مورا تھان منگن ترکی زُبان کے معروف کہانی کار ہیں ۔ان کے افسانوں میں ترکی کلچر کی بھر پور عکاسی نظر آتی ہے۔ (ادارہ نقاط) موراتھان کی دو کہانیاں آج ادبی دنیا پر پیش کی جارہی ہیں، ان دونوں کہانیوں میں دو مختلف بچوں کے احساسات و جذبات کو بیان کیا گیا ہے،دنیا کے بڑے مفکرین مانتے ہیں کہ بچے سے زیادہ حساس اور کوئی نہیں ہوتا، دوستوئیوسکی او ر ٹالسٹائی نے بھی بچوں کو سماج میں بڑوں کے برابر عزت دینے اور زندگی کے معاملات میں انہیں شریک کرنے پر زور دیا ہے۔زیر نظر دونوں کہانیوں میں بچوں کے خود کو نمایاں رکھنے کی خواہش، اپنے والد سے ان کی ایک گہری وابستگی ، زبردست عقلمندی کا مظاہرہ، اور جذبات کی گہرائی یہ سب کچھ واضح ہوتا ہے۔
موراتھان منگن (Murathan Mungan) 21 اپریل 1955 کو استنبول میں پیدا ہوئے۔ان کا خاندان ترکی کے ماردین سے تعلق رکھتا ہے۔انہوں نے انقرہ یونیورسٹی سے فیکلٹی آف لیٹرز اینڈ ڈرما میں بی اے کرنے کے بعد بطور ڈرامے کی ترویج و ترقی کے لیے کام کرنا شروع کیا، بعدازاں انہوں نے اپنا سارا وقت شاعری، ڈرامے، کہانیاں، ناول ، فلمی منظرنامے اور نغمات لکھنے کے لیے وقف کردیا۔انہوں نے چار تھیڑپلیز لکھے،جن کی وجہ سے انہیں بڑی کامیابی حاصل ہوئی۔ان کی کہانیوں کے مجموعے چالیس کمرے، دولت کے جن وغیرہ بے حد مقبول ہوئے۔زندگی کے تعلق سے ان کا نقطہ نظر نہایت فنکارانہ ہے،اور وہ اس کا گہرا مشاہدہ کرکے اسے کہانی اور شاعری میں ایک تخلیقی تجربے کی صورت کھپادیتے ہیں۔(تصنیف حیدر)
چُھپا ہوا مَیں
یہ رہی تصویر۔
یہ اس دن کھینچی گئی تھی جس دن میرے ابّا دیارِ بکر کے جیل سے باہر آئے تھے۔ سینکڑوں لوگوں کا قافلہ اس سے پہلے ہی کزل ٹیپی کے دروازے پر موجود تھا اور میرے ابّا کے باہر نکلنے کا راستہ بند کردیا تھا۔ پہلے کی طرح ان کو ڈھول تاشوں کی آواز کے ساتھ لوگوں کے کاندھوں پر اٹھا لیا گیا۔ ہم ایک عظیم الشان جلوس کے درمیان ماردن میں داخل ہوئے۔ جس دوران وہ جیل میں تھے، میری ماں اور میں روزانہ دیارِبکر سے آتے اور جاتے رہتے تھے۔ اس موسم کی خوف ناک گرمی میں روزانہ اس سڑک پر آنا اور جانا عذاب سے کم نہ تھا۔
ان کے استقبال کرنے والوں کے درمیان آدھی پتلون، بو ٹائی اور سفاری ہیٹ پہنے ہوئے مَیں اس ہجوم میں الگ سے نظر آرہا ہوں۔ جیسے کوئی سیّاح بچّہ، غیرملکی۔ ظاہر ہے کہ میرے سارے کپڑے انقرہ سے آئے تھے۔ ایک اور تصویر میں، مَیں اپنے ابّا کا ہاتھ تھامے ہوئے ہوں۔ میرے ابّا سفید ململ کا سوٹ پہنے ہوئے ہیں اور باریک گھاس کی بنی ہوئی ہلکی ہیٹ اوڑھے ہوئے ہیں۔ ان کے سر کے بال صاف کیے ہوئے ہیں۔ گرمی بہت، بہت زیادہ ہے۔
پھر ہم گھر آجاتے ہیں۔ میرے ابّا کے ہم راہ قافلے کو صحافیوں کی ایک ٹولی نے گھیر لیا ہے جو سڑک کے رُخ پر کھلنے والے بڑے کمرے میں بھر جاتے ہیں، کیمرے کے فلیش چمکے، سوالات پوچھے جارہے ہیں، وہ میرے ابّا کے منتظر ہیں کہ اس موقع پر تقریر کریں۔ سب کو معلوم ہے کہ جب ان پر الزام لگایا گیا کہ انہوں نے ’’ماردن کے واقعات‘‘ کو عملی جامہ پہنایا تو اس وقت بستر میں لیٹے ہوئے تھے، گردے کے شدید درد میں مبتلا تھے اور اپنے پاؤں پر کھڑے بھی نہیں ہوسکتے تھے۔ درحقیقت، مجھے یہ بھی یاد ہے کہ اس دن ان کی اس قدر طبیعت خراب تھی کہ وہ ہمارے ساتھ ’دارالازفراں ‘ بھی نہیں جاسکتے تھے جہاں ہم ایک شامی تہوار منانے کے لیے جارہے تھے۔ اس کے بعد گھڑ سوار فوجی آئے اور انہیں زبردستی ہمارے گھر سے لے گئے۔ میں یہ کبھی نہیں بھول سکا۔ میں یہ کبھی نہیں بُھلا سکا کہ کس طرح ناانصافی کے بوٹ ہمارے گھر میں گھس آئے، اسے اور میرے بچپن کو روندتے ہوئے گزر گئے!
مہینوں بعد میرے ابّا کو رہا کردیا گیا۔ میں ان سے دوبارہ ملنے کی خوشی میں اور صحافیوں کے جم غفیر کو دیکھ کر پھولا نہیں سما رہا۔ میں ہمیشہ کی طرح ان کے برابر کھڑا ہونا چاہتا ہوں تاکہ ان کے ساتھ موجود رہوں جس وقت کیمرے کے فلش چمکیں، ان کے ساتھ تصویروں میں نظر آؤں۔ بعد میں ظاہر ہے کہ مجھے وہاں سے بھی ہٹا دیا گیا۔ میرے والد کے دوستوں اور ساتھیوں کو رُخصت کیا گیا، ہم سب کو باہر بھیج دیا گیا اور وہ وہیں رہ گئے کہ سوالوں اور صحافیوں کا سامنا کرسکیں۔ میں بوجھل دل کے ساتھ وہاں سے چلا آیا۔ اس تصویر میں میرے والد کی آرام کرسی کے ساتھ والا شیشے کا دروازہ، میرے کمرے کا دروازہ ہے۔اس بڑے کمرے میں کھلنے والے دروازے کے ساتھ ایک اور دروازہ ہے جو میری اماں کی خواب گاہ والے حصے میں کھلتا ہے۔ میں پیچھے کی طرف سے گھومتا ہوا آتا ہوں اور اپنے کمرے کے دوسرے دروازے سے داخل ہوتا ہوں اور اس تصویر میں موجود شیشے کے دروازے کے پیچھے آجاتا ہوں۔ نہیں، میں اتنا ڈھیٹ نہیں کہ اب وہاں اپنی شکل دکھاؤں۔ مجھ میں اتنی عقل ہے کہ میں یہ اندازہ لگالوں کہ یہ بہت گھٹیا بات ہوگی اور مجھ میں اتنی شرم تھی کہ میں ایسی حرکت نہیں کرسکتا تھا۔ مجھے معلوم ہے کہ یہ سارے لوگ میرے ابّا کے لیے جمع ہوئے ہیں، میرے لیے نہیں۔ اس کے دوسری طرف، میں اپنی اس شکست کو تسلیم نہیں کرسکتا۔ میں کچھ ایسا کرنا چاہتا ہوں کہ میری موجودگی کا بھی احساس ہوجائے۔ آخرکار میں اپنی اسکول کی کاپی سے سفید کاغذ نکال کر پھاڑ لیتا ہوں کہ یہ میرے ’’میں‘‘ کو ظاہر کرسکے اور اسے شیشے کے دروازے پر ٹانگ دیتا ہوں، جس سے سارے صحافی حیران ہونے لگتے ہیں۔ وہ اس کی تصویر کھینچ لیتے ہیں۔ ہر تصویر میں سفید کاغذ کا یہ خالی صفحہ، میرے ابّا کے برابر شیشے کے دروازے پر نظر آتا ہے۔ میرا چُھپا ہوا میں۔
میں وہاں ہوں۔ اپنے ابّا کے ساتھ۔
گریز کے اس لمحے میں جس کے دوران میں اپنے آپ کو کاغذ کے ایک صفحے کی پناہ میں دے دیتا ہوں، یہ عین ممکن ہے کہ میں اپنی آئندہ زندگی کا اشارہ دیکھ لوں۔
شاید کئی برس سے میں سفید صفحے کے اس خالی صفحے پر لکھے جارہا ہوں تاکہ مجھے دیکھ لیا جائے۔۔۔
ہر تحریر کے مکمل ہوجانے کے بعد میں ایک بار پھر خالی، سفید کاغذ بن جاتا ہوں، اپنے ’’میں‘‘ اور اس تحریر کے بہت سارے ’’میں‘‘ کے درمیان تعلق کے بارے میں جو کچھ مجھے کہنا ہے، اسے بڑھا دیتا ہوں۔ اس کتاب میں، میں اس معاملے سے پوری طرح نمٹ نہیں سکا، میں نے مستقبل کی کتابوں اور مضامین کے لیے ان کو ضرب دے لیا ہے، زندگی بڑی مالا مال ہے اور لوگ حیران کُن اور یہاں میں، ایک ایسی زندگی کے ’’میں‘‘ کو بیان کر رہا ہوں جو ابھی ختم نہیں ہوئی۔
میں اس صفحے میں کئی برس سے اپنے آپ کو تلاش کر رہا ہوں۔ جب سے سفید کاغذ کا وہ خالی صفحہ شیشے کے دروازے پر لٹکایا گیا تھا، میں کتنے صفحوں پر سامنے آیا ہوں اور غائب ہوگیا ہوں؟
٭٭٭
ریل گاڑی
بعض ہفتوں کے اختتام پر میرے والدین اور میں، ماردن سے شام چلے جاتے اور کامش میں ٹھہرا کرتے، جو تُرکی کی سرحد سے قریب ترین قصبہ تھا۔ حالاں کہ وہ قصبہ تھا مگر میں کامش ،کا اس کی چوڑی، صاف ستھری سڑکوں، اس کی بڑی عمارتوں اور ہوٹلوں کا موازنہ ان عظیم الشان شہروں سے کرتا جن کو میں نے فلموں میں دیکھا تھا یا جن کی تصویریں اٹلس اور انسائیکلوپیڈیا میں دیکھ چکا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ ہم سیمی رامس ہوٹل میں ٹھہرے تھے اور پھر ایک نائٹ کلب...میں نے زندگی میں پہلی مرتبہ نائٹ کلب دیکھا تھا۔ میرا خیال ہے کہ یہ اس ہوٹل کا نائٹ کلب تھا: ’’متار‘‘ جس کے عربی میں معنی ہیں ’’بارش‘‘ ۔مجھے یہ بہت اچھا لگا۔ اس سے ان باتوں کی تصدیق ہوگئی جو میں نے فلموں میں دیکھی تھیں: جلتی بجھتی ہوئی رنگ برنگی بتیاں، شیشے کی ایک گیند جو مستقل گھوم رہی تھی اور ریزہ ریزہ بکھرتی ہوئی روشنی ارد گرد پھینک رہی تھی، چمک دار ستون کہ جن کے سہارے ٹیک لگائی جاسکے، سر تھوڑا سا ترچھا کرکے، فلمی اداکاروں کی طرح ، آرکسٹرا سے جوشیلی موسیقی بجتی ہوئی اور چاندی سا چمکتا رقص گاہ کا فرش۔ میں جو بھی دیکھتا اس سے میرے جوش میں اضافہ ہوتا۔ ان دنوں کی بعض تصویریں ہمارے خاندانی البم میں موجود ہیں مگر مجھے کسی کے چہرے پر اس معجزے کا سراغ نہیں مل رہا تھا کہ جو میرے تجربے میں آچکا تھا۔ میں ایسے آدمی کی طرح ہوں جس نے جنّت ڈھونڈ لی ہو۔ ایسا لگتا ہے کہ میں نے ایک کے بعد ایک، متواتر کئی تصویریں کھینچیں۔ کس قدر احمقانہ ہیں میرے انداز جو میں نے مختلف رسالوں سے نقل کرکے طاری کیے ہیں، اتنا واضح ہے کہ ان دنوں بھی میں ایک عمیق خالی پن کا شکار تھاکہ جس کو کوئی معجزہ پُر نہیں کرسکتا تھا... ایک دیہاتی لڑکے کی معصوم آنکھیں میری جانب دیکھ رہی ہیں جو اپنے آپ کو بڑے شہروں کے لیے تیار کر رہا ہے، پردۂ سیمیں سے حاصل کیے ہوئے خوابوں کے ساتھ۔ میں ان آنکھوں کا بھید نہیں پاسکا جو ان پرانی تصویروں میں سے جھانکتی ہیں جن کو کامش کے نائٹ کلب میں کھینچا گیا تھا۔ مجھے نہیں معلوم کہ وہ اب بھی موجود ہے مگر وہ آنکھیں اب بھی توّقع کے ساتھ میری تمام زندگی کی طرف دیکھے چلی جارہی ہیں۔
ہمارے اندر زندگی کے عظیم ترین بھید بھرے ہوئے ہیں۔
ہم دنیا سے اس بھید کی توثیق ایک دن میں چاہتے ہیں۔
لیکن یا تو ہمارے بھید سے کوئی نشانیاں نہیں پھوٹتیں، یا پھر دنیا میں اس کے لیے جگہ نہیں ہے۔
اور پھر کامش کی عظیم الشان کھلونوں کی دکانیں بھی تو تھیں... میں تو ان میں اپنے آپ کو گُم کردیتا تھا۔ میں تو بس ان سے اپنے آپ کو بڑی مشکل سے باہر لے جاسکتا تھا۔ ہر بار جب ان کا جانا ہوتا تو میرے ابّا میرے لیے ڈبے اور تھیلے بھر کر کھلونے لے کر آتے تھے۔ جب میں چھوٹا سا تھا تبھی سے اس تجسس میں کہ یہ کھلونے کیسے چلتے ہیں، ایک بھی کھلونا ایسا نہیں تھا جس کو میں نے توڑ نہ دیا ہو یا کھول کر نہ دیکھا ہو یا پرزہ پرزہ الگ نہ کردیا ہو کہ اس کے اندر جھانک کر دیکھ لوں۔ زیادہ تر کھلونوں کے انجر پنجر ڈھیلے ہوچکے تھے جب ان کے ڈبے بھی پرانے نہیں ہوئے تھے۔ پھر جب میں ذرا بڑا ہوا تو اپنے لیے کھلونے خود پسند کرنے لگا۔ میرے ابّا نے بھی کہہ دیا تھاکہ اب میں اتنا بڑا ہوگیا ہوں کہ خود پسند کرسکتا ہوں۔ ان دنوں میں سوچا کرتا تھا کہ میں امریکی فلموں کے خوش باش بچوں کی طرح ہوں۔ مجھے شام سے بڑی محبت تھی۔ ہمارے خاندان کی ایک شاخ وہیں رہ رہی تھی اور جب ہم اپنے ان رشتے داروں سے ملنے جاتے تو وہ مجھے باور کراتے کہ میں تو سچ مچ کا شہزادہ ہوں، یہ کہ خواب سچ بن سکتے ہیں اور میرے سامنے پورا مستقبل پڑا ہوا ہے۔ بلاشبہ بچپن کا سب سے زیادہ شان دار حصہ، ذمہ داری کی اعلیٰ ترین کمی نہیں ہے اور نہ آغوش مادر پر اٹل بھروسا ہے اور نہ وہ مانوس تصورات جن کو ہم اس کیفیت سے منسلک کرتے ہیں کہ جسے ہم بچپن کا نام دیتے ہیں، میری رائے میں اس کا سب سے بیش قیمت تحفہ اس کی وہ صلاحیت ہے کہ اسے مستقبل پر یقین ہے۔ صرف وہی بچہ اعتماد کے اٹھ جانے کو سہہ جائے گا، اپنی ذات تک پہنچ سکے گا۔ بڑے ہوکر کوئی اور بن جانے کا مطلب ہی ہے بڑے ہوجانا۔
زیادہ تر لوگ جو میرے بچپن کی تصویروں کو دیکھتے ہیں، ہمیشہ ایک ہی بات کہتے ہیں: ’’تمہاری آنکھیں ذرا نہیں بدلیں، وہی کی وہی ہیں...‘‘
جس دن سے میرے ابّا شام سے خرید کر لائے تھے، میرا پسندیدہ کھلونا ایک بڑا سا ٹرین سیٹ تھا جو ریل کے ڈبّوں کے سلسلے اور ریلوے لائن پر مشتمل تھا جو انگریزی کے 8 کی صورت میں تھی اور پٹری کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں سے بنی ہوئی تھی جن کو آپس میں جوڑا جاتا تھا۔ جب اسے پورا کرکے جوڑ لیا جاتا یہ ریل گاڑی، جو ریموٹ کنٹرول سے چلتی تھی، کسی بھی اسٹیشن پر رک سکتی تھی جسے ہم پسند کرتے اور پھر اپنے راستے پر چل پڑتی کہ دنیا کا سیر سپاٹا کرتی رہے۔ ہم نے اس ریل گاڑی کو اپنے گھر کے برآمدے میں ایک چوڑی میز پر سجا دیا اور اس کے سحر میں مبتلا ہوکر میں سارا دن ریل گاڑی، ریل کی پٹری اور اس کے ٹھہرنے والے اسٹیشنوں کے ساتھ خوابوں میں گزار دیتا۔
جلد ہی میں ٹرین اسکول لے کر گیا تاکہ اپنے دوستوں کو دکھا سکوں۔ میں ان کے ساتھ بھی ریل کا کھیل کھیلنا چاہتا تھا، فطری طور پر میری اماں نے میری اس خواہش کی شدت کے ساتھ مخالفت کی، لیکن جب میں نے اصرار کیا تو وہ مان گئیں اور مجھے بار بار تنبیہہ کرتی گئیں کہ ہر مرتبہ صرف ایک ہی ٹکڑا باہر نکالوں اور ان کی بتائی ہوئی تمام احتیاطوں پر عمل کروں۔ میری اماں اس خیال سے خائف تھیں کہ اسکول میں دھکم پیل کرنے والے بدتمیز بچوں کی بھیڑ بھاڑ اس قیمتی کھلونے کو برباد کرکے رکھ دے گی یا پھر ریل کے رنگین ڈبوں میں سے کوئی ایک ڈبا چُرالے گی۔ ہوسکتا ہے کہ ان میں سے ہر ایک بچہ، ایک الگ چیز کو دیکھ کر للچا جائے۔ ہماری مستقل بحث و تکرار کا انجام آخرکار یہ ہوا کہ انہوں نے مجھے ہلکے رنگ کا ایک سرپوش دے دیا جو فوجی کمبل سے موٹا تھا کہ ریلوے سیٹ کے نیچے بچھا لوں۔ جب میں ریل کے ڈبے رکھنے لگا تو انہوں نے مجھے ایک بار پھر خبردار کیا کہ واپس رکھنے سے پہلے ان کو ایک بار ضرور گن لوں۔ ریموٹ کنٹرول صرف اپنے ہاتھوں میں رکھوں، مجھے یہ کسی اور کے حوالے ہرگز نہیں کرنا چاہیے۔ اپنے دوستوں کو یہ ٹرین سیٹ دکھانا، انصاف کی بات نہیں تھی۔ اس لیے کہ میں ان کے سامنے ڈینگ مارنا چاہتا تھا، ’’دیکھو میرے پاس کیا ہے!‘‘ یہ خواہش اترانے کی بچکانہ آرزو سے زیادہ، اس ضرورت سے اجاگر ہوئی تھی کہ اپنی زندگی کی بہت سی اچھی چیزوں میں اوروں کو بھی شریک کروں۔ ان سب لوگوں کی طرح اپنی زندگی کے ابتدائی دور میں دل کی بات ماننے لگتے ہیں، میں دوسروں کو شریک کرنے کے لیے تیار تھا۔ یہ اسی طرح تھا اور یہ اب بھی اسی طرح ہے اور شاید اسی وجہ سے میں اتنی بار زک اٹھا چکا ہوں۔
میری کلاس کے تقریباً سارے ہی بچے زندگی میں پہلی بار ایسا کھلونا دیکھ رہے تھے۔ پھر کسی طرح یہ ہوا کہ ٹرین سیٹ کو جوڑنا، اسکول میں ایک رسم سی بن گئی۔ میری اماں اور استانی اس کارروائی کی نگرانی احتیاط سے کرنے میں برابر تھیں۔ نیچے بچھائے جانے والے سرپوش کی وجہ سے الگ الگ ٹکڑے نمایاں ہوجاتے تھے، سب لوگ مسحور ہوکر دیکھتے جب ریل کو تیار کرلیا جاتا اور وہ چلنے لگتی۔ میرے خواب اب ان خوابوں سے مختلف ہیں جو میں نے ان دنوں ریل کے ساتھ دیکھے تھے۔ ہم ریلوے اسٹیشنوں کے پاس سے گزر جاتے، رکتے، پھر چل پڑتے اور سفر جاری رہتا۔ یہ سلسلہ پوری دوپہر چلتا رہتا، پھر میں اسٹیشنوں کو اٹھا کر سمیٹنے لگتا، ریل کا ایک ایک ڈبا گن کر اٹھاتا اور احتیاط سے دیکھ لیتا کہ ریموٹ کنٹرول کام کر رہا ہے یا نہیں۔ ہم ریل کو پٹریوں کے ساتھ ڈبے میں رکھ دیتے اور میں خوش خوش گھر جاتا، مطمئن اور اعتماد سے پُر۔
شاید خالص بدی سے میرا پہلی بار سابقہ پڑا تھا۔
اگلے دن گھر پر ٹرین کو دوبارہ جوڑنے کے لیے سارے ٹکڑوں کو ڈبے سے نکالتے ہوئے میں نے دیکھا کہ ریل کے ڈبوں کی تعداد پوری ہے مگر پٹری کا ایک ٹکڑا، جو سب مل کر انگریزی کے ہندسے8 کی شکل بنایا کرتے تھے، چوری ہوگیا ہے۔ اس ایک ٹکڑے کی کمی سے ریل کا سارا نظام رُک گیا۔ ظاہر ہے کہ پٹری کا صرف یہ ایک ٹکڑا اس چور کے کسی کام کا نہ ہوگا لیکن اس کی وجہ سے میرے لیے اس ریلوے سیٹ سے کھیلنا ناممکن ہوگیا۔ ایک ریل کا ڈبا چوری ہوجاتا تو آپ سمجھ سکتے تھے کہ اس کے پیچھے یہ خواہش ہوگی کہ اسے گاڑی کی طرح چلایا جائے اور یہ نسبتاً معصومانہ چوری قرار دی جاسکتی تھی۔ میرے لیے ریلوے کا سیٹ جس میں سے ایک ڈبا کم ہو، بہت بڑی بات نہیں تھی۔ مگر جب چور نے اس بنیادی چیز کا ایک ٹکڑا اٹھا لیا جس کی وجہ سے ہر چیز اپنی جگہ پر رُک گئی، توساری ریل گاڑی بے کار ہوگئی۔ اس ریل گاڑی کو سب کے سامنے جوڑاگیا تھا اور ہر ایک نے ایک ہی وقت میں دیکھ لیا تھا کہ یہ کس طرح چلتی ہے اور اس کو کس طرح چلایا جاتا ہے۔
ظاہری طور پر جس وقت ہم سحرزدہ تھے اور خوابوں میں گم تھے ریل گاڑی کی روانگی، رکنا اور پھر چل پڑنا دیکھنے میں مصروف تھے، اس شخص نے ساری توجہ اس کے میکانکی عمل کو سمجھنے اور یہ راز حل کرنے پر مرکوز کردی کہ یہ چلتی کس طرح ہے۔ یہ برائی پر آمادہ ہوشیاری کی ایک مثال تھی۔
میں غم سے نڈھال ہوگیا۔
اماں ٹھیک ہی کہتی تھیں۔
اور رہ گیا میرا دل، باقی سب لوگ بھی ٹھیک ہی کہتے ہیں۔
اس کے بعد آنے والے دنوں میں، میں اپنے ہم جماعتوں کے چہروں کو دیکھے گیا کہ کسی پر اس پٹری کے کھوئے ہوئے حصے کی پرچھائیں مل جائے۔ کسی چہرے سے یا کسی چیز سے کچھ ظاہر نہیں ہوا، خاص طور پر یہ کہ چور کون تھا۔
میں سمجھ رہا تھا کہ میں اگر غور سے دیکھوں گا تو چور کو پہچان لوں گا لیکن اتنے غور و خوض نے آخرکار مجھے ہی تھکادیا۔
میں نے یہ سارا واقعہ کلام میں اپنے برابر بیٹھنے والے لڑکے کو سُنایا۔ وہ چھوٹے سے دُنبے کی طرح تھا، اسے ’کیمے حروف‘ کہا جاتا تھا جس کا عربی میں مطلب ہے ’’بھیڑ کی طرح‘‘، سست گام اور جب وہ آپ کی بات سنتاتو ہر جملے کے بعد اس طرح آنکھیں جھپکاتا جیسے وہ جملوں کے بعد اوقاف لگا رہا ہو۔ وہ میری بات بہت غور سے سنتا رہا۔ میں جاننا چاہتا تھا کہ وہ کیا سوچے گا151 کیوں کہ وہ خوب سوچا کرتا تھا۔ اس وقت بھی اسے بڑے لوگوں کی طرح یہ معلومات تھیں کہ اپنے جذبات پر قابو کس طرح رکھا جائے۔ میں اس پر حیران ہوا کرتا تھا۔ لیکن میری توقع کے برخلاف اس نے مجھے خبردار کیا کہ کسی سے کچھ نہ کہوں اور اس طرح ظاہر کروں کہ جیسے کچھ نہیں ہوا۔ میں حیران ہوگیا کہ پہلے پہل سمجھا کہ کوئی گہری ترکیب ہے کہ اس سے چور پکڑا جائے گا مگر نہیں۔ اس نے مجھ سے کہا کہ اس جرم کا ارتکاب کرنے والا کبھی ہاتھ نہیں آئے گا، چاہے کچھ ہوجائے اور استانی کو بھی بتانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے، اس لیے کہ اگر وہ چاہیں بھی تو اس کو پکڑ نہیں سکیں گی۔ ایک اکیلا ٹکڑا کسی کام نہیں آئے گا، اس ایک ٹکڑے سے کوئی کھیل نہیں کھیلا جاسکتا۔ ’’شاید اس نے پہلے ہی اسے پھینک دیا ہو یا ٹکڑے ٹکڑے کردیا ہو‘‘ اس نے کہا۔ یہ سب کچھ اس نے اپنی پُرسکون، جذبات سے عاری آواز میں کہا۔ ’’ظاہری طور پر کوئی تمہیں پریشان کرنا چاہتا تھا اور سب سے بہتر بات یہ ہے کہ تم اس طرح ظاہر کرو جیسے کچھ ہو اہی نہیں۔ واحد طریقہ کہ تم اسے پریشان کرسکو‘‘ اس نے کہا ’’اور اس طرح سوچنے پر مجبور کرسکو کہ وہ تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکا، یہ ہے کہ تم گھر پر ریل گاڑی سے کھیلتے رہو گے۔ شاید اس طرح وہ تمہیں کوئی سراغ دے گا۔ بس اسی طریقے سے تم اسے پکڑ سکو گے۔‘‘
میرے دوست کی آواز میں ایسا اطمینان اور ایسی دانائی تھی جو کہیں زیادہ عمر کے لوگوں میں ہوتی ہے۔ اس نے جو کہا اس کا مجھ پر گہرا اثر ہوا، جیسے وہ تجربے کی دولت سے مالامال ہوکر یہ سب کہہ رہا ہو۔
ہم تینوں لگ بھگ سات یا آٹھ سال کے رہے ہوں گے اس وقت۔
میرا دوست، چور اور میں۔
میرا ہم جماعت اور وہ چور ایک دوسرے کو سمجھ رہے تھے۔ میں کچھ بھی نہیں سمجھ رہا تھا۔ برسوں میں یہ اور اس جیسی ناکامیوں پر پشیمان رہا۔ پھر میں نے چھوڑ دیا اور خود مدافعتی کی قیمت ادا کرنے لگا اور یہ سیکھ لیا کہ کس طرح بکھرے ہوئے خوابوں، فریب دہی اور غلط فیصلوں پر قانع رہا جائے تو شخصیت کو تقویت عطا کرتے ہیں۔
جب میں نے دیاربکر سے ایدریمت جانے والی ریل گاڑی کی کھڑکی میں سے جھانک کر دیکھا تو میں چند ماہ پیش تر گم ہوجانے والی پٹری کے ٹکڑے کو بُرے شگون کی طرح سمجھ رہا تھا۔ جس نے بھی وہ ٹکڑا چرایا تھا، بڑا ہوکر ان لوگوں میں شامل ہوگیا جنہوں نے میرے والد کو ہتھکڑی لگائی تھی۔
میں نے اپنی زندگی میں بہت سی چیزیں گم کردی ہیں مگر ان میں سے کسی سے اتنا دکھ نہیں ہوا جتنا پٹری کے اس ٹکڑے کی چوری سے۔ اس چور کا مجھے سراغ نہیں ملا۔ بچپن میں بھی میرے ذہن نے اندازہ لگالیا ہوگا کہ یہ گم شدہ ٹکڑا میری زندگی کی ایک علامت ہے۔
اور اسی لیے اتنے برسوں بعد میں اس ریل گاڑی پر سوار ہوں
٭٭٭
ماخوذ از نقاط۔۷ (عالمی ترجمہ نمبر)
انگریزی سے ترجمہ : آصف فرخی
بشکریہ: قاسم یعقوب
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں