ثروت حسین کے کلیات کی یہ چوتھی اور آخری پوسٹ اپلوڈ کی جارہی ہے، اس میں ثروت حسین کا غیر مطبوعہ کلام، گوشہ عقیدت اور کالج کے ایام میں ان کی گئی شاعری پر مشتمل ایک مختصر سا مجموعہ نئے دن کا سورج شامل ہیں۔ ثروت حسین کی شاعری اب انٹرنیٹ پر یونی کوڈ میں موجود ہے۔ ادبی دنیا نے کوشش کی ہے کہ ایسا معیاری ادب جو کہ بے حد اہم ہو اور جسے لوگ پڑھنا، جاننا چاہتے ہوں اور کتاب کی صورت میں انہیں میسر نہ آپارہا ہو، اس طور مل جائے۔ بہت سے افراد پی ڈی ایف کی بھی خواہش رکھتے ہیں۔ لیکن جب یہ سارا کلام یونی کوڈ میں موجود ہے تو اسے کاپی کرکے کیا بہت آسانی سے ورڈ یا پی ڈی ایف کی شکل میں سیو نہیں کیا جاسکتا؟ مگر کچھ لوگ کاپی، پیسٹ کرنے اور فائل کو پی ڈی ایف میں کنورٹ کرنے جیسی معمولی مشقت سے بھی بچنا چاہتے ہیں۔ خیر ثروت حسین کا کلام آپ پڑھیں اور ہمیں اپنی رائے سے نوازیں۔ ایک بار پھر واضح کرنا ضروری ہے کہ اگر آپ یہ اہم کلام کتاب کی صورت میں حاصل کرنے چاہتے ہوں تو کلیات ثروت حسین آج پبلیشنز کی جانب سے شائع کردی گئی ہے اور آپ اس سلسلے میں اجمل کمال سے رابطہ کرسکتے ہیں۔ بے حد شکریہ
غیر مطبوعہ کلام
پھول، پرندے، چراغ اور شجر رقص میں
تو ہے اُدھر رقص میں ، میں ہوں اِدھر رقص میں
ناچ رہی ہے زمیں ، جھوم رہا ہے فلک
طائرِ نغمہ سرا، دیر نہ کر رقص میں
اور ہی منظر ہے اب، ایک سمندر ہے اب
ٹوٹ گئی ساعتِ علم و خبر رقص میں
اسم نہیں ہے مرا، جسم نہیں ہے مرا
روح کے چوگرد ہے ایک بھنور رقص میں
***
اللہ کی زمیں پر موسم کمال آیا
کچھ پھول آئینے پر میں بھی اُچھال آیا
چمکا تھا ایک تارا بادل کی آستیں پر
شامِ مسافرت میں اس کا خیال آیا
حدِ نظر تلک تھیں جلتی ہوئی دِشائیں
پت جھڑ کی سلطنت میں خوابِ ملال آیا
ثروت گزر رہے ہو آشوب و ابتلا سے
کس کو ملی بلندی، کس کو زوال آیا
(13جون 1987، عصر)
***
مجھے تو ورطۂ حیرت میں ڈال دیتی ہے
زمیں اپنے خزانے اُچھال دیتی ہے
سنو کہ برف پگھلنے کی صبح آ پہنچی
خبر شمال کی بادِ شمال دیتی ہے
بہار اَب بھی گزرتی ہے اس چمن سے، مگر
ہمیں تو وعدۂ فردا پہ ٹال دیتی ہے
وہ اِک نگہ جو بظاہر نِگاہ سے کم ہے
نگارخانۂ ہستی اُجال دیتی ہے
(13جون 1987، مغرب)
***
خاک سے چشمۂ صدرنگ اُبلتے دیکھا
میں نے اُس شوخ کو پوشاک بدلتے دیکھا
آتشِ رنگ سے دہکی ہوئی شہزادی کو
ہاتھ میں پھول لیے نیند میں چلتے دیکھا
آگ ہی آگ ہے سیارے پہ لیکن ہم نے
شاخِ زیتون، تجھے پھولتے پھلتے دیکھا
تھی موذن کی ندا، نیند سے بہتر ہے نماز
میں نے پتھر کو مناجات میں ڈھلتے دیکھا
جانیے، کون سی مٹی سے بنے ہیں ثروت
ہم نے عشاق کو دریاؤں پہ چلتے دیکھا
(13 جون 1987، فجحر)
***
دل انگیزیِ مہر و ماہ نہیں جاتی
کس کس آئینے پہ نگاہ نہیں جاتی
آؤ اندھیرے جمع کریں کہ اس درگاہ
روشنیوں والی کوئی راہ نہیں جاتی
کیسی حضوری ہے کہ اُن پرچھائیوں تک
ہو آتا ہے جسم، نگاہ نہیں جاتی
سیرِ دشت کا منظر خوب سہی لیکن
ذہن سے یادِ شہرپناہ نہیں جاتی
پھول پھول سرگوشیاں کرتی تنہائی
سنگ سرشتوں کے ہمراہ نہیں جاتی
***
بدی کی بارش عجیب ہی برگ و بار لائی
نشیبِ خودآگہی کی جانب پکار لائی
فرشتہ ہونے میں دیر تھی کہ گُناہ کی شب
زمیں کی آبادیوں میں مجھ کو اتار لائی
اب اس سے آگے سیاہیوں میں سفر رہے گا
یہاں تلک تو رفاقتِ رہ گزار لائی
عجب کشش تھی کہ دل گرفتہ سپاہیوں کو
شکارگہہ میں قطار اندر قطار لائی
***
تو اے اسیرِ مکاں ، لامکاں سے دور نہیں (اقبال)
نشیبِ حلقۂ صحنِ مکاں سے دور نہیں
کہیں بھی ہو وہ ستارہ یہاں سے دور نہیں
حدِ سپہر و بیاباں پہ جاگتی ہوئی لو
جو ہم سے دور ہے، آئندگاں سے دور نہیں
گزرنے والی ہے گلیوں سے بادِ برگ آثار
کہ اب وہ صبح مری داستاں سے دور نہیں
اُسی کے حرفِ نگفتہ سے گونجتے در و بام
جو دور رہ کے بھی پہناے جاں سے دور نہیں
سحاب و سبزئہ نم ناک سے گزرتی ہوئی
یہ شام چشمۂ ریگِ رواں سے دور نہیں
میں اپنے حُجرئہ تاریک تر میں رہ کر بھی
سرشتِ حلقۂ آوارگاں سے دور نہیں
مگر وہ شاخِ تہی رنگ و بستۂ دیوار
جو گلستاں سے الگ ہے خزاں سے دور نہیں
***
آدمی کو رہ دکھانے کے یے موجود ہیں
کچھ ستارے جگمگانے کے لیے موجود ہیں
ابر، دیواریں ، سمندر اور نادیدہ افق
رہرووں کو آزمانے کے لیے موجود ہیں
کیوں گرفتہ دل نظر آتی ہے اے شامِ فراق
ہم جو تیرے ناز اُٹھانے کے لیے موجود ہیں
دیکھتا رہتا ہوں اشیاے تصرف کی طرف
یہ کھلونے ٹوٹ جانے کے لیے موجود ہیں
پیشِ پا افتادہ قریے، سربرآوردہ شجر
سو بہانے دل لگانے کے لیے موجود ہیں
کون کر سکتا ہے ایسے میں کسی دریا کا رُخ
جب وہ آنکھیں ڈوب جانے کے لیے موجود ہیں
میں درختوں سے مخاطب ہوں خداے عز و جل
جو زمیں پر سر اُٹھانے کے لیے موجود ہیں
(18 فروری 1990، فجر)
***
مانا کہ گہر نہ ہم نے پائے
پاتال، تری خبر تو لائے
ایسا بھی نہیں کہ ریگِ ساحل
آنکھیں مری راہ میں بچھائے
شاخوں پہ دوبارہ آ گئے پھول
ساتھی جو گئے تو پھر نہ آئے
راتیں اٹھا لائیں بیکرانہ
عرصہ گہہِ خواب کے بجاے
آئینہ چراغ سے ہم آغوش
سورج دبے پاؤں لوٹ جائے
دن چڑھ بھی چکا ہے میرے مہماں
کیسے تجھے میزباں جگائے
***
گھر ہے تو کسی کو سونپتا جاؤں
جاتے ہوے آگ کیوں لگا جاؤں
دیواروں کو ڈھال تھے مرے ہاتھ
جنگل ہے تو راستہ بنا جاؤں
بانہیں وہ شجر کہ روک لیں راہ
آنکھیں وہ بھنور کہ ڈوبتا جاؤں
نشّہ ہو کسی کی قربتوں کا
ایسا بھی نہیں کہ جو چھپا جاؤں
جاتا ہوں خزاں کی سلطنت کو
تصویرِ بہار کھینچتا جاؤں
***
لرزاں اسی آئینے میں سب ہیں
میں ہوں مرے جاگنے میں سب ہیں
کہتا ہے یہی گزرنے والا
اک میرے سوا مزے میں سب ہیں
یکجا کیا دہشتوں نے آخر
وہ دن ہے کہ معرکے میں سب ہیں
اے زائرِ صبح کچھ توقف!
اس پل تو مراقبے میں سب ہیں
ثروت یہ وصال و ہجر کا گھر
رقصاں اسی دائرے میں سب ہیں
(محمدسلیم الرحمٰن کے لیے)
***
بیت
میں جاؤں جس اور، کارونجھر کی کور
بادل ہے منھ زور، کس تٹ برسے دیکھنا
کارونجھر کی کور، ایک خموش تلاؤ
ایک خموش تلاؤ، اوپر جوڑی ہنس کی
اُوپر جوڑی ہنس کی، نیچے میں اور آسماں
نیچے میں اور آسماں ، بیچ میں ایک لکیر
بیچ میں ایک لکیر، سندھو ندی سمان
سندھو ندی سمان، بھاگی مائی کا گیت
بھاگی مائی کا گیت، تھر مٹّی کی بھور
تھر مٹّی کی بھور، اور اک زخمی مور
(26مئی 1987، عشاء)
***
پنج آب
اے رِداے آسمانی
میرے دل میں گونجتا ہے
پانچ دریاؤں کاپانی
(15جون 1987، فجر)
***
کافی
الف اگر بتّی سلگائی
ب کی خبرنہ کائی
تختی کیوں دیتا ہے بھائی
ب کی خبر نہ کائی
چھاج پھٹکتی گرم کلائی
ب کی خبرنہ کائی
بَن وِچ کونج کوئی کُرلائی
ب کی خبر نہ لائی
اندرشاخ شگوفے لائی
ب کی خبر نہ کائی
(13جون 1987، عشاء)
***
زمیں کی انتظار گاہ میں ....
زمیں کی انتظار گاہ میں درازقامتوں کی پیشگوئیوں نے،قطع کلامی کے دانت بہت تیز ہیں ،حروف کی سیاہی سوکھنےسےقبل ہی غذائیں کم یاب، فتوحات کی تہوں سےگزرتی خودکار سیڑھیوں پہ سنی گئی خیرمقدمی دُھنوں کی بازگشت، کوئی پیڑ،کسی آدمی کے پیر کانشاں ،مضافاتی بستیوں میں بارودی سرنگوں کے بچھائے ہوے جال،سوگوارساحلوں کے الوداعی آثار،حافظے میں شام کے ستارے کاگُمان،کہیں کہیں شاعروں کی خودکلامی کے تیرتے گلاب،لہجوں کی دُرشتگی کے درمیان ... تجارتی ہوائیں لیے جا رہی ہیں آسمان
(جولائی 1977 کی آٹھویں صبح)
***
ایک نظم
بتدریج مٹی کی چیزوں پہ گرتی ہوئی ریت کی تازہ کاری، فراموش گاری کی ٹھنڈی ہواؤں میں آنکھیں بہت دورتک دیکھ سکتی نہیں ،پیر کے نرم تلووں کے نیچے کسی خشک ندی کا چٹخا ہواجال،پاتال کی سب کہانی، مگر پیش رو بادلوں تک پہنچنے کی امید میں تیز چلنا ہی ہوگا،مجھے تیز چلنا ہی ہوگا، سیاہی میں تبدیل ہوتی ہوئی آبناؤں ،خلیجوں کے پیچاک، نمناک شاموں کی حد پر بھڑکتی ہوئی لالٹینوں کےگھر میں لب بستہ پرچھائیں کودفن کرتے ہوے ہات، آنکھیں چراغوں سی مدھم...لگاتار اندھیاؤ،پت جھڑ، ہلاکت زدہ بستیوں میں اکیلی سواری،بتدریج مٹی کی چیزوں پہ گرتی ہوئی ریت کی تازہ کاری...
(جولائی 1977 کی سولہویں صبح)
***
ایک فاتح کا گیت
سنو آہن گر
مجھے حیرانی سے مت دیکھو!
اک کام تمھارے ذمّے ہے
انہی کالے کُند ذخیروں سے
تلواروں ، زرہوں ، زنجیروں سے
اور زہر بجھے ان تیروں سے
کچھ چیزیں تم کو ڈھالنی ہیں
اک لکڑی کاٹنے کی آری
دو گھنٹیاں اور اک ہل کی اَنی
خمدار درانتی کی جوڑی
گلدان منقش اور سادہ
اور ایک کٹورا پانی کا
سنو آہن گر
مجھے حیرانی سے مت دیکھو
(جولائی 1977 کی اٹھارویں صبح)
***
گوشۂ عقیدت
نعت ، سلام
آنکھ روشن تھی، دل معطر تھا
لمحۂ مدحتِ پیمبرؐ تھا
آدمی اس بہار سے پہلے
خشت اور خاک کے برابر تھا
ذہن و دل تھے مگر غبار آلود
آئینہ تھا مگر مکدر تھا
اور پھر آمدِ محمدؐ سے
حلقۂ آب و گل معطر تھا
صبح تھی اور خوشبوئے فاراں
شام تھی اور چراغِ منبر تھا
خاک اندازِ سطوتِ کسریٰ
پارہ پارہ شکوہِ قیصر تھا
اک اُسی در سے ہم کو نسبت تھی
اک وہی نام ہم کو ازبر تھا
***
کون اس بھید کو پا سکتا ہے
کوئی کہاں تک جا سکتا ہے
کب وہ یاد سمٹ سکتی ہے
کب وہ نشاں دھندلا سکتا ہے
صدیاں حیرانی میں گم ہیں
کون وہ نام بُھلا سکتا ہے
شامِ ابد کا ایک ستارہ
کتنے چراغ جلا سکتا ہے
اک انسان اسی دنیا کا
کتنی فصیلیں ڈھا سکتا ہے
بپھرے ساگر کی لہروں کو
زنجیریں پہنا سکتا ہے
خار و خس و خاشاک دلوں کے
شعلہ بن کے جلا سکتا ہے
***
رُتوں کی بجتی گھنٹیاں
صدیوں کی گردان
آتے جاتے قافلے
تپتا ریگستان
اوجھل سارے راستے
بوجھل پیر، جوان
لیکن اس اندھیر میں
ایک وہ نخلستان
جس کی ٹھنڈی چھاؤں میں
سب کو ملے امان
***
مدحتِ ساقیِ کوثر لکھوں
سوچتا ہوں بھلا کیونکر لکھوں
سارے عالم کو جزیرہ ٹھہراؤں
ایک انساں کو سمندر لکھوں
کیوں نہ اس مشعلِ شب تاب کو میں
فکر و احساس کا محور لکھوں
منبعِ مہر و صداقت جانوں
نکہت و نور کا پیکر لکھوں
مختصر یہ کہ میں ان کو ثروت
نوعِ انساں کا مقدر لکھوں
***
پرشکستہ جان طیبہ پر نظر کیسے کرے
یہ کبوتر گنبدِ خضرا میں گھر کیسے کرے
دن گزرتے جا رہے ہیں دیدِ طیبہ کے بغیر
عمر کے یہ ثانیے ثروت بسر کیسے کرے
دل مگر اپنی تمنا مختصر کیسے کرے
***
نئے دن کا سورج
طالب علمی کے دور کا کلام
1968 تا1969
علامہ اقبال کالج کے نام
ثروت حسین
2نومبر1969
کراچی
کچھ ایسے مقامات بھی گزرے ہیں نظر سے
دیکھا کیے اور چپ رہے حالات کے ڈر سے
ہم راہ کی دیوار گرا آئے تھے لیکن
جب دھوپ چڑھی سایۂ دیوار کو ترسے
یہ شعلۂ احساس فروزاں رکھو یارو
اوجھل ہے وہ خورشید ابھی حدِ نظر سے
منزل کا تعین ہے نہ راہوں کا پتا ہے
بے سوچے ہوے آج نکل آئے ہیں گھر سے
احساس اندھیروں کا سمٹ جاتا ہے ثروت
آتی ہے کرن جب بھی کوئی روزنِ در سے
***
ہات آئے کیسے کھوئی ہوئی سوچ کا سرا
کل رات سو گیا تھا یہی سوچتا ہوا
میں دشمنِ وفا کی پذیرائی کے لیے
صحرا کی تیز دھوپ میں پہروں کھڑا رہا
محسوس ہو رہا تھا مرے ساتھ ہے کوئی
دیکھا تو دور دور کوئی دوسرا نہ تھا
اک آپ ہی کو مجھ سے شکایت نہیں فقط
اس طرزِ گفتگو پہ سبھی ہیں چراغ پا
سڑکوں پہ دور تک کوئی آواز بھی نہیں
گزرا ہے میرے شہر پہ کیا کوئی حادثہ
بہتا ہوا چلا تھا میں لہروں کے دوش پر
اور جب ہوا چلی تو کنارے سے جا لگا
***
یارو سمٹ کے جی لیے اب دھوپ کی طرح
اس شہر کی فضا میں بکھر جانا چاہیے
خوابوں کی ناؤ ڈولتی موجوں پہ چھوڑ کر
لمحات کے بھنور میں اتر جانا چاہیے
ہر شخص فاصلوں کی تھکاوٹ سے چور ہے
اب کون یہ بتائے، کدھر جانا چاہیے
ثروت یہ دھوپ اپنا مقدّر سہی مگر
کچھ دیر سائے میں بھی ٹھہر جانا چاہیے
***
آہٹ سی کانوں میں گونجے اور کہیں کھو جائے
آڑی ترچھی پگڈنڈی پر آوازوں کے سائے
آنے والے دن کا سورج اپنی اور بلائے
بیتے دن کے ہنگاموں پر آنسو کون بہائے
شاید اوس میں بھیگی سڑکیں اپنی آنکھیں کھولیں
شاید دروازوں کے لب پر گیت کوئی لہرائے
شہر کی اجلی دیواروں کا چہرہ ہم بھی دیکھیں
موسم کی پہلی بارش سے گرد اگر چھٹ جائے
ذہن کی جھیلوں پر چمکی ہے سچائی کی دھوپ
تیرہ عقائد کی قبروں پر شمعیں کون جلائے
***
اب کوئی بات نئی بات نہیں
اب کسی بات پہ چونکا نہ کرو
میں بھی ہونٹوں کو سیے بیٹھا ہوں
تم بھی اس بات کا چرچا نہ کرو
جانے کیا سوچتی ہو گی دنیا
گھر کی دیواروں پہ لکھا نہ کرو
آج کے دور نے سمجھایا ہے
کبھی تنہائی میں سوچا نہ کرو
بادلو، مجھ پر عنایت کیسی
میری دہلیز پہ سایہ نہ کرو
گھر سے نکلو، ذرا دنیا دیکھو
صرف دروازوں سے جھانکا نہ کرو
ق
دوستو درد زمانے کے تمام
اپنے چہروں پہ سجایا نہ کرو
اور جب درد سجا ہی بیٹھے
آئنہ دیکھ کے رویا نہ کرو
***
کھلے جو بند دریچے تو ایک جھونکے سے
کسی کی یاد کے ہر سو بکھر گئے پتّے
تجھے خبر ہی نہیں اے بہار کے موسم
تری تلاش میں کس کس کے گھر گئے پتّے
زباں تو چپ ہے مگر سوچتی ہیں یہ آنکھیں
وہ پھول کیا ہوے، جانے کدھر گئے پتّے
خزاں کا خوف مسلط ہے اس طرح ثروت
کبھی ہوا بھی چلی ہے تو ڈر گئے پتّے
***
مدّت کے بعد آج ملے ہیں تو آئیے
کچھ میرا حال پوچھیے، اپنی سنائیے
اک اجنبی خیال کو عنوان کیجیے
جو دل میں قید ہے اسے کاغذ پہ لائیے
اتنا سکوت ہے کہ الجھنے لگی ہے سانس
خاموشیوں کی جھیل میں پتھر گرائیے
تنہائیوں کی دھوپ نے جھلسا کے رکھ دیا
یادوں کے سائبان میں خود کو چھپائیے
پھر آسماں کے رخ پہ بکھرنے لگے ہیں رنگ
پردوں کی گرد جھاڑیے، کمرے سجائیے
***
راہ سے ناآشنا بھی راہبر ہونے لگے
راستوں کے سنگ بھی اب ہمسفر ہونے لگے
کس قدر گمبھیر ہے تاریکیوں کا سلسلہ
چاندنی کے دائرے بھی مختصر ہونے لگے
گھر سے باہر شہر کی جلتی ہوئی سڑکوں پہ آ
ہم پہ جو بیتے ہے تجھ کو بھی خبر ہونے لگے
وقت کی زنجیر میں جکڑے ہوے ہیں ذہن و دل
ہاں مگر ایسا نہ ہو، یوں ہی بسر ہونے لگے
نام کی تختی ہماری اور گھر ہے غیر کا
دوستو سنتے ہو اب ایسے بھی گھر ہونے لگے
***
آنگن تمام نیم کے پتّوں سے بھر گیا
جھونکا ہوا کا پیڑ کو ویران کر گیا
چہرہ تھا کوئی جس نے پریشاں رکھا مجھے
لمحہ تھا کوئی جس کے لیے دربدر گیا
حدِ نگاہ تک یہ کڑی دھوپ اور آج
بادل کا سائباں بھی جانے کدھر گیا
یا لفظ لفظ بھولنا اس کا محال تھا
یا حرف حرف ذہن سے میرے اتر گیا
کس طرح سے کٹے گی سفر کی سیاہ رات
ثروت اسی خیال میں دن بھی گزر گیا
***
میں کہ سورج کے شہر میں رہ کر
روشنی کے لیے ترستا ہوں
ہر طرف دھند، کہر، خامشی
کن فضاؤں میں سانس لیتا ہوں
سرد خاموشیوں کے جنگل میں
دل بھی دھڑکے تو چونک اٹھتا ہوں
ایک بےنام آگ ہے جس میں
دھیرے دھیرے سلگتا رہتا ہوں
جب بھی کچھ زخم بھرنے لگتے ہیں
تیری تصویر دیکھ لیتا ہوں
دوستو، اپنے گھر کے دھوکے میں
جانے کس گھر پہ آن پہنچا ہوں
***
پھر دبے پاؤں کوئی گزرا ہے
وہم ہے یا ہوا کا جھونکا ہے
گھر سے نکلے تو یہ ہوا معلوم
گھر سے باہر بھی ایک دنیا ہے
دور بادل کے ایک ٹکڑے پر
سائباں کا گمان ہوتا ہے
کوئی پتّا گرے جو ٹہنی سے
شب کا سناٹا چیخ اٹھتا ہے
خامشی پر نہ جائیے ثروت
یہ بھی حالات کا تقاضا ہے
***
بھیگی شاخوں پہ سو گیا ہے چاند
آج پتھر کا ہو گیا ہے چاند
چاندنی کی پھوار برسا کر
شب کا پیکر بھگو گیا ہے چاند
دشتِ ماضی میں چھوڑ کر مجھ کو
جانے کس سمت کو گیا ہے چاند
اے ستارو، ذرا تلاش کرو
کن اندھیروں میں کھو گیا ہے چاند
اب کسے نیند آئے گی ثروت
دل میں کانٹے چبھو گیا ہے چاند
***
نیند کا سونا مری آنکھوں سے پگھلا دیر تک
میں گزشتہ رات بھی بے بات جاگا دیر تک
لکھ گیا ہے جانے کیا چہرے پہ لمحوں کا غبار
دیکھتا رہتا ہوں آئینے میں چہرہ دیر تک
اس گلی کے سارے گھر خاموش تھے، تاریک تھے
جانے کیوں روشن رہا تھا اک دریچہ دیر تک
چاپ ابھری اور پھر خاموشیوں میں کھو گئی
اک مدھر نغمہ مرے کانوں میں گونجا دیر تک
میں اکیلا تھا سڑک پر دور تک کوئی نہ تھا
وہ نہ جانے کون تھا، کس نے پکارا دیر تک
***
شاخوں کے زرد ہات لپکتے ہی رہ گئے
پتوں کا تاج پل میں اڑا لے گئی ہوا
کل جس نے رکھ دیے گھنے جنگل اجاڑ کر
در آئی بستیوں میں وہی سر پھری ہوا
کچھ دور میرے ساتھ چلی تھی خبر نہیں
تھک کر کہاں پہ بیٹھ گئی آپ ہی ہوا
چہرے کے نقش درد کی تشہیر بن گئے
مجھ کو نہ راس آئی ترے شہر کی ہوا
آیا تھا ایک شخص مجھے پوچھتا ہوا
اک بات تھی ذرا سی مگر لے اڑی ہوا
***
وہ گیا تو گھر اکیلا ہو گیا
دل بجھا تو شہر سونا ہو گیا
ہر نئے غم نے مجھے آواز دی
میں نے کیا سوچا تھا اور کیا ہو گیا
تیز تھا جھونکا نئے لمحات کا
بند یادوں کا دریچہ ہو گیا
اس کی باتوں پر تو سب خاموش تھے
میں نے لب کھولے تو چرچا ہو گیا
گھر سے باہر جانے کیا حالات ہیں
گھر سے نکلے ایک عرصہ ہوگیا
***
روشن ہوں کسی کو کیا خبر ہے
سورج کی طرح دہک رہا ہوں
پھولوں کی طرح تھا نرم و نازک
کانٹے کی طرح کھٹک رہا ہوں
خاموش ہیں کھڑکیوں کے پردے
سیلی ہوئی چھت کو تک رہا ہوں
محسوس تو کر رہا ہوں ثروت
کچھ کہتے ہوے جھجک رہا ہوں
***
نہ جانے کون ہوں، کیسا ہوں، کیا ہوں
سوالوں میں الجھ کر رہ گیا ہوں
کچھ ایسے غم دیے ہیں دوستوں نے
خود اپنے سائے سے ڈرنے لگا ہوں
انھی کمروں کی رونق تھا مگر اب
میں اک سنّاٹا بن کر گونجتا ہوں
اکیلاپن، تھکن، ویران آنکھیں
جو بیتی ہے وہی کچھ لکھ رہا ہوں
ہر اک لمحہ نئی الجھن نیا غم
نہ جانے کس مرض میں مبتلا ہوں
میں اک اڑتا ہوا پتّا ہوں ثروت
کسی اندھے کنویں میں گر رہا ہوں
***
کھڑکی کھول کے یارو باہر دیکھ رہا ہوں
دھوپ کھلی ہے شہر کا منظر دیکھ رہا ہوں
آج نہ جانے کیسے رستہ بھول گیا ہے
بادل کا اک ٹکڑا چھت پر دیکھ رہا ہوں
جانے مجھ سے تنہائی میں کیا کہتی ہیں
لمحوں کی تحریریں پڑھ کر دیکھ رہا ہوں
دنیا سے تو روز ہی ملتا رہتا ہوں
آج میں اپنے آپ سے مل کر دیکھ رہا ہوں
بازاروں کی اس رونق میں شام ڈھلے
چہروں کا خاموش سمندر دیکھ رہا ہوں
آنگن میں سوکھے پتوں کا ڈھیر لگا ہے
ثروت تیز ہوا کے تیور دیکھ رہا ہوں
***
کسی آہٹ پہ یارو چونکتا کیا؟
میں اک سائے کے پیچھے دوڑتا کیا؟
سڑک کا شور گھر میں آ گیا ہے
ہواؤں سے دریچہ کھل گیا کیا؟
مری آنکھیں کہاں تک ساتھ دیتیں
اندھیرا اس قدر تھا، سوجھتا کیا؟
میں خود اپنے لیے ہی اجنبی تھا
کسی کو شہر میں پہچانتا کیا؟
اندھیرا، آخری گھر تک اندھیرا
گلی کا لیمپ اندھا ہو گیا کیا؟
لکھی ہیں چہرہ چہرہ داستانیں
کسی کا حال یارو پوچھتا کیا؟
بھلا ان منجمد لہروں پہ ثروت
میں آوازوں کے پتھر پھینکتا کیا؟
***
شہر میں اب تو دور تلک سنّاٹا ہے
سڑکوں سے اک شور اٹھا تھا ڈوب گیا
دروازے پر آہٹ سی محسوس ہوئی
کمرے میں اک سایہ ابھرا ڈوب گیا
ماچس کی اک تیلی نے سگرٹ سلگایا
پل بھر کو اک شعلہ بھڑکا، ڈوب گیا
آنکھوں میں بےخوابی کا طوفان اٹھا
ان دیکھے خوابوں کا جزیرہ ڈوب گیا
سُونا گھاٹ تکا کرتا ہے لہروں کو
کشتی کھینے والا لڑکا ڈوب گیا
***
آج کھڑکی سے جو باہر دیکھا
اپنے سائے کو سڑک پر دیکھا
خامشی چھائی تھی گلیوں گلیوں
اور کہرام سا گھر گھر دیکھا
یوں تو ہر شخص کو مخلص پایا
ویسے ہر ہات میں پتھر دیکھا
کون رکتا ہے کسی کی خاطر
کس نے رستے میں پلٹ کر دیکھا
ایک اڑتے ہوے پتّے کی طرح
خود کو لمحات کی زد پر دیکھا
ہم نے جس آنکھ میں جھانکا ثروت
ایک خوابوں کا سمندر دیکھا
***
سنتے ہیں زندگی تھی کبھی شوخ وشنگ بھی
اب ایک واہمہ ہے یہاں روپ رنگ بھی
خود کو ذرا بچا کے نکلیے کہ اِن دنوں
پھولوں کے ساتھ ساتھ برستے ہیں سنگ بھی
یارو چلے ہو جلتی ہوئی دھوپ میں کہاں
دیکھو جھلس گیا ہے کواڑوں کا رنگ بھی
چھت ٹین کی تھی، ٹوٹ کے برسی جو کل گھٹا
بارش کے ساتھ ساتھ بجے جلترنگ بھی
ہم تازہ واردانِ غزل سے نہ کچھ کہو
آ جائے گا غزل کو برتنے کا ڈھنگ بھی
***
ہوا کے دوش پہ ٹھہرا ہوا مکان گرا
پہاڑ ٹوٹ کے خوابوں کا مجھ پہ آن گرا
بہت اٹھائے تھے سورج کے ناز ،لیکن آج
جو سانس لینے کو ٹھہرے تو سائبان گرا
سکوتِ شام کو موجِ ہوا نے توڑ دیا
کھلے کواڑ تو کھڑکی سے پھول دان گرا
قریب کوئی جزیرہ ہو، کچھ عجب تو نہیں
ٹھہر بھی جا، نہ ابھی سے یہ بادبان گرا
بہا کے لے گئی جانے کہاں ندی اس کو
وہ ایک پات جو لہروں کے درمیان گرا
کبھی اٹھیں جو یہاں زرد آندھیاں ثروت
گماں ہوا کہ ابھی سر پہ آسمان گرا
***
کیا جانیے کون ہمسفر تھا
سایہ بھی وہاں بھنور بھنور تھا
تا حدِّ نگاہ رہگذر میں
پھیلا ہوا دھوپ کا نگر تھا
سڑکوں سے پرے کھلی فضا میں
سنتے ہیں کبھی ہمارا گھر تھا
اب شہر میں آ کے سوچتے ہیں
صحرا میں سکون کس قدر تھا
یادوں کی کتاب ہات میں تھی
سوکھا ہوا پھول میز پر تھا
آواز تھکی تھکی نہیں تھی
رومال بھی آنسوؤں سے تر تھا
کل رات ہوا کا شور سن کر
سہما ہوا جسم کا شجر تھا
اب خود سے بھی خوف آ رہا ہے
میں اپنے تئیں بہت نڈر تھا
گزری ہوئی رُت خیال میں تھی
بکھرے ہوے خواب کا اثر تھا
راتوں کا طویل درد ثروت
لکھا تو بہت ہی مختصر تھا
***
چلے تھے گھر سے کہ شاید وہ رہگزر آئے
جہاں سکون کی صورت کوئی نظر آئے
گھٹا برس بھی گئی اور پیاس بجھ نہ سکی
چلو بہت ہے یہی زخم کچھ نکھر آئے
بکھر گیا کوئی احساس تو سمٹ نہ سکا
جو خواب روٹھ گئے پھر نہ لوٹ کر آئے
کھلی چھتوں پہ جو سائے چھپے رہے دن بھر
بجھی جو شام تو دہلیز پر اتر آئے
ہوا چلی تو خیالوں کے ان گنت چہرے
مرے وجود کی تنہائیوں میں در آئے
جو نقش گھلنے لگے رات کی سیاہی میں
تھکن سمیٹے ہوے لوگ اپنے گھر آئے
عذاب اپنے ہی کچھ ایسے نہ تھے ثروت
گناہ گزرے ہوؤں کے بھی اپنے سر آئے
***
بدن کا بوجھ لیے، روح کا عذاب لیے
کدھر کو جاؤں طبیعت کا اضطراب لیے
جلا ہی دے نہ مجھے یہ جنم جنم کی پیاس
ہر ایک راہ کھڑی ہے یہاں سراب لیے
یہی امید کہ شاید ہو کوئی چشم براہ
چراغ دل میں لیے ، ہات میں گلاب لیے
عجب نہیں کہ مری طرح یہ اکیلی رات
کسی کو ڈھونڈنے نکلی ہو ماہتاب لیے
سوا ہے شب کے اندھیروں میں دن کی تاریکی
گئے وہ دن جو نکلتے تھے آفتاب لیے
کسی کے شہر میں مانندِ برگِ آوارہ
پھرے ہیں کوچہ بہ کوچہ ہم اپنے خواب لیے
کہاں چلے ہو خیالوں کے شہر میں ثروت
گئے دنوں کی شکستہ سی یہ کتاب لیے
***
پکارتا ہے در و بام سے کسی کا لہو
خراج لے نہ کہیں ہم سے زندگی کا لہو
اسی امید پہ آنکھوں میں رات کاٹی ہے
کہ رائیگاں نہیں جاتا کبھی کسی کا لہو
ثبوت مہر و درخشاں ہے آج بھی یارو
شبِ فسردہ کی آنکھوں میں چاندنی کا لہو
نوید جشن چراغاں ہر اک چراغ کی لو
نمودِ فصلِ بہاراں، ہر اک کلی کا لہو
خلوص نہ مہر و وفا کی ہو کس طرح تجدید
کہ دامنوں پر نمایاں ہے دوستی کا لہو
***
ریزہ ریزہ
یہ آئنے میں جو چہرہ دکھائی دیتا ہے
نہ جانے کون ہے مجھ سا دکھائی دیتا ہے
—
جھلستی ریت سے کچھ دور ابر کا ٹکڑا
ہرے درختوں کے ملبوس کو بھگوتارہا
—
نہ کوئی چاپ ہی ابھری، نہ کوئی در ہی کھلا
ہوا الجھتی رہی شہر کے مکانوں سے
—
اس سے پہلے تمھیں نہیں دیکھا
اتنا افسردہ، اس قدر خاموش
—
کیا دھوپ سے گلہ کہ اب ہم
سائے میں جھلس جھلس گئے ہیں
—
آئے تھے کبھی جو گِھر کے بادل
کیا جانیے کہاں برس گئے ہیں
—
مرے قریب اگر بولیے تو آہستہ
تصوّرات کے آئینے ٹوٹ جاتے ہیں
—
پھر آج تیز ہوا نے بجھا دیے ہیں چراغ
پھر آج حدِ نظر تک دھواں سا پھیلا ہے
—
نگر نگر تیری یادوں کی باس پھیلی ہے
گلی گلی مری تنہائیوں کا چرچا ہے
—
دیکھا تو بے کراں تھے یارو
سوچا تو سمٹ گئے اندھیرے
—
***
!
میں صدیوں سے اس سوچ میں مبتلا ہوں
کہ جانے کہاں آ گیا ہوں
جہاں ہر گھڑی
سر پہ جلتی ہوئی دھوپ کی تیز یاں ہیں
جہاں ہر طرف
سرد سمٹی ہوئی خامشی ہے
———گھٹن ہے
جہاں زندگی
سردیوں کی گھنیری سیہ رات ہے
جس کی یخ بستگی
سب کے جذبات پر چھا گئی ہے
جس کی بے منظری سے ہر اک آنکھ پتھرا گئی ہے
جہاں چاندنی
مِل کی چمنی سے نکلے دھویں کی طرح
سانس پر بوجھ ہے
اور میں اب تلک
بس اسی سوچ میں مبتلا ہوں
کہ جانے کہاں آ گیا ہوں
***
کھڑکیاں کھول دو
کھڑکیاں کھول دو
بند کمرے میں تازہ ہوا آئے گی
سوچ کی برف پگھلے
نئے دن کا سورج نئی گرمیاں لے کے آئے
خیالات کی نیند ٹوٹے
کوئی گیت ابھرے، گھٹن دور ہو
گھر کی سب کھڑکیاں کھول دو——
***
تلاش
جیسے بے کل ہَوا
شہر در شہر، صحرا بہ صحرا پھرے
جانے کیا ڈھونڈتی—
شہر کے لوگ بھی، اس ہوا کی طرح
تنگ گلیوں میں، سڑکوں پہ
بازار میں
جانے کیا ڈھونڈتے پھر رہے ہیں؟
***
سورج کی راکھ
دن بجھا
زرد اینٹوں کی دیوار پر
شام لمحہ بہ لمحہ اترنے لگی
اونگھتی کھڑکیوں سے پرے
اک طرف
لیمپ کی ملگجی روشنی
تھرتھرانے لگی
اور پھر، دیکھتے دیکھتے
سائے ابھرے، ہیولے بکھرنے لگے
زرد اینٹوں کی دیوار پر
رقص کرنے لگے
***
چاپ
دن گزر گیا یارو!
سو گئے ہیں ہنگامے
رات کی پناہوں میں
وقت پا بجولاں ہے
نیم وا دریچوں سے
جھانکتی ہے تاریکی
اونگھتی ہوئی سڑکیں
روشنی گریزاں ہے
سلسلہ خیالوں کا
ٹوٹنے نہیں پاتا
ذہن کی نگاہوں میں
سوچ کا بیابا ں ہے
جاگتا تو ہوں لیکن
خواب بُن رہا ہوں میں
آنے والے لمحوں کی
چاپ سن رہا ہوں میں
رات کی پناہوں میں
وقت پا بجولاں ہے
***
1 تبصرہ:
بہت شکریہ ۔۔۔۔ ثروت ایک عہد ھے جس میں ھم ھمیشہ رھیں گے
نعیم رضوان
ایک تبصرہ شائع کریں