فاطمہ خان کے نام
دیباچہ نما
سیانے شاعر کی گاتھا
تحریر کا رواج جب سے ہوا ہے/تب سے کاغذ نے اپنا دہانہ کھول دیا ہے/اور لفظ کی فصلیں کاٹی جارہی ہیں/اناج بھرپور ہے/یہ لفظ تانبے کے، پیتل کے، سونے کے یا پھر کسی اور دھات کے/کیسے اگائے جاتے ہیں/یا پھر کہاں بوئے جاتے ہیں
میں بھی نہیں جانتا کہ لفظ کی تاریخ کتنی پرانی ہے، وہ تاریخ جو کن سے شروع ہوئی یا پھر اس سے بھی پہلے،یا پھر تب جب خدا بولنا سیکھ رہا تھا۔میرے لیے ہمیشہ کن سے پہلے کا وقت ایک سوال ہے اور یہ سوال بجائے خود اتنا چمکدار لفظ ہے کہ اس کی روشنی سے میری آنکھیں خیرہ ہوئی جاتی ہیں۔میں بنیادی طور پر ایک شاعر ہوں،مجھے یاد ہے جب میں وسئی (تھانہ، مہاراشٹر)میں رہا کرتا تھا، ہم لوگ ایک نہائی دھوئی اور تازہ بلڈنگ میں شفٹ ہوئے تھے تو اس کے چھت پر میں کاغذ قلم لے کر سرمئی شاموں کو کس طرح زبردستی شاعری کرنے کی دھن میں ڈوبا رہتا تھا۔میں نے بچپن سے ہی جو روحانی یا صوفیانہ ماحول پایا تھا، اس کے زیر اثر مجھے محسوس ہوتا تھا جیسے میں ایک خالی ڈائری کے صفحات لیے ناک کی سیدھ میں بہتے سمندر کے آگے دامن پسار کر بیٹھ جاؤں گا اور شاعری سے میری عقیدت ،غروب آفتاب سے پہلے ہی سمندر کے فرشتے خضر کو مجھ پر مہربان کردے گی۔وہ اپنی سفید نورانی داڑھی اور اجلی ،دمکتی ہوئی قبا میں ایک گھوڑے پر سوار ہوکر سمندر سے نمودار ہونگے اور سرو کے لمبے لمبے درختوں کو عبور کرتے ہوئے کسی شہباز کی صورت میری چھت پر اترآئیں گے اور میرے پسرے ہوئے دامن میں الفاظ کے لعل و زمرد انڈیل دیں گے۔سب کچھ ایک طلسم سا لگتا تھا، حیران ہوتا تھا میں ان لوگوں پر جو اچھے شعر کہتے تھے، جن کے پاس صلاحیت تھی لفظوں کو اپنی آزادی سے برتنے کی، جن کو آتا تھا وہ ڈھنگ، جس سے سماعتوں کے طائروں کو اپنی بانسری کے سرے پر بٹھایا جاسکے۔میں بھی یہی سمجھتا تھا کہ شاعری کسی دیوتا کا وردان ہے، کسی کرن کا کوج ہے، کسی عمرو کی زنبیل ہے یا کسی شاہجہان کے تعمیری خواب ہیں جو ہر کسی کے حصے میں نہیں آتے۔مون تھی ساری سچائی اور گویا تھا بس ایک طلسم، ایک نشہ جس کے جھلملاتے، سفید پانی پر میرے ننھے ہاتھوں کی بطیں تیرتی رہتی تھیں مگر حاصل کچھ نہ ہوتا۔بس کچھ اوٹ پٹانگ لفظ، ادھر ادھر کی آڑھی ترچھی لکیریں اور کانٹ چھانٹ۔وہ ڈائری آج بھی کہیں میری والدہ نے سینت کر رکھی ہوئی ہے۔کہیں آج بھی ان سنہری شاموں کا وہ جھنجھلانا، وہ اٹکنا یا کسی کسی شعر کے اچانک وزن میں ڈھلتے ہی رقص کی سی کیفیت طاری ہوجانا۔وہ سب کیا تھا!
لیکن آج یہ سب کھوکھلا سا لگتا ہے، وہ ساری حیرتیں، وہ سارے الفاظ، وہ ساری مشقیں، وہ ساری خوشیاں۔۔۔۔سب ادھر ادھر کہیں اوٹ میں چھپے بیٹھے رہتے ہیں جیسے کسی صاحب مکان کی چاپ سنتے ہی چوہے فوراً کونوں کدروں میں چھپ جاتے ہیں۔نہ میں انہیں باہر بلاتا ہوں، نہ وہ کبھی میری موجودگی میں باہر نکلتے ہیں۔یہ کون سی الجھتی سلجھتی کیفیت ہے، جس میں سب کچھ ایک فراڈ سا لگتا ہے، معلوم ہوتا ہے جیسے شاعری کرتے رہنے کے باوجود اس تجربے کی دنیا میں سوائے ایک بے چینی اور بد حواسی کے کچھ ہاتھ نہیں لگنا ہے۔میں ہر اس چیز کا انکار کررہا ہوں جو کسی نہ کسی بہانے سے مجھے تکمیلیت یا معراج کی طرف لے جاتی ہے، میرے ہونے کے معراج کی طرف۔اس انتہا کی طرف جس کی طرف میں اپنے بچپن میں تیزی سے بھاگ رہا تھا۔جس کی جانب سے اب میں ایسا متنفر ہوا ہوں کہ میرا بس چلے تو پوری دنیا کو اپنے رنگ میں رنگ ڈالوں، لوگوں کو اظہار رائے کی آزادی کے بہانے ہر وہ گناہ، ہر وہ لذت قبول کرنے کی اجازت دے ڈالوں جس سے مجھے اطمینان نصیب ہونے کا امکان ہے۔ایک ایسی دنیا تخلیق کروں،ایک ایسی بستی بساؤں جہاں کی تہذیب ہی غیرتمدنی اور غیر ثقافتی رویے کی قائل ہو۔جہاں لوگ کسی بھی اصول، کسی بھی قاعدے اور کسی بھی کھونٹے سے بندھے نہ ہوں۔میں جانتا ہوں کہ یہ ممکن نہیں ہے اس لیے میں نے اپنے باطن کے سماج میں اس نظام کو عائد کردیا ہے۔میں نہتا ہوں مگر بدن کی جنگ کو جیت لینے پر میرا اپنا یقین پختہ ہے اور میں جیت بھی جاؤں گا، بلکہ جیت گیا ہوں۔مگر لفظ ابھی پھیکے ہیں، فن کی دنیا میں جو میں چاہتا ہوں وہی نہیں کرپایا ہوں،وہ جو ایک لفظ ہے، جسے میں جالینا چاہتا ہوں، سورج اتنا بڑا میری آنکھوں کے آگے چمک رہا ہے مگر میں اسے حاصل نہیں کرپا رہا ہوں۔اس آگ میں تو اتر گیا ہوں جس کو کبھی شام کنارے بیٹھ کر بڑی حسرت سے دیکھا کرتا تھا مگر اس سورج میں اتر کرپانی پانی چیخ رہا ہوں۔میری ساری بغاوتیں میرے باطن سے زیادہ میرے ظاہر کی الجھنوں میں ڈوبی ہوئی ہیں، بالآخر میرا مسئلہ فن ہے اور فن میری رگوں سے چٹخ کر جب پھوٹ پڑے، جب لہو کی طرح آنکھوں میں اتر آئے تو میں تھک کر اس دشت میں گرپڑوں، مگر یہ مرحلہ کون طے کرسکا ہے، وہ کیا شے ہے،جس کی مجھے طلب ہے، آخر وہ کون سا شعر ہے، وہ کون سی نظم ہے، وہ کون سی بات ہے جو ادا ہوجائے تو قصہ ختم ہو، مگر میں اسے کہاں ڈھونڈنے جاؤں، کس طرف نظریں دوڑاؤں،سو میری حالت پانی کی تلاش میں ایک پھیلے ہوئے دشت پر بھاگتی ہوئی ہاجرہ کی سی ہوگئی ہے اور بس دور تک ایک تنہائی کا سیلاب ہے، انتظار کی چیخیں ہیں اور نہ وہ دھول ہے جو کسی کارواں کے اس طرف نکل آنے کی خبر سنائے، نہ وہ اندھیرا ہے جو کسی بدری کے بھولے بھٹکے اس جانب نکل آنے کا پیش خیمہ ہو۔
ابد تک لفظ کی صورت پکارا جاؤں
میں کس جنگل پہ اے مولیٰ اتارا جاؤں
خوشی ہوگی مری تخلیق کاری کو
خدا ہونے کی کوشش میں جو مارا جاؤں
میں اب اپنے آس پاس شاعروں کا ہجوم دیکھتا ہوں تومجھے اس بھیڑ میں ایک ذرا سی اکتاہٹ ہوتی ہے، میں ان جیسے لوگوں میں شمار نہیں ہونا چاہتا جو بس لفظوں کی جوڑ توڑ کو شاعری کا نام دے دیتے ہیں، شاعری دنیا کا مشکل ترین فن ہے، اس کا آسیب جس شخص پر اترتا ہے،وہی اس کی چیخوں کو سن سکتا ہے، وہی سمجھ سکتا ہے کہ استعارے کو خلق کرنا دراصل ایک چوڑی چکلی تاریخ کے سیال کو شکل دینے جیسا ہے، جس کے لیے کچھ عرصہ درکار ہے، لوگ نہیں سمجھتے اور شاید سمجھ ہی نہیں سکتے کہ کوئی شخص فنکار کیسے بنتا ہے، فنکار ہونا دراصل اپنی تربیت کرتے رہنے کے کرب سے عبارت ہے اور یہ کرب سب کے حصے میں نہیں آتا، ہر شخص پرفیکٹ ہونے کا ڈھونگ رچاتا رہتا ہے اور فنکار پرفیکٹ سے اتنا ہی بعد رکھتا ہے، جتنا موت کو زندگی سے ہے، دریا کو ٹھہراؤ سے اور ہوا کو حبس سے۔
میں ایک جمے ہوئے منظر میں بیٹھا ہوں، جہاں رومی کی ابیات مشرق سے مغرب تک کے منظر نامے پر ایک سحر پھونک رہی ہیں، سعدی کی حکایتیں موسم کی تپتے یا جمتے ہوئے رنگوں کا سبب دریافت کررہی ہیں، حافظ کی غزلیں عشق کا بار امانت سنبھالے ہوئے ہیں، فردوسی کی تیز نظریں محمود غزنی کے دوڑتے ہوئے لشکر سے اڑنے والے دھول کے حسن پر مرکوز ہیں، جائسی اپنے من کے آئنے سے پدماوت کی چھاتیوں کو( جو کہ سلوٹیں تراشتے ہوئے تنگ کپڑوں سے ابلی پڑرہی ہیں)تکے جارہا ہے،سورداس کے بول اس کی روشنی کو ہلکی ہلکی ہوائیں عطا کررہے ہیں، میر کا ملگجا تصوف کسی باریش لونڈے باز صوفی کے تکیے سے ٹک کر بیٹھا ہوا ہے، غالب اپنے سامنے پڑی ہوئی مایوس اور سڑتی ہوئی اموات سے زندگی کے ریشے چن چن کر نکال رہا ہے، اقبال کا اسلوب اپنی تنگ نظری کے باوجود آسمان سے اترا ہوا صحیفہ معلوم ہورہا ہے۔میری نظروں کے آگے سے کلاسیکی شاعروں کا ایک لشکر گزرنا چاہتا ہے، مگر وقت کی باگیں اس کے ہاتھ میں آتے آتے رہ سی گئی ہیں، ترقی پسندوں کے نعرے ان کی حلقوں میں اٹک کر رہ گئے ہیں، رومانویت پسند شاعر کسی عورت کی ساق سیمیں پر نظریں گرا کر خود کو بھول چکے ہیں، جدیدیت آواز کی دیوار سے اپنے حصے کی مٹی کھرچ کھرچ کر الگ کررہی ہے اور باقی بچے لوگ سر پکڑے ہوئے بیٹھے ہیں کہ ان کی شناخت خود ان کے اپنے شعروں میں ایک سوالیہ نشان بن کر رہ گئی ہے، مگر اس جمے ہوئے ماحول میں، میں ہوں کہ مستقل پگھلتا جارہا ہوں۔
٭٭٭
دور اول (دو ہزار سات-دوہزار بارہ)
ہمیں ہے عشق مگر عشق کا جنون نہیں
جنابِ قیس سے پھر استفادہ کیسے ہو
میں اپنے آپ کی جانب کبھی نہیں آتا
تری طرف چلے آنے کا وعدہ کیسے ہو
حکایتِ غمِ دوراں جو اتنی رنگیں ہے
یہ سوچتا ہی رہا ہوں کہ سادہ کیسے ہو
ہزار تجھ سے محبت سہی مجھے لیکن
سوال یہ ہے کہ خود سے زیادہ کیسے ہو
***
ہمارے لفظ کسی کی صدا کماتے ہیں
سو ہم بھی ان کے لیے تجربہ کماتے ہیں
بڑے عجیب سے ہیں یہ شکستہ حال سے لوگ
خدائی بیچتے ہیں اور خدا کماتے ہیں
ہمیں نہ ضائع کر اے آسماں کہ یہ رستے
ہزاروں سال میں اک نقش پا کماتے ہیں
ہمیں بھی دیکھ ذرا اے وفا کہ ہم جیسے
تمام عمر میں اک بے وفا کماتے ہیں
پھر اجرتوں میں تو زنجیر ہاتھ آتی ہے
ہمارے ہاتھ جب اس کی دعا کماتے ہیں
نہ جانے کون سی تدبیر کرتے ہیں دنیا
وہ لوگ جو تری آواز پا کماتے ہیں
ہم اپنے شہر میں مشکل سے سانس لینے کو
نفس گزارتے ہیں اور ہوا کماتے ہیں
***
چراغ کم سخنی کی ہوا بنانے میں
میں خرچ ہوگیا اس کو خدا بنانے میں
تجھے نہ اپنا بنا پائے ہم تو پھر آخر
یہ ہجر وجر گزارا ہے کیا بنانے میں
وہ شعر جس میں ترا ذکر لمس تھا اس کو
تمام رات کٹی ہے ذرا بنانے میں
یہ کارخانۂ ہستی ہے اس میں سب کی موت
لگی ہے ایک نیا ذائقہ بنانے میں
ہماری زندگی تیرے بغیر خالی تھی
سو ہم بھی کام ہی آئے خلا بنانے میں
یہ معتقد ہیں تو شاید انہی کا ہوگا دخل
ہماری بات کو ہم سے بڑا بنانے میں
اب اپنی خاک کے نیچے دبا ہوا ہے کہیں
جو لے رہا تھا مزہ آئنہ بنانے میں
***
شاعری جیسی صفت مجھ میں کہیں پائی گئی
اس لیے مجھ سے مری ذات نہ دہرائی گئی
زندگی تھی بڑی سرکش تو بالآخر اپنی
زیر کرنے میں اسے ساری توانائی گئی
رات بھر میں نے ترے جسم کو سایہ سمجھا
دن ہوا تو یہ کھلا کہ مری بینائی گئی
اور پھر اس کا اچانک مجھے مل ہی جانا
آخر کار مرے ہاتھ سے تنہائی گئی
یعنی جس شبکدۂ جسم سے میں نکلا تھا
ایک دن پھر سے مری روح وہیں پائی گئی
تری تخلیق کو رکھا نہ گیا ٹھوکر پر
ہم سے دنیا کسی صورت نہیں ٹھکرائی گئی
***
کسی کی آگ سے مٹی کو آب کرتا رہا
میں اپنے آپ کو شب بھر خراب کرتا رہا
جو مل گئے تو ہوا وصل دھوم دھام سے پھر
وہ بے شمار مجھے بے حساب کرتا رہا
کسی طرف نہ گیا میں تو کیا تعجب ہے
خود اپنے آپ سے بھی اجتناب کرتا رہا
برت رہی تھی مجھے زندگی کہانی سا
سو میں بھی شعر میں اس سے خطاب کرتا رہا
تو پھر خدا سے نہ کی گفتگو کبھی میں نے
وہ لاکھ مجھ سے سوال و جواب کرتا رہا
***
کب کاروبارِ غم سے آزاد ہورہے تھے
ہم لوگ روز پیش افتاد ہورہے تھے
اے عمر رفتہ تجھ کو تو یاد ہوگی شاید
کیا بات تھی وہ جس پر ہم شاد ہو رہے تھے
اچھا کیا کہ تونے بدلی ہماری دنیا
ہم پچھلی زندگی میں برباد ہورہے تھے
ہر روز مٹ رہے تھے ہم دن کی سلطنت میں
اور رات بھر میں پھر سے ایجاد ہورہے تھے
تو پڑھ کے روز ہم کو جب حفظ کررہا تھا
ہم بھی تو تجھکو جلدی سے یاد ہورہے تھے
اک شخص کے اترنے سے بس گئی تھی بستی
دل کے سبھی کنارے آباد ہورہے تھے
***
مرا سفر ہے ترے عشق کی گرانی تک
میں روک لوں نہ کہیں خون کی روانی تک
بہت اداس ہے دل کا نگر سو ایسے میں
کوئی نہ آئے مرے خواب زندگانی تک
وہ عشق تجھ سے کیا ہے کہ بیشتر اوقات
ہمیں تو بار گزرتی ہے مہربانی تک
کبھی کبھی تو ترے ہجر ہی سے تنگ آکر
میں ضائع کرتا ہوں بستر پہ یہ جوانی تک
سوائے جسم کے کردار ہی نہیں کوئی
مرے فسانے سے لے کر تری کہانی تک
عجیب لمس بدن ہے ترا کہ جس کے لیے
میں آگیا ہوں ترے آنسوؤں کے پانی تک
***
میں اپنی دھوپ میں زندہ تو اپنے سایے میں
اس اختلاف سے باقی وجود ہمارا ہے
***
بری بھلی میں ترے جسم میں گزارتا ہوں
یہاں سے دیس نکالا نہ ہو تو بہتر ہے
ہم اک احاطۂ ظلمت میں گھر کے رہ جائیں
اب اس قدر بھی اجالا نہ ہو تو بہتر ہے
***
میں راستہ ہوں سو مجھ پر سے وہ گزرتے ہوئے
بڑی ادا سے مجھے دھول دھول کرتا ہے
پھر اس کے عشق کا دعویٰ کروں تو کیسے کروں
مرا بدن تو سبھی کو قبول کرتا ہے
وہ مجھ کو قرض میں دیتا ہے ایک رات اپنی
اور اس کے بعد کئی دن وصول کرتا ہے
تمام لوگ جسے کہہ رہے ہیں دن کا خدا
وہ مجھ پہ آےۂ شب کا نزول کرتا ہے
***
پریشاں خاطری احساس زندانی کے اندر
ہماری روح ہے اک ورطۂ فانی کے اندر
مری مٹی کہ سطح آب پر آتی نہیں ہے
ہمیشہ تیرتا رہتا ہوں میں پانی کے اندر
یہاں میرے سوا تنہائی بھی رہتی ہے شاید
میں اپنے گھر کے اندر ہوں کہ ویرانی کے اندر
اسی سے میں نے اپنی ذات کو یکجا کیا ہے
یہی تو ایک خوبی ہے پریشانی کے اندر
ہزاروں جسم ہیں لیکن وہ جس کو چھو سکوں میں
نہیں کوئی نہیں ہے دشت امکانی کے اندر
کسی نے رات مجھ کو لفظ تنہائی سجھایا
کئی امکان روشن کردیے معنی کے اندر
محبت اور کار حضرت تصنیف حیدر
وہ صاحب مست ہیں اپنی تن آسانی کے اندر
***
وہ چاہے جو بھی ہو جیسا بھی ہو جہاں کا ہو
کسی کو عشق ہو ہم سے تو بے تحاشا ہو
ترے سوا ہمیں کوئی سمجھ نہیں سکتا
سو ہم کو ضد ہے کہ ہر شخص تیرے جیسا ہو
پھر اس نے جسم کی تکمیل جسم سے کردی
میں چاہتا تھا کہ یہ واقعہ ادھورا ہو
میں جانتا ہوں کہ تجھ کو حسین سمجھے گا
وہ شخص جس نے تجھے غور سے نہ دیکھا ہو
وہ رات جس کی طرف میں پلٹ کے دیکھتا ہوں
نہ جانے کب مجھے اس کی ہی سمت جانا ہو
***
میں تو پانی کی طرح خود میں بہا کرتا ہوں
کیسے وہ مجھ پہ ٹھہر کر مجھے ساحل کرپائے
ہم تو صدیوں سے ترے ساتھ بسر کرتے ہیں
تجھ کو اک رات میں کیسے کوئی حاصل کرپائے
ہم یہی سوچ کے شیطان کی جانب چلے آئے
وہ خدا کون جو سجدے پہ نہ مائل کرپائے
***
تیرتا ہے شہر تنہائی جو سطح خاک پر
یک نفس میں خود کو پاتا ہوں بدن افلاک پر
اس کے سینے میں اترتی جارہی ہے میری آنکھ
جیسے کوزہ گر کی نظروں کا کرشمہ چاک پر
موت بھی کیا سبزۂ ایام ہے جس کے لیے
زندگی سب نے گزاری ہے خس و خاشاک پر
راستہ اپنی طرف مجھ کو لیے جاتا ہے آج
میں کہ مدت سے رکا تھا منزل ادراک پر
دشت بھر میں بھی کبھی پھیلا تو پھر اس کا بدن
آگیا جیسے سمٹ کر ایک مشت خاک پر
جانے کس کی شب کے حصے میں تھا وہ چاندی سا جسم
جانے وہ پگھلا تھا کس کی خواہش بے باک پر
***
ہے رات بے لباس ترے جسم کی طرح
اور دن کے پاس کوئی لبادہ نہیں ابھی
حد ہے کہ خود کو بھولتے جاتے ہیں روز ہم
اور تجھ کو بھولنے کا ارادہ نہیں ابھی
دنیا جو اپنی گرم روی کا شکار ہے
آشفتہ کار ہم سے زیادہ نہیں ابھی
***
بات کیا ہے کہ خدا بھول گیا ہے مجھ کو
جیسے اس کا کوئی پھینکا ہوا سامان ہوں میں
جب بھی جی چاہے مجھے چیر کے رکھ دیتی ہے
زندگی کیا کسی وحشی کا گریبان ہوں میں
موت ہی مجھ کو سمیٹے تو کوئی بات بنے
اس قدر خانۂ ہستی میں پریشان ہوں میں
***
کیا تعجب ہے کہ پانی کی طرح لکھا گیا ہوں
ریت ہوں لیکن روانی کی طرح لکھا گیا ہوں
یہ جہاں روز ازل سے مجھ کو سنتا جارہا ہے
میں بہت اچھی کہانی کی طرح لکھا گیا ہوں
اس لیے میں اپنی قیمت سے بھی خود نا آشنا ہوں
بس ذرا لفظ گرانی کی طرح لکھا گیا ہوں
اک نہ اک دن اس ہزیمت نے مجھے دھندلادیا ہے
میں جہاں بھی کامرانی کی طرح لکھا گیا ہوں
پہلے برسایا ہے مجھ پر زندگی نے تازیانہ
پھر کسی تازہ نشانی کی طرح لکھا گیا ہوں
جلتے بجھتے لوگ میرے سائے میں آکر کھڑے ہیں
میں کہ شاخ سائبانی کی طرح لکھا گیا ہوں
جس میں تیرا ہجر ہو اور وصل دنیا بھر کا ٹھہرے
کیا میں ایسی ہی جوانی کی طرح لکھا گیا ہوں
***
بدلا تو رنگ خواب دکھاتا گیا مجھے
پلٹا تو پھر یقین میں لاتا گیا مجھے
جب وصل تھا تو اس نے بہت مختصر کیا
جب ہجر ہوگیا تو بڑھاتا گیا مجھے
میں نے تو سیکھنے کی بھی کوشش نہ کی مگر
وہ شخص اپنے آپ ہی آتا گیا مجھے
میں گھل رہا تھا برف کی مانند اور وہ
پانی کی طرح خود میں ملاتا گیا مجھے
سب کشمکش تھی زندگی بے کنار کی
کھونے کی ضد میں اور وہ پاتا گیا مجھے
***
میں نے اپنے جسم پہ وہ سندوری جسم سجایا ہے
میری سانسوں میں زندہ ان سانسوں کا سرمایہ ہے
شام کی شاخ سے گر کر پتے چر چر کرتے رہتے ہیں
اس لفظی ابہام میں شاید کوئی گہری مایا ہے
کس پتھر کی آمد ہے کہ جیسے خود سے آ نہ سکے
راستہ دیکھتے دیکھتے من کا رستہ بھی پتھرایا ہے
یوں تو سب معلوم ہے مجھ کو کوئی نہیں اب آنے کا
پھر بھی کیوں لگتا ہے جیسے شاید کوئی آیا ہے
اب کے ایسا کیا ہے جو اس وہم کو زائل کردیگا
پہلے بھی تو ہم نے تیرے ہاتھوں دھوکا کھایا ہے
میرا جی کی آڑھی ترچھی غزلوں جیسی لڑکی نے
آج کی شام مجھے بھی جیسے ابن انشا بنایا ہے
***
سبب ہے کیا مری جملہ سخن ترازی کا
میں ایک ہارا ہوا شخص دل کی بازی کا
یہ شہرِ دل کہ جہاں خاک اڑتی رہتی ہے
کبھی تھا شور اسی خطۂ اراضی کا
نہ اپنی سمت ہی پلٹے نہ تیرے پاس گئے
ثبوت اس سے بڑا کیا ہو بے نیازی کا
کوئی غزال نہ تھا، ہم تھے اور صحرا تھا
سو ہم نے سیکھ لیا کھیل خاکبازی کا
اُسی میں ہم نے لیا تجھ سے ہجر کا بدلہ
وہ ایک لمحۂ خاموش جاں گدازی کا
***
لاکھ نظروں پہ ترا جسم عیاں ہوجائے
غیر ممکن ہے کہ لفظوں میں بیاں ہوجائے
رات بھر شمع سا جلتا ہے مری آنکھوں میں
جب اُسے ہاتھ لگاؤں تو دھواں ہوجائے
اک اسی خواہشِ پیہم کے ہیں مارے ہوئے ہم
یہ خلش اور بڑھے، اور جواں ہوجائے
ایک شب وہ ہو کہ جب سامنے تو ہو اور میں
اس قدر سجدے لٹاؤں کہ اذاں ہوجائے
عشق میں تجھ سے بدلتی گئی صورت میری
یہ نہ ہو تو مرے ہونے کا گماں ہوجائے
کیا کشش تھی کہ سمٹ آئی ترے قدموں میں
ورنہ یہ خاک تو آشوبِ جہاں ہوجائے
اپنے دل میں لیے پھرتے ہیں تجھے ہم ورنہ
شہر کے شہر کو اندیشۂ جاں ہوجائے
***
کوئی بھی فرق نہ آیا تمہارے جانے سے
ہم آج بھی ہیں وہی بے وفا پرانے سے
عجیب وحشتِ جاں ہے کہ بیٹھے بیٹھے ہی
کبھی الجھ گئے تم سے کبھی زمانے سے
اگرچہ پیچھے ہیں اب بھی تمام سنگ بدست
مگر ہمارے طریقے وہی دوانے سے
ہمارے حق میں بھی آخر صنم، صنم ہی رہا
کوئی سبیل نہ نکلی خدا بنانے سے
اب ایک ضد ہے کہ جس دن تمہاری آنکھ لگی
ہم اپنے خواب اٹھا لائیں گے سرہانے سے
وہ لوگ لذّتِ لاحاصلی سے تھے محروم
جو باز آگئے قسمت کو آزمانے سے
کہاں سے راحتِ جاں بازیافت ہو اس کی
جو ہم کو بھول گیا تھا کسی کے آنے سے
***
وہ لوگ کبِ غمِ دورِ فراق سمجھے تھے
جو تیرے ہجر کو اک اتفاق سمجھے تھے
نہ جانے کون سی منزل پہ لاکے چھوڑ گیا
وہ ایک لمحہ جسے ہم مذاق سمجھے تھے
وہ آئینے سا بدن شعر میں نہ ڈھل پایا
ہم اپنے آپ کو اس فن میں طاق سمجھے تھے
بس ایک رات گزاری تھی اس سے دور ہوکر
تو کس طرح سے گزرتی ہے شاق سمجھے تھے
تمہارے ملنے سے پہلے تمہارے دیوانے
کہاں کی دوری کہاں کا نفاق سمجھے تھے
***
ترے بغیر بھی ہنس کھیل کر گزاری ہے
اگرچہ کوئی بڑا معجزہ نہیں کیا ہے
***
اسی کی باتوں سے کیوں کین و کد کیا میں نے
وہ شخص جس کو ہمیشہ سند کیا میں نے
مرا ازل ہی نہیں تھا کبھی تو مت پوچھو
کہ کیسے اپنے ازل کو ابد کیا میں نے
وہ مجھ پہ مذہبی احکام جیسا حاوی تھا
سو اس کی ذات کو مشکل سے رد کیا میں
بس اک صدائے اناالوقت مجھ میں زندہ رہی
جو خود کو خود سے کبھی نابلد کیا میں نے
میں تیرے جسم سے باہر کبھی گیا ہی نہیں
بدن لکیر کو آنکھوں کی حد کیا میں نے
***
جب بھی مرا خالق مجھے ایجاد کرے گا
ہر طرح سے مجموعۂ اضداد کرے گا
میں لوٹ کے پھر اس کی ہی جانب نہ چلا آؤں
وہ سوچ سمجھ کر مجھے آزاد کرے گا
ہم کو تو یہ خوش فہمی نہیں ہے کہ زمانہ
جب ہم نہیں ہوں گے تو ہمیں یاد کرے گا
اب بھی مجھے امید ہے اس چاند بدن سے
اک رات وہ لیے میرے لیے برباد کرے گا
پہلے وہ اجاڑے گا بری طرح سے مجھ کو
پھر مجھ میں بسے گا مجھے آباد کرے گا
بس دیکھنے آجائے گا یونہی مجھے اک دن
یہ کام اگرچہ وہ مرے بعد کرے گا
اس کام میں مصروف رہے گا کہیں دن بھر
تیار مگر رات کو شب زاد کرے گا
***
کیسے بدلے گا یہ منظر سوچتا رہتا ہوں میں
بولتا کچھ بھی نہیں پر دیکھتا رہتا ہوں میں
بند کرلیتا ہے وہ بستر کی مٹھی میں مجھے
اور ننگے جسم کے اندر کھلا رہتا ہوں میں
جانتا ہوں حرف کاری کا کوئی مطلب نہیں
پھر بھی غزلوں میں تجھی سے بولتا رہتا ہوں میں
کچھ نہیں ملنا مجھے معلوم ہے اچھی طرح
پھر بھی جیسے تجھ کو خود میں ڈھونڈتا رہتا ہوں میں
چاہتا بھی ہوں کہ وہ اک دن مجھے کھل کر پڑھے
جبکہ اس کے سامنے ہی کم نما رہتا ہوں میں
کیوں نہیں کہتا خدا سے بھی کہ مل جائے مجھے
کون ہے جس کے لیے خاموش سا رہتا ہوں میں
اور جب حاصل مجھے ہوجائیں تیری گرمیاں
برف ہوکر اپنے اوپر ہی جما رہتا ہوں میں
***
گرج برس کے کبھی مٹیوں کو پانی کر
نفس نفس مرے احساس میں روانی کر
یہ بس زمین کے رنگوں میں کھو کے رہ گیا ہے
بدن کا رنگ بدل اور آسمانی کر
گزار اور کہیں اپنے باقی دن لیکن
مرے بدن میں ٹھہر اور پھر جوانی کر
میں اس اطاعت بے جا سے اوب جاتا ہوں
چل آج بندۂ دل مجھ سے سرگرانی کر
مٹا دے آج سبھی حرف لوح قسمت سے
پھر اس کے بعد کوئی دوسری کہانی کر
خموشیوں کے مقدر میں صرف چیخیں ہیں
اسی لیے کوئی آواز درمیانی کر
***
تری آنکھوں کی روانی میں نہیں رہ سکتا
رات بھر کوئی بھی پانی میں نہیں رہ سکتا
ایک دن اس کا بدن مجھ کو برتنا بھی ہے
میں اسی زمزمہ خوانی میں نہیں رہ سکتا
اس کو کچھ وصل کا سامان بھی کرنا ہوگا
عشق بس ہجر بیانی میں نہیں رہ سکتا
شہرزاد آج کی شب حکم ہے کہ تیرے سوا
کوئی کردار کہانی میں نہیں رہ سکتا
دن کو دفتر سے گلہ رات کو بستر سے گلہ
میں تو اس طرح جوانی میں نہیں رہ سکتا
آج کی رات خریداری کی دھن ہے اس کو
یعنی اب میں بھی گرانی میں نہیں رہ سکتا
***
سفیر عشق اب اس شخص کی دہائی نہ دے
جو جسم و جاں میں بہت دور تک دکھائی نہ دے
وہ نغمہ بن کہ مجھے صرف ایک تیرے سوا
کوئی سمجھ میں نہ آئے کوئی سنائی نہ دے
اک ایسی شب کی طرح آنکھ میں اتر کہ مجھے
ترے اندھیرے میں کچھ اور پھر سجھائی نہ دے
وہ عمر قید مجھے دے کہ پھر بدن میرا
خود اپنے آپ کو بھولے سے بھی رہائی نہ دے
تو خیر سے مجھے خود بھی گراں گزرتا ہے
جو مجھ کو عشق کے بدلے میں بے وفائی نہ دے
میں آگہی سے بہت تنگ آگیا ہوں خدا
اب اس قدر بھی یہ آشوب انتہائی نہ دے
***
چاہتا ہوں کہ وہ اک رات یہاں رہ جائے
اور پھر صبح بدن ہوکے دھواں رہ جائے
رات بھر کی یہ کمائی ہے کہ ان ہاتھوں میں
چادر گرم ہو اور لہر اذاں رہ جائے
مجھ کو برباد کر اس طرح کہ اک رات کے بعد
جسم رہ جائے نہ یہ خطۂ جاں رہ جائے
میں یقیں ہار ہی جاؤں تو مری آنکھوں میں
کس طرح تجھ سے بچھڑنے کا گماں رہ جائے
تازیانے کی طرح اس پہ برستی ہوئی رات
جب مرے جسم سے گزرے تو نشاں رہ جائے
عشق میں ہو تو کوئی کام مرے کرنے کو
راہ میں ایک نہ اک سنگ گراں رہ جائے
***
کوئی تو ہجر کو اس طرح سرنگوں کرتا
ترے وصال سے ہوتے ہوئے جنوں کرتا
عجیب حاکم شب ہے کہ دشت جاں میں بھی
ہر ایک خواب کو پھرتا ہے خاک و خوں کرتا
تو ہی بتا کہ اگر دخل ہوتا میرا کچھ
تو پھر میں تیری ہی آنکھوں سے عشق کیوں کرتا
میں دن بھر ایک طلسم عذاب سے لڑتا
وہ رات بھر مرے انفاس پر فسوں کرتا
بگڑ ہی جاتے ہیں سب کام اور سوچتا ہوں
یہ کام یوں نہ بگڑتا اگر میں یوں کرتا
یہ سب مسائل دنیا ہیں اس لیے کہ میں
ترے بغیر بھی اب کچھ نہ کچھ رہوں کرتا
***
آنکھوں نے برا فیصلۂ خواب کیا ہے
اک بندۂ خود سر کو خدا یاب کیا ہے
گرما ہی رہا تھا ترے ہونٹوں سے مرا جسم
اور وقت نے یہ لمحۂ سرداب کیا ہے
عافیت خواہش تو اسی میں ہے اگرچہ
ہم نے بھی کہاں جسم کو پایاب کیا ہے
میں جس کی قرابت کا نگہدار تھا اس نے
بس دور سے ہی دیکھ کر آداب کیا ہے
ہم کون سے ہیں ظل ہما اپنے ہنر کے
قدرت نے اسے کون سا سرخاب کیا ہے
اک گوشۂ شب ہی میں سمٹ آئے ہیں ہم لوگ
روشن جو کبھی حجرۂ مہتاب کیا ہے
اک آتشیں سیال نگاہوں میں الٹ کر
اس شخص کو کیا فتنۂ نایاب کیا ہے
دیکھو تو ذرا موجۂ بے دست نے کیسے
اک عالم صد دست کو غرقاب کیا ہے
***
رہیں نہ شہر سے صاحب سلامتیں اپنی
سو بادلوں سی ٹپکتی ہیں اب چھتیں اپنی
ہم اب گئے بھی جو اس کی طرف تو لگتا ہے
بڑی عجیب سی ہونگی وضاحتیں اپنی
کھنگال اپنے پرانے دنوں کو شاید میں
وہیں کہیں پہ رکھ آیا ہوں راحتیں اپنی
منافقت کے سوا کچھ نہیں نمازوں میں
کہ روسیاہ بہت ہیں ملامتیں اپنی
***
کیا تعجب ہے کہ اپنی ہی حدوں سے کم ہوں
بے کناری کی صفت ہو کے سبھوں سے کم ہوں
وصل کی شب میں گزارا ہوا لمحہ ہوں مگر
تشنگی وہ ہے کہ میں ہجر شبوں سے کم ہوں
کس پہ کھلتا ہوں مگر ایک تری ضد کے سوا
شاید اس بار بھی تھوڑی گرہوں سے کم ہوں
ایک ادھورا سا خدا ہوں کہ سر لفظ احد
میں ابھی کم ہوں ذرا کچھ عددوں سے کم ہوں
***
میں نقشِ ذات ترے خواب کے نگینوں پر
ادا سے لکھ مجھے ہونٹوں کے آبگینوں پر
وہ رات جس پہ ترے خواب کا تسلط ہو
کرے ہے راج ہمارے کئی مہینوں پر
نہ اس کو خون پلانا کہ افعئ تخلیق
کبھی کبھی نکل آتا ہے آستینوں پر
ابھی ہے قرض کئی گمشدہ جہانوں کا
ہمارے جیسے نہ جانے کئی ذہینوں پر
میں آسمان زدہ لفظ تھا سو میرا ہنر
بدرجہ پھیل رہا تھا نئی زمینوں پر
یہ سب سیاہ دلاں کس طرف سے آئے ہیں
عذاب کون سا اترا ہے ان کے سینوں پر
***
میں لفظ تھا سو ادا ہوگیا ترے لب سے
وگرنہ گونج رہا تھا یہیں کہیں کب سے
تو چاہتا ہے تو دنیا الٹ پلٹ کر دیکھ
ہمارے جیسے کئی اور لوگ بے ڈھب سے
اسی لیے تو مجھے رسم سے بغاوت ہے
اسی لیے تو میں اکتا گیا ہوں مذہب سے
مثال روز میں کتنا دمک رہا ہوں یہ دیکھ
تری گزاری ہوئی ایک معتبر شب سے
بس ایک روشنی ٹھہری ہوئی تھی وصل کی رات
مرے بدن میں جو اتری تمہارے قالب سے
جو لفظ تجھ کو سمجھنے تھے سن لیے سب نے
جو بات تجھ کو بتانی تھی کہہ گئے سب سے
***
دور دوم (دو ہزار بارہ سے دو ہزار پندرہ)
تنہائی سے آخر تنگ آکر اک قصۂ آدم زاد کہا
بیزار ہوئے تو حرف کن ہم نے بھی خدا کے بعد کہا
اے عشق برے ناکام ہوئے ہم لوگ تو اس دوراہے پر
تجھ کو بھی اکیلا چھوڑ دیا، دنیا کو بھی خیرآباد کہا
اک تجربۂ بے معنی نے سب لفظ و حرف بھلا ڈالے
اک خامشئ بے پایاں نے ہرچند ہمیں آزاد کہا
بس ہم نے سمندر کی آنکھیں ریتیلی زمیں سے مس کردیں
اور اس نے شفق کو اوڑھ لیا اور اس نے دھویں کو رعد کہا
یادوں کے سسکتے پیراہن زہریلی ہوا نے کاٹ دیے
مستقبل نے آئینے سے جب فلسفۂ اجداد کہا
سب نام و ننگ کے مارے ہوئے مٹی کی طرف ہی آنکلے
پھر کون طلب کے مارے نے اک نعرۂ آتش و باد کہا
***
سر وصال نگاہوں سے ہارنے میں نہ جائے
یہ رات بھی یونہی شیخی بگھارنے میں نہ جائے
صدا کا جتنا بھی سرمایہ میرے ہاتھ میں ہے
یہ صرف ایک اسی کو پکارنے میں نہ جائے
بہت ہی کم ہے مرے پاس مہلت ہستی
تعلق اس سے فقط استوارنے میں نہ جائے
دل و نظر پہ بھی کچھ ناخنی لکیریں ہوں
بلا کا عشق ہے گردن ہی مارنے میں نہ جائے
***
فروتنی بھی ہماری کمال کی ہوئی ہے
ادا کچھ اس میں ترے ماہ و سال کی ہوئی ہے
اگرچہ پہلی دفعہ تجھ سے وصل ہے لیکن
یہ رات پہلے کہیں استعمال کی ہوئی ہے
اتار کر مجھے ویراں نما جزیروں پر
خدا نے کیسے مری دیکھ بھال کی ہوئی ہے
میں اس سے خوش ہوں کہ میری طرف سے تیری طرف
ہر ایک ساعت غم انتقال کی ہوئی ہے
کسی نے رد کیے احکام اس اذیت کے
جو ہم نے اپنے بدن میں بحال کی ہوئی ہے
اسے خبر ہی کہاں ہے کہ ہجر کی شمشیر
ہم ایسے لوگوں نے اپنے پہ ڈھال کی ہوئی ہے
***
ہوں ریگ وقت سو مٹھی سے بس پھسل گیا ہوں
تو لاکھ اس سے یہ سمجھے کہ میں بدل گیا ہوں
ہزار چاندنی تیرے بدن پہ طاری ہو
مگر میں ہجر کی تھوڑی سیاہی مل گیا ہوں
خدا کا شکر ادا کر کہ ہوگیا ہوں الگ
وہ سانحہ ہوں جو گزرا نہیں ہوں ٹل گیا ہوں
مری سرشت میں ہے بے وفائی برسوں سے
سو اپنا کام نکالا ہے اور نکل گیا ہوں
کبھی کبھی تو ترے ساتھ دیکھ کر اس کو
میں کتنا تنگ ہوا ہوں میں کتنا جل گیا ہوں
***
کچھ ایسی بات کہی چھیڑ چھاڑ میں جائے
کہ سب حقیقت ہستی کباڑ میں جائے
میں سوچتا ہوں بہت اس کو اور پھر خود ہی
یہ سوچتا ہوں کہ وہ شخص بھاڑ میں جائے
یہ شہر ہی کوئی سناٹا ساز ہے تو پھر
کہاں سے اب کوئی دشت اجاڑ میں جائے
ہمیں کیا حسن اساطیر کی تلاش میں تو
بلا سے بابل و موہن جوداڑ میں جائے
کوئی بھی مرغ خوش الحان ہو تو ہو لیکن
ہمارے شعر کی پہلی دہاڑ میں جائے
***
خدا کا رنگ نہ بھورا نہ آسمانی ہے
اسے بھی راس وہی سیر لامکانی ہے
جہاں سے بھی تجھے چھوڑوں، تجھے بدل ڈالوں
پلٹ کے دیکھتا کیا ہوں، وہی کہانی ہے
مجھے تو حسرت ناکام ہی سے مطلب ہے
کہ مٹیوں کے تعاقب میں کتنا پانی ہے
میں جاوداں تجھے کرتا ہوں حرف میں رکھ کر
کہ میری آنکھ لہو ہے تو جسم فانی ہے
تری طرف سے بھی انکار کرکے لوٹ آئے
متاع دل یہی تھوڑی سی سرگرانی ہے
***
مانس کی بو کسی پتھر سے ابلتی ہوئی ہے
زندگی پھر بھی وہ ظالم ہے کہ چلتی ہوئی ہے
دل بھی کس وقت ترے وصل پہ مچلا ہوا ہے
جب کہ سب دھوپ مرے جسم کی ڈھلتی ہوئی ہے
تونے کیا سوچ کے رکھا ہے مرے جسم پہ ہاتھ
اور پھر تیری ہتھیلی بھی تو جلتی ہوئی ہے
میں نے سب آہ دبائی ہوئی ہے مٹھی میں
اور تو ریت کی مانند نکلتی ہوئی ہے
میں کہ سرگرم عمل ہوں تری خوشبو کے ساتھ
اور اس وقت تری ذات بھی کھلتی ہوئی ہے
***
یہ شام اندر سے کچھ ملائم ہے ریشمی ہے
مگر مرے اضطراب کو بس تری کمی ہے
یہ کیا کہ میں نے تو کچھ کیا ہی نہیں ہے لیکن
ابھی سے بستر پہ گرم ہوتی ہوئی نمی ہے
میں جانتا ہوں ترے تعلق کی یہ خموشی
دراصل میری بیان بازی پہ برہمی ہے
میں جیسے پتھر ترے بدن پر پڑا ہوا ہوں
تو جیسے سل کی طرح سے شکنوں پہ بس جمی ہے
اگرچہ تیرا بخار مجھ پر چڑھا ہوا ہے
مگر مجھے بھی خبر ہے اس کی کہ موسمی ہے
کچھ اتنا اکڑا ہوا تھا پہلے یہ سانولا رنگ
اسی لیے تو اب اس میں اتنی بری خمی ہے
***
معبد جسم ہوں گھبرایا ہوا رہتا ہوں
اک ذرا ٹھیس سے ہی ڈھایا ہوا رہتا ہوں
کیوں برسنے نہیں دیتی مجھے تیری دھرتی
میں تو ہر وقت یہیں چھایا ہوا رہتا ہوں
لوگ پانی سے زیادہ تو نہیں ہیں شفاف
اور میں اس میں بھی گدلایا ہوا رہتا ہوں
سرد ہوتی ہوئی مٹی کے سفر میں اکثر
تیری بوندوں سے ہی گرمایا ہوا رہتا ہوں
تو کسی اور طرف جاتی ہوئی رہتی ہے
میں کسی اور طرف آیا ہوا رہتا ہوں
لمحۂ خالی ہوں اور تیرے لبوں پر اکثر
گنگنایا ہوا اور گایا ہوا رہتا ہوں
***
بدن کی ساری رگیں ہوکے رائگاں ٹوٹیں
مگر گلابی سیاہی کے درمیاں ٹوٹیں
یہ پلپلاتی ہوئی دوپہر ہے اس میں بھی
ہماری ضد ہے کہ دوچار بیریاں ٹوٹیں
تمام جسم ہیں اپنی شکست کی آواز
اگرچہ سوچ رہے ہیں کہ بس کہاں ٹوٹیں
میں اس پہ ہاتھ پھراؤں ترے بدن کی طرح
اسی لباس پہ خواہش کی گولیاں ٹوٹیں
کسی کو کہتے ہوئے سب زبان ہو بے کار
کسی کو چھوتے ہوئے ساری انگلیاں ٹوٹیں
یہ بھیڑ کس نے اکھٹی کری ہے منظر میں
پولس بلاؤ کہ دو چار لاٹھیاں ٹوٹیں
مرے خیال کا اک رام انگلیاں پھیرے
ترے بدن کی گلہری سے املیاں ٹوٹیں
***
کتنے یگ بیتے ہیں من کے پتھر پر آرام کیے
لے جا سب چھن سب لمحے یہ ہم نے تیرے نام کیے
سردی میں ہجراں کو کاٹا اور گرمی میں وصل کیا
شعر بنانے کی خواہش میں کیسے الٹے کام کیے
اک دن اس نے جسم کے اندھے شیش محل کو بیچ دیا
اور ہم نے بھی خواہش کے سارے پتھر نیلام کیے
میں نے تو تخلیق رچی تھی تیرے گلابی ہونٹوں پر
اور تیرے قرآن نے مجھ پر سارے لفظ حرام کیے
ان آنکھوں سے نوچ کے تجھ کو ہم نے زمیں پر پھینک دیا
تب جا کر اللہ میاں نے تیرے جلوے عام کیے
***
کیا تھا جو تجھ کو بھول کے پھر یاد ہوگیا
اک لفظ جیسے عشق کا ہم زاد ہوگیا
میں نے کہا خراب بہت پر نہ جانے کیوں
اک سطح فن پہ آکے سبھی صاد ہوگیا
دل جیسا ایک صاحب ایماں تھا اپنے پاس
یہ آدمی بھی عشق میں برباد ہوگیا
پھر لوٹ گھوم کر ہیں وہی بے نیازیاں
میں اس صفت میں صورت اجداد ہوگیا
تو بھی کہیں پہ بانجھ زمیں بن کے رہ گئی
میں بھی فریب کثرت اولاد ہوگیا
اک دل زدہ کے زخم لگانے پہ حال دل
مایوس ہورہا تھا مگر شاد ہوگیا
***
یہ جو تجھ کو حاصل کرنے کی لت بہت زیادہ ہے
رسوائی کے شہر میں اپنی شہرت بہت زیادہ ہے
چالس راتیں اب بھی تیرے ہجر کی شاید باقی ہیں
وصل تو ہوجائے گا لیکن مدت بہت زیادہ ہے
تیرا لعاب زباں کی زمیں پر دریا جیسا بہتا ہو
ہم جیسوں کو یہ چھوٹی سی جنت بہت زیادہ ہے
اس کے ساتھ تو شہروں میں بھی اپنا گزارہ کب ہوگا
وہ معشوق کہ جس کو سب سے وحشت بہت زیادہ ہے
عشق زدہ افراد بھی بوئے ہوس کے مارے لگتے ہیں
محنت اس میں کم ہے لیکن لذت بہت زیادہ ہے
دل کی کہی تو سب کرتے ہیں لیکن دل کی سننے میں
خیر بہت معمولی سا ہے، ذلت بہت زیادہ ہے
***
مانا جسم کمینہ ہے اور روح بڑی حرافہ ہے
لیکن اس میں تیرا ہونا خاطر خواہ اضافہ ہے
تجھ کو پاکر ویسے بھی تو خسارے میں تھے ہم جیسے
غور کریں تو تجھ کو کھو دینا بھی کوئی منافع ہے
کرنیں پھوٹ رہی ہیں اس سے جیسے پیلی چاندی کی
برق بدن پر لپٹی ہوئی ہے یا کوئی صرافہ ہے
چیر رہی ہے کانٹا بن کر لہر عجب اک سردی میں
باؤ نہیں ہے، یہ تو اس بے درد کا تگڑا لافہ ہے
اک دن سب کچھ پہلے جیسا ہوجائے گا دنیا میں
یہ سب کچھ سچ ہے لیکن سچ بھی تو ایک قیافہ ہے
سارے خواب اندھیرے میں یہ شور مچانے آتے ہیں
کس نے آگ تراشی ہے اور کس نے پانی بافا ہے
***
بدن ہے وصف سو یہ وصف کائناتی ہے
اسی کی گونج خلاؤں سے آتی جاتی ہے
ترے نہ ہونے کا سارا مرض ہے نفسانی
تو پھر علاج بھی اس غم کا نفسیاتی ہے
ترے سکوت پہ قربان جائیے کہ جسے
زبان دیکھ کے آنکھوں میں غل مچاتی ہے
یہ سلوٹوں میں تڑپنا ہوا زوال ہنر
یہ جھریوں سے بھری کس خدا کی چھاتی ہے
میں ایک عہد نوا جب بگڑنے لگتا ہوں
تو پھر یہ خاک سرے سے مجھے بناتی ہے
تو اپنی چھوڑ کہ ان غمزدوں کی آنکھوں سے
خدا بھی چھپتا ہے اس کو بھی شرم آتی ہے
ترے لیے وہی مرغی وہی مٹن وہی کھیر
مرے لیے وہی سبزی وہی چپاتی ہے
سوال پوچھتی ہے جب مری انا مجھ سے
تو اپنے عشق کے ہاتھوں سے مار کھاتی ہے
***
اس اندھیرے میں کوئی کام نہیں ہوسکتا
لیکن اس عذر سے آرام نہیں ہوسکتا
اتنی جلدی میں جدا ہو نہیں سکتا تجھ سے
اس کہانی کا یہ انجام نہیں ہوسکتا
دل کا خوش ہونا کوئی ایسا کرشمہ بھی نہیں
ہو تو سکتا ہے سرِ شام نہیں ہوسکتا
میں نے یہ شعر کسی اور کی خاطر لکھے ہیں
یعنی سب کچھ تو ترے نام نہیں ہوسکتا
لگ گیا ہے جو مرے دل پہ تباہی کی طرح
عشق ہوسکتا ہے الزام نہیں ہوسکتا
***
سسکتی، چبھتی ہوئی آہٹیں کدھر لے جائیں
سگ سوال کی غراہٹیں کدھر لے جائیں
ترے بدن میں اتاریں نہ اپنی چیخیں تو
ہم اپنے جسم کی جھلاہٹیں کدھر لے جائیں
بمشکل اپنے گلے میں انہیں اتار نہ دیں
تو پھر گلاس کی یہ تلچھٹیں کدھر لے جائیں
یہ ہاتھ تیرے بدن ہی سے لگ کے رہ گئے ہیں
ہم ان کو لے کے یہاں سے ہٹیں کدھر لے جائیں
وہ سرخیاں ترے ہونٹوں کی کس جگہ رکھ لیں
وہ تیری زلف کی الجھی لٹیں کدھر لے جائیں
***
بدن کو باندھ کے رکھ تیوروں سے خالی ہو
تو شاید اب کے برس عشق کی بحالی ہو
وہ رات گندمی تاثیر لے کے پھرتی تھی
عجب نہیں جو کسی نے اچک کے کھالی ہو
میں سسکیوں میں ترے جسم کی ہوا چکھوں
ترے لبوں پہ کوئی بہترین گالی ہو
جھروکے تاک رہے ہوں بدن کو حسرت سے
ہمارے بیچ کوئی ماربل کی جالی ہو
وہ چیز جس کے لیے چل رہا ہوں مدت سے
کہیں سفر میں ہی لگتا ہے جیسے پا لی ہو
بھلائی اس میں بھی موجود ہے تخیل کی
برا ہے کیا جو یہ سارا جنوں خیالی ہو
***
یہ جو سب کار نا تمامی ہے
صرف اک جسم کی غلامی ہے
شب تعمیر کی جبیں پر دیکھ
حرف مسمار ہی دوامی ہے
اس کی آنکھوں میں دیکھنا جیسے
ایٹمی جنگ ہے، سنامی ہے
اس حوالے سے سنگ پوجے جائیں
یہ بھی تیری ہی نیک نامی ہے
جسم کے شہر میں زمانوں سے
ایک آئین تشنہ کامی ہے
دل کے ساحل پہ تیری تنہائی
جسم کا شہر یا میامی ہے
ہم نے کب اس کی راہ روکی ہے
اس نے کب اپنی باہ تھامی ہے
ساتھ رہتے ہیں سالم و تصنیف
اک کمینہ تو اک حرامی ہے
***
نہ کوئی نام نہ کوئی نسب وسب تیرا
مگر ہے عشق کی تہذیب میں ادب تیرا
تو میرے جسم کی آتش نہیں بجھا پائی
مرے لیے تو ہے بیکار حسن سب تیرا
پرانے دشت سے آوارگی جدا میری
جدید شہر کی خاموشیوں سا ڈھب تیرا
یہ دانت رکھ کے چبانے کی چھوڑدے عادت
ادھڑ گیا ہے کچھ اس کی وجہ سے لب تیرا
یہ سارے شہر ہمارے تمہارے جیسے ہیں
نہ کچھ نجف ہی مرا ہے نہ کچھ حلب تیرا
میں انتظار میں بیٹھا ہوا ہوں مدت سے
نہ جانے راستہ گزرے گا یاں سے کب تیرا
***
پانی ہوں تو اور ذرا ہریالی کرکے دیکھوں گا
نیلی خاموشی میں سب کچھ خالی کرکے دیکھوں گا
تیرا بدن تو سکوں جیسا خوب اڑایا ہے میں نے
اب اس دشت میں کچھ برسوں کنگالی کرکے دیکھوں گا
روشن ہے وہ کتنا میرے تنہا سرد اندھیرے میں
بجھنے سے پہلے پوری دیوالی کرکے دیکھوں گا
یہ میری تنقید ہے اس میں میری مرضی چلتی ہے
میں تو سلیم احمد جیسوں کو حالی کرکے دیکھوں گا
***
بند ہو جانا ہے اک روز سبھی راہوں کو
اس لیے آنے دیا میں نے ہوا خواہوں کو
وقت اک روٹھا ہوا جھرنا ہے جس میں آکر
روکنا ہی نہیں چپو کبھی ملاحوں کو
جب تجھے سوچ کے میں ضرب لگاتا ہوں کبھی
اس سمے دیکھ نہ لے کوئی مری آہوں کو
ایسا لگتا ہے بس اک تجھ کو بنانے کے لیے
محنتیں کرنی پڑی ہیں کئی اللہوں کو
صبر کرنا تھا ابھی اور مری تیزی کو
کھلے رہنا تھا ابھی اور تری بانہوں کو
***
حرف حسن شب جہاں لفظ تراوٹ ہوگیا
سب گھٹاگھٹ گھٹ گیا اور کچھ فٹافٹ ہوگیا
کیسی نگری تھی کہ جس میں روز روشن تھا عیاں
رات آئی اور سارا راج چوپٹ ہوگیا
تو نے آنکھوں سے پیا پانی تو میں اک آن میں
پیاس کی دیوی کی خاطر کوئی پنگھٹ ہوگیا
جسم تھا یا کوئی جلتا تان سینی راگ تھا
سن کے اس کو میں جو دیوانہ تھا ہولٹ ہوگیا
رال میں دو چار ذرے کوثر و تسنیم کے
پی کے جن کو میرا بستر سرمئی تٹ ہوگیا
***
یہ جو ندی نظر آتی ہے تمہیں ریتی کی
میں نے کچھ اور نہیں صرف یہی کھیتی کی
میں بھی کچھ اپنے مقدر سے نہیں خوش ایسا
اس کو بھی کچھ نہ سمجھ آئی خدا دیتی کی
مجھ کو دنیا سے کوئی فائدہ حاصل نہ ہوا
میں نے اک آہ بھری اور ملامیتی کی
میں نے اک رات اس عورت کے بھی لب چوم لیے
اس نے تتلا کے کہا تن نے بلی نیتی کی
***
خبر میں رہنا پڑے جس طرح کی باتوں سے
میں ان کو خود ہی بناتا ہوں اپنے ہاتوں سے
جب اس نے شرط رکھا دن وصال کی خاطر
تو مجھ کو ہوگئی نفرت تمام راتوں سے
نصار و سیفی کے ساتھ عشق وہ بھی سید کو
ہمارا کام نہ نکلے گا ایسی ذاتوں سے
برس کے شہر شرابور کر ہی دیں گی سب
نہ روک پاؤ گے تم بارشوں کو چھاتوں سے
بدن بھنبھوڑنے آئے ہیں گرسنہ کتے
سو چوہے بھاگ گئے ہیں نکل کے آنتوں سے
بچا کھچا ہوا اک عام آدمی کا حساب
ابھی تو اور ملے گا خدا کے کھاتوں سے
***
یہ کس نے کاٹ کے رستے میں پیڑ ڈالا ہے
عجیب شاخیں لیے ایڑھ ٹیڑھ ڈالا ہے
کیا ہے وصل کہ کمبخت نے مزے کے ساتھ
مرے تمام بدن کو ادھیڑ ڈالا ہے
وہ ہاتھ جم سا گیا تھا تری سیاہی پر
سو ہم نے اس کو وہاں سے اکھیڑ ڈالا ہے
بہت سی کوششیں کیں پہلی رات پھر تھک کر
ترے سوراخ میں چاقو گھسیڑ ڈالا ہے
***
شہر کی شکل کو مسمار کیے دیتا ہوں
ایک دو تین سے پھر چار کیے دیتا ہوں
دن بھر اس جسم کو ڈھاتا ہوں بڑی مشکل سے
رات بھر میں اسے تیار کیے دیتا ہوں
پہلے سب تیرے تماشے کے لیے تھا اور اب
دل کی بینائی سے انکار کیے دیتا ہوں
مارتا ہے مجھے ہر روز خدا اور زندہ
خود کو آخر میں ہر اک بار کیے دیتا ہوں
کام کا ہے مگر اس عشق کو میں ہر دفعہ
جان کے بوجھ کے بیکار کیے دیتا ہوں
***
گلا بھی گھونٹ نسیں بھی نچوڑ دے میری
میں چاہتا ہوں کہ تو جان چھوڑ دے میری
میں اس کی ران میں کاٹوں تو بلبلا اٹھے
اور اس کے بعد وہ ہڈی بھنبھوڑ دے میری
دکھا تو پھر وہی بدمست کاسنی رنگت
پھر اس کے بعد یہ آنکھیں بھی پھوڑ دے میری
میں اس سے ٹوٹ کے کیسا ہراساں پھرتا ہوں
ذرا سی پھر وہی تنہائی جوڑ دے میری
***
ردیف جوڑ کے اور قافیہ گھٹاتے ہوئے
غزل بنائی ہے میں نے ہوا میں گاتے ہوئے
ذرا سا موم ہی ٹپکا تھا اس انگوٹھے پر
جو اس نے شور مچایا ہے بلبلاتے ہوئے
وہ شخص اللہ قسم خوبرو بہت ہے مگر
کبھی نہ دیکھنا اس سر پھرے کو کھاتے ہوئے
ذرا سی سوچ لگے گی کسی حسینہ کی
ذرا سا زور لگے گا بدن بڑھاتے ہوئے
غزل وزل تو مجھے راس آگئی لیکن
میں اس کی شکل بدل دوں گا اس میں آتے ہوئے
***
ٹرک کے پیچھے لکھی شاعری ہماری ہو
اور ایک حقہ کی نے اس بدن سے جاری ہو
بھرا پرا ہے مرا گھر سو اس میں کس طرح
ترے گداز تصور سے شب گزاری ہو
وہ پانچ انگلیاں تا عمر میرے ساتھ رہیں
کہ جن سے نقرئی پانی کا فیض جاری ہو
خدا مزہ ہی نہ آجائے جب ہمارا دل
اس ایک رنگ شوالے کا ہی پجاری ہو
وہ میرے سیدھے بدن پر پڑی رہے اوندھی
بلا سے اس کا بدن سانڈ جیسا بھاری ہو
***
ایسا نیک رہا ہوں میں
ایکا ایک رہا ہوں میں
چل اے حسن کی مورت آ
ماتھا ٹیک رہا ہوں میں
تجھ سے سچی محبت ہے
ہا ہا! پھینک رہا ہوں میں
سیدھا دریا کیوں ہوجاؤں
الٹی لیک رہا ہوں میں
میٹرو میں ہوں اور اپنی
آنکھیں سینک رہا ہوں میں
***
خدا کی بات تو میٹھی تھی اور پیاری تھی
مگر یہ نہر تھی جنت کی اور کھاری تھی
سو تونے لوٹ لیا مجھ کو اپنے ہونٹوں سے
کہ ان میں ایک بڑی سرخ ہوشیاری تھی
میں اس میں بھی تجھے بتلا نہ پایا حال دل
اگر اصول سے دیکھو تو میری باری تھی
وہ رات زلف میں تو باندھ لی تھی تو نے مگر
دراصل وہ ترے اپنے بدن سے بھاری تھی
نہیں ملا تو خدا کی ہی مصلحت تھی کوئی
جو مل گیا ہے تو ساری خطا ہماری تھی
***
کہانی لکھی تھی میں نے نئے مہاجن پر
اور ایک بھیگی ہوئی ململی سی کترن پر
میں میر انیس پہ لکھ کر ہوں مطمئن لیکن
مجھے تو لکھنا تھا پرچے میں میر امن پر
میں ایک مور ہوں اور مجھ کو نظم لکھنی ہے
کڑکتی بجلی پر اور سانورے سے ساون پر
ہمیں تو رات کا ڈر بھی بہت ستاتا ہے
اور اپنی ٹرین بھی آنی ہے چار باون پر
مجھے تو شرم سی آتی ہے یہ بتانے میں
کہ میرا دل کبھی مچلا تھا اک بھکارن پر
***
شب ہے، کسی کے چلنے کی دھیمی اواز ہے
یہ سیر ویر اصل میں سناٹا ساز ہے
سب کام ہی بگڑتے گئے رفتہ رفتہ اور
میں سوچتا رہا کہ خدا کارساز ہے
پانی کا سب طلسم دکھاتی ہوئی یہ لہر
اک ڈوبتے ہوئے کی صدا پر دراز ہے
میں مررہا ہوں بھوک سے لیکن کہیں کوئی
اس میں بھی رزق بانٹنے والا کا راز ہے
شکنیں بنارہی ہے یہ صحرائی سرزمیں
اور ان پہ لوٹتا ہوا اکلوتا باز ہے
***
بیراگی کردے یا مجھ کو رنگ برنگی چونر دے
اس بے رنگ پیالے میں تو آج وہی پتھر بھردے
جسم کو اپنے آج میں خونی عطر سے بھر کر لایا ہوں
ناخنی خنجر گاڑ کے میرے ہونٹوں کو خالی کردے
خالی برتن ناچ رہے ہیں ادھر ادھر سب شکموں میں
فرق نہیں کچھ آج وہ اڈلی دے مجھ کو یا سانبر دے
کالی پیٹھ پہ بیٹھ کے اپنے ہاتھ ملوں اور خون اڑاؤں
اونگھ پڑی ہے سارے بدن میں اس کو کارا مچھر دے
***
اپنے سارے سپنے جب پھل پھول رہے تھے
ہم دونوں رونے کا موسم بھول رہے تھے
وہ بھی کون سی خسرو زادی تھی آنکھوں کی
اپنے دل پر بھی کب ہاتھی جھول رہے تھے
جسم کی باری آئی تو بے چارے غازی
اک بے کار ریاضت میں مشغول رہے تھے
جسم جلانا، مٹی کھانا، چھینٹہ کسنا
دنیا کے کیسے کیسے معمول رہے تھے
***
چڑھا نہ گھاٹ کبھی عشق منتہی اپنا
مگر ہمیشہ ہمارا رہا وہی اپنا
***
وہ ہاتھ رکھ کے ہونٹوں پہ کیا مسکرائی ہے
انجام اچھا ہوتا ہے ان ابتداؤں کا
ہم بھی سنیں گے بھوت کے قصے تمام رات
دیکھیں گے ہم بھی گھر میں گھس آنا بلاؤں کا
میرے لبوں کو اس کی زباں کاٹتی ہوئی
کتے کی بھونک بھانک پہ حملہ میاؤں کا
جب سے ترے وصال کی چکھی ہے میں نے دھوپ
کچھ احترام کرنے لگا ہوں میں چھاؤں کا
بیوی کے سامنے نہیں آتا کوئی نظر
کتنا بھی ہم کو قرض چکانا ہو ماؤں کا
***
دل میں پھوٹا ہے کوئی جشن دوالی کی طرح
مجھ کو درگا بھی پسند آئی ہے کالی کی طرح
یہ گلی اس کے ہی چھجے کی طرف کھلتی ہے
اس لیے ٹہلتا رہتا ہوں موالی کی طرح
تو مرے خواب کی تپتی ہوئی گاجر رکھ لے
اور کھاجاؤں تجھے میں کسی گالی کی طرح
نئے اسلوب کی بنیاد ہے میرا ہر شعر
ورنہ سب شاعر اردو تو ہیں حالی کی طرح
***
زور دکھلاتا ہے اللہ کی صناعی کو
آؤ صاحب کوئی سمجھاؤ مرے بھائی کو
یہ اکیلے میں بھی کچھ کام نہیں کرتی ہے
کسی لائق تو بنادے مری تنہائی کو
بندگی کام میں آجائے گی اس دن جس دن
بھول جاؤں میں اس اک عاقبت آرائی کو
سجدۂ جسم کو اک دیوی میسر نہیں ہے
شرم آتی ہے کبھی کثرت مولائی کو
پیٹ پر باندھ کے پتھر یہ پھرا کرتی ہے
دیکھ کر رو دیا میں جسم کی ماں جائی کو
***
وہ شخص کچھ نہیں ہے نظر کا وبال ہے
جس کے لیے بدن کی بڑی دیکھ بھال ہے
اک نقطۂ نظر کی کمی ہے وگرنہ وہ
پتھر نہیں ہے، آگ کی روشن مثال ہے
جتنا بھی اس سے لیجیے ہوتی نہیں کمی
کس دولت قیاس سے وہ مالا مال ہے
جی میں تو سو برس سے یہی ہے کہ مان لیں
اس نقطۂ حرام پہ سب کچھ حلال ہے
وہ مرگیا کہ اس کی کہیں شادی ہوگئی
میرے لیے تو دونوں ہی صورت میں کال ہے
اک حلقۂ انار میں چاندی کی بازگشت
ایسی مثال ہے تو مگر خال خال ہے
***
رات برسات ہوئی اور جھماکے سے ذرا
ٹین کی چادریں گرتی تھیں دھماکے سے ذرا
گیلی مٹی کا مکاں ہے اسی چوراہے پر
ہاں اسی روڈ پہ آگے کو ہے ناکے سے ذرا
وہ بدن کانسہ صفت اور چمک اٹھتا ہے
مری آنکھوں کے مسلسل یونہی تاکے سے ذرا
بھیڑیے کی طرح بستر پہ جھپٹ پڑتا ہے
جان آجاتی ہے اس جسم میں فاقے سے ذرا
***
سارے ٹوٹکے جعلی ہیں اور ساری باتیں فرضی ہیں
ہم سب بس اک بوسیدہ کمرے کے بوڑھے درزی ہیں
ہم مجبوروں پر مختاری کی تہمت بے کار نہیں
جو اپنے دھندے ہیں اصل میں وہ ہی مولا مرضی ہیں
چوما چاٹی کے بھی سارے تنتر پرانے کر بیٹھے
جسم کی آپا دھاپی میں کیا فتنے قرضا قرضی ہیں
***
پناہ چاہیے ہر ذی نفس کو پانی سے
مگر گزرنا ہے اس وقف درمیانی سے
مجھے پسند بھی آتا نہیں ترا کردار
نکالتا بھی نہیں میں اسے کہانی سے
یہ زہد وہد کا چکر اگر سہی ہے تو پھر
نکال کر کوئی دیکھے بدن جوانی سے
ذرا تو غور کرو حکمتوں کو کام میں لاؤ
کوئی تو فائدہ نکلے گا دل کی ہانی سے
جو تو نہیں ہے تو پھر موت ہی چلی آئے
مگر سلیقے سے یک گونہ مہربانی سے
***
اک شام جل رہی تھی کہیں درمیان میں
میرے سجے سجائے ہوئے اس مکان میں
میں نے بھی اس کو نقل نہ کرنے دی زندگی
اس نے مجھ کو ڈال دیا امتحان میں
تنہائی کے عذاب سے گھبرا کے رو دیا
میں اپنے جسم میں تو خدا آسمان میں
شب ٹس سے مس نہ ہوتی تھی، اس روسیاہ کی
اٹکی تھی ساری جان فقط ایک نان میں
پانی کا زور بڑھ سا گیا ہے زمین پر
اللہ رکھے شہر کو اپنی امان میں
وہ کھردرا سا ہاتھ تھا مونڈھے پہ خواب کے
اور آنکھ کھل گئی مری اس کھینچ تان میں
***
اب کے مری آواز پہ ایسی ہی بنی ہے
جس لفظ کا سر خم نہیں گردن زدنی ہے
منہ زور ہے یہ جذبۂ وحشت سو رہے گا
اک رگ کہ ہمیشہ سے تنی تھی سو تنی ہے
پانی سے کوئی مسئلہ حل ہو نہیں سکتا
مٹی کا مقدر یہی آتش بدنی ہے
گھر میں نہیں کچھ بھی مگر اک تقوۂ شب ہے
کاٹو نہ ابھی شور کہ اللہ غنی ہے
میرا بھی وہی دید کا جھگڑا ہے خدا سے
مجھ پر بھی وہی ایک عتاب ارنی ہے
***
بہت دن سے ترا کیسا مداوا ہورہا ہے
غم دنیا مجھے ملجا و ماویٰ ہورہا ہے
ابھی سے جسم کو رخصت نہ دے اے وحشت عشق
ابھی تیار آنکھوں کا بلاوا ہورہا ہے
دماغ خواب اب اکتاگیا ہے اس گلی سے
مگر دل پر اسی نقشے کا دعویٰ ہورہا ہے
***
اک سیال صدا آنکھوں میں بہتی ہے
تیرے جیسی چیخ رگوں میں بہتی ہے
میں پانی میں ڈوب رہا ہوں اور ندی
خاموشی سے ان موجوں میں بہتی ہے
لہر ہوا کی ہنستی ہے، اٹھلاتی ہے
گھر میں بہتی ہے گلیوں میں بہتی ہے
***
کبھی تو عشق مجازی بھی واقعاتی ہو
مجھے وہ اپنے بدن کا ہنر دکھاتی ہو
ہزار ذاتی ہو امکان جنس تنہائی
مگر جو رقص دکھائے تو کائناتی ہو
صدا وہی ہے جو اک حرف کن کی صورت میں
کہانیوں کی طرح سب میں سنسناتی ہو
وہی ہو نکتۂ موجود غالباً جس پر
ہماری سوئی ہمیشہ ہی رک سی جاتی ہو
***
رات ہوا کا سارا قصہ ٹانگوں کی تقدیر میں تھا
اور مرا تہذیبی ہزارہ لمحۂ عالم گیر میں تھا
تیرے آجانے سے مٹی سوکھ گئی ہے آنکھوں کی
جسم کا سارا نم القصہ رونے کی تاثیر میں تھا
بیٹھ کے ہم نے اپنے جلتے پاؤں کو تسکین تو دی
لیکن سب کا بیٹھتے جانا قدموں کی تعذیر میں تھا
اس پنے پر میں نے سب کچھ لکھا اور پھر کاٹ دیا
اصل میں میرا سارا لکھنا اس چھوٹی سی لکیر میں تھا
جب سے ہم نے سوچنا سیکھا ہم لکھنا بھی سیکھ گئے
پھر تو لطف سلیم احمد میں اور نہ سراج منیر میں تھا
***
نہیں ہے اس سے مجھے عشق کا یقیں شاید
گمان ہے مگر آخر گمان کب تک ہے
اس ایک جلتی ہوئی باڑھ پر لیے بندوق
کھڑا ہوا فقط اللہ خان کب تک ہے
سنا ہے آگ برستی ہے اس کے ہونٹوں سے
یہ بات ہے تو ہوا کا مکان کب تک ہے
اگر ہے بھوک مقدر ہماری نسلوں کا
تو پھر زمین کی چھوٹی سی نان کب تک ہے
میں رینگتے ہوئے یہ دیکھتا ہوں ٹانگوں پر
کہ ان روؤں میں سمندر کی تان کب تک ہے
***
میں ایک خطۂ لا ممکنات و ممکن میں
نظر نہ آؤں اگر جسم کے خزائن میں
تو اس کو رات میں ناخن سے پھر کریدوں گا
وہ روشنی جو کہیں مجھ سے کھو گئی دن میں
میں ایک سکۂ نذر و گزار ہوں مجھ کو
کبھی تو باندھ بدن کے امام ضامن میں
***
شب کہیں رستے ہوئے زخموں کا خمیازہ نہ ہو
دن کے تلووں پر ہواؤں کا سیہ غازہ نہ ہو
دیکھ کر اب انتخاب خواب کرنا زندگی
یہ نہ ہو کہ خود کو کھو دینے کا اندازہ نہ ہو
ایسی کچھ افسردگی پانی پہ لکھی ہونٹ نے
جیسے یہ مٹی زدہ برسوں میں بھی تازہ نہ ہو
زخم کو صیقل کیا برسوں میں اس تنہائی نے
اور مرہم چاہتا ہے کوئی آوازہ نہ ہو
کاٹ اپنی روح کو ایسے کہ اس کا اضطرار
رقص میں آجائے لیکن برسر اعضا نہ ہو
***
کیوں کشمکش میں ہیں کہ ہمارا نہیں کوئی
ہم ہی پکار لیں جو پکارا نہیں کوئی
میں خود سمندروں سے زیادہ تباہ ہوں
اور اس لیے کہ میرا کنارہ نہیں کوئی
ہم دونوں بادشاہ اکیلے بساط پر
جیتا نہیں جو کوئی تو ہارا نہیں کوئی
***
دریائی ہوجانے کی خواہش میں ہم صحرائی ہوئے
ایک اکیلے ہم ہی کیا ہم جیسے کتنے بھائی ہوئے
حیرت ہے کہ میں اس سے اکتایا نہیں ہوں رتی بھر
ایک برس سے زیادہ گزرا ہے شاید تنہائی ہوئے
اس بستی پہ غلامی کے بادل چھائے اور پھٹ بھی گئے
ایسی باڑھ آئی کہ جتنے بندے تھے مولائی ہوئے
دل کی قیمت کون لگا سکتا تھا ان بازاروں میں
اب تو عرصہ بیت گیا ہے اس جیسی مہنگائی ہوئے
***
1915 کی بات ہے ، میں نے گھر پر تار دیا
ابا جی کو اک انگریز نے چوراہے پر مار دیا
نقشے باندھ دیے ہیں لوگوں نے میری بینائی پر
پاؤں مجھے بیکار ملے ہیں دل تونے بیکار دیا
آخری داؤ پہ میں نے اپنا جسم لگایا اور اس کے
آگے ہنستے ہنستے اپنا آخری داؤ بھی ہار دیا
اللہ میاں کاشکر مناؤ جس نے ہم کو دنیا دی
اور دنیا نے ٹیبل بخشی ، ٹیبل پر اخبار دیا
***
چاکلیٹی رنگ کی لڑکی سے مجھ کو پیار تھا
پیار کیا تھا، صرف ٹھنڈی رات کا اصرار تھا
تجربہ شیطاں کا میرے پاس تھا، لیکن مجھے
آگ ہو کر مٹیوں میں لوٹنا دشوار تھا
جھوٹ کی بنیاد پر میں نے سکھایا سچ اسے
یعنی میرا سچ ہی سارا جھوٹ تھا، بیکار تھا
***
طلسم ہوشربا کے ورق چباتا ہوا
مجھے وہ سرسری کردار یاد آتا ہوا
پلٹ کے دیکھ رہا تھا خدا کو میں لیکن
وہ ایک اور تماشے کو تھا بناتا ہوا
نقاب نوچ کے اس نے زمین پر پھینکا
بدن بھی چیخ کے بھاگا نظر چراتا ہوا
ررک ررک کے مرا ساتھ دے رہا تھا وہ جسم
وصال کرتے ہوئے بھی مجھے سلاتا ہوا
***
دو ہی چیزیں زندگی بھر مجھ کو راس آئی نہیں
مسئلہ گیہوں میں تھا یا مسئلہ تھا سیب میں
انگلیاں اک کاغذی آواز سے ٹکرائی تھیں
ڈائری کا آخری صفحہ پڑا تھا جیب میں
جسم سے باہر نکل کر دیکھتا کیا ہوں کہ میں
ایک مدت سے پڑا تھا وقت کے آسیب میں
***
مٹی تھا خود کو مٹی میں سان کے نکلا
جسم کا قیدی سب کا کہنا مان کے نکلا
میں نے اس پر اپنی آنکھیں گاڑیں لیکن
وہ کمبخت بھی اپنا سینہ تان کے نکلا
***
خالی دن میں گھوم کے چکھا ہے کتنی دوپہروں کو
تب جا کر قبضہ میں لیا ہے میں نے شام کی لہروں کو
بولنے والا بول رہا تھا عشق کرو، آباد رہو
لیکن نفرت چوم رہی تھی اندھوں، گونگوں، بہروں کو
گاؤں کے سب میلے ٹھیلے چاٹ گئی تھی ویرانی
پھر بھی ہجرت کم نہ ہوئی تھی شور مچاتے شہروں کو
خون آلود کیا تھا کتنے ہی خود کش بمباروں نے
پاؤں کے نیچے بہنے والی ٹھنڈی میٹھی نہروں کو
***
وہ جستہ جستہ جسم کو کھائے تو دیکھنا
قصہ کوئی بدن کا دکھائے تو دیکھنا
میرا زوال آگیا میرے عروج سے
تم کو کوئی نظر نہ لگائے تو دیکھنا
مڑنے کو میں نے منع کیا تو نہیں تمہیں
لیکن وہ خود اواز لگائے تو دیکھنا
دل میں خدا کا خوف بٹھا دو پھر اس کے بعد
اک دن خدا کو خوف نہ آئے تو دیکھنا
***
اس سمت کھینچتے ہیں مرے پاؤں کس طرح
ایڑی گھما کے بھوت میں بن جاؤں کس طرح
دنیا مرے قدم سے لپٹ کر چلی گئی
میں سوچتا ہی رہ گیا ٹھکراؤں کس طرح
تو کوئی دروپدی تو نہیں میری زندگی
اور میں بھی کورؤں سی ہوس لاؤں کس طرح
اللہ خون دیکھ کے بے حد اداس ہے
میں اس شہید شوق کو سمجھاؤں کس طرح
***
ایک جہنم دجالی ہے اک جنت شدادی ہے
اس میں جلنے کی اس میں خوش رہنے کی آزادی ہے
خود سے عشق نبھاکر دیکھا ہوگا کتنے لوگوں نے
کتنے لوگوں نے سمجھا ہوگا کہ یہ بربادی ہے
اس کی آنکھوں میں تھی شام اور میرے ہاتھوں میں تھی رات
اس نے شام بجھادی ہے اور میں نے رات اڑادی ہے
***
ہوس کی شکل تھی یہ بھی کہ کرفیو میں اسے
نظر جو آئی تو اک لیڈی کانسٹیبل ہی
شعائیں جا نہیں سکتی ہیں جھاڑیوں کے ادھر
تو پھر جلا نہ دیا جائے کیوں یہ جنگل ہی
یہ بارشیں نہیں سایے ہیں سارے پگھلے ہوئے
اگرچہ کہتے ہیں سب لوگ ان کو بادل ہی
میں عشق اپنا جتاتا ہوں اور چٹکی میں
پکڑ کے بیٹھا ہوں اب تک دھوئیں کی ڈنٹھل ہی
یہ روٹی داڑھ کا درد اور بھی بڑھادے گی
مجھے تو چاہیے کھانے میں دال چاول ہی
***
اس عورت کی عمر پچاس کے پیٹے میں تھی
لیکن وہ اب بھی آنکھوں کے لپیٹے میں تھی
اپنے لفظ پہ مرمٹنے کا فن آتا تھا
باپ کی بس اتنی سی عادت بیٹے میں تھی
***
بنا سجا کے بہت دیر تک رکھا گیا میں
سو تنگ آکے سجاوٹ سے خود کو کھاگیا میں
ترا بدن تھا کہ اللہ تھا نہیں معلوم
جو میرے سامنے آیا تو دیکھتا گیا میں
وہ زلف بھیگ گئی تھی سیاہ پانی میں
اور ایسے نیل اندھیرے میں ہی نہا گیا میں
***
پس نوشت
’’زرناب‘‘ میری بھتیجی اب نو مہینے کی ہوگئی ہے اور اس کی کلکاریوں میں میری خوشیاں رقص کرتی ہیں۔میں اسے دیکھتا ہوں تو اب زندگی کے اور طرح کے تجربے پروان چڑھتے ہیں اوریہ تجربے شاعری میں بھی داخل ہوتے جارہے ہیں۔یہ آخری صفحہ شکریے سے زیادہ میرا کچھ لوگوں پر حق ثابت کرتا ہے، جن سے رشتہ اور دوستی میری زندگی کا سب سے قیمتی سرمایہ ہے۔میرے والد فصیح اکمل، والدہ شمع اکمل، برادران سید ساحل ذیشان،راحیل رضوی، ترجمان سید، تالیف حیدراور تعظیم حیدر اور بہنیں سیدہ شائستہ عرف خوشبو، مائدہ، فائزہ یہ سب کہیں نہ کہیں میرے فن کو تقویت پہنچانے اور میری زندگی اور شعر کے تجربوں میں شریک رہے ہیں، بھابھی پریتی ساحل عرف عائشہ اور زینت رضوی دونوں ہی اب اس طرح ہمارے خاندان کا حصہ ہیں، گویا کبھی دور تھیں ہی نہیں۔
مخلص و مشفق افراد میں الیاس ملک، منیب الرحمن، شارق علی، اعجاز گل، ستیہ نرائن ہیگڑے، ارجمند آراکا نام ایسا ہے، جن کا میری زندگی کے تعمیری حصے میں بڑا اہم کردار ہے۔ان کے بغیر شاید آج میں یہ کتاب شائع کرنے تو دور زندگی کرنے سے بھی قاصر رہتا ۔
بے تکلف دوستوں میں اور خدا کی عظیم نعمتوں میں مصعب اقبال، فیضان علی، سالم سلیم، زمرد مغل، شہرام سرمدی، معید رشیدی، راغب اختر، ابھیشیک شکلا، وکاس شرما راز، پراگ اگروال ،مہیندر کمار ثانی، گورو مشرا اور سینل بشٹ شامل ہیں۔جن کے ساتھ گزرے ہوئے لمحے کبھی تخلیق میں ڈھلتے ہیں کبھی زندگی میں۔
اور کچھ ایسے بھی ہیں، جن کے نام اس وقت یاد نہیں آرہے۔
اور کچھ ایسے بھی ہیں، جن کی دشمنی نے بھی میرے حق میں اچھائی ہی کی۔
ان تمام لوگوں کا شکریہ ادا نہیں کررہا ہوں،کر نہیں سکتا، کیونکہ یہ سب میرا ہی ایک حصہ ہیں اور میں ان سب کا، یہ تو قدرت کا حکم ہے اور میں اس حکم سے خوش بھی ہوں، مطمئین بھی۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں