یہ تینوں کہانیاں، عبدالسمیع کی ترتیب دی ہوئی دیوندر ستیارتھی کی کہانیوں کی کلیات شہر شہرآوارگی سے لی گئی ہیں، عبدالسمیع نے اس پوری کلیات کو ادبی دنیا پراپلوڈ کرنے کی اجازت دے دی ہے، مگر میرے خیال میں جستہ جستہ ان کہانیوں کو آپ کو پڑھوایا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا، اس طرح کہانیاں میں بھی پڑھ لوں گا، اور آپ بھی ان سے لطف اندوز ہوتے رہیں گے، دیوندر ستیارتھی کی ذات سے کون واقف نہیں، ان کی ادبی خدمات کا بھی ایک زمانہ معترف ہے۔ان کی زندگی سیر و سیاحت میں گزری اور اس سیاحت میں انہوں نے ہندوستان ، پاکستان کے بہت سے لوک گیت جمع کرکے ایک بہت ہی ضخیم کتاب مرتب کی تھی، اس کتاب میں موجود لوک گیتوں کو بھی کسی نہ کسی صورت میں ادبی دنیا کے ذریعے آپ تک پہنچانے کی کوشش کروں گا، انٹرنیٹ بہت مفیدذریعۂ علم ہے، بشرطیکہ اس سے صحیح فائدہ اٹھایاجائے۔ دیوندر ستیارتھی کی یہ تین کہانیاں میں نے پڑھیں تو سوچاآپ لوگوں کے ساتھ انہیں شیئر کروں، یہ آپ کو ضرورپسند آئیں گی، خاص طور پر ان دنوں ہندوستان کی جو حالت ہے، اس میں یہ کہانیاں خاص طور پر زندہ، سالم و ثابت نظر آتی ہیں،ان کے کردار نہیں مرے، ان میں موجود مسائل نہیں مرے، آزادی کے قریب لکھی گئی ان کہانیوں کا کرب نہیں مرا، بس ہم مرتے جارہے ہیں۔خیر، اب کہانیاں پڑھیے اور ستھیارتی کے فن کو داد دیجیے اور عبدالسمیع کو دعا کہ یہ سب انہی کی وجہ سے ممکن ہواہے۔
راجدھانی کو پَرنام
ناگ پھنی کے پودوں کے قریب ایک بوسیدہ مکان کے سامنے شنکربابا اپنی نیم اندھی آنکھوں سے سڑک کی طرف دیکھ رہا تھا۔ یا یہ کہیے کہ دیکھنے کی کوشش کررہا تھا۔ آج شہر کی طرف سے بہت سی لاریاں پہیوں کی دندناتی ہوئی آواز کو ہوا میں اُچھالتے ہوئے گزررہی تھیں۔ اتنی لاریوں کا کیا مطلب ہے؟ یہ سوال اسے پریشان کررہا تھا۔ اچانک اسے انسانی قدموں کی چاپ سنائی دی۔
’’کون؟ —— دیپ چند؟‘‘ شنکر بابا نے تیزی سے سر گھماتے ہوئے پوچھ لیا۔ کیونکہ وہ تین دن سے دیپ چند کا انتظار کررہا تھا۔
’’پالاکن، بابا!‘‘ آنے والے نے کسی قدر جھک کر اور چہرے پر ایک شگفتہ سی مسکراہٹ لاتے ہوئے کہا۔ اگرچہ بابا کی نیم اندھی آنکھوں میں اب اتنی طاقت نہیں رہ گئی تھی کہ وہ مسکراہٹ تو مسکراہٹ ، کسی کے خدوخال کا صحیح جائزہ بھی لے سکے۔
دیپ چند کی آواز پہچان کر بابا کو بہت خوشی ہوئی۔ کیونکہ تین روز سے وہ اسی کے انتظار میں سڑک کے قریب چلا آتا تھا۔ نہ جانے کیا سوچ کر وہ کہہ اُٹھا:
’’میں تو جانوں شہر گانو کی طرف بڑھ رہا ہے۔‘‘
لیکن دیپ چند شنکر بابا کی ہاں میں ہاں ملانے کے لیے تیار نہ تھا۔ وہ تو خود شہر سے آرہا تھا اور ایسی کوئی بات اس نے کسی کی زبان سے نہیں سُنی تھی۔ بظاہر وہ بولا:
’’ہم بھی انسان ہیں، ڈھور تو نہیں کہ کوئی جدھر چاہے ہانک دے۔‘‘
شنکربابا کو ہنسی آگئی جس میں نفرت کی بہت زیادہ آمیزش تھی۔ وہ کہنا چاہتا تھا کہ شہروالے جو چاہیں کر گزریں کیونکہ وہ اندر ہی اندر کھوٹے ہوتے ہیں۔ لیکن اپنے من پر قابو پاکر وہ کہہ اُٹھا:
’’تم سچ کہتے ہو دیپ چند۔ ہم ڈھور تو نہیں۔ ہمارا بھی بھگوان ہے۔‘‘
لیکن سڑک سے برابر لاریاں گزررہی تھیں ان کے پہیوں کے شور کے پس منظر میں کان کے پردے پھاڑنے والی ہارن کی آواز گونج اُٹھتی تھی۔ وہ کہنا چاہتاتھا کہ دال میں کچھ نہ کچھ کالا ضرور ہے۔ شہر سے بھگوان ہی بچائے ہمارے گانو کو۔ ورنہ یہ جھوٹا، دغابازمکار شہر جو بھی کر گزرے تھوڑا ہے۔ گانو کو چاہیے کہ اپنی جان تک لڑا دے اور اپنی زمین سے گز برابر جگہ بھی نہ دے۔ سب دھوکا ہے دھوکا۔ یہ بات تو بھگوان کو بھی نہیں بھائے گی کہ جس دھرتی پر اَن اُگ سکتا ہے وہاں اَن اُگانے پر روک لگا دی جائے۔ یہ تو دھرتی کا اَپمان ہے۔ دھرتی یہ اَپمان نہیں سہہ سکتی۔ سوچ سوچ کر وہ کہہ اُٹھا۔
’’یہ سب دھرم کی کمی کے کارن ہورہا ہے، دیپ چند۔‘‘
’’دھرم بنا نروان کہاں؟‘‘ دیپ چند نے جیسے کسی گیت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا۔ اگرچہ وہ من ہی من میں جھینپ سا گیا۔ ابھی اگلے ہی روز شہر میں نہ جانے کون کہہ رہا تھا کہ آج نروان یا مکتی کی تلاش کی بجائے انسان آزادی کے لیے اپنی جان قربان کررہا ہے۔ اس کے دماغ کو جھٹکا سا لگا۔ اس کے دل میں تو یہ خیال شہد کی جنگلی مکھّی کی طرح بھنبھنانے لگا کہ سچ مچ دھرم کے بغیر آزادی مل سکتی ہے۔ لیکن جھٹ اُسے یاد آیا کہ اب تو جنگ بھی ختم ہوچکی ہے۔ آزادی کو تو اب آہی جانا چاہیے۔ بہت انتظار ہولیا۔ اس نے دور سڑک کی طرف نگاہ ڈالی جیسے یکایک کوئی لاری رُک جائے گی اور لاری سے اُتر کر آزادی کی دیوی سب سے پہلے اسی بوسیدہ مکان کے رستے پر چل پڑے گی۔ اس وقت اسے ناگ پھنی کے پودوں کی قطار پر بے حد جھنجھلاہٹ سی محسوس ہوئی۔ آزادی کی دیوی کے سواگت کے لیے تو کوئی نیا ہی اُپائے ہونا چاہیے۔
شنکر بابا مٹی کے چبوترے پر بیٹھے بیٹھے بچپن کی یاد میں کھوگیا جب ابھی ادھر سے یہ سڑک بھی نہیں نکلی تھی۔ کھیت سے گانو کافی دور تھا اور اس کا باپ کھلی ہوا میں رہنا زیادہ پسند کرتا تھا۔ بہت سوچ سوچ کر اس نے یہ کوٹھا بنانے کا فیصلہ کیا تھا۔ سال کے سال اس کوٹھے کی چھت اور دیواروں پر لپائی پوتائی کی جاتی تھی۔ اس وقت اسے ایسے ہی دوسرے کوٹھوں کا دھیان آیا جو اس سے پہلے تعمیر کیے گئے تھے اور سڑک کے بیچ میں آجانے کے سبب سے گرا دیے گئے تھے۔ اب تو محض تین چار کوٹھے ہی تھے جو سڑک کے کنارے یا اس سے کسی قدر ہٹ کر نظر آرہے تھے۔ سڑک نے بہت سے کھیتوں کو دو دو حصّوں میں بانٹ دیا تھا۔ خیر یہ تو پُرانی کہانی تھی۔ نئی کہانی تو اتنی ہی تھی کہ اب سڑک کے کنارے کسی کو نیا کوٹھا بنانے کی اجازت نہیں۔ لگے ہاتھوں یہ حکم بھی سنا دیا گیا تھا کہ کوئی سڑک کے کنارے اپنے کوٹھے کی لپائی پوتائی نہ کرے۔ اس کا مطلب صاف یہی تھا کہ یہ کوٹھے خود ہی گرجائیں گے۔
دیپ چند نہ جانے کیا سوچ کر کوٹھے میں جھاڑو دینے لگا۔ شاید اس کے ذہن کے کسی کونے میں آزادی کی دیوی کی تصویر اُجاگر ہورہی تھی۔ باربار اس کی نگاہیں سڑک کی طرف اُٹھ جاتیں۔ جیسے اسے یقین آرہا ہو کہ آزادی کی دیوی نے جیب سے پیسے دے کر لاری کا ٹکٹ لیا ہوگا اور اسے ٹھیک منزل پر اُترنے کی بات نہیں بھولے گی۔جنگ تو کبھی کی ختم ہوچکی، اس نے سوچا اب تو بہت سے فوجی بھی برخاست کردیے گئے۔ توپ بندوق سنبھالنے کی بجائے یہ لوگ پھر سے ہل چلائیں گے۔ یہ دھرتی کی جیت ہے۔ جن لوگوں کی دھڑادھڑ گرفتاریاں عمل میں آئی تھیں وہ سب لمبی قیدیں کاٹ کر باہر آچکے ہیں۔ ہاں جن ماؤں کے بیٹے جنگ میں کام آئے، یا آزادی کی لڑائی میں پولیس کی گولیوں کا نشانہ بن گئے ابھی تک اُداس بیٹھی ہوں گی۔ وہ شنکربابا سے کہنا چاہتا تھا کہ پت جھڑ کے بعد دوبارہ بسنت آتا ہے۔ پھاگن آئیو رنگ بھریو … وہ زیر لب گنگنانے لگا۔ وہ چاہتا تھا کہ پھاگن کی تعریف میں باتوں کے پُل باندھ دے۔ کیسا سہانا سماں ہے۔ نہ سردی نہ گرمی۔ سال کے سال یہ رُت آتی ہے۔ پھاگن آئیو رنگ بھریو … پھاگن کا مزہ تو گانو میں ہے۔ شہر والے پھاگن کو نہیں پہچانتے۔ اسی لیے تو آزادی کی دیوی کو شہر سے پہلے گانو میں آنا چاہیے۔ اسے دیکھتے ہی اُداس ماؤں کے چہروں پر پھر سے مسکراہٹیں تھرک اُٹھیں گی۔
شنکر بابا چبوترے سے اُٹھ کر کوٹھے کے اندر چلا آیا۔ اور آنکھیں پھیلا پھیلا کر چھت کا جائزہ لینے کی کوشش کرنے لگا۔ وہ چاہتا تھا کہ دیپ چند سے کہے ذرا لگے ہاتھ چھت کے جالے بھی اُتار دو ۔ کوٹھے کے اندر دھول کا بادل اُمڈآیا تھا۔ ہمدردی کے احساس سے مجبور ہوکر وہ کہہ اُٹھا:
’’ہولے ہولے، دیپ چند — بیٹا، ہولے ہولے ہاتھ چلاؤ‘‘ دھول اور پھیپھڑوں کا بیر چلا آتا ہے۔‘‘
دیپ چندسے بھی یہ بات چھپی ہوئی نہ تھی۔ لیکن اس وقت وہ یہ بات ماننے کے لیے تیار نہ ہوا۔ بولا : ’’دھول سے تو شہر والے ہی زیادہ ڈرتے ہیں، بابا گانو والے تو دھول میں جنم لیتے ہیں، دھول میں ہی ایک دن دم توڑ دیتے ہیں۔‘‘
کہنے کو تو دیپ چند نے یہ بات کہہ دی۔ لیکن وہ جھینپ سا گیا۔ جیسے اسے یہ خیال آگیا ہو کہ اگر یہ بات آزادی کی دیوی کے کان میں پڑجائے تو وہ اپنا ارادہ بدل سکتی ہے اور کرودھ میں آکر گانو والوں کے سواگت کو ٹھکرانے کا فیصلہ کرلے تو سمجھیے کہ بنا بنایا کھیل ہمیشہ کے لیے بگڑ گیا۔ ایک ہاتھ سے گریبان کا بٹن بند کرتے ہوئے اس نے جھاڑو کی رفتار ایک دم دھیمی کردی۔ کیونکہ کھلے ہوئے گریبان سے تو نئے زمانے کو نمسکار کرنا نہ کرنا ایک برابر ہوتا۔
کوٹھے کے ایک کونے سے لمبا سا بانس اُٹھاکر بابا نے اس کے سرے پر اپنا انگوچھا باندھ دیا اور ہولے ہولے اس جھاڑن کو چھت پر گھمانے لگا۔ جیسے ماں اپنے ننھے کی پشت پر تھپکیاں دے رہی ہو۔ وہ چاہتاتھا کہ ایک بھی جالا باقی نہ رہ جائے۔ اس وقت اسے اپنی کمزور نگاہ پر غصّہ آرہا تھا۔ لیکن وہ دیکھی اَن دیکھی جگہ پر جھاڑن گھمائے جارہاتھا اور وہ بھی کچھ اس انداز میں جیسے کوئی کسی کو غصّہ تھوکنے پر رضامند کرتے ہوئے یہ دلیل دیتا چلاجائے کہ میں نے کچھ قصور کیا ہو تو بھی معاف کردو اور قصور نہ کیا تو بھی۔
دیپ چند جھاڑو دے چکا تو اس نے بابا کے ہاتھ سے جھاڑن لیتے ہوئے کہا: ’’میرے ہوتے تم کشٹ کرو، بابا!یہ تو مجھے شوبھا نہیں دیتا۔‘‘
بہت سے جالے تو پہلے ہی جھاڑن سے لپٹ چکے تھے۔ اب رہے سہے جالے بھی دوچار بار اِدھر اُدھر جھاڑن گھمانے سے لپٹ گئے ، یوں ہی جھاڑن جالوں والا سرا نیچے زمین کی طرف کیا گیا۔ دیپ چند کے جی میں تو آیا کہ بابا سے کہے، جھاڑن کیا ہے، یہ تو کسی گندی سی بھیڑ کے جسم کی یاد دِلا رہا ہے، جسے سو سو آندھیوں کی دھول نے میلا کر رکھا ہو۔ یہ خیال آتے ہی دوبارہ اس کے ذہن کوجھٹکا سا لگا۔ آزادی کی دیوی تو صاف ستھری چیزوں کو پسند کرتی ہوگی۔
دھوتی کو کمر کے گرد کس کر اور کدال اُٹھا کر وہ چبوترے سے نیچے رکھے ہوئے مٹی کے ڈھیر پر کھڑا ہوگیا اور بیچ میں ایک گڑھا سا بنانے لگا تاکہ جب اس پر پانی ڈالا جائے تو بیکار باہر نہ نکل جائے۔
کوٹھے کی بغل میں کنواں تھا۔ ڈول بھربھر کر وہ مٹی پر پھینکنے لگا۔ بابا بولا:’’کہو تو میں مدد دوں، دیپ چند۔‘‘
’’تمھارا ہی تو آسرا ہے بابا‘‘ دیپ چند نے کنوئیں میں ڈول پھینکتے ہوئے کہا ’’جہاں جہاں سے کوٹھے کی دیواریں خراب ہورہی ہیں وہاں وہاں آج ہی مٹی لگانے کا کام ختم کردینا چاہتا ہوں۔‘‘
’’مٹی میں ملانے کے لیے لید میں نے تیار کررکھی ہے، کل تم نہ آئے تو میں نے سوچا خالی بیٹھے رہنے سے تو کچھ کام کرتے رہنا اچھا ہے۔‘‘ بابا نے بازو پھیلا کر کہا۔
لوہے کے تسلے میں ہاتھ سے مل کر باریک کی ہوئی لید بھربھر کر بابا مٹی پر پھینکنے لگا۔ دیپ چند کو یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ بابا کوٹھے کی مرمت میں بہت دلچسپی لے رہا ہے۔ وہ چاہتا تھا کہ بابا سے صاف صاف کہہ دے کہ اگر کوٹھے کی مرمت کرنے کے جُرم میں کوئی اسے پھانسی پر بھی لٹکا دے تو اسے رنج نہ ہوگا کیونکہ یہ تو ناممکن تھا کہ کوئی گندے سے کوٹھے کے سامنے بیٹھ کر آزادی کی دیوی کا انتظار کرے۔
دیکھتے ہی دیکھتے وہ لنگوٹی کس کر مٹی کے ڈھیر پر چڑھ گیا اور زور زور سے پانو چلاکر مٹی اور لید کو ملانے لگا۔ یہ فن اسے ورثہ میں ملا تھا — دلدل نما مٹی میں پانو چلانے کا فن۔ پانو چلانے سے عجیب سی آواز نکلتی تھی۔ جس سے اس کے کان مانوس تھے۔ وہ یوں پانو چلارہاتھا، جیسے کوئی نرتکی موسیقی کے تال پر وجد کا سماں باندھ دے۔
بابا نے چبوترے کے ساتھ ساتھ رکھے ہوئے تینوں کے تینوں گھڑوں کو بیک نظر غور سے دیکھا جن میں کافی مقدار میں چکنی مٹی ڈال دی گئی تھی۔ بولا: ’’پہلے دس بیس ڈول پانی ان گھڑوں میں ڈال دو دیپ چند۔‘‘
دلدل سے نکل کر دیپ چند پھر کنوئیں کی منڈیر سے سٹ کر کھڑا ہوگیا۔ اس وقت وہ بھوؤں کی محرابوں کے نیچے جہاں پھاگن کا آنند تھرک رہا تھا، آزادی کے کل تصور کو مرکوز کرتے ہوئے پانی نکالنے لگا اور یونہی پانی چکنی مٹی والے گھڑوں میں پھینکا جانے لگا۔ ایک سوندھی سوندھی سی خوشبو اُٹھی اور اس کے پیش نظر اسے مٹی اور لید کی دلدل سے آنے والی بو پر شعوری طور پر شدید غصّہ آنے لگا۔ لیکن یہ سوچ کر کہ ہر چیز کی اچھائی بُرائی کا فیصلہ محض بو پر نہیں چھوڑا جاسکتا اسے کسی قدر تسلی محسوس ہوئی۔
بابا بولا : ’’جیسے درزی پھٹے ہوئے کپڑے پر نئے جوڑ لگا دیتا ہے ویسے ہی جہاں جہاں دیواریں مرمت مانگتی ہیں لیڈ مٹی لگانے کا رواج بہت پرانا ہے۔‘‘
’’ہاں، ہاں‘‘ دیپ چند نے گھڑے میں آخری ڈول ڈالتے ہوئے کہا۔
دیواروں کی خراب جگہوں پر پانی چھڑکنے کے لیے لے دے کر وہی تسلا نظر آرہاتھا۔ بابا نے رُخ سمجھتے ہوئے ڈول کی رسّی سنبھال کر کہا میں پانی نکالتا ہوں تم اسے جھٹ جھٹ وہاں وہاں جھڑکتے چلے جاؤ جہاں جہاں مٹی کی ٹاکی لگاؤگے۔‘‘
دیپ چند نے نہیں نہیں کی رٹ لگاتے ہوئے بابا کے ہاتھ سے رسی تھامتے ہوئے کسی قدر جھنجھلاکر ڈول کو کنوئیں میں پھینک دیا۔ اس سے ایک احمقانہ سی آواز پیدا ہوئی جس سے کان کے پردوں پر ایک چپت سی لگی۔ وہ دائیں ہاتھ سے رسی تھام کر بائیں ہاتھ سے بائیں کنپٹی کھجلانے لگا۔ ایک لمحہ کے لیے باپ کی یاد نے اس کے دل و دماغ کو گھیر لیا۔
پانی زمین سے اتنا دور کیوں ہے۔ وہ بابا سے پوچھنا چاہتا تھا۔ ایک بے تاب سی نگاہ سڑک کی طرف ڈالتے ہوئے اُسے خیال آیا کہ جیسا کہ لوگوں میں مشہور تھا کہ اُس کا باپ ابھی تک زندہ ہوگا۔ آج سے دس برس پہلے جب اس کی ماں اسی کوٹھے میں موت کی گود میں سوگئی تھی، اس کے باپ کے دل پر کچھ ایسی چوٹ لگی کہ وہ گھر چھوڑ کر چلاگیا تھا۔ پانچ سال تک تو جیسے کوئی بھیڑ میں گم ہوجائے کسی کی زبان سے اس کے بارے میں کچھ بھی سننے کو نہ ملا۔ پھر شہر سے یہ خبر آنے لگی کہ رانا جی یعنی اس کا باپ وہاں رہتا ہے۔ اور لوگ یہ بھی کہتے تھے کہ وہ تو اب کوی بن گیا ہے۔ اور ایسے ایسے گیتوں کی رچنا کرتا ہے کہ سننے والوں کے سامنے نئے زمانے کی تصویر آجاتی ہے۔ یہ سوچتے ہوئے کہ کیا ہی اچھا ہو کہ آزادی کی دیوی کے آنے سے پہلے اس کا باپ ہی یہاں آپہنچے وہ جلدی جلدی ڈول نکالنے لگا۔
تسلے میں پانی انڈیلتے ہوئے اسے بڑی شدت سے یہ خیال آیا کہ بابا سے کہے کہ اب وہ دن دور نہیں جب وہ اپنے بیٹے رانا جی کے سر پر بڑے پیار سے ہاتھ پھیر سکے گا۔
’’ایک ڈول بھرکر رکھ لو‘‘ بابا نے کانپتی ہوئی آواز سے کہا۔ جس پر خواہ مخواہ پتنگ کی ڈور کا گمان ہوتا تھا جس پر سے وقت کے مسلتے ہوئے ہاتھوں نے رہے سہے مادے کے آخری نشانات تک اُتار نے شروع کردیے ہوں۔
دیپ چند کے دل و دماغ پر ایک چوٹ سی لگی۔ کیونکہ وہ ڈول یا پانی کی بجائے راناجی کی یاد میں اُلجھ گیا تھا۔ لیکن اس نے خود کو ایک ڈول بھر رکھنے پر مجبور پایا۔ اب کے اس نے رسّی کو زور سے تھام کر ایک دم ڈول کو کنوئیں میں پھینک دیا، جیسے وہ اس دیوانی ، چیخ نما آواز سے اپنی پوشیدہ حسرت کا اظہار کیا چاہتا ہو۔ ڈول کھینچتے ہوئے اسے خیال آیا کہ کیوں نہ ڈول کو کنوئیں میں پھینک کر شہر کی طرف چل دے اور اب کے راناجی کو ڈھونڈنے میں کامیاب ہوکر رہے۔ اگر رانا جی مل جائے تو وہ اپنے بیٹے کی درخواست کو ٹھکرا نہیں سکے گا۔ وہ سوچنے لگا کہ بابا سے ایسی کون سی غلطی سرزد ہوگئی تھی کہ رانا جی نے ہمیشہ کے لیے گھر چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا۔ ایک بار بابا نے اسے بتایا تھا کہ اس نے تو محض اس خیال سے کہ ننھا دیپ چند پل جائے گا ، راناجی کا دوسرا بیاہ رچانے کا پربند شروع کردیا تھا۔ لیکن راناجی کو یہ بات ایک آنکھ نہ بھائی۔ وہ اپنے ننھے کو سوتیلی ماں کے ہاتھوں میں نہیں دینا چاہتاتھا۔
بھرا ہوا ڈول کنوئیں کی منڈیر پر چھوڑکر دیپ چند نے پانی والا تسلا اُٹھا لیا۔ وہ چاہتاتھا کہ پانی کی ایک بھی بوند زمین پر نہ گرنے پائے وہ کوٹھے کی طرف جارہا تھا۔ بابا بھی اس کے پیچھے پیچھے چل پڑا۔ آلے سے نکال کر ایک کوزہ دیپ چند کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے بابا بولا: ’’لو بیٹا اس کوزے سے پانی چھڑکو۔ پانی تھوڑا خرچ ہوگا۔
کوزہ لیتے ہوئے دیپ چند نے کسی قدر جھنجھلاکر بابا کی طرف دیکھا۔ وہ کہنا چاہتاتھا کہ تم ذرا ذرا سی بات کی اتنی فکر رکھتے ہو، تو بتاؤ تم نے راناجی کو کیسے بھلا دیا۔ اگر وہ لوگوں کا حوالہ دے کر بابا سے کہتا کہ رانا جی شہر میں رہتا ہے تو اسے یقین ہی نہ آتا اور آج بھی وہ یہی جواب دیتا کہ لوگ صرف اسے دِق کرنے کے لیے اس قسم کی باتیں کہہ چھوڑتے ہیں کہ انھوں نے شہر میں راناجی کو دیکھا ہے۔ اگر سچ مچ رانا جی گانو سے اس قدر قریب شہر میں رہتا ہوتا تو کیا کبھی کبھار اس کا جی اپنے بوڑھے باپ اور جوان بیٹے کو دیکھنے کے لیے تڑپ نہ اُٹھتا۔
دیوار پر ایک مرمت طلب جگہ پر کوزے سے پانی چھڑکتے ہوئے دیپ چند نے کہہ تو دیا: ’’میں نے تو شہر میں رانا جی کو نہیں دیکھا۔ لیکن جب دوسرے لوگ گانو سے شہر جاتے ہیں اور واپس آکر ہمیشہ یہ ہی کہتے ہیں کہ انھوں نے رانا جی کو دیکھا ہے تو میرا دل اُداس ہو اُٹھتا ہے۔
’’آسمان پھاڑ کر ٹھِگلی لگانے والی عورت کی طرح یہ لوگ جھوٹ موٹ کہہ چھوڑتے ہیں‘‘ بابا نے چھکڑے کے بوڑھے بیل کی طرح جو آگے بڑھنے کی بجائے اُلٹا پیچھے کی طرف ہٹنا شروع کردے، ہزار بار کہی ہوئی بات ایک بار پھر دُہرا دی۔
کوٹھے کے اندر باہر جہاں جہاں دیواریں مرمت چاہتی تھیں دیپ چند نے جلدی جلدی پانی چھڑک دیا۔ تسلا خالی ہوجانے پر وہ اسے پھر سے بھرلایا۔ زینے کی مدد سے اس نے اونچی جگہوں پر بھی پانی چھڑک دیا۔ پھر اسی تسلے میں لید مٹی بھربھر کر وہ ان جگہوں پر پیوند لگاتا چلا گیا۔
بابا باہر مٹی کے چبوترے پر جابیٹھا۔ اس کی پیٹھ شہر کی طرف تھی یہ اس کا خاص انداز تھا۔ جیسے وہ یہ سمجھتا ہو کہ اس بڑھاپے میں بھی اس میں اتنی طاقت موجود ہے کہ بڑھتے ہوئے شہر کو یہیں روکے رکھے۔
پیوند لگانے کے کام سے فارغ ہوکر دیپ چند دیواروں پر اندر باہر چکنی مٹی کی تہہ چڑھانے لگا۔ وہ اس کام سے ترت نپٹ لینا چاہتا تھا۔ جھٹ سوچا پٹ کیا، انداز میں اس کے ہاتھ جلدی جلدی حرکت کررہے تھے اور اس جلدبازی میں اسے یہ پروا نہ تھی کہ اس کے کپڑوں پر چکنی مٹی کے دھبے پڑ رہے ہیں۔ اسے ایک بار پھر راناجی کا خیال آگیا۔ آج وہ یہاں آنکلے تو اپنے بیٹے کے کام کی تعریف ضرور کرے۔ رانا جی تو کوی ہے، گیتوں کی رچنا کرتا ہے۔ اپنے بیٹے کے کام سے خوش ہوکر وہ ضرور کوئی نیا گیت رچ ڈالے گا۔ آزادی کا زمانہ شروع ہونے والا ہے۔ اس کی سب سے زیادہ خوشی تو کسی کوی کو ہی ہوسکتی ہے۔ وہ بابا سے کہنا چاہتا تھا کہ کیوں نہ ہم دونوں شہر جاکر راناجی کو ڈھونڈ لائیں۔ کیا گانو میں رہ کر گیت نہیں رچے جاسکتے؟ بھگوان نے چاہا تو ہمیں راناجی ضرور نظر آجائے گا۔ یہ کوٹھا تو ایک کوی کو ضرور بھائے گا۔ ہم گانو والے مکان میں رہیں گے۔ آج وہ بابا کو اپنے دل کا بھید بتانا چاہتا تھا کہ مہینے کے مہینے وہ صرف راناجی کی تلاش ہی میں شہر جایا کرتا ہے۔ اگرچہ یہ بات کبھی کھل کر نہیں بتائی تھی۔ آج وہ یہاں تک کہہ دینا چاہتاتھا کہ ایسے باپ بھی ہیں جو بیٹوں کو بھول جاتے ہیں جیسے بابا راناجی کو بھول گیا اور رانا جی نے دیپ چند کو بھلا دیا۔ لیکن ایسے بیٹے بھی ہیں جو اپنے باپ کی یاد کو کبھی نہیں بُھلاسکتے۔
دوپہر ڈھل گئی تھی۔ سڑک پر لاریاں برابر آجارہی تھیں۔ چھکڑے بھی گزررہے تھے۔ نہ جانے کیا سوچ کر بابا کہہ اُٹھا:
’’میں نے تو سنا ہے کہ سرکار یہ حکم دینے والی ہے کہ اس سڑک سے چھکڑے نہ گزراکریں۔‘‘
’’یہ کیسے ہوسکتا ہے؟‘‘ دیپ چند نے کوٹھے کے دروازے کی باہر کی دیوار پر چکنی مٹی کا پردلا پھیرتے ہوئے کہا۔
بابا کی تسلی نہ ہوئی اس نے ایک سہمی ہوئی لرزتی ہوئی آواز میں کہا: ’’شہر کی نیت اچھی نہیں، دیپ چند۔ شہر کی ٹھگ وِدیا کو تم سے زیادہ میں سمجھتا ہوں، بیٹا!‘‘
دیپ چند کا جی اُکتا رہا تھا۔ اس کے ہاتھ تھک چکے تھے۔ لیکن وہ کپڑے کے پردلے کو چکنی مٹی میں بھگو بھگو کر دیوار پر پھیرتا رہا جیسے کوئی ہوشیار کاریگر سفیدی کی کوچی پھیرتا ہے۔ چکنی مٹی کی خوشبو اس کی لرزتی ہوئی روح کو سہارا دیے جارہی تھی۔ تازہ پوتی ہوئی دیوار کے قریب ہوکر وہ اسے سونگھنے کی کوشش کرتا۔ وہ کہنا چاہتاتھا کہ بھلے ہی شہر میں بیٹھی ہوئی سرکار یہ حکم نکال دے کہ اس سڑک پر چھکڑے نہیں گزرسکتے ۔ لیکن وہ ایسا کوئی حکم تو نہیں نکال سکتی کہ گانو والے چکنی مٹی کی خوشبو بھی نہ سونگھ سکیں۔ یہ خیال آتے ہی اس کے دل کی دھڑکن تیز ہوگئی۔ وہ بابا سے کہنا چاہتا تھا کہ اگرچہ سرکار نے تو یہ حکم دے رکھا ہے کہ کوئی سڑک کے کنارے اپنے کوٹھے کی مرمت تک نہ کرے، ہم نے سرکار کا حکم توڑ ڈالا۔ اب ہم دیکھں گے کہ اِس جرم میں ہمیں کیسے پھانسی پر لٹکاسکتی ہے۔
پردلا پھیرنے سے نبٹ کر دیپ چند کنوئیں سے ڈول نکال کر ہاتھ منھ دھونے لگا۔ اس کے پانو بے حد بوجھل ہورہے تھے۔ یہ سوچ کر کہ اب گانو کا ڈیڑھ کوس فاصلہ طے کرنا ہوگا، وہ اپنے اوپر جھنجھلارہا تھا۔ اس نے مڑ کر بابا کی طرف دیکھا جو چبوترے پر بت بنا بیٹھا تھا۔ وہ بابا سے کہنا چاہتا تھا کہ تمھاری انگلی پکڑکر گانو جانے کی بجائے اکیلے جانا کہیں آسان ہوگا۔ لیکن بابا، یہ تم کب ماننے لگے۔ اس نے من ہی من میں فیصلہ کرلیا کہ وہ بابا کو ساتھ تو لے جائے گا۔ لیکن اسے بے سر پیر کی باتیں کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔آخر اس کا بھی کیا فائدہ کہ بات بات میں شہر کو کوسا جائے۔ شہر میں بھی انسان بستے ہیں۔ شہر میں رانا جی رہتا ہے۔ اگرچہ ہم ابھی تک اس کا پتہ نہیں چلاسکے۔ لیکن رانا جی کب تک چھپا رہ سکتا ہے۔ ہم اس کا پتہ چلاکر چھوڑیں گے۔
معاً کوٹھے کے پیچھے سے بیلوں کے گلے کی گھنٹیوں کی ٹن ٹن گونج اُٹھی۔ دیپ چند نے دوڑ کر چھکڑے والے کو آواز دی۔ ارے رُک جائیو بھیّا!
چھکڑا رُک گیا۔ دیپ چند نے دور ہی سے پہچان لیا کہ یہ نروتم کا چھکڑا ہے، جسے وہ اُڑن پکھیرو کہہ کر پکارتاتھا۔
وہ لپک کر بابا کے پاس آیا۔ اور بولا : ’’اُٹھو بابا ، گانو چلیں گے۔‘‘
بابا نے جیسے خواب سے چونک کر پوچھا: ’’پیدل؟ ارے دیپ چند بیٹا، مجھ سے تو پیدل نہیں چلا جائے گا۔‘‘
دیپ چند کے جی میں تو آیا کہ بابا کا ہاتھ چھوڑ کر اکیلا چھکڑے پر جا بیٹھے۔ لیکن من ہی من میں اپنے اس حقیر خیال پر لعن طعن کرتے ہوئے وہ کہہ اُٹھا!’’پیدل کیوں بابا، چھکڑا ہے — نروتم گانو جارہا ہے۔ میں نے کہا ہمیں بھی ساتھ لیتے جائیو۔‘‘
اس وقت بابا کی زبان سے نروتم کی تعریف میں کئی اچھے اچھے جملے نکل گئے، جیسے کوئی نقیب اپنا فرض بجا لارہا ہوں۔ دراصل نروتم سے کہیں زیادہ وہ گانو کے گن گارہاتھا اور وہ گانو کے مقابلے پر شہر کی بُرائی کرنے کا موقع بھی ہاتھ سے گنوانا نہیں چاہتاتھا۔ شہر میں تو کوئی کسی کو راستہ تک نہیں بتانا چاہتا۔ کسی کو اتنی فرصت ہی نہیں، لیکن گانو کی اور بات ہے۔ گانو میں تو لوگ چھکڑا روک کر بغیرعوضانہ لیے پیدل چلنے والوں کو اپنے ساتھ بٹھا لیتے ہیں۔
’’پالاگن بابا‘‘ نروتم نے بابا کو نزدیک آتے دیکھ کر کہا۔
’’جُگ جُگ جیو بیٹا‘‘ بابا نے آشیرباد دیتے ہوئے کہا۔ لیکن اس وقت نروتم سے کہیں زیادہ وہ گانو کو آشیرباد دے رہا تھا۔ ٹھیک ہی تو تھا۔ شہر لاکھ کوشش کرے کہ گانو اُجڑجائے۔ لیکن گانو کو بھی زندہ رہنے کا حق ہے۔ گانو زندہ رہے گا۔
بابا اور دیپ چند چھکڑے پر بیٹھ گئے۔ نروتم نے بیلوں کو ہانکتے ہوئے پیچھے مُڑکر بابا کی طرف دیکھا۔ بولا: ’’تم کہو تو چھکڑے کو موٹر بنادوں بابا!‘‘
بابا اور دیپ چند ہنس پڑے اور اُن کی ہنسی میں نروتم کا قہقہہ بھی چینی کی ڈلی کی طرح گھل گیا۔ چھکڑا موٹر نہیں بن سکتا، یہ سب جانتے تھے شاید نروتم یہ کہنا چاہتا تھا کہ گانو کے کچے رستے پر تو موٹر کی طبیعت بھی بگڑجاتی ہے۔ اور بگڑی ہوئی طبیعت والی موٹر پر تو چھکڑا بھی بازی لے جاسکتا ہے۔
بیلوں کے گلے میں گھنٹیاں بج رہی تھیں۔ دیپ چند کو یہ متواتر تھکا دینے والی ٹن ٹن بہت ناگوار گزری۔ لیکن وہ اتنی ہمت بھی تو نہیں دِکھاسکتا تھا کہ چھکڑا روک کر پہلے بیلوں کے گلے سے گھنٹیاں اُتار لے اور پھر نروتم سے کہے کہ اب تم چھکڑا چلاسکتے ہو۔
نروتم کہہ اُٹھا: ’’میں جانوں دیپ چند آج تم نے کوٹھے کی لیپائی پوتائی کر ڈالی۔ یہ تمھارے کپڑوں پر چکنی مٹی کے نشان صاف بتا رہے ہیں۔‘‘
’’ہاں سرکار‘‘ دیپ چند نے جواب دیا۔ جیسے وہ نروتم سے یوں مخاطب ہوکر اپنے جرم کی تلافی کررہا ہو۔
’’سرکار بھی کیسے کیسے حکم نکالتی ہے‘‘ نروتم نے بیلوں کی پشت پر زور سے کوڑے کا وار کرتے ہوئے کہا۔ ’’تم نے بھی سرکار کا حکم توڑ کر کے گانو کی لاج رکھ لی۔‘‘
’’ہاں سرکار!‘‘ دیپ چند نے اپنا لہجہ قائم رکھتے ہوئے کہا جیسے وہ سرکار کے سامنے جواب دہی کی مشق کررہا ہو۔
بابا بولا: ’’میں سرکار سے کہوں گا کہ اپنے کوٹھے کی لیپائی پوتائی میں نے کی ہے۔ اس کی سزا مجھے دو۔‘‘
نروتم کو بھی جوش آگیا۔ بولا:’’تم دونوں خاموش رہنا۔ میں سرکار سے کہوںگا کہ کوٹھے کی لیپائی پوتائی دراصل میں نے کی ہے۔‘‘
بابا دیپ چند کا کندھا جھنجھوڑکر کہنا چاہتا تھا کہ جب تک گانو میں ایسے لوگ زندہ ہیں، گانو کبھی نہیں مٹ سکتا۔ چاہے شہر لاکھ جتن کرلے۔ نروتم نے نہ جانے کیا سوچ کر پوچھ لیا: ’’تم شہر گئے تھے دیپ چند! کہو کیا خبر لائے۔ کہو تم نے رانا جی کو بھی کہیں دیکھا یا نہیں، کیا کم سے کم کسی کو اس کے بارے میں بات کرتے بھی نہیں سنا؟‘‘
’’نہیں تو‘‘ دیپ چند نے ہارے ہوئے سپاہی کے لہجہ میں جواب دیا۔‘‘
’’لوگ تو کہتے ہیں راناجی شہر میں رہتا ہے اور دیش بھگتی کے گیت رچتا ہے‘‘ نروتم نے زور دے کر کہا جیسے وہ کہنا چاہتا ہوکہ کیا تم دوسرے لوگوں کے مقابلے میں اتنے ہی بدھو ہو کہ نہ تم نے راناجی کو دیکھا نہ اس کے بارے میں کسی کو کچھ کہتے سنا۔
بابا نے سرد آہ بھرکر کہا: ’’کون جانے راناجی کہاں ہے اور کس حال میں ہے۔ لوگ تو باتیں بناتے ہیں۔ اگر راناجی سچ مچ شہر میں ہوتا تو کیا کبھی بھول کر بھی گانو میں نہ آتا؟‘‘
نروتم نے ہنس کر کہا: ’’راناجی کوی ہے۔ اور کوی وہیں رہتا ہے جہاں لوگ اس کی کویتا سنتے ہیں اور اس کی کویتا کی قدر کرتے ہیں۔‘‘
دیپ چند کہہ اُٹھا:’’میں راناجی سے ملنا چاہتا ہوں۔ پہلے بیٹے کے ناطے، پھر کوی کی کویتا سننے کی خاطر۔‘‘
بابا بولا: ’’جتنی خوشی ایک بیٹے کو یہ سوچ کر ہوسکتی ہے کہ اس کا باپ ایک کوی ہے تو اس سے بھی زیادہ خوشی ایک باپ کو یہ سوچ کر ہوتی ہے کہ اس کا بیٹا کوی ہے۔‘‘
نروتم نے شہ دی : ’’رانا جی کا نام آتے ہی سارے گانو کا سر بڑے ابھمان کے ساتھ اونچا اُٹھ جاتا ہے۔ میں کہتا ہوں ایسے بیٹے گھر گھر جنم لیں۔ دھنیہ ہے اِس ماں کی کوکھ جس نے راناجی کو جنم دیا۔‘‘
بابا کی زبان سے اک دبی دبی سی آہ نکل گئی۔ وہ کہنا چاہتاتھا کہ کاش آج راناجی کی ماں زندہ ہوتی اور وہ اپنے کانوں سے لوگوں کو اپنے بیٹے کی تعریف کرتے سنتی۔
کھیتوں کے بیچو ں بیچ جانے والے راستہ پر گرد کا بادل امڈ رہا تھا ۔ نروتم بیلوں کو اُڑائے لیے جارہا تھا۔ کبھی ڈرادھمکا کراور اکثر پچکار کر وہ بیلوں کی ہمت میں اضافہ کرنے میں کامیاب ہوگیا تھا۔
دیپ چند بولا : ’’اتنی کیا کسی کی بارات چڑھنے کی جلدی ہے، نروتم!‘‘
بابا نے شہ دی:’’بیل اور انسان کی ذات میں بہت بڑا انتر تو نہیں ہے، بیٹا۔ میں تو جانوں نروتم کے بیل خوش ہوکر آپ ہی آپ اُڑے چلے جارہے ہیں۔
نروتم نے اپنی تعریف سن کر بیلوں کو بڑی گرمجوشی سے پچکارا۔ آج وہ سچ مچ چھکڑے کو موٹر بنا دینے پر تُلا ہوا نظر آتا تھا۔ اگرچہ دنیا ترقی کرتے کرتے موٹر بلکہ ہوائی جہاز تک پہنچ گئی تھی۔ لیکن نروتم کو بھی اپنے چھکڑے پر ناز تھا۔ چھکڑے پر بیٹھ کر وہ یہ سمجھنے لگتاتھا کہ یہ گانو بھی کسی راجدھانی سے کم نہیں بلکہ وہ تو من ہی من میں یہ تصور قائم کرلیتاتھا کہ اس راجدھانی کا مہاراجہ وہ خود ہی ہے۔ حالانکہ یہ سوچ کر کہ بھلا یہ کیسے ہوسکتا ہے کیونکہ نہ تو اس کے نام کا سکّہ چلتا ہے اور نہ لوگ اس کا حکم بجا لانے کے لیے مجبور ہیں۔ اسے اپنے اوپر غصّہ آنے لگتا۔ اس وقت وہ لے دے کر بیلوں ہی میں اپنی پرجا کی تصویر دیکھنے لگتا۔ راستہ سیدھا ہو یا ٹیڑھا، صاف اور برابر ہو، یا اوبڑکھابڑ، بیلوں کو تو اپنے مہاراجہ کا حکم ماننا ہی پڑتاتھا۔
ٹن ٹن — ٹن ٹن، بیلوں کے گلے کی گھنٹیاں مہاراجہ ادھیراج کی سواری کا نقشہ باندھ رہی تھیں۔ دور سے گانو کے کوٹھے نظر آرہے تھے۔ ذرا اور قریب جانے پر معلوم ہوا کہ گانو کی سرحد پر بہت سے لوگ جمع ہورہے ہیں۔ گویا مہاراجہ نے اپنے راج پاٹ میں بغاوت کے خطرے کا احساس کرتے ہوئے پکارا: ’’بڑھے چلو بیٹو!‘‘
بابا بولا: ’’شہر اس بھاشا کا مرم نہیں پہچان سکتا۔ شہر کی بھاشا اور ہے گانو کی اور۔‘‘
دیپ چند نے جیسے بابا کی بات پر حاشیہ چڑھاتے ہوئے کہا: ’’بابا، تمھارا یہی مطلب ہے نا کہ شہر کے لوگ گانو والوں کی طرح مویشیوں کے ساتھ یہ ایکتا کا بھاؤ انوبھو نہیں کرسکتے۔‘‘
’’ہاں بیٹا!‘‘ بابا نے جیسے دیپ چند کو شاباشی دیتے ہوئے کہا ’’روپ میں شہر بڑا ہے گُن میں گانو۔‘‘
جوں جوں گانو قریب آتا گیا، سب کی توجہ گانو کی سرحد پر جمع ہونے والے لوگوں پر مرکوز ہوتی گئی۔ بابا بولا:’’میرا ماتھا ٹھنک رہا ہے۔‘‘
’’تم تو ہمیشہ یونہی ڈرجاتے ہو، بابا۔’’دیپ چند نے مصنوعی جرأت دِکھاتے ہوئے کہا۔
’’بڑھاپے اور ڈر کا پُرانا میل ہے۔‘‘ نروتم نے بیلوں کی پشت پر زور سے کوڑا لگاتے ہوئے کہا ’’بابا، ہمارے ہوتے تمھیں کوئی ڈر نہیں۔‘‘
گانو کی سرحد پر راستہ کو بہت بڑے ہجوم نے روک رکھا تھا۔ چھکڑا ایک کنارے چھوڑ کر دیپ چند ، بابا اور نروتم ہجوم میں گھس گئے۔
’’ہوئی نہ وہی بات‘‘ بابا نے خطرہ محسوس کرتے ہوئے کہا۔ ’’ضرور گانو پر آفت آنے والی ہے۔‘‘
دیپ چنداور نروتم نے بابا کی بات کا کچھ جواب نہ دیا۔ اگرچہ انھیں پہلی ہی نظر میں پتہ چل گیا کہ شہر سے بڑا حاکم گانو کو سمجھانے کے لیے آیا ہے۔
بیچ کی کرسی پر بڑا حاکم بیٹھا تھا۔ اس کے دائیں طرف علاقے کا تھانیدار اور بائیں طرف تحصیلدار نظر آرہا تھا۔ تحصیلدار کے ساتھ والی کرسی پر ایک شخص بیٹھا تھا جس کے سر پر لمبے لمبے بال جھکے پڑتے تھے۔ اس نے لمبا سا انگرکھا پہن رکھاتھا اور اس کے ہاتھ میں بڑی بڑی گانٹھوں والا پہاڑی لکڑی کا ڈنڈا تھام رکھا تھا، جس سے صاف پتہ چلتاتھا کہ وہ کوئی غیرسرکاری شخص ہے اور یونہی گانو دیکھنے کی غرض سے بڑے حاکم کے ہمراہ چلا آیا ہے۔
تھانیدار کے منع کرنے پر بھی لوگوں کا شور برابر اُبھر رہا تھا۔ یہ گڑبڑ لاؤڈسپیکر کے خراب ہوجانے کی وجہ سے ہورہی تھی۔ معلوم ہوتا تھا کہ اب یہ بیٹری سے چلنے والا لاؤڈسپیکر کام نہیں دے گا۔
بابا نے دائیں بائیں نروتم اور دیپ چند کو ٹہوکادے کر آنکھوں ہی آنکھوں میں یہ سمجھانے کا جتن کیا کہ یہ بھی اچھا ہوا کہ ہم موقع پر آگئے ہم کوئی اَن ہونی بات نہیں ہونے دیں گے۔ لیکن نروتم اور دیپ چند تو اس بات پر حیران ہورہے تھے کہ پاس والے گانو کے لوگوں کو کون بلاکر لایا ہے اور اس کھلی کچہری کی بات کب طے ہوئی تھی۔
دیپ چند نے آہستہ سے کہا: ’’میں جانوں پاس والے گانو کے لوگ ہماری مدد کریںگے۔‘‘
نروتم نے شہ دی :’’ آخر وہ ہمارے پڑوسی ہیں۔ مدد نہ کرنی ہوتی تو وہ آتے ہی کیوں؟‘‘
بابا بولا: ’’بھگوان بھلا کریں گے۔ بھگوان تو حاکم سے بھی بڑے ہیں۔‘‘
پاس والے گانو کے مُکھیا نے کھڑے ہوکر کچھ کہنا چاہا۔ لیکن کسی نے اس کا بازو کھینچ کر اسے بٹھا دیا۔ جیسے وہ یہ سمجھانا چاہتا ہو کہ پہلے اِس گانو والوں کو جواب دے لینے دو۔
لوگوں کا شور بڑھ رہا تھا۔ تھانیدار نے دو تین مرتبہ لوگوں کو خاموش رہنے کی تلقین کی۔ لیکن معلوم ہوتاتھا کہ لوگوں کو چپ کرانا آسان کام نہیں۔
بابا نے کھڑے ہوکر کہا: ’’ہمارا گانو بہت پرانا ہے۔ یہ تو مہابھارت کے سمے سے چلا آتا ہے۔‘‘
پاس والے گانو کے مکھیا نے جھٹ شہ دی: ’’اور ہمارا گانو رامائن کے سمے سے چلا آتا ہے۔‘‘
تھانیدار نے کھڑے ہوکر کہا: ’’رامائن اور مہابھارت کا سمے تو کبھی کا بیت گیا… حاکم کے فرمان کے بعد آپ لوگ اپنی بات کہہ سکتے ہیں۔‘‘
تحصیلدار نے کھڑے ہوکر کہا: ’’جو نیائے رامائن اور مہابھارت کے سمے سے چلا آتا ہے اس کے سمبندھ میں آج آپ حاکم کا فرمان سنیںگے۔‘‘
شام کے سائے لمبے ہوتے جارہے تھے۔ لیکن لاؤڈسپیکر ٹھیک نہ ہوا۔ اب مزید انتظار فضول تھا۔ شہر کے بڑے حاکم نے کسی قدر جھنجھلا کر لاؤڈسپیکر کا انتظام کرنے والوں کی طرف دیکھا۔ جیسے وہ کہنا چاہتا ہو کہ تم مفت کی تنخواہ پاتے ہو۔ کیونکہ تمھارا کام دیکھا جائے تو تمھیں ایک بھی نمبر نہیں دیاجاسکتا۔
تھانیدار نے موقع کی نزاکت محسوس کرتے ہوئے کھڑے ہوکر لوگوں سے کہا کہ ہرکوئی خاموش ہوجائے اور کان کھول کر حاکم کا فرمان سن لے۔
بڑے حاکم نے جلدی جلدی چہرہ گھماتے ہوئے دائیں بائیں، پیچھے اور سامنے ایک طویل نگاہ ڈالتے ہوئے اُٹھ کر کہنا شروع کیا:
’’بھائیو!‘‘ یہ تو تم سب سن ہی چکے ہو کہ دیس میں آزادی آرہی ہے اور آزادی کا سواگت کرنے کے لیے ہمیں تیار رہنا چاہیے۔ آزادی قربانی کے بغیر نہیں آتی۔ قربانی میں بڑی طاقت ہوتی ہے۔
’’بھائیو!‘‘
’’آزادی آنے سے پہلے یہ ضروری ہے کہ دیس کی راجدھانی کا رنگ روپ نکھرجائے اور اس کا سمّان بھی بڑھ جائے۔ یہ تو آپ کو ماننا پڑے گا کہ بڑے دیس کی راجدھانی بھی بڑی ہونی چاہیے۔ کیا آپ میری رائے میں رائے ملانے کے لیے تیارہیں؟‘‘
بابا نے دائیں بائیں نروتم اور دیپ چند کو ٹہوکا دیا جیسے وہ ان سے کہنا چاہتا ہو کہ ہم اس رائے میں کیسے رائے ملاسکتے ہیں۔
دیپ چند نے آہستہ سے کہا: ’’پہلے بھی تو راجدھانی بہت سے دیہات کو نگل چکی ہے۔‘‘
نروتم بولا: ’’یہ راجدھانی نہ ہوئی کوئی ڈائن ہوئی جس کی بھوک کبھی نہیں مٹتی۔‘‘
چاروں طرف سے کھسرپھسر کی آوازیں بلند ہوئیں۔ لیکن کسی میں اتنا حوصلہ نہ تھا کہ کھڑا ہوکر بلند آواز سے گانو کی رائے کا اظہار کرے۔
بابا کے چہرے پر ایک رنگ آرہا تھا، ایک جارہا تھا۔ اس نے دائیں بائیں نروتم اور دیپ چند کے چہروں کا جائزہ لیا اور اُٹھ کر کھڑا ہوگیا۔ بولا: ’’ہم اپنا خون دے سکتے ہیں لیکن اپنی زمینیں نہیں دے سکتے۔‘‘
تھانیدار نے اُٹھ کر کہا: ’’ابھی بیٹھ جاؤ چودھری پہلے حاکم کی بات پوری طرح سن لو۔‘‘
بڑے حاکم نے تھانیدار کو منع کرتے ہوئے کہا:’’چودھری کو اپنی رائے دینے دو۔ میں چودھری کی بات مانتا ہوں۔ زمیندار کے لیے بہت مشکل ہوتا ہے کہ وہ اپنی زمین دے ڈالے۔ کیوں چودھری یہی بات ہے نا!‘‘
بابا کے چہرے پر خوشی دوڑ گئی۔ وہ کہنا چاہتا تھا کہ اگر گانو کو اپنی جگہ پر آباد رہنے دیا جائے تو ہم راجدھانی کی بڑی سے بڑی خدمت کرنے کو تیار ہیں۔
لیکن اگلے ہی لمحے بڑے حاکم نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا:
’’بھائیو!‘‘
’’مجھے اپنا حاکم مت سمجھو میں نے سیوا کرنے کے ارادے سے یہ عہدہ سنبھالا ہے۔ آزادی آرہی ہے۔ دیس صدیوں کی نیند تیاگ کر آنکھیں کھول رہا ہے۔ راجدھانی کی نس نس میں نیا خون دوڑ رہا ہے —اور آج راجدھانی گانو کی مدد چاہتی ہے۔
’’میرے دیس باسیو!‘‘
’’آپ میں سے کون ایسا شخص ہوگا جو دیس کے بھلے پر اپنا بھلا کرنے کو تیار نہیں ہوجائے گا۔ آپ خون دینے کے لیے تیار ہیں۔ لیکن راجدھانی خون نہیں مانگتی راجدھانی کو تو تھوڑی زمین چاہیے۔ آج ایک بہت بڑا زراعتی کالج قائم کرنے کے لیے راجدھانی اپنی جھولی گانو کے سامنے پھیلاتی ہے۔‘‘
ایک بار پھر چاروں طرف کھسرپھسر ہونے لگی۔ بابا نے کھڑے ہوکر کہا: راجدھانی کا آدر ستکار کرنا گانو کا دھرم ہے۔ لیکن کیا آپ چاہتے ہیں کہ گانو اپنی جگہ سے ہٹ جائے؟
بڑے حاکم نے اپنے لہجہ میں بڑی کوشش سے خلوص کا عنصر پیش کرتے ہوئے کہا:
’’بھائیو ! رامائن اور مہابھارت کے سمے سے ایسا ہی ہوتا آیا ہے۔ اور سچ پوچھو تو میں بھی مجبور ہوں۔ جیسے درخت بڑا ہونے پر زیادہ جگہ گھیرتا ہے راجدھانی بھی ترقی کرتے کرتے زیادہ جگہ گھیرتی چلی جاتی ہے۔ میں خود زمیندار ہوں مجھے خود تمھارے جذبات کا احساس ہے۔ لیکن ہونی کو تو میں بھی نہیں روک سکتا۔ ہونی تو ہوکر رہے گی۔ لیکن میں آپ کو یقین دِلاتا ہوں کہ آپ لوگوں کے رہنے کے لیے کوئی دوسرا بندوبست ضرور کیا جائے گا۔‘‘
پاس والے گانو کا مُکھیا نے کھڑے ہوکر کچھ کہنا چاہا لیکن تحصیلدار نے اسے خاموش رہنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا:
’’اب میں دیس کے مہا کوی راناجی سے پرارتھنا کرتا ہوں کہ وہ اپنے بھاشن سے آپ لوگوں کو ترپت کریں اور انت میں اپنا کوئی نیا گیت بھی سنائیں۔‘‘
راناجی کا نام سنتے ہی گانو والے دنگ رہ گئے۔ بابا نے نروتم اور دیپ چند کو ٹہوکا دے کر کہا:
’’بھگوان! تیری مہما اَپرم پار ہے ۔ کیسے سمے پر راناجی کو ہمارے پاس بھیجا۔‘‘
نروتم بولا: ’’رامائن اور مہابھارت کے سمے کا نیائے کیسے مٹ سکتا ہے؟‘‘
دیپ چند نے شہ دی: ’’سینکڑوں راج آئے اور چلے گئے۔ لیکن ہمارا گانو اپنی جگہ پر قائم رہا۔ اب رانا جی کی کِرپا ہوگئی تو اسے کوئی بھَے نہیں …‘‘
لوگوں کا شورابھررہا تھا۔ سبھا کا رنگ بدلنے لگا۔ جیسے تالاب کی سطح پر اَن گنت لہریں پیدا ہوجائیں۔ بابا بولا: ’’راناجی کا دھرم تو یہی ہے کہ جنم بھومی کی سہائتا کرے، جس دھرتی کا اَن کھایا ہے اس کی لاج رکھے۔‘‘
ایک لمحہ کے لیے بڑا حاکم بھی ڈر گیا کہ کہیں رانا جی کوئی اُلٹی بات نہ کہہ ڈالے۔ معلوم ہوتا تھا کہ ایک پوٹلی کی طرح گانو راناجی کے ہاتھ میں آچکا تھا اور اب یہ اس کے ادھیکار میں ہے کہ اسے کس کے ہاتھ میں تھمائے ، تحصیلدار بھی سہم گیا۔ کیونکہ اسے معلوم تھا کہ راناجی اسی گانو کا رہنے والا ہے اور یہ عین ممکن ہے کہ آخری لمحہ آنے پر راناجی کو یہ خیال آجائے کہ اس نے تو گانو ہی کا نمک کھایا ہے اور نیائے کا پلڑا گانو ہی کے حق میں بھاری دکھانا چاہیے۔
دھیرے دھیرے شور کچھ کم ہوا۔ اور رانا جی نے کھڑے ہوکر کہنا شروع کیا!
’’میںکوی ہوں۔ میرا کام ہے نئے نئے گیتوں کی رچنا کرنا۔ آزادی آرہی ہے۔ آپ تیار ہوجائیے۔ دیس کی عزت، دیس کی دولت ، دیس کی حکمت سب گانو کے ہاتھ میں ہے۔ مجھے وِشواس ہے کہ آزادی کی دیوی کو آزاد آب و ہوا ہی پسند آسکتی ہے۔‘‘
چاروں طرف سے شور پھر اُبھرا اور کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ بابا نے نروتم اور دیپ چند کو ٹہوکا دیا۔ وہ کہنا چاہتا تھا کہ رانا جی نے گانو کی لاج رکھ لی۔
شور آہستہ آہستہ دبنے لگا۔ رانا جی نے کہنا شروع کیا:
’’ایک کوی اپنی بات گیتوں ہی میں کہہ سکتا ہے۔ میں آپ کے سامنے اپنا ایک نیا گیت رکھتا ہوں۔‘‘
معلوم ہوتا تھا کہ کوی اس سبھا کا رنگ بدل کر رکھ دے گا۔ لوگوں کے چہروں پر آس امید کی جھلکیاں تھرکنے لگیں۔
رانا جی نے گانا شروع کیا۔
آواز دے رہی دلّی رے
دلّی کا نقشہ بدل گیا!……
گیت کے بول فضا میں تحلیل ہورہے تھے۔ ڈوبتے ہوئے سورج کی شعاعیں بُجھتے ہوئے دِیے کی طرح آخری سنبھالے کے انداز میں کسی قدر تیز نظر آنے لگیں۔ گانو والوں نے دیکھا کہ ان کا کوی بھی بِک چکا ہے اور بازی ان کے ہاتھ سے نکلی جارہی ہے۔
دھرتی کا ذرّہ ذرّہ راجداھانی کو پرنام کرنے پر مجبور تھا۔
***
چاچا فضل دین
روپم کو مجھ سے محبت ہے نہ کہ میرے گانو والوں سے۔ وہ تو میرے ہی کردار سے واقف ہے، میرے ماں باپ اور دور و نزدیک کے بھائی بہنوں سے تو اسے کوئی سروکار نہیں۔ بھلے آدمی نے کبھی بھول کر بھی تو اس بات میں دلچسپی نہیں لی کہ میرے گانو کا کیا نام ہے۔ ایک دوبار شروع میں میں نے اسے اپنے گانو کا نام بتایا بھی تو مجھے یہی محسوس ہوا کہ اسے یہ نام بالکل نہیں چھوسکا۔ اپنے گانو والوں کے بارے میں بھی میں نے ایک آدھ بار اسے کچھ نہ کچھ ضرور بتانا چاہا۔ لیکن جب سامنے بیٹھا انسان کسی کی بات سُن کر بالکل بے حِس معلوم ہو رہا ہو، تو بات سنانے والے کو اتنا تو لازم ہے کہ بات کا رُخ بدل دے۔ ہمارا خاندان بھی کون سا شاہی خاندان ہے اور میرے بھائی بہن بھی کون سے شہزادے شہزادیاں ہیں کہ روپم کا دھیان کھینچ سکیں۔ اب تو ایک عرصہ ہوگیا۔ میں نے کبھی بھول کر بھی روپم کے سامنے اپنے گانو اور اپنے خاندان کے بارے میں زبان نہیں کھولی۔
اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں بھی روپم کے گانو کے بارے میں کبھی کچھ نہیں پوچھتا اس کا خیال ہے کہ وہ ملتان شہر میں پیدا ہوا۔ اور اس لحاظ سے وہ ایک شہری ہے نہ کہ دیہاتی، میں کہتا ہوں ’’چلو بھئی روپم، ہم دیہاتی سہی، تمھیں تمھارا شہر مبارک!‘‘
’’میرا شہر مجھے کیسے مبارک؟‘‘ روپم ہنس کر کہتا ہے۔ ’’میرا شہر تو ادھر رہ گیا— پاکستان میں! میرے بھائی بھی اب میری طرح دلّی میں رہتے ہیں۔ اور تم تو جانتے ہو کہ انسان جس شہر میں رہتا ہے وہی اس کا شہر بن جاتا ہے۔‘‘
روپم کا اصلی نام ہے رُوپ مَدل ۔ لیکن میں اُسے روپم کہہ کر پکارتا ہوں اور میرا یہ انداز اُسے پسند ہے۔ اکثر وہ ہنس کر کہتا ہے۔ ’’روپ مدل اور روپم میں بھی اتنا ہی فرق ہے جتنا ملتان اور دلّی میں۔ پھر بھی مجھے ملتان کے ادھر رہ جانے کا ذرا بھی غم نہیں۔ ارے میاں! آخر ملتان میں بھی ایسی کیا بات تھی؟ وہاں چناب تھا تو یہاں جمنا موجود ہے اور پھر ایک بات یہ بھی تو ہے کہ چناب میں تو اکثر سیلاب آجاتا تھا اور بیچاری جمنا تو کبھی کبھار ہی ناراض ہوتی ہے۔‘‘
روپم کو دلّی میں ملازمت کرتے چودہ برس ہوگئے۔ کالج سے نکلتے ہی اُسےغمِ روزگار کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے پِتاجی نے صاف صاف اس سے کہہ دیا تھا کہ وہ اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کی کوشش کرے۔ چنانچہ وہ دلّی چلا آیا ۔ جنگ کا زمانہ تھا۔ اسے دلی میں کام ملتے دیر نہ لگی وہ مجھ سے عمر میں چھوٹا ہے لیکن جہاں تک ملازمت کا تعلق ہے، میرا عرصۂ ملازمت تو سات سال کا بھی مشکل سے ہی ہوگا۔ اکثر میں اس سے کہتا ہوں۔’’دیکھو روپم! میرے لیے ملازمت کا تجربہ ابھی تک نیا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ میں ملازمت میں پوری طرح بھیگ نہیں سکا۔‘‘
اس وقت روپم یہ شکایت شروع کردیتا ہے کہ ہم لوگ اپنا بہترین وقت یعنی دن میں دس بجے سے پانچ بجے تک کا وقت تو ایک طرح سے کولھو کے بیل کی طرح گزاردیتے ہیں۔‘‘
میں ہنس کر کہتا ہوں۔ ’’اب اس زندگی کا اپنا مزا ہے۔‘‘
’’کیا خاک مزا ہے؟‘‘ وہ جیسے جل بُھن کر کہتا ہے۔ ’’اب دیکھیے ہم صبح سویرے جاگتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ سونے کا سورج طلوع ہورہا ہے لیکن ایک دو گھنٹے بھی مشکل سے گذرتے ہوں گے کہ دفتر کی طرف بھاگنے کی فکر دامن گیر ہوجاتی ہے۔ دفتر میں جاکر پانچ بجے تک کسی نہ کسی طرح زندگی کا اتنا قیمتی وقت ضائع کردیتے ہیں۔ اور وہ بھی محض دو روٹیوں کی خاطر!‘‘
’’لیکن یہ دو روٹیاں بھی تو ضروری ہیں۔‘‘ میں کہتا ہوں ’’مانا کہ ہم تم فن کار ہیں۔ لیکن آخر بھوک تو ہمیں بھی لگتی ہے اور جیسی حالت سے ہمارا ملک اس وقت گزررہا ہے ہم جانتے ہیں کہ فن سے دلچسپی رکھنے والے لوگ محض فن کی بدولت روٹی نہیں کھاسکتے۔‘‘
روپم بات کا رُخ بدل کر کہتا ہے ’’جو مزہ گھومنے کا ہے وہ ایک جگہ بندھ کر رہنے کا تو نہیں ہوسکتا۔ آخر ہینرلٹ نے سیروسیاحت پر اپنا شاہکار مضمون یوں ہی تو نہیں لکھ دیا تھا۔‘‘
’’لیکن انسان عمر بھر سیروسیاحت تو نہیں کرسکتا۔‘‘
’’تو اپنی شکست قبول کرلو۔‘‘
’’مطلب؟‘‘
’’مطلب یہی کہ تم وہیں آکر کھڑے ہوگئے ہو جہاں سے شروع کیا تھا‘‘
’’سچ پوچھو تو میں تو اب بھی سیروسیاحت کا مزہ لینے سے نہیں چوکتا۔‘‘
میرا مطلب ہے کہ جو شخص بیس برس تک سیروسیاحت میں عمر گزارتا رہا اور وہ بھی مست قلندر انداز سے، وہ کسی کے بندھن کو کب تسلیم کرتا ہے؟ دماغی طور پر تو وہ برابر سیاحت کرتا رہتا ہے۔ یہی حالت میری ہے۔‘‘
’’سیروسیاحت کا ذائقہ اور ہوتا ہے۔ اب دفتر کی بندھی بندھائی زندگی کو بھی سیروسیاحت سے ہم پلّہ ٹھیرانے کا تو یہ مطلب ہے کہ اب تم کبھی سفر پر نہیں نکلوگے۔ حالانکہ اپنا ملک پہلے ہی ہمالیہ سے کنیا کماری تک ہی پھیلا ہوا ہے، لیکن دنیا تو دور دور تک پھیلی ہوئی ہے۔‘‘
روپم کا فلسفہ میری سمجھ میں نہیں آتا۔ میں جھنجھلا کر کہتا ہوں۔ ’’مان لیجیے کہ میں بیس برس تک اپنے ملک کے متعدد کونوں کا جائزہ لیتا رہا۔ اور اب میں نئے حالات کے پیش نظر دلّی کا جائزہ لے رہا ہوں۔ تو اس میں آپ کو کیا اعتراض ہے؟ دلّی میں بھی تو ایک دنیا آباد ہے۔ جس کے مشاہدے کے لیے کافی وقت چاہیے۔‘‘
روپم برابر’’میں نہ مانوں‘‘ انداز میں سر ہلاتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ میں نے ہینرلٹ کا مضمون پڑھ کر نہیں بلکہ صحیح معنوں میں پیر کے چکر کے پھیر میں پڑکر کالج کی شروع کی زندگی میں ہی گھر والوں کی رضامندی کے بغیر گھر سے بھاگ جانے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ میری سیروسیاحت کی اس پر چھاپ ہے لیکن نہ معلوم کس جذبے کے تحت وہ اکثر اپنی زندگی سے بیزار ہوکر کہہ اُٹھتا ہے۔ ’’یہاں ہم اپنی زندگی بیکار کھورہے ہیں!‘‘
میں کہتا ہوں ’’کم سے کم میرا تو یہ خیال نہیں ہے، روپم!‘‘
’’تو ہم کون سا تیر چلا رہے ہیں؟‘‘
’’اب یہ تو بڑا ٹیڑھا سوال ہے۔‘‘
’’تو سیدھا سوال کون سا ہے؟‘‘
’’خیر چھوڑو ایک سوال کا جواب کسی دوسرے سوال سے دینا مجھے ناپسند ہے۔ دفتر کی زندگی کے علاوہ بھی تو ہماری زندگی ہے۔ اب دیکھنا تو یہ ہے کہ ہم کوئی کام کی چیز لکھ بھی رہے ہیں یا نہیں۔‘‘
’’یہ بھی تو ایک دوسرا درد سر ہے۔ یہ تو خیریت ہے کہ ہم لکھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں اور اپنے دوستوں کے نقص نکالتے وقت یہی کہتے ہیں۔ یار! وہ ہمارا فلاں دوست کچھ بھی تو نہیں لکھتا یا یہ کہ اگر وہ لکھتا ہے تو ہم کہتے ہیں، یار!وہ کیا خاک لکھتا ہے۔ اگر ہم پہلوان ہوتے تو اپنے دوستوں پر تنقید کرتے ہوئے کہتے — یار! فلاں آدمی بھی کوئی آدمی ہے وہ ہماری طرح دس بیس سیر دودھ تو پی کر دِکھا نہیں سکتا۔ اگر ہم قصاب ہوتے تو یہی کہتے — فلاں شخص بھی کدھر کا انسان ہے۔ وہ تو ایک چیونٹی کو بھی نہیں مارسکتا۔‘‘
روپم کا فلسفہ کہاں سے کہاں جا پہنچتا ہے۔ میں جھنجھلاکر کہتا ہوں ’’تو پھر کیا کیاجائے۔‘‘
’’سیروسیاحت سے مُنہ موڑنے کا جو لازمی نتیجہ ہوسکتا ہے وہ تو بھگتنا ہی ہوگا۔ ایک تم ہو کہ سیروسیاحت کی زندگی سے مُنہ موڑ کر کولھو کے بیل بن گئے اور جرأتِ رندانہ کا یہ حال ہے کہ اسے بھی سیروسیاحت سے تعبیر کررہے ہو۔‘‘
’’تو گویا ملازمت کی کوئی خوبی نہیں ہے اور سیروسیاحت پر ہی سب خوبیاں مرکوز ہیں؟ لیکن روپم صاحب ! سچ کہتا ہوں کہ میں تو دونوں کا رس لے چکا ہوں۔ دونوں میں خوبیاں بھی اور دونوں میں نقص بھی ہیں۔‘‘
’’سیروسیاحت میں کیا نقص ہے؟ میں بھی تو سُنوں!‘‘
’’بھائی میرے اس کے لیے بھی تو پیسہ چاہیے۔ پیسے کے بغیر بڑی تکلیف ہوتی ہے۔‘‘
’’لیکن ملازمت بھی تو بہت بڑی بکواس ہے۔‘‘
’’یہ محض کہنے کی بات ہے۔‘‘
’’اجی میں تو واقعی اسی طرح محسوس کرتا ہوں۔‘‘
’’تو لاؤ ہاتھ۔ آؤ فیصلہ کرلیں۔ تم تیار ہو تو کل سے ہم اپنے اپنے دفتر جانا بندکردیں۔‘‘
روپم نے قہقہہ لگایا۔ ’’چلو تم نے بھی آج کسی نہ کسی طرح یہ تو محسوس کیا کہ دفتر کی بندھی بندھائی سی زندگی بیکار اور فضول ہے۔ لیکن کل سے ہی ہم کام پر جانا چھوڑدیں، اس بارے میں مزید غور کرنا ہوگا۔‘‘
اس دن سے روپم کچھ کچھ کٹاکٹا سا رہنے لگا۔ میں نے تو اس کا چیلنج منظور کرلیا تھا۔ حالانکہ میں جانتا تھا کہ وہ کبھی چودہ سال کی نیم سرکاری نوکری سے ہاتھ دھونے کے لیے تیار نہ ہوگا۔ اب جب بھی وہ مجھ سے ملتا ۔ میں ہمیشہ یہی کہتا ۔’’ ہاں تو روپم کیا ارادہ ہے؟ تھوڑا بہت تو بینک بیلنس تمھارا بھی ہوگا۔‘‘ اور میں بھی کسی نہ کسی طرح بیوی بچوں کی گزربسر کے لیے اپنی چھوٹی سی اکاؤنٹ بُک بیوی کے نام پر ٹرانسفر کراکر تمھارے ساتھ چل پڑوں گا۔‘‘
’’سوچیں گے۔‘‘ وہ ہمیشہ سنجیدہ ہوکر کہتا۔’’ویسے فیصلہ تو ہم کرہی چکے ہیں۔ اب تو محض اس پر عمل شروع کرنے کی گھڑی کا انتظار ہے۔‘‘
میں اس سے ملتان کے بارے میں پوچھنا شروع کردیتا تو وہ کہتا، ’’ملتان کو گولی مارو۔ وہاں ایسی کیا بات تھی۔ دلّی بھی بُری نہیں۔‘‘
’’اپنے بچپن کا کوئی واقعہ ہی سناؤ، جو ملتان سے وابستہ ہو، یا جس میں دریائے چناب کی لہروں کی یاد تھرکتی ہو۔‘‘
’’اس کے جواب میں وہ کسی شاعر کا یہ شعر گنگناتا!‘‘ ع
یاد نہ کردِلِ حزیں بھولی ہوئی کہانیاں!
ایک آدھ دفعہ اس نے مجھے یہ ضرور بتایا کہ اس کے پتاجی اسٹیشن ماسٹر تھے۔ اور ان کی عمر ریلوے کی نوکری کرتے کرتے کٹی اور ریلوے اسٹیشن کی بجلی کی بتیوں کا منظر اس کے دل و دماغ پر اتنا غالب ہے کہ اب بھی جب موقع ملتا ہے وہ دلّی کے ریلوے اسٹیشن پر جانکلتا ہے اور گاڑیوں کے آتے جاتے اور بجلی کی روشنی میں آتے جاتے مسافروں کو دیکھتا رہتا ہے۔ ساتھ ہی وہ زور دے کر کہہ چکا تھا کہ اس کے لیے بھی اسے خواہ مخواہ ملتان کے ریلوے اسٹیشن کو یاد کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ جیسا کہ اس کا خیال تھا۔ ملتان کے ریلوے اسٹیشن سے تو دلّی کا ریلوے اسٹیشن کہیں زیادہ بڑا اور عالی شان تھا۔
میں ہمیشہ یہ سمجھنے سے قاصر رہتا کہ روپم کی جڑ کس زمیں میں دھنسی ہوئی ہے کیونکہ نہ اسے ملتان کے ادھر پاکستان میں رہنے کا غم تھا اور نہ ملتان سے دلّی چلے آنے کی ہی کوئی خلش اسے کبھی ستاتی تھی۔ پھر بھی یہ اس کی دیدہ دلیری تھی کہ وہ عجب جذباتی لہجے میں شاعر کا یہ شعر گنگنانا شروع کردیتا۔ ؎
مرے آشیاں کے تو تھے چار تنکے
چمن اُڑ گئے آندھیاں آتے آتے
مجھے یہ پتہ چلاتے بھی دیر نہ لگی کہ داغؔ کا یہ شعر روپم نے پہلے پہل ناشاد سے سُناتھا۔ اب ناشاد بھی تو میرا دوست تھا۔ اس نے مجھے بتایا کہ وہ کہیں غلطی سے روپم کو اپنے لاہور جانے کا قصہ سُنا بیٹھا۔ جہاں اُسے ایک مشاعرے کے لیے مدعو کیا گیاتھا۔ قصہ یہ تھاکہ ناشاد کو لاہور میں کرشن نگر کی اس گلی میں کچھ دوستوں نے ایک جگہ چائے پر بُلایا۔ جہاں دراصل اُس کا پُرانا گھر واقع تھا۔ ناشاد کو پچھلی یادوں نے اتنا گھیر لیا تھا کہ میز پر چائے دیکھ کر اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور اس کا گلا اتنا بھرآیا کہ وہ چائے کا پیالہ اُٹھاکر حلق میں چائے کا ایک بھی گھونٹ نہ اُنڈیل سکا۔ چنانچہ صورت یہ تھی کہ جتنے لوگ چائے پر بلائے گئے تھے ان میں سے ایک بھی شخص چائے کا گھونٹ اپنے حلق سے نیچے نہ اُتارسکا۔اس واقعہ پر روپم نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا۔ ’’ہمیں تو سوائے جذبات کے اور کوئی چیز نظر نہیں آتی۔ یہ جذبات محض کمزوری کی علامت ہوسکتے ہیں۔‘‘ ناشاد کا خیال تھا کہ روپم نے اسے سمجھنے کی ذرا بھی کوشش نہیں کی تھی اور اپنے نظریے پر روشنی ڈالتے ہوئے اس نے روپم کو داغؔ کا یہ شعر سنایا تھا جو اگرچہ آج سے بیسیوں سال پیشتر لکھا گیا تھا لیکن وہ اتنا واضح اور زوردار تھا کہ اگر اسے شرنارتھیوں کے پس منظر میں دیکھا جائے تو ہم شاعری کی داد دیے بِنا نہیں رہ سکتے، اس کے جواب میں بھی روپم نے یہی کہا تھا ’’خیر شعر بڑا نہیں ناشاد صاحب! لیکن میں یہاں بھی وہی بات عرض کروں گا کہ ہم محض جذباتی ہوکر نہ رہ جائیں۔‘‘
ایک دن ہم تینوں دوست ایک ریستوران میں شام کی چائے پر اکٹھے ہوگئے ناشاد نے جان بوجھ کر وہ لاہور والا واقعہ سُنا ڈالا۔ اور میں نے چھوٹتے ہی کہا ۔ ’’یہ تو بہت بڑا واقعہ ہے۔ اس کے پسِ منظر میں وہ درد پنہاں ہے جو اِن دیواروں کو تسلیم کرنے سے انکاری ہے جو ملک ملک کے بیچ میں انسان نے کھڑی کرنے کی کوشش کی ہے۔‘‘
’’واقعی‘‘ ناشاد نے جیسے آج پہلی بار اس واقعہ کی نوعیت کو محسوس کیا۔ ’’کہاں ایک سمندر ختم ہوتا ہے اور کہاں دوسرا سمندر شروع ہوتا ہے۔‘‘ یہ بتانے کے لیے پانی پر کوئی لکیر نظر نہیں آسکتی۔‘‘میں نے زور دے کر کہا۔’’اسی طرح انسانیت کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر بھی ایک ہے اور یہ کس طرح ممکن ہے کہ انسان اس گلی کو بھول جائے جہاں اس کا بچپن بیتا۔‘‘
’’لیکن مجھے تو ملتان کی یاد کبھی نہیں ستاتی۔ اور نہ ہی اس گلی کی یاد مجھے کبھی پریشان کرتی ہے جہاں میرا بچپن گزرا۔‘‘ روپم نے چائے کے پیالے میں چمچہ ہلاتے ہوئے کہا۔ ’’یہ محض اس لیے کہ میں جذبات کو اپنے دل و دماغ پر حاوی نہیں ہونے دینا چاہتا۔‘‘
’’اور اسی لیے شاید تم نے ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کیا کہ ہم نوکری کو خیرباد کہہ کر سیروسیاحت پر نکل پڑیں۔‘‘ میں نے روپم کی طرف غور سے دیکھا۔ وہ سگریٹ کا کش لگاتے ہوئے دھویں کے چھلوں کو بنتے بگڑتے دیکھ رہا تھا۔
ناشاد نے کہا۔ ’’دیکھیے میں آپ لوگوں کی طرح کہیں ملازم نہیں ہوں۔ میں آزاد ہوں۔ میں نے اپنی آزادی کس طرح خریدی ہے یہ شاید آپ لوگ نہیں جانتے۔ ہاں تو مجھے کام مل سکتا ہے۔ تین چار سو روپیے تو فی زمانہ کہیں نہیں گئے۔ لیکن میں یہ سوچ کر خوش ہولیتا ہوں کہ میں نے تین چار سو روپیوں پر لات نہیں ماری بلکہ سمجھو کہ میں نے یہ روپیے کما لیے اور انھیں صرف کرکے اپنی آزادی خرید لی۔‘‘
’’پھر بھی میں آپ لوگوں کو یہی رائے دوں گا کہ آپ نوکری نہ چھوڑیں۔‘‘ ناشاد نے سنجیدہ ہوکر کہا۔
میں نے کہا۔ ’’یہ بحث میں بھی کرچکا ہوں، لیکن روپم نہیں مانتا۔ وہ کہتا ہے کہ یہ ٹھیک ہے کہ تم بیس برس تک سیروسیاحت کرچکے ہو۔ لیکن بہتر ہوگا کہ پھر سے سیروسیاحت کرو میرے ساتھ، ورنہ سیروسیاحت کا اب تک حاصل کیا ہوا مزہ بھی کرکرا ہوجائے گا۔‘‘
’’تو تم نے کیا جواب دیا؟ ‘‘ناشاد نے جھٹ پوچھ لیا۔
’’میں نے لاکھ کہا کہ میں آج بھی اپنے کمرے میں اپنی پچھلی سیروسیاحت کے بل بوتے پر بوالعجبی کو بلاسکتا ہوں جوکہ دراصل میری زندگی کا حاصل ہے لیکن روپم نہیں مانتا۔ اب وہ تمھارے سامنے بیٹھا ہے۔ یقین نہ آرہا ہو تو خود اسی سے پوچھ لو۔‘‘
’’روپم خاموش بیٹھا رہا۔ وہ سگریٹ کے کش لگاتا رہا۔ مسکراتا رہا۔ مچھوے کی طرح کوئی نئی دلیل ڈھونڈتا رہا۔ جسے آج کی شام ایک مچھلی کی طرح اپنے جال میں پھانس لے۔ لیکن شاید ناشاد کی موجودگی میں اسے کوئی دلیل سوجھ نہیں رہی تھی۔‘‘
ناشاد بولا۔’’خیر چھوڑو۔ ہم بھی کیا بحث لے بیٹھے۔ کوئی مزے دار بات سُنا ؤ۔‘‘
’’کیسی بات سُننا پسند کروگے؟‘‘ میں نے کہا۔ ’’جیسی بات چاہو حاضر کرسکتا ہوں۔ آخر بندہ بیس برس تک گھاٹ گھاٹ کا پانی پی چکا ہے اور سیروسیاحت کا واقعی سب سے بڑا جادو یہی ہے کہ انسان کے دل و دماغ میں ایک نیا گداز پیدا ہوتا ہے۔ ایک ایسی بوالعجبی اس کے ہاتھ لگتی ہے جسے میں تو الہ دین کے چراغ سے تشبیہ دے سکتا ہوں۔‘‘
’’اتنی جسارت؟‘‘ روپم نے جیسے اُبھر کر کہا۔ ’’کبھی یہ بھی سوچا کہ سیروسیاحت سے ہاتھ دھوئے کتنے برس بیت گئے۔ ’سات سال‘ اور جناب سات سال کچھ کم نہیں ہوئے۔ اب تو تم بھی میری طرح کولھو کے بیل ہو۔ ہر روز دفتر کی طرف بھاگتے ہو۔ چاہے سونے کا سورج لاکھ کہہ رہا ہو کہ آج تو کہیں گھومنے کا دِن ہے۔‘‘
’’اب یہ تو بہت فضول سی دلیل ہے۔‘‘ ناشاد نے ہنس کر کہا۔ اگرچہ میں تو آپ لوگوں سے یہی کہہ سکتا تھا کہ میری طرح آزاد ہوجاؤ۔ لیکن نہیں۔ میں یہ غلطی نہیں کروںگا۔ کیونکہ میں مانتا ہوں کہ ہر شخص میری طرح آزادی کی قیمت ادا نہیں کرسکتا اور پھر میں پوچھتا ہوں کہ سیروسیاحت کا آپ کے نزدیک کیا مصرف ہے۔ ’’پہلے تو آپ کو اپنے پس منظر کے ساتھ یکسوئی کا احساس پیدا کرنا ہوگا۔ یہ ٹھیک ہے کہ انسان دور دور تک دنیا کو دیکھنے کے لیے جاسکتا ہے۔ لیکن کبھی یہ بھی سوچا کہ اس زمین کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے جہاں آپ پیدا ہوئے ، جہاں آپ کا بچپن بیتا۔ جہاں ایک پیڑ کی طرح آپ کی جڑیں زمین کے نیچے دھنستی چلی گئیں۔‘‘
میں نے کہا۔ ’’میرے ذہن میں وہ سینکڑوں ہزاروں گانو گھوم جاتے ہیں جہاں میرے پانو کا چکر مجھے لے گیا۔ میں ان انسانوں کی یاد ہی کو پاتا ہوں جنھیں میں نے اپنے سفر کے دوران میں دیکھا۔ جن کا لب و لہجہ دانستہ طور پر یا نادانستہ طور پر مجھے متاثر کرتا رہا۔ وہ زندگی مجھے ہمیشہ یاد رہتی ہے جس کی بدولت میں حقیقت کی گہرائیوں کو سمجھنے کے قابل ہوسکا۔‘‘
’’یہ سب ٹھیک ہے‘‘ ناشاد نے ہنس کر کہا۔ میں تو یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ آپ کو میری طرح آپ کے گانو کی گلی کہاں تک اپنی طرف کھینچتی ہے۔‘‘
’’گانو کی گلیاں تو ان لوگوں کو اپنی طرف کھینچتی ہیں جو چائے کی پیالی پر بَہک کر رو سکتے ہیں۔‘‘ روپم نے شاہانہ انداز میں کہا۔ ’’ہم تو ان کھوکھلے جذبات سے بے نیاز ہیں۔‘‘
’’اچھا تو لو ہماری گلی کا قصہ سن لو۔ میں نے کہا ، شروع میں پچھلے برس کی بات ہے کہ میں اپنے گانو گیا۔ یہ سب سے لمبا عرصہ تھا جو میں نے اپنی تمام زندگی میں گانوسے باہر گزارا۔ میرا مطلب ہے کہ پہلے تو میں ہمیشہ ہر دوسرے تیسرے سال اپنے گانو ہو آتا تھا لیکن اب کے آٹھ برس کا عرصہ گذر گیا اور میں اس دوران میں ایک بار بھی گانو نہ جاسکا۔ پچھلے تین چار برسوں سے میں ہمیشہ یہ محسوس کرتا تھا کہ میرا گانو مجھے بُلا رہا ہے۔ کئی بار میں نے پروگرام بنایا لیکن کوئی نہ کوئی وجہ غالب آجاتی اور میرا پروگرام بیچ ہی میں رہ جاتا۔ لیکن جب میں پچھلے برس اپنے گانو گیا تو میرا کلیجہ منہ کو آنے لگا۔‘‘
’’وہ کیسے؟‘‘ ناشاد نے جھٹ پوچھ لیا۔
روپم بیٹھا سگریٹ کے دھوئیں کے چھلے اُڑاتا رہا۔ اسے شایدمیری باتوں میں ذرا بھی دلچسپی نہ تھی۔ کیونکہ اس کے نزدیک ملتان اور دلی میں اتنا بھی فرق نہیں رہ گیا تھا جتنا اس کے اصل نام روپ مدل اور میرے دیے ہوئے نام روپم میں نظر آسکتا تھا۔
میں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔ ’’وہ اس لیے کہ ہمارے گانو کی صورت اُداس تھی۔ بہت سے لوگ جنھیں گانو والوں نے ملک کے بٹوارے کے دوران میں زبردستی باہر نکال دیا تھا، اور جو شاید پاکستان کی سرحد پار کرنے پر مجبور ہوگئے تھے، اب وہاں نظر نہ آسکتے تھے۔ چنانچہ اب ایک بھی تیلی نہیں رہ گیا تھا جو کولھو میں سرسوں کا تیل نکال سکے۔ ایک بھی جُلاہا نہیں رہ گیا تھا جو گانو والوں کے لیے بیاہ شادی میں دُلہن کے واسطے خاص طور پر کھدّر کے تھان تیار کرسکے۔ ہماری گلی اُداس تھی۔ میں نے دیکھا کہ گانو کی روح تو ہماری گلی میں سمٹ آئی ہے۔ اب نہ ہمارے پڑوس میں ہماری خاندانی دائی کے گھر والوں میں سے کوئی شخص موجود تھا، نہ فضل دین تیلی ہی کہیں نظر آسکتا تھا، جسے ہم بچپن سے ہی چاچا کہہ کر پُکارتے تھے، جو کبھی مسجد میں نماز پڑھنے بھی جاتا تھا اور پھر اپنے صحن میں بھی نماز پڑھ لیتاتھا جو بہت دین دار تھا اور جب میرے پِتا جی نے بتایا کہ ان کے لاکھ کہنے پر بھی فضل دین نے اپنا گھر چھوڑ کر دوسرے لوگوں کے ہمراہ پاکستان کی سرحد کی طرف جانے سے انکار کردیا ، تو اگلے ہی روز باہر سے آنے والے شرنارتھیوں کا ریلا آیا اور اُن میں سے کسی نے فضل دین کو موت کے گھاٹ اُتار دیا۔‘‘
’’اُف!‘‘ ناشاد کہہ اُٹھا۔
روپم اب بھی سگریٹ کے چھلّے اُڑا رہا تھا۔ جیسے وہ کہنا چاہتا ہو کہ کیا فضول سی باتیں شروع ہوگئیں۔
میں نے کہا۔ ’’آپ کو یقین نہیں آئے گا کہ میں سات دن تک اپنے باڑے کی طرف قدم نہ اُٹھا سکا جس کا راستہ چاچا فضل دین کے گھر کے صحن میں سے ہوکر جاتا تھا لیکن آٹھویں دن بھی جب میں حوصلہ کرکے اپنے باڑے کی طرف جانے لگا تو میں راستہ سے ہی لوٹ آیا۔ حالانکہ میں جانتا تھا کہ وہاں اب چاچا فضل دین کے خون کا ایک بھی دھبہ موجود نہ ہوگا۔ اور جو لوگ اَب اس مکان میں رہتے ہوں گے انھوں نے اس مکان کو لیپ پوت کر اچھا کر رکھا ہوگا۔ جب میں اپنے گھر کی طرف لوٹ رہا تھا تو میں نے دیکھا کہ ہماری گلی کتنی اُداس نظر آتی ہے۔ میرا ارادہ تو نہیں،لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اس قسم کی ایک اور کسک یا کسی اُجڑی سونی گلی کی یاد مجھے ملازمت سے محروم بھی کرسکتی ہے اور زندگی دوبارہ اپنے مرکز کی جانب لوٹ سکتی ہے۔‘‘
***
فتّوبھوکا ہے*
بھوک مر رہی ہے۔ اب یہ بڑھ تو نہیں سکتی۔ پہلے تو سانپن کی طرح بڑھتی چلی آرہی تھی۔ چولھے میں آگ نظر نہیں آتی۔ آج آگ نہیں جلے گی۔ دو پہر تو کبھی کی ڈھل گئی۔ پتا جی بھوکے ہیں، چاچا بھوکا ہے، ماں بھی ،میں بھی،چھوٹا بھائی بھی اور فتّو بھی تو بھوکاہے ۔
فتّو نے کل بھی کچھ نہیں کھایا تھا۔ادھر سارے گھر میں بتایا تو یہی گیا کہ کسی نے کچھ نہیں کھایا۔ لیکن ایک ماں کو چھوڑ کر سب نے کچھ نہ کچھ ڈال ہی لیا تھا منھ میں چوری چھپے۔ غصّے سے جلا بھنا فتّو بھینسوں کے پاس کھاٹ ڈال کر سو گیا تھا۔ کئی برسوں سے وہ اسی جگہ سوتا آیا ہے۔
فتّومسلمان ہے۔ جی ہاں۔ ہم ہندو ہیں،ہوں گے۔لیکن فتّو ایک مدت سے ہماری بھینسوں کی سیوا کرتا آیا ہے۔ کم دودھ دینے والی بھینسیں ادِھک دینے لگیں،ناچ نچانے والی اڑیل بھینسیں سیدھی ہوگئیں۔ وہ ویتن (تنخواہ) بھی تو نہیں لیتا ۔ وہ توگھرکا آدمی ہے۔ جی ہاں، گھر کا آدمی۔سب اپنا اپنا کام کرتے ہیں۔ وہ بھینسوں کو سنبھالتا ہے۔ بھینسیں اسے چاہتی ہیں۔ ذرا کسی بھینس کے بدن پر ہاتھ پھیر دیا، بس وہ اس پر خوش ہو گئی۔ بھینس تو بھینس، ابھی پرسوں تک تو یہ حال تھا کہ وہ کسی بھینس کے بدن پر اپنا ہاتھ پھیرتا اور مجھے یوں لگتا کہ وہ میرے بدن پر ہاتھ پھیر رہا ہے۔ ہاں تو آج فتّو بھوکاہے۔
بھینسیں بھی اداس نظرآتی ہیں۔ انھوں نے کیسے جان لیا کہ فتّو بھوکا ہے؟ گوما کا منھ تو اتر گیا ہے۔ ونتو منھ باندھے بیٹھی ہے۔ ریشما کی آنکھوں میں آنسو آیا چاہتے ہیں۔ بے زبان بھینسوں نے کیسے جان لیا کہ فتّو بھوکا ہے۔
کل فتّو بھوکا نہیں رہا ہوگا۔ کسی بھینس کا دودھ پی کر پڑ رہا ہوگا۔ نہیں نہیں، وہ ایسا آدمی۔ ضرور وہ کل بھی بھوکا رہا ہوگا ۔ اور وہ آج تو بھوکاہے ہی۔
ماں کہہ رہی ہے— ’’روٹی کھا لے، فتّو! پیٹ کے ساتھ کیا دشمنی ہے؟ کل سے چولھا ٹھنڈا پڑا ہے۔ ابھی چولھے میں آگ جلائوں گی۔ بس تو ذراہاں کہہ دے، فتّو!‘‘
میں فتّو کے قریب کھڑا ہوں۔ادھر میری اداسی بڑھ رہی ہے۔ فتّوبھوکا ہے۔اس کی آنکھیں مندر کے دیوں کے سمان ٹمٹمارہی ہیں۔ منھ سے وہ کچھ نہیں بولتا۔
تم بھی ایک ہی غصیل ہو،فتّو! میں کہنا چاہتا ہوں، تمھارے کپڑوں سے تو گوبر کی بو آتی ہے، پھر بھی میں تمھارے پاس دوڑاآتا ہوں۔ تمھارا یہ غصہ مجھے سرے سے ناپسند ہے۔ پیٹ کے ساتھ کیا دشمنی؟ ماں سچ کہتی ہے۔ ابھی کل تک ہنسنے کھیلنے کے دن تھے، اب میں سمجھدار ہو رہاہوں۔ کیول ہنستا کھیلتا رہتا تو آٹھویں کی پرکشا میں سارے اسکول میں پرتھم کیسے رہتا؟ سب لڑکوں کے سامنے ہیڈ ماسٹر صاحب نے مجھے شاباشی دی تھی۔ کچھ دن اورہوں ادھر۔ ہائی اسکول میں بھرتی ہونے کے لیے باہر جا ناہوگا۔ پھر نہ وہاں فتّو ہوگا ، نہ گوما، نہ ونتو ، نہ ریشما۔ ہاں تو فتّوآج بھوکا ہے۔
پہلے پہلے فتّواس گھر میں آیا تھا تو وہ مجھ سے ایک ہی سال بڑا تھا-ایک اناتھ لڑکا۔ کھلے شبدوں میں وہ ویتن مانگ سکتا تھا۔ اس نے تو گھر کا آدمی بننا ہی پسند کیا۔لوگوں نے اسے سوسو پٹّیاں پڑھائیں۔ پر اس پر کچھ اثر نہ ہوا۔ ماں نے بھی بہت کہا، فتّوروپیے مانگ لے۔ پر وہ ہمیشہ اسے مذاق سمجھتارہا۔ بیٹا ماں کی تنخواہ لے، یہ تو نہ ہوگا۔ بس یہی اس کا گڑھاگڑھایا جواب تھا۔
چولھے میں آگ نہیں جلی۔ سارے گھر میں افرا-تفری پھیل رہی ہے۔فتوّ چپ ہے۔ جی چاہتا ہے کہ اس کی کھاٹ کے گرد کوئی عجیب سا ناچ ناچوں اور اس گیت کے بول گنگنائوں جو مجھے بہت پسند ہے۔ فتّو کی پگڑی میں کویل کا گھونسلہ۔ پر اب تو ہوا بھی تھم گئی۔ مجھے بھی شانت ہوکر بیٹھ جانا چاہیے۔ٹکٹکی باندھے میں فتّو کی اور دیکھ رہا ہوں۔کتنا سوکھا-ساکھا سا آدمی ہے۔ پر وہ دودھ میں بستا ہے۔ریشما اور گوما کو دوہتے وقت شروع میں یا آخر میں ، ان کے تھنوں کو منھ لگا کر جتنا چاہے دود ھ پی سکتا ہے۔کوئی نگرانی تو نہیں کر سکتا ۔ پر نہیں نہیں، وہ اس طرح دودھ نہیں پیتا۔ گھر کا آدمی جو ٹھہرا۔ پورا دودھ دوہ کر لاتاہے۔ میری نگاہ میں تو وہ ایک مورکھ ہے۔اسے تو خوب دودھ پینا چاہیے۔ لاکھ کوئی جھک مارا کرے، چوری کا نام دیا کرے۔ میں تو اسے چوری نہیں کہوں گا۔ اپنے دودھ کی چوری، خوب انصاف ہے! جی ہاں، فتّو تو گھر کا آدمی ہے۔
چاچی نے آج بھی چوری -چھپے پنجیری کھا لی ہوگی۔ اوپر سے وہ فتّو کی منّت کیے جا رہی ہے -’’دیکھ فتّو بیٹا ، ریشما کتنی اداس ہو رہی ہے۔‘‘ ٹھیک تو ہے۔ ریشما کو فتّو سے پوری ہمدردی ہے— چاچی سے کہیں زیادہ۔
ریشما کی بڑی بڑی آنکھوں میں جھانک کر میں پوچھتا ہوں— کیاتم جانتی ہو ریشما، چاچاجی فتّو کی صلاح لیے بنا ہی تمھیں بیچ ڈالیں گے؟ اور اس کی بڑی بڑی آنکھیں جیسے آنسوئوں سے گیلی ہوگئیں۔ جیسے وہ کہنا چاہتی ہوفتّویہاں سے چلا گیا تومیں کیسے زندہ رہوں گی؟ اور میرے کارن وہ اس گھر کو تو چھوڑنے سے رہا۔
گوما الگ اداس بیٹھی ہے۔ جیسے کہنا چاہتی ہو -فتّویہاں سے چلا گیا تو میں کیسے زندہ رہوں گی۔ جب وہ مجھے نظر نہیں آتا تو مجھے بِنول بھی اچھے نہیں لگتے۔
ونتو نے اپنی تھوتھنی گوبر اور پیشاب سے لت پت زمین پر رکھ چھوڑی ہے۔ جیسے اب وہ اسی طرح بیٹھی رہے گی۔ اس کے بدن پر کبھی فتّو نے مالش نہیں کی۔ وہ جانتی ہے کہ اسے سب سے زیادہ پیار ریشما سے ہے۔ اسی کو وہ سب سے زیادہ بِنولے کھلایا کرتا ہے۔ پر وہ رشک میں پھنس کرفتّوسے نفرت نہیں کرتی۔
ونچی نے گھاس کو منھ تک نہیں لگایا۔ پہلے فتّو کھائے گا۔ جی ہاں، پہلے تو فتّو کو ہی کھانا چاہیے اور جب تک فتّو اپنی زبان سے حکم نہیں دیتا ، ونچی اپنے پیٹ کی بات کبھی نہیں سنے گی۔
چاچی کہہ رہی ہے—’’ان غریب غریب بھینسوں کا ہی کچھ خیال کرو، فتّو! کیا کھائوگے؟ بولوتو۔ جو کھائو وہی پکا دوں۔ تیرے اللہ کا واسطہ غصے کو تھوک دو۔ میں دیکھوں گی کہ کس طرح تمھارے چاچا ریشما کو بیچ ڈالتے ہیں۔ انھیں آنے تو دو۔ میں خود ان کا ہاتھ پکڑ لوںگی۔ وہی ہوگا فتّوبیٹا جو تم چاہوگے۔ بس اب ضد نہ کرو۔ پہلے کچھ کھا لو۔‘‘
ریشما نے اپنی تھوتھنی فتّو کی کھاٹ پر رکھ دیاور اپنی بڑی-بڑی آنکھو ں سے اس کی طرف دیکھ رہی ہے۔ جیسے کہہ رہی ہو— ہاں -ہاں ، فتّو پہلے کچھ کھالو۔ چاچی کی بات رکھ لو، کب تک بھوکے رہوگے؟ اپنی بھوک کی تو مجھے کچھ چنتا نہیں تم ضرور میرے دودھ کی کھیر بنوا لواپنے لیے۔
میں سوچ رہا ہوں کہ چاچی سے کیسے سوال -جواب کروں۔تیرے اللہ کا واسطہ! تو کیا فتّو کا اللہ اور چاچی کا بھگوان دوہیں!دو تو نہ ہوں گے۔ فتّو کوئی غازی تو نہیں، لیکن اس کا اللہ اس پر خوش ضرورہے۔ اللہ نے ہی ریشما کا دودھ زیادہ سے زیادہ بڑھا دیا تھا۔ ایک بار نئی بیائی بھینس مر گئی تھی۔ فتّو سمجھ لیا کہ اللہ ناراض ہے۔ پر کچھ دن بعد فتّو نے مجھے سمجھایا تھاکہ اللہ اپنے بندوں کو سزا دے کر خوش نہیں ہوتا۔ تیرے اللہ کا واسطہ! یہ کیوں نہ کہا کہ میرے بھگوان کا واسطہ؟
کل جگدیش دکان پر چاچا سے کہہ رہا تھا— ’’ نہ کوئی اللہ ہے نہ کوئی بھگوان۔ اگر کوئی ایسی شکتی ہوتی تو پہلے امیری اور غریبی کی سیمائو ں کو اپنے وش میں رکھتی۔ امیروں کو خون چوسنے والی جونکیں نہ بننے دیتی اورغریبوں کو جنم جنم کے غلام اور پد دلت پشو بننے پر مجبور نہ کرتی۔ بلکہ اگر کوئی خدا ہوگا بھی تو ضرور کوئی ساہو کار ہوگاکیونکہ آج کل ساہوکاروں کی چاندی ہے۔
جگدیش نہ جانے کیوں ایسی باتیں کیا کرتا ہے؟ جی ہاں، اب وہ گریجویٹ ہے۔ نہ وہ فتّوکے اللہ کو مانتا ہے ، نہ چاچی کے بھگوان کو۔ کیا سب گریجویٹ ایسے ہی ہوتے ہیں؟ آج جب میں نے اسے بتایا کہ میں نے چاچی کو چوری -چھپے پنجیری کھاتے دیکھاہے تووہ گلا پکڑ کر ہنسنے لگا۔ بولا— ’’ میں بھگوان ہوتا توچاچی کو چار گھونسوں سے تو کیاکم سزا دیتا؟‘‘
ریشما اور گوما ، ونتواور ونچی— چاروں بھینسیں ایک -دوسرے کی طرف دیکھ رہی ہیں۔ شاید وہ مل کر فیصلہ کرنا چاہتی ہیں کہ فتّو کوکھانا کھا لینا چاہیے۔
مجھے وشواس نہیں ہوتا کہ کوئی گریجویٹ بھی بھینسوں سے اتنا پیار کر سکتا ہے نہ مجھے یہی وشواس ہوتا کہ بھینسیں کسی گریجویٹ کو بھوک -ہڑتال کرتے دیکھ کر خود بھی ہڑتا ل میں شامل ہو سکتی ہیں۔ پر جگدیش تو ناستک ہے اور اس نے چاچا کو بھی ناستک بنا دیا ہے۔
جب سے فتّو ہمارے یہا ں آیا ہے، وہ اپنی بھینسوں کو اسی طرح پیار کرتا رہا ہے۔ ہر سال عید کے موقع پر وہ سویرے سویرے انھیں نہلاتا ہے اور پھر ایک-ایک کے کان میں کہتا جاتا ہے— کل عید ہے! اور رات کو نہرکے کنارے وہ اپنے ساتھ انھیں بھی عید کا چاند دکھا کر خوشی سے جھوم جھوم اٹھتا ہے۔ دیوالی کی رات آتی ہے توکھڑکیوں پر دیے جلا کر رکھ جاتا ہے۔ اس خوشی میں بھینس کا دودھ بڑھ جاتا ہے۔ اور پھر کارتک کی پورن ماسی پر وہ انھیں میلہ دکھانے لے جاتا ہے۔ کہتا ہے— انھیں بھی تو معلوم ہونا چاہیے کہ آج بابا نانک کا جنم دن ہے۔ جی ہاں ، بہت مزے دار آدمی ہے فتّو ۔ کہتا ہے آدمی اپنے تہوار منائے اور اپنے مویشیوں کو شامل نہ کرے، یہ تو بڑی مورکھتا ہوگی۔
کبھی کبھی فتّواپنے ہونٹ چوس لیتاہے۔ اب تو ضرور اسے کچھ کھا لینا چاہیے۔ شاید وہ سوچتاہے ،ریشمامیری ریشمامیرے پاس سے چلی گئی توکون اسے بِنولے دے گا؟ سوکھاساکھا سا بھونسا کھاتے ہوئے کہا کرے گی— کدھر گیا وہ میرا فتّو؟ اس کے سینگ تیل کی مالش کے بنا سوکھ جائیں گے ۔ اس کی نرم اور ملائم پیٹھ سیہی کی پیٹھ کی طرح کھردری ہو جائے گی۔ اس وقت وہ منھ اٹھا کر کسی کو ڈھونڈا کرے گی۔ لیکن اسے اس کا ٖفتّو کہیں نظر نہ آئے گا۔ اس سے زیادہ وہ کچھ نہیں سوچ سکتا ۔ سر کو ایک جھٹکا دے کر وہ اٹھ بیٹھاہے۔
ریشمااپنی بڑی بڑی آنکھوں سے فتّو کی اور دیکھتی ہوئی ایک بار پھر اپنی تھوتھنی کھاٹ کی پٹّی پر رکھ دیتی ہے۔جیسے کہنا چاہتی ہو— تم کھانا کھالو فتّو! چا چا ضرور چاچی کی بات رکھ لیں گے اور مجھے بیچیں گے نہیں اور اگر انھوں نے مجھے بیچ بھی دیا تو میں رسّہ توڑکر بھاگ آئوں گی۔ میں کسی بھی طرح اپنے نئے مالک کے گھر میں بندھ کر نہ رہوں گی۔ تم تو جانتے ہی ہو فتّو کہ تمھارے بنا مجھے کچھ بھی اچھا نہیں لگتا ۔ تم دودھ دوہنے بیٹھتے ہو تو میں چاہتی ہوں کہ تم مجھے گھنٹو ں دوہتے رہو۔ مجھے اس سمے ایک گدگدی سی ہوتی ہے اور یہ صرف تمھارے ہی ہاتھوں سے دوہے جانے پر۔
بھوکی آنکھوں سے فتّو ریشما کی طرف دیکھتا ہے۔ جیسے کہہ رہا ہو— بس چلتے تو تمھیں بکنے نہ دوں گا ، ریشما! مجھے معلوم ہے تم ہمیشہ میرے ہاتھوں سے دوہا جانا پسند کرتی ہو۔ بلکہ تم اس بات کے لیے ترس جاتی ہو کہ میں کبھی تمھارے تھن کو منھ میں لے کر دودھ پیوں۔
چاچا بھی آگئے۔فتّو کی طرف دیکھے بنا ہی وہ اندر چلے گئے۔ فتّو کی ناراضگی کے کارن چولھا ٹھنڈا پڑارہے یہ انھیں پسند نہیں۔ اصل میں وہ فتّو سے تنگ آچکے ہیں۔فتّو ہمیشہ خود ہی دوہتا ہے اور چاچا کہتا ہے کہ کوئی دیکھنے والا نہ ہو تو وہ بھینس کے تھن کو منھ میں لے کر جتنا چاہے اتنا دودھ پیا کرے ہر روز۔
پتا جی کہہ رہے ہیں— ’’ اب چھوڑو یہ بھوک ہڑتال،فتّوبیٹا! ریشما تمھاری ہے اور تمھاری ہی رہے گی۔وہ بکے گی نہیں، ہم گریں گے نہیں۔
اگرریشما سچ مچ بکے گی نہیں تو چاچا خود کیوں نہیں کہہ دیتا؟ نہ بھگوان کی قسم کھائیں نہ اللہ کی، کیول کہہ دیں کہ ریشما بکے گی نہیں۔ پر تعجب اس بات کا ہے کہ جب سے جگدیش ، چاچاکے پاس آنے لگا ہے، چاچا فتّو کی طرف اور بھی امید سے دیکھنے لگے ہیں۔
چاچی پرے بیٹھی قمیض سی رہی ہے۔ ضرور یہ چاچا کے لیے سل رہی ہوگی۔ پر میں سوچتا ہوں کہ چاچا کو یہ قمیض ہرگز نہیں ملنی چاہیے۔ فتّو کا چاچا کو ذرا بھی تو خیال نہیں۔ جی ہاں، اب تو فتّو کو بہت سخت بھوک لگ رہی ہوگی۔ بھوک سے اس کی جان نکل رہی ہوگی۔ لیکن وہ بھی ایک ہی ہٹیلاہے۔ اَڑ گیا تواَڑگیا ہمیشہ کے لیے۔ بس اب خدا بھی آکر کہے کہ بھوک ہڑتال بند کردو تو وہ ایک نہیں سننے کا۔
فتّوکی زبا ن پر برابر ٹانکا لگا ہے۔ اندر سے نکل کر چاچا اس کی کھاٹ کے پاس کھڑا ہو گیا ہے۔ دونو ں خاموش ہیں۔ ایسی بھی کیا خاموشی ہے؟ شاید چاچا جھکنے کو تیار ہے۔ لیکن بات منھ پر نہیں آتی۔ کتنا ضدی ہے چاچا بھی۔ آخر اس میں ضد کی کیا بات ہے؟ ریشما کو بیچنا اتنا ضروری کہاں سے ہو گیا؟ فتّو بھی آخر انسان ہے۔ اگر وہ سچ مچ ریشما کوبکنے نہیں دینا چاہتا تو فالتو میں چاچا کوہی ضد کرنے کی کیا ضرورت ہے؟
فتّو کے دل میں تو سارے گھر کا درد بھرا ہے، سب بھینسوںکا درد بھرا ہے۔ وہ بھی کتنا بھلا آدمی ہے— بالکل گھر کا آدمی۔ آج وہ کیسے پرایا ہو گیا؟ وہ اناتھ سہی، اس کا رکت مانس کسی اجنبی پریوار کا سہی، اس کا مذہب بھی الگ سہی، پر اس نے اپنا سارا جل اسی ندی میں ملا دیا ہے۔ اور اگر یہ سچ ہے تو اس کا ستیہ گرہ بھی ٹھیک ہے۔
کیا خون کا رشتہ ہی سب سے بڑا رشتہ ہے؟فتّو میرا بھائی ہے۔ اس کا اللہ میرا اللہ ہے۔ اس کے ساتھ میں بھی مسلمان ہوں۔ارے، ارے ! یہ میں کیا کہہ گیا؟ پر ایسی بھی کیا بات ہے ۔ فتّو میرا بھائی ہے۔ جی ہاں ،فتّو ہمیشہ میرا بھائی رہے گا۔ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر میں ہمیشہ دل کی باتیں بھانپ سکتا ہوں۔اور اس کے گلے میں بانہیں ڈال کر میں ہمیشہ کہہ سکتا ہوں — تم کبھی اتنے ناراض تو نہیں ہوجائوگے فتّوکہ مجھے اکیلا چھوڑ کر چلے جائو؟
پتا جی کہہ رہے ہیں— ’’اب ضد چھوڑدو ، فتّو بیٹا! تم دیکھوگے کہ ریشما تمھارے پاس ہی رہے گی۔‘‘
چاچا اب بھی خاموش ہے۔ نہ جانے چاچا کیوں خاموش ہے؟ چاچا چاہے تو ایک ہی شبد سے فتّو کو خوش کرسکتا ہے۔ لیکن یہ تو تبھی ہو سکتا ہے کہ چاچا ضد چھوڑ کر سیدھے منھ بات کرے۔ فتّو میں ایسی کیا برائی ہے کہ چاچا فالتو ہی اسے ناراض کرنے پر تل گیا ہے۔آخر چاچا اپناارادہ ظاہر کیوں نہیں کردیتا؟ کیوں ریشما کو بیچنے کی ضد بہت ضروری ہے؟ ریشما تو اچھی بھینس ہے۔ اس سے تو مجھے بھی پیار ہے۔ اب میں کیسے کہوں کہ چاچا جی، فتّو کے لیے نہیں تو میرے لیے ہی ریشما کو رکھ لو۔
جس دن امتحان کا رزلٹ نکلا تھا ، میں نے فتّوکو چودہ امرود دیے تھے۔ وہ کتنا خوش نظر آتا تھا۔ کیمرہ ہوتا تو میں اس کا فوٹو لے لیتا۔اس دن اس نے میرے پاس ہوجانے کی خوشی میں ایک نیا گیت بنا ڈالاتھا۔ جب وہ گا رہا تھا تو مجھے ایسا لگا کہ امتحان میں تو فتّو پاس ہواہے اور میں صرف ایک چرواہا ہوں۔ فتّو کی پگڑی میں کویل کا گھونسلہ— اس نے مجھے کان سے پکڑ لیا۔ اس کی انگلیوں نے چمٹی کا روپ دھارن کرلیاتھا۔میری چیخ نکل گئی۔ پھر کہیں اس نے مجھے چھوڑااور دھمکی دی— اب مت کہنا کویل کا گھونسلہ فتّو کی پگڑی میں۔آٹھویں پاس کر لی پر پرانی شرارتیں نہیں گئیں۔ میں اس کے آگے آگے دوڑاجارہا تھا۔ میں اس سے پوچھنا چاہتا تھا کہ کویل کا گھونسلہ اس نے کبھی دیکھا بھی ہے یا نہیں؟ اس وقت میں نے سوچا کہ اپنے گیت کابول بدل کر گائوں— ریشما کی سینگوں پر کویل کا گھونسلہ۔ لیکن یہ ظاہر تھاکہ وہ اسے بھی پسند نہیں کرے گا۔ اس کی عمر چودہ برس کی ہے اور میری تیرہ برس کی۔ اسی لیے تو میں نے تیرہ امرود لیے تھے اور اسے دیے تھے پورے چودہ کے چودہ۔
ماں کہہ رہی ہے— ’’تیرا چاچا تجھے ناراض نہیں کرے گا، فتّو بیٹا! منھ سے نہ بول اشارے سے کہہ دے ۔ بول آگ جلائوں چولھے میں؟‘‘
چاچا کہہ اٹھتا— ’’ہاں ہاں، جلائو آگ ۔ ارے فتّو تو بہت سمجھدار لڑکا ہے۔‘‘
میں خوشی سے اچھل کر پرے کو سرک جاتا ہوں۔ جی میں تو آتا ہے کہ فتّو کے گلے میں بانہیں ڈال کر کہوں — دیکھو اب یہ تمھاری بھوک ہڑتال نہیں چل سکتی، فتّو بھیا۔
چاچی نے قمیض پوری کر لی۔ وہ مشین سے اٹھ کر چولھے کے پاس جا بیٹھی اور آگ سلگا رہی ہے۔آج بھی آگ نہ جلاتی تو وہ ضرور چوری-چھپے چاچاکو پنجیری کھلادیتی اور آپ بھی کھا لیتی۔
میں کہتا ہوں— ’’ فتّو کے لیے بھی آج ایک نئی قمیض ہونی چاہیے۔‘‘
چاچا اور پتاجی ایک آواز ہو کر کہتے ہیں— ’’ ایک کیوں ، پانچ۔‘‘
فتّو اٹھ بیٹھا ہے۔ سارا گھر خوش نظر آتا ہے۔ اب تو معلوم ہوتا ہے جیسے فتّو کا اپنے اللہ پر ایمان ہے ویسے ہی چاچا کا اپنے بھگوان پر وشواس ہے۔ ہے بھی ٹھیک۔جگدیش کا اثر اتنی جلدی کیسے ہو سکتا ہے؟
چاچا فتّو سے گلے مل رہے ہیں۔ پتا جی کھڑے یہ تماشا دیکھ رہے ہیں ۔وہ اب کچھ نہ بولیں گے۔ فتّو کہتا ہے— ’’ریشما کا کیا فیصلہ ہوا، یہ تو کہو چاچا؟‘‘
چاچا پہلے خاموش رہتا ہے۔پھر بڑے وشواس سے کہتا ہے— ’’میں ریشما کوکہیں باہر نہ لے جائوں گا۔ یہ تم وشواس رکھو ۔‘‘
چولھے پر کھیر پک رہی ہے۔ چھوٹا بھائی باہر سے آکر کہتا ہے— ’’ ماں ، پہلے مجھے دینا کھیر۔‘‘
پتا جی کہہ رہے ہیں — ’’آنچ اور تیز کردو۔‘‘
نہ جانے کھیر کب تک تیار ہوگی؟ مری ہوئی بھوک پھر چمک اٹھی ہے۔بھوک تو آدمی کو باولا بنا دیتی ہے۔سب سوارتھوں کی ماں ہے یہ بھوک۔اگلے ہی روز جگدیش دکان پر چاچا سے کہہ رہا تھا— جس نے بھوک کی فلسفے کو سمجھ لیا۔ پھر نہ کوئی اللہ رہ جاتا ہے نہ بھگوان۔ نہ انسان ، نہ حیوان۔ مطلب یہ ہے کہ پھر امیرغریب کا فرق نہ ر ہے گا۔ نہ کوئی نوکر ہوگا ، نہ کوئی مالک۔ آدمی آدمی سب برابر ہوں گے۔
کھیر تیار ہوگئی۔ چھوٹا بھائی کہتا ہے— ’’ماں ، پہلے مجھے دینا کھیر۔‘‘
ماں ڈانٹ کر چھوٹے بھائی کو چپ کرا دیتی ہے اور میں خود ہی شرمندہ ہو جاتا ہوں۔ ماں چمک کر کہتی ہے— ’’پہلے فتّو کھائے گا ، فتّو بھوکا ہے۔‘‘
تھالی میں کھیر بھر کر چاچی فتّو کے سامنے لا رکھتی ہے اور کہتی ہے— ’’یہ لو ریشما کے دودھ کی کھیر فتّو بیٹا! باسمتی چاول ، ریشما کا دودھ اور گنے کا رس۔ ایسی کھیر تم نے پہلے کبھی نہ کھائی ہوگی۔‘‘
فتّو کھیر کھارہا ہے اور سوچتا ہے کہ سچ مچ ایسی کھیر اس نے پہلے کبھی نہیں کھائی تھی۔ چھوٹا بھائی الگ چمچہ بھربھر کر کھیر کھا رہاہے۔
سب نے آج کھیر ہی کھائی ہے— ریشما کے دودھ کی کھیر۔
رات کے سایے بڑھ رہے ہیں۔ ریشما اور گوما، ونتو اور ونچی— چاروں بھینسیں بڑی بڑی آنکھوں سے فتّو کی اور دیکھ رہی ہیں۔ جیسے کہہ رہی ہوں— تمھاری جیت تو ہماری جیت ہے۔
رات کا اندھکار گہرا ہو رہاہے۔ریشما کا گراہک بھی آپہنچتا ہے۔پتا جی خاموش ہیں۔ چاچاخاموش ہیں۔ فتّو بھی خاموش ہے۔
اماوس کی رات کے ننھے ٹمٹماتے دیے کے سمان فتّو بڑے گَرو سے سر اونچا کیے بیٹھا ہے۔ کیونکہ اسے بھروسہ ہے کہ چاچااپنا وعدہ نہیں بھولے گا اور ریشما کو ہر گز نہیں بیچے گا۔
ادھر چاچا ریشما کے گراہک کی طرف سرک جاتا ہے اور ان کی کانا پھوسی اور بھی پیچیدہ ہورہی ہے۔
فتّو سوچتا ہے کہ ریشما کبھی نہیں بِک سکتی۔ آخر چاچا اپنے وعدے کا پکا آدمی جو ٹھہرا۔
ہوا کے زبردست جھونکے کو دیے کی لَو کی کیا پرواہ؟ جی ہاں، ریشما کا گراہک بھی ایک بار آکر خالی کیسے جا سکتا ہے۔
***
* یہ کہانی پہلی بار نیرنگِ خیال ، جنوری ، فروری 1945 میں شایع ہوئی لیکن اس کا متن حاصل نہ ہوسکا۔ اس کتاب میں شامل کہانی ہندی کتاب ’’دس پرتیندھی کہانیاں‘‘ دیوندرستیارتھی ، مرتبہ پرکاش منو ، کتاب گھر دہلی 1997سے ماخوذ ہے۔ عبدالسمیع
2 تبصرے:
Yeh kuliat kis publisher ny chapi h?adbi dunia mn kb tk upload ho g?mae yeh bk kaosy hasil ker sakty hn?
Yeh kuliat kis publisher ny chapi h?adbi dunia mn kb tk upload ho g?mae yeh bk kaosy hasil ker sakty hn?
ایک تبصرہ شائع کریں