٹیوں کو میر کی شاعری سے محفوظ رکھیں، بڑی خوشی سے۔ ادب کے طالب علم کی حیثیت سے میں ادبی حسن کا جویا ہوں، اخلاقی تعلیم کا نہیں۔ اور نہ میں ٹیری ایگلٹن (Terry Eagleton) کی طرح اس جھگڑے میں پڑنا چاہتا ہوں کہ فن پارے کی تشریح کے بجائے اس کی وجہ بیان کی جائے، کہ فلاں فلاں پیداواری رشتوں کے باعث اور سماج کے superstructure میں فلاں فلاں استحصالی رویوں کے باعث شاعر مجبور تھا کہ اس طرح کی شاعری لکھے۔ یعنی شاعر وہی لکھتا ہے جو سماج کے حاکم پیداواری و سائل پر اپنا تسلط جمائے رکھنے کی خاطر اس سے لکھواتے ہیں۔ میں تو صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ساری غزل کی اساس جنسی احساس پر ہے، لہٰذا یہ فطری ہے کہ اس میں جنسی مضامین بھی نظم ہوں۔ میں ایسے مضامین کو عریاں، مبتذل، ہو سنا کی پر مبنی، وغیرہ کچھ نہیں کہتا، بلکہ انھیں غزل کے مزاج کا خاصہ سمجھتا ہوں۔ اور ان کا مطالعہ ادبی نقطۂ نظر سے کرتا ہوں۔ اگر وہ حسن کے ساتھ بیان ہوئے ہیں تو یہ شاعر کی کامیابی ہے۔ اگر نہیں، تو یہ شاعر کی ناکامی ہے۔
غزل میں جنسی مضامین کا مطالعہ الگ سے کرنے کی ضرورت اس وجہ سے ہے کہ ہماری غزل کا معشوق بوجوہ اکثر بہت مبہم اور عینی (idealized) اور ناانسانی (dehumanized) معلوم ہوتا ہے۔ یعنی اس کے معشوقانہ صفات عام طور پر بہت بڑھا چڑھا کر بیان کئے جاتے ہیں، اس لیے اس میں انسان پن بہت کم نظر آتا ہے اور اس باعث حالی کی طرح کے اخلاقی نقادوں اور ممتاز حسین یا کلیم الدین کی طرح غزل کی رسومیات سے بے خبرنقادوں کو شکایت کا موقع ہاتھ آتا ہے۔ جنسی مضامین کے ذریعہ غزل کا معشوق انسانی سطح پر اتارا جا سکتا ہے۔ لہٰذا بطور صنف سخن غزل کو مکمل اور وسیع بنانے میں ان مضامین کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔
جنسی مضامین سے میری مراد دو طرح کے مضامین ہیں۔ ایک تو وہ جن میں معشوق کے بدن، یا بدن کے کسی حصے، یا لباس وغیرہ کا تذکرہ انسانی سطح پر اور لطف اندوزی کے انداز میں ہو، یعنی اس طرح ہو کہ یہ بات صاف معلوم ہو کہ کسی انسان کی بات ہو رہی ہے، کسی مثالی، تصوراتی اور تجریدی ہستی کی نہیں۔ دوسری طرح کے مضامین وہ ہیں جن میں جنسی و صل کے معاملات کا ذکر ہو۔ اس صورت میں یہ مضامین معاملہ بندی کی ضمن میں آتے ہیں۔ ممکن ہے میر نے انھیں ہی ’’ادا بندی‘‘ کہا ہو۔ ظاہر ہے کہ بعض اوقات دونوں طرح کے مضامین ایک ہی شعر میں آجاتے ہیں۔ یہ بات بھی واضح رہے کہ جنسی مضامین اور معنی آفرینی، کیفیت اور مضمون آفرینی میں کوئی تضاد نہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اگر معنی آفرینی یا مضمون آفرینی پر اس قدر زور دیا جائے کہ مضمون کی جنسیت پس پشت رہ جائے تو اس حد تک وہ شعر ناکام یا نا مکمل کہلائے گا۔ یعنی اگر ہم معشوق کے حسن سے زیادہ شاعر کی تیز طبعی سے لطف اندوز ہونے پر مجبور ہوں، تو ایسا شعر اچھا تو کہلائے گا، لیکن اسے جنسی مضمون کے اعتبار سے ناکام کہا جائے گا۔
میر کی سب سے بڑی صفت یہ ہے کہ وہ جنسی مضامین میں بھی معنی آفرینی اور مضمون آفرینی کو برتتے ہیں، لیکن اس طریق کار کے باوجود میر کے یہاں جنسی مضمون دبتا نہیں، بلکہ اور چمک اٹھتا ہے۔ مومن اور ناسخ ان مضامین کو برتنے میں معاملہ بندی سے گریز کرتے ہیں (ممکن ہے وہ بھی اسے چوما چاٹی سمجھتے ہوں۔ مومن کے یہاں معاملہ بندی کثرت سے ہے، لیکن جنسی مضامین پر بنی نہیں ہے۔ ناسخ کے یہاں معاملہ بندی بالکل نہیں ہے۔) لیکن مومن اور ناسخ مضمون آفرینی کو مقدم کرنے کے چکر میں مضمون کی جنسیت سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ مثلاً مومن کو ہم بستری کا مضمون پسند ہے
مجمع بستر مخمل شب غم یا د آیا
طالع خفتہ کا کیا خواب پریشاں ہوگا
کب ہمارے ساتھ سوتے ہیں کہ دیکھے گا کوئی
ان کو بے تابی ہے کیوں اس خواب بے تعبیر سے
ساتھ سونا غیر کے چھوڑ اب تو اے سیمیں بدن
خاک میری ہو گئی نایاب تر اکسیر سے
بوے گل کااے نسیم صبح اب کس کو دماغ
ساتھ سویا ہے ہمارے وہ سمن بر رات کو
ظاہر ہے کہ ان شعروں میں کوئی جنسی لطف نہیں، کیوں کہ سارا زور مضمون بنانے میں صرف ہوا ہے۔ پہلے شعر میں کہا ہے کہ شب غم ہمیں بستر مخمل پر معشوق کے ساتھ سونا یاد آ گیا۔ ظاہر ہے کہ اب نیند کہاں؟ پھر طالع خفتہ کی نیند تو پریشاں ہوگی نہیں۔ یعنی تقدیر جاگے تو ہم سوئیں۔ دوسرے شعر میں معشوق کی پریشانی کا ذکر ہے کہ اس نے خواب میں دیکھا کہ میں مومن کے ساتھ سو رہا ہوں ہوں۔ مومن اسے تسلی دیتے ہیں کہ اس خواب کی تعبیر تو کوئی ہے نہیں۔ نہ تم ہمارے ساتھ کبھی سوؤ گے اور نہ کوئی کبھی دیکھے گا۔ اس لیے بدنامی سے ڈرتے کیوں ہو؟ تیسرے شعر میں معشوق کو سیمیں بدن کہہ کر اور اپنی خاک کو اکسیر سے زیادہ نایاب کہا، اور یہ مضمون پیدا کیا کہ اب تو تم، جو چاندی سے بدن والے ہو، غیروں کے ساتھ سونا چھوڑ دو۔ تمھارے غم میں میری خاک گھس گھس کر اکسیر سے بھی زیادہ قیمتی ہو گئی ہے، گویا اب تو میں قدر کے لائق ہوا۔ آخری شعر میں معشوق کی سمن بری سے فائدہ اٹھا کر کہا ہے کہ اب ہمیں گلاب کی خوشبو سے کیا لینا دینا، ہمارا بدن اس سمن بر سے ہم بستر کے باعث خود ہی معطر ہے۔ پہلے اور دوسرے شعر میں خیال اس قدر باریک ہے اور اس قدر کم لفظوں میں بیان ہوا ہے کہ خیال کی باریکی اور نزاکت نے بیان کے حسن کو مجروح کر دیا ہے، اور چاروں شعروں میں مضمون آفرینی کی کثرت کے باعث جنسی مضمون (جو بنیادی مضمون ہے) پس منظر میں چلا گیا ہے۔
ناسخ اور ان کے بعض شعراے مابعد نے بھی مضمون آفرینی اور طباعی اختیار کی، بلکہ بعض اوقات تو یہ خیال ہوتا ہے کہ جنسی مضامین ان لوگوں کے مقصود ہی نہیں۔ ناسخ کی خوبی یہ ہے کہ وہ استعاراتی یا اصطلاحی لفظ کو لغوی معنون میں استعمال کر کے نئی طرح کا استعارہ پیدا کر دیتے ہیں۔ اصل جنسی مضمون بالکل غیر اہم ہو جاتا ہے۔ اس کی مثال ان کا یہ لاجواب شعر ہے (مجھے خوشی ہے کہ رشید حسن خاں نے اسے اپنے انتخاب میں شامل رکھا ہے)
دانے ہیں انگیا کی چڑیا کو بنت کی چنیاں
پلتی ہے بالے کی مچھلی موتیوں کی آب میں
طبا طبائی نے (غالباً) ناسخ کے کسی شاگرد کا ایک شعر نقل کیا ہے
انگیا کے ستارے ٹوٹتے ہیں
پستاں کے انار چھوٹتے ہیں
اس طرح کے اشعار میں طباعی ہے۔ ان کی مضمون آفرینی بھی ان کی طباعی کے سامنے ماند پڑ گئی ہے۔ لیکن ان میں جنسی مضمون بہت پھیکارہ گیا ہے۔ ناسخ کا عام انداز یہی ہے
میں ہوں عاشق انار پستاں کا
نہ ہوں مرقد پہ جز انار درخت
تونے مگدر ہلائے کیوں نہ کریں
باغ عالم میں افتخار درخت
وصل کی شب پلنگ کے اوپر
مثل چیتے کے وہ مچلتے ہیں
ناسخ جب مضمون آفرینی ترک کر کے بیانیہ انداز میں آتے ہیں تو ان کے شعر کا لطف بالکل غائب ہو جاتا ہے
جی میں ہے سر میں رکھ کے سو جاؤں
تکیہ مخمل کا ہے تمھارا پیٹ
ساتھ اپنے جو مجھے یار نے سونے نہ دیا
رات بھر مجھ کو دل زار نے سونے نہ دیا
یاد آتا ہے ہجر میں وہ مزا
بر میں لے لے کے تنگ سونے کا
اب مصحفی کا شعر دیکھئے تو بات صاف ہو جائے گی
بخت ان کے ہیں جو سو کے ترے ساتھ لے گئے
گہ پیرہن کا لطف تو گا ہے بدن کا حظ
واقعہ یہ ہے کہ مصحفی کا کلام جنسی مضامین کے تنوع اور حسن کے اعتبار سے میرکی یاد دلاتا ہے۔ میر اور مصحفی ہمارے یہاں سب سے تیز آنکھ والے شاعر ہیں۔ میر کی صفت میں استعارہ، مضمون، معنی سب شامل ہیں۔ مصحفی وہاں تک نہیں پہنچتے جہاں میر اکثر نظر آتے ہیں، لیکن دونوں کا انداز ایک ہی طرح کا ہے۔
مصحفی: یوں ہے اس گورے بدن سے جلوہ گر لوہو کا رنگ
دشت قدرت نے ملایا جیسے میدے میں شہاب
(دیوان دوم)
میر: بیڑے کھاتا ہے تو آتا ہے نظر پان کا رنگ
کس قدر ہائے رے وہ جلد گلو نازک ہے
(دیوان دوم)
مصحفی: یوں ہے ڈلک بدن کی اس پیرہن کی تہ میں
سرخی بدن کی جھلکے جیسے بدن کی تہ میں
میر: کیا تن نازک ہے جاں کو بھی حسد جس تن پہ ہے
کیا بدن کا رنگ ہے تہ جس کی پیراہن پہ ہے
(دیوان دوم)
میر کے یہاں معنی اور مضمون دونوں کی کثرت ہے۔ (تفصیل کے لیے شرح ملاحظہ ہو) مصحفی کے یہاں مضمون دوسرے مصرعے تک آتے آتے ہلکا ہو گیا، لیکن شعر کا مقصود حاصل ہو گیا۔ حسرت موہانی نے اس مضمون کو بار بار کہا، لیکن ہر بار غیر ضروری یا کم زور الفاظ نے شعر بگاڑ دیے
اللہ رے جسم یار کی خوبی کہ خود بہ خود
رنگینیوں میں ڈوب گیا پیرہن تمام
رونق پیرہن ہوئی خوبی جسم نازنین
اور بھی شوخ ہو گیا رنگ ترے لباس کا
پیراہن اس کا ہے سادہ رنگیں
یا عکس مے سے شیشہ گلابی
مصحفی کو ایک بار اور سن لیجئے تو کھرے کھوٹے کا فرق معلوم ہو جائے گا
اس کے بدن سے حسن ٹپکتا نہیں تو پھر
لبریز آب و رنگ ہے کیوں پیرہن تمام
مصحفی نے حسن ٹپکنے کا ثبوت ’’لبریز آب و رنگ‘‘ کہہ کر فراہم کر دیا، اور انداز بھی انشائیہ رکھ کر مضمون میں ایک نئی جہت پیدا کر دی۔ یہ زمین دراصل میر کی ہے
کیا لطف تن چھپا ہے مرے تنگ پوش کا
اگلا پڑے ہے جامے سے اس کا بدن تمام
(دیوان دوم)
اس مضمون کو بدل بدل کر میر نے کئی بار استعمال کیا ہے
اس کے سونے سے بدن سے کس قدر چسپاں ہے ہائے
جامہ کبریتی کسو کا جی جلاتا ہے بہت
(دیوان ششم)
جی پھٹ گیا ہے رشک سے چسپاں لباس کے
کیا تنگ جامہ لپٹا ہے اس کے بدن کے ساتھ
(دیوان ششم)
میر کے یہاں تکرار کا شکوہ، بعض نقادوں نے کیا ہے۔ اس وقت تکرار کے اصول پر بحث کرنے کی گنجائش نہیں، لیکن مندرجہ بالا تین شعروں سے یہ بات واضح ہوئی ہوگی کہ میر کی تکرار ہر جگہ ناروا نہیں ہوتی۔ اکثر وہ ایک ہی مضمون میں نئے پہلو پیدا کرتے ہیں۔ ’’بدن تمام‘‘ والے شعر میں دوسرے مصرعے کا زبردست پیکر اور پہلے مصرعے میں انشائیہ انداز کی وجہ سے ابہام اسے ’’بدن کے ساتھ‘‘ والے شعر سے الگ کرتا ہے۔ یہاں دوسرے مصرعے کے پیکر میں ’’لپٹا ہے‘‘ کے باعث جنسی اشارہ اور طرح کا ہے۔ انشائیہ انداز یہاں مصرع ثانی میں ہے، لیکن ’’تنگ جامہ‘‘ کی رعایت سے ’’پھٹ گیا‘‘ کے استعمال نے اسے مصرع اولیٰ کے ساتھ ایک اور طرح کا ربط مہیا کر دیا ہے۔ ’’جلاتا ہے بہت‘‘ والے شعر میں مصرع اولیٰ کا انداز انشائیہ ہے، لیکن ’’سونے سے بدن‘‘ کی دوہری معنویت اور ’’کبریتی‘‘ اور ’’جی جلاتا‘‘ کی رعایتوں نے اسے بالکل مختلف طرح کا زور بخش دیا ہے۔
معشوق کے ندی میں نہانے کا مضمون میر اور مصحفی کے ہاں مشترک ہے۔ میر نے اسے کئی بار باندھا ہے، لیکن اس کا بہترین اظہار غالباً مندرجہ ذیل اشعار میں ہوا ہے
دیوان دوم: شب نہاتا تھا جو وہ رشک قمر پانی میں
گتھی مہتاب سے اٹھتی تھی لہر پانی میں
ساتھ اس حسن کے دیتا تھا دکھائی وہ بدن
جیسے جھمکے ہے پڑا گوہر تر پانی میں
مصحفی اس مضمون کو بہت دور لے گئے ہیں، اور میر سے آگے نکل گئے ہیں۔ یہ ضرور ہے کہ لہروں کے آغوش بن جانے کا مضمون میر نے غالباً مصحفی سے پہلے باندھ لیا تھا۔ میرنے اس مضمون کو کئی جگہ باندھا ہے
دیوان دوم: اٹھتی ہے موج ہر یک آغوش ہی کی صورت
دریا کو ہے یہ کس کا بوس و کنار خواہش
دیوان اول: اسی دریاے خوبی کا ہے یہ شوق
کہ موجیں سب کناریں ہو گئی ہیں
بہر حال مصحفی کا شعر ہے
کو ن آیا تھا نہانے لطف بدن نے کس کے
لہروں سے سارا دریا آغوش کر دیا ہے
معشوق کی برہنگی کا ذکر میر نے شاید تمام شاعروں سے زیادہ کیا ہے۔ معشوق کی برہنگی آتش کا بھی محبوب مضمون ہے۔ لیکن ان سے بات پوری طرح نبھتی نہیں، کیوں کہ وہ بیانیہ انداز سے کام زیادہ لیتے ہیں، اور مناسبت الفاظ کا دھیان نہیں رکھتے
تا سحر میں نے شب و صل اسے عریاں رکھا
آسماں کو بھی نہ جس مہ نے بدن دکھلایا
(آتش)
حفظ مراتب کا لحاظ نہ رکھنے کے باعث شعر کم زور ہو گیا۔ اس سے بہتر تو آتش کے شاگرد رند نے کہا ہے کہ یہاں حفظ مراتب تو ہے
عریاں اسے دیکھا کیا میں شام سے تا صبح
دیکھا نہیں گردوں نے بھی جس کا بدن اب تک
میر یا تو پوری ہو سنا کی سے کام لیتے ہیں، اور پھر بھی حفظ مراتب رکھتے ہیں، یا پھر معشوق کی عریانی کو تہذیبی حوالے کے طور پر استعمال کرتے ہیں
دیوان دوم: وہ سیم تن ہو ننگا تو لطف تن پہ اس کے
سوجی گئے تھے صدقے یہ جان و مال کیا ہے
دیوان دوم: مرمر گئے نظر کر اس کے برہنہ تن میں
کپڑے اتارے ان نے سر کھینچے ہم کفن میں
دیوان پنجم: راتوں پاس گلے لگ سوئے ننگے ہو کر ہے یہ غضب
دن کو بے پردہ نہیں ملتے ہم سے شرماتے ہیں ہنوز
آخری شعر کو مندرجہ ذیل شعر کے ساتھ پڑھئے تو معنی واضح تر ہوں گے
دیوان پنجم: آنکھ لگے اک مدت گذری پاے عشق جو بیچ میں ہے
ملتے ہیں معشوق اگر تو ملتے ہیں شرمائے ہنوز
اور یہ کمال بھی میر ہی کو حاصل ہوا کہ اپنی برہنگی اور دیوانگی کا تذکرہ کیا، اور معشوق کو پورے لباس میں رکھا، لیکن اس کے باوجود جنسی تحرک سے بھرپور ہستی کے طور پر معشوق کی مکمل تصویر کھینچ دی
دیوان چہارم: ترک لباس سے میرے اسے کیا وہ رفتہ رعنائی کا
جامے کا دامن پاؤں میں الجھا ہاتھ آنچل اکلائی کا
پنہاں جسمانی اعضاکا ذکر جنسی مضمون پیدا کرنے کا آسان نسخہ ہے۔ لیکن لباس کا پورا پردہ قائم رہے اور پھر بھی لڑکی شاعر کی آنکھ کو عریاں دکھائی دے۔ یہ صرف بڑے شاعر کے بس کی بات ہے
دیوان پنجم: کیا صورت ہے کیا قامت دست و پا کیا نازک ہیں
ایسے پتلے منھ دیکھو جو کوئی کلال بناوے گا
دیوان پنجم: مونڈھے چلے ہیں چولی چسی ہے مہری پھنسی ہے بند کے
اس اوباش نے پہنا وے کی اپنے تازہ نکالی طرح
میر کے یہاں معشوق کے بدن سے لطف اندوز ہو کر وجد میں آنے سے لے کر معشوق پر طنز، طباعی کا اظہار، صاف صاف لالچ کا اظہار، ہر طرح کا نداز موجود ہے۔ لالچ پر ایک شعر دیکھئے
دیوان پنجم: پانی بھر آیا منھ میں دیکھے جنھوں کے یارب
وے کس مزے کے ہوں گے لب ہاے نامکیدہ
اللہ میاں سے تخاطب کی شوخی اور ’’معصومیت‘‘ بھی خوب ہے۔اسی غزل کا مطلع ہے، جو کامیاب ہوس کی گرمی سے پسینہ پسینہ ہے
اب کچھ مزے پہ آیا شاید وہ شوخ دیدہ
آب اس کے پوست میں ہے جوں میوۂ رسیدہ
پھر جب معشوق کی نازک بدنی کا تذکرہ ہوتا ہے تو ایک نیا انداز برہنگی کا سامنے آتا ہے
دیوان پنجم: وے کپڑے تو بدلے ہوئے میر اس کو کئی دن
تن پر ہے شکن تنگی پوشاک سے اب تک
اس مضمون میں شوخی ہے، لیکن ہوس بھری اور بظاہر محض مدح پر مبنی ہے، کہ معشوق کس قدر نازک ہے۔ شوخی اس وقت کھلتی ہے جب یہ خیال آتا ہے کہ بدن پر تنگی پوشاک کے باعث جو شکن پڑی ہے، اسے دیکھنے کے لیے بندن کو ننگا دیکھا ہوگا۔ مندرجہ ذیل شعر میں معشوق کو بے لباس کرنے کا بہانہ اس کی تنگ پوشی اور نزاکت کو بنایا ہے
دیوان سوم: تنگی جامہ ظلم ہے اے باعث حیات
پاتے ہیں لطف جان کا ہم تیرے تن کے بیچ
اسی غزل میں خسرو سے مستعار لے کر اپنا مضمون بنایا ہے
کشتہ ہوں میں تو شیریں زبانی یار کا
اے کاش وہ زبان ہو میرے دہن کے پیچ
معشوق پر طنز کرنے یا اس بہانے خود پر طنز کرنے کا انداز جنسی مضمون میں کم نبھتا ہے۔ میر نے اس کو بھی نبھا کر دکھا دیا ہے
دیوان ششم: آشنا ڈوبے بہت اس دور میں
گرچہ جامہ یار کا کم گھیر ہے
دیوان پنجم: ہندو بچوں سے کیا معیشت ہو
یہ کبھو انگ دان دیتے ہیں
دیوان پنجم: طالع نہ ذائقے کے اپنے کھلے کہ ہم بھی
ان شکریں لبوں کے ہونٹوں کا کچھ مزا لیں
دیوان پنجم: ننگے سامنے آتے تھے تو کیا کیا زجر اٹھاتے تھے
ننگ لگا ہے لگنے انھیں اب بات ہماری مانے سے
دیوان ششم: خمیازہ کش ہوں اس کی مدت سے اس ادا کا
لگ کر گلے سے میرے انگڑائی لے جماہا
معشوق کی انگڑائی اس وجہ سے بھی ہو سکتی ہے کہ وہ عاشق کے ساتھ ساری رات جاگا ہے، اور اس وجہ سے بھی، کہ وہ عاشق سے اکتا گیا ہے۔ ساتھ رات گذارنے یا معشوق کو برہنہ دیکھنے کا کنایہ میر کے یہاں اکثر ملتا ہے۔ کچھ شعر اوپر گذر چکے، کچھ اور ملاحظہ ہوں
دیوان اول: لیتے کروٹ ہل گئے جو کان کے موتی ترے
شرم سے سردر گریباں صبح کے تارے ہوئے
دیوان سوم: جس جائے سراپا میں نظر جاتی ہے اس کے
آتا ہے مرے جی میں یہیں عمر بسر کر
دیوان اول: دیہی کو نہ کچھ پوچھو اک بھرت کا ہے گڑوا
ترکیب سے کیا کہئے سانچے میں کی ڈھالی ہے
دیوان ششم: ایسی سڈول دیہی دیکھی نہ ہم سنی ہے
ترکیب اس کی گویا سانچے میں گئی ہے ڈھالی
آخری دو شعروں کے مضمون کو مصحفی سے لے کر علی اوسط رشک تک کئی لوگوں نے اختیار کیا ہے۔ میرنے ’’بھرت کا گڑوا‘‘، ’’دیہی‘‘، ’’سڈول‘‘ اور ترکیب‘‘ جیسے الفاظ رکھ کر مضمون کی رنگینی اور واقعیت اور تفصیل کو پوری طرح برت دیا ہے۔ اس پر مفصل یبان کے لیے شرح ملاحظہ ہو۔ میر کو چونکہ روزمرہ کی زندگی سے مضمون بنانے میں خاص مہارت تھی، اس لیے ان کے سامنے آتش، بلکہ مصحفی بھی غیر واقعی معلوم ہونے لگتے ہیں۔ مثلاً معشوق کے بھیگنے کا مضمون مصحفی اور میر دونوں کو پسند تھا
بھیگے سے ترا رنگ حنا اور بھی چمکا
پانی میں نگاریں کف پا اور بھی چمکا
جوں جوں کہ پڑیں منھ پہ ترے مینہ کی بوندیں
جوں لالۂ تر رنگ ترا اور بھی چمکا
جھلک بدن کی ترے ہے یہ رخت آبی میں
کہ جیسے جلوہ کرے آفتاب درتہ آب
پہلا شعر روز مرہ زندگی پر مبنی ہے۔ باقی مضامین خیالی تو نہیں ہیں، لیکن میر کے مندرجۂ ذیل شعر کے سامنے مصنوعی معلوم ہوتے ہیں
دیوان چہارم: گوندھ کے گویا پتی گل کی وہ ترکیب بنائی ہے
رنگ بدن کا تب دیکھو جب چولی بھیگے پسینے میں
میر کے شعر پر نظیر اکبر آبادی کے ایک شعر کا ہلکا سا پر تو ہے، لیکن نظیر کے یہاں اشاروں کی اور بصری پیکر کی وہ فرادانی نہیں جو میر کے یہاں ہے
سراپا موتیوں کا پھر تو اک گچھا وہ ہوتی ہے
کہ وہ کچھ خشک موتی کچھ پسینے کے وہ تر موتی
نظیر اکبر آبادی کے شعر میں بندش بھی بہت سست ہے۔ میر کے شعر میں پہلے اور دوسرے مصرعے میں برابر کے پیکر ہیں۔ لیکن چولی کے پسینے میں بھیگنے میں اشارات و انسلاکات اس قدر ہیں اور اتنے بے پناہ ہیں اور پھر بھی اتنے نزدیک کے ہیں کہ شعر معجزہ بن گیا ہے۔ تجربے کے جس منطقے کا یہ شعر ہے، اس کے بالکل متضاد منطقے سے اس طرح کے شعر برآمد ہوتے ہیں
دیوان دوم: بوکئے کمھلائے جاتے ہو نزاکت ہائے رے
ہاتھ لگتے میلے ہوتے ہو لطافت ہائے رے
دیوان چہارم: ہائے لطافت جسم کی اس کے مر ہی گیا ہوں پوچھو مت
جب سے تن نازک وہ دیکھا تب سے مجھ میں جان نہیں
میر کے جنسی مضامین کا تذکرہ ان کے امرد پرستانہ اشعار کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتا۔ عند لیب شادانی نے اپنا مضمون ’’میر صاحب کا ایک خاص رنگ‘‘ یوں لکھا تھا گویا میر نے اپنے یہ اشعار کہیں داب چھپا کر رکھ دیے تھے، یا اگر چہ یہ شعر کلیات میں تھے، لیکن لوگوں نے انھیں پڑھا نہ تھا۔ پھر یاروں نے طرح طرح سے اس ’’خاص رنگ‘‘ کی توجیہیں بھی کرنے کی کوشش کی۔ احتشام صاحب نے مسعود حسن رضوی ادیب کے نام شادانی کے مضمون پر بعض ’’بزرگوں‘‘ کے رد عمل کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے، ’’سنا کہ مرزا محمد عسکری صاحب بہت منغض ہوئے کیوں کہ شادانی صاحب، میر وغیرہ کے وہی اشعار پڑھ کر نتائج نکالتے رہے جن کا ذکر وہ اپنے مضامین میں کر چکے ہیں۔‘‘ (’’خطوط مشاہیر‘‘، مرتبہ نیر مسعود۔) حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ جس شخص نے بھی کلیات میر کا سرسری ہی سا مطالعہ کیا ہوگا، وہ اس شوق اور شغف و انہماک سے بے خبر نہ رہا ہوگا جو امرد پرستی کے مضمون پر میر نے صرف کیا ہے۔ میں اس رجحان یا میلان کا دفاع نہیں کرتا۔ نہ اس کو مطعون کرتا ہوں۔ میں یہ بھی دعویٰ نہیں کرتا کہ میر یقیناًامرد پرست تھے، اور نہ فراق صاحب کی طرح یہ کہتا ہوں کہ دنیا کے اکثر بڑے لوگ امردپرست ہوئے ہیں۔ شاعرانہ اظہار کی حد تک امرد پرستی کے اشعار میں میر کے یہاں خود پر طنز کرنے، خود امردوں پر طنز کرنے، اور امردوں سے دلچسپی پر مبنی، ہر طرح کے اچھے برے شعر مل جاتے ہیں۔ فی الحال میری غرض جنسی مضمون کے حامل، اور امرد پرستی پر مبنی، اچھے اشعار سے ہے۔ چند کو بلا کسی مزید تفصیل کے پیش کرتا ہوں
دیوان اول: باہم ہوا کریں ہیں دن رات نیچے اوپر
یہ نرم شانے لونڈے ہیں مخمل دو خوابا
دیوان پنجم: ساتھ کے پڑھنے والے فارغ تحصیل علمی سے ہوئے
جہل سے مکتب کے لڑکوں میں ہم دل بہلاتے ہیں ہنوز
دیوان پنجم: وہ نوباوۂ گلشن خوبی سب سے رکھے ہے نرالی طرح
شاخ گل سا جائے ہے لچکا ان نے نئی یہ ڈالی طرح
ان اشعار پر مفصل گفتگو شرح میں ملاحظہ کیجئے۔ میں ہر اس شعر کو، جس میں امرد پرستی کا شائبہ ہو، لازماً جنسی مضمون پر مبنی شعر نہیں مانتا۔ لیکن یہ بھی ہے کہ امرد پرستانہ شعر میں معشوق آسانی سے عینیت پذیر (idealize) نہیں ہو پاتا، لہٰذااس حد تک اسے جنسی مضمون کا حامل قرار دینا ہی پڑتا ہے۔ بعض بعض جگہ فیصلہ الفاظ کے اصطلاحی معنوں پر مخصر ہوتا ہے۔ مثلاً ٹیک چند بہار نے ’’دنداں مزد‘‘ کے معنی درج کئے ہیں کہ اصطلاح میں بوسے کو کہتے ہیں۔ لیکن یہ واضح نہیں کیا ہے کہ یہ کس طبقے کی اصطلاح ہے۔ قرینے سے لگتا ہے کہ امرد پرستوں کی اصطلاح ہوگی۔ ایسی صورت میں دیوان ششم کا یہ غیر معمولی شعر اور بھی غیر معمولی ہو جاتا ہے
آج اس خوش پرکار جواں مطلوب حسین نے لطف کیا
پیر فقیر اس بے دنداں کو ان نے دنداں مزد دیا
میر کے یہاں جنسی مضامین کا مطالعہ ہمیں یہ سوال کرنے پر مجبور کرتا ہے کہ میر کے یہاں عشق کا تجربہ کس نوعیت کا، یا یوں کہئے کہ کن نوعیتوں کا ہے۔ محمد حسن عسکری اسے انسانی تعلقات کی پیچیدگیوں کے مرادف قرار دیتے ہیں۔ لیکن بات شاید اتنی سادہ نہیں، کیوں کہ میر کے یہاں عشق کی پیچیدگیوں کے علاوہ اس کی وسعت اور تنوع بھی اس درجے کی ہے کہ اس پر کوئی ایک حکم نہیں لگ سکتا۔ اور میر کو صرف درون بیں یا عشق کے ’’اعلیٰ‘‘ اور ’’گھریلو‘‘ اور ’’ہوس آمیز‘‘ پہلوؤں کی کشاکش کا شاعر کہنے سے بات پوری نہیں ہوتی۔ لہٰذا اس معاملے کو ذرا اور وسعت اور توجہ سے دیکھنا چاہئے۔ لیکن توجہ کو اس طرف منعطف کرنے سے پہلے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس بات کی چھان بین کی جائے کہ جب میر جنسی مضمون کو ہر پہلو سے بیان کرنے پر قادر تھے، تو انھوں نے جرأت کی سی معاملہ بندی بھی کیوں نہ اختیار کی؟ اس سوال کا جواب اس لیے بھی ضروری ہے کہ اس سے ہمیں میر کے یہاں عشق کے تجربے کی حدوں کا پتہ لگ سکتا ہے۔ ممکن ہے اسی ضمن میں اس بات پر بھی روشنی پڑ سکے کہ آیا میر کے عشق کی کوئی مرکزی نوعیت یا اس کا کوئی مرکز ہے کہ نہیں؟
ایسا نہیں ہے کہ میر جنسی مضامین کو معاملہ بندی کے اسلوب میں پیش کرنے پر قادر نہیں تھے۔ گذشتہ صفحات میں دیوان اول کے ایک قطعے کا ذکر ہو چکا ہے، اس کا پہلا شعر حسب ذیل ہے
کل تھی شب وصل اک ادا پر
اس کی گئے ہوتے ہم تو مر رات
ایسا بھی نہیں ہے کہ جنسی مضامین کے باہر معاملہ بندی میں میر کو کوئی مشکل پیش آتی ہو۔ لہٰذا جنسی مضامین میں معاملہ بندی سے کم و بیش اجتناب کے وجوہ دریافت کرنا بہت اہم ہو جاتا ہے۔
جنسی مضامین پر مبنی اشعار کے بارے میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ اگر ان میں معنی آفرینی اور مضمون آفرینی کی کثرت رکھی جائے تو اصل مضمون کے پھیکے پڑ جانے کا امکان رہتا ہے۔ میر اس معاملے میں غیر معمولی ہیں کہ وہ یہاں بھی اکثر و بیشتر مضمون آفرینی یا کثرت معنی حاصل کر لیتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ وہ استعارے کا ہر اسلوب جانتے ہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ان کو رعایت لفظی میں کمال حاصل ہے۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ وہ حتی الامکان شعر کو بیانیہ بنانے سے گریز کرتے ہیں۔ لیکن جن اشعار میں معشوق سے وصل کے مضمون کو جنسی لذت اندوزی کے رنگ میں کہا گیا ہو، ان میں بیانیہ رنگ درآنا لازمی ہے۔ میر نے وصل کے مضمون میں جنسی مضامین سے عام طور پر احتراز کیا ہے، اور اگر ایسا مضمون لائے بھی ہیں تو اس میں ابہام کا پہلو ایسا رکھ دیا ہے کہ خود بہ خود کثرت معنی پیدا ہو گئی ہے
دیوان دوم: وصل اس کا خدانصیب کرے
میر دل چاہتا ہے کیا کیا کچھ
دیوان پنجم: وصل میں رنگ اڑ گیا میرا
کیا جدائی کو منھ دکھاؤں گا
دیوان پنجم: اس کا بحر حسن سراسر اوج و موج و تلاطم ہے
شوق کی اپنے نگاہ جہاں تک جاوے بوس و کنار ہے آج
دیوان چہارم: پاؤں چھاتی پہ میری رکھ چلتا
یاں کبھو اس کا یوں گذارا تھا
دیوان سوم: کیا تم کو پیار سے وہ اے میر منھ لگاوے
پہلے ہی چومے تم تو کاٹے ہو گال اس کا
دیوان دوم: منھ اس کے منھ کے اوپر شام و سحر رکھوں ہوں
اب ہاتھ سے دیا ہے سر رشتہ میں ادب کا
دیوان سوم: گوشوق سے ہو دل خوں مجھ کو ادب وہی ہے
میں رو کبھی نہ رکھا گستاخ اس کے رو پر
دیوان ششم: بدن میں اس کے تھی ہر جاے دلکش
بجا بے جا ہوا ہے جا بجا دل
دیوان سوم: گات اس اوباش کی لیں کیوں کہ بر میں میر ہم
ایک جھرمٹ شال کا اک شال کی گاتی ہے میاں
اوپر کے اشعار سے ظاہر ہے کہ میر وصل کی لذت اندوزی کے وقت بھی رعایت لفظی، ابہام اور استعارے سے کام لیتے ہیں اور بیانیہ انداز کا سہارا بہت کم لیتے ہیں۔ اکثر یہ بات بھی نہیں کھلتی کہ وصل ہوا ہے بھی کہ نہیں۔ ان اشعار میں معاملہ بندی سے گریز اور کبھی کبھی خود اپنے پر ہنسنے کی ادا اس بات کی غماز ہے کہ کچھ باتیں شاید ایسی بھی ہیں جن کو میر اپنے آپ پر بھی ظاہر نہیں کرنا چاہتے۔ ان کے یہاں گستاخ دستی کی کمی نہیں ہے، لیکن وہ اختلاط باطنی کے واضح بیان سے اکثر گریز کرتے ہیں۔ شاید اس وجہ سے کہ ان کا مبہم اور استعاراتی مزاج اسے پسند نہیں کرتا۔ مضامین وصل میں اگر واضح معاملہ بندی کی جائے تو استعارے کی گنجائش کم ہو جاتی ہے۔ جرأت کا یہی معاملہ تھا۔ وہ استعارے کو وقوعے پر قربان کر دیتے ہیں۔ چند اشعار حسب ذیل ہیں
ملائے لب سے لب لیٹے تھے جب تک وہ بھی لیٹا تھا
پھریری لے کے میں جو کر کے اف یک بار اٹھ بیٹھا
تو کچھ اٹھنے کے اس نے ساتھ ہی چتون جو پہچانی
تو کیا گھبرا کے بس جلدی سے وہ عیار اٹھ بیٹھا
لپٹ کر سونے سے شب کے چبھی پھولوں کی جو بدھی
تو کیا ہو کر وہ جھگڑالو گلے کا ہار اٹھ بیٹھا
کہاں ہے گل میں صفائی ترے بدن کی سی
بھری سہاگ کی تس پر یہ بو دلہن کی سی
یاد آتا ہے یہ کہنا جب تو اڑ جاتی ہے نیند
اپنی ہٹ تو رکھ چکے لو اب تو ہٹ کے سوئیے
تم جو کہتے ہو نہ جرأت سوئیں گے ہم تیرے ساتھ
سو زباں بہر خدا اب یہ پلٹ کے سوئیے
اپنے سینے پہ رکھا ہاتھ میں ان کا تو کہا
چھوڑ کم بخت ہتھیلی مری گلخن سے لگی
دل ہی جانے ہے کچھ اس کا مزا اور لذت
مل کے جب ایک شب و صل میں ہوں سینے دو
شعر نمبر چار اور ایک حد تک نمبر سات کے علاوہ باقی تمام شعروں میں مضمون کا فقدان ہے۔ شعر نمبر چار میں پیکر، اور انشائیہ انداز بیان اس طرح یک جا ہوئے ہیں کہ میر تو نہیں، لیکن مصحفی کا سارتبہ حاصل ہو گیا ہے۔ باقی تمام شعروں کا اسلوب خبر یہ ہے۔ معاملہ بندی کی ایک کمزوری یہ بھی ہوتی ہے کہ اس میں انشائیہ اسلوب، جو خبریہ سے بہتر اور بلند تر ہوتا ہے، استعمال نہیں ہو سکتا۔ اب یہ بات واضح ہو گئی ہوگی کہ میر اگرچہ جنسی مضامین سے خود بالکل گریز نہیں کرتے، لیکن انھوں نے جرأت پر چوما چاٹی کا الزام اس لیے لگایا تھا کہ جرأت کے یہاں نری معاملہ بندی ہے، مضمون آفرینی بہت کم ہے اور ابہام و استعارہ تقریباً مفقود ہے۔ میر اگر واضح بیان اختیار بھی کرتے ہیں تو اس کے ساتھ کسی قسم کا حوالہ، طنزیہ، یا تہذیبی، یا نفسیاتی، ضرور رکھ دیتے ہیں۔ لہٰذا معاملہ صرف یہ نہیں ہے کہ میر کا عشقیہ تجربہ زیادہ پیچیدہ ہے۔ معاملہ یہ بھی ہے کہ میر اس تجربے کے اظہار کے لیے فنی چابک دستیوں اور باریکیوں کا اظہار بیش از بیش کرتے ہیں۔ ان چابک دستیوں کی بنا پر ان کے یہاں کثرت معنی ہے۔ مضمون کی ان کے یہاں فرادانی ہے، اور وہ مضمون آفرینی کے ساتھ جنسی مضمون کا صحیح تناسب قائم رکھتے ہیں۔
مضمون کی فراوانی کے ساتھ میر کے یہاں عام طور پر، اور جنسی لذت کے مضامین میں خاص طور پر، حواس خمسہ کی کار فرمائی بہت ہے۔ ان کے یہاں تن بدن اور ذہنی کیفیت کا زبردست انضمام و انہماک ہے۔ اس کے برخلاف غالب کے یہاں جنس اور بدن کے بھی اسرار کو تجرید کے ہوائی پردوں میں سمیٹنے کا عمل نظر آتا ہے۔ مثال کے طور پر یہ دو شعر دیکھئے
غالب: کرے ہے قتل لگاوٹ میں تیرا رو دینا
تری طرح کوئی تیغ نگہ کو آب تو دے
میر (دیوان دوم) اب کچھ مزے پہ آیا شاید وہ شوخ دیدہ
آب اس کے پوست میں ہے جوں میوۂ رسیدہ
غالب کے یہاں بھی جنسی تجربے کا براہ راست حوالہ ہے، لیکن مصرع ثانی میں وہ فوراً تجرید اختیار کر لیتے ہیں۔ میر کے یہاں جنسی تجربے کا حوالہ مصرع ثانی میں اور بھی مستحکم، اور بدن کی سطح پر تمام ہوتا ہے۔ لالچ کے موقعے پر بھی میر حواس خمسہ میں سے وہ حس منتخب کرتے ہیں جو لطیف ترین تجربے کو بھی تیزی سے حاصل کر لیتی ہے، یعنی قوت ذائقہ
(دیوان پنجم) پانی بھر آیا منھ میں دیکھے جنھوں کے یارب
وے کس مزے کے ہوں گے لب ہائے نامکیدہ
جنسی لذت اور جنسی تجربے کی تمام حسیاتی جہتوں میں میر کا انہماک و اشتعال تمام تر وہ کیفیت رکھتا ہے جسے مولانا روم نے ’’نانبائی کے ہاتھ میں خمیری آٹے‘‘ کی نادر اور پانچوں حواس پر مبنی استعارے کے ذریعہ بیان کیا ہے۔ جس طرح نانبائی خمیری آٹے کو کبھی سخت گوندھتا ہے، کبھی نرم کرتا ہے، کبھی اس پر زور سے مٹھیاں لگاتا ہے، کبھی اس کو تختے پر پھیلا دیتا ہے، اچانک اٹھا کر ہاتھ میں لے لیتا ہے، کبھی اس میں پانی ڈالتا ہے، کبھی نمک، کبھی اس کو تنور میں ڈال کر دیکھتا ہے کہ ٹھیک پکا ہے کہ نہیں، وہی حال عاشق کے ہاتھ میں معشوق کا ہوتا ہے۔ مولانا روم اس کو یوں بھی بیان کرتے ہیں کہ قدیم اور حادث، عین اور عرض میں بھی اس طرح کی بہم دست و گریبانی روز ادل سے ویسی ہی فرض ہے جیسی ویس اور رامیں کے درمیان بہم بستگی اور بہم آویزش فرض تھی۔ یعنی یہ بھی اصول کائنات ہے، اور دونوں حقائق ایک ہی اصول کائنات کے پر تو ہیں۔ مثنوی (دفتر ششم) میں مولانا کہتے ہیں
زن بہ دست مرد در وقت لقا
چوں خمیر آمد بدست نانبا
بسرشد گاہیش نرم و گہ درشت
زو بر آرد چاق چاقے زیر مشت
گاہ پہنش واکشد بر تختۂ
درہمش آرد گہے یک لختۂ
گاہ در وے ریزد آب و گہ نمک
از تنور و آتشش سازد محک
ایں چنیں پیچند مطلوب و طلوب
اندریں لعب امذ مغلوب و غلوب
ایں لعب تنہا نہ شو را بازن است
ہر عشیق و عاشقے را ایں فن است
از قدیم و حادث و عین و عرض
پیچشے چوں ویس و رامیں مفترض
ان اشعار کی خوبیاں بیان کرنے میں بہت وقت صرف ہوگا۔ فلسفیا نہ نکات میں نے اوپر بیان ہی کر دیے ہیں۔ اب صرف یہ دیکھ لیجئے کہ پانچوں حواس (دیکھنا، چھونا، چکھنا، سونگھنا، سننا) یہاں پوری طرح صرف بروے کار ہی نہیں آئے ہیں، بلکہ بیان بھی ہوئے ہیں۔ اور شروع کے چار شعروں میں حر کی پیکر کی اس قدر شدت ہے کہ بڑے بڑے شاعروں کی جھر جھری آ جائے۔ جب میر کے سامنے ایسے بڑے بڑے نمونے موجود تھے، اور خود ان کی صلاحیتیں بھی ان نمونوں کے برابر کلام کی قوت رکھتی تھیں تو وہ جرأت یا مصحفی یا شاہ حاتم کی طرف کیوں متوجہ ہوتے اور اس میدان میں بھی میر کا کلام ان لوگوں سے ممتاز کیوں نہ ہوتا؟
میں اوپر کہہ چکا ہوں کہ میر میں زندگی کے تمام تجربات کو حاصل کرنے اور انھیں شعر کی سطح پر قبول کرنے کی حیرت انگیز صلاحیت تھی۔ مولانا روم کی طرح وہ بھی ہر بات کو شعر میں کہہ سکتے تھے۔ مثنوی معنوی کے بہت سے اشعار ایسے ہیں جن کو آج کل کے ’’مہذب‘‘ لوگ پڑھ یا سن نہیں سکتے۔ مولانا نے ان سے عارفانہ نتائج نکالے ہیں، یہ اور بات ہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ مولانا روم کو ’’فحش‘‘ مضامین بیان کرنے سے عارنہ آتی تھی۔ محمد حسن عسکری نے ایک خط میں لکھا ہے کہ جو قصہ بیان کر رہا ہوں وہ فحش تو ہے لیکن مولانا تھانوی نے بیان کیا ہے اور اس سے سبق آموزی کی ہے، اس لیے درج کرتا ہوں۔ پرانی تہذیب میں اس طرح کا احرام و تحریم نہ تھا جیسا آج کل ہم لوگوں نے اختیار کر لیا ہے۔ میر کے ظریفانہ اور پھکڑپن کے اشعار پر مولوی عبدالحق بابائے اردو ناک بھوں چڑھاتے ہیں (یا شرمندہ ہوتے ہیں۔) باقی لوگ تو ان کا ذکر بھی کرتے شرماتے ہیں۔ حالانکہ وہ اشعار بھی تہذیب و کائنات کے ایک تصور کی عملی صورت ہیں۔ جنسی اشعار میں میر بہت زیادہ کھل تو نہیں کھیلے ہیں لیکن ان کا اصول وہی ہے، کہ تہذیب طرح طرح سے اپنا اظہار کرتی ہے۔ اور تہذیب کا ہر مظہر شعر کی سطح پر برتا جا سکتا ہے اگر شاعر جرأت اظہار کے ساتھ ساتھ سخن طرازی کی صلاحیت بھی رکھتا ہو۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں