فیض
وی جی کیرنن/ترجمہ سحر انصاری
میں فیض سے کوئی بیس سال قبل اس وقت متعارف ہواتھا جب وہ ایم ۔اے۔او کالج ، امرتسر میں لیکچرار تھے۔ایک اور پرانے دوست جو اس وقت فیض کے رفیق کار تھے، کل اچانک ایڈنبرا میں دکھائی دیے اور ان سے مل کر مجھے بیتے ہوئے دن یاد آگئے، معلوم یہ ہوا کہ فیض کو یہ ذمہ داری سونپی گئی تھی کہ وہ اس قدیم دوست کی ایڈنبرا میں آمد سے مجھے مطلع کریں گے۔لیکن وہ بھول گئے، اس زمانے میں بھی وہ اپنی بھول جانے کی عادت اور غائب دماغی کی وجہ سے خاصے مشہور تھے، لیکن ان کے طالب علم ان کی اس عادت کو آسانی سے درگزر کردیتے تھے۔کیونکہ کوئی پروفیسر یہ بھول جائے کہ اسے طلبا کولیکچر دینا تھا تو انہیں کبھی اس کا افسوس نہیں ہوتا۔اسی طرح تانگہ چلانے والوں کا بھی ان کے ساتھ یہی رویہ تھا، کیونکہ وہ کسی کے گھر جاکر باتوں میں مصروف ہوجاتے اور یہ بھول جاتے کہ باہر تانگہ کھڑا ہوا ہے اور اس طرح تانگے والوں کا کرایہ بڑھتا رہتا تھا۔اور ادبی لوگ انہیں یوں معاف کردیتے تھے کہ وہ اس وقت بھی ایک اہم شاعر تھے۔مجھے یہ معلوم کرکے بڑی مسرت ہوئی کہ اس ہفتے لندن میں ایک ادبی تقریب ان کے اعزاز میں منعقد کی جارہی ہے اور مجھے اس کا افسوس ہے کہ میں خود وہاں حاضر ہونے سے قاصر ہوں۔گزشتہ بار کوئی پانچ سال قبل جب وہ انگلستان آئے تھے تو ایک ایسی ہی تقریب میں شریک ہونے کا مجھے شرف حاصل ہوا تھا۔اس تقریب کے فوراًبعد فیض یورپ روانہ ہورہے تھے تاکہ وطن واپس جا سکیں۔جہاں انہیں جیل میں ڈال کر ان کا پرجوش خیر مقدم کیا گیا، کئی ادبی شخصیتوں کی زندگی میں اس قسم کی خفیف غلط فہمیاں پیدا ہوتی رہی ہیں۔اس بار وہ نسبتاً زیادہ طویل مدت کے لیے انگلستان میں قیام کررہے ہیں تاکہ خوش قسمتی سے ان کے دوستوں کو مستقبل قریب میں اسی قسم کسی اور غلط فہمی کا خوف باقی نہ رہے، نیز کسی محب وطن شاعر کو اپنے وطن سے خواہ کتنا ہی لگاؤ کیوں نہ ہو، یہ امر خاصا دل خوش کن ہوتا ہے کہ بعض اوقات وہ (کسی دوست کی طرح)بہت قریب سے جائزہ لینے کے بجائے چار یا پانچ ہزار میل کے فاصلے سے اپنے وطن کے بارے میں غور و خوض کرے۔یہ امر بلاشبہ افسوسناک ہے کہ فیض مع اہل و عیال ہمارے یہاں کے متعدد پر سکون اور رومان انگیز مقامات مثلاً میرے آبائی شہر مانچسٹر، بالیک ڈسٹرکٹ جہاں ایک زمانے میں اتنے سارے شاعروں نے عروج پایا، سب سے بڑھ کر ایڈنبرا میں رہنے کے بجائے لندن میں سکونت اختیار کررہے ہیں۔اسی شہر میں جو اینٹوں، کہر ، شور و غل اور اہالیان لندن کا ایک دیو ہیکل مجموعہ ہے۔ڈاکٹر جانسن کہا کرتے تھے کہ جب آدمی لندن سے اکتا جائے تو وہ زندگی سے اکتا جاتا ہے۔لیکن یہ اٹھارہویں صدی میں ہوتا تھا، آج تو یہ کہنا زیادہ صحیح ہوگا کہ جب آدمی زندگی سے اکتا جائے تو وہ لندن کا رخ کرتا ہے۔فیض بلا کے سگریٹ نوش واقع ہوئے ہیں، ہ بری عادت لندن کے کہر اور دھند کے ساتھ مل کر کہیں ان کی انتہائی تابناک صلاحیتوں کو ماند نہ کردے تاہم مجھے کامل یقین ہے کہ اپنی بیوی اور بچیوں کی مدد سے وہ اس مسئلے پر قابو پا لیں گے۔نیز یہ کہ ایک ادبی شخصیت کی حیثیت سے اس ملک میں ان کا قیام حقیقی معنوں میں تخلیقی ثابت ہوگا، وہ اب تک بہت کچھ کرچکے ہیں، لیکن انہیں ابھی اور بہت کچھ کرنا ہے۔اور اب جب کہ وہ دوسرے ہنگاموں سے آزاد ہیں، انہیں یقیناً خیال آئے گا کہ ان سے کس قدر زیادہ توقع کی جاتی ہے۔ان بیس برسوں میں مجھے یقین ہے کہ میں نے انہیں اس قسم کے موضوعات پر کم از کم بیس کتابیں لکھنے کا مشورہ دیا ہے۔جدید معاشرے میں فنکار کا مرتبہ، تاریخ ادب اردو یا مغربی تہذیب کے مقابلے میں اسلامی تہذیب کی نوعیت وغیرہ وغیرہ۔
ہر شخص کو جو ان سے واقف ہے، فطری طور پر یہ توقع بھی ہوگی کہ وہ اپنے فرصت کے اوقات میں مزید نظمیں لکھیں گے۔میری ہمیشہ سے یہ خواہش بھی رہی ہے کہ وہ دوسرے ممالک کی بعض نظمیں خصوصاً ہمارے عہد کی ترقی پسند شاعری کا ترجمہ اردو میں کریں۔جو اسی روایت یا عالمی تحریک سے تعلق رکھتی ہو، جس سے خود ان کی شاعری وابستہ ہے۔ویسے جارج بارد، جنہوں نے آئرستان ، ڈنمارک اور دوسرے علاقوں کی شاعری کو انگریزی میں منتقل کرنے کی کوشش کی ہے، اپنی ایک کتاب لیونگرومیں لکھتے ہیں کہ ’ترجمہ زیادہ سے زیادہ ایک بازگشت ہی ہوتا ہے۔‘تمام ترجمہ کرنے والے یقیناًیہی محسوس کرتے ہونگے لیکن کچھ نہ ہونے سے باز گشت بھی بہرحال بہتر ہے۔اور فیض کی پیدا کردہ بازگشت کم از کم مترنم ضرور ہوگی۔گزشتہ دنوں ان سے یہ سن کر میں بے حد متاثر ہو ا کہ خود ان کی بعض نظمیں سواحلی زبان میں ترجمہ ہونے کے بعد مشرقی افریقہ میں پڑھی جارہی ہیں۔جہاں ایک ملک گیر زبان کی حیثیت سے سواحلی کا مستقبل بہت تابناک نظر آتا ہے۔مجھے امید ہے کہ جلد ہی دوسری زبانوں میں بھی ان کے کلام کا ترجمہ ہوجائے گا۔
ایک اسکاٹ خاتون نے جو کئی سال تک افغانستان میں رہی ہیں، فیض کے والد کے بارے میں ایک کتاب لکھی ہے، جو اس زمانے میں وہاں وزیر اعلیٰ تھے(فیض کے والد سلطان احمد خاں افغانستان میں چیف سکریٹری کے عہدے پر فائز تھے۔)مصنفہ کے بیان کے مطابق وہ بڑے پختہ عز م و ارادے کے مالک تھے اور انتہائی انتشار کے ماحول میں نظم و نسق قائم کرنے کی کوشش کررہے تھے۔امرتسر کی آزادانہ زندگی کے زمانے سے فیض بھی دوسرے متعدد باحوصلہ انسانوں کے دوش بدوش اس جد و جہد میں مصروف ہیں کہ ہمارے جدید عہد کے انتشار میں ضبط و توازن قائم کیا جائے۔جو کبھی کبھی افغانستان کے دور قدیم سے زیادہ مایوس کن نظر آتا ہے۔میں ایک اور پشت کو سرگرم عمل دیکھنے کا خواہاں ہوں، اور چشم تصور سے فیض کی بیٹیوں کو اپنی اپنی رغبت کے عظیم کارناموں کی تکمیل میں منہمک دیکھ بھی رہا ہوں، ان میں ایک کو غالباً پاکستان کی پہلی عظیم مصورہ کی حیثیت سے اور دوسری کو شاید پہلی خاتون صدر کی حیثیت سے۔دریں اثنا فیض کے دوستوں کو ہر ہفتے کے خاتمے پر ان سے دریافت کرت رہنا چاہیے کہ کہ انہوں نے کتنے صفحات لکھ لیے ہیں اور ہر روز شام کو معلوم کرتے رہنا چاہیے کہ انہوں نے کتنے سگریٹ نہیں پیے ہیں۔
27، نیلس سٹریٹ
ایڈنبر
5دسمبر 1962
***
انتساب
آج کے نام
اور
آج کے غم کے نام
آج کا غم کہ ہے زندگی کے بھرے گلستاں سے خفا
زرد پتوں کا بن
زرد پتوں کا بن جو مرا دیس ہے
درد کی انجمن جو مرا دیس ہے
کلرکوں کی افسردہ جانوں کے نام
کِرم خوردہ دلوں اور زبانوں کے نام
پوسٹ مینوں کے نام
تانگے والوں کے نام
ریل بانوں کے نام
کارخانوں کے بھوکے جیالوں کے نام
بادشاہِ جہاں، والیِ ما سوا، نائب اللہ فی الارض،
دہقاں کے نام
جس کے ڈھوروں کو ظالم ہنکا لے گئے
جس کی بیٹی کو ڈاکو اٹھالے گئے
ہاتھ بھر کھیت سے ایک انگشت پٹوار نے کاٹ لی ہے
دوسری مالیے کے بہانے سے سرکار نے کاٹ لی ہے
جس کی پگ زور والوں کے پاؤں تلے
دھجیاں ہو گئی ہے
ان دکھی ماؤں کے نام
رات میں جن کے بچے بلکتے ہیں اور
نیند کی مار کھائے ہوئے بازوؤ ں میں سنبھلتے نہیں
دکھ بتاتے نہیں
منتوں زاریوں سےبہلتے نہیں
ان حسیناؤں کے نام
جن کی آنکھوں کے گُل
چلمنوں اور دریچوں کی بیلوں پہ بیکار کھل کھل کے
مرجھاگئے ہیں
ان بیاہتاؤ ں کے نام
جن کے بدن
بے محبت ریا کار سیجوں پہ سج سج کے اکتا گئے ہیں
بیواؤں کے نام
کٹڑیوں٭ اور گلیوں، محلوں کے نام
جن کی ناپاک خاشا ک سے چاند راتوں
کو آ آ کے کرتا ہے اکثر وضو
جن کے سایوں میں کرتی ہے آہ و بکا
آنچلوں کی حنا
چوڑیوں کی کھنک
کاکلوں کی مہک
آرزو مند سینوں کی اپنے پسینےمیں جلنے کی بو
پڑھنے والوں کے نام
وہ جو اصحابِ طبل و علم
کے دروں پر کتاب اور قلم
کا تقاضا لیے ہاتھ پھیلائے
پہنچے، مگر لوٹ کر گھر نہ آئے
وہ معصوم جو بھولپن میں
وہاں اپنے ننھے چراغوں میں لو کی لگن
لے کے پہنچے جہاں
بٹ رہے تھے، گھٹا ٹوپ، بے انت راتوں کے سائے
ان اسیروں کے نام
جن کے سینوں میں فردا کے شب تاب گوہر
جیل خانوں کی شوریدہ راتوں کی صر صر میں
جل جل کے انجم نما ہو گئے ہیں
آنے والے دنوں کے سفیروں کے نام
وہ جو خوشبوئے گل کی طرح
اپنے پیغام پر خود فدا ہو گئے ہیں
(ناتمام)
٭ کٹڑی۔ کٹڑے کی تصغیر، پنجابی میں ملحقہ مکانوں کے احاطے کو کہتے ہیں
***
لہو کا سراغ
کہیں نہیں ہے کہیں بھی نہیں لہو کا سراغ
نہ دست و ناخن قاتل نہ آستیں پہ نشاں
نہ سرخیِ لبِ خنجر نہ رنگِ نوکِ سناں
نہ خاک پر کوئی دھبا نہ بام پر کوئی داغ
کہیں نہیں ہے کہیں بھی نہیں لہو کا سراغ
نہ صرف خدمتِ شاہاں کہ خوں بہا دیتے
نہ دیں کی نذر کہ بیعانہء جزا دیتے
نہ رزم گاہ میں برسا کہ معتبر ہوتا
کسی عَلم پہ رقم ھو کے مشتہر ہوتا
پکارتا رہا بے آسرا یتیم لہو
کسی کو بہرِ سماعت نہ وقت تھا نہ دماغ
نہ مدعی، نہ شہادت، حساب پاک ہوا
یہ خون خاک نشیناں تھا رزقِ خاک ہوا
کراچی، جنوری 1965ء
***
زنداں زنداں شورِ انالحق، محفل محفل قلقلِ مے
خونِ تمنا دریا دریا، دریا دریا عیش کی لہر
دامن دامن رُت پھولوں کی، آنچل آنچل اشکوں کی
قریہ قریہ جشن بپا ہے، ماتم شہر بہ شہر
کراچی، جنوری 1965ء
***
دیدہء تر پہ وہاں کون نظر کرتا ہے
کاسہء چشم میں خوں نابِ جگر لے کے چلو
اب اگر جاؤ پئے عرض و طلب اُن کے حضور
دست و کشکول نہیں کاسہء سر لے کے چلو
کراچی، جنوری 1965ء
***
یہاں سے شہر کو دیکھو
یہاں سے شہر کو دیکھو تو حلقہ در حلقہ
کھنچی ہے جیل کی صورت ہر ایک سمت فصیل
ہر ایک راہ گزر گردشِ اسیراں ہے
نہ سنگِ میل، نہ منزل، نہ ؐمخلصی کی سبیل
جو کوئی تیز چلے رہ تو پوچھتا ہے خیال
کہ ٹوکنے کوئی للکار کیوں نہیں آئی
جو کوئی ہاتھ ہلائے تو وہم کو ہے سوال
کوئی چھنک، کوئی جھنکار کیوں نہیں آئی
یہاں سے شہر کو دیکھو تو ساری خلقت میں
نہ کوئی صاحبِ تمکیں، نہ کوئی والیِ ہوش
ہر ایک مردِ جواں مجرمِ رسن بہ گلو
ہر اِک حسینہء رعنا، کنیزِ حلقہ بگوش
جو سائے دُور چراغوں کے گرد لرزاں ہیں
نہ جانے محفلِ غم ہے کہ بزمِ جام و سبُو
جو رنگ ہر در و دیوار پر پریشاں ہے
یہاں سے کچھ نہیں کھُلتا یہ پھول ہیں کہ لہو
کراچی، مارچ 1965ء
***
غزل
یوں سجا چاند کہ جھلکا ترے انداز کا رنگ
یوں فضا مہکی کہ بدلا مرے ہمراز کا رنگ
سایہء چشم میںحیراں رُخِ روشن کا جمال
سُرخیء لب میں پریشاں تری آواز کا رنگ
بے پئے ہوں کہ اگر لطف کرو آخرِ شب
شیشہء مے میں ڈھلے صبح کے آغاز کا رنگ
چنگ و نَے رنگ پہ تھے اپنے لہو کے دم سے
دل نے لےَ بدلی تو مدھم ہوا ہر ساز کا رنگ
اک سخن اور کہ پھر رنگِ تکلم تیرا
حرفِ سادہ کو عنایت کرے اعجاز کا رنگ
کراچی، 1965ء
***
غم نہ کر، غم نہ کر
درد تھم جائے گا غم نہ کر، غم نہ کر
یار لوٹ آئیں گے، دل ٹھہر جائے گا، غم نہ کر، غم نہ کر
زخم بھر جائے گا،
غم نہ کر، غم نہ کر
دن نکل آئے گا
غم نہ کر، غم نہ کر
ابر کھُل جائے گا، رات ڈھل جائے گی
غم نہ کر، غم نہ کر
رُت بدل جائے گی
غم نہ کر، غم نہ کر
جون 1965ء
***
بَلیک آؤٹ
جب سے بے نور ہوئی ہیں شمعیں
خاک میں ڈھونڈتا پھرتا ہوں نہ جانے کس جا
کھو گئی ہیں میری دونوں آنکھیں
تم جو واقف ہو بتاؤ کوئی پہچان مری
اس طرح ہے کہ ہر اِک رگ میں اُتر آیا ہے
موج در موج کسی زہر کا قاتل دریا
تیرا ارمان، تری یاد لیے جان مری
جانے کس موج میں ٖغلطاں ہے کہاں دل میرا
ایک پل ٹھہرو کہ اُس پار کسی دنیا سے
برق آئے مری جانب، یدِ بیضا لے کر
اور مری آنکھوں کے گُم گشتہ گہر
جامِ ظلمت سے سیہ مست
نئی آنکھوں کے شب تاب گُہر
لوٹا دے
ایک پل ٹھہرو کہ دریا کا کہیں پاٹ لگے
اور نیا دل میرا
زہر میں دھُل کے، فنا ہو کے
کسی گھاٹ لگے
پھر پئے نذر نئے دیدہ و دل لے کے چلوں
حسن کی مدح کروں، شوق کا مضمون لکھوں
ستمبر 1965ء
***
غزل
کس حرف پہ تو نے گوشہء لب اے جانِ جہاں غماز کیا
اعلانِ جنوں دل والوں نے اب کے بہ ہزار انداز کیا
سو پیکاں تھے پیوستِ گلو، جب چھیڑی شوق کی لےَ ہم نے
سو تیر ترازو تھے دل میں جب ہم نے رقص آغاز کیا
بے حرص و ہوا، بے خوف و خطر، اِس ہاتھ پہ سر، اُس کف پہ جگر
یوں کوئے صنم میں وقتِ سفر نظارہء بامِ ناز کیا
جس خاک میں مل کر خاک ہوئے، وہ سرمہء چشمِ خلق بنی
جس خار پہ ہم نے خوں چھڑکا، ہمرنگِ گلِ طناز کیا
لو وصل کی ساعت آپہنچی، پھر حکمِ حضوری پر ہم نے
آنکھوں کے دریچے بند کیے، اور سینے کا در باز کیا
***
سپاہی کا مرثیہ
اٹھو اب ماٹی سے اٹھو
جاگو میرے لال،
اب جاگو میرے لال
تمری سیج سجاون کارن
دیکھو آئی رین اندھیارن
نیلے شال دو شالے لے کر
جن میں اِن دُکھیَن اکھیَن نے
ڈھیر کیے ہیں اتنے موتی
اتنے موتی جن کی جیوتی
دان سے تمرا
جگ جگ لاگا
نام چمکنے
اٹھو اب ماٹی سے اٹھو
جاگو میرے لال
اب جاگو میرے لال
گھر گھر بکھرا بھور کا کندن
گھور اندھیرا اپنا آنگن
جانے کب سے راہ تکے ہیں
بالی دلہنیا ، بانکے ویِرن
سونا تمرا راج پڑا ہے
دیکھو کتنا کاج پڑا ہے
بیری بیراجے راج سنگھاسن
تم ماٹی میں لال
اٹھو اب ماٹی سے اٹھو ، جاگو میرے لال
ہٹ نہ کرو ماٹی سے اٹھو ، جاگو میرے لال
اب جاگو میرے لال
اکتوبر 1965ء
***
ایک شہرِ آشوب کا آغاز
اب بزمِ سخن صحبتِ لب سوختگاں ہے
اب حلقہء مے طائفہء بے طلباں ہے
گھر رہیے تو ویرانیِ دل کھانے کو آوے
رہ چلیے تو ہر گام پہ غوغائے سگاں ہے
پیوندِ رہِ کوچہء زر چشمِ غزالاں
پابوسِ ہوس افسرِ شمشاد قداں ہے
یاں اہلِ جنوں یک بہ دگر دست و گریباں
واں جیشِ ہوس تیغ بکف درپئے جاں ہے
اب صاحبِ انصاف ہے خود طالبِ انصاف
مُہر اُس کی ہے میزان بہ دستِ دگراں ہے
ہم سہل طلب کون سے فرہاد تھے لیکن
اب شہر میں تیرے کوئی ہم سا بھی کہاں ہے
فروری، 1966ء
***
دیوارِ شب اور عکسِ رُخِ یار سامنے
پھر دل کے آئینے سے لہو پھوٹنے لگا
پھر وضعِ احتیاط سے دھندلا گئی نظر
پھر ضبطِ آرزو سے بدن ٹوٹنے لگا
1966ء
***
غزل
کیے آرزو سے پیماں جو مآل تک نہ پہنچے
شب و روزِ آشنائی مہ و سال تک نہ پہنچے
وہ نظر بہم نہ پہنچی کہ محیطِ حسن کرتے
تری دید کے وسیلے خد و خال تک نہ پہنچے
وہی چشمہء بقا تھا جسے سب سراب سمجھے
وہی خواب معتبر تھے جو خیال تک نہ پہنچے
ترا لطف وجہِ تسکیں، نہ قرار شرحِ غم سے
کہ ہیں دل میں وہ گلے بھی جو ملال تک نہ پہنچے
کوئی یار جاں سے گزرا، کوئی ہوش سے نہ گزرا
یہ ندیم یک دو ساغر مرے حال تک نہ پہنچے
چلو فیض دل جلائیں کریں پھر سے عرضِ جاناں
وہ سخن جو لب تک آئے پہ سوال تک نہ پہنچے
1966ء
***
سوچنے دو
( آندرے وزنیسن سکی کے نام)
اک ذرا سوچنے دو
اس خیاباں میں
جو اس لحظہ بیاباں بھی نہیں
کون سی شاخ میں پھول آئے تھے سب سے پہلے
کون بے رنگ ہوئی رنگ و تعب سے پہلے
اور اب سے پہلے
کس گھڑی کون سے موسم میں یہاں
خون کا قحط پرا
گُل کی شہ رگ پہ کڑا
وقت پڑا
سوچنے دو
اک ذرا سوچنے دو
یہ بھرا شہر جو اب وادئ ویراں بھی نہیں
اس میں کس وقت کہاں
آگ لگی تھی پہلے
اس کے صف بستہ دریچوں میں سے کس میں اول
زہ ہوئی سرخ شعاعوں کی کماں
کس جگہ جوت جگی تھی پہلے
سوچنے دو
ہم سے اس دیس کا تم نام ونشاں پوچھتے ہو
جس کی تاریخ نہ جغرافیہ اب یاد آئے
اور یاد آئے تو محبوبِ گزشتہ کی طرح
روبرو آنے سے جی گھبرائے
ہاں مگر جیسے کوئی
ایسے محبوب یا محبوبہ کا دل رکھنے کو
آ نکلتا ہے کبھی رات بِتانے کے لئے
ہم اب اس عمر کو آ پہنچے ہیں جب ہم بھی یونہی
دل سے مل آتے ہیں بس رسم نبھانے کے لیے
دل کی کیا پوچھتے ہو
سوچنے دو
ماسکو
مارچ 1967 ء
***
غزل
نہ کسی پہ زخم عیاں کوئی، نہ کسی کو فکر رفو کی ہے
نہ کرم ہے ہم پہ حبیب کا، نہ نگا ہ ہم پہ عدو کی ہے
صفِ زاہداں ہے تو بے یقیں، صفِ میکشاں ہے تو بے طلب
نہ وہ صبح درود و وضو کی ہے، نہ وہ شام جام و سبو کی ہے
نہ یہ غم نیا، نہ ستم نیا، کہ تری جفا کا گلہ کریں
یہ نظرتھی پہلے بھی مضطرب، یہ کسک تودل میں کبھو کی ہے
کفِ باغباں پہ بہارِ گل کا ہے قرض پہلے سے بیشتر
کہ ہر ایک پھول کے پیرہن، میں نمود میرے لہو کی ہے
نہیں خوفِ روزِ سیہ ہمیں، کہ ہے فیض ظرفِ نگاہ میں
ابھی گوشہ گیر وہ اک کرن، جو لگن اُس آئینہ رُو کی ہے
1967ء
***
سرِ وادیِ سینا
(عرب اسرائیل جنگ کے بعد)
پھر برق فروزاں ہے سرِ وادیِ سینا
پھر رنگ پہ ہے شعلہء رخسارِ حقیقت
پیغامِ اجل دعوتِ دیدارِ حقیقت
اے دیدہء بینا
اب وقت ہے دیدار کا دم ہے کہ نہیں ہے
اب قاتلِ جاں چارہِ گرِ کلفتِ غم ہے
گلزارِ ارم پرتوِ صحرائے عدم ہے
پندارِ جنوں
حوصلہء راہِ عدم ہے کہ نہیں ہے
پھر برق فروزاں ہے سرِ وادیِ سینا،اے دیدہء بینا
پھر دل کو مصفا کرو، اس لوح پہ شاید
مابینِ من و تو نیا پیماں کوئی اترے
اب رسمِ ستم حکمت خاصانِ زمیں ہے
تائیدِ ستم مصلحتِ مفتیِ دیں ہے
اب صدیوں کے اقرارِ اطاعت کو بدلنے
لازم ہے کہ انکار کا فرماں کوئی اترے
***
دُعا
آئیے ہاتھ اٹھائیں ہم بھی
ہم جنہیں رسمِ دعا یاد نہیں
ہم جنہیں سوزِ محبت کے سوا
کوئی بت، کوئی خدا یاد نہیں
آئیے عرض گزاریں کہ نگارِ ہستی
زہر امروز میں شیرینیِ فردا بھردے
وہ جنہیں تابِ گراں باریِ ایام نہیں
ان کی پلکوں پہ شب و روز کو ہلکا کردے
جن کی آنکھوں کو رخِ صبح کا یارا بھی نہیں
ان کی راتوں میں کوئی شمع منور کردے
جن کے قدموں کو کسی رہ کا سہارا بھی نہیں
ان کی نظروں پہ کوئی راہ اجاگر کردے
جن کا دیں پیرویِ کذب وریا ہے ان کو
ہمتِ کفر ملے، جرأتِ تحقیق ملے
جن کے سر منتظرِ تیغِ جفا ہیں ان کو
دستِ قاتل کو جھٹک دینے کی توفیق ملے
عشق کا سرِ نہاں جانِ تپاں ہے جس سے
آج اقرار کریں اور تپش مٹ جائے
حرفِ حق دل میں کھٹکتا ہے جو کانٹے کی طرح
آج اظہار کریں اور خلش مٹ جائے
یومِ آزادی، 14 اگست 1967ء
***
دلدار دیکھنا
طوفاں بہ دل ہے ہر کوئی دلدار دیکھنا
گُل ہو نہ جائے مشعلِ رخسار دیکھنا
آتش بہ جاں ہے ہر کوئی سرکار دیکھنا
لو دے اٹھے نہ طرہء طرار دیکھنا
جذبِ مسافرانِ رہِ یار دیکھنا
سر دیکھنا، نہ سنگ، نہ دیوار دیکھنا
کوئے جفا میں قحطِ خریدار دیکھنا
ہم آ گئے تو گرمیِ بازار دیکھنا
اُس دلنواز شہر کے اطوار دیکھنا
بے التفات بولنا، بیزار دیکھنا
خالی ہیں گرچہ مسند و منبر، نگوں ہے خلق
رعبِ قبا و ہیبتِ دستار دیکھنا
جب تک نصیب تھا ترا دیدار دیکھنا
جس سمت دیکھنا، گل و گلزار دیکھنا
پھر ہم تمیزِ روز و مہ و سال کر سکیں
اے یادِ یار پھر اِدھر اِک بار دیکھنا
1967ء
***
ہارٹ اٹیک
درد اتنا تھا کہ اس رات دلِ وحشی نے
ہر رگِ جاں سے الجھنا چاہا
ہر بُنِ مُو سے ٹپکنا چاہا
اور کہیں دور ترے صحن میں گویا
پتا پتا مرے افسردہ لہو میں دھل کر
حسنِ مہتاب سے آزردہ نظر آنے لگا
میرے ویرانہء تن میں گویا
سارے دُکھتے ہوئے ریشوں کی طنابیں کُھل کر
سلسلہ وار پتا دینے لگیں
رخصتِ قافلہء شوق کی تیاری کا
اور جب یاد کی بجھتی ہوئی شمعوں میں نظر آیا کہیں
ایک پل آخری لمحہ تری دلداری کا
درد اتنا تھا کہ اس سے بھی گزرنا چاہا
ہم نے چاہا بھی ، مگر دل نہ ٹھہرنا چاہا
1967ء
***
ضبط کا عہد بھی ہے شوق کا پیمان بھی ہے
عہد و پیماں سے گزر جانے کو جی چاہتا ہے
درد اتنا ہے کہ ہر رگ میں ہے محشر برپا
اور سکوں ایسا کہ مر جانے کو جی چاہتا ہے
1968ء
***
مرثیے
(1)
دور جا کر قریب ہو جتنے
ہم سے کب تم قریب تھے اتنے
اب نہ آؤ گے تم نہ جاؤ گے
وصل و ہجراں بہم ہوئے کتنے
(2)
چاند نکلے کسی جانب تری زیبائی کا
رنگ بدلے کسی صورت شبِ تنہائی کا
دولتِ لب سے پھر اے خسروِ شیریں دہناں
آج ارزاں ہو کوئی حرف شناسائی کا
گرمیِ رشک سے ہر انجمنِ گُل بدناں
تذکرہ چھیڑے تری پیرہن آرائی کا
صحنِ گلشن میں کبھی اے شہِ شمشاد قداں
پھر نظر آئے سلیقہ تری رعنائی کا
ایک بار اور مسیحائے دلِ دل زدگاں
کوئی وعدہ، کوئی اقرار مسیحائی کا
دیدہء و دل کو سنبھالو کہ سرِ شامِ فراق
ساز و سامان بہم پہنچا ہے رسوائی کا
اگست 1968ء
(3)
کب تک دل کی خیر منائیں، کب تک رہ دکھلاؤ گے
کب تک چین کی مہلت دو گے، کب تک یاد نہ آؤ گے
بیتا دید اُمید کا موسم، خاک اُڑتی ہے آنکھوں میں
کب بھیجو گے درد کا بادل، کب برکھا برساؤ گے
عہدِ وفا یا ترکِ محبت، جو چاہو سو آپ کرو
اپنے بس کی بات ہی کیا ہے، ہم سے کیا منواؤ گے
کس نے وصل کا سورج دیکھا، کس پر ہجر کی رات ڈھلی
گیسوؤں والے کون تھے کیا تھے، ان کو کیا جتلاؤ گے
فیض دلوں کے بھاگ میں ہے گھر بھرنا بھی، لُٹ جانا بھی
تم اس حسن کے لطف و کرم پہ کتنے دن اتراؤ گے
اکتوبر 1968ء
***
خورشیدِ محشر کی لو
آج کے دن نہ پوچھو، مرے دوستو
دور کتنے ہیں خوشیاں منانے کے دن
کھُل کے ہنسنے کے دن، گیت گانے کے دن
پیار کرنے کے دن، دل لگانے کے دن
آج کے دن نہ پوچھو، مرے دوستو
زخم کتنے ابھی بختِ بسمل میں ہیں
دشت کتنے ابھی راہِ منزل میں ہیں
تیر کتنے ابھی دستِ قاتل میں ہیں
آج کا دن زبوں ہے، مرے دوستو
آج کے دن تو یوں ہے، مرے دوستو
جیسے درد و الم کے پرانے نشاں
سب چلے سوئے دل کارواں، کارواں
ہاتھ سینے پہ رکھو تو ہر استخواں
سے اٹھے نالہءالاماں، الاماں
آج کے دن نہ پوچھو،مرے دوستو
کب تمہارے لہو کے دریدہ عَلم
فرقِ خورشیدِ محشر پہ ہوں گے رقم
از کراں تا کراں کب تمہارے قدم
لے کے اٹھے گا وہ بحرِ خوں یم بہ یم
جس میں دھُل جائے گا آج کے دن کا غم
سارے درد و الم سارے جور و ستم
دور کتنی ہے خورشید محشر کی لو
آج کے دن نہ پوچھو، مرے دوستو
مارچ، اپریل 1969ء
***
بالیں پہ کہیں رات ڈھل رہی ہے
یا شمع پگھل رہی ہے
پہلو میں کوئی چیز جل رہی ہے
تم ہو کہ مری جاں نکل رہی ہے
مئی ۔ جون 1970ء
***
اِک سخن مطربِ زیبا کہ سلگ اٹھے بدن
اِک قدح ساقیِ مہوش جو کرے ہوش تمام
ذکرِ صبحے کہ رُخ یار سے رنگیں تھا چمن
یادِ شب ہا کہ تنِ یار تھا آغوش تمام
جون 1970ء
***
جرسِ گُل کی صدا
اس ہوس میں کہ پکارے جرسِ گل کی صدا
دشت و صحرا میں صبا پھرتی ہے یوں آوارہ
جس طرح پھرتے ہیں ہم اہلِ جنوں آوارہ
ہم پہ وارفتگیِ ہوش کی تہمت نہ دھرو
ہم کہ رمازِ رموزِ غمِ پنہانی ہیں
اپنی گردن پہ بھی ہے رشتہ فگن خاطرِ دوست
ہم بھی شوقِ رہِ دلدار کے زندانی ہیں
جب بھی ابروئے درِ یار نے ارشاد کیا
جس بیاباں میں بھی ہم ہوں گے چلے آئیں گے
در کھُلا دیکھا تو شاید تمہیں پھر دیکھ سکیں
بند ھو گا تو صدا دے کے چلے جائیں گے
جولائی 1970ء
***
فرشِ نومیدیِ دیدار
دیکھنے کی تو کسے تاب ہے لیکن اب تک
جب بھی اس راہ سے گزرو تو کسی دکھ کی کسک
ٹوکتی ھے کہ وہ دروازہ کھلا ہے اب بھی
اور اس صحن میں ہر سو یونہی پہلے کی طرح
فرشِ نومیدیِ دیدار بچھا ہے اب بھی
اور کہیں یاد کسی دل زدہ بچے کی طرح
ہاتھ پھیلائے ہوئے بیٹھی ہے فریاد کناں
دل یہ کہتا ھے کہ کہیں اور چلے جائیں جہاں
کوئی دروازہ عبث وا ہو نہ بیکار کوئی
یاد فریاد کا کشکول لیے بیٹھی ہو
محرمِ حسرتِ دیدار ھو دیوار کوئی
نہ کوئی سایہء گُل ہجرتِ گل سے ویراں
یہ بھی کر دیکھا ھے سو بار کہ جب راہوں میں
دیس پردیس کی بے مہر گزرگاہوں میں
قافلے قامت و رخسار و لب و گیسو کے
پردہء چشم پہ یوں اترے ہیں بے صورت و رنگ
جس طرح بند دریچوں پہ گرے بارشِ سنگ
اور دل کہتا ہے ہر بار چلو لوٹ چلو
اس سے پہلے کہ وہاں جائیں تو یہ دکھ بھی نہ ہو
یہ نشانی کہ وہ دروازہ کھلا ہے اب بھی
اور اُس صحن میں ہر سُو یونہی پہلے کی طرح
فرشِ نومیدیِ دیدار بچھا ہے اب بھی
اگست 1970ء
***
ٹوٹی جہاں جہاں پہ کمند
رہا نہ کچھ بھی زمانے میں جب نظر کو پسند
تری نظر سے کیا رشتہء نظر پیوند
ترے جمال سے ہر صبح پر وضو لازم
ہر ایک شب ترے در پر سجود کی پابند
نہیں رہا حرمِ دل میں اِک صنم باطل
ترے خیال کے لات و منات کی سوگند
مثال زینہء منزل بکارِ شوق آیا
ہر اِک مقام کہ ٹوٹی جہاں جہاں پہ کمند
خزاں تمام ہوئی کس حساب میں لکھیے
بہارِ گل میں جو پہنچے ہیں شاخِ گل کو گزند
دریدہ دل ہے کوئی شہر میں ہماری طرح
کوئی دریدہ دہن شیخِ شہر کے مانند
شعار کی جو مداراتِ قامتِ جاناں
کیا ہے فیض درِ دل، درِ فلک سے بلند
نومبر 1970ء
***
غزل
شرح بے دردیِ حالات نہ ہونے پائی
اب کے بھی دل کی مدارات نہ ہونے پائی
پھر وہی وعدہ جو اقرار نہ بننے پایا
پھر وہی بات جو اثبات نہ ہونے پائی
پھر وہ پروانے جنہیں اذنِ شہادت نہ ملا
پھر وہ شمعیں کہ جنہیں رات نہ ہونے پائی
پھر وہی جاں بلبی لذتِ مے سے پہلے
پھر وہ محفل جو خرابات نہ ہونے پائی
پھر دمِ دید رہے چشم و نظر دید طلب
پھر شبِ وصل ملاقات نہ ہونے پائی
پھر وہاں بابِ اثر جانیے کب بند ہوا
پھر یہاں ختم مناجات نہ ہونے پائی
فیض سر پر جو ہر اِک روز قیامت گزری
ایک بھی روز مکافات نہ ہونے پائی
23، مارچ 1971ء
***
حذر کرو مرے تن سے
سجے تو کیسے سجے قتلِ عام کا میلہ
کسے لبھائے گا میرے لہو کا واویلا
مرے نزار بدن میں لہو ہی کتنا ہے
چراغ ہو کوئی روشن نہ کوئی جام بھرے
نہ اس سے آگ ہی بھڑکے نہ اس سے پیاس بجھے
مرے فگار بدن میں لہو ہی کتنا ہے
مگر وہ زہرِ ہلاہل بھرا ہے نس نس میں
جسے بھی چھیدو ہر اِک بوند قہرِ افعی ہے
ہر اک کشید ہے صدیوں کے درد و حسرت کی
ہر اک میں مُہر بلب غیض و غم کی گرمی ہے
حذر کرو مرے تن سے یہ سم کا دریا ہے
حذر کرو کہ مرا تن وہ چوبِ صحرا ہے
جسے جلاؤ تو صحنِ چمن میں دہکیں گے
بجائے سرو و سمن میری ہڈیوں کے ببول
اسے بکھیرا تو دشت و دمن میں بکھرے گی
بجائے مشکِ صبا میری جان زار کی دھول
حذر کرو کہ مرا دل لہو کا پیاسا ہے
مارچ 1971ء
***
تہ بہ تہ دل کی کدورت
میری آنکھوں میں امنڈ آئی توکچھ چارہ نہ تھا
چارہ گر کی مان لی
اور میں نے گرد آلود آنکھوں کو لہو سے دھو لیا
میں نے گرد آلود آنکھوں کو لہو سے دھو لیا
اور اب ہر شکل و صورت
عالمِ موجود کی ہر ایک شے
میری آنکھوں کے لہو سے اس طرح ہم رنگ ہے
خورشید کا کندن لہو
مہتاب کی چاندی لہو
صبحوں کا ہنسنا بھی لہو
راتوں کا رونا بھی لہو
ہر شجر مینارِ خوں، ہر پھول خونیں دیدہ ہے
ہر نظر اک تارِ خوں، ہر عکس خوں مالیدہ ہے
موجِ خوں جب تک رواں رہتی ہے اس کا سرخ رنگ
جذبہء شوقِ شہادت ،درد،غیظ و غم کا رنگ
اور تھم جائے تو کجلا کر
فقط نفرت کا، شب کا،موت کا،
ہر اک رنگ کے ماتم کا رنگ
چارہ گر ایسا نہ ہونے دے
کہیں سے لا کوئی سیلابِ اشک
آبِ وضو
جس میں دُھل جائیں تو شاید دھُل سکے
میری آنکھوں ،میری گرد آلود آنکھوں کا لہو ....
8 اپریل 1971
***
ہم سادہ ہی ایسے تھے، کی یوں ہی پذیرائی
جس بار خزاں آئی، سمجھے کہ بہار آئی
آشوبِ نظر سے کی ہم نے چمن آرائی
جو شے بھی نظر آئی، گل رنگ نظر آئی
امیدِ تلطف میں رنجیدہ رہے دونوں
تو اور تری محفل، میں اور مری تنہائی
یک جان نہ ہو سکیے، انجان نہ بن سکیے
یوں ٹوٹ گئی دل میں شمشیرِ شناسائی
اس تن کی طرف دیکھو جو قتل گہِ دل ہے
کیا رکھا ہے مقتل میں ، اے چشمِ تماشائی
***
یار اغیار ہو گئے ہیں
اور اغیار مُصِر ہیں کہ وہ سب
یارِ غار ہو گئے ہیں
اب کوئی ندیمِ باصفا نہیں ہے
سب رند شراب خوار ہو گئے ہیں
1971ء
***
کہیں تو کاروانِ درد کی منزل ٹھہر جائے
کنارے آ لگے عمرِ رواں یا دل ٹھہر جائے
اماں کیسی کہ موجِ خوں ابھی سر سے نہیں گزری
گزر جائے تو شاید بازوئے قاتل ٹھہر جائے
کوئی دم بادبانِ کشتیِ صہبا کو تہہ رکھو
ذرا ٹھہرو غبارِ خاطرِ محفل ٹھہر جائے
خُمِ ساقی میں جز زہرِ ہلاہل کچھ نہیں باقی
جو ہو محفل میں اس اکرام کے قابل، ٹھہر جائے
ہماری خامشی بس دل سے لب تک ایک وقفہ ہے
یہ طوفاں ہے جو پل بھر بر لبِ ساحل ٹھہر جائے
نگاہِ منتظر کب تک کرے گی آئینہ بندی
کہیں تو دشتِ غم میں یار کا محمل ٹھہر جائے
***
داغستان کے ملک الشعرا
رسول حمزہ کے افکار
برکھا برسے چھت پر، میں تیرے سپنے دیکھوں
برف گرے پربت پر، میں تیرے سپنے دیکھوں
صبح کی نیل پری، میں تیرے سپنے دیکھوں
کویل دھوم مچائے،میں تیرے سپنے دیکھوں
آئے اور اُڑ جائے، میں تیرے سپنے دیکھوں
باغوں میں پتے مہکیں، میں تیرے سپنے دیکھوں
شبنم کے موتی دہکیں، میں تیرے سپنے دیکھوں
اس پیار میں کوئی دھوکا ہے
تو نار نہیں کچھ اور ہے شے
ورنہ کیوں ہر ایک سمے
میں تیرے سپنے دیکھوں
***
بھائی
آج سے بارہ برس پہلے بڑا بھائی مِرا
اسٹالن گراڈ کی جنگاہ میں کام آیا تھا
میری ماں اب بھی لیے پھرتی ہے پہلو میں یہ غم
جب سے اب تک ہے وہی تن پہ ردائے ماتم
اور اس دُکھ سے مِری آنکھ کا گوشہ تر ہے
اب مِری عمر بڑے بھائی سے کچھ بڑھ کر ہے
***
داغستانی خاتون اور شاعر بیٹا
اس نے جب بولنا نہ سیکھا تھا
اس کی ہر بات میں سمجھتی تھی
اب وہ شاعر بنا ہے نامِ خدا
لیکن افسوس کوئی بات اس کی
میرے پلے ذرا نہیں پڑتی
***
بہ نوکِ شمشیر
میرے آبا کہ تھے نا محرمِ طوق و زنجیر
وہ مضامیں جو ادا کرتا ہے اب میرا قلم
نوکِ شمشیر پہ لکھتے تھے بہ نوکِ شمشیر
روشنائی سے جو میں کرتا ہوں کاغذ پہ رقم
سنگ و صحرا پہ وہ کرتے تھے لہو سے تحریر
***
آرزو
مجھے معجزوں پہ یقیں نہیں مگر آرزو ہے کہ جب قضا
مجھے بزمِ دہر سے لے چلے
تو پھر ایک بار یہ اذن دے
کہ لحد سے لوٹ کے آسکوں
ترے در پہ آ کے صدا کروں
تجھے غمگسار کی ہو طلب تو ترے حضور میں آ رہوں
یہ نہ ہو تو سوئے رہ عدم میں پھر ایک بار روانہ ہوں
***
سالگرہ
شاعر کا جشنِ سالگرہ ہے شراب لا
منصب، خطاب، رُتبہ انہیں کیا نہیں ملا
بس نقص ہے تو اتنا کہ ممدوح نے کوئی
مصرع کسی کتاب کے شایاں نہیں لکھا
***
ایک چٹان کے لئے
کتبہ
جواں مردی اسی رفعت پہ پہنچی
جہاں سے بزدلی نے جست کی تھی
***
تیرگی جال ہے اور بھالا ہے نور
اک شکاری ہے دن، اک شکاری ہے رات
جگ سمندر ہے جس میں کنارے سے دور
مچھلیوں کی طرح ابنِ آدم کی ذات
جگ سمندر ہے ساحل پہ ہیں ماہی گیر
جال تھامے کوئی، کوئی بھالا لیے
میری باری کب آئے گی کیا جانیے
دن کے بھالے سے مجھ کو کریں گے شکار
رات کے جال میں یا کریں گے اسیر؟
***
نسخہء الفت میرا
گر کسی طور ہر اک الفتِ جاناں کا خیال
شعر میں ڈھل کے ثنائے رُخِ جانانہ بنے
پھر تو یوں ہو کہ مِرے شعر و سخن کا دفتر
طول میں طولِ شبِ ہجر کا افسانہ بنے
ہے بہت تشنہ مگر نسخہء الفت میرا
اس سبب سے کہ ہر اک لمحہء فرصت میرا
دل یہ کہتا ہے کہ ہو قربتِ جاناں میں بسر
***
۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اختتام ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں