بدھ، 16 دسمبر، 2015

زنداں نامہ/کلیات فیض احمد فیض۔3

مقدمہ ’سازش ‘ راول پنڈی کے دنوں میں فیض کے ساتھ میں بھی سنٹرل جیل (حیدرآبادٹ سندھ)میں تھا، دسمبر1952تک ہمارے مقدمے کی سماعت ختم ہوچکی تھی، ہمیں روز روز اسپیشل ٹریبونل کے اجلاس میں جاکر ملزموں کے کٹہرے میں، گھنٹوں بیٹھے رہنے اور اس دوران گواہوں کی شہادتوں، وکیلوں کی جرح اور بحث اور معزز ججوں کی فاضلانہ قانونی موشگافیوں سے نجات مل گئی تھی، ابھی فیصلہ نہیں سنایا گیا تھا اور ہم امید و بیم کے عالم میں تھے۔’چھٹی‘ وافرتھی، انہیں دنوں ایک دن یہ اطلاع ملی کہ ’دست صبا ’ شائع ہوگئی۔گوہم اس کی تمام چیزیں فیض کے منہ سے سن چکے تھے، اور انہیں بار بار پڑھ چکے تھے، لیکن اس خبر سے ہم میں سے تمام ان قیدیوں کو جو ادب سے مس رکھتے تھے، ایک غیر معمولی مسرت ہوئی، جیل کے حکام سے اجازت لے کر ہم نے ایک پارٹی بھی کرڈالی جس میں ہم تمام قیدیوں نے مل کر فیض کو ’دست صبا‘ کی اشاعت پر مبارکباد دی۔اس موقع پر منجملہ اور باتوں کے میں نے یہ کا تھا، کہ بہت عرصہ گزر جانے کے بعد، جب لوگ راول پنڈی سازش کے مقدمے کو بھول جائیں گے اور پاکستان کا مورخ1952کے اہم واقعات پر نظر ڈالے گا تو غالباً اس سال کا سب سے اہم تاریخی واقعہ نظموں کی اس چھوٹی سی کتاب کی اشاعت کو ہی قرار دیا جائے گا۔
بہت دنوں سے لوگ، جن میں بعض نیک اندیش اور بعض بد اندیش ہیں۔’اردو ادب‘ اور خاص طور پر اس کی ترقی پسند صنف پر جمود طاری ہونے یا اس کے انحطاط کی باتیں کررہے ہیں، میں اس نقطہ نظر کو صحیح نہیں سمجھتا، بلکہ میرا خیال ہے کہ اردو ادب کا جدید دور اس کے روشن ترین ادوار میں سے ہے، یہ دور تقریباً 1930سے شروع ہوتا ہے اور ابھی تک جاری ہے اور اگر ہم گزشتہ چار پانچ سال ہی کو لے لیں تو میرے خیال میں فیض کی ’دست صبا‘ اور ’زنداں نامہ‘ ندیم قاسمی کی ’شعلۂ گل‘ سردار جعفری کی ’پتھر کی دیوار‘ ،’احتشام حسین کی ’تنقید ااور عملی تنقید‘اور مجنوں گورکھ پوری کی ’نقوش و اذکار‘ (منجملہ دیگر کتابوں کے)اس دعویٰ کی شہادت میں کافی ہیں کہ تخلیق کا سرخ شعلہ
جس میں گرمی بھی ہے، حرکت بھی، توانائی بھی
نامساعد حالات میں نہ دھیما ہوتا ہے اور نہ بجھتا ہے بلکہ جہل و رجعت کی کالی آندھیاں اسے اور بھی بھڑکاتی ہیں اور اس طرح مجاہدہ اور تصادم کے طوفانوں سے گزر کر اور اس پیکار سے قوت و حرارت حاصل کرکے حق و صداقت کا نور پہلے سے بھی زیادہ درخشاں ہوجاتا ہے اور اس کے حسن اور تاثر میں صد رنگ نئی تابندگیاں جھلملانے لگتی ہیں۔
’زنداں نامہ‘ کی بیشتر منظومات فیض نے مانٹ گو مری سنٹرل جیل اور لاہور سنٹرل جیل میں قیام کے دوران لکھیں، یعنی جولائی 1953سے مارچ 1955تک کی لکھی ہوئی چیزیں اس میں ہیں، اس درمیان میں ہم ایک دوسرے سے بچھڑ گئے تھے۔کیونکہ ہم دونوں کو چار چار سال قید با مشقت کی سزا دینے کے بعد، اہل اقتدار نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ہم ایک ساتھ جیل میں نہ رکھے جائیں۔فیض کو پنجاب میں مانٹ گمری جیل کو بھیجا گیا اور مجھے حیدرآباد سندھ سے بلوچستان کے سنٹرل جیل میں۔گو ہم ایک دوسرے سے خط وکتابت بھی نہ کرسکتے تھے، تاہم دوسرے دوستوں کے خطوں اور بعض اردو رسالوں کے ذریعے مجھے فیض کی چند غزلیں اور نظمیں جو اس زمانے میں لکھی گئیں، پڑھنے کا موقع مل جاتا تھا۔
اب کہ حالات زندگی میرے لیے کافی خوشگوار ہیں، اور میں آزاد فضا میں سانس لے سکتا ہوں، اس کے باوجود جب میں ان ذہنی،جذباتی اور روحانی کیفیات کا خیال کرتا ہوں، جو مجھ پر اس وقت طاری ہوئی تھیں جب اپنے اس محبوب ترین دوست اور ہمدم کا کلام پڑھتا تھا تو اس کا اظہار مشکل معلوم ہوتا ہے۔شاید بے لاگ تنقید کے لیے یہ اچھا بھی نہیں ہے۔یہ بھی صحیح ہے کہ چونکہ ہمارے بہت سے تجربے، زندگی اور اپنے وطن کو ثمر بار اور حسین بنانے کے متعلق ہمارے خواب، ہمارا درد، ہماری نفرتیں اور رغبتیں، مشترک تھیں۔اس لیے فیض کے ان اشعار سے غیر معمولی طور پر متاثر ہوتا تھا۔اگر میرا دل کبھی خون کے آنسو روتا تھا کہ قید و بند کے مصائب اور صعوبتیں اس کا حصہ کیوں ہیں جو اپنی حسن کاری سے سب کی زندگی کو اتنی فیاضی سے مرصع کردیتا ہے اور اپنی نغمگی سے ہم سب کی رگوں میں سرو کی نہریں بہادیتا ہے، تو کبھی میرا ذہن اس کے تخیل کی ان شاداں اور فرحاں گل کاریوں سے کسب شعور کرتا جہاں جدید جدلیاتی علم کی ضیا پاشیاں، انسانیت کے شریف ترین جذبات سے اس طرح مل گئی ہیں، جیسے شعاع مہر سے تمازت۔
فیض کی ان نظموں کو مجموعی حیثیت سے دیکھیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ جہاں تک ان اقدار کا تعلق ہے، جن کو شاعر نے ان میں پیش کیا ہے، وہ تووہی ہیں جو اس زمانے میں تمام ترقی پسند انسانیت کی اقدار ہیں، لیکن فیض نے ان کو اتنی خوبی سے اپنایا ہے کہ نہ تو ہماری تہذیب و تمدن کی بہترین روایات سے الگ نظر آتی ہیں اور نہ شاعر کی انفرادیت، اس کا نرم، شیریں اور مترنم انداز کلام کہیں بھی ان سے جدا ہوا ہے۔اس کے متحرک اور رواں استعاروں میں ہمارے وطن کے پھولوں کی خوشبو ہے، اس کے خیالات میں ان سچائیوں اور ان جمہوری مقاصد کی چمک جن سے ہماری قوم کی عظیم اکثریت کے دل روشن ہیں، اگر تہذیبی ارتقا کا مطلب یہ ہے کہ انسان مادی اور روحانی عسرت سے نجات حاصل کرکے اپنے دلوں میں گداز، اپنی بصیرت میں حق شناسی اور اپنے کردار میں استقامت و رفعت پیدا کریں اور ہماری زندگی مجموعی اور انفرادی حیثیت سے بیرونی اور اندرونی طور پر مصفا بھی ہو اور معطر بھی تو فیض کا شعر غالباً ان تمام تہذیبی مقاصد کو چھو لینے کی کوشش کرتا ہے، میرا خیال ہے کہ پاکستان اور ہندوستان میں اس کی غیر معمولی مقبولیت کا سبب یہی ہے ، البتہ فیض کے تمام چاہنے والے ’نقش فریادی، دست صبا اور زنداں نامہ‘ کے شیدا ہونے کے باوجود ان سے یہ توقع اور امید رکھتے ہیں کہ کمیت اور کیفیت دونوں لحاظ سے ان کی وہ تخلیقیں جو ابھی شائع نہیں ہوئیں ان کے مقابلے میں، جو کہ وہ کر چکے ہیں، زیادہ گراں ہوں گی۔

سجاد ظہیر
لکھنؤ، 13جنوری 1956


اے ساکنانَ کنجِ قفس! صبح کو صبا
سنتی ہی جائے گی سوئے گلزار ، کچھ کہو!
(سودا)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

غزل

شیخ صاحب سے رسم و راہ نہ کی
شکر ہے زندگی تباہ نہ کی

تجھ کو دیکھا تو سیر چشم ہُوے
تجھ کو چاہا تو اور چاہ نہ کی

تیرے دستِ ستم کا عجز نہیں
دل ہی کافر تھا جس نے آہ نہ کی

تھے شبِ ہجر، کام اور بہت
ہم نے فکرِ دلِ تباہ نہ کی

کون قاتل بچا ہے شہر میں فیض
جس سے یاروں نے رسم وراہ نہ کی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

غزل

سب قتل ہوکے تیرے مقابل سے آئے ہیں
ہم لوگ سرخرو ہیں کہ منزل سے آئے ہیں

شمعِ نظر، خیال کے انجم ، جگر کے داغ
جتنے چراغ ہیں، تری محفل سے آئے ہیں

اٹھ کر تو آگئے ہیں تری بزم سے مگر
کچھ دل ہی جانتا ہے کہ کس دل سے آئے ہیں

ہر اک قدم اجل تھا، ہر اک گام زندگی
ہم گھوم پھر کے کوچہء قاتل سے آئے ہیں

بادِ خزاں کا شکر کرو، فیض جس کے ہاتھ
نامے کسی بہار شمائل سے آئے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اے حبیبِ عنبر دست!

کسی کے دستِ عنایت نے کنجِ زنداں میں
کیا ہے آج عجب دل نواز بندوبست
مہک رہی ہے فضا زلفِ یار کی صورت
ہوا ہے گرمیء خوشبو سے اس طرح سرمست
ابھی ابھی کوئی گزرا ہے گل بدن گویا
کہیں قریب سے ، گیسو بدوش ، غنچہ بدست

لیے ہے بوئے رفاقت اگر ہوائے چمن
تو لاکھ پہرے بٹھائیں قفس پہ ظلم پرست
ہمیشہ سبز رہے گی وہ شاخِ مہرووفا
کہ جس کے ساتھ بندھی ہے دلوں کی فتح و شکست

یہ شعرِ حافظِ شیراز ، اے صبا! کہنا
ملے جو تجھ سے کہیں وہ حبیبِ عنبر دست
"خلل پذیر بود ہر بنا کہ مے بینی
بجز بنائے محبت کہ خالی از خلل است"

(سنٹرل جیل حیدر آباد ٨٢۔٢٩ اپریل ٥٣ء)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

غزل

ستم کی رسمیں بہت تھیں لیکن، نہ تھی تری انجمن سے پہلے
سزا، خطائے نظر سے پہلے، عتاب جرمِ سخن سے پہلے

جو چل سکو تو چلو کہ راہِ وفا بہت مختصر ہوئی ہے
مقام ہے اب کوئی نہ منزل، فرازِ دار و رسن سے پہلے

نہیں رہی اب جنوں کی زنجیر پر وہ پہلی اجارہ داری
گرفت کرتے ہیں کرنے والے خرد پہ دیوانہ پن سے پہلے

کرے کوئی تیغ کا نظارہ، اب اُن کو یہ بھی نہیں گوارا
بضد ہے قاتل کہ جانِ بسمل فگار ہو جسم و تن سے پہلے

غرورِ سرو و سمن سے کہہ دو کہ پھر وہی تاجدار ہوں گے
جو خار و خس والیء چمن تھے عروجِ سرو و سمن سے پہلے

ادھر تقاضے ہیں مصلحت کے، ادھر تقاضائے دردِ دل ہے
زباں سنبھالیں کہ دل سنبھالیں ، اسیر ذکر وطن سے پہلے

(حیدرآباد جیل ١٧، ٢٢ مئی ٥٤ء)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

غزل

شامِ فراق، اب نہ پوچھ، آئی اور آکے ٹل گئی
دل تھا کہ پھر بہل گیا، جاں تھی کہ پھر سنبھل گئی

بزمِ خیال میں ترے حسن کی شمع جل گئی
درد کا چاند بجھ گیا، ہجر کی رات ڈھل گئی

جب تجھے یاد کرلیا، صبح مہک مہک اٹھی
جب ترا غم جگا لیا، رات مچل مچل گئی

دل سے تو ہر معاملہ کرکے چلے تھے صاف ہم
کہنے میں ان کے سامنے بات بدل بدل گئی

آخرِ شب کے ہمسفر فیض نجانے کیا ہوئے
رہ گئی کس جگہ صبا، صبح کدھر نکل گئی

جولائی 53ء جناح ہسپتال کراچی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

غزل

رہِ خزاں میں تلاشِ بہار کرتے رہے
شبِ سیہ سے طلب حسنِ یار کرتے رہے

خیالِ یار، کبھی ذکرِ یار کرتے رہے
اسی متاع پہ ہم روزگار کرتے رہے

نہیں شکایتِ ہجراں کہ اس وسیلے سے
ہم اُن سے رشتہء دل استوار کرتے رہے

وہ دن کہ کوئی بھی جب وجہِ انتظار نہ تھی
ہم اُن میں تیرا سوا انتظار کرتے رہے

ہم اپنے راز پہ نازاں تھے ، شرمسار نہ تھے
ہر ایک سے سخنِ‌ رازدار کرتے رہے

ضیائے بزمِ جہاں بار بار ماند ہوئی
حدیثِ شعلہ رخاں بار بار کرتے رہے

انہیں کے فیض سے بازارِ عقل روشن ہے
جو گاہ گاہ جنوں اختیار کرتے رہے

جناح ہسپتال، کراچی 21 اگست 53ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ملاقات

یہ رات اُس درد کا شجر ہے
جو مجھ سے ، تجھ سے عظیم تر ہے
عظیم تر ہے کہ اس کی شاخوں
میں لاکھ مشعل بکف ستاروں
کے کارواں، گھِر کے کھو گئے ہیں
ہزار مہتاب، اس کے سائے
میں اپنا سب نور، رو گئے ہیں

یہ رات اُس درد کا شجر ہے
جو مجھ سے تجھ سے عظیم تر ہے
مگر اسی رات کے شجر سے
یہ چند لمحوں کے زرد پتے

گرے ہیں، اور تیرے گیسوؤں میں
الجھ کے گلنار ہو گئے ہیں
اسی کی شبنم سے خامشی کے
یہ چند قطرے، تری جبیں پر
برس کے ، ہیرے پرو گئے ہیں

(۲)
بہت سیہ ہے یہ رات لیکن
اسی سیاہی میں رونما ہے
وہ نہرِ خوں جو مری صدا ہے
اسی کے سائے میں نور گر ہے
وہ موجِ زر جو تری نظر ہے

وہ غم جو اس وقت تیری باہوں
کے گلستاں میں‌ سلگ رہا ہے
(وہ غم، جو اس رات کا ثمر ہے)
کچھ اور تپ جائے اپنی آہوں
کی آنچ میں تو یہی شرر ہے

ہر اک سیہ شاخ کی کماں سے
جگر میں‌ٹوٹے ہیں تیر جتنے
جگر سے نوچے ہیں، اور ہر اک
کا ہم نے تیشہ بنا لیا ہے

الم نصیبوں، جگر فگاروں
کی صبح، افلاک پر نہیں ہے
جہاں پہ ہم تم کھڑے ہیں دونوں
سحر کا روشن افق یہیں ہے
یہیں‌پہ غم کے شرار کھل کر
شفق کا گلزار بن گئے ہیں
یہیں پہ قاتل دکھوں کے تیشے
قطار اندر قطار کرنوں
کے آتشیں ہار بن گئے ہیں

یہ غم جو اس رات نے دیا ہے
یہ غم سحر کا یقیں بنا ہے
یقیں جو غم سے کریم تر ہے
سحر جو شب سے عظیم تر ہے

منٹگمری جیل
12 اکتوبر 3 نومبر 53ء

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نہ آج لطف کر اتنا کہ کل گزر نہ سکے
وہ رات جو کہ ترے گیسوؤں کی رات نہیں
یہ آرزو بھی بڑی چیز ہے مگر ہمدم
وصالِ یار فقط آرزو کی بات نہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

غزل

بات بس سے نکل چلی ہے
دل کی حالت سنبھل چلی ہے

اب جنوں حد سے بڑھ چلا ہے
اب طبیعت بہل چلی ہے

اشک خونناب ہو چلے ہیں
غم کی رنگت بدل چلی ہے

یا یونہی، بجھ رہی ہیں شمعیں
یا شبِ ہجر ٹل چلی ہے

لاکھ پیغام ہو گئے ہیں
جب صبا ایک پل چلی ہے

جاو اب سو رہو ستارو
درد کی رات ڈھل چلی ہے

منٹگمری جیل 21۔ نومبر 53ء

--------

واسوخت

سچ ہے ہمیں کو آپ کے شکوے بجا نہ تھے
بے شک ستم جناب کے سب دوستانہ تھے

ہاں، جو جفا بھی آپ نے کی قاعدے سے کی!
ہاں، ہم ہی کاربندِ اصولِ وفا نہ تھے

آئے تو یوں کہ جیسے ہمیشہ تھے مہرباں
بھولے تو یوں کہ گویا کبھی آشنا نہ تھے

کیوں دادِ غم، ہمیں نے طلب کی، برا کیا
ہم سے جہاں میں کشتہء غم اور کیا نہ تھے

گر فکرِ زخم کی تو خطاوار ہیں کہ ہم
کیوں محوِ مدح خوبیء تیغِ ادا نہ تھے

ہر چارہ گر کو چارہ گری سے گریز تھا
ورنہ ہمیں جو دکھ تھے ، بہت لادوا نہ تھے

لب پر ہے تلخیء مئے ایام ، ورنہ فیض
ہم تلخیء کلام پہ مائل ذرا نہ تھے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

غزل

شاخ پر خونِ گل رواں ہے وہی
شوخیِ رنگِ گلستاں ہے وہی

سروہی ہے تو آستاں ہے وہی
جاں وہی ہے تو جانِ جاں‌ہے وہی

اب جہاں مہرباں نہیں کوئی
کوچہء یارِ مہرباں ہے وہی


برق سو بار گر کے خاک ہوئی
رونقِ خاکِ آشیاں ہے وہی

آج کی شب وصال کی شب ہے
دل سے ہر روز داستاں ہے وہی

چاند تارے ادھر نہیں آتے
ورنہ زنداں میں‌ آسماں ہے وہی

منٹگمری جیل

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

غزل

کب یاد میں تیرا ساتھ نہیں، کب ہات میں تیرا ہات نہیں
صد شکر کہ اپنی راتوں میں اب ہجر کی کوئی رات نہیں

مشکل ہے اگر حالات وہاں، دل بیچ آئیں جاں دے آئیں
دل والو کوچہء جاناں میں‌کیا ایسے بھی حالات نہیں

جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا، وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان توآنی جانی ہے ، اس جاں کی تو کوئی بات نہیں

میدانِ وفا دربار نہیں یاں‌ نام و نسب کی پوچھ کہاں
عاشق تو کسی کا نام نہیں، کچھ عشق کسی کی ذات نہیں

گر بازی عشق کی بازی ہے جو چاہو لگا دو ڈر کیسا
گرجیت گئے تو کیا کہنا، ہارے بھی تو بازی مات نہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

غزل

ہم پر تمہاری چاہ کا الزام ہی تو ہے
دشنام تو نہیں ہے، یہ اکرام ہی تو ہے

کرتے ہیں جس پہ طعن کوئی جرم تو نہیں
شوقِ فضول و الفتِ ناکام ہی تو ہے

دل مدعی کے حرفِ ملامت سے شاد ہے
اے جانِ جاں یہ حرف ترا نام ہی تو ہے

دل ناامید تو نہیں، ناکام ہی تو ہے
لبمی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے

دستِ فلک میں گردشِ تقدیر تو نہیں
دستِ فلک میں گردشِ ایام ہی تو ہے

آخر تو ایک روز کرے گی نظر وفا
وہ یارِ خوش خصال سرِ بام ہی تو ہے

بھیگی ہے رات فیض غزل ابتدا کرو
وقتِ سرود، درد کا ہنگام ہی تو ہے



منٹگمری جیل
9، مارچ، 1954

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اے روشنیوں‌کے شہر

سبزہ سبزہ، سوکھ رہی ہے پھیکی، زرد دوپہر
دیواروں‌کو چاٹ رہا ہے تنہائی کا زہر
دور افق تک گھٹتی، بڑھتی ، اُٹھتی، گرتی رہتی ہے
کہر کی صورت بے رونق دردوں کی گدلی لہر
بستا ہے اس کہر کے پیچھے روشنیوں کا شہر

اے روشنیوں کے شہر
کون کہے کس سمت ہے تیری روشنیوں کی راہ
ہر جانب بے نور کھڑی ہے ہجر کی شہر پناہ
تھک کر ہرسو بیٹھ رہی ہے شوق کی ماند سپاہ

آج مرا دل فکر میں ہے
اے روشنیوں کے شہر

شب خوں سے منھ پھیر نہ جائے ارمانوں کی رو
خیر ہو تیری لیلاؤں کی، ان سب سے کہہ دو
آج کی شب جب دیے جلائیں، اونچی رکھیں لو

لاہور جیل 28 مارچ منٹگمری جیل 15 اپریل 54ء
۔۔۔۔۔۔۔۔

غزل

گلوں میں رنگ بھرے بادِ نو بہار چلے
چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے

قفس اداس ہے یارو صبا سے کچھ تو کہو
کہیں تو بہرِ خدا آج ذکرِ یار چلے

کبھی تو صبح ترے کنجِ لب سے ہو آغاز
کبھی تو شب سرِ کاکل سے مشکبار چلے

بڑا ھے درد کا رشتہ، یہ دل غریب سہی
تمہارے نام پہ آئیں گے غمگسار چلے

جو ہم پہ گزری سو گزری مگر شبِ ہجراں
ہمارے اشک تری عاقبت سنوار چلے

حضورِ‌ یار ہوئی دفترِ جنوں کی طلب
گرہ میں لے کے گریباں کا تار تار چلے

مقام، فیض، کوئی راہ میں جچا ہی نہیں
جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے

منٹگمری جیل 29 جنوری 54ء

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے

(ایتھل اور جولیس روزن برگ کے خطوط سے متاثر ہو کر لکھی گئی)

تیرے ہونٹوں کے پھولوں کی چاہت میں ہم
دار کی خشک ٹہنی پہ وارے گئے
تیرے ہاتوں‌کی شمعوں کی حسرت میں ہم
نیم تاریک راہوں میں مارے گئے

سولیوں پر ہمارے لبوں سے پرے
تیرے ہونٹوں‌کی لالی لپکتی رہی
تیری زلفوں کی مستی برستی رہی
تیرے ہاتھوں کی چاندی دمکتی رہی

جب گھلی تیری راہوں میں شامِ ستم
ہم چلے آئے ،لائے جہاں تک قدم
لب پہ حرفِ غزل ، دل میں قندیل ِغم
اپنا غم تھا گواہی ترے حسن کی
دیکھ قائم رہے اس گواہی پہ ہم
ہم جو تاریک راہوں‌میں مارے گئے

نارسائی اگر اپنی تقدیر تھی
تیری الفت تو اپنی ہی تدبیر تھی
کس کو شکوہ ہے گر شوق کے سلسلے
ہجر کی قتل گاہوں سے سب جا ملے

قتل گاہوں سے چُن کر ہمارے علم
اور نکلیں گے عُشاق کے قافلے
جن کی راہِ طلب سے ہمارے قدم
مختصر کر چلے درد کے فاصلے
کرچلے جن کی خاطر جہاں گیر ہم
جاں گنوا کر تری دلبری کا بھرم
ہم جو تاریک راہوں میں‌ مارے گئے

منٹگمری جیل
15 مئی 54ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فکرِ سود و زیاں تو چھوٹے گی
منتِ‌این و آں تو چھوٹے گی
خیر، دوزخ میں مے ملے نہ ملے
شیخ صاحب سے جاں تو چھوٹے گی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

غزل


کچھ محتسبوں کی خلوت میں، کچھ واعظ کے گھر جاتی ہے
ہم بادہ کشوں کے حصے کی، اب جام میں کمتر آتی ہے

یوں عرض و طلب سے کب اے دل، پتھر دل پانی ہوتے ہیں
تم لاکھ رضا کی خُو ڈالو، کب خوئے ستمگر جاتی ہے

بیداد گروں کی بستی ہے یاں داد کہاں خیرات کہاں
سر پھوڑتی پھرتی ہے ناداں فریاد جو در در جاتی ہے

ہاں، جاں کے زیاں کی ہم کو بھی تشویش ہے لیکن کیا کیجے
ہر رہ جو اُدھر کو جاتی ہے، مقتل سے گزر کر جاتی ہے

اب کوچہء دلبر کا رہرو، رہزن بھی بنے تو بات بنے
پہرے سے عدو ٹلتے ہی نہیں اور رات برابر جاتی ہے

ہم اہلِ قفس تنہا بھی نہیں، ہر روز نسیمِ صبحِ وطن
یادوں سے معطر آتی ہے اشکوں سے منور جاتی ہے

منٹگمری جیل 17 جون 54ء

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

• دریچہ

گڑی ہیں کتنی صلیبیں مرے دریچے میں
ہر ایک اپنے مسیحا کے خوں کا رنگ لیے
ہر ایک وصلِ خداوند کی امنگ لیے

کسی پہ کرتے ہیں ابرِ بہار کو قرباں
کسی پہ قتل مہِ تابناک کرتے ہیں
کسی پہ ہوتی ہے سرمست شاخسار دو نیم
کسی پہ بادِ صبا کو ہلاک کرتے ہیں

ہر آئے دن یہ خداوندگانِ مہر و جمال
لہو میں‌ غرق مرے غمکدے میں‌ آتے ہیں
اور آئے دن مری نظروں کے سامنے ان کے
شہید جسم سلامت اٹھائے جاتے ہیں

منٹگمری جیل
دسمبر 54ء

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


درد آئے گا دبے پاؤں۔۔۔۔۔۔

اور کچھ دیر میں ، جب پھر مرے تنہا دل کو
فکر آ لے گی کہ تنہائی کا کیا چارہ کرے
درد آئے گا دبے پاؤں لیے سرخ چراغ
وہ جو اک درد دھڑکتا ہے کہیں دل سے پرے

شعلہء درد جو پہلو میں لپک اٹھے گا
دل کی دیوار پہ ہر نقش دمک اٹھے گا

حلقہء زلف کہیں، گوشہء رخسار کہیں
ہجر کا دشت کہیں، گلشنِ دیدار کہیں
لطف کی بات کہیں، پیار کا اقرار کہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دل سے پھر ہوگی مری بات کہ اے دل اے دل
یہ جو محبوب بنا ہے تری تنہائی کا
یہ تو مہماں ہے گھڑی بھر کا، چلا جائے گا
اس سے کب تیری مصیبت کا مداوا ہوگا
مشتعل ہو کے ابھی اٹھیں گے وحشی سائے
یہ چلا جائے گا، رہ جائیں گے باقی سائے
رات بھر جن سے ترا خون خرابا ہوگا
جنگ ٹھہری ہے کوئی کھیل نہیں ہے اے دل
دشمنِ جاں ہیں سبھی، سارے کے سارے قاتل
یہ کڑی رات بھی ، یہ سائے بھی ، تنہائی بھی
درد اور جنگ میں کچھ میل نہیں ہے اے دل
لاؤ سلگاؤ کوئی جوشِ غضب کا انگار
طیش کی آتشِ جرار کہاں ہے لاؤ
وہ دہکتا ہوا گلزار کہاں ہے لاؤ
جس میں گرمی بھی ہے ، حرکت بھی توانائی بھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہو نہ ہو اپنے قبیلے کا بھی کوئی لشکر
منتظر ہوگا اندھیرے کی فصیلوں کے اُدھر
ان کو شعلوں‌کے رجز اپنا پتا تو دیں‌گے
خیر، ہم تک وہ نہ پہنچیں بھی، صدا تو دیں گے
دور کتنی ہے ابھی صبح، بتا تو دیں گے

منٹگمری جیل
یکم دسمبر 54ء

۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح پھوٹی تو آسماں پہ ترے
رنگِ رخسار کی پھوہار گری
رات چھائی تو روئے عالم پر
تیری زلفوں کی آبشار گری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

*africa come back
(ایک رجز)

آجاؤ، میں نے سن لی ترے ڈھول کی ترنگ
آجاؤ، مست ہو گئی میرے لہو کی تال

“آجاؤ ایفریقا“

آجاؤ، میں نے دھول سے ماتھا اٹھا لیا
آجاؤ، میں نے چھیل دی آنکھوں سے غم کی چھال
آجاؤ، میں نے درد سے بازو چھڑا لیا
آجاؤ، میں نے نوچ دیا بے کسی کا جال

“آجاؤ ایفریقا“

پنجے میں ہتھکڑی کی کڑی بن گئی ہے گرز
گردن کا طوق توڑ کے ڈھالی ہے میں نے ڈھال

“آجاؤ ایفریقا“

جلتے ہیں ہر کچھار میں بھالوں کے مرگ نین
دشمن لہو سے رات کی کالک ہوئی ہے لال

“آجاؤ ایفریقا“

دھرتی دھڑک رہی ہے مرے ساتھ ایفریقا
دریا تھرک رہا ہے توبن دے رہا ہے تال
میں ایفریقا ہوں، دھار لیا میں نے تیرا روپ
میں تو ہوں ،میری چال ہے تیری ببر چال

“آجاؤ ایفریقا“
آؤ ببر کی چال
“آجاؤ ایفریقا“

منٹگمری جیل 14 جنوری 55ء

*افریقی حریت پسندوں کا نعرہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

غزل

گرمیء شوقِ نظارہ کا اثر تو دیکھو
گل کھلے جاتے ہیں وہ سایہء در تو دیکھو

ایسے ناداں بھی نہ تھے جاں سے گزرنے والے
ناصحو ، پندگرو، راہگزر تو دیکھو

وہ تو وہ ہے، تمہیں ہوجائے گی الفت مجھ سے
اک نظر تم مرا محبوبِ نظر تو دیکھو

وہ جو اب چاک گریباں بھی نہیں کرتے ہیں
دیکھنے والو کبھی اُن کا جگر تو دیکھو

دامنِ درد کو گلزار بنا رکھا ہے
آؤ اِک دن دلِ پُر خوں کا ہنر تو دیکھو

صبح کی طرح جھمکتا ہے شبِ غم کا افق
فیض، تابندگیء دیدہء تر تو دیکھو

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ فصل امیدوں کی ہمدم


سب کاٹ دو بسمل پودوں کو
بے آب سسکتے مت چھوڑو
سب نوچ لو
بیکل پھولوں کو
شاخوں پہ بلکتے مت چھوڑو

یہ فصل امیدوں کی ہمدم
اس بار بھی غارت جائے گی
سب محنت، صبحوں شاموں کی
اب کے بھی اکارت جائے گی

کھیتی کے کونوں، کھدروں میں
پھر اپنے لہو کی کھاد بھرو
پھر مٹی سینچو اشکوں سے
پھر اگلی رت کی فکر کرو

پھر اگلی رت کی فکر کرو
جب پھر اک بار اُجڑنا ہے
اک فصل پکی تو بھر پایا
جب تک تو یہی کچھ کرنا ہے


منٹگمری جیل
مارچ 30، 1955

----

بنیاد کچھ تو ہو

کوئے ستم کی خامشی آباد کچھ تو ہو
کچھ تو کہو ستم کشو، فریاد کچھ تو ہو
بیداد گر سے شکوہء بیداد کچھ تو ہو
بولو، کہ شورِ حشر کی ایجاد کچھ تو ہو

مرنے چلے تو سطوتِ قاتل کا خوف کیا
اتنا تو ہو کہ باندھنے پائے نہ دست و پا
مقتل میں‌ کچھ تو رنگ جمے جشنِ رقص کا

رنگیں لہو سے پنجۂ صیاد کچھ تو ہو
خوں پر گواہ دامنِ جلّاد کچھ تو ہو
جب خوں بہا طلب کریں ،بنیاد کچھ تو ہو

گرتن نہیں ، زباں سہی، آزاد کچھ تو ہو
دشنام، نالہ، ہاؤ ہو، فریاد کچھ تو ہو
چیخے ہے درد، اے دلِ برباد کچھ تو ہو

بولو کہ شورِ حشر کی ایجاد کچھ تو ہو
بولو کہ روزِ عدل کی بنیاد کچھ تو ہو

منٹگمری جیل 13 اپریل 55ء
-------

کوئی عاشق کسی محبوبہ سے!

یاد کی راہگزر جس پہ اسی صورت سے
مدتیں بیت گئی ہیں تمہیں چلتے چلتے
ختم ہو جائے جو دو چار قدم اور چلو
موڑ پڑتا ہے جہاں دشتِ فراموشی کا
جس سے آگے نہ کوئی میں ہوں نہ کوئی تم ہو
سانس تھامے ہیں نگاہیں کہ نہ جانے کس دم
تم پلٹ آؤ، گزر جاؤ، یا مڑ کردیکھو

گرچہ واقف ہیں نگاہیں کہ یہ سب دھوکا ہے
گر کہیں‌ تم سے ہم آغوش ہوئی پھر سے نظر
پھوٹ نکلے گی وہاں اور کوئی راہگزر
پھر اسی طرح جہاں ہوگا مقابل پیہم
سایہء زلف کا اور جنببشِ بازو کا سفر

دوسری بات بھی جھوٹی ہے کہ دل جانتا ہے
یاں کوئی موڑ کوئی دشت کوئی گھات نہیں
جس کے پردے میں‌ مرا ماہِ رواں ڈوب سکے
تم سے چلتی رہے یہ راہ، یونہی اچھا ہے
تم نے مڑ کر بھی نہ دیکھا تو کوئی بات نہیں



اگست 55

--------

شہر میں‌ چاک گریباں ہوئے ناپید اب کے
کوئی کرتا ہی نہیں ضبط کی تاکید اب کے

لطف کر، اے نگہِ یار ، کہ غم والوں‌ نے
حسرتِ دل کی اُٹھائی نہیں‌تمہید اب کے

چاند دیکھا تری آنکھوں میں ، نہ ہونٹوں پہ شفق
ملتی جلتی ہے شبِ غم سے تری دید اب کے

دل دکھا ہے نہ وہ پہلا سا، نہ جاں تڑپی ہے
ہم ہی غافل تھے کہ آئی ہی نہیں عید اب کے

پھر سے بجھ جائیں گی شمعیں‌ جو ہوا تیز چلی
لا کے رکھو سرِ محفل کوئی خورشید اب کے


کراچی 14 اگست، 1955


غزل

یوں بہار آئی ہے اس بار کہ جیسے قاصد
کوچہء یار سے بے نیلِ‌ مرام آتا ہے

ہر کوئی شہر میں پھرتا ہے سلامت دامن
رند میخانے سے شائستہ خرام آتا ہے

ہوسِ‌ مطرب و ساقی میں‌پریشاں اکثر
ابر آتا ہے کبھی ماہِ تمام آتا ہے

شوق والوں‌ کی حزیں‌ محفلِ شب میں اب بھی
آمدِ صبح کی صورت ترا نام آتا ہے

اب بھی اعلانِ سحر کرتا ہوا مست کوئی
داغِ دل کرکے فروزاں سرِ شام آتا ہے

(ناتمام)
لاہور، مارچ 56

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تمام شب دلِ وحشی تلاش کرتا ہے
ہر اک صدا میں ترے حرفِ‌ لطف کا آہنگ

ہر ایک صبح ملاتی ہے بار بار نظر
ترے دہن سے ہر اک لالہ و گلاب کا رنگ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تمہارے حسن سے رہتی ہے ہمکنار نظر
تمہاری یاد سے دل ہمکلام رہتا ہے

رہی فراغتِ ہجراں تو ہو رہے گا طے
تمہاری چاہ کا جو جو مقام رہتا ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حیدرآباد جیل1951ء

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کِھلے جو ایک دریچے میں آج حسن کے پھول
تو صبح جھوم کے گلزار ہو گئی یکسر
جہاں کہیں‌ بھی گرا نور اُن نگاہوں سے
ہر ایک چیز طرحدار ہوگئی یکسر

جناح ہسپتال کراچی


غزل

صبح کی آج جو رنگت ہے وہ پہلے تو نہ تھی
کیا خبر آج خراماں سرِ‌گلزار ہے کون

شام گلنار ہوئی جاتی ہے دیکھو تو سہی
یہ جو نکلا ہے لیے مشعلِ رخسار، ہے کون

رات مہکی ہوئی آتی ہے کہیں سے پوچھو
آج بکھرائے ہوئے زلفِ طرحدار ہے کون

پھر درِ دل پہ کوئی دینے لگا ہے دستک
جانیے پھر دلِ وحشی کا طلبگار ہے کون

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

غزل

تری امید، ترا انتظار جب سے ہے
نہ شب کو دن سے شکایت نہ دن کو شب سے ہے

کسی کا درد ہو کرتے ہیں تیرے نام رقم
گلہ ہے جو بھی کسی سے ترے سبب سے ہے

ہوا ہے جب سے دلِ ناصبور بے قابو
کلام تجھ سے نظر کو بڑے ادب سے ہے

اگر شرر ہے تو بھڑکے، جو پھول ہے تو کھِلے
طرح طرح کی طلب، تیرے رنگِ لب سے ہے

کہاں گئے شبِ فرقت کے جاگنے والے
ستارہء سحری ہمکلام کب سے ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لاہور مارچ 57


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات ڈھلنے لگی ہے سینوں میں
آگ سلگاو آبگینوں میں
دلِ عشا ق کی خبر لینا
پھول کھلتے ہیں ان مہینوں میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *