سلویا پلاتھ کا نام پڑھنے والوں کے لیے نیا نہیں ہے، وہ ایک زبردست تخلیق کار تھیں۔آٹھ سال کی عمر سے ان کا تخلیقی سفر شروع ہوگیا تھا، ٹیڈ ہیوز سے انہوں نے محبت کی بنیاد پر شادی کی، مگر ٹیڈ کی شاعرانہ فطرت کے سبب ایک اور لڑکی سے جب ان کا افیئر ہوا تو سلویا کو صدمہ پہنچا۔ اس وقت ٹیڈ اور سلویا کے دو بچے تھے، انہوں نے تنہائی کے کرب اور اداسی کے انتہائی غلبے کے سبب خودکشی کی کوشش کی، جس میں ناکامی ہوئی۔بالآخر انہوں نے ٹیڈ سے علیحدگی کے بہت تھوڑے عرصے بعد ہی لندن میں اپنے گھر میں خودکشی کرلی۔ان کی خود کشی کے تعلق سے بہت سی تھیوریز ہیں، کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے خودکشی نہیں کی، بلکہ ان کی زندگی پر لکھے گئےسلویا کے ایک ادیب دوست کے ناول کے مطابق جس صبح سلویا کی لاش ان کے گھر میں پائی گئی، اس رات باہر ایک گاڑی دیکھی گئی تھی۔ بہرحال سلویا پلاتھ نے مختصر سی زندگی میں بہت سی اہم نظمیں اور کہانیاں لکھیں، اپنی ذات کے حوالے سے ایک ناول 'دی بیل جار'بھی تخلیق کیا۔سلویا انگریزی شاعری میں کنفیشنل پوئٹری کے اہم شعرا میں شامل ہیں۔
زیر نظر کہانی 'جانی پینک اینڈ بائبل آف ڈریمز' نامی افسانونی مجموے میں شامل اسی کہانی کا ترجمہ ہے۔جو کہ اردو کے ایک بہت اچھے شاعر اور فکشن نگار صغیر ملال نے کیا ہے۔ادبی دنیا کے لیے اسے ساجد مسعود صاحب نے ٹائپ کیا ہے، جس کے لیے ہم ان کے شکر گزار ہیں۔کہانی میں سلویا کا کردار مرکزی ہے۔وہ جس اعترافی اسلوب فن سے تعلق رکھتی تھیں، اس کا اس کہانی پر بھی خاص اثر دکھائی دیتا ہے۔ایک ادیب کا ذہن بہت سے خیالات کی آماجگاہ ہوتا ہے، خودکشی زندگی کے مسائل کا حل نہیں، لیکن اس کی کوشش بھی ایک سوچنے والے ذہن کو فکر کی تیزابی کھریند سے کچھ لمحوں تک بچانے میں معاون ثابت ہوسکتی ہے۔سلویا نے کہا تھا، کہ اگر میں سوچتی نہیں تو شاید زیادہ خوش رہ سکتی تھی، مگر کسی بھی زندہ ادیب کے لیے خوشی کا مکمل تصور میری ذاتی خیال میں اس کی تخلیقی اداسی کا قاتل ہوتا ہے، جس کے بغیر اچھی تخلیقات وجود میں نہیں آسکتیں۔اس کہانی میں ناسٹیلجیا کی کیفیت، زندگی کے نئے دھڑکتے، تیز رفتار دور میں جمی ہوئی تنہائی کا عکس صاف دیکھا جاسکتا ہے۔بہرحال اب میں آپ کے اور اس کہانی کے درمیان سے رخصت ہوتا ہوں، بس اتنی خبر دے کر کہ سلویا پلاتھ کی مزید کہانیاں اور نظمیں ادبی دنیا کے لیے دوسرے دو تین ادیب ترجمہ کرنے کے لیے راضی ہوگئے ہیں۔جنہیں جلد ان کے شکریے کے ساتھ آپ کے مطالعے کے لیے پیش کیا جائے گا۔شکریہ!(تصنیف حیدر)
٭٭٭
روزانہ صبح نو بجے سے شام پانچ بجے تک میں اپنی نشست پر بیٹھی دوسروں کے خواب ٹائپ کرتی رہتی ہوں۔ مجھے اسی لیے ملازم رکھا گیا ہے۔ میرے افسروں کا حکم ہے کہ میں تمام چیزیں ٹائپ کروں۔خواب، شکایات، ماں سے اختلاف،بوتل اور بستر کے مسائل، باپ سے جھگڑا، سر درد جو اتنا شدید ہو جاتا ہے کہ دنیا کی تمام لذتیں ماند پڑ جاتی ہیں۔ ہمارے دفتر میں صرف وہی لوگ آتے ہیں جن کے گھروں میں عذاب بھر چکے ہوتے ہیں۔
ممکن ہے کہ چوہا اپنے جسمانی زاویہ نگاہ کے سبب بہت جلد سمجھ جاتا ہوکہ دور سے آتے دکھائی دینے والے دو بڑے پاؤں کائنات کا نظام کس طرح چلاتے ہیں۔ لیکن جہاں سے میں دنیا کو دیکھتی ہوںوہاں سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کے نگہبان کا نام "سراسیمہ"ہے۔
سراسیمہ کی بھی شکل ہو سکتی ہے۔ کتا، طوائف، چڑیل شیطان۔۔۔۔۔ سو جائے یا جاگتا رہے، وہ سراسیمہ ہی رہتا ہے۔
جب لوگ سوال کرتے ہیں کہ میں کہاں کام کرتی ہوں تو میں انہیں بتاتی ہوں کہ میرا کام شہر کے اسپتال کے ایک شعبے کا ریکارڈ درست رکھنا ہے۔ عام طور پر یہ جواب کافی ثابت ہوتا ہے۔ اسکے بعد کوئی اس طرح کی بات نہیں پوچھتا جس کے جواب میں مجھے بتانا پڑے کہ میں پہلے سے موجود ریکارڈ کی نگہداشت کے علاوہ نیا ریکارڈ ٹائپ بھی کرتی ہوں۔ دراصل نیا ریکارڈ ٹائپ کرنا ہی میرا پیشہ ہے اور میں اپنے پیشے سے مقدس انداز میں وابستہ ہوں۔ اس لیے کہ میری تحویل میں خوابوں کے ڈھیر ہیں۔ اور میں کسی کو یہ نہیں بتا سکتی۔ نہیں بتا سکتی کہ میں اپنے گھر کے کمرے میں ہسپتال کے قوانین کی پابند نہیں ہوں۔ یہاں میں فقط سراسیمہ کے احکام پر عمل کرتی ہوں جو مجھے خواب جمع کرنے کی ہدایت کرتا ہے۔
خواب در خواب میں بالغ ہو رہی ہوں اور اسی رفتار سے خوابوں سے میری شناسائی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ سلسلہ جاری رہا تو ایک دن میں دنیا کی سب سے بڑی خواب آشنا بن جاؤں گی لیکن خواب شناسی کی انتہا پر پہنچ کر بھی میں لوگوں کے خواب روکنے کی کوشش نہیں کروں گی۔ خوابوں کا ناجائز استعمال نہیں کروں گی۔ یہاں تک کہ میں خوابوں کی تعبیر بتانے کا بھی کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔میں تو صرف خواب جمع کرنا چاہتی ہوں۔ انہیں پہچاننا چاہتی ہوں، ان سے محبت کرنا چاہتی ہوں۔ میں سراسیمہ کی کارکن ہوں اور خواب جمع کرنا میرے فرائض میں شامل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں اپنے ٹائپ شدہ خواب اتنی بار پڑھتی ہوں کہ وہ مجھے زبانی یاد ہو جاتے ہیں۔ پھر میں گھر جا کر انہیں سراسیمہ کی مقدس کتاب میں درج کر دیتی ہوں۔
کبھی کبھی میں رات کے وقت اپنے گھر کی چھت پر چلی جاتی ہوں۔ وہاں سے نیند بھرے شہر کو دیکھنا مجھے اچھا لگتا ہے۔چھت پر ٹہلتے ہوئے وائلن کے تار کی طرح ہمہ وقت لرزنے کے لیے تیار رہتی ہوں۔صبح کے آثار نمودار ہونے پر تھکن سے چور اپنے بستر پر آتی ہوں اور کسی بخار زدہ شخص کی طرح سو جاتی ہوں۔ شہر میں موجود انسانی سروں کا شمار، پھر ان سروں میں آنے والے مصنوعی خوابوں کا حساب مجھے بے انتہا تھکا دیتا ہے۔
دوسرے دن مجھے وہی خواب ٹائپ کرنا ہوتے ہیں جنہیں میں رات اپنی چھت سے محسوس کر چکی ہوں۔ یقینا شہر بھر کے خواب لامحدود ہیں اور میں شام تک فقط ان کا ایک معمولی حصہ ٹائپ کر سکتی ہوں لیکن اسکے باوجود میرے دفتر میں فائلوں کا انبار بڑھتا جا رہا ہے۔ اور بہت جلد وہ دن آنے والا ہے جب دفتر میں سوائے خوابوں کی فائلوں کے کوئی دوسری چیز رکھنے کی جگہ نہیں بچے گی۔
یوں بھی ہوتا ہے کہ میں لوگوں کو انکے خوابوں کے حوالے سے پہچاننے لگی ہوں۔ بہت سے مریض ایسے ہوتے ہیں کہ میں انکے نام بھول جاتی ہوں۔ لیکن انکے خواب یاد رہتے ہیں۔ مثلا یہ آدمی جو ایک فیکٹری میں کام کرتا ہے خواب میں خود کو کسی مشین کے پہیوں میں پھنسا ہوا محسوس کرتا ہے۔ یہ اس خواب میں اتنا خوفزدہ ہو جاتا ہے کہ آنکھ کھلنے کے بعد بھی کچھ دیر تک چیختا رہتا ہے۔ اس طرح کے اور لوگ بھی ہیں جو خواب میں دیکھتے ہیں کہ وہ کسی مشین تلے روندے جا رہے ہیں، یا کوئی ایجاد انہیں نگل رہی ہے۔ کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ جب مشینیں نہیں تھیں اس وقت لوگ کس طرح کے خوابوں سے ڈرتے ہونگے۔
میرا اپنا بھی ایک خواب ہے۔ اس خواب میں ایک بہت بڑی جھیل نظر آتی ہے۔ اتنی بڑی کہ اسکے کنارے ہیلی کاپٹر کے شیشے والے پیٹ سے بھی نظر نہیں آتےجہاں سے میں اسکی تہہ میں جھانکتی ہوں۔ جھیل کا پانی خوفناک بلاؤں سے بھرا ہوا ہے۔ایسی بلائیں جو قدیم زمانے میں زمین کی سطح پر گھومتی تھیں۔وہ زمانہ جب انسان غاروں میں رہتا تھا۔ ابھی اس نے آگ نہیں جلائی تھی، فصل نہیں اگائی تھی۔ اس خواب میں سورج چاند ستارے اور زمیں آسمان کے درمیان پائی جانے والی دیگر تمام چیزوں کی شکلیں اور خصوصیات بدلی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ اچانک جھیل کی سطح برف سے ڈھک جاتی ہے اور میرے ہاتھ پاؤں ٹھنڈے پڑنے لگتے ہیں۔ یہاں تک کہ میں جاگ جاتی ہوں۔ اس خواب سے نکلنے کے بعد کچھ دیر تک کسی بھی خواب میں معنی تلاش کرنا لاحاصل لگتا ہے۔
یہی وہ جھیل ہے جہاں رات کے وقت شہر بھر کے خواب بہتے ہوئے آتے ہیں۔یہاں پہنچ کر تمام دماغوں کا گرد و غبار بیٹھ جاتا ہے۔ظاہر ہے کہ یہ جھیل شہر کے مضافات میں پائے جانے والے پینے کے شفاف پانی کے ان ذخیروں جیسی نہیں ہو سکتی، جن کی دن رات یوں حفاظت کی جاتی ہے جیسے وہ خاردار تاروں کے درمیان رکھے انمول ہیرے ہوں۔یہ ایک مختلف جھیل ہے۔صدیوں کے گلتے سڑتے جمع شدہ خوابوں سے اس جھیل کا پانی مٹیالا اور بدبو دار ہو گیا ہے اور اسکی سطح سے ہر وقت دھواں اٹھتا رہتا ہے۔
ایک سر میں رات بھر میں کتنے خواب آتے ہیں۔ اور شہر میں مجموعی سروں کی تعداد کیا ہے؟ اور دنیا میں اسطرح کے کتنے شہر پائے جاتے ہیں؟ اور زمیں پر کتنی راتیں گزر چکی ہیں؟؟ میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جو ریاضی میں تیز ہوتے ہیں۔ اور بڑے بڑے اعداد کا لمحوں میں حساب لگا لیتے ہیں۔ میں تو صرف اس ایک شہر میں رات بھر میں دیکھے جانے والے خوابوں کا شمار کرتی ہوں تو میرا سر چکرا جاتا ہے۔
یہ عجیب جھیل ہے۔ اس میں پیار کرنے والوں کے چہرے اور پھولی ہوئی لاشیں اور یادیں اور دھند اور دھواں اور پرزے اور سائنسی ایجادات اور نفع اور نقصان ایک دوسرے سے لپٹے تیرتےرہتے ہیں اور کبھی کبھی مجھے اس میں مردہ پیدا ہونے والے بچے بھی نظر آتے ہیں۔ مردہ پیدا ہونے والے بچے دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے وہ جھیل کی دوسری سمت بیٹھے عظیم تخلیق کار کے نامکمل پیغامات ہوں۔
اس جھیل کو کوئی بھی نام دے لو۔دنیا کے تمام افراد ایک برادری کی صورت میں یہاں نظر آتے ہیں۔ ایک انبوہ ایک ڈھیر ، ایک ناقابل فہم انبار جو سوتے میں بالکل ایک چیز کا بنا لگتا ہے لیکن جونہی جاگتا ہے جدا جدا ہو جاتا ہے۔جھیل کی اکائی میں سب ثنویت سے پاک ہو جاتے ہیں۔ مگر عالم بیداری میں انہیں دوبارہ اپنی اپنی شخصیتوں کا لبادہ اوڑھنا پڑے گا۔
جھیل کا خواب میرا ذاتی خواب ہے۔ اسے میں کسی ریکارڈ میں درج نہیں کرونگی۔ کسی فائل میں دفن نہیں ہونے دونگی۔
اہم بات یہ ہے کہ ہسپتال کے جس شعبے میں مجھے ملازمت ملی ہے وہ دوسرے شعبوں سے بہت مختلف ہے۔ہمارے شعبے میں دوائیں نہیں دی جاتیں۔ مریض سے صرف گفتگو کی جاتی ہے۔ اسکی سنی جاتی ہے اسے محسوس کیا جاتا ہے۔ مجھے اپنے شعبے کا طریقہ کار پسند ہے۔ یہ ان جسمانی بیماریوں والے شعبوں کے طریقے سے بہتر ہے۔ جہاں رنگین حلول اور سفوف کے ڈھیر لگے ہوتے ہیں۔ہمارے ہسپتال کی عمارت نیم تاریک اور تنگ ہے،جس کے باعث کبھی کبھی دوسرے شعبوں کے مریض اور معالج بھی ہمارے کمروں میں عارضی طور پر منتقل ہو جاتے ہیں۔ ایسے دنوں میں ہمارے شعبے کی برتری مزید نمایاں ہو جاتی ہے۔
منگل اور بدھ کے روز جگہ کی کمی کے سبب آپریشن والے مریضوں کے پلنگ ہمارے شعبے کے ہال میں کھڑے کر دیئے جاتے ہیں۔ ٹائپنگ کے دوران میری نظر بار بار انکی طرف اٹھ جاتی ہے۔جس جگہ میں بیٹھتی ہوں وہاں سے مریضوں کے فقط پاؤں نظر آتے ہیں۔ سرخ کمبلوں اور سفید چادروں سے نکلے صاف ستھرے زرد پیروں کی طویل قطار۔
کسی کسی دن اعصابی شعبے والے بھی ہمارا کوئی کمرہ استعمال کرتے ہیں۔۔ انکے مریض عجیب و غریب بولیاں بولتے ہیں۔ لاطینی اور چینی زبانوں کے گانے گاتے ہیں اور سارا وقت شور مچاتے ہیں۔ اگر ایسے مریضوں کی جسمانی حالت درست ثابت ہو جائے تو اعصابی امراض کے ماہر انہیں ہمارے شعبے میں بھیج دیتے ہیں۔
ان دشواریوں کے باوجود میں اپنے کام سے غافل نہیں ہوتی۔ سر جھکائے مسلسل دوسروں کے خواب ٹائپ کرتی چلی جاتی ہوں۔ اب تو میرے پاس مریضوں کے خوابوں کے علاوہ اپنے ابھی ایک زیادہ خواب جمع ہوچکے ہیں۔ یہ خواب میں نے خود تخلیق کیے ہیں لیکن ابھی میں ان خوابوں کو خود سے بھی نہیں دہراؤں گی۔ کچھ عرصے تک انہیں اس مجسمے کی طرح وقت گزارنا ہوگا جو اپنی نقاب کشائی کی رسم سے ایک لمحے قبل تک مخمل کے سرخ کپڑے میں سر سے پاؤں تک ڈھکا رہتا ہے۔
میں جو بھی خواب حاصل کرتی ہوں جس طرح بھی حاصل کرتی ہوں اس پر "سراسیمہ" کے دستخط ضرور ہوتے ہیں۔ سراسیمہ کو ڈرامائی انداز میں ظاہر ہونا پسند ہے۔ ہر چند کہ وہ ظاہر ہونے کے لیے مختلف جگہوں اور اوقات کا انتخاب کرتا ہے، مگر کوئی جگہ ، کوئی وقت ہو، وہ ہمیشہ ڈرامائی انداز میں سامنے آتا ہے۔
خوابوں کا کاروبار بہت خطرناک ہوتا ہے۔ اگر سراسیمہ اپنی جانب سے اس میں شاعری کا عنصر شامل نہ کر دے تو یہ کاروبار ناقابل برداشت ہوجائے۔ خوابوں کے کاروبارمیں شاعری کا عنصر شامل کرنے پر میں سراسیمہ کی شکر گزار ہوں۔
چمڑے کی جیکٹ میں ملبوس اس نوجوان نے بتایا تھا کہ اس کے خواب۔۔۔۔ لیکن میں یہ کیسے کہہ سکتی ہوں کہ یہ اس نوجوان کا خواب ہے جو اس روز سیاہ جیکٹ پہنے ہمارے کلینک میں داخل ہواتھا؟ مجھے یقین ہے کہ یہ اسکا ذاتی خواب ہے۔
دل میں یقین کا جذبہ ہوتو طاقت اور التجاؤں اور آنسوؤں سےخواب تحریر کیے جا سکتے ہیں۔ دوسروں کے خواب ٹائپ کرنا آسان کام ہے لیکن ذاتی خواب تخلیق کرنے میں بہت توانائی صرف ہوتی ہے۔
ہسپتال کے مرکز میں ایک اور شعبہ ہے جو ہمارے شعبے سے بھی زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ جس کے خواب ہمارے بس میں نہ آسکیں اسے ہم عمارت کے مرکزی حصے میں بھیج دیتے ہیں۔ میں نے ہسپتال کا وہ شعبہ آج تک نہیں دیکھا۔ ہر چند کہ اسکی سیکرٹری میری واقف ہے۔(ہم دونوں ایک ہی ہال میں دوپہر کاکھانا کھاتے ہیں) مگر اسکا حلیہ اور اٹھنے بیٹھنے کا انداز مجھے اس سے دور رکھتا ہے۔ اسکا نام بھی عجیب سا ہے۔میں اکثر اسکا نام بھول جاتی ہوں۔ "مل رویج" یا "مل روج" اس طرح کے نام ٹیلی فون ڈائریکٹری میں نظر نہیں آتے۔ میں نے ایک مرتبہ ٹیلی فون ڈائریکٹری کی ورق گردانی کی تھی اور یہ دیکھ کر خوش ہوئی تھی کہ شہر میں بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جن کا نام "اسمتھ" نہیں ہے۔
بہرحال یہ مل رویج یا مل روج نام کی عورت بڑی صحت مند اور اونچی لمبی ہے۔ اسکا لباس عام لباس سے زیادہ کسی ادارے کی وردی معلوم ہوتی ہے۔(ضروری نہیں کہ یہ ادارہ کوئی قانون ہی نافذ کرتا ہو) مل روج کے سنگین چہرے پرچند غیر معمولی تل بھی ہیں۔ یہ تل دیکھ کر خیال آتا ہے کہ شاید مل روج کا چہرہ سورج کی روشنی میں بہت کم رہا ہے۔دھوپ کی تپش حاصل نہ ہو تو چہرے پر طرح طرح کے داغ پڑ جاتے ہیں۔ ممکن ہے مل روج نے مصنوعی روشنیوں تلے پرورش پائی ہو۔ اگر اسکے چہرے سے اسکی آنکھیں نوچنے کی کوشش کی جائے تو محسوس ہو گا جیسے کوئی پتھر کھرچ رہا ہے۔
میرے وارڈ کی ہیڈ سیکرٹری کا نام مس ٹیلرہے۔ مس ٹیلر روز اول سے ہمارے وارڈ سے وابستہ ہیں۔ عجیب اتفاق ہے کہ جس دن میں پیدا ہوئی تھی اسی روز وارڈ کا افتتاح ہوا تھا۔ مس ٹیلر ہسپتال کے بارے میں ہر چیز جانتی ہے۔ وہ اسکے تمام ڈاکٹروں مریضوں شعبوں اور منصوبوں سے واقف ہے۔ اپنے پیشے میں اتنی لگن میں نے کسی اور میں نہیں دیکھی۔ وہ ہسپتال میں موجود ہر جان دار اور بے جان شے کا حساب رکھتی ہیں۔ اس تمام وقت اعداد و شمار میں گھرا دیکھ کر مجھے حیرت ہوتی ہے۔
دفتر میں میری دلچسپی صرف خواب جمع کرنے کی حد تک ہے۔ مجھے یقنر ہے کہ اگر ہسپتال میں آگ لگ جائے تو مس ٹیلر خود کو بچانے سے پہلے اعداد و شمار کی فائلیں بچانے کی کوشش کرے گی۔ میرے اور مس ٹیلر کے مشاغل مختلف ہونے کے باوجود ہمارے آپس کے تعلقات بہت خوشگوار ہیں۔ بس میں یہ نہیں چاہتی کہ وہ مجھے دفتر کی فائلوں میں پرانے خواب پڑھتے دیکھ لے۔ عام طور پر ہمارا شعبہ بے پناہ مصروف رہتا ہے۔ لیکن پھر بھی مجھے کبھی کبھی خوابوں کے پرانے ریکارڈوں میں جھانکنے کا موقع مل ہی جاتا ہے۔ مگر اتنی عجلت میں انوکھے اور اچھوتے خوابوں کا انتخاب ایک مشکل عمل ہے۔ میرے فن کا تقاضا ہے کہ میں فرصٹ سے بیٹھوں ، خوابوں کی گہرائی میں اتروں، انکے سارے پہلوؤں کو جانچوں ، انہیں ہر زاویے سے پرکھوں اور پھر جن خوابوں کو ہر طرح سے مکمل پاؤں، انہیں گھر لے جا کر خوابوں کی مقدس کتاب میں درج کر دوں۔ اگر شراب کا معیار بتانے والے ماہرین پہلا قطرہ چکھنے سے قبل ایک گھنٹے تک شراب کی خوشبو سونگھ سکتے ہیں تو میں خوابوں کے سلسلے میں اس فرصت اور سہولت سے کیوں محروم ہوں۔
کبھی کبھی میرا جی چاہتا ہے کہ میں ایک بڑا ٹرنک لاؤں اور خوابوں کی ساری فائلیں اس میں بھر کے لے جاؤں۔ہسپتال کے گیٹ پر غیر معمولی قسم کی پوٹلیوں اور بنڈلوں کو کھلوا کر دیکھا جاتا ہےاور سٹاف کے چند دوسرے لوگ بھی سرکاری سامان کی نگہداشت پر مامور ہیں،مگر میں ٹائپ رائٹر یا کوئی قیمتی دوا وغیرہ چرانے کا منصوبہ نہیں بنا رہی۔ میں تو بس پرانے خوابوں کی فائلیں ایک رات کے لیے گھر لے جاؤں گی اور دوسری صبح انہیں اسی ترتیب سے دوبارہ الماری میں سجا دونگی۔ اس میں کسی کا کیا نقصان ہے؟یوں تو میں خوابوں میں فقط جھانکنے سے بھی بہت کچھ معلوم کر سکتی ہوں لیکن مس ٹیلر کے آنے جانے کا کوئی وقت مقرر نہیں ہے جس کے سبب میں ہر آہٹ اور سرگوشی پر چونک جاتی ہوں اور اسطرح میں چند لمحوں کے لیے بھی اپنا شوق مکمل توجہ سے پورا نہیں کر پاتی۔
اداس دنوں میں جب میرے پاس اتنا وقت بھی نہیں ہوتا کہ پرانی فائلوں سے کسی خواب کی ایک جھلک ہی دیکھ لوں ، سراسیمہ میری جانب پشت کر کے پہاڑوں جتنا بلند ہو جاتا ہے اور مجھ پر اتنا خوف طاری ہوتا ہے کہ میں اپنے حواس گم کر بیٹھتی ہوں۔ ایسے موقع پر میری حالت ان بھیڑوں کی سی ہوتی ہے جو آنکھوں کے سامنے اُگی سبز گھاس چرنے میں اس قدر مشغول ہو جاتی ہیں کہ چراگاہ کے اختتام پر قربانی کے چبوترے کی موجودگی سے آخری لمحے تک بے خبر رہتی ہیں۔
اس سے زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ ڈاکٹر ہر روز سراسیمہ کے آدمیوں کو انکی پناہ گاہوں سے باہر نکال رہے ہیں۔ ڈاکٹروں کے لیے سراسیمہ کے دربار تک رسائی رکھنے والوں کی بھی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ہر چند کہ اسکے گروہ میں فقط وہی نمایاں منصب پر فائز ہوتا ہے جو خوابوں کو یاد رکھے اور خواب دیکھنے والوں کو بھول جائے۔ یوں بھی خوابوں کے مقابلے میں خواب دیکھنے والوں کی کیا وقعت ہے؟ مگر ڈاکٹر یہ تسلیم نہیں کرتے۔ انکے لیے تو سراسیمہ مریض کے بدن میں داخل ہونے والا کانچ کا ٹکڑا ہے جسے وہ روحانی پائپوں کی مدد سے باہر نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ہیری کے ساتھ کیا ہوا تھا؟ اعتراض کرنے والوں کو ڈاکٹر یاد دلاتے ہیں۔" جب وہ ہمارے شعبے میں داخل ہوا تھا تو سراسیمہ اسکے شانے پر ہاتھ رکھ چکا تھا۔اسی لیے تو اسے پوری دنیا غلاظت کا ڈھیر نظر آنے لگی تھی۔اس نے کام پر جانا چھوڑ دیا تھا کہ راستے میں انسانوں کا تھوک اور جانوروں کی آلودگی پڑی ہوتی ہے۔ پہلے یہ گندگی جوتوں کو لگتی ہے، وہ کہتا تھاا ور جب گھر آ کر جوتے اتارو تو ہاتھ ناپاک ہو جاتے ہیں۔اسکے بعد منہ تک پہنچنے میں اسے دیر ہی کتنی لگتی ہے؟"
ہیری کو جسمانی معذور بھی برے لگتے تھے۔"معذوروں کے ناخن اور کانوں کا پچھلا حصہ میل سے اٹا ہوتا ہے۔" وہ اکثر گفتگو کا آغاز ہی اس جملے سے کرتا تھا۔لیکن ہمارے مشوروں اور ہدایات پر عمل کرنے سے وہ بالکل نارمل ہو گیا تھا۔ یاد ہے؟ علاج کے آخری دن اس نے ہم سب کے ساتھ کیسی خوش دلی سے ہاتھ ملایا تھا اور ہمارا شکریہ ادا کر کے رخصت ہوا تھا۔ مجھے یاد ہے آخری دن دن اسکی آنکھوں کے شعلے بجھے ہوئے تھے۔ اور وہ احمقوں کی طرح مسکراتا ہوا ہمارے کلینک سے روانہ ہوا تھا، اگر صورتحال یہی رہے تو کتنے ہیری آئیں گے۔ صحت یاب ہو کر چلے جائیں گے اور میں اپنے خوابوں کے ذخیرے میں کوئی اضافہ نہیں کر سکوں گی۔ مجھے بہرطور اپنی رفتار بڑھانی ہے اور مس ٹیلر کی موجودگی میں یہ ناممکن ہے۔ اس مسئلے کا صرف یہی حل ہے کہ کوئی رات میں دفتر میں ہی گزاروں اور تمام فائلوں سے اپنے مطلب کے خواب اپنی ڈائری میں تحریر کر لوں۔
دفتر میں رات گزارنے کا خیال کئی دنوں سے(کمبلوں سے نکلے مریضوں کے زرد پیروں کی قطارکی طرح) بار بار میرے سامنے آرہا ہے۔ ایک دن شام کے پانچ بجے میں خود کو دفتر کے واش روم میں چھپا دیکھتی ہوں۔ گہرے ہوتے اندھیرے کے ساتھ دفتر سے گھر جانیوالوں کے قدموں کی چاپ آہستہ آہستہ معدوم ہو جاتی ہے۔میں واش روم سے باہر نکلتی ہوں تو دن بھر مصروف رہنے والے ہسپتال کی عمارت سوموار کے چرچ کی طرح خالی اور اداس محسوس ہوتی ہے۔ میں فوراََ اپنے کمرے میں داخل ہوتی ہوں۔ٹائپ رائٹرز اپنے خانوںمیں بند کیے جا چکے ہیں۔ٹیلی فونوں میں تالے پڑے ہیں دنیا اپنی جگہ موجود ہے۔
میں چھت پر لگا ہلکی طاقت کا بلب روشن کر کے ریکارڈ میں موجود خوابوں کی سب سے پرانی فائل کا پہلا صفحہ کھولتی ہوں۔فائل کا رنگ ابتدا میں نیلا رہا ہو گا، مگر اب اسکی جلد زرد ہو گئی ہے۔ میری پیدائش کے دن یہ فائل بالکل نئی ہو گی۔ میں صبح تک اس فائل کی ورق گردانی کرتی ہوں۔ آدھی رات کے قریب میں اس فائل میں درج آخری خواب پڑھتی ہوں۔ مئی کی انیس تاریخ کو ایک نرس اپنے مریض کی الماری کھول کر لانڈری کے تھیلے سے پانچ کٹے ہوئے سر نکالتی ہے۔ ان میں ایک سر نرس کی ماں کا ہے۔
سرد ہوا کا ایک ہلکا جھونکا میری گردن کو چھوتا ہوا گزر جاتا ہے۔میں خوابوں کی فائلوں کے سامنے فرش پر بیٹھی ہوں اور اب ٹانگوں پر فائل کا کا بوجھ محسوس کر رہی ہوں۔اچانک میری نظر سامنے والے پر پڑتی ہے۔ دروازے کے کواڑ فرش سے اٹھے ہوئے ہیں۔دروازے کی دوسری طرف دو مردانہ جوتے نظر آ رہے ہیں۔ جوتوں کی نوکیں میری سمت ہیں۔بھورے چمڑے کے بنے ہوئے اونچی ایڑیوں والے یہ غیر ملکی ساخت کے جوتے ہیں۔جوتے ساکت ہیں ہر چند کے ان کے اوپر کالے رنگ کی وہ ریشمی جرابیں بھی ہیں جن سے کسی ٹانگوں کی زرد رنگت جھلک رہی ہے مگر جوتے ساکت ہیں۔
"بے چاری" کوئی انتہائی پیار بھری آواز میں کہتا ہے۔ " بے چاری فرش پر کیسے بیٹھی ہے۔ اب تو اسکی ٹانگیں اکڑ گئی ہونگی۔ اسکی مدد کرو سورج نکلنے والا ہے۔"
دو ہاتھ میرے بازوؤں تلے سے نکل کر مجھے کھینچ کر کھڑا کر دیتے ہیں ۔ میری ٹانگیں واقعی سن ہو چکی ہیں۔ میں لڑکھڑاتی ہوں۔ خوابوں کی فائل فرش پر جا پڑتی ہے۔"کچھ دیر تک یونہی کھڑی رہو۔ خون کی گردش درست ہو جائے گی۔"ہسپتال کے مالک کی سرگوشی میرے کانوں میں گونجتی ہے۔ میں اپنی ڈائری سینے سے لگا لیتی ہوں۔ یہ میری آخری امید ہے۔
"اسے کچھ نہیں معلوم۔"
"اسے کچھ نہیں معلوم۔"
"اسے سب کچھ معلوم ہے!!"
چمکدار جوتے کی نوک خوابوں کی فائل کو ٹھوکر مارتی ہے۔ میری پیدائش کی پہلی چیخ کے وقت شہر میں دیکھے جانے والےتمام خوابوں کا ریکارڈ الماری کی تہہ کے اندھیرے میں چلا جاتا ہے۔
وہ مجھے عمارت کے مرکز کی سمت لے جا رہا ہے۔میں اپنی رفتار تیز کر دیتی ہوں تاکہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ مجھے گھسیٹا جا رہا ہے۔
"اس سے پہلے کہ تم مجھے نکالو" میں مضبوط لہجے میں کہتی ہوں۔"میں خود نوکری چھوڑ دو گی۔" "تم ہمارے کام آتی ہو" اس بار مالک کہیں دور سے بولتا ہے۔"ہمیں تمہاری ضرورت ہے۔"
میں اور مالک چلتے رہتے ہیں۔یہاں تک کہ پیچ در پیچ راہداریوں میں داخل ہو جاتے ہیں۔ اسکے بعد سرنگیں آتی ہیں۔ آخری سرنگ کے اختتام پر آہنی پھاٹک کھل جاتا ہے۔ہمارے گزرنے کے بعد ہماری پیٹھ پیچھے پھاٹک یوں بند ہوتا ہےجیسے مویشیوں کو مذبح خانے لے جانے والی گاڑی کا دروازہ بند ہو جاتا ہے۔
ہم ایک انجانے کمرے میں داخل ہو چکے ہیں۔کم از کم میرے لیے یہ کمرہ بالکل اجنبی ہے۔میں دوسروں کے علاقے میں آگئی ہوں اور میرا سامان پیچھے رہ گیا ہے۔ہینگر پر لٹکا کوٹ ۔۔۔۔۔اور میرے ڈیسک کی دراز میں میرا بٹوہ پڑا ہوا ہے۔ صرف میری ڈائری میرے ساتھ ہے۔اور سراسیمہ ہے جس کی تپش مجھے برف باری میں منجمد ہونے سے بچا رہی ہے۔ میں انتہائی تیز روشنیوں کے نیچے کھڑی کر دی گئی ہوں۔ "آگئی ہے۔"
"چڑیل۔۔۔"
مس مل روج فولادی ڈیسک کے پیچھے کھڑی مجھے گھور رہی ہے۔ کمرے کی ساخت ایسی ہے جیسے کسی بحری جہاز کا نچلا حصہ ہو۔ کسی بھی دیوار پر کوئی کھڑکی یا روشن دان نہیں ہے۔ سامنے سے سراسیمہ کے نائب نمودار ہوتے ہیں۔انکی آنکھیں دہکتے ہوئے کوئلوں سے زیادہ سرخ اور روشن ہیں۔ وہ مجھے عجیب آوازوں میں خوش آمدید کہتے ہیں۔انہیں معلوم ہو چکا ہے کہ میں سراسیمہ کی صفوں میں شامل ہوں اور وہ جاننا چاہتے ہیں کہ دنیا میں سراسیمہ کے کارکن کس حال میں ہیں۔
"امن۔ میں تمہارے لیے امن اور سلامتی کا پیغام لے کر آئی ہوں۔" میں اپنا ڈائری والا ہاتھ بلند کر کے انہیں مخاطب کرتی ہوں۔
"یہ پرانا راگ ہے بی بی" مل روج ہاتھی کی طرح جھوم اٹھتی ہے۔"اب ہم ایسی باتوں سے متاثر نہیں ہونگے"
مس مل روج مجھ پر جھپٹتی ہے۔ میں بچنے کی کوشش کرتی ہوں۔مگر وہ بہت تیز رفتار اور طاقتور ہے۔ پہلی بار اسکا وار خالی جاتا ہے مگر دوسری بار وہ مجھے دبوچ لیتی ہے۔
"پرانا راگ مت الاپو۔ یہ ڈائری ہمارے حوالے کردو۔"
مس مل روج کے سانسوں میں پاگل کر دینے والی بو ہے۔میں اسکی گرفت سے نکلنے کی کوشش میں اسکی مردوں جیسی مضبوط اور بے رس چھاتی کو اپنے وجود کی پوری طاقت سے پرے دھکیلتی ہوں۔ لیکن میں اسکے مقابلے میں بہت کمزور ہوں۔اسکی انگلیاں درندے کے پنجوں کی طرح میرے بدن میں پیوست ہو رہی ہیں۔
"میری بچی۔۔۔میری بچی میرے پاس لوٹ آئی ہے۔" میرے کانوں میں پھنکارتی ہے۔
"یہ لڑکی" ہسپتال کے مالک کی آواز سے کمرہ گونجتا ہے۔"سراسیمہ کے ساتھ وقت گزارتی رہی ہے۔"
"بری بات۔"
"بری بات۔"
سفید لکڑی کا ایک تخت عین میرے سامنے بچھا دیا گیا ہے۔ مل روج میری کلائی سے گھڑی اتارتی ہے۔ انگلیوں سے انگھوٹی نکالتی ہے۔ بالوں سے ہئیر پن الگ کرتی ہے۔ پھر وہ میرا لباس اتار کر مجھے موسم کی پہلی برف جیسی بے داغ اور سفید چادروں میں لپیٹ دیتی ہے۔ اچانک کمرے کے چاروں کونوں سے پتھرائی آنکھوں والے چار وجود نکل کر مجھے سفید تخت پر لے جاتے ہیں۔ انہوں نے آپریشن تھیٹر والے کپڑے اور نقاب پہن رکھے ہیں۔انکا مقصد سراسیمہ کی بادشاہت ختم کرناہے۔وہ ایک ایک کر کے میری ٹانگیں اور بازو قابو کر لیتے ہیں۔دروازے سے آنے والا میرے سر کے پیچھے کھڑا ہو جاتا ہے۔ میں اسے نہیں دیکھ سکتی مگر اسکے ہاتھوں میں موجود تیز دھاروں والے اوزار کی کھڑکھڑاہٹ سن سکتی ہوں۔
سراسیمہ کے نمائندے میری بے بسی پر صدائے احتجاج بلند کرتے ہیں۔ وہ گنگناتے ہیں۔
"فقط خوف سے محبت کی جا سکتی ہے۔"
خوف سے محبت باشعور ہونے کی علامت ہے۔
فقط خوف، ہر طرف خوف کا راج ہو۔
"فقط خوف سے محبت کی جا سکتی ہے۔"
مل روج اور ہسپتال کا مالک سراسیمہ کے نمائندوں کو خاموش کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔
میرے سر کے پیچھے کھڑے شخص کو اشارہ کیا جاتا ہے۔ یکلخت مشین اور تیز دھار آلات چلنے کی آواز بقیہ تمام آوازوں پر حاوی ہو جاتی ہے۔ جونہی میں خود کو معدوم ہوتا محسوس کرتی ہوں، چھت پر لگی روشنیوں سے سراسیمہ کا چہرہ جھانکتا ہے۔ اسکی آنکھوں میں بجلیاں کوند رہی ہیں۔ آواز کی کڑک سے کائنات پر سائے پڑ رہے ہیں۔
میں عمر بھر سراسیمگی سے وابستہ رہی ہوں۔ اور مجھے پہلے دن ہی معلوم ہو گیا تھا کہ یہ وابستگی بیسویں منزل سے چھلانگ ہے۔گلے میں پڑی رسی ہے۔ دل پر رکھے خنجر کی نوک ہے۔
٭٭٭
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں