نزار توفیق قبانی ، جو کہ سیریا کے مشہور ترین شاعر اور سیاستداں تھے، کی پیدائش 21 مارچ 1923میں سیریا کی راجدھانی دمشق میں ہوئی تھی۔ وہ پرانے دمشق کے پاس، ایک علاقے میں تب تک رہے جب تک 1930 میں وہ دمشق کے نیشنل سائنٹفک کالج اسکول میں پڑھنے نہیں آگئے۔ انہوں نے یہاں پر 1941 تک تعلیم حاصل کی ۔ یہ اسکول ان کے والد کے دوست احمد منیف العیدی کا تھا۔ اس کے بعد قبانی نے دمشق یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور یہاں پر 1958تک لا پڑھا۔ ان کوبیچلرز ڈگری آف لا 1945 میں حاصل ہوئی۔کالج کے دنوں میں قبانی نے اپنا پہلا شعری مجموعہ تیار کیا جس کا نام پڑا 'بھورے بالوںوالی لڑکی نے مجھے بتایا '۔ چونکہ یہ رومانی شاعری تھی اور کئی جگہ عورت کے جسم کے الگ الگ حصوں کی طرف اشارہ کیا گیا تھا ، اس نے دمشق میں رہنے والی ایک بڑی تعداد کو ناراض کیا۔ اسے اور قابل قبول بنانے کے لئے قبانی نے اسے منیر العجلانی کو دکھایا، جو کہ نہ ہی صرف وزیر تعلیم تھے بلکہ نزار کہ والد کے دوست اور سیریا کی ایک نیشنلسٹ پارٹی کے لیڈر بھی تھے۔ عجلانی کو یہ ساری نظمیں کافی پسند آئیں، جس کی وجہ سے انہوں نے خود اس کا پیش لفظ بھی لکھا۔ کالج سے گریجویشن کرنے کے بعد قبانی نے شام کی وزارت خارجہ کے لئے کئی راجدھانیوں جیسے بیروت، کائرو، استنبول، میڈرڈ اور لندن میں کونسل اور کلچرل اٹیشے کی حثییت سے کام کیا۔ 1959 میں جب متحدہ جمہوریہ عرب کی بنیاد پڑی تب قبانی ہی کو اس کی چائنیز ایمبیسی کا وائس سکریٹری مقرر کیا گیا۔ ان سارے کاموں کے ساتھ انہوں نے کافی شاعری بھی کی۔ چین میں لکھی ہوئی ان کی کچھ شاعری ان کی سب سے بہترین تخلیقات میں شمار ہوتی ہے۔ 1966 تک انہوں نے سیاست میں کام کیا۔ اس وقت تک ان کا گھر ، ان ہی کے نام سے بیروت میں تعمیر ہو چکا تھا۔ 1997 میں نزار کی طبیعت کافی خراب ہو گئی اور اسی سال کے آخر میں یہ حالت کچھ ٹھیک بھی ہوئی مگر اس کے کچھ مہینے بعد 30 اپریل 1998 میں قبانی کا انتقال لندن میں ہارٹ اٹیک کی وجہ سے ہوا۔ ان کی وصیت میں لکھا تھا کہ وہ چاہتے تھے کہ ان کو دمشق میں دفن کرا جائے۔ انہوں نے دمشق کے لیئے کہا 'یہ وہ زمین ہے جس نے مجھے شاعری ، تخلیقیت اور الفاظ عطا کیے '۔ ان کے انتقال کے چار روزبعد ان کو دمشق میں ہی دفنایا گیا۔ پوری دنیا کو اس شاعر کے مرنے کا دکھ تھا۔
جب میں محبت کرتا ہوں
جب میں تم سے محبت کرتا ہوں
تو نئی زبان کا ایک چشمہ اُبل پڑتا ہے
ایک نیا نقشہ بننے لگتا ہے
ملک دریافت ہوتے ہیں اور نئے نئے شہر
درخت ایسے کپڑے بدلنے لگتے ہیں جیسے بہار آ گئی ہو
کتابوں میں گندم کی بالیاں لہلہانے لگتی ہیں
تمھاری آنکھوں سے پرندوں کے غول ایسے پرواز کرتے ہیں
جیسے شہد کی بشارت لے کر جا رہے ہوں
تمھارے سینے سے قافلے ایسے نکلتے ہیں
جیسے ہندوستان سے مصالحے لے کر جا رہے ہوں
آموں کے ٹپکے لگ جاتے ہیں ہر طرف
جنگلوں میں آگ لگ جاتی ہے
بوبئیوں کے ڈھولوں کی تال تیز ہو جاتی ہے
جب میں تم سے محبت کرتا ہوں
تو تمھارے پستانوں میں ایک نیا آہنگ جاگ اُٹھتا ہے
بجلی کڑکتی ہے،ریت رقص کرتی ہے،تلواریں لہراتی ہیں
اور ایک طوفان آ جاتا ہے
جب میں تم سے محبت کرتا ہوں
تو عرب شہر
زمانوں کے جبر کے خلاف آواز اُٹھانے کے لیے
سڑکوں اور بازاروں میں نکل آتے ہیں
جیسے ان کی آنکھیں پہلی بار کھلی ہوں
جیسے انھیں
قبائلی انتقام کا دور یاد آ گیا ہو
اور جب میں تم سے محبت کرتا ہوں
تو جلوس بن جاتا ہوں،بد صورتی کے خلاف
نمک کے بادشاہوں کے خلاف
صحرا کو ایک ادارے میں تبدیل کرنے کے خلاف
اور میں تم سے محبت کرتا رہوں گا
جب تک دنیا بھر میں سیلاب نہیں آ جاتا
میں تم سے محبت کرتا رہوں گا
جب تک دنیا بھر میں سیلاب نہیں آجاتا
***
ایک احمق عورت کا خط
(ایک مرد کو لکھا گیا)
(۱)
میرے پیارے مالک
یہ خط ایک احمق عورت نے لکھا ہے
کیاوہ احمق میرے سامنے ہے، جو یہ خط لکھ رہی ہے؟
میرا نام؟ناموں میں کیا رکھا ہے
رائنا یا زینب
یا ہند یا حیفہ
نام ہی تو ہوتے ہیں ، میرے مالک
حماقت سے بھرا وہ جسے ہم خوشی خوشی لادے پھرتی ہیں
(۲)
کیسے کیسے خیالات آ رہے ہیں
کہ بتاتے ہوئے ڈر لگ رہا ہے
میرے مالک
مجھے ڈر لگ رہا ہے کہ اگر میں نے سب کچھ کہ دیا
اگر میں نے کہا
کہ مشرق میں آسمان جل رہا ہے میرے پیارے مالک
ضبط کر لے یہ سارے نیلے الفاظ
ضبط کر لے عورتوں کے سارے خواب
جو ان کے جذبات پر حکمرانی کرنے لگے
چھریاں اور چاپڑ
استعمال کرتے ہیں جو
عورت سے بات کرنے کے لیے
مار ڈالتے ہیں بہادر اور جذبوں کو
کاٹ ڈالتے ہیں سارے سیاہ گھونگر
اور تیرا مشرق میرے آقا
اپنا رفیع الشان تاج بنایا ہے جس نے
عورتوں کی کھوپڑیوں سے
(۳)
اگر میری تحریر اچھی نہیں ،میرے مالک
تو مجھ پر تنقید مت کر
میں لکھ رہی ہوں اور تلوار دروازے کے پیچھے ہے
کمرے کے باہر ہوا چنگھاڑ رہی ہے اور کتے بھونک رہے ہیں
میرے آقا!
دروازے کے پیچھے عنترۃ العبسی ہے
اگر اس نے میرا خط دیکھ لیا تو کاٹ ڈالے گا مجھے
سر ہی اُڑا دے گا میرا
اگر اس نے میرا خط دیکھ لیا
تو وہ میری گردن ہی مار دے گا
اگر میں نے اپنے عذاب بیان کیے
اگر اس نے میرا شفاف لباس دیکھ لیا
تو وہ میرا سر اُڑا دے گا
تیرا،مشرق،میرے پیارے مالک
عورتوں کو انّیوں سے محروم کرتا ہے
مردوں کو پیغمبروں کے لیے چنتا ہے
اور عورتوں کو زمین میں دفن کر دیتا ہے
(۴)
برہم مت ہو
ان سطروں پر،میرے پیارے آقا
اگر میں نے شکایتوں میں صدیوں سے حائل رکاوٹوں کو توڑ ڈالا ہے
برہم مت ہو
اگر میں نے اپنے ضمیر پر لگی مہر توڑ دی ہے
اگر میں حرم کے تہ خانوں سے بھاگ نکلی ہوں
اگر میں نے بغاوت کر دی ہے اپنی موت سے
اپنی قبر سے، اپنی جڑوں سے
اور اس بڑے مذبح خانے سے
مجھ پر برہم مت ہو میرے مالک
اگر میں نے جذبات ظاہر کر دیے ہیں
مشرقی مردوں کا جذبات کی شاعری سے کوئی تعلق نہیں
گستاخی کی معافی
لیکن مشرقی مرد کچھ نہیں سمجھتے عورت کو
بستر کے سوا
(۵)
مجھے معاف کرنا میرے آقا!
اگر مجھ سے مردوں کی سلطنت پر حملے کی گستاخی ہو گئی ہے
عظیم تر ادب کے لیے اور بے شک
عظیم تر ادب تو مردوں ہی کا ہے
اور محبت کی الاٹمنٹ بھی ہمیشہ
مردوں ہی کے نام ہوتی ہے
اور سیکس بھی ہمیشہ سے وہ دوا ہے
جو مردوں ہی کو بیچی جاتی ہے
اور ہمارے ملکوں میں عورتوں کی آزادی کی یہ قدیم خیالی داستان
آزادی تو ہوتی ہی نہیں
سوائے مردوں کی آزادی کے
میرے مالک کہہ دے
جو بھی تو چاہتا ہے ، مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا:
اتھلی۔۔۔احمق۔۔۔پاگل۔۔۔سادہ دماغ۔۔۔
اب جومجھے کوئی پریشانی نہیں۔۔۔
جو کوئی بھی لکھے اور جیسے بھی لکھے اپنی پریشانی۔۔۔
مردوں کی منطق کی انتہا تو یہی کہنے پر ہو گی
احمق عورت
اور کیا میں نے شروع ہی میں نہیں کہہ دیا
کہ میں ہوں احمق، ایک عورت
***
دنیا کو میں نے لفظوں سے فتح کیا
میں نے دنیا کو لفظوں سے فتح کیا
لفظوں ہی سے فتح کیا مادری زبان کو
اسموں کو ، افعال کو اور نحو کو
سمیٹ دیا میں نے چیزوں کی شروعات کو
اور ایک نئی زبان سے
جس میں پانی کی موسیقی اور آگ کا پیغام تھا
میں نے آنے والے عہد کو روشن کیا
اور وقت کو تمھاری آنکھوں میں روک دیا
اور اس لکیر ہی کو مٹا دیا
جو وقت کو اس لمحے سے
الگ کرتی ہے
***
ہم دہشت گردی کے ملزم
ہم پر دہشت گردی کا الزام ہے
اگر ہم ہمت کریں تو ایسے ملک کے بارے میں لکھ سکتے ہیں جو ٹکڑے ٹکڑے ہو کر
بکھر چکا ہے
زوال و ابتری میں گل سڑ رہا ہے
خود اپنے لیے بھی کوئی جگہ تلاش کر رہا ہے
یا ایک قوم جو بے چہرہ ہو چکی ہے
ایک ملک جس کے پاس قدیم الہام تو نہ ہو
لیکن مرثیہ اور قصیدہ ہو
ایک ملک جس کے اُفق پر کچھ دکھائی نہ دے
نہ تو کوئی آزادی ، نہ ہی کوئی نظریہ
ایک ملک جس میں پرندوں کو بھی گانے کے لیے درخواستیں دینی پڑتی ہے
جو کم کم منظور ہوتی ہیں
ایک ملک جس میں لکھنے والے دہشت کے باعث ایسی سیاہی سے لکھتے ہیں جو
دکھائی نہیں دیتی
ایک ملک جس کا حال مقبولِ عام شاعری جیسا ہوگیا
ایک ملک جو مذاکرات کی میز سے عزت اور جوتوں کے بغیر اُٹھا دیا جاتا ہے
ملک جس کے پاس ثابت قدم مرد نہیں صرف ایک عورت ہوتی ہے
ہماری دہانے تلخی سے بھر گئے ہیں
ہماری آنکھوں نے بولنا بند کر دیا ہے
ابتدا ہی سے ہماری روحوں کی وراثت طاعون ہے
اس کی قوم کا کوئی نہیں بچا
چھوٹی موٹی عزت والا بھی نہیں
کوئی نہیں جو کہہ سکے:نہیں،
ان کے منہ پر جنھوں نے سب کچھ دے دیا ہو
جس کی تاریخ کو مسخروں کا سرکس بنا دیا گیا ہو
جس کے پاس ایک ایسی نظم تک نہ ہو
جس کا کنوار پن حاکموں کے حرم کی زینت نہ بنا ہو
جس کے لوگ توہین اور ہزیمت کا نشہ کرتے ہوں
اور اس نشہ سے سرشار رہتے ہوں
اس کے بعد کیا رہ جاتا ہے
میں نے تاریخوں کو چھان مارا
تاکہ ان عظیم لوگوں کو پہچان سکوں
جو لوگوں کو تاریکیوں سے نکالتے ہیں
جو عورتوں کو بربریت کی بھٹیوں سے بچاتے ہیں
میں نے کل کے لیے لوگوں کو تلاش کیا
لیکن مجھے بلیوں کے سوا کچھ نہیں ملا
جو چوہوں کی حکمرانی سے
اپنی روحوں کو بچانے کے لیے
چھپتی پھر رہی تھیں
کیا کرے گا وہ ملک جس میں قومی اندھا پن پھیل جائے
جس کے لوگوں کو رنگ دکھائی دینے بند ہو جائیں
ہم پر دہشت گرد کا الزام ہے
ہم نے اپنے اتحاد کے بخیے ادھیڑتے
اسرائیلی استبداد کے ہاتھوں
مٹنے سے انکار کیا ہے
ہماری تاریخ ہے
ہماری بائیبل اور قران ہیں
ہمارے بنی ہیں اور زمین ہے
اگر یہ ہے ہمارا گناہ اور جرم
تو پھر دہشت گردی کا الزام ہی ٹھیک ہے
ہم پر دہشت گردی کا الزام ہے
کیوں کہ ہم وحشیوں ، منگولوں اور یہودیوں کے سامنے
نابود ہونے سے انکار کرتے ہیں
اس لیے کہ ہم اس ڈھکوسلہ سکیورٹی کونسل کو پتھراؤ کے قابل سمجھتے ہیں
جسے سیزروں کا بادشاہ برطرف کر دیتا ہے
ہم پر دہشت گردی کا الزام ہے
اس لیے کہ ہم مذاکرات کی میز پر بھیڑیے کے ساتھ بیٹھنے سے انکار کرتے ہیں
اور ایک جسم بیچنے والی کے لیے باہر نکل آتے ہیں
امریکہ ثقافت کے خلاف جنگ کر رہا ہے
اس لیے کہ اس کے پاس ثقافت نہیں
امریکہ تہذیبوں کے خلاف جنگ کر رہا ہے
اس لیے کہ اسے ایک تہذیب درکار ہے
یہ وہ قوی ہیکل عمارت ہے جس میں کوئی دیوار نہیں ہے
ہم پر دہشت گردی کا الزام ہے
اس لیے کہ ہم اس وقت سے انکار کرتے ہیں
جس میں متکبر، امیر و خداوند امریکہ
عبرانی کا حلف یافتہ ترجمان بنا بیٹھا ہے
***
کیا زیادہ اہم ہے؟
لالٹین کے مقابلے میں روشنی زیادہ اہم ہے
نوٹ بُک کے مقابلے میں نظم زیادہ اہم ہے
اور ہونٹوں کے مقابلے میں بوسہ
اور ہم دونوں کے مقابلے میں وہ خط کہیں زیادہ اہم ہیں
جو میں نے تمھیں لکھے تھے
یہ خط ہی ایسی دستاویزات ہوتے ہیں
جن سے دریافت کیا جا سکتا ہے لوگوں کو
تمھاری خوبصورتی کو
اور میری دیوانگی کو
***
سمندر میں داخلے میں
آخر محبت ہو گئی
اور ہم مچھلی کی طرح
پانی کی کھال کے نیچے پھسلتے ہوئے
خدا کی جنت میں داخل ہو گئے
ہم نے سمندر کے ایسے قیمتی موتی دیکھے کہ حیران رہ گئے
آخر محبت ہو ہی گئی
کسی انتباہ۔۔۔اور خواہش کے کسی کنائے کے بغیر
کچھ میں نے دیا۔۔۔کچھ تم نے دیا
اور یہ مناسب بھی تھا
اور یہ سب اتنی آسانی سے ہوا
جیسے ہم آبِ یاسمین سے لکھ رہے ہوں
جیسے کوئی چشمہ پھوٹ رہا ہو
***
مقدمہ ابنِ خلدون کا مطالعہ
ہمارے جنگی نقاروں کی جو آوازیں تم نے سنی ہیں
ہماری پیش قدمیوں کی
ہماری مزاحمتوں کی
اور اپنی زمینوں کو آزاد کرانے کی
سب فرضی ہیں
یہ ہے تاریخ:میرے دوست
ہم تو رسول اکرم کے ساتھ ہی مر گئے تھے
اب تو ہم اپنے جنازے اُٹھا رہے ہیں
اور کربلا کے بعد
تو ہماری صرف تدفین رہ گئی ہے
اب ہم لاتعلق ہیں
اپنے ملکوں سے
اورعورتوں سے
اور لڑکوں سے
غرناطہ میں بھی
ہم مر چکے ہیں لیکن جنازے میں شریک ہیں
اور اس تاریخ میں بھی جو بیان کی جاتی ہے۔میرے دوست
بس واہمہ ہے
محض خطابت کا کرشمہ
***
ڈرائینگ کا ایک سبق
میرا بیٹا پینٹ بکس میرے سامنے رکھتا
اور مجھے ایک پرندہ بنانے کے لیے کہتا ہے
میں برش کو سرمئی رنگ میں ڈبوتا ہوں
اور ایک مربع بناتا ہوں
جس میں تالے ہیں اور سلاخیں
وہ حیران ہو کر مجھے دیکھتا ہے اور کہتا ہے:
لیکن یہ تو پنجرہ ہے
کیا آپ کو پرندہ بنانا بھی نہیں آتا؟
میں شرمندہ ہوجاتا ہوں اور اسے بتاتا ہوں:
بیٹا معاف کر دو
میں تو پرندوں کی شکلیں تک بھول گیا ہوں
میرا بیٹا ڈرائینگ بُک سامنے رکھتا ہے
اور مجھ سے گندم کی بالیاں بنانے کے لیے کہتا ہے
میں پنسل سے گندم کی بالیاں بناتا ہوں
تو کاغذ پر ایک بندوق بن جاتی ہے
بیٹا میری لاعلمی پر مسکراتا ہے اور کہتا ہے:
ابا ! آپ کو گندم کی بالیاں
اور بندوق کا فرق بھی پتہ نہیں؟
میں اسے بتاتا ہوں:
بیٹا!مجھے سب کا پتہ تھا
گندم کی بالیاں کیسی ہوتی ہیں
روٹی کی مشکل کیسی ہوتی ہے
اور گلاب کے رنگ کیا کیا ہوتے ہیں
لیکن مشکل کے ان دنوں میں
جب جنگل کے درخت
ملیشیا کے جوانوں سے جا ملے ہیں
گلابوں نے ملگجے لباس پہن لیے ہیں
گندم کی بالیاں اسلحہ اُٹھائے کھڑی ہیں
پرندے مسلح ہیں
ثقافت مسلح ہے
مذہب کے ہاتھ میں اسلحہ ہے
جب تک تمھارے ہاتھ میں بھی بندوق نہیں ہوگی
تم ایک روٹی تک نہیں خرید سکتے
گلاب کا پھول بھی تمھارے چہرے کو لہو لہان کر دے گا
تم وہ کتاب تک نہیں خرید سکتے
میرا بیٹا میرے بستر کے ایک کونے پر بیٹھ جاتا ہے
اس کا چہرہ اداس ہے
اور مجھے کوئی نظم سنانے کے لیے کہ رہا ہے
میری آنکھوں سے آنسوؤں کے دو قطرے نکلتے
اور تکیے میں جذب ہو جاتے ہیں
میرا بیٹا حیران ہو کر آنسوؤں کے اشاروں کو چھوتا ہے
اور کہتا ہے:
لیکن ابّا یہ نظم تو نہیں ، آنسو ہیں
میں اسے کہتا ہوں:
بیٹا جب تم بڑے ہو گے
اور عربی شاعری کی کتابیں پڑھو گے
تو تم پر کھلے گا
کہ آنسو اور لفظ ایک دوسرے میں گندھے ہوئے ہیں
اور ساری نظمیں ان آنسوؤں سے لکھی جا رہی ہیں
جو انگلیاں روتی ہیں
میرا بیٹا پنسل اُٹھا کر الگ رکھ دیتا ہے
اور پینسلز کا ڈبہ میرے سامنے رکھتے ہوئے کہتا ہے:
اچھا وطن کا نقشہ ہی بنا دو
میں سبز پیسٹل اُٹھاتا ہوں
میرے ہاتھ کا نپنے لگتے ہیں
اور میری آہیں دھاڑوں میں بدلنے لگتی ہیں
***
یروشلم
میں اتنا رویا کہ میرے آنسو خشک ہو گئے
میں نے اتنی عدائیں مانگیں کہ شمعیں ٹمٹمانے لگیں
میں اس قدر جھکا کہ فرش تک چٹخنے لگا
میں نے پیغمبروں کی مہک ، یروشلم
آسمانوں اور زمین کے درمیان مختصر ترین فاصلے!
قوانین کے قلعے:یروشلم
جلی ہوئی انگلیوں اور رنگوں آنکھوں والے
خوبصورت بچے!
تم وہ سایہ دار نخلستان ہو
جس سے پیغمبروں کا گزر ہُوا
تیری گالیاں اداس ہیں
تیرے مینار سوگوار ہیں
تمہی وہ کنواری ہو جو سنیچرکی صبح
ماتمی لباس میں نکلتی
اور کلیسۃ المہد کی گھنٹیاں بجاتی ہے؟
تمہی ہو جو کرسمس پر
بچوں کے لیے کھلونے لاتی ہے؟
یہ بڑا سا آنسو جو آنکھ میں تیر رہا ہے
تجھ پر ہونے والے تشدد کو روکے گا
مذاہب کے موتی؟
وہ تمھاری خون آلود دیواروں کو دھوئے گا؟
وہ بائبل کی حفاظت کرے گا؟
وہ قران کو بچائے گا؟
وہ یسوع کو تحفظ دے گا؟
وہ انسان کو بچا سکے گا؟
یروشلم میرے شہر
یروشلم میری جان
کل لیموں کے درختوں پر شگوفے پھوٹیں گے
زیتون کے درخت جھومیں گے
تمہاری آنکھیں ناچیں گی
جلا وطنی کرنے والے کبوتر پھر سے
مقدس چھتوں پر اتریں گے
تیرے بچے پھر سے کھیلنے لگیں گے
تیری گلابی پہاڑیوں پر
بیٹے اور باپ ملیں گے
میرے شہر
زیتون اور امن کے شہر
کیا ہوگا میرے اس خواب کا؟
***
تصحیح
میں یہ نہیں کہہ رہا:
عربوں کی جنس۔۔۔
میں کہہ رہا ہوں:
جنسی عرب۔۔۔ !
***
قانا کے چہرے
(۱)
قانا کے چہرے ایسے زرد ہے
جیسے عیسیٰ کا چہرہ ہو
جیسے اپریل کی سمندری ہوا ہو
جیسے بارش ہو آنسوؤں کی اور خون کی
(۲)
وہ ہماری جلی ہوئی لاشوں پر چلتے ہوئے قانا میں داخل ہوئے
جنوب کی سر زمین پر نازی پرچم لہرانے کے لیے
جیسے مرگِ انبوہ کی یاد تازہ کر رہے ہوں
انھیں تو گیس چیمبروں میں ہٹلر نے جلایا
اور وہ آئے ہیں ہمیں جلانے
انھیں مشرقی یورپ سے ٹھوکریں مار کر ہٹلر نے نکالا
اور وہ آئے ہیں اسی طرح ٹھوکریں مار کر ہمیں نکالنے
ان زمینوں سے نکالنے جو ہماری ہیں
(۳)
وہ قانا میں ایسے داخل ہوئے
جیسے بھوکے بھیڑیے داخل ہوتے
انھوں نے عیسیٰ کے گھر کو نذرِ آتش کیا
حسین کے لباس کو روند ڈالا
جنوب کی زمین زمین کو روند ڈالا
(۴)
انھوں نے گندم،تمباکو اور زیتون کے درختوں کو راکھ کر دیا
اور بلبلوں کے گیت کو آگ لگا دی
انھوں نے قدموس کی کشتی پر گولے برسائے
سمندر اور مرغابیوں پر گولہ باری کی
ان کی گولہ باری نے ہسپتالوں کو بھی نشانہ بنایا
نرسوں اور تیمارداری کرتی ماؤں کو بھی نہیں بخشا
اسکول کے بچوں پر
اور جنوبی عورتوں کے حسن کو بھی تاک تاک کر نشانہ بنایا
انھوں نے باغوں کو قتل کیا اور شہد جیسی آنکھوں کو
(۵)
ہم نے علی کی آنکھوں کو اشک بار دیکھا
ہم نے اس وقت اس کی آواز سنی جب آسمان سے خون کی بارش ہو رہی تھی
اور وہ دعا مانگ رہا تھا
(۶)
جو کوئی بھی قانا کی تاریخ کے بارے میں لکھے گا
کسی بھی طرح یہ لکھے بغیر نہیں رہے گا
قانا کربلائے ثانی تھا
(۷)
قانا نے وہ سب افشا کر دیا جو چھپا ہُوا تھا
ہم نے امریکہ کو دیکھا
وہ ایک یہودی ربائی کا کوٹ پہنے تھا
اور قتلِ عام کی نگرانی کر رہا تھا
ہمارے بچوں کو مار رہا ہے بلاوجہ
ہماری بیویوں کو مار رہا ہے بلاوجہ
ہمارے درختوں کو کاٹ رہا ہے بلاوجہ
ہمارے خیالات کو قتل کر رہا ہے بلاوجہ
کیا یہ بھی تیرے آئین کا حصہ ہے داشتۂ عام؟
کیا یہ کہیں عبرانی میں لکھا ہے کہ عربوں کو نیچا دکھایا جائے
کیا یہ بھی امریکی دستور ہی کا حصہ ہے
جسے بھی صدارتی انتخاب جیتنا اور وائٹ ہاؤس میں رہنا ہوگا
اسے ہم تمام عربوں کو قتل کرنا ہی ہوگا
(۸)
ہم نے ایک عرب کی آمد کا انتظار کیا
جو آئے گا اور ہماری گردنوں سے کانٹوں کے بوق اُتار پھینکے گا
ہم نے ایک قریش کا انتظار کیا
ہم نے ایک ہاشمی کا انتظار کیا
ایک ڈان کہوٹے کا
ہم نے ایک ایسے مقامی سورما کا انتظار کیا جس کی یہ مونچھیں نہ مونڈ سکیں
ہم نے ایک خالد کا۔۔۔ایک طارق کا ۔۔۔ایک عنترہ
ہم لاحاصل قصوں میں لگے رہے اور انھیں شراب سمجھ کر پیتے رہے
انھوں نے ایک فیکس بھیجا
ہم نے اس کا متن پڑھا
انھوں نے ہمیں خراج پیش کیا تھا
اور ایک اور قتلِ عام کی پیشکش کی تھی
(۹)
اسرائیل ہماری چیخوں سے کیا ڈرے گا
کیا ڈرے گا وہ ہمارے ڈھول پیٹنے سے
جہادوں میں سب سے کمزور جہاد ہے فیکس کا جہاد
اس کی ایک واحد عبارت ہے جو ہم بار بار لکھتے ہیں
ان سارے شہیدوں کے لیے جو جا چکے ہیں
اور ان سب کے لیے جو آنے والے ہیں
(۱۰)
کیوں ڈرے گا اسرائیل، ابن المقفع سے
جریر سے۔۔۔اور الفرزدق سے؟
اور قبرستان کے دروازے پر پھینکی جانے والے الخنساء کی نظموں سے
کیاڈر لگے گا اسے اگر ہم روزانہ بھی ٹائر جلاتے رہیں گے
اعلامیوں پر دستخط کرتے رہیں گے
دکانوں کو تباہ کرتے رہیں گے
اسے پتہ ہے ہم کبھی بھی جنگوں کے بادشاہ نہیں تھے
ہاں!ہم بک بک کے بادشاہ ضرور تھے
(۱۱)
کس لیے ڈرے گا
اسرائیل ڈھول پیٹنے سے
تمھارے گریبان چاک کرنے سے
اپنے ناخنوں سے اپنے ہی منہ نوچنے سے
کیوں ڈرے گا وہ جو سنے گا
عاد ثمود کے قصے
(۱۲)
ہم قومی بے ہوشی میں
جب مفتوح ہوئے ہیں
ہمیں ایک خط تک نہیں لکھا گیا
(۱۳)
ہم آٹے کے پتلے ہیں
جیسے جیسے اسرائیل ہلاکتیں اور دہشت گردی بڑھائے گا
توں توں ہماری سرد مہری اور لاتعلقی بڑھتی جائے گی
(۱۴)
وطن تیزی سے سمٹتا جا رہا ہے
زبان تیزی سے بگڑتی جا رہی ہے
موسم گرما کے درختوں پر صرف خزاں کی بہار ہے
اور جب بھی حملہ ہوتا ہے
سرحدیں اپنی جگہ چھوڑ کر کہیں اور چلی جاتی ہیں
(۱۵)
اسرائیل کو ہمارا قتلِ عام کرنا چاہیے۔۔۔اور کیوں نہ کرے؟
اسے ہاشمیوں،زیادیوں اور الرشیدیوں کو مٹا دینا چاہیے۔۔۔اور کیوں نہ مٹائے؟
کیوں نہ فنا کرے بنو تغلب کو جنھیں عورتوں پر مر مٹنے سے ہی فرصت نہیں
کیوں نہ نام ونشان مٹا دے بنو ماذنوں کا جنھیں لونڈوں کے سوا کچھ نہیں دکھتا
اور بنو ہاشم جو اپنی پتلونیں اُتارے گھٹنوں کے نل جھکے ہوئے ہیں
***
اخذ وترجمہ:انور سن رائے
1 تبصرہ:
These poems linger in the mind and in the heart. I . would love to read them again and again
ایک تبصرہ شائع کریں