جمعہ، 16 اکتوبر، 2015

میری ماں کہاں/کرشنا سوبتی

کرشنا سوبتی 18 فروری 1925 کو پنجاب کے شہر گجرات میں پیدا ہوئیں، جو کہ اب پاکستان میں ہے۔پچاس کی دہائی سے آپ نے کہانیاں لکھنی شروع کیں اور آپ کی پہلی کہانی لامہ 1950 میں شائع ہوئی۔آپ ہندی زبان کے فکشن نگاروں میں ایک اہم نام ہیں۔ 'ڈار سے بچھڑی، زندگی نامہ، اے لڑکی، مترو مرجانی وغیرہ آپ کی مشہور کہانیاں ہیں۔ہندوستان میں آپ کو پچاسوں چھوٹے بڑے انعامات کے ساتھ ساہتیہ اکادمی ایوارڈ بھی ملا تھا، جو کہ آپ نے حال ہی میں ادیبوں پر ہونے والے حملوں اور دادری میں ایک شخص کے بے رحمانہ قتل پر اپنا احتجاج درج کراتے ہوئے واپس کردیا ہے۔ان کی درج ذیل کہانی تقسیم کے بعد انسان کے درمیان کھینچ گئی ایک بے رحمانہ لکیر کا منظر دکھاتی ہے، جو کہ بچوں تک کے ذہن میں کیسے اپنی جگہ بناتی چلی گئی تھی۔کہانی دلچسپ ہے اور ان دنوں پوری دنیا میں موجود فرقہ واریت کے سامنے ایک چھوٹا سا مگر اہم سوال داغتی ہوئی نظر آتی ہے۔



دن کے بعد اس نے چاند ستارے دیکھے ہیں۔ اب تک وہ کہاں تھا؟ نیچے، نیچے، شاید بہت نیچے۔۔۔ جہاں کی کھائی انسان کے خون سے بھر گئی تھی۔ جہاں اس کے ہاتھ کی صفائی بے شمار گولیوں کی بوچھار کر رہی تھی۔ لیکن، لیکن وہ نیچے نہ تھا۔ وہ تو اپنے نئے وطن کی آزادی کے لئے لڑ رہا تھا۔ وطن کے آگے کوئی سوال نہیں، اپنا کوئی خیال نہیں! تو چار دن سے وہ کہاں تھا؟ کہاں نہیں تھا وہ؟ گجرانوالا، وزیرآباد، لاہور! وہ اور میلوں چیرتا ہوا ٹرک۔ کتنا گھوما ہے وہ؟ یہ سب کس کے لئے؟ وطن کے لئے، قوم کے لئے اور۔۔۔؟ اور اپنے لئے! نہیں، اسے خود سے اتنی محبت نہیں! کیا لمبی سڑک پر کھڑے کھڑے یونس خاں دور دور گاؤں میں آگ کی لپٹیں دیکھ رہا ہے؟ چیخوں کی آواز اسکے لئے نئی نہیں۔ آگ لگنے پر چلاّنے میں کوئی نیاپن نہیں۔ اس نے آگ دیکھی ہے۔ آگ میں جلتے بچے دیکھے ہیں، عورتیں اور مرد دیکھے ہیں۔ رات رات بھر جل کر صبح خاک ہو گئے محلوں میں جلے لوگ دیکھے ہیں! وہ دیکھ کر گھبراتا تھوڑے ہی ہے؟ گھبرائے کیوں؟ آزادی بنا خون کے نہیں ملتی، کرانتی بنا خون کے نہیں آتی، اور، اور، اسی کرانتی سے تو اسکا ننھا سا ملک پیدا ہوا ہے ! ٹھیک ہے۔ رات دن سب ایک ہو گئے۔ اس کی آنکھیں انیندی(بے خواب) ہیں، لیکن اسے تو لاہور پہنچنا ہے۔ بالکل ٹھیک موقعے پر۔ ایک بھی کافر زندہ نہ رہنے پائے۔ اس ہلکی ہلکی سرد رات میں بھی 'کافر' کی بات سوچ کر بلوچ جوان کی آنکھیں خون مارنے لگیں۔ اچانک جیسے ٹوٹا ہوا سلسلہ پھر جڑ گیا ہے۔ ٹرک پھر چل پڑاہے۔ تیز رفتار سے۔
سڑک کے کنارے کنارے موت کی گودی میں سمٹے ہوئے گاؤں، لہلہاتے کھیتوں کے آس پاس لاشوں کے ڈھیر۔ کبھی کبھی دور سے آتی ہوئی 'اللہ اکبر' اور 'ہر ہر مہادیو' کی آوازیں۔ 'ہائے، ہائے' ۔۔۔'پکڑو پکڑو' ۔۔۔' ۔۔۔۔ یونس خاں یہ سب سن رہا ہے۔ بالکل چپ چاپ۔ اس سے کوئی سروکار نہیں اسے۔ وہ تو دیکھ رہا ہے اپنی آنکھوں سے ایک نئی مغلیہ سلطنت شاندار، پہلے سے کہیں زیادہ بلند۔۔۔۔
چاند نیچے اترتا جا رہا ہے۔ دودھ سی چاندنی نیلی پڑ گئی ہے۔ شاید پرتھوی کالہو اوپر زہربن کر پھیل گیا ہے۔
'دیکھو، ذرا ٹھہرو۔' یونس خاں کا ہاتھ بریک پر ہے۔ یہ یہ کیا؟ ایک ننھی سی، چھوٹی سی چھایا ! چھایا؟ نہیں، خون سے بھیگی شلوار میں بے ہوش پڑی ایک بچی!
بلوچ نیچے اترتا ہے۔ زخمی ہے شاید! مگر وہ رکا کیوں؟ لاشوں کے لئے کب رکا ہے وہ؟ پر یہ ایک گھائل لڑکی۔۔۔۔ اس سے کیا؟ اس نے ڈھیروں کے ڈھیر دیکھے ہیں عورتوں کے۔۔۔ نہیں، وہ اسے ضرور اٹھا لے گا۔ اگر بچ سکی تو۔۔۔۔ وہ ایسا کیوں کر رہا ہے یونس خاں خود نہیں سمجھ پا رہا۔۔۔۔ لیکن اب اسے وہ نہ چھوڑ سکےگا۔۔۔ ہے تو کیا؟
بڑے بڑے مضبوط ہاتھوں میں بیہوش لڑکی۔ یونس خاں اسے ایک سیٹ پر لٹاتا ہے۔ بچی کی آنکھیں بند ہیں۔ سر کے کالے گھنے بال شاید گیلے ہیں۔ خون سے اور، اور چہرے پر۔۔۔؟ پیلے چہرے پر خون کے چھینٹے۔
یونس خاں کی انگلیاں بچی کے بالوں میں ہیں اور بالوں کا لہو اسکے ہاتھوں میں۔۔۔ سہلانے کی کوشش میں! پر نہیں، یونس خاں اتنا جذباتی کبھی نہیں تھا۔ اتنا رحم، اتنی دیا اسکے ہاتھوں میں کہاں سے اتر آئی ہے؟ وہ خود نہیں جانتا۔ بے ہوش بچی ہی کیا جانتی ہے که جن ہاتھوں نے اسکے بھائی کو مار کر اس پرحملہ کیا تھا انہی کے ہم مذہب ہاتھ اسے سہلا رہے ہیں!
یونس خاں کے ہاتھوں میں بچی۔۔۔ اس کی متشدد آنکھیں نہیں، اسکی نم آنکھیں دیکھتی ہیں دور کوئٹے میں ایک سرد، بالکل سرد شام میں اسکے ہاتھوں میں بارہ سال کی خوبصورت بہن نورن کا جسم، جسے چھوڑ کر اسکی بیوہ امی نے آنکھیں موند لی تھیں۔
سنسناتی ہوا میں قبرستان میں اسکی پھول سی بہن موت کے دامن میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دنیا سے بے خبر۔۔۔ اس پرانی یاد میں کانپتا ہوا یونس خاں کا دل دماغ۔
آج اسی طرح، بالکل اسی طرح اسکے ہاتھوں میں۔۔۔۔ مگر کہاں ہے وہ یونس خاں جو قتل عام کو دین اور ایمان سمجھ کر چار دن سے خون کی ہولی کھیلتا رہا ہے۔۔۔ ؟ کہاں ہے؟
یونس خاں محسوس کر رہا ہے که وہ ہل رہا ہے، وہ ڈول رہا ہے۔ وہ کب تک سوچتا جائے گا۔ اسے چلنا چاہیے، بچی کے زخم !رب العالمین۔۔۔ پھر، ایک بار پھر تھپتھپا کر، آدر سے، بھیگی بھیگی ممتا سے بچی کو لٹا کریونس خاں فوجی کی تیزی سے ٹرک سٹارٹ کرتا ہے۔ اچانک سوجھ جانیوالے فرض کی پکار میں۔ اسے پہلے چل دینا چاہیےتھا۔ ہو سکتا ہے یہ بچی بچ جائے۔۔۔ زخموں کی مرہم پٹّی۔ تیز، تیز اور تیز ! ٹرک بھاگا جا رہا ہے۔ دماغ سوچ رہا ہے وہ کیا ہے؟ اسی ایک کے لئے کیوں؟ ہزاروں مر چکے ہیں۔ یہ تو لینے کا دینا ہے۔ وطن کی لڑائی جو ہے! دل کی آواز ہے چپ رہو۔۔۔ معصوم بچوں کی ان قربانیوں کا آزادی کے خون سے کیا تعلق؟ اور ننھی بچی بےہوش، بے خبر۔۔۔
لاہور آنے والا ہے۔ یہ سڑک کے ساتھ ساتھ بچھی ہوئی ریل کی پٹریاں۔ شاہدرہ اور اب ٹرک لاہور کی سڑکوں پر ہے۔ کہاں لے جائےگا وہ؟ مے یو ہاسپٹل یا سر گنگا رام؟ ۔۔۔ کیوں؟ یونس خاں چونکتا ہے۔ وہ کیا اسے لوٹانے جا رہا ہے؟ نہیں، نہیں، اسے اپنے پاس رکھےگا۔ ٹرک مے یو ہاسپٹل کے سامنے جا رکتی ہے۔
اور کچھ پل بعد بلوچ فکرمندلہجے میں ڈاکٹر سے کہہ رہا ہے، 'ڈاکٹر، جیسے بھی ہو، ٹھیک کر دو۔۔۔ صحیح سلامت چاہتا ہوں میں !' اور پھر بے قرار ہو کر، 'ڈاکٹر، ڈاکٹر۔۔۔' اسکی آواز صاف نہیں رہتی۔
'ہاں، ہاں، پوری کوشش کریں گے اسے ٹھیک کرنے کی۔'
بچی ہاسپٹل میں پڑی ہے۔ یونس خاں اپنی ڈیوٹی پر ہے، مگر کچھ بے چین سا، حیران، فکر مند ۔ پیٹرول کررہا ہے۔
لاہور کی بڑی بڑی سڑکوں پر۔ کہیں کہیں رات کی لگی ہوئی آگ سے دھواں نکل رہا ہے۔ کبھی کبھی ڈرے ہوئے، سہمے ہوئے لوگوں کی ٹولیاں کچھ فوجیوں کے ساتھ نظر آتی ہیں۔ کہیں اسکے اپنے ساتھی شہدوں کے ٹولوں کو اشارہ کرکے ہنس رہے ہیں۔ کہیں کوڑا کرکٹ کی طرح آدمیوں کی لاشیں پڑی ہیں۔ کہیں اجاڑ پڑی سڑکوں پر ننگی عورتیں، بیچ بیچ میں نعرے نعرے، اور اونچے! اور یونس خاں، جسکے ہاتھ کل تک خوب چل رہے تھے، آج شل ہیں۔ شام کو لوٹتے ہوئے جلدی جلدی قدم بھرتا ہے۔ وہ اسپتال نہیں، جیسے گھر جا رہا ہے۔
ایک اجنبی بچی کے لئے کیوں گھبراہٹ ہے اسے؟ وہ لڑکی مسلمان نہیں، ہندو ہے، ہندو ہے۔
دروازے سے پلنگ تک جانا اسے دور، بہت دور جانا لگ رہا ہے۔ لمبے لمبے ڈگ۔
لوہے کے پلنگ پر بچی لیٹی ہے۔ سفید پٹیوں سے بندھا سر۔ کسی بھیانک منظر کے ڈرسے آنکھیں اب بھی بند ہیں۔ سندر سے بھولے مکھ پر ڈر کی بھیانک چھایا۔۔۔۔
یونس خاں کیسے بلائے کیا کہے؟ 'نورن' نام ہونٹوں پر آکے رکتا ہے۔ ہاتھ آگے بڑھتے ہیں۔ چھوٹے سے گھائل سر کا لمس، جس ملائمت سے اسکی انگلیاں اسےچھو رہی ہیں اتنی ہی بھاری آواز اسکے گلے میں رک گئی ہے۔
اچانک بچی ہلتی ہے۔ زخم خوردہ لہجے میں، جیسے بےہوشی میں بڑبڑاتی ہے
'کیمپ، کیمپ۔۔۔ آ گیا۔ بھاگو۔۔۔'
'کچھ نہیں، کچھ نہیں دیکھو، آنکھیں کھولو۔۔۔'
'آگ، آگ۔۔۔ گولی۔۔۔'
بچی اسے اپنے نزدیک جھکا ہوادیکھتی ہے اور چیخ مارتی ہے۔۔۔
'ڈاکٹر، ڈاکٹر۔۔۔، اسے اچھا کر دو۔'
ڈاکٹر تجربہ کار آنکھوں سے دیکھ کر کہتا ہے، 'تم سے ڈرتی ہے۔ یہ کافر ہے، اسی لئے۔'
کافر۔۔۔یونس خاں کے کان جھنجھنا رہے ہیں، کافر۔۔۔ بچایا جائے اسے؟ کافر؟ ۔۔۔ نہیں۔۔۔ اسے اپنے پاس رکھوں گا!
اسی طرح بیت گئیں وہ خونی راتیں۔ یونس خاں مضطرب سا اپنی ڈیوٹی پر اور بچی ہاسپٹل میں۔
ایک دن۔ بچی اچھی ہونے کو آئی۔ یونس خاں آج اسے لے جائیگا۔ ڈیوٹی سے لوٹنے کے بعد وہ اس وارڈ میں آ کھڑا ہوا۔
بچی بڑی بڑی آنکھوں سے دیکھتی ہے۔ اسکی آنکھوں میں ڈر ہے، گھن ہے اور، اور، اندیشہ ہے۔
یونس خاں بچی کا سر سہلاتا ہے، بچی کانپ جاتی ہے! اسے لگتا ہے که وہ ہاتھ گلا دبوچ دینگے۔ بچی سہم کر پلکیں موند لیتی ہے! کچھ سمجھ نہیں پاتی کہاں ہے وہ؟ اور یہ بلوچ؟ ۔۔۔ بھیانک رات! اور اس کا بھائی! ایک جھٹکے کے ساتھ اسے یاد آتا ہے که بھائی کی گردن گنڈاسے کٹ کرسے دور جا پڑی تھی!
یونس خاں دیکھتا ہے اور دھیمے سے کہتا ہے، 'اچھی ہو نا ! اب گھر چلیں گے!'
بچی کانپ کر سر ہلاتی ہے، 'نہیں نہیں، گھر۔۔۔ کہاں ہے! مجھے تم مار ڈالو گے۔'
یونس خاں دیکھنا چاہتا تھا نورن، لیکن یہ نورن نہیں، کوئی انجان ہے جو اسے دیکھتے ہی ڈر سے سکڑ جاتی ہے۔
بچی سہمی سی رک رک کر کہتی ہے، 'گھر نہیں، مجھے کیمپ میں بھیج دو۔ یہاں مجھے مار دینگے۔۔۔ مار دینگے۔۔۔'
یونس خاں کی پلکیں جھک جاتی ہیں۔ ان کے نیچے ایک فوجی کی بے رحمی نہیں، طاقت نہیں، جبر نہیں۔ ان کے نیچے ہے ایک ناقابل برداشت احساس، ایک لاچاری۔۔۔۔بے بسی
بلوچ رحمدلی سے بچی کو دیکھتا ہے۔ کون بچا ہوگا اسکا؟ جو اسےاپنے پاس رکھے گا۔ بلوچ کسی انجان قربت کے احساس میں بھیگا جا رہا ہے۔۔۔
بچی کو ایک بار مسکراتے ہوئے تھپتھپاتا ہے، 'چلو چلو، کوئی فکر نہیں، ہم تمہارا اپنا ہے۔۔۔'
ٹرک میں یونس خاں کے ساتھ بیٹھ کر بچی سوچتی ہے، بلوچ کہیں اکیلے میں جا کر اسے ضرور مار دینے والا ہے۔۔۔ گولی سے، چھرے سے ! بچی بلوچ کا ہاتھ پکڑ لیتی ہے، 'خان، مجھے مت مارنا۔۔۔ مت۔۔۔' اسکا سفید پڑا چہرہ بتا رہا ہے که وہ ڈر رہی ہے۔
خان بچی کے سر پر ہاتھ رکھ کر کہتا ہے، 'نہیں نہیں، کوئی ڈر نہیں۔۔۔ ڈر نہیں۔۔۔ تم ہمارا سگا کے ماپھک ہے۔۔۔۔'
ایکاایک لڑکی پہلے خان کا منھ نوچنے لگتی ہے پھر رو رو کر کہتی ہے، 'مجھے کیمپ میں چھوڑ دو، چھوڑ دو مجھے۔'
خان نے ہمدردی سے سمجھایا، 'صبر کرو، روؤ نہیں۔۔۔ تم ہمارا بچہ بن کے رہے گا۔۔۔۔۔ ہمارے پاس۔'
'نہیں۔۔۔' لڑکی خان کی چھاتی پر مٹھیاں مارنے لگی، 'تم مسلمان ہو۔۔۔۔'
ایکاایک لڑکی نفرت سے چیخنے لگی، 'میری ماں کہاں ہے! میرے بھائی کہاں ہیں! میری بہن کہاں۔۔۔۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *