منگل، 11 اگست، 2015

وہ جو لکھا نہیں جاسکا/تصںیف حیدر

(1)
یہ ان دنوں کی بات ہے، جب میں نے دہلی میں دوردرشن اردو کے کچھ معمولی سے کام کرکے یہ سمجھنا شروع کردیا تھا کہ اب تو ہم بھی میڈیا کے لیے کام کرتے ہیں، ہماری بھی عزت چوک چوراہوں پر ہے، آٹو رکشہ والے کو آنکھیں دکھائی جاسکتی ہیں، معمول کی ناانصافیوں کو غصے کی نگاہوں سے دیکھتے ہوئے ان پر اپنے جرنسلٹ ہونے کی دھونس جمائی جاسکتی ہے اور بہت سے ایسے کام کیے جاسکتے ہیں جو کم از کم خودتشفی کے زمرے میں آتے ہوں۔شاید اب اس بات کو بھی سات آٹھ سال سے زائد کا عرصہ گزرگیا اور میں نے درمیان میں بہت کچھ دیکھا، میں نے سمجھا کہ زندگی اتنی پرکشش نہیں ہوپائی ہے، جتنی ہوسکتی تھی۔جتنی کہ میں بناسکتا تھا۔میرے اندر صلاحیتوں، فکر اور مثبت اقدامات کی کمی نہیں تھی۔میں چاہتا تو ان بے سروپا واقعات پر دھیان نہیں دیتا جو میرے لیے زندگی کا سب سے بڑا درد سر بن کر آئے اور جنہیں میری ایک دوست میرے جی کا جنجال یا بے کار کا روگ کہا کرتی ہے۔مگر غور کرتا ہوں تو ایک سرمئی رنگ کا دھبہ آنکھوں کے سامنے تیرنے لگتا ہے، جیسے کیچڑکی پکڑ سے ہاتھ چھڑا کر بھاگے ہوئے مٹ میلے پانی پر کسی نے آواز کی ایک ناؤ رکھ دی اور میں اس میں سفر کرنے لگتا ہوں۔دہلی اپنی کچھ باتوں کی وجہ سے مجھے پسند ہے، اور کچھ باتوں کی وجہ سے ناپسند۔مثال کے طور پر یہاں کی لڑکیوں کا فیشن کے بل پر دندناتے پھرنامجھے اچھا لگتا ہے، مگر شام کے بلب جلتے ہی ان کے لیے بھیڑیوں کی ننگی آنکھیں نکال کر باہر رکھ دینا اس شہر کی بری عادتوں میں سے ہے، اب بہت دن دور نہیں، جب یہ حادثات ہماری معمول کی زندگی کا حصہ ہونگے، اب تو کھلے عام دن میں لڑکیاں چھیڑی اور ستائی جارہی ہیں، کہیں شام کے دھندلکے میں کچی سڑک پر گلی کی رستی ہوئی دیوار کے سائے میں ان پر چاقو کے وار کیے جارہے ہیں ، مگر اس سب کے باوجود لڑکیوں کی تھرکتی ہوئی خواہشوں نے ہتھیار نہیں ڈالے ہیں، ان کی آواز دبائی نہیں جاسکی ہے۔آواز کے ساتھ تو معاملہ یہی ہے کہ اسے جتنا دبائیے وہ اور بارہ گز بڑھ جاتی ہے۔خیر، گزشتہ دنوں کی بات ہے اور ایک شخص کا ذکر ہے، جس کو لکھنے کے لیے ادھر ادھر سے لفظ ادھار لینے پڑرہے ہیں، تمہید تو ہاتھ لگ گئی ہے، مگر اصلی بات ابھی بھی چھپکلی کی لجلجی جلد کی طرح ادھر ادھر سے پھسلی جاتی ہے۔
میں نے اس لڑکی کوغور سے دیکھا، دو بار، میں بس اسٹینڈ پر تھا،ان دنوں میٹرو میں سفر کرنے سے مجھے ڈر لگتا تھا، ہر وہ چیز جسے میں نے پہلی بار نہیں کیا ہے، میں اسے کرنے سے ڈرتا ہوں، سوائے شاعری کے، تجربے کے ہر نئے رنگ سے مجھے ڈر لگتا ہے۔کسی ریستوراں میں کھانے کاآرڈر دینا ہو یا کسی سیاسی مسئلے پر سڑک پر اپنے دوستوں کے سامنے اظہار خیال کرنا ہو۔میں ڈرتا ہوں کہ کہیں میری عزت نفس کا قتل نہ ہوجائے، کہیں کسی بات پر، کسی یونہی سی ، بے وجہ سی بات پر میری بے عزتی نہ ہوجائے۔میں کچھ کہوں، سامنے والا نہ سمجھے۔کیا پتہ ایسا کیوں ہے کہ کوئی بات دوبارہ کہنے سے مجھے وحشت ہوتی ہے، اسی لیے میں زیادہ تر ایسے موقعوں پر کسی کو ساتھ رکھتا ہوں۔شاید یہی میری شخصیت کی وہ ننگی سچائی ہے جس کی وجہ سے میں نے اکثر اپنے دوستوں کی لن ترانیاں بھی خاموشی سے سن لی ہیں۔لیکن ایسا صرف دوکانوں، ریستوراں اور بس کنڈکٹر کے ساتھ ہی کیوں ہوتا ہے، کیوں میں کسی انٹرویو میں ہچکچاتا نہیں، کیوں میں کسی بند کمرے میں ہونے والی بحث کا حصہ بننے سے ڈرتا نہیں، کیا ان کتابوں نے مجھے بولنے کے آداب کے ساتھ نہ بولنے کی مشق بھی کرائی ہے، کیا میں سمجھتا ہوں کہ بس کہہ دینے سے،کسی کو میری بات سمجھ میں نہ آپانے سے میری بے عزتی ہوجائے گی اور باقی سارے لوگ اپنا کام کاج چھوڑ کر مجھے ایک اچانک رونما ہونے والا لطیفہ سمجھ کر لوٹ پوٹ ہونے لگیں گے۔یہ میری شخصیت کا عجیب ڈر ہے،جس کا ادراک مجھے ہے، میں لکھنے میں جتنا بے باک اور سفاک ہوجاتا ہوں، کیوں جینے میں اتنا نہیں ہوسکا۔کیوں میں ان لوگوں سے بات کرنے میں ہچکچاتا ہوں جنہوں نے سماج میں عزت اور بے عزتی کے اصول نہیں بنائے ہیں۔جو دن میں ہزار بار ذلیل ہوتے ہیں،اور ہر دفعہ اس ذلت کی کینچلی کو اتار کر ایک نئی مسکراہٹ کی جلد کے ساتھ پھر زندہ ہوجاتے ہیں۔ویسے بھی میٹرو ابھی پوری طرح دہلی میں اپنے پرنہیں پھیلا پائی تھی، میں بھی زیادہ تر ادھر سے ادھر اپنے دوست گورو کے یہاں یا پھر ایک اسٹوڈیو جایا کرتا تھا۔یہ اسٹوڈیو لکشمی نگر کے ایک چھوٹے سے فلیٹ میں بنایا گیا تھا، یہاں دو تین دوستوں نے مل کر اسے غالباً تیار کیا تھا، صرف آڈیو ریکارڈنگ کی جاتی تھی، سو کبھی بھجن کیرتن، کبھی سائی بابا کے لیے مختلف لوگوں کی لکھی ہوئی مناجاتیں اور کبھی ٹوٹے پھوٹے حال اردو میں بننے والے پروگراموں کے بد ہنگم وائز اوور یہاں ریکارڈ کیے جاتے تھے۔وہاں میرا ایک دوست سچن کام کیا کرتا تھا، سچن سے میری ملاقات دوردرشن کے لیے کیے جانے والے پروگرامز کے درمیان ہوئی تھی، اس نے مجھے اس دوران کچھ بھوجپوری گانوں کو ہندی میں لکھنے کا کام دلوایا تھا، میں نے ہزار کوشش کی مگر یہ کام مجھ سے نہیں ہوا، اس نے پھر مجھ سے دوچار پروگرامز کے ٹائٹل سونگ لکھوائے، لیکن وہ بھی کلائنٹس کو پسند نہیں آئے، چنانچہ میں نے تھک ہار کر اس سے کہہ دیا کہ بھئی گانا وانا تو شاید میں لکھ لوں، مگر بغیر کسی میٹر یا تھیم کے میں یہ ٹائٹل ٹریک اور بھجن وغیرہ نہیں لکھ سکتا۔پھر اسے علم تھا کہ میری ہندی بھی اچھی نہیں ہے،سو اس نے اس کام کو ٹال دیا۔انہی دنوں وہاں سچن کی ایک دوست ، جو اپنے کسی کام سے آیا کرتی تھی، مجھ سے ٹکراگئی۔ہوا یوں کہ اسے اپنے کسی پروگرام کے لیے اردو میں ٹائٹل لکھوانے تھے، لکھوانے کیا تھے، ٹائپ کروانے تھے۔میں ٹائپ بھی جانتا تھا ، اس لیے اسی اسٹوڈیو کے کمپیوٹر پر میں نے اس کے لیے یہ کام کردیا، اس نے مجھے دو ہزار روپے نقد دیے اور میرا شکریہ ادا کرکے فائل لے گئی۔کئی دنوں بعد بس اسٹینڈ پر اسی لڑکی کو میں نے دیکھا، وہی لڑکی تھی۔لمبا قد، اونچی گردن، گول چہرہ، سینے کا ابھار بہت زیادہ نہ تھا، مگر شکرقندی جیسے پستانوں کو ایک ٹائٹ ٹی شرٹ سے لپٹائے وہ بس کا انتظار کررہی تھی۔بلیو کلر کے ٹی شرٹ اور اسی رنگ کی جینزمیں اس کی پتلی بانہیں اور گورے پنجے کچھ اکڑے ہوئے سے نظر آرہے تھے، صاف پتہ چل رہا تھا کہ وہ اس وقت بوریت محسوس کررہی ہے۔میں اسے دیکھتے ہی پہچان گیا تھا، مگر میں نے انجان بننے کی کوشش کی۔اس لڑکی نے مجھے دیکھا اور پھر کچھ شش و پنج کی کیفیت میں میرے پاس آکر کہنے لگی۔
’’آپ سچن کے اسٹوڈیو میں تھے نا؟‘‘
میں نے اسے بتایا کہ میں وہاں کام کرتا ہوں، باقاعدہ نہیں، مگر کبھی کبھار جو کام بھی آجائے ، مل جائے یا پھر چل جائے ، وہ میں کرکے دے دیتا ہوں، میں اپنی ہیت اور اس کے وجود کی بے وقت کی سانٹھ گانٹھ پر تھوڑا خوش اور تھوڑا بوکھلایا ہوا تھا۔میرا کالا چہرہ، دھوپ کی حدت میں سیاہ ہورہا تھا، لمبوترے چہرے پر بے ترشے ہوئے بال، گھنگھرے پر سے کچھ کھڑے اور باقی بے دھیانی کے ساتھ لٹکے ہوئے، بڑے بڑے دانت آگے کی جانب ہلہ بولتے ہوئے اور ان پر سیاہ مسوڑھوں کی نمائش، چہرے کو اور بدنما بنارہی تھی۔شاید اس دن میں نے براؤن کلر کی شرٹ پہنی ہوئی تھی، وزن مجھ میں زیادہ تھا نہیں، اس لیے شرٹ اکثر مجھ پرپھیلی ہوئی، بے ہنگم اور بے ڈول سی معلوم ہوتی اور اس وقت جینز کا باقاعدہ تصور میرے لیے ممکن نہیں تھا، میں ایک کیجول سی پینٹ پہنے ہوئے تھا۔اب اس بے وقت اور بے قاعدہ ملاقات پر آگے کی کوئی بات مجھے سجھائی نہیں دی، چنانچہ میں خاموش رہا۔لیکن اس لڑکی کی اسمارٹنس تھی ، خودغرضی یا کوئی اور بات، اس نے مجھ سے کہا۔
’’آپ بہت کام کے بندے ہو، نمبر کیا ہے آپ کا؟‘
میں نے اسے اپنا نمبر دیاا ور اعتماد کی آخری کمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کا نمبر مانگے بغیر سامنے آنے والی بس میں چڑھ گیا۔جب میں بس کی طرف بڑھ رہا تھا تو کنکھیوں سے میں نے ضرور دیکھا تھا کہ اس نے اپنا ہاتھ میری طرف بڑھانے کی کوشش کی تھی، پھر اچانک میری بوکھلاہٹ کو سمجھتے ہوئے ہاتھ پیچھے کرلیا تھا۔

(2)

اس لڑکی کا نام آفرین تھا۔وہ لکشمی نگر میں ہی رہا کرتی تھی، سچن کے اسٹوڈیو سے اس کا گھر بہت دور نہیں تھا، یہی تقریباً ڈیڑھ دو میل کی دوری پر ہوگا۔آفرین کو معلوم تھا کہ میں اسکرپٹ لکھتا ہوں، چنانچہ اس نے سوچا تھا کہ میں اس کے کچھ کام آسکوں گا، کام کے آگے وہ کچھ سوچ نہیں سکتی تھی،اس نے اسی لیے مجھ سے دوستی بڑھائی، میرا تجربہ اس جیسی بولڈ لڑکی سے ملنے ملانے کا نیا نیا تھا، اس لیے مجھے مزہ آنے لگا، میں اس کے فون کا انتظار کیا کرتا تھا۔پھر جب ایک دفعہ اس کے گھر جانا ہوا تو معلوم ہوا کہ اس کی ایک ماں ہیں، جو بہت بیمار ہیں، کوئی عجیب سی بیماری تھی ان کو، جس میں ان کی ریڑھ کی ہڈی گھلی جارہی تھی،باپ اس کا مجھے کبھی گھر پر دکھائی نہیں دیتا تھا۔اول اول تو زیادہ کچھ پوچھنے گھچجنے کی ہمت نہیں ہوئی، مگر ہمت کا کیا تھا، وہ تو جھجھک کی چار پانچ دیواروں کو پھلانگتے ہی تروتازہ ہوجاتی ہے۔ایک دن معلوم ہوا کہ آفرین اپنے باپ کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی تھی، بچن میں اس کے باپ نے اس کے ساتھ زبردستی کی تھی اور اس میں کئی ایک دفعہ کامیاب بھی ہوا تھا، وہ شاید جب چودہ پندرہ برس کی رہی ہوگی، وقت گزرنے کے ساتھ جب اسے سمجھ آیا کہ یہ سب جو کچھ ہورہا ہے ،ٹھیک نہیں ہورہا،تو اس نے ایک روز ہمت کرکے باپ سے بات کی، اس بات کی شرمندگی تھی یا کچھ اور۔لیکن پھر اس کا باپ دور رہنے لگا،شاید مہینوں میں ، تہوار اہوار کے موقع پرگھر آیا کرتا اوراپنی بیوی سے مل کر اس کے لیے کوئی تحفہ چھوڑجایا کرتا۔آفرین کو اپنے باپ سے چڑ تھی، وہ اس کی شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتی تھی، اس کا ذکر بھی بے کار سمجھتی تھی۔شاید وہی اس کی زندگی کا سب سے بڑا دھبہ تھا، جس نے پھیل کر اس کے پورے بدن کو ایک عجیب سی سیاہی کی چپیٹ میں لے لیا تھا، اس واقعے پر میں نے اسے کبھی روتے آنسو بہاتے نہیں دیکھا تھا،وہ نہایت برے لہجے میں کہا کرتی تھی کہ آدمی کوئی بھی ہو،وہ اوپر سے نیچے تک ایک بڑا سا Penisہوتا ہے۔میں اس سے مل کر اس کی ایسی ہی بے باک باتوں سے متاثر ہوجایا کرتاتھا، اس بات کو بھول کر کہ وہ مجھے بھی اب محض استعمال میں آنے والی ایک شے سمجھتی ہے۔وہ دوبار اپنا حمل ضائع کراچکی تھی، دو بوائے فرینڈز ، جن سے شاید وہ شادی کر بھی لیتی، اسے چھوڑ کر جاچکے تھے۔کبھی کبھی سلپنگ پلز کا بھی استعمال کرتی تھی، شراب اور سگریٹ دونوں ہی میں نے اسے پیتے ہوئے دیکھا تھا۔بعض اوقات وہ مجھ سے کہتی تھی:
’’تم کیسے بے وقوف انسان ہو! شراب نہیں پیتے، سگریٹ نہیں پیتے اور شاعری کرتے ہو۔جبکہ شاعری نہ کرتے تو کوئی پریشانی نہیں تھی، لیکن شراب اور سگریٹ ضرور تمہیں پینی چاہیے تھیں۔‘
میں اسے بتاتا کہ’شراب اور سگریٹ سے آدمی کی زندگی برباد ہوجاتی ہے۔‘‘
وہ کہتی:’’شاعری سے کون سا آباد ہوتی ہے؟‘‘
میں کہا کرتاکہ’شراب اور سگریٹ نہیں پیتا تو کیا ہوا، سیکس تو کرتا ہوں۔یہ نشہ کوئی کم ہے؟‘
جواب میں وہ مسکراکرکہتی کہ’تمہیں کیسے شبہ ہوگیا کہ تم اچھا سیکس کرلیتے ہو، جیسے کسی شکم سیر توتے کے ہاتھ کوئی امرود لگ جائے اور وہ اسے جگہ جگہ سے کتر ڈالے ،نہ توتے کا کچھ بھلا ہوسکے اور نہ امرود کا ۔اسے سیکس کہتے ہو تم؟‘
میں جانتا تھا کہ زبان درازی کے ہنر میں میں اس سے جیت نہیں سکتا۔وہ مجھے فائلز میل کردیا کرتی تھی،یا فون پر کام سمجھا دیا کرتی تھی۔میں ان کاموں کو کبھی گورو، کبھی سچن کے یہاں کرکرا کے اسے بھیج دیا کرتا تھا۔آفرین نے ہمیشہ مجھے پیسے ٹھیک سے دلوائے، چاہے کسی کا بھی کام ہو، کتنا ہی چھوٹا کیوں نہ ہو۔اس میں سے آدھے پیسے وہ خود رکھا کرتی تھی، اس لیے کیونکہ کام وہ دلوایا کرتی تھی۔وقت گزرتا گیا، اس کے ساتھ رہ کر بہت سارے معاملات میں میرے اعتماد کو کافی زور حاصل ہوا۔میں اس سے مذہبی معاملات، کتابوں، شاعروں، فلسفیوں کی باتیں کرتا تو مرعوب ہوکر کہتی۔’’پڑھا تو تم نے بہت کچھ ہے، مگر اس کا فائدہ کیا ہے؟‘‘میں اس کی بات مانتا تھا۔اردو کی موٹی موٹی کتابیں پڑھنے سے واقعی مجھے اس وقت تک کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوا تھا۔میں اس وقت بارہویں کرچکا تھا اور گریجویشن میں تھا۔میں اسے بتایا کرتا تھا کہ مجھے اپنے والد سے ورثے میں شاعری کے علاوہ اور کچھ ملا ہی نہیں ہے، جو کچھ بنا تھا، میری جائے پیدائش وسئی میں ہی ختم ہوچکا تھا، وہاں سے برباد ہوکر، تبرکات کی طرح زندگی کا سارا سازو سامان، اپنی خوشیاں اورخوبیاں سب سمندر میں بہاکر میرا پورا خاندان دہلی چلا آیا تھا۔آفرین کے ساتھ رہ کر مجھے احساس ہوا کہ سچ کتنا ہی کڑوا ہو، اسے کھٹ سے بول دینا اتنا مشکل نہیں ہے، جتنا میں سمجھتا تھا،حالانکہ وہ خود بھی بہت جھوٹ بولا کرتی تھی، مگر مجھ سے اس لیے نہیں کیونکہ میں نے اسے کبھی کسی لڑکے کے ساتھ جانے، رہنے اور اس کا فائدہ اٹھانے سے روکا نہیں تھا۔وہ ہندوستانی سوسائٹی کے لحاظ سے ایک قابل نفریں لڑکی تھی، وجہ یہ تھی کہ اسے کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں تھا۔میں اسے سمجھانے کی کوشش کرتا تو وہ انکار کردیا کرتی تھی، اس کے حساب سے اسے یہ لائف اسٹائل پسند تھا۔وہ جہاں چاہے جاسکے، جس سے چاہے مل سکے۔پب، بار، کمینوٹی سینٹراور ہر بار پارٹی ، آفٹر پارٹی کا شور۔یہ سب مجھے ہمیشہ ایک مصنوعی قسم کی بور کردینے والی چیزیں لگتی تھیں۔زیادہ شور میں آج بھی میرا دل ڈوبنے لگتا ہے، مجھے ڈر لگتا ہے کہ کہیں مجھے اچانک دل کادورہ نہ پڑجائے۔میں نے اسے ایک آدھ دفعہ مذہب کا حوالہ بھی دیااور اسے جتایا کہ وہ ایک مسلمان لڑکی ہے، اسے یہ سب نہیں کرنا چاہیے۔اس کے جواب میں وہ کہا کرتی تھی کہ وہ جس مذہب میں بھی پیدا ہوئی ہے، وہ بائی چانس ہے، بائی چوائز نہیں۔نہ وہ اسلام کے بارے میں کچھ جانتی تھی، نہ دوسرے مذاہب کے۔جب میں نے اسے اسلام کی کچھ ابتدائی باتیں بتانا چاہیں تو اس نے مجھے روک دیا، سو میں بھی رک گیا۔اب سوچتا ہوں پتہ نہیں کیوں میں اسے مذہب کا حوالہ دیا کرتا تھا۔کیا دیتا اسے مذہب، اس کے بچپن کی ان کالی نفسیات کو اس پر قابض ہونے سے روک پاتا، جس کی ننگی سچائی یہ تھی کہ اس کا اپنا باپ اس کی عصمت دری کرتا تھا۔اس کی ماں ایک لاش کی طرح گھر کے کسی کونے میں پڑی اپنے دفن ہونے کا انتظار کررہی تھی، دنیا میں اتنے لوگ روتے ہیں، بلکتے ہیں، پریشان ہیں، ڈرے ہوئے ہیں، بندوقوں کی نوک پر جی رہے ہیں، کسی کے پھاڑے ہوئے کپڑوں سے اپنا تن ڈھانک رہے ہیں، مسجد اور مندر کی دہلیزوں کے اس طرف ادھ ننگے اودے، کالے ، پیلے بچے بھوک سے تنگ آکر سورہے ہیں، عورتیں دس دس روپے میں اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کی خاطر دوسروں کو اپنا بدن چھونے کی اجازت دے رہی ہیں۔ان سب کا کیا بنادیا مذہب نے۔اس کی تعلیم نے، اس کی برائے نام اچھائی نے۔وہ تو بس آیا اور کہنے لگا کہ جو اللہ کو مانے وہ اچھا، جو اللہ کو نہ مانے وہ برا۔یعنی جو بات بنیادی نہیں تھی، اسے بنیاد بنادیا،اور جو بات ضروری تھی، اسے حاشیے پر رکھ دیا۔زندگی کو لا الہ الا اللہ اور اوم نمہ شوائے سے کوئی مطلب نہیں ہے، اس کی بلا سے کائنات کس نے بنائی ہے، زندگی کے دانوں کو سانسوں کے رشتے میں کس نے پرویا ہے، وہ تو بس ضرورتوں کا، خواہشوں کا، جبلتوں کانام ہے۔انہی کو پانے کے لیے انسان دنیا بھر کے جرم کرتا ہے اور انہی کی منہ زوری کے بل پر دنیا کے سارے کام کاج چل رہے ہیں۔اللہ نے اگر دنیابنائی بھی ہے ، تو وہ کبھی دنیاوی معاملات میں اتنا دخیل نہیں ہوا، ہاں ہم اللہ کے معاملے میں شاید حد سے زیادہ دخل دینے لگے ہیں۔آفرین کہتی تھی مجھ سے، ہمت ہے تو جاؤ اور کسی رفیوجی سے مذہب کے بارے میں بات کرو! وہ تمہیں حقیقت سمجھائے گا اس کی۔

(3)

پھر یہ ہوا کہ رفتہ رفتہ میری اس سے ملاقات کم ہونے لگی، گریجویشن کا آخری سال تھا، جب مجھے عمیر منظر نے ریختہ والوں سے جاکر ملوادیا۔میں نوکری سے گھبراتا تھا، میں نے ان سے بھی یہی کہا کہ میں یہاں باقاعدہ نوکری نہیں کرسکتا، ان کا جو بھی کام ہوگا گھر پر بیٹھ کر کردیا کروں گا، لیکن انہوں نے کہا کہ تم نوکری کرو، وہ تمہارے حق میں زیادہ بہتر ہے۔خیران دنوں میں کچھ ٹھیک ٹھاک کپڑے پہننے لگا تھا، ریختہ میں نے جوائن کیا تھا اور ابھی یہ سلسلہ باقاعدگی کی صورت اختیار نہیں کرپایا تھا، میرے علاوہ وہاں کچھ کمپوزرز تھے ، شاید آٹھ دس لوگوں کی ٹیم رہی ہوگی۔وہاں میرے کام کے معاملات دھرمیندر ساہ کے ساتھ طے ہوئے تھے،یہ ایک بہاری نوجوان تھا، جو کہ پہلے پولی پلیکس نامی کمپنی میں تھا اور بعد میں ریختہ ویب سائٹ کے مینیجر کے طور پر اس شعبے میں آگیا تھا، ریختہ کا سارا کام کاج چھٹے فلور پر ہوا کرتا تھا۔زیادہ لوگ نہیں تھے، سو وہاں کے ایک کمرے میں بڑی سی ٹیبل کے گرد چار پانچ لوگ اور ایک کونے میں عدنان نامی ایک لڑکا کام کیا کرتا تھا، جو کہ فوٹو شوپ وغیرہ اچھا جانتا تھا، بعد میں جب باقاعدہ اسکیننگ شروع ہوئی تو اسی نے کتابیں شروعات میں اسکین کرنی شروع کی تھیں، مگر یہ قریب سات آٹھ مہینے بعد کی بات ہوگی، دھرمیندر کا رنگ سانولا تھا، قدکچھ ٹھیک ٹھاک، وہ نہ اردو سے واقف، نہ اردوکے ادیبوں کے مزاج سے۔ہوتا بھی کیسے کہ وہ بنیادی طور پر انجینئر نگ کی تعلیم حاصل کرکے آیا تھا۔البتہ مینیجنگ کے معاملے میں وہ ٹھیک ٹھاک تھا، کچھ دنوں بعد جب اردو میں غزلیں ریکارڈ کی جانے لگیں تو میں اس کی ایک بات پر بہت ہنسا کرتا تھا، وہ اکثر میرے والد کے غزلیں ریکارڈ کرانے کے بعد پوچھا کرتا تھاکہ آج آپ نے کتنی غزلیں گائی ہیں؟میں نے دھرمیندر ساہ کو کبھی باس واس نہیں سمجھا، اور نہ اس نے کبھی اس طرح کی کوئی بات کہی، ریختہ کے اپنے قیام کے دوران میں جب ایک دو بار میں نے اس پر ’باس‘ ہونے کاالزام لگانا چاہا تو اس نے صاف ہاتھ جھاڑ لیے۔میں نے اس وقت تک سنجیو صراف کو نہیں دیکھا تھا، ایک دن میرے والد کے توسط سے میری ان سے ملاقات ہوئی، تب تک میں یہی سمجھتا تھا کہ ریختہ کوئی جزوقتی پروجیکٹ ہے، جسے مکمل کرنے کے بعد ہم سب کو اپنے اپنے گھر کی راہ لینی ہوگی، سفید چمکدار چہرہ اور اس پر خوبصورت ہلکی سی ڈاڑھی۔ان کی عمر یہی کوئی پچاس کے پیٹے میں ہوگی، مگر اردو زبان و ادب سے ان کی محبت دیکھ کر میں چونک گیا۔انہی کے ذریعے مجھ پر یہ بات روشن ہوئی کہ اردو سے محبت کرنے والے لوگ واقعی ابھی بھی ہیں اور وہ بھی ایسے سنجیدہ لوگ۔ورنہ اس سے پہلے تو اردو کے نام پر یا تو ہم نے نام نہاد اکیڈمیوں کے چندہ خور سیکرٹری دیکھے تھے یا پھر چغد پروفیسرز۔ان دونوں ذاتوں سے آج تک اردو کا کوئی بھلا نہیں ہوا۔برا ضرور ہوا ہے اور جتنا اس قوم نے اردو کے حق میں زہر بویا ہے، شاید ہی کسی اور سے یہ کام ممکن ہوتا۔تعلیم کے نام پر صرف انسان نما گدھوں کی افزائش اور مطالعے کے نام پر صرف کچھ رٹائی رٹائی کتابوں کے موٹے موٹے جملے۔اس کے علاوہ نہ ڈھنگ کی تحقیق سے اس قوم کی دلچسپی ہے نہ تنقید سے۔خیر، اس میں ان کا اتنا دوش نہیں، بقول شہرام سرمدی انہیں پڑھاتے پڑھاتے نصابی کتابوں پر ادب کا دھوکہ ہوگیا ہے۔الغرض ریختہ میں دھیرے دھیرے لوگ بڑھنے لگے، اسے باقاعدہ کاروباری تنظیم بنایا جانے لگا، اول اول مجھ پر کسی قسم کی پابندی نہیں تھی، اکثر یہ ہوتا کہ سنجیو صراف اپنے کمرے میں بلا لیا کرتے ، انہیں شعروں کو موضوع کے اعتبار سے کیٹگرائز کرانے کا بڑا شوق تھا، سو اس کام میں ان کے ساتھ آٹھ نو بھی بج جایا کرتے تھے، خیر، جب بھی ایسا ہواانہوں نے اپنی گاڑی میں مجھے اور سالم سلیم کو گھر بھجوایا۔وہ بہت سلیم الطبع آدمی ہیں، اس لیے ان سے کبھی نہ کسی قسم کی مجھے شکایت ہوئی اور نہ پریشانی۔اکثرکارپوریٹ انڈسٹری میں باس ایسے نہیں ہوا کرتے ہیں، جیسے کہ وہ ہمارے ساتھ رہے۔ان کے ساتھ بتائے ہوئے وقت کے دوران میں میں نے کچھ شعر کہے تھے، جس میں سے ایک میں ان کا ذکر کیا تھا
سرمئی جسم پہ لکھا ہوا اک قصہ ناف کا پڑھتا ہوں
اس کے بعد میں سگریٹ پی کر فرانز کافکا پڑھتا ہوں
مذہب میری بلا جانے میں اپنے شکم سے ہار گیا
میں نعرے ہنر کے لگاتا ہوں،کلمہ صراف کا پڑھتا ہوں
ریختہ کے دورانیے میں مجھے سالم سلیم کے ساتھ زیادہ وقت بتانے کا موقع ملا، میں اور وہ صبح ساتھ میں آفس جایا کرتے اور شام کو ساتھ میں گھر آتے۔ہم شعر و شاعری پر بڑی لمبی لمبی گفتگوئیں کیا کرتے، ساتھ میں خوبصورت لڑکیوں کو تاڑتے اور جنسی موضوعات پرتبادلۂ خیالات کیا کرتے۔اس لیے مجھے لگتا ہے کہ اس دوران میں کیے گئے میرے شعری تجربات کو جتنا سالم سمجھ سکتا ہے، شاید کوئی اور نہ سمجھے۔فرحت احساس بھی وہیں تھے، دہلی میں جب ہم نئے نئے آئے تھے تو میں ان سے بڑا متاثر تھا، اپنی کچھ عجیب و غریب رومانی شاعری کا مسودہ(جو کہ خدا کا شکر ہے شائع نہیں ہوا)لے کر ان کے پاس میں لے کر گیا تھا، جس پر ان کا بڑکپن ہے کہ انہوں نے کچھ جملے لکھ دیے تھے۔فرحت احساس کو ریختہ کے دور میں میں نے بہت قریب سے دیکھا، وہ بہت صاف گو شخص تھے،ان کے لمبے لمبے بال ان کی شناخت بن گئے تھے، جو کہ اب کندھے تک سانپ کی طرح لہرائے پھرتے تھے، اول اول ہم ان کی درویشی کو شک کی نگاہ سے دیکھتے تھے، مگر بعد میں معلوم ہوا کہ نہیں، وہ واقعی کچھ معاملات میں بے نیاز آدمی ہیں، اب تھوڑا بہت دنیا دار اورتعلق دار تو ہم سب کو ہونا پڑتا ہے، ورنہ ریختہ میں ان کی شمولیت سے معیار واقعی بلند ہوا تھا، بس اکادکا لوگوں پرمجھے اعتراض رہا، باقی کل ملا کر فرحت صاحب کی شخصیت اور سچائی پر شک نہیں کیا جاسکتا۔انہوں نے جشن ریختہ میں مشاعرے کی دھما چوکڑی کے خلاف جوشاندارتقریر کی ، وہ واقعی سننے سے تعلق رکھتی ہے۔یہ بات سچ ہے کہ بنیادی طور پر وہ شاعر آدمی ہیں ، مگر ان کے آس پاس بیگ اٹھاکر ان کی جی حضوری کرنے والے لوگوں میں بہت سے متشاعر بھی شامل ہیں، جنہیں یقینی طور پر فرحت صاحب کی قربت کا زبردست فائدہ حاصل ہوا ہے۔بہرحال رفتہ رفتہ ریختہ سے میرا دل خودبخود اچاٹ ہوتا جارہا تھا، اس کی دو تین وجوہات تھیں۔ایک طرف مینیجر صاحب اچانک باس بننے کی کوشش میں جٹے ہوئے تھے، وہ اردو کی شاعری کو ہندی کے سامعین کی سطح پر لاکر وزیٹنگ اسٹیٹس بڑھانے کے درپے تھے، جس کے لیے احمد فرازوں اور صابر وسیموں کی بڑی ضرورت تھی، دوسری طرف ایک خاص قسم کا کرپشن اردو والوں کے ساتھ ہورہا تھا، بات یہ تھی کہ ریختہ کے لیے بنیادی طور پر کام کرنے والے کمپوزرز اور ایڈیٹنگ بورڈ میں کام کرنے والے لوگ پے رول پر نہیں تھے، لیکن جو لوگ ریختہ ایڈمن کے شعبے میں تھے، ان سب کو پالی پلیکس کے پے رول پر رکھا گیا تھا، ہم نے جب اس بات پر اعتراض جتایا تو پے رول کے نام پر ہر ماہ دس ہزار روپے کا چیک ہاتھ میں تھما کر باقی رقم کیش دے دی جاتی، باقی لوگوں کی شاید اس بات سے تشفی ہوگئی ہو ،مگر اس بات سے میں بالکل اتفاق نہیں رکھتا تھا، کیونکہ اسے پے رول پر لینا نہیں کہاجاسکتا ہے۔وہ تنظیم جو رفتہ رفتہ اپنے ڈسپلن، اپنے نظام میں باقاعدگی اور چھٹیوں کے حساب سے رقم کاٹنے کے حساب کتاب پر کارپوریٹ نیچر آف ورک کا حوالہ دیتی ہو، اس کے لیے لازم تھا کہ وہ دوسری تنظیموں کی طرح اپنے کام کرنے والوں کو پے رول پر لے، تاکہ وہ بھی دوسری کمپنیوں کے ملازمین کی طرح اپنی نوکری سے کچھ مناسب فائدے حاصل کرسکیں۔یہ تو صارفین کو ٹھگنے جیسی بات تھی، اس کے پیچھے وجوہات جو بھی رہی ہوں مگر مجھے یہ بات پسند نہیں تھی۔چنانچہ میں نے اس کی مخالفت بھی کی اور رفتہ رفتہ میرے کام میں بھی سستی آگئی۔ایک طرف دھرمیندر ساہ ان سب باتوں کی ان سنی کرتا رہا تھا تو دوسری جانب اس نے کمار وشواس جیسے دوٹکے کے متشاعروں کو ریختہ سے جوڑنے کا منصوبہ بنایا ہوا تھا اور دلیل یہ تھی کہ اس کے ایک ٹوئیٹ کردینے سے ہماری ویب سائٹ ہزاروں قارئین تک پہنچ سکے گی۔میرا ماننا تھا کہ نیت اچھی ہو تب بھی کام اچھی طرح ہوسکتے ہیں اور کسی بھی غیر منافع بخش ادارے کو اس طرح کے ہتھکنڈے اپنانے کی آخر کیا ضرورت ہے۔اردو والوں کا نہ صحیح، مگر میرا اپنا استحصال اور ایسی ان سنی مجھے اچھی نہیں لگی، چنانچہ جب دھرمیندر ساہ سے آخری بار کہا سنی ہوئی تو میں نے اس ادارے کو خیر باد کہنا ہی مناسب خیال کیا۔لیکن ظاہر ہے کہ یہ ساری باتیں نہایت اندرونی ہیں اور اس سے ان خدمات پر بالکل اثر نہیں پڑتا، جنہیں ریختہ نے انجام دیا تھا۔


(جاری ہے)

کوئی تبصرے نہیں:

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *