اتوار، 8 مئی، 2016

آپ کا کافی ہائوس/محمد خالد اختر

بہت کم لوگوں کو اس بات کا علم ہوگا کہ ’’انڈیا کافی ہاؤس‘‘ کے بند ہونے کے کوئی دو ہفتے بعد سونادر میں عبدالغفورلانڈری ورکس کی بغل میں ایک نیا کافی ہاؤس معرضِ وجود میں آیا تھا۔ اس کافی ہاؤس کی زندگی چراغِ سحری کی طرح بہت مختصر تھی اور یہ ایک کمزور دیے کی مانند چند ہی روز ٹمٹما کر ہمیشہ کے لیے گُل ہو گیا۔ میں اس افسوسناک واقعے میں ایک اہم کردار تھا۔ شاید آپ اس کافی ہاؤس کی پسِ پردہ، اصل کہانی سننا چاہیں گے۔
جب میں ایک روز شام کو چچاعبدالباقی سے گپ شپ کی خاطر اس کے گھر پر گیا تو میں نےاسے ہمیشہ کی طرح اپنے چیک کے سوٹ میں ملبوس صوفے پر دراز ایوننگ سینٹینل کا مطالعہ کرتے ہوئے پایا۔ اس کے چاند جیسے گول بدھ سے چہرے پر ایک قسم کا عرفانی نور پیدا ہورہا تھا اور یہ ظاہر تھا کہ اس کا موجب ایوننگ سینٹینل ہے۔
’’بھتیجے!‘‘ اس نے سامنے کرسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، ’’میں تمھارا ہی انتظار کر رہا تھا۔ بیٹھو! میں تم سے ایک ضروری معاملے میں مشورہ کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
اس کے سنجیدہ انداز اور اس کی آنکھوں کی عجیب روشنی سے میں فوراً جان گیا کہ یہ ضروری معاملہ اس کی روپیہ کمانے کی کسی اورمجنونانہ اسکیم کے متعلق ہوگا۔ اخبار کی کسی خبر کے مضمون نے اس کے تخیل کو بھڑکادیا ہو گا اور دولت پیدا کرنے کا کوئی اور طوفانی طریقہ اس کے پُرجدّت اور حیران کن دماغ میں آبسا ہوگا۔ لیکن چونکہ اس کی ایسی سب اسکیموں کے لیے ایک سرمایہ لگانے والے حصے دار کا ہونا ضروری ہوتا ہے، اور پچھلے دو تین سال سے وہ سرمایہ دار لامحالہ میں ہوتا رہا ہوں، اس لیے چچا کی اس ضروری معاملے میں مجھ سے مشورہ کرنے کی خواہش کو بخوبی سمجھا جاسکتا ہے۔ وہ دنیا میں واحد شخص ہے جو مجھ سے کاروباری معاملے میں، یا کسی بھی معاملے میں، مشورہ لیتا ہے، اور قدرتاً اس سے میرے جذبۂ خود اہمیت کی تسکین ہوتی ہے۔
چچاعبدالباقی نے مجھے اپنی عینک کے شیشوں کے اوپر سے جھانکتے ہوئے کہا،’’بھئی بختیار، تم نے ایوننگ سینٹینل میں یہ خبر دیکھی ہے کہ انڈیا کافی ہاؤس بند ہو گیا ہے،مینجمنٹ نے اسے خود بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘‘
میں نے اس خبر کو ایوننگ سینٹینل میں نہیں پڑھا تھا — میں ٹی ایل گلہری کے اخبار کو کم ہی پڑھتا ہوں — لیکن بلاشبہ میں کافی ہاؤس کے بند ہونے کے سانحے سے پوری طرح آگاہ تھا۔ اس سے مجھے ذاتی دھچکا لگا تھا اور فی الحقیقت میں انڈیا کافی ہاؤس میں روزانہ جانے والے اور وہاں گھنٹوں بیٹھے رہنے والے انٹلیکچوئلز میں سے تھا، جو اس کے بند ہوجانے سے اپنے آپ کو ایسے جہازوں کی طرح محسوس کر رہے تھے، جن کا لنگر نہ رہا ہو اور جن کو اس سانحے سے جانکاہ صدمہ پہنچا تھا۔ ان سے ان کی امان گاہ اور ان کے ملنے کا اڈہ چھین لیا گیا تھا۔
’’ہاں چچا!‘‘ میں نے دلی کرب سے جواب دیا۔ ’’آج اس کا آخری دن تھا۔ میںابھی ابھی وہاں سے اٹھ کر ہی آرہا ہوں۔‘‘
’’تم نے یہ بھی پڑھا ہے،‘‘ چچانے ایوننگ سینٹینل کے پرچے کو میری طرف بڑھاتے ہوئے کہا، ’’ٹی ایل گلہری نے اپنے غپ کے کالم میں لکھا ہے کہ حکومت نے کافی ہاؤس کو خوداپنی کارروائی سے بند کیا ہے، کیونکہ لمبے بالو ں والے سوٹڈ بوٹڈ انٹلیکچوئل اور کمیونسٹ لوگ یہاں کافی کے سستا ہونے کی وجہ سے سارا سارا دن بیٹھے حکومت کے خلاف سازشیں پکاتے رہتے تھے اور لوگوں میں ہراس اور بے اطمینانی پھیلاتے تھے۔ گلہری نے کافی ہاؤس والو ں پر یہ الزام بھی تھوپا ہے کہ وہ اپنے گاہکوں کو کافی کے ساتھ کیشونٹ مہیا نہیں کرتے تھے، کیونکہ ہندوستان سے کیشونٹ آنے بند ہوگئے تھے۔ اس کی رائے میں یہ کافی ہائوس والے ففتھ کالمسٹ تھے۔‘‘
’’گلہری کا یہ لکھنا اس کا حد درجہ اوچھا پن ہے، ‘‘ میں نے بھڑکتے ہوئے کہا۔ ’’اب جب وہ مجھے کبھی بازار میں جاتا مل گیا تو میں اس پر عملی طور پر واضح کروں گا کہ میری اس کے متعلق کیا رائے ہے — میں...‘‘
’’سو تمھارا خیال ہے کہ گلہری نے جو کچھ لکھا ہے، جھوٹ ہے؟ ‘‘
’’جھوٹ ہے، سراسر کمینگی — لمبے بالو ں والے انٹلیکچوئل! مجھے یقین ہے یہ میرے دوست جمیل پر حملہ ہے جو لمبے بال رکھتا ہے اور جو ہمیشہ کافی ہاؤس میں ملتا تھا۔ یہ گلہری کا ایک اوچھا وار ہے۔ حد درجہ کمینہ وار!‘‘
’’خیر، اس کو چھوڑو،‘‘ چچاعبدالباقی نے اخبار کو کرسی پر رکھتے ہوئے اور اپنی چھوٹی ٹانگوں کو سامنے میز پر پھیلاتے ہوئے کہا۔’’ہاں! میں تم سے ایک ضروری بات پر مشورہ کرنا چاہتا ہوں۔ ابھی ابھی ایوننگ سینٹینل پڑھتے پڑھتے مجھے یہ خیال سوجھا ہے... میرا خیال ہے کہ غالباً تمھیں روپیہ کمانے پر کوئی اعتراض نہیں ہے؟‘‘
اپنی انوکھی بے مثال روپیہ کمانے والی ترکیبیں پیش کرنے سے پہلے چچا عبدالباقی ہمیشہ مجھ سے یہ سوال کرتا ہے۔ میں جان گیا کہ اب کیا آنے والا ہے — ایک دیوانے پن کی اسکیم، مجھے حصے دار بننے کی پیشکش، ماہنامہ اُلّو کے اجرا اور یوگنڈا سے وکٹوریاؤں اورٹانگوں کے لیے زیبروں کی درآمد کی اسکیموں کی حسرتناک ناکامی نے مجھے چچا کی اسکیموں کے متعلق محتاط بنادیاتھا۔ میں نے اب یہ فیصلہ کر لیا کہ چچا کو اگر صرف مشورے کی ضرورت ہے تو میں اس کو بخوشی اپنا مشورہ دوں گا، لیکن اگر اسے مشورے کے ساتھ سرمایہ لگانے والے حصے دار کی بھی ضرورت ہے تو اب کے وہ سرمایہ لگانے والا حصے دار محمد بختیار خلجی نہیں ہوگا۔
چچاعبدالباقی نے اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو ملاتے ہوئے مجھے کچھ بزرگانہ نصیحت دی۔ ’’اِدھر دیکھو، بختیار بھتیجے! تم ابھی بچے ہو۔ تم ابھی نہیں سمجھ سکتے کہ روپیہ کمانا کس قدر ضروری ہے۔ میں نے اکثر دیکھا ہے کہ تم پہ اس بات کا بوجھ سا رہتا ہے کہ تم اپنے والد کے روپئے پر جی رہے ہو۔ میاں، نوجوان آدمی ہو، ہمت کرو، کچھ کماؤ، روپیہ پیدا کرو، روپیہ! جب میرے جیسا شخص تمھیں لاکھ روپئے کے مشورے دینے کے لیے موجود ہے تو حیرت کی بات ہے کہ تم اس سے فائدہ نہیں اٹھاتے — ‘‘
میں نے روپیہ کمانے کے لیے اپنی آمادگی کا اظہار کیا۔
’’ماہنامہ اُلّو اور زیبروں کی اسکیم کی ناکامیابی سے مجھے جج نہ کرو، ‘‘ عبدالباقی نے اپنی صفائی پیش کرتے ہوئے کہا۔ ’’اس میں بدقسمتی سے ہمیں دوسرے لوگوں نے دھوکا دیا، اور تم بھی جلد دل چھوڑگئے، ورنہ ہماری کامیابی یقینی تھی۔ اس نئے بزنس میں ہم بالکل اپنے آپ پر بھروسا کریں گے، اپنی لائنز پر اس کو چلائیں گے۔ اچھا! پچاس فیصدی منافعے میں حصہ تمھیں غالباً منظور ہوگا؟ نہیں تو تم پچپن، بلکہ ساٹھ فیصدی حصہ لے سکتے ہو۔ صرف تمھارے کہنے کی دیر ہے۔‘‘ عبدالباقی اپنے سرمایہ لگانے والے حصے داروں کو ہمیشہ شرائط دینے میں فیاضی دکھاتا ہے۔
’’اسکیم کیا ہے، سن تو لوں!‘‘
’’ویسے پچاس پچاس کی شرکت بالکل منصفانہ ہے۔ اگر تم ساٹھ فیصدی منافع لو تو اس میں کوئی شک نہیں کہ تم زیادہ روپیہ کماؤ گے، مگر تمھارا دل خوش نہ ہوگا، تمھارے ضمیر میںایک خلش سی رہے گی کہ تم اپنے حصے دار سے منصفانہ سلوک نہیں کر رہے ہو۔ مان لیا کہ سرمایہ تمھارا ہوگا، لیکن یہ سوچتے ہوئے کہ مینجمنٹ کی ذمےداری کلّہم میری ہوگی اور اس سرمائے کو دوگنا اور تگنا کرنے کے پیچھے میرا دماغ کام کر رہا ہوگا، پچاس پچاس کی شرکت میرے خیال میں بالکل واجب ہے۔ میں منیجنگ ڈائریکٹر ہوں گا اور تم جنرل منیجر۔ تمھارے فرائض ہوں گے جگہ کو ٹپ ٹاپ رکھنا، بیروں کو مختلف میزیں نامزد کرنا، یہ بیرا ان میزوں پر کام کرے گا اور یہ ان پر، کافی اور کھانڈ کے اسٹاک کو محفوظ رکھنا...‘‘
’’کافی اور کھانڈ، تمھارا مطلب ہے کہ...‘‘
’’ہاں! انڈیا کافی ہاؤس کے بند ہونے کی خبر پڑھ کر مجھے سوجھا ہے کہ یہاں اب ایک نیا کافی ہاؤس خوب کامیاب ہو سکتا ہے۔ وہ سب انٹلیکچوئل اور دوسرے لوگ جو انڈیا کافی ہاؤس میں جایا کرتے تھے، ہمارے کافی ہاؤس کو نوازیں گے — اور ہم ان کو کافی کے ساتھ کیشونٹ بھی مہیا کریں گے۔ لیکن بھتیجے، ہمیں جلدی کرنی ہوگی، پیشتر اس کے کہ کوئی اور اس معاملے میں پہل کر ڈالے یا کافی کو زندگی کا لازم سمجھنے والے انٹلیکچوئل اس کے بغیر ہی جینے کے عادی ہو جائیں۔‘‘
یہ واقعی ایک معقول اور مضطرب کن تجویز تھی — لوگوں کو ان کا کافی ہاؤس واپس ملنا چاہیے!چچا عبدالباقی سے اپنی پہلی شرکتوں کی تاریخ کو بھول کر میں سوچنے لگا کہ یہ کافی ہاؤس عجیب چیز ہوگا۔ ایک شخص کافی ہاؤس میں ساری عمر خوش خوش گذار سکتا ہے۔ یہ چیز بالکل میرے مزاج کے مطابق ہوگی۔ مجھے ایسا معلوم ہوا کہ قدرت نے میرے لیے اصل کیریئر یہی مقرر کر رکھا تھا — کافی ہاؤس کا جنرل منیجر۔ میں اپنی نئی پوزیشن میں اپنے کو متصور کرکے گلابی خواب دیکھنے لگا۔
میں نے کہا، ’’چچا، ہندوستان سے کافی درآمد کرنے میں ہمیں دقت ہوگی۔‘‘
’’دقت کیا ہے؟‘‘چچا عبدالباقی کے لیے ہر ایک چیز سہل ہوتی ہے،’’ وزیرِ صنعت بھی میری طرح علیگڑھ کا اولڈ بوائے ہے۔ کل ایوننگ سینٹینل میں اس کی زندگی کے مختصر حالات سے مجھے یہ بات معلوم ہوئی۔ آخر ایک پرانے علیگیرین کا اتنا بھی لحاظ نہ کرےگا کہ کافی کی درآمد کا پرمٹ دینے سے انکار کردے۔ تم اس بات کی فکر نہ کرو، یہ سب ترددات عبدالباقی پر چھوڑو۔ اگر بفرضِ محال ہم ہندوستان سے کافی درآمد نہ بھی کرسکیں تو گاہکوں کو ٹین کی کافی تیار کرکے پلائی جاسکتی ہے اور اس عرصے میں یہ کیا جاسکتا ہے کہ ہم خود سندھ میں تمھارےباپ کے مربعوں میں کافی کی کاشت شروع کردیں گے۔‘‘
’’چچا! کافی تو صرف پہاڑی ڈھلانوں پر اور مرطوب آب و ہوا میں پیدا ہوتی ہے۔ سندھ میں — ‘‘
’’تت تت!‘‘ عبدالباقی نے ایک پرندے کی سی عجیب آواز نکالی۔ ’’جس زمین میں گندم اور کپاس اُگ سکتی ہے، اس میں کیا کچھ نہیں اُگایا جاسکتا؟ ابھی تک کسی نے اِدھر کافی کی کاشت کی کوشش ہی نہیں کی۔ میرے جو مربعے سندھ میں ہیں، ان میں دو تین ٹیلے بھی ہیں، ان کی ڈھلان پر تجربہ کیا جاسکتا ہے۔ خیر، یہ تو بعد کا سوال ہے۔ پہلے تو ہمیں کافی ہاؤس کے لیے مناسب نام تجویز کرناہے۔‘‘
’’نام،‘‘ میں نے دماغ پر زور ڈالتے ہوئے کہا، ’’کیوں نہ چچا، تمھارے نام پر اس کا نام باقی کافی ہاؤس رکھ دیا جائے؟باقی اور کافی ہم قافیہ بھی ہیں — ‘‘
چچاعبدالباقی اس سے بظاہر خوش معلوم ہوتا تھا، مگر پھر اس نے کسرِ نفسی کا اظہارکیا، ’’نام تو موزوں ہے، اور پھر میرے دل میں تمھاری اس عقیدت کی قدر ہے، مگر میں ابھی اتنا بڑا آدمی نہیں کہ اس عزت کا اہل بنوں۔ اور پھر نام میں جدت ہونی چاہیے۔ جدت بزنس میں کامیابی کا پہلا راز ہے۔ کوئی دوسرا نام۔‘‘
میں نے اسے کئی دوسرے نام تجویز کیے: پاک کافی ہاؤس، قائد کافی ہاؤس، روح افزا کافی ہاؤس... اس نے انھیں پسند نہ کیا۔
’’بسم اللہ کافی ہاؤس؟‘‘
’’یہ کوئی برا نام نہیں، مگر بزنس کے نظریے سے اچھا نہیں رہے گا۔ مولوی طبقہ کافی پینے کا زیادہ عادی نہیں، جیسا کہ تم جانتے ہی ہو۔‘‘
’’آپ کا کافی ہاؤس،‘‘ میں نے ویسے ہی کہا۔
’’بالکل یہی نام ہے! ‘‘ چچا عبدالباقی نے صاد کرتے ہوئے کہا۔ ’’اس نام میں جدت ہے۔ بس اب اللہ کا نام لے کر جنرل منیجر کی حیثیت سے ’آپ کا کافی ہاؤس‘ کے سائن بورڈ کے لیے آرڈر دے دو...‘‘
’’مگر چچا جگہ کہاں ہے؟ اور پھر روپئے کا سوال ہے۔ میری مالی حالت آج کل بے حد خستہ ہے۔ کل ہی مجھے اپنے ٹیلر کا نوٹس ملا ہے۔‘‘
’’روپیہ، ‘‘عبدالباقی نے مجھے ٹوکتے ہوئے کہا۔ ’’اپنے والد کو کہو کہ تمھیں دو ہزار روپئے ادھار دے دیں۔ چمڑے کے نرخ ان دنوں تیز رہے ہیں اور اس نے خوب ہاتھ مارے ہوں گے۔ یہ انتظام تم کرو، اور باقی رہا جگہ کا سوال، سوجگہ میں دیتا ہوں۔ میرے ایک دوست محمد باقر کی سونادرمیں آہنی پیچوں اور قبضوں وغیرہ کی دکان ہے، جو غالباً گھاٹے میں چل رہی ہے۔ محمد باقر بھی تمھاری ہی طرح میرا بھتیجا ہے۔ چند دنوں سے وہ دکان کو میرے چارج میں چھوڑ کر منٹگمری اپنے ماموں کی فاتحہ خوانی کے لیے گیا ہوا ہے۔ اس دکان کے سامان کو فی الحال اٹھوا کر تمھارے فلیٹ میں رکھا جاسکتا ہے اور تم چاہو توسائیڈ لائن کے طور پران قبضوں اور پیچوں کی فروخت بھی کر سکتے ہو۔ ہم محمد باقرکی فروخت پردس فیصدی کمیشن چارج کریں گے — آخر کمیشن تو ہمارا حق ہے۔ بزنس بزنس ہے۔‘‘
’’اور جب محمد باقر واپسی پر اپنے اسٹور کو کافی ہاؤس میں بدلا ہوا دیکھے گا تو — ‘‘
’’میں نے اس کی بابت سوچ لیا ہے، ‘‘ چچاعبدالباقی نے اطمینان سے کہا۔ ’’میں اس کو راہ پر لے آؤں گا۔ آخراس کی قبضوں کی دکان منافعے پر تو چل نہیں رہی ہے۔ اسے کافی ہاؤس میں دس فیصدی کا شریک بنا لیں گے۔ معقول بھلا مانس ہے۔‘‘
ہم نے اس معاملے پر کچھ دیر اور بحث کی اور جب میں اس کے گھر سے باہر نکلا تو میں چچا عبدالباقی کا سرمایہ لگانے والا حصے دار بننے کا فیصلہ کر چکا تھا، مگر قبلہ گاہی سے روپیہ حاصل کرنے کا سوال مجھے فکر مند کر رہاتھا۔
۲
میرا باپ ایک شفیق اور بامروت باپ ہے، پھر بھی بوڑھے آدمی سے دوہزار روپئے اگلوانے کا معاملہ ٹیڑھی کھیر تھا۔ اس کے لیے نہایت لطیف اور نازک پیرایۂ اظہار کی ضرورت تھی اوراس کی مشکلات کا اندازہ کچھ وہی نوجوان کرسکتے ہیں، جنھیں اپنے والد سے روپئے حاصل کرنے پڑتے ہیں۔ اپنے پہلے بزنس کی کوششوں میں افسوسناک ناکامیوں کے بعد میں بوڑھے آدمی کی نگاہوں میںاپنا بھرم کھو بیٹھا تھا اور وہ سمجھتا تھا کہ مجھے روپیہ حوالے کرنا یا اسے بدرو میں بہادینا برابر ہے۔ مجھے اب کے بڑا پھونک پھونک کر قدم رکھنا پڑا اور کئی ایک ڈوریں کھینچنی پڑیں۔
میں نے بوڑھے آدمی کو اپنے نئے بزنس کے بارے میں ذرا بھی اشارہ نہ دیا کہ وہ کس نوعیت کا ہے۔ میں نے اس امر کو مخفی رکھاکہ اس کا کافی ہاؤس سے کسی قسم کا تعلق ہے یا یہ کہ چچا عبدالباقی اس میں پچاس پچاس کا شریک ہے(یعنی منافعے میں)۔ بوڑھے آدمی کی چچا عبدالباقی کی کاروبارانہ صلاحیتوں کے متعلق جو رائے ہے، اسے اگر یہاں اس کے اپنے الفاظ میں لکھ دیا جائے تو شاید خوش مذاق پڑھنے والو ں کی طبع پر گراں گذرے۔ بہرحال میرے باپ کے عقائد میں سے ایک عقیدہ یہ بھی ہے کہ جس کاروبارمیں چچا عبدالباقی کا ہاتھ ہوگا، اس کی سو فیصدی ناکامی یقینی امر ہے۔
میں نے اور میری والدہ نے بوڑھے آدمی کو یقین دلایا کہ اس دفعہ میری کامیابی بالکل مسلّمہ ہے اور کامیابی میں شک کا ذرہ برابر بھی احتمال نہیں۔ میں نے اسے بتایاکہ میں نے اب کے سب سوچ سمجھ کر کیا ہے۔ وہ آنکھیں بند کرکے دو ہزار روپئے مجھے دے دے — صرف دو ہزارروپئے، اس سے ایک پائی زیادہ نہیں۔ میں انشاء اللہ تین چار مہینے میں اس روپئے کو تگنا بنالو ں گا، اور اسے خاطر جمع رکھنا چاہیے کہ یہ دو ہزار روپئے اسے مع سود کے لوٹا دیے جائیں گے۔ میں نے اس پر واضح کیا کہ یہ دو ہزار میں اس سے بطور قرض لوں گا، اور دس روپئے کے اسٹامپ لگے ہوئے کاغذ پر اقرار نامہ لکھ کر دینے پر آمادگی ظاہر کی۔ میں نے اس سے کہاکہ وہ دو ہزار روپئے مجھے دے دے اور پھر میرے متعلق سب کچھ بھول جائے، اور اگر اس کے بعد بھی کسی شخص نے اس سے روپیوں کے لیے کہا تو وہ شخص محمد بختیار خلجی نہ ہوگا...
بوڑھے آدمی کا دل پسیجا(وہ فطرتاً نرم دل واقع ہوا ہے)۔ خدا جانے وہ میرے نئے دلائل سے مرعوب ہوا یا نہیں۔ بہرحال، اس نے مجھے دو ہزار کا چیک اپنے بینک کے نام بھجوادیا۔ میں نے اسی روز اسے کیش کرایا اور نئے اورروح افزا کاغذوں سے ٹھنسی ہوئی جیبوں کے ساتھ، اور اپنے کو پہلے سے دُگنا محسوس کرتا ہوا، چچا عبدالباقی کے مکان پر پہنچاتاکہ اسے یہ اچھی خبر سنادوں۔
دوسرے دن صبح چچاعبدالباقی اورمیں سونادر میں محمد باقر کی دکان پر پہنچے۔ محمد باقر ابھی تک منٹگمری سے نہیں لوٹا تھا۔ دکان مقفل تھی۔ چچا نے اپنی جیب سے چابیوں کا ایک بڑا گچھا نکالا اور بہت سی چابیاں آزمانے کے بعد اسے کھولنے میں کامیاب ہو گیا۔ یہ ایک چھوٹی سی تاریک دکان تھی، جس میں لوہے کے حلقے، قبضے، قفل اور اسی قسم کی زنگ آلود چیزیں بھری پڑی تھیں۔ آدمی اندر بمشکل داخل ہو سکتا تھا۔ اس دکان کے دائیں طرف ایک پنساری کی دکان تھی۔ بائیں طرف عبدالغفور لانڈری ورکس تھی۔ میراچہرہ ڈھل گیا اور میرے سارے جوش اور ولولوں پر اوس سی پڑگئی۔
’’تم اس دکان کو کافی ہاؤس بنانا چاہتے ہو؟ ‘‘ میں نے چچا عبدالباقی سے کہا۔
’’دیکھونا...‘‘چچا بولا۔ ’’ذرا ان قبضوں وغیرہ کو باہر اٹھوالینے دو، پھر تمھیں اندازہ ہوگا کہ یہ جگہ کتنی کھلی ہے۔ ایک کیا، یہاں تو پورے دو کافی ہاؤس بنائے جاسکتے۔ یہی ایک کمرہ تو نہیں، اس کے اوپر محمد باقر کا اپنا رہائشی کمرہ بھی ہے، اور میرا ارادہ ہے کہ اس کمرے کو بطور کافی روم کے استعمال کیا جائے — یہ تمھاراانڈیاکافی ہاؤس بھی تو دوسری منزل پر تھا۔‘‘
میں اثبات میں کراہا۔
اوپر کا کمرہ بھی تقریباً دکان جتنا بڑا تھا — لحافوں، گٹھڑیوں اور زنگ آلود لوہے سے ٹھنسا ہوا۔ اس میں چوہوں کی بو کے ساتھ ایک اور تیز بو رچی ہوئی تھی — سڑی ہوئی پیاز کی بو۔ عبدالباقی کے دوست کی کھاٹ کے نیچے پیاز کے دو بڑے گٹھے رکھے تھے اور ایک گھی کا ٹین بھی۔ ایک طاقچے پر مصالحوں کی پڑیاں اور ڈبے رکھے ہوئے تھے اور دو کتابیں لذت النکاح حصہ اول اور مشہورِ عالم جنتری، اردو ادب کی نمائندگی کر رہی تھیں۔ ایک کیل سے کھینچنے والے کسرتی اسپرنگ لٹک رہے تھے، جنھیں سینہ کشا کہا جاتا ہے۔ کمرے کے ایک کونے میں مگدروں کی جوڑی بھی رکھی تھی۔ اس سب متاع کو دیکھ کر میں محمد باقر کی ذہنی اور جسمانی ہیئت کا تقریباً اندازہ کر سکتا تھا کہ وہ کس قسم کا آدمی ہوگا۔ میرے اندازے نے میرے دل پر کوئی اچھا اثر نہیں ڈالا اور کچھ غشی کا سا احساس مجھ پر طاری ہونے لگا۔ مگدروں کو دیکھ کر میری طبیعت ہمیشہ گرنے لگتی ہے۔
’’لو، یہ کیشونٹ فرائی کرنےکے لیے تمھارے پاس خالص گھی کا ٹین بھی موجود ہے، ‘‘ چچا عبدالباقی نے خوشی سے اپنی باچھیں چیرتے ہوئے چارپائی کے نیچے پڑے ہوئے گھی کے ٹین کی طرف اشارہ کیا۔ ’’فی الحال اس کو استعمال کرو، باقر آیا تو اس کو اس کا حساب وغیرہ دے دیں گے۔ میرے خیال میں تو اسے کافی ہاؤس میں تیسرے کا حصے دار بنانا پڑے گا۔ اس سے کم پر وہ شاید راضی نہ ہو — ‘‘
میں نے چچا کے ان ریمارکس کا جواب دینے کی ضرورت نہ سمجھی۔
۳
فوراً ہی چچا عبدالباقی کی ہدایات کے ماتحت ’’باقرقبضہ اسٹور‘‘ کو کافی ہاؤس میں تبدیل کرنے کا کام شروع کردیاگیا۔ دو اونٹ گاڑیاں کرایے پر لی گئیں اور دکان کا کل سامان — قبضے، قفل، مگدر اورمصالحہ جات کے ڈبے اور کوئی آدھ درجن لحاف — ان میں لدوا کر میرے فلیٹ پر بھجوادیاگیا۔ دو تین مزدور دیواروں کو سفیدی کرنے اور جگہ کو صاف کرنے پر لگادیے گئے۔ مجھے خوب بھاگ دوڑ کرنا پڑی۔ یہ میری زندگی کا ایک نہایت مصروف دن تھا۔
عبدالغفور لانڈری ورکس میں ایک لمبی ناک والا شخص ایک ٹین کی کرسی پر بیٹھا اس ساری کارروائی کو قدرے مشکوک انداز سے تک رہا تھا۔ میں نے قیاس لگایا کہ یہ غالباً خود پروپرائٹر عبدالغفور ہے۔ اس کا انداز یقیناً دوستانہ نہ تھا اور جب میں اس کی طرف دیکھتا تو میرے دل میں ایک ڈوبنے کا سا احساس ہونے لگتا۔ وہ غالباً ہمیں چور یا نقب زن وغیرہ سمجھ رہا تھا، مگر ہماری دیدہ دلیری نے اسے کچھ کچھ شک میں ڈال دیا تھا۔
دوپہر کے بعد میں جب ’’باقر قبضہ اسٹور‘‘ کا بورڈ اتروا کر’’آپ کا کافی ہاؤس‘‘ کا نیا بورڈ (جو اسی وقت پینٹر کے یہاں سے آیا تھا) اس کی جگہ لگوا رہا تھا، تو میرے کندھے پر ایک ہاتھ پڑا۔ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ میرا رنگ قدرے فق ہو گیا۔ یہ وہی لمبی ناک والا عبدالغفور لانڈری ورکس کا پروپرائٹر تھا۔ اس نے قمیص کی آستین چڑھا رکھی تھی۔
’’معاف کیجیے، ‘‘ وہ بولا، ’’آپ کون لوگ ہیں؟‘‘
چچاعبدالباقی، جو دکان کے اندر دوسرے کاموں کی نگرانی کر رہا تھا، باہر آگیا۔
’’فرمائیے، کیا پوچھتے ہیں آپ؟‘‘ چچا عبدالباقی نے اپنے دونوں بازوؤں کو سینے پر باندھ کر عبدالغفور کو نہایت مرعوب کن انداز سے دیکھا۔
’’اس دکان پر آپ نے کس طرح قبضہ کیا ہے؟‘‘
’’قبضہ؟‘‘ عبدالباقی ہنسا۔ ’’دکان ہماری اپنی ہے۔ محمد باقر میرا بھتیجا ہے۔ ہم اپنے لوہے کے سامان کو ایک اور دکان میں منتقل کر رہے ہیں اور اس دکان کو کافی ہاؤس بنا رہے ہیں...‘‘
’’بھائی باقر جاتے ہوئے مجھے کہہ گیا تھا کہ میری دکان پر نگاہ رکھنا۔ اس لیے میں نے پوچھا تھا۔‘‘
’’اور ہم کو وہ دکان کی چابی دے کر گیا تھا، ‘‘ چچاعبدالباقی نے مجھے آنکھ مارتے ہوئے کہا۔ ’’اب آپ کی تسلی ہوگئی؟ آپ اس عبدالغفور لانڈری ورکس کے پروپرائٹر ہیں نا، گرم سوٹ کی دھلائی کیا لیتے ہیں آپ؟‘‘
لانڈری ورکس والا چچا عبدالباقی کو دھلائی کے نرخ بتا کر پھر فوراً اپنی دکان پر چڑھ کر اپنی کرسی پر بیٹھ گیا۔ اب کرسی کی پیٹھ ہماری طرف تھی اور اس نے قمیص کی آستینوں کو اتار دیا تھا۔
۴
چچا عبدالباقی غیر ضروری اخراجات سے حتی الامکان احتراز کرتا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ بزنس میں کامیابی کا یہ دوسرا راز ہے۔
غیر ضروری اخراجات سے بچنے کے لیے چچا کے مشورے کے مطابق میں اپنے فلیٹ سے اپنا بیشتر فرنیچر، دو دریاں اور ایک غالیچہ لدوا کر’’آپ کا کافی ہاؤس‘‘ میں لے آیا۔ میرا فلیٹ اب خالی اور غیر آرام دہ نظر آنےلگا تھا۔ دو کمروں اور چھوٹے صحن میں تو ’’باقرقبضہ اسٹور‘‘ کا سامان پھیلا ہوا تھا اور زنگ آلود لوہے کی بو فضا پر طاری تھی۔ اس فلیٹ میں رہ کر اب کوئی بھی شخص اپنے دل کا چین قائم نہیں رکھ سکتا تھا۔
جب میرا اپنا غالیچہ اوپری دکان کے بالائی کمرے میں بچھا دیاگیا تو چچا عبدالباقی نے ہاتھ ملتے ہوئے اور اپنے آپ کو، اپنی حسنِ کارکردگی پر تحسین کرنے کے انداز میں کہا،’’یہ پہلا کافی ہاؤس ہوگا جس کے کافی روم کے فرش پر غالیچہ ہوگا۔‘‘
نچلی دکان کو دو حصوں میں تقسیم کر دیاگیا۔ داخلے پر ایک چھوٹا سا کاونٹر بنادیاگیا۔ چچا ایک سیکنڈ ہینڈ فرنیچر کے ڈیلر سے ایک اسٹول اور ایک اونچا ڈرائنگ ڈیسک خرید لایا تھا۔ ایک پردہ دکان کے وسط میں لٹکا دیا گیا۔ اس کے پیچھے باورچی خانے کے لیے چولہے وغیرہ بنوادیے گئے۔ دس کافی سیٹ جوڑیا بازار سے ایک تھوک فروش سے پہلے ہی روز خریدے جاچکے تھے۔ میں بھی اپنا چائے کا سیٹ فلیٹ سے یہیں لے آیا اور چچاعبدالباقی نے کمالِ فیاضی سےایک بے ڈھنگی، بغیر ڈھکنے کی چائے دانی اور دودھ کا ایک قدرے شکستہ جگ کافی ہاؤس کو تحفتاً مرحمت فرمائے۔ تازہ کافی مہیا نہ ہوسکنے کی وجہ سے ہم نے بازار سے ایک درجن نیس کیفے کے ڈبے خرید لیے اور کافی بنانے کے لیے میرے اپنے نوکر قادر بخش کو مقرر کر دیاگیا۔ چچا عبدالباقی نے ایک دو گھنٹے قادر بخش کو کافی پر جنرل لیکچر دینے اور یہ سمجھانے پر صرف کیے کہ کافی کے تیار کرنے کا صحیح طریقہ کیا ہے اور یہ کہ کافی کے بیجوں کو اچھی طرح پیسنا کیوں اس قدر ضروری ہے۔
’’مگر چچا، ‘‘ میں نے ٹوکا، ’’ہمارے پاس تو تازہ کافی کے بیج نہیں۔ اس ڈبوں کی کافی کو تو پیسنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس کے بنانے کی ترکیب تو ایسی پیچیدہ نہیں۔‘‘
’’میں قادر بخش کو فی الحال کافی پر ایک جنرل لیکچر دے رہا تھا۔ یہ لیکچر اس وقت اس کے کام آئے گا جب ہماری زمین پر تازہ کافی اُگنے لگے گی اور ہم یہ ڈبوں کی کافی استعمال نہیں کریں گے۔ اس نیس کیفے کے بنانے کی ترکیب میں ابھی اس کو سمجھانے ہی والا تھا۔ ذرا مجھے نیس کیفے کا ایک ڈبا لادو۔‘‘
میںنے اسے ایک ڈبا لاکر دیا اور پھر اس پر لکھی ہوئی ہدایات کو ترجمہ کرکے قادر بخش کو ترکیب سمجھانے لگا۔
ابھی ہمارے گاہک آنے شروع نہیں ہوئے تھے۔ ’آپ کا کافی ہاؤس‘ سفیدی کے باوجود ابھی تک ایک حد درجہ اداس اور ممنوع کن سی جگہ تھی۔ فینائل کے فیاضانہ استعمال کے باوجود مرے ہوئے چوہوں اور سڑی ہوئی پیاز کی بوابھی پوری طرح گئی نہ تھی۔ اس جگہ کو کافی ہاؤس میں تبدیل کرنے پر پانچ چھ سو روپئے خرچ آچکے تھے — اب میرے لیے پیچھے ہٹنا بھی ممکن نہ تھا۔ اس بیل کے منڈھے چڑھنے کے آثار زیادہ روشن نہ تھے، مگر چچاعبدالباقی گرم جوش اور اعتماد سے پُرتھا۔
۵
میرا دلی چین اب رخصت ہو گیا۔ شام کو جب میں اپنے فلیٹ پر واپس لوٹتا تو میرے دل پر برچھیاں سی چلنے لگتیں۔ یہ رہنے کی ایک شریفانہ جگہ کے بجاے اب ایک زنگ آلود لوہے کے کباڑیے کا اسٹور بن گیا تھا۔
چچا عبدالباقی کے مشورے سے باقر کی دکان کا سائن بورڈ اب میرے فلیٹ کے دروازے پر لگادیاگیاتھا:’’باقر قبضہ اسٹور‘‘۔
میرا خیال ہے’’آپ کا کافی ہاؤس‘‘ کو وجود میں آئے ہوئے تیسرا ہی روز تھا۔ میں صبح دس بجے اپنے فلیٹ میں کافی ہاؤس جانے کی تیاری کر رہاتھا کہ کسی نے دروازے پر دستک دی۔ میں نے جاکر دروازہ کھولا۔ دستک دینے والا ایک چھوٹا سا پھولا ہوا مینڈک نما شخص تھا۔ وہ ایک چھوٹا سیاہ کوٹ اور گول ٹوپی پہنے ہوئے تھا اور جس پھرتی سے پان کی جگالی کر رہا تھا، وہ فی الو اقع تعجب انگیز تھی۔
’’تم اس قبضہ اسٹور کا مالک ہے؟‘‘ اس نے ساتھ کی دیوار پر دلفریب پچی کاری کرتے ہوئے پوچھا۔
’’ہاں۔‘‘
’’اپنا مال کدھر ہے؟گوڈاؤن کون باجو میں ہے؟‘‘
’’یہیں اندر ہے، ‘‘ میں نے اشارہ کیا۔
’’ہم کو کچھ قبضہ وغیرہ چاہیے، مال نیا ہے یا جونا؟‘‘
’’اندر آکر دیکھ لیجیے۔‘‘
جس انداز سے وہ شخص اندر داخل ہوااور جس بے تکلفی سے اس نے میرے غریب خانے کے فرش اور درودیوار پر پیک کے بیل بوٹے بنائے، اس سے آپ یہ سمجھیے کہ یہ مکان ہی اس کا اپنا تھا۔ اس نے آکر قبضوں پر نگاہ ڈالی اور کچھ سوچ کر بولا’’اپنے کو بیچنا ہے نا؟‘‘
’’ارادہ تو یہی ہے، ‘‘ میں نے عبدالباقی کی ہدایات کو یاد کرتےہوئے جواب دیا۔
’’مال جونا ہے،‘‘ اس نے دو تین قبضوں کو الٹ پلٹ کرنے کے بعد سر ہلاکر کہا۔
اس نے ایک قبضہ اٹھایا، ’’یہ کتنا گراس ہے؟‘‘
اب آپ خود سمجھ سکتے ہیں کہ دروازوں کے قبضوں کی فروخت سے میرا کبھی کوئی تعلق نہیں رہا — ابھی تک مجھے قبضہ خریدنے کا بھی اتفاق نہیں ہوا تھا۔ مجھے اس کا ذرا بھی اندازہ نہ تھا کہ یہ کس نرخ پر فروخت ہوتے ہیں۔ پہلے میںنے سوچا کہ اس شخص کو پھرشام کو آنے کے لیے کہوں گا اور جاکر چچاعبدالباقی سے مشورہ کروں گا کہ ان کو کس بھاؤ پر بیچا جاسکتا ہے، لیکن پھر غالباً یہ خیال کرکے کہ ایک کاروباری آدمی کو سوجھ بوجھ کا ثبوت دینا چاہیے۔ میںنے ویسے ہی کہہ دیا:
’’پانچ آنے۔‘‘
’’پانچ آنے گراس؟‘‘ اس آدمی نے کہا۔
’’ّپانچ آنے گراس،‘‘ میں نے جواب دیا۔
میں نے اسے اپنی طرف سے ایک قبضے کے دام بتائے تھے اور اب میں ایسے گراس کے لیے اپنی زبان دے چکا تھا؛ اسکول میں حساب میں خاص طور سے کمزور ہونے کی وجہ سے گراس کے متعلق میرا اندازہ کچھ دھندلا تھا۔ درجن کے متعلق تو مجھے یقین تھا کہ اس میں بارہ ہوتے ہیں، مگر گراس؟غالباً تین چار۔
اس نے مجھ سے پھر پیچوں، کیلوں اور کنڈوں وغیرہ کے نرخ پوچھے اور میں نے اسے اسی طرح ویسے ہی نرخ بتادیے۔ ان چیزوں کے دام بتاتے وقت میں نے نرخ کچھ اونچے رکھے۔ کچھ وقفے کے بعد اس شخص نے کہاکہ وہ ابھی ایک منٹ میں آتا ہے۔ دو تین منٹ کے بعد وہ واپس لوٹا۔ اس دفعہ اس کے ساتھ ایک دوہری ٹھوڑی اور چوبی چہرے والا شخص تھا۔ ان کے پیچھے پانچ چھ مزدور ٹوکریاں اور تھیلے لیے ہوئے تھے۔ وہ مجھے نظر انداز کرکے گن گن کر پیچوں اور قبضوں کو بوریوں میں بھرنے لگے، اور پھر مجھے معلوم ہوا کہ گراس میں بارہ درجن ہوتے ہیں۔ زمین میرے پاؤں سے نکل گئی۔
میں نے بڑبڑانے کی کوشش کی، ’’میں نے ایک درجن کے نرخ بتائے تھے،‘‘ مگر میرےالفاظ غالباً ناقابلِ سماعت تھے۔ میں خود بھی ان کو اچھی طرح نہیں سن پایا۔
مزدور بوریاں بھر کے نیچے لے گئے اورجلد ہی خالی بوریاں لے کر اوپر آگئے۔ مختصراً یہ کہ محمد باقر کا تین چوتھائی اسٹور ان دو میمنوں نے پینتالیس روپئے کچھ آنے کے عوض خرید لیا۔ جاتے وقت ایک میمن نے دوسرے کو کہنی ماری اور پہلا میرے صحن کے فرش پر ملمع کاری کرتے ہوئے بولا،’’ہمارا دکان اِدھر سامنے ہی میمن مسجد کے باجو میں ہے: حاجی حسین بھائی قاسم بھائی۔ تمھارا نیا اسٹاک آئے تو ہم کو بولو۔‘‘ اس نے مجھے فیاضی سے ایک بیڑی پیش کی۔
ان کے جانے کے بعد میں نے حساب لگایا — پینتالیس روپئے میں ہمارا فروخت کا کمیشن دس فیصدی کے حساب سے تقریباً ساڑھے چار روپئے تھا۔ اس ساڑھے چار روپئے میں میں اور چچا پچاس پچاس کے حصے دار تھے۔
کافی ہاؤس جانے پر جب میں نے چچا عبدالباقی سے باقر کے مال کی فروخت کے متعلق بتایا اور اسے وہ نرخ بتائے جس پر میں نے مال کو بیچا تھا تو اس نے زیادہ ناخوشی کا اظہار نہ کیا۔ دراصل اسے لوہے کے قبضوں وغیرہ کے بھاؤ کا بھی مطلق اندازہ نہ تھا۔ مجھے یہ معلوم کرکے اطمینان ہوا کہ اسے یہ بھی معلوم نہ تھا کہ گراس کتنے کا ہوتا ہے۔ شام کو ایک آہن فروش سے پوچھ گچھ کرنے پر مجھے یہ پتہ چلا کہ میمنوں نے مجھے خوب بیوقوف بنایا تھا اور ڈھائی تین ہزار کا مال ساڑھے پینتالیس روپئے میں مار لے گئے تھے۔
۶
باقر قبضہ اسٹور کو کافی ہاؤس میں تبدیل ہوئے غالباً چوتھا روز تھا۔ میں کاؤنٹر کے اسٹور پر بیٹھا صبح سے گاہکوں کاانتظارکرتا کرتا تھک گیا تھا۔ میں ہر لمبےبالو ں والے دبلے، انٹلیکچوئل قسم کے شخص کو جو سامنے سے گذرتا پرامید نظروں سے دیکھتا اور آنکھوں ہی آنکھوں میں اسے اندر آنے کی دعوت دیتا۔ یہ سب لوگ ہمارے بورڈ پر ایک سرسری نگاہ ڈال کر منھ میری طرف پھیر لیتے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ انٹلیکچوئل حضرات کے لیے اب کافی کا لفظ کچھ معنی نہ رکھتا تھا۔
تین بیرے جنھیں ہم نے دو روپئے روز، گاہکوں کے ٹپ میں پچاس پچاس کی شرکت اور کافی کے لامحدود پیالو ں پر ملازم رکھا تھا، بیٹھے اونگھ رہے تھے۔ وہ مجھے کچھ کچھ تمسخرانہ انداز سے دیکھ رہے تھے اور ان کے اس گستاخانہ انداز نے مجھے اپنے اسٹول پر بے چین کر دیا تھا۔ (یہ ایک اونچا سخت غیر آرام دہ اسٹول تھا، اس قسم کا اسٹول جو عموماً اسپتالو ں میں نظرآتا ہے۔) چچا عبدالباقی ہر پانچویں منٹ اوپر کافی روم سے(جہاں اس نے باقر کے غسل خانے کو اپنا آفس بنا رکھا تھا) اپنے ہاتھ ملتا ہوا اور چہرے پر ایک تلطف آمیز پروپرائٹرانہ مسکراہٹ لیے نیچے کاؤنٹر پر آتا اور مجھ سے دریافت کرتا کہ بزنس کیسا ہو رہا ہے۔ پانچ بجے شام تک چچا اور میں کافی کے پانچ پانچ پیالے پی چکے تھے۔ ان کے دام ہمارے حساب میں درج کر دیے گئے تھے، کیونکہ انتظامیہ کمیٹی کی ایک میٹنگ میں یہ طے کیاجاچکا تھا کہ ہم کافی مفت نہیں پییں گے، بلکہ اس کے دام ادا کریں گے۔ بیروں کو دو دو کافی کے پیالے ان کی خوش طبعی اور آسودہ دلی کو برقرار رکھنے کے لیے ہمارے حساب میں پلائے گئے تھے۔
ساڑھے پانچ بجے کے قریب ایک باریک مونچھوں والا، بلغمی مزاج شخص ایک ہاتھ میں تھیلا اور دوسرے میں ٹوکری اٹھائے اندر آیا۔
میں نے پرامید میزبانہ خوش خلقی سےکہا، ’’اوپر تشریف لے چلیے۔ کافی روم اوپر ہے۔‘‘
بیرے تیزی سے اپنی بیزاری کو جھاڑتے ہوئے اٹھے۔
’’معاف کیجیے،‘‘ اس شخص نے تھیلے اور ٹوکری کو اوپر کاؤنٹر پر میرے سامنے رکھتے ہوئے کہا۔’’میں آپ سے کچھ پوچھنا چاہتا ہوں۔‘‘ تھیلے میں لہسن، تھوم، مولیاں اور گاجریں وغیرہ تھیں اور ٹوکری میں سے ایک مرغی اپنی بٹنوں سی گول آنکھوں سے باہر جھانک رہی تھی۔
’’فرمائیے، ‘‘ میں نے کہا۔ مرغی پھڑپھڑاتی اور کٹکٹاتی ہوئی ٹوکری میں سے باہر نکلنے کی کوشش کر رہی تھی اور مجھے بات کرتے وقت اپنی ایک آنکھ اس کی طرف رکھنا پڑی۔
’’یہ اس دکان پر آپ نے قبضہ کیسے کیا؟یہ دکان تو میرے خالو مولوی محمد باقر کی ہے۔‘‘
’’دکان تو انھی کی ہے، ‘‘ میں نے جواب دیا۔ ’’صرف اسے قبضہ اسٹور سے کافی ہاؤس بنادیاگیا ہے۔ محمد باقر صاحب بھی اس میں ہمارے ساتھ شریک ہیں۔‘‘
’’عجیب قصہ ہے۔ وہ تو یہاں نہیں ہیں۔ کل ہی ان کا مجھے منٹگمری سے خط ملا کہ میری دکان کا خیال رکھنا کہ سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے۔‘‘
مرغی ٹوکری کی جالی میں سے آدھی باہر نکلنے میں کامیاب ہوگئی تھی۔ محمد باقر کے بھانجے نے اسے دوبارہ نیچے دبا دیا۔ اتنے میں چچا عبدالباقی اپنے ہاتھ ملتا ہوا مجھ سے بزنس کا حال پوچھنے اور کافی کا ایک پیالہ پینے کے لیے نیچے آیا۔ میری جان میں جان آئی۔ میں نے محمد باقر کے بھانجے کو اس کے حوالے کر دیا۔
’’یہ صاحب محمد باقر صاحب کے بھانجے ہیں، ‘‘ میں نے بلغمی مزاج شخص کو چچا سےمتعارف کراتے ہوئے کہا۔
’’آئیے، آئیے! آپ باقر صاحب کے بھانجے ہیں؟ ‘‘ چچا نے معاملے کو اپنے ہاتھ میںلیتے ہوئے کہا۔ ’’آئیے نا، اوپر آفس میں تشریف لے چلیے۔ بھئی بختیار، دو کافی اوپر بھجواؤ، اورایک پلیٹ کیشونٹ بھی...‘‘
نووارد اور چچا اوپر سیڑھیوں پر چڑھنے لگے — نووارد آگے آگے اور مڑ مڑ کر اپنے سبزی کے تھیلے اور مرغی کی طرف نگاہ ڈالتا ہوا، چچا اس کے پیچھے اس کو اپنے ہاتھ سے سہارا دیتا اور دھکیلتا ہوا۔ میں نے ایک بیرے کو فوراً کافی اور کیشونٹ اوپر لے جانے کے لیے کہا۔ باقر کا بھانجا کوئی بیس منٹ اوپر رہا اور میں اس عرصے میں اس کی مرغی کی حفاظت کرتا رہا جو ٹوکری سے بار بار باہر آنے کی کوشش کر رہی تھی۔
بیس منٹ کے بعد بھانجا نیچے آیا۔ وہ سراپا مسکراہٹ تھا۔ اس کے ہونٹ چکنے تھے اور کیشونٹ کے دو ذرے اس کی مونچھوں میں چپکے ہوئے تھے۔ چچا عبدالباقی سے وہ بار بار ہاتھ ملا رہا تھا اور اصرار کر رہا تھاکہ وہ اسے دکان سے باہر پہنچانے کی زحمت نہ کرے۔ وہ اس قدر بشاش اور مطمئن معلوم ہوتا تھا کہ جب وہ میرے سامنے سے گذرا تو اس کی چال ایک خاص قسم کے انگریزی رقص’والز‘ سے مشابہ تھی۔ وہ پہلی بار ناچتا ہوا دکان کے نیچے اتر گیا اور اپنے تھیلے اور ٹوکری کو میرے کاؤنٹر پربھول گیا۔ اسے ان کے لیے واپس آنا پڑا۔
جب وہ چلا گیا تو چچاعبدالباقی نے مجھے آنکھ مارتے ہوئے کہا، ’’میاں، کاروباری آدمی بنو۔ آدمیوں سے نبٹنا سیکھو۔ اب دیکھو، اس کو منٹوں میں سیدھا کیا ہے۔ کیسے اطمینان سے گیا ہے۔ میں نے اسے سمجھا دیا ہے کہ باقر اور ہم نے مل کر یہ کافی ہاؤس کھولا ہے اور یہ کہ اس کے قبضوں کے سامان کی دکان کو کھارا در میں شفٹ کر دیا گیا ہے۔ اسے یہ معلوم نہ تھا کہ باقر میرا اپنا بھتیجا ہے۔‘‘
چچاعبدالباقی کی پروقار بزرگانہ شخصیت ہر شخص کو مرعوب اور گرویدہ کر لیتی ہے اور اس کا گول معصوم دوستانہ چہرہ ہرکس و ناکس کا دل جیت لیتا ہے — اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔
’’ذرا اوپر آفس میں آؤ،‘‘ چچا عبدالباقی نے مجھے ہدایت دی۔ ’’اب ذرا ہائی لیول پر حصے داروں کی میٹنگ ہوجائے۔‘‘ جب ہم اوپر چچا کے آفس میں بیٹھ گئے — چچا اپنی کرسی میں اور میں سامنے میز کے اوپر — تو چچا نے بحیثیت منیجنگ ڈائریکٹر مجھ سے استفسار کیا،’’آج بزنس پوزیشن کیسی تھی؟‘‘ جیسے کہ وہ خود نہ جانتا ہو۔
’’بارہ کافی کے پیالے بکے ہیں،‘‘ میں نے جواب دیا۔ ’’پانچ تم نے پیے ہیں، پانچ میں نے، اور دو تم نے بعد میں اوپر باقر کے بھانجے کی تواضع کرنے کے لیے منگوائے تھے، اور ہاں ایک پلیٹ کیشونٹ بھی۔‘‘
’’بزنس کچھ مدھم ہو رہا ہے،‘‘چچا نے اپنی ٹھوڑی کھجاتے ہوئے کہا، اور اس انداز سے جیسے بزنس کبھی تیز بھی رہا ہو۔ ’’اس کی کیا وجہ ہوسکتی ہے؟تمھارےاس قدردوست، فنکار، ادیب اور آرٹسٹ وغیرہ ہیں۔ ان کو کہا کروتاکہ یہاں آیا کریں اور دن کا بیشتر حصہ یہاں گذارا کریں۔ ان کے یہاں آنے سے یہاں کی فضا انٹلیکچوئل ہو جائے گی اور پھر خودبخود لوگ یہاں ٹوٹ پڑیں گے۔‘‘
’’میں کوشش کروں گا، ‘‘ میں نے بے دلی سے کہا۔
اور پھر ہم نے پبلسٹی بھی تو نہیں کی۔ لوگوں کو پتہ نہیں کہ نیا کافی ہاؤس کہاں ہے۔ ذراسوچو، محض اس وجہ سے کہ لوگوں کو اس جگہ کا پتہ نہیں، آج کتنے آرٹسٹ اور انٹلیکچوئل صدر اور الفنسٹن اسٹریٹ میں بھٹکے بھٹکے اور اداس پھر رہے ہوں گے۔ پبلسٹی بڑی ضروری چیز ہے، یہ کاغذ اور قلم لو، ایوننگ سینٹینل کے لیے ایک اشتہار لکھو۔‘‘
میں نے کاغذ لے کر چچا کی ڈکٹیشن کے مطابق لکھنا شروع کیا۔
’’انڈیاکافی ہاؤس بند ہوگیا تو آپ مایوس کیوں ہیں؟ آپ کیوں اداس سڑکوں پر مارے مارے پھرتے ہیں؟ آپ کیوں ایسی پناہ کے لیے آہیں بھرتے ہیں جہاں آپ کافی کے ایک مفرح پیالے میں اپنے آلام اوراپنے غم ڈبوسکیں؟جس پناہ گاہ کے آپ متلاشی ہیں وہ آپ کے قریب ہی تو ہے — سونادر میں عبدالغفور لانڈری ورکس کے بالکل بازو میں۔ یہاں آپ کو شہر میں بہترین کافی ملے گی، یہاں آپ کو خالص گھی میں تلے ہوئے کیشونٹ بھی ملیں گے — ہاں، کیشونٹ! منیجنگ ڈائریکٹر اور جنرل منیجر دونوں آپ سے خوش خلقی سے پیش آئیں گے۔ دستخط، منیجنگ ڈائریکٹر، ایچ اے باقی۔‘‘
’’اس اشتہار کو ابھی ایوننگ سینٹینل کے دفتر بھجوادو،‘‘چچا نے کہا۔’’چوتھائی کالم کے غالباً پچپن روپئے لگیں گے۔‘‘
’’پچپن — ‘‘میرا دل ڈوبنے لگا۔ میرا — میرے باپ کا قیمتی پسینے سے کمایا ہوا روپیہ بدرو میں بہایا جا رہا تھا۔ چچا نے مجھے روکا۔
’’ہاں ٹھہرو، بھئی بختیار، میں سوچ رہا تھا کہ کیوں نہ کل’آپ کا کافی ہاؤس‘ کا یومِ افتتاح منایا جائے۔ اس سے خوب پبلسٹی ہوگی — یہ یومِ افتتاح کا تو ہمیں خیال ہی نہ آیا تھا۔ میں بھی سوچ رہا تھا کہ کوئی چیز ہم بھول گئے ہیں۔ اشتہار میں اس کا اعلان بھی کر دیا جائے۔ ہاں یہ بتاؤ افتتاح کس سے کرایا جائے؟‘‘
’’ کوئی بڑا آدمی ہونا چاہیے، ‘‘ میں نے کہا۔ ’’اگر کوئی منسٹر ہو تو بہت اچھا ہے، وزیرِ صنعت و حرفت پرانا علیگیرین ہے۔‘‘
’’وزیرِ صنعت غالباً آج کل دورے پر ہے، ‘‘ عبدالباقی بولا۔ ’’سکھر میں بسکٹ فیکٹری والو ں نے ہڑتال کر دی ہے۔ اس صورت میں اس کے پارلیمنٹری سیکرٹری سے کام چل جائے گا۔‘‘
’’وہ اس کے ساتھ گیا ہوگا۔‘‘
مجھے سوجھا: ’’افتتاح کے لیے کیوں نہ ہمارے موقر روزناموں کے مدیروں میں سے ایک کو مدعو کرلیاجائے۔ مثلاً انعام کا قلندر بخش، ایوننگ سینٹینل کا ٹی ایل گلہری، تکبیر کا حاجی...‘‘
’’بس، ٹی ایل گلہری ٹھیک رہے گا۔ اشتہار بھی ہم اسی کے اخبار میں دے رہے ہیں۔ حکومت میں اس کا اچھا رسوخ ہے اور اسے ہاتھ میں رکھنا مفید ہوگا۔ اچھا، اشتہار میں یہ فقرہ بڑھا دو کہ ایوننگ سینٹینل کے ایڈیٹر مسٹر ٹی ایل گلہری کل شام کو چھے بجے ’آپ کا کافی ہاؤس‘ کا افتتاح فرمائیں گے، سب کو محبت سے مدعو کیاجاتا ہے۔‘‘
’’لیکن پہلے ہمیں گلہری سے تو پوچھ لینا چاہیے، ‘‘ میں نے کہا۔ ’’فرض کرو، وہ انکار کردے؟ ‘‘
’’یہ مجھ پر چھوڑو، ‘‘ چچاعبدالباقی نے اٹھتے ہوئے کہا، ’’یہ اشتہار کا مضمون بھی مجھےدو۔ میں ابھی سیدھا گلہری کے پاس جاتا ہوں اور اس سے فیصلہ کیے آتا ہوں۔ کوئی وجہ ہے کہ نہ آئے؟ آخر ہم اس کی عزت افزائی کر رہے ہیں، اور مجھے اشتہار کے لیے ساٹھ روپئے بھی چاہییں۔‘‘
عبدالباقی اسی وقت ٹیکسی میں ایوننگ سینٹینل کے دفتر چلا گیا۔ چچا کی خود اعتمادی اور بشاشت مجھے بھی لگ گئی تھی اور میں اس وقت گانے کے موڈ میں تھا، لیکن جس گیت کے بول ابھی میرے ہونٹوں پر تھے، عبدالغفور لانڈری ورکس کی طرف نظر دوڑانے سے ختم ہوگئے۔ وہی باقر کا بھانجا جو آدھ گھنٹے پہلے سراپا بشاشت کی تصویر بنا ہوا ہمارے کافی ہاؤس کی سیڑھیوں پر ناچتا ہوااترا تھا، وہاں موجود تھا اور لمبی ناک والا عبدالغفور، جس نے پھر آستینیں چڑھا لی تھیں، میری طرف قاتلانہ نظروں سے دیکھ رہاتھا۔ چچا عبدالباقی کا کیاہوا جادو اترچکا تھا اور ان کے اصل شبہات پھر عود کر آئے تھے۔ میں نے نوٹ کیا کہ باقر کے بھانجے کے فل بوٹوں کے تلووں میں موٹی کیلیں ٹھکی ہوئی ہیں اور غالباً کسی تحت الشعوری جذبے کے تحت میں اپنا سر کھجانے لگا۔
۷
یومِ افتتاح کے لیے ہمیں کافی بھاگ دوڑ کرنی پڑی۔ چچا عبدالباقی کے مکان سے وہ تاریخی صوفے منگوائے گئے، جن کے اسپرنگ اب ٹھوس ہو چکے تھے اور جن پر یک لخت بیٹھنے سے ایک ناخوشگوار تعجب ہوتا تھا۔ ایک وائرلیس کمپنی سے لاؤڈ اسپیکر کا انتظام کیا گیا تاکہ بازار میں لوگ افتتاحیہ کارروائی اور مسٹر گلہری کی افتتاحیہ تقریر سننے سے محروم نہ رہ جائیں۔ چچاعبدالباقی کی معززوپروقار شخصیت سے متاثر ہوکر گلہری نے مع اپنی بیوی کے’ آپ کاکافی ہاؤس‘ میں آنے اور اس کا باقاعدہ افتتاح کرنے کا وعدہ کر لیا تھا۔
میں چار پانچ گھنٹے اپنے انٹلیکچوئل دوستوں کے گھروں میں ان کا کھوج لگاتا پھرا۔ ہم چاہتے تھے کہ افتتاح پر اچھا خاصا مجمع ہو جائے۔ میرے دوستوں میں سے بیشتر نے معذرت کی کہ وہ شام کو مصروف ہیں اور افتتاح میں شمولیت نہیں کرسکتے، لیکن یقین دلانے پر کہ کافی بالکل مفت ہوگی، انھوں نے میری دوستی کی خاطر اپنی مختلف مصروفیات کو کسی اور دن کے لیے اٹھا رکھا اور آنے کا وعدہ کیا۔ اچھا ہوا کہ یہ لوگ آگئے، ورنہ غالباً گلہری کو اپنی افتتاحیہ تقریر صرف منتظمین اور بیروں کے سامنے کرنی پڑتی۔
افتتاح کے وقت سے ذرا پہلے چچاعبدالباقی کو خیال آیا کہ گلہری کے لیے ایک بینڈ بھی ہونا چاہیے۔ اتفاق سے پاس ہی کوئی شادی تھی، وہاں سے دو بینڈوالو ں کو بڑی منت سے پندرہ منٹ کے لیے بہلا پھسلا کر لایاگیا۔ ایک طوطی والا تھا، دوسرا چھن چھن بجنے والی تھالیوں والا۔ انھوں نے آتے ہی دھوم دھام سے اپنا کام شروع کردیا۔ ہم گلہری کا ایک باقاعدہ شاہانہ سواگت کرنا چاہتے تھے۔
چھ بج کر پانچ منٹ پر مسٹر گلہری اور مسز گلہری اپنے سرکھڑکی میں سے باہر نکالے آہستہ آہستہ ٹیکسی میں سے وہاں سے گذرے۔ وہ افتتاحیہ جگہ کو پہچاننے کی کوشش کرتے ہوئے آگے جارہے تھے کہ چچاعبدالباقی نے بازو ہلا کر اور ایک نعرہ لگا کر ان کو ٹھہرنے پر مجبور کر دیا۔ جب گلہری اور مسزگلہری ٹیکسی میں سے اترے تو ہمارے بینڈ والے ’’تیرابندگلوبندنی، ہے جمالو ‘‘ کا گیت بجا رہے تھے اور چچا اور میں اور میرے آدھ درجن دوست ہاتھوں میں پھولوں کے ہار لیے گلہریوں کے استقبال کے لیے تیار تھے۔
افتتاحیہ شام کی کارروائی کی روئیداد ہماری مینجمنٹ فائلزمیں مکمل طور سے درج ہے۔ یہاں اتنا ہی لکھوںگا کہ ٹی ایل گلہری اپنے استقبال کی وجہ سے بے حد خوش نظر آرہا تھا۔ مجھے ایوننگ سینٹینل کے ایڈیٹر کی حیثیت میں اسے دیکھنے کا یہ پہلا اور آخری موقع تھا، کیونکہ اس کے بعد جلد ہی ایوننگ سینٹینل بند ہو گیا اور گلہری کو جنوبی امریکہ کی کسی ریاست میں سفیر بنا کر بھیج دیا گیا۔ ٹی ایل گلہری جسمانی طور پر اپنے نام کی توقعات پوری کر رہا تھا اور حیرتناک طور پر گلہری سے مشابہ تھا۔ مسز گلہری ایک بھاری جثے کی مغلوب کن انگریز عورت تھی، گلہری سے آٹھ دس سال بڑی۔ اس کا چہرہ دلیر زاویوں پر مشتمل تھا۔ صحافتی حلقوں میں یہ مشہور تھا کہ مسٹر گلہری نے اس عورت سے اس لیے شادی کی تھی کہ وہ گلہری کے اداریوں کی انگریزی کو صاف اور درست کر سکے۔ ایوننگ سینٹینل کے اداریے عموماً مسز گلہری ہی لکھا کرتی تھی۔
گلہری نے کافی نوشی کے بعد اپنی افتتاحی تقریر میں کہاکہ اسے اس کافی ہاؤس کا افتتاح کرتے ہوئے بے حد مسرت ہو رہی ہے اور وہ امید کرتا ہے کہ یہ کافی ہاؤس پاکستان کی ثقافتی اور تمدنی ترقی میں قابلِ قدر حصہ لے گا۔ اس نے چچا عبدالباقی کی انتظامی قابلیت کے متعلق بھی چند لفظ کہے۔
گلہری نے دوسرے دن اپنے گپ شپ کے کالم میں ’آپ کا کافی ہاؤس‘ کا ذکر کرکے ہمارا حقِ کافی ادا کردیا۔ اس نے اپنے اخبار پڑھنے والو ں سے سفارش کی کہ وہ اس کافی ہاؤس کو پیٹرنائز کریں، اور پروپرائٹر کو کافی کے ساتھ کیشونٹ مہیا کرنے پر سراہا۔ اسی کالم میں وزیرِ خوراک کی توجہ کافی ہاؤس کی طرف مبذول کراتے ہوئے اس نے اسے (وزیرِخوراک کو) مشورہ دیا کہ ہمیں کافی اور کھانڈ مہیا کرنے میں پوری دریادلی سے کام لیاجائے، کیونکہ کافی ہاؤس ملک کے تمدن کو ابھارنے میں حکومتوں سے زیادہ کام کر سکتے ہیں۔ اس نے منیجنگ ڈائریکٹر عبدالباقی کے جذبۂ حب الو طنی کی تعریف کی اور تسلیم کیا کہ عبدالباقی صاحب نے ان نامساعد حالات میں ملک کی کلچری بہتری کے لیے ایک نہایت مفید قدم اٹھایا ہے۔ اس کالم کو چار پانچ مرتبہ پڑھنے کے باوجود مجھے اپنا نام کہیں نظر نہ آیا۔
۸
مگر افتتاحیہ ڈے کے باوجود، مسٹر گلہری کی گپ شپ کے کالم میں پبلک اور حکومت سے سفارش کے باوجود، کاروبار مدھم ہی رہا (سواے ان پیالو ں کے جو چچا عبدالباقی اور میں پیتے تھے)۔مجھے زیادہ پینے سے شب بیداری کی شکایت ہوگئی اور چچا عبدالباقی، جو کافی کا عادی نہ تھا، اپنے سر اور معدے میں کچھ مبہم آوازیں سننے لگا۔ ہمارا چینی کا اسٹاک بھی تقریباً ختم ہو چلا تھا۔ اب تک ہم اپنے ذاتی راشن کی چینی سے کام چلا رہے تھے۔ کافی ہاؤس کے لیے چینی کے پرمٹ کی جو ہم نے درخواست دی تھی، اس کا کچھ نہیں بنا تھا۔
چچاعبدالباقی کی خوداعتمادی میں ذرہ بھر کمی نہ آئی تھی۔
جب میں اپنے دوستوں کو ’آپ کا کافی ہاؤس‘ میں آکر کافی پینے پر نہ اکسا سکا، تو ایوننگ سینٹینل میں ایک اشتہار دیاگیا کہ ہم کو چند لمبے بالو ں والے انٹلیکچوئل لوگوں کی ضرورت ہے جن کا کام سارا دن کافی ہاؤس میں بیٹھنا ہوگا۔ ان کو مفت کافی اور آٹھ آنے یومیہ دیا جائے گا۔ چچا کا خیال تھا کہ یہ لوگ ایک طرح تحریص کے دانے کا کام دیں گے، جس سے دوسرے انٹلیکچوئل یہاں رفتہ رفتہ آنے لگیں گے۔ جب سے ٹی ایل گلہری نے اپنی افتتاحیہ تقریر میں اس کی انتظامی قابلیت کی تعریف کی تھی، چچاعبدالباقی کی اپنی کاروباری صلاحیتوں کے لیے رائے پہلے سے دوچند ہوگئی تھی۔
ایوننگ سینٹینل میں اشتہار کا اثر یہ ہوا کہ اس کے دوسرے روز جب میں کافی ہاؤس پہنچا تو اس کے باہر وحشی آنکھوں اور پھیلے ہوئے متوحش بالو ں والے نوجوانوں کا ایک ہجوم تھا۔ چچاعبدالباقی سارا دن ان سے ایک ایک کرکے اپنے آفس میں انٹرویوکرتا رہا اور بالآخر چار انٹلیکچوئل جن کے بال کمر تک آتے تھے اور جو کالرج کی نظم’’کبلا خاں‘‘ کے شاعر کی طرح شہد آگیں شبنم اور بہشت کے دودھ پر پلے ہوئے معلوم ہوتےتھے، منتخب کرلیے گئے۔
ان کے آنے سے یہ ہوا کہ کافی ہاؤس کی رونق بڑھ گئی، مگر کافی کی مقدار جو وہ پی سکنے کے اہل تھے، واقعی حیران کن تھی۔ ان میں سے ہر ایک پندرہ بیس پیالے پی جانے کو مذاق سمجھتا تھا۔ (ان میں سے ایک کا تو پہلے روز ہی گھر جاکر انتقال ہوگیا۔ مرحوم نے دو درجن پیالے پی ڈالے تھے۔)
مجھے یاد ہے، جب ہمارے پہلے گاہک آئے، انھوں نے اپنے سائیکل چوکیدار کے پاس چھوڑے۔ (یہ چوکیدارچچا کی دریافتوں میں سے ایک تھا۔)جب وہ کافی پی کر نیچے اترے تو چوکیدار غائب ہو چکا تھا — ان کی سائیکلوں سمیت۔ انھوں نے بڑا ہلڑ مچایا۔ چچا عبدالباقی اور مجھ کو الزام دیا کہ ہم نے خود چوری کروائی ہے...تھوڑی دیر کے بعد کچھ پولیس مین ہاتھوں میں نوٹ بکیں لیے ہوئے آئے اور میرے اور چچا کے پتے اور پچھلی سوانح عمریاں نوٹ کرنے لگے۔
میرے دوہزار روپئے میں سے بارہ سو روپئے بدرو میں جاچکے تھے۔ (چار سو تو افتتاحیہ ڈے ہی کی نذر ہو گئے۔) چچاعبدالباقی کی بشاشت بدستور قائم تھی، مگر مجھے ایسا لگ رہاتھا کہ’ آپ کا کافی ہاؤس‘ کے معاملات ایک بحران میں پہنچ رہے ہیں اور میں آخری خاتمے کا انتظار کر رہا تھا۔
۹
آپ کا کافی ہاؤس وجود میں آئے بارھواں دن تھا۔ شام کے کوئی چھ بجے ہوں گے اور میں کاؤنٹر کے اسٹول پر بیٹھا بوڑھے آدمی کو خط لکھا رہاتھا کہ میرا بزنس خوب کامیاب ہو رہا ہے، مگر اس کو بالکل مستحکم بنیادوں پر استوار کرنےکے لیے فقط ایک ہزار روپیہ اور درکار ہوگا۔ چچاعبدالباقی اوپر اپنے آفس میں تھا، گاہک کوئی نہ تھا۔ ہاں، ہمارے تین ملازم انٹلیکچوئل نوجوان اوپر کافی روم میں بیٹھے فرائڈ، جیمز جوائس وغیرہ پر بحث کر رہے تھے۔ دو بیرے اوپر کافی روم میں تھے، تیسرا غالباً نیچے باورچی خانے میں سو رہا تھا۔
مجھے بازار سے دو آدمی کافی ہاؤس کی طرف دیکھتے ہوئے نظر آئے۔ میں نے پہلے سمجھا کہ آخر کچھ گاہک آئے، لیکن ان کے بشرے اور حلیے کافی پینے والو ں سے مختلف تھے، اور ان میں سے ایک تو وہی باریک مونچھوں اور کیل دار بوٹوں والا باقر کا بھانجا تھا۔ اسے دیکھتے ہی میری آنکھوں کے روبرواندھیرا سا چھانے لگا۔ دوسرا ایک خشخشی ڈاڑھی والا خشمگیں قسم کا آدمی تھا، جو اپنے ایک ہاتھ میں ایک چھوٹا کینوس کا بیگ پکڑے ہوئے تھا اور دوسرے میں ایک لوٹا۔ وہ بظاہر سیدھا ریلوے اسٹیشن سے آرہاتھا۔ ان کے پیچھے ایک موٹی برقع پوش خاتون بھی تھی جو ایک سات سالہ ناخوشگوار لڑکے کا بازو پکڑے ہوئے تھی، جیسے اسے روک رہی ہو۔ مجھے یہ قیاس لگانے میں دیر نہ لگی کہ خشخشی ڈاڑھی والا شخص باقر قبضہ اسٹور کا پروپرائٹر محمد باقر ہے اور برقع پوش خاتون اس کی زوجۂ حیات اور ناخوشگوار منھ والا بچہ یقیناً اس مبارک جوڑے کا لاڈلا بیٹا تھا اور اس کے اہل و عیال نے اسٹیشن سے اترتے ہی اس طرف کا رخ کیا تھا۔
خطرے کو پا کر میں سوچ ہی رہا تھا کہ اوپر بھاگ کر چچاعبدالباقی کے آفس میں پناہ کا طالب ہوں کہ وہ سب(عبدالغفور لانڈری ورکس کا پروپرائٹر اب آستین چڑھائے ان کے ساتھ شامل ہو چکا تھا) ڈبل فائل میں طوفانی حملے کی نیت سے دکان کی طرف بڑھنے لگے۔ ہراول میں محمد باقر، اس کا بھانجا اور عبدالغفور تھے۔ ان کے پیچھے برقع پوش خاتون اور وہ کمینہ فطرت لونڈا تھا۔ وہ ایک جرمن ٹینک دستے کی طرح بڑھ رہے تھے اور ان کا ارادہ دکان کو ایک برق آسا پہلے حملے میں فتح کرنے کا تھا۔
بھاگنے کا وقت نہ تھا۔ میں نے جلدی سے ایک بیرے کے ہاتھ اوپر آفس میں چچاعبدالباقی کو ’ایس او ایس‘ بھی بھیجا تھا۔ ابھی ’ایس او ایس‘ بھیج کر فارغ ہی ہوا تھا کہ مجھے اپنا گلا گھٹتا ہوا محسوس ہوا، میری آنکھوں کے سامنے اشیا کچھ دھندلی دھندلی ہو رہی تھیں۔ اس طرح معلوم ہوتا تھا جیسے میری آنکھوں کا فوکس خراب ہو گیا ہے۔ ان کو فوکس کرنے کے بعد میں نے اپنے سامنے باقر کے بھانجے کو کھڑا دیکھا۔ اس کا ہاتھ میری نکٹائی پر تھا او روہ اسے غصے میں کھینچ رہا تھا، ’’سنا بے نوابزادے!‘‘ وہ کہہ رہا تھا۔’’باہر نکل یہاں سے — کہاں ہے وہ تیرا گولہ سا منیجنگ ڈائریکٹر؟چارسو بیس۔‘‘ میں نے کہنے کی کچھ کوشش کی، مگر گلے کےگھٹنے کی وجہ سے میری آواز غرغراہٹ بن کر رہ گئی۔ میرے ارد گرد ایک محشر کا ساہنگامہ بپا تھا۔ لانڈری ورکس والا عبدالغفور بیروں کو دھکے مار مار کر باہر دھکیلنے کی کوشش کر رہا تھا۔ باقر اپنے لوٹے کو دھمکانے کے انداز میں اپنے اوپر گھما رہاتھا۔ برقع پوش خاتون چمچے سے مسلح اِدھر اُدھر ایک غصیلے شیر ببر کی طرح دندنا رہی تھی۔ باقر کا لونڈا باورچی خانے میں گھسا ہوا اپنی جیبوں کو کیکوں اور کیشونٹوں سے ٹھونس رہا تھا۔ ان واقعات کی پوری تفصیل دینا ممکن نہیں۔ دو تین کرسیاں ہوا میں اڑتی ہوئی میرے پاس سے سفر کرکے بازار میں جاگریں، ظاہراً مجھ پر نشانہ کیاگیاتھا۔
پھر چچا عبدالباقی کی آواز آئی۔ وہ اوپر سے اتر آیا تھا — وقار اور سرد حوصلے کی پوری تصویر۔ ’’یہ کیا حرکت ہے؟ ‘‘ اس نے حاکمانہ لہجے میں پوچھا۔ ’’بختیار، پولیس کو فون کرو! ‘‘ میں اس حکم کی تعمیل کرنے سے قاصر تھا، کیونکہ اول تو فون ہی نہ تھا، اور ہوتا بھی تو اپنی اس موجودہ حالت میں، جبکہ باقر کے بھانجے نے ابھی میری نکٹائی کو نہ چھوڑا تھا، یہ قطعی ناممکن تھا۔
چچا عبدالباقی نے اب باقر کو پہچانا۔
’’بھئی باقر، بات تو سنو، مجھے سمجھا تو لینے دو۔ یوں دکان کے مال کا نقصان نہ کرو۔‘‘
برقع پوش خاتون چچا عبدالباقی کو بے ایمان اور نہ جانے کیا کیا کچھ کہنے لگی۔ اس نے اپنے چمچے کو ایک غضبناک انداز میں چچا کے سر پر لہرایا۔ باقر نے چچا کو خشمگیں نگاہوں سے دیکھا، جیسے کہ اسے پہچانتا ہی نہ ہو۔ باقر کا بھانجا آخر میری ٹائی چھوڑ کر چچا کی طرف لپکا۔
محمد باقر نےکہا، ’’عبدالباقی، تم تو سخت بے ایمان ہو۔ اچھا میں تمھیں دکان سونپ گیا تھا! کہاں ہیں میرے قبضے اور کیل، ڈھائی تین ہزار کا مال؟‘‘
چچاعبدالباقی نے اسے سمجھانے اور اس کے غصے کو دھیما کرنے کی کوشش کی۔ اس نے اسے یہ بھی خوشخبری دی کہ اس کا کافی ہاؤس میں ایک تہائی کا حصہ ہے، جس پر محمد باقر نے کہا،’’کافی ہاؤس کی ایسی تیسی!‘‘ اس نے کافی ہاؤس اور ہمارے متعلق اور بھی ایسے کلمات کہے جنھیں چھاپا نہیں جاسکتا۔
’’اچھا، میرا ڈھائی تین ہزار کا مال کہاں ہے؟‘‘محمد باقر نے پوچھا۔ چچا عبدالباقی نے اپنے ہاتھ ملتے ہوئے اور اپنے چشموں میں سے خوش طبعی کو منتشر کرتے ہوئے کہا، ’’فروخت ہو گیا۔‘‘
’’فروخت ہو گیا؟ سارا مال؟ ‘‘ محمد باقر گرجا۔
چچا نے میری طرف اشارہ کیا،’’میاں بختیار نے تمھارا مال چند ہی دن ہوئے فروخت کر دیا۔ اس کی ہمت ہے۔ تمھاری دکان میں تو یہ ایک سال سے پڑا تھا۔ ہماراارادہ تھا کہ فروخت پر دس فیصد کمیشن چارج کریں گے۔ اگر تمھاری مرضی نہ ہوئی تو نہیں کریں گے۔ بھئی بختیار، محمد باقر کے مال کے پینتالیس روپئے آٹھ آنے ان کے حوالے کردو۔‘‘
’’پینتالیس روپئے آٹھ آنے!‘‘ باقر چلّایا۔’’میرا ڈھائی ہزار کا مال۔‘‘ اس نے میری طرف دیکھا، ’’بچو! میں تمھارے فرشتوں سے بھی تین ہزار وصول کروں گا۔ بھانجے، ذرا اس پینتالیس روپئے میں میرا مال بیچنے والے کو ٹائی سے کھینچ کر باہر تو نکال۔ ذرا اس کی شکل تو اچھی طرح دیکھیں۔‘‘
چچاعبدالباقی اور میر باقر کے بھانجے اور عبدالغفور کے ہاتھوں جو درگت بنی اور جو غیر شائستہ سلوک ہمارے ساتھ کیا گیا، اس کا ذکر یہاں کرنا میرے لیے تکلیف دہ ہے۔ چچا کی عینک کا ایک شیشہ ٹوٹا۔ میرے اپنے دو دانت شہید ہوئے۔ ہم دونوں کو اوپر آفس میں چار گھنٹے محبوس رکھا گیا۔ بڑی مشکل سے ایک اقرارنامے پر دستخط کرنے کے بعد، کہ ہم محمد باقر کو اس کی دکان پر ناجائز قبضہ کرنے کے عوض ہرجانے کے طور پر ڈیڑھ ہزار روپیہ دیں گے اور یہاں سے اپنی کوئی چیز(از قسم فرنیچر) نہیں لے جائیں گے، ہماری جان چھوٹی۔ ہم نے کافی ہاؤس کو خیرباد کہا۔
باقر نے اپنی اس رقم کی پائی پائی وصول کی اور میراوالد، جس کو یہ رقم ادا کرنی پڑی، اس کے بعد عرصے تک مجھ سے ناراض رہا۔
اگلے روز جب میں چچاعبدالباقی سے ملنے گیا تو اس کی عینک میں نیا شیشہ تھا۔ ’’بیٹھو بختیار، میں تم سے ایک ضروری معاملے پر بات کرنا چاہتا ہوں۔ اس دفعہ تو ہمارا کاروبار چل پڑا تھا۔ گلہری نے بھی حکومت سے ہماری سفارش کردی تھی۔ گاہک بھی ایک دو دن میں آنے لگتے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ہم صحیح خطوط پر کام کر رہے تھے۔ محمد باقر نے اپنے نامعقول رویے سے ہمیں سخت نقصان پہنچایا۔ خیر، اس کو چھوڑو، میں تم سے پھر ایک ضروری معاملے پر بات کرنا چاہتا ہوں۔‘‘

بشکریہ: اجمل کمال

کوئی تبصرے نہیں:

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *