بدھ، 3 دسمبر، 2014

میری پچاس غزلیں

اپنی پچاس غزلیں دوستوں کے مطالعے کے لیے پیش کررہا ہوں، اگر آپ کوئی کمنٹ کرنا چاہتے ہیں تو بلاگ پر کرسکتے ہیں،کسی رسالے میں شائع کرنا چاہیں تو بھی بغیر کسی حوالے کے ان غزلوں کو شائع کیا جاسکتا ہے۔ کسی ویب سائٹ پر بھی یہ غزلیں بغیر کسی اجازت کے شائع کی جاسکتی ہیں۔ شکریہ!

 

(1)
تنہائی سے آخر تنگ آکر اک قصۂ آدم زاد کہا
بیزار ہوئے تو حرف کن ہم نے بھی خدا کے بعد کہا
اے عشق برے ناکام ہوئے ہم لوگ تو اس دوراہے پر
تجھ کو بھی اکیلا چھوڑ دیا، دنیا کو بھی خیرآباد کہا
اک تجربۂ بے معنی نے سب لفظ و حرف بھلا ڈالے
اک خامشئ بے پایاں نے ہرچند ہمیں آزاد کہا
بس ہم نے سمندر کی آنکھیں ریتیلی زمیں سے مس کردیں
اور اس نے شفق کو اوڑھ لیا اور اس نے دھویں کو رعد کہا
یادوں کے سسکتے پیراہن زہریلی ہوا نے کاٹ دیے
مستقبل نے آئینے سے جب فلسفۂ اجداد کہا
سب نام و ننگ کے مارے ہوئے مٹی کی طرف ہی آنکلے
پھر کون طلب کے مارے نے اک نعرۂ آتش و باد کہا
(2)
فروتنی بھی ہماری کمال کی ہوئی ہے
ادا کچھ اس میں ترے ماہ و سال کی ہوئی ہے
اگرچہ پہلی دفعہ تجھ سے وصل ہے لیکن
یہ رات پہلے کہیں استعمال کی ہوئی ہے
اتار کر مجھے ویراں نما جزیروں پر
خدا نے کیسے مری دیکھ بھال کی ہوئی ہے
میں اس سے خوش ہوں کہ میری طرف سے تیری طرف
ہر ایک ساعت غم انتقال کی ہوئی ہے
کسی نے رد کیے احکام اس اذیت کے
جو ہم نے اپنے بدن میں بحال کی ہوئی ہے
اسے خبر ہی کہاں ہے کہ ہجر کی شمشیر
ہم ایسے لوگوں نے اپنے پہ ڈھال کی ہوئی ہے
(3)
ہوں ریگ وقت سو مٹھی سے بس پھسل گیا ہوں
تو لاکھ اس سے یہ سمجھے کہ میں بدل گیا ہوں
ہزار چاندنی تیرے بدن پہ طاری ہو
مگر میں ہجر کی تھوڑی سیاہی مل گیا ہوں
خدا کا شکر ادا کر کہ ہوگیا ہوں الگ
وہ سانحہ ہوں جو گزرا نہیں ہوں ٹل گیا ہوں
مری سرشت میں ہے بے وفائی برسوں سے
سو اپنا کام نکالا ہے اور نکل گیا ہوں
کبھی کبھی تو ترے ساتھ دیکھ کر اس کو
میں کتنا تنگ ہوا ہوں میں کتنا جل گیا ہوں
(4)
کچھ ایسی بات کہی چھیڑ چھاڑ میں جائے
کہ سب حقیقت ہستی کباڑ میں جائے
میں سوچتا ہوں بہت اس کو اور پھر خود ہی
یہ سوچتا ہوں کہ وہ شخص بھاڑ میں جائے
یہ شہر ہی کوئی سناٹا ساز ہے تو پھر
کہاں سے اب کوئی دشت اجاڑ میں جائے
ہمیں کیا حسن اساطیر کی تلاش میں تو
بلا سے بابل و موہن جوداڑ میں جائے
کوئی بھی مرغ خوش الحان ہو تو ہو لیکن
ہمارے شعر کی پہلی دہاڑ میں جائے
(5)
کیا اداسی ہے کہ رونا بھی نہیں کام آتا
ایسے سناٹے میں سونا بھی نہیں کام آتا
اک لہو رنگ میرے خامۂ جاں پر ہے جسے
جھاڑنا بھی نہیں دھونا بھی نہیں کام آتا
جان لیجے کہ یہ تقدیر کے بکھرے ہوئے کام
ایسے ہیں جن کو پرونا بھی نہیں کام آتا
پا لیا ایک بدن پھر بھی حقیقت یہ ہے
کہ ترے جسم کو کھونا بھی نہیں کام آتا
میں کہ اک دائرۂ کار میں پھینکا گیا ہوں
ایسے لوگوں کے تو کونہ بھی نہیں کام آتا
سب سے بیزار ہوئی جاتی ہے ہستی میری
یعنی اکثر ترا ہونا بھی نہیں کام آتا
شبنمی خواب ان آنکھوں میں لیے پھرتا ہوں
اور راتوں کو بھگونا بھی نہیں کام آتا
(6)
مانس کی بو کسی پتھر سے ابلتی ہوئی ہے
زندگی پھر بھی وہ ظالم ہے کہ چلتی ہوئی ہے
دل بھی کس وقت ترے وصل پہ مچلا ہوا ہے
جب کہ سب دھوپ مرے جسم کی ڈھلتی ہوئی ہے
تونے کیا سوچ کے رکھا ہے مرے جسم پہ ہاتھ
اور پھر تیری ہتھیلی بھی تو جلتی ہوئی ہے
میں نے سب آہ دبائی ہوئی ہے مٹھی میں
اور تو ریت کی مانند نکلتی ہوئی ہے
میں کہ سرگرم عمل ہوں تری خوشبو کے ساتھ
اور اس وقت تری ذات بھی کھلتی ہوئی ہے
(7)
یہ شام اندر سے کچھ ملائم ہے ریشمی ہے
مگر مرے اضطراب کو بس تری کمی ہے
یہ کیا کہ میں نے تو کچھ کیا ہی نہیں ہے لیکن
ابھی سے بستر پہ گرم ہوتی ہوئی نمی ہے
میں جانتا ہوں ترے تعلق کی یہ خموشی
دراصل میری بیان بازی پہ برہمی ہے
میں جیسے پتھر ترے بدن پر پڑا ہوا ہوں
تو جیسے سل کی طرح سے شکنوں پہ بس جمی ہے
اگرچہ تیرا بخار مجھ پر چڑھا ہوا ہے
مگر مجھے بھی خبر ہے اس کی کہ موسمی ہے
کچھ اتنا اکڑا ہوا تھا پہلے یہ سانولا رنگ
اسی لیے تو اب اس میں اتنی بری خمی ہے
(8)
معبد جسم ہوں گھبرایا ہوا رہتا ہوں
اک ذرا ٹھیس سے ہی ڈھایا ہوا رہتا ہوں
کیوں برسنے نہیں دیتی مجھے تیری دھرتی
میں تو ہر وقت یہیں چھایا ہوا رہتا ہوں
لوگ پانی سے زیادہ تو نہیں ہیں شفاف
اور میں اس میں بھی گدلایا ہوا رہتا ہوں
سرد ہوتی ہوئی مٹی کے سفر میں اکثر
تیری بوندوں سے ہی گرمایا ہوا رہتا ہوں
تو کسی اور طرف جاتی ہوئی رہتی ہے
میں کسی اور طرف آیا ہوا رہتا ہوں
لمحۂ خالی ہوں اور تیرے لبوں پر اکثر
گنگنایا ہوا اور گایا ہوا رہتا ہوں
(9)
تجھی سے عشق تجھی سے بڑی عداوت ہے
یہ دل کی ہو نہیں سکتی بدن کی خصلت ہے
تجھے بدل کے میں مٹی بناؤں پانی کروں
مرے حساب سے اس رات سب اجازت ہے
لحاف میں مرا آدھا بدن ہے اور سر پر
بس ایک ڈھتی ہوئی ڈولتی ہوئی چھت ہے
وہ جس میں نشۂ زہر بدن بھی شامل ہو
تجھے بھی میری طرح اس شراب کی لت ہے
میں تجھ سے ملنے چلا آرہا تھا لیکن پھر
خیال آگیا مجھکو ابھی تو عدت ہے
ترے لبوں کی شکن صاف آرہی ہے نظر
میں جس کو ڈھونڈ رہا تھا یہی وہ ساعت ہے
وہ خودکشی ہے کہ اک کار عقلمنداں ہے
یہ زندگی ہے کہ اک نوع کی حماقت ہے
(10)
بدن کی ساری رگیں ہوکے رائگاں ٹوٹیں
مگر گلابی سیاہی کے درمیاں ٹوٹیں
یہ پلپلاتی ہوئی دوپہر ہے اس میں بھی
ہماری ضد ہے کہ دوچار بیریاں ٹوٹیں
تمام جسم ہیں اپنی شکست کی آواز
اگرچہ سوچ رہے ہیں کہ بس کہاں ٹوٹیں
میں اس پہ ہاتھ پھراؤں ترے بدن کی طرح
اسی لباس پہ خواہش کی گولیاں ٹوٹیں
کسی کو کہتے ہوئے سب زبان ہو بے کار
کسی کو چھوتے ہوئے ساری انگلیاں ٹوٹیں
یہ بھیڑ کس نے اکھٹی کری ہے منظر میں
پولس بلاؤ کہ دو چار لاٹھیاں ٹوٹیں
مرے خیال کا اک رام انگلیاں پھیرے
ترے بدن کی گلہری سے املیاں ٹوٹیں

(11)
کتنے یگ بیتے ہیں من کے پتھر پر آرام کیے
لے جا سب چھن سب لمحے یہ ہم نے تیرے نام کیے
ایک سوال انوکھا منٹو نامے پر مرقوم ملا
گاندھی جی نے مرتے مرتے بھی کتنے ہے رام کیے
سردی میں ہجراں کو کاٹا اور گرمی میں وصل کیا
شعر بنانے کی خواہش میں کیسے الٹے کام کیے
اک دن اس نے جسم کے اندھے شیش محل کو بیچ دیا
اور ہم نے بھی خواہش کے سارے پتھر نیلام کیے
میں نے تو تخلیق رچی تھی تیرے گلابی ہونٹوں پر
اور تیرے قرآن نے مجھ پر سارے لفظ حرام کیے
ان آنکھوں سے نوچ کے تجھ کو ہم نے زمیں پر پھینک دیا
تب جا کر اللہ میاں نے تیرے جلوے عام کیے
(12)
یہ جو تجھ کو حاصل کرنے کی لت بہت زیادہ ہے
رسوائی کے شہر میں اپنی شہرت بہت زیادہ ہے
چالس راتیں اب بھی تیرے ہجر کی شاید باقی ہیں
وصل تو ہوجائے گا لیکن مدت بہت زیادہ ہے
تیرا لعاب زباں کی زمیں پر دریا جیسا بہتا ہو
ہم جیسوں کو یہ چھوٹی سی جنت بہت زیادہ ہے
اس کے ساتھ تو شہروں میں بھی اپنا گزارہ کب ہوگا
وہ معشوق کہ جس کو سب سے وحشت بہت زیادہ ہے
عشق زدہ افراد بھی بوئے ہوس کے مارے لگتے ہیں
محنت اس میں کم ہے لیکن لذت بہت زیادہ ہے
دل کی کہی تو سب کرتے ہیں لیکن دل کی سننے میں
خیر بہت معمولی سا ہے، ذلت بہت زیادہ ہے
(13)
مانا جسم کمینہ ہے اور روح بڑی حرافہ ہے
لیکن اس میں تیرا ہونا خاطر خواہ اضافہ ہے
تجھ کو پاکر ویسے بھی تو خسارے میں تھے ہم جیسے
غور کریں تو تجھ کو کھو دینا بھی کوئی منافع ہے
کرنیں پھوٹ رہی ہیں اس سے جیسے پیلی چاندی کی
برق بدن پر لپٹی ہوئی ہے یا کوئی صرافہ ہے
چیر رہی ہے کانٹا بن کر لہر عجب اک سردی میں
باؤ نہیں ہے، یہ تو اس بے درد کا تگڑا لافہ ہے
اک دن سب کچھ پہلے جیسا ہوجائے گا دنیا میں
یہ سب کچھ سچ ہے لیکن سچ بھی تو ایک قیافہ ہے
سارے خواب اندھیرے میں یہ شور مچانے آتے ہیں
کس نے آگ تراشی ہے اور کس نے پانی بافا ہے
(14)
سسکتی، چبھتی ہوئی آہٹیں کدھر لے جائیں
سگ سوال کی غراہٹیں کدھر لے جائیں
ترے بدن میں اتاریں نہ اپنی چیخیں تو
ہم اپنے جسم کی جھلاہٹیں کدھر لے جائیں
بمشکل اپنے گلے میں انہیں اتار نہ دیں
تو پھر گلاس کی یہ تلچھٹیں کدھر لے جائیں
یہ ہاتھ تیرے بدن ہی سے لگ کے رہ گئے ہیں
ہم ان کو لے کے یہاں سے ہٹیں کدھر لے جائیں
وہ سرخیاں ترے ہونٹوں کی کس جگہ رکھ لیں
وہ تیری زلف کی الجھی لٹیں کدھر لے جائیں
(15)
بدن کو باندھ کے رکھ تیوروں سے خالی ہو
تو شاید اب کے برس عشق کی بحالی ہو
وہ رات گندمی تاثیر لے کے پھرتی تھی
عجب نہیں جو کسی نے اچک کے کھالی ہو
میں سسکیوں میں ترے جسم کی ہوا چکھوں
ترے لبوں پہ کوئی بہترین گالی ہو
جھروکے تاک رہے ہوں بدن کو حسرت سے
ہمارے بیچ کوئی ماربل کی جالی ہو
وہ چیز جس کے لیے چل رہا ہوں مدت سے
کہیں سفر میں ہی لگتا ہے جیسے پا لی ہو
بھلائی اس میں بھی موجود ہے تخیل کی
برا ہے کیا جو یہ سارا جنوں خیالی ہو
(16)
یہ جو سب کار نا تمامی ہے
صرف اک جسم کی غلامی ہے
شب تعمیر کی جبیں پر دیکھ
حرف مسمار ہی دوامی ہے
اس کی آنکھوں میں دیکھنا جیسے
ایٹمی جنگ ہے، سنامی ہے
اس حوالے سے سنگ پوجے جائیں
یہ بھی تیری ہی نیک نامی ہے
جسم کے شہر میں زمانوں سے
ایک آئین تشنہ کامی ہے
دل کے ساحل پہ تیری تنہائی
جسم کا شہر یا میامی ہے
ہم نے کب اس کی راہ روکی ہے
اس نے کب اپنی باہ تھامی ہے
ساتھ رہتے ہیں سالم و تصنیف
اک کمینہ تو اک حرامی ہے
(17)
نہ کوئی نام نہ کوئی نسب وسب تیرا
مگر ہے عشق کی تہذیب میں ادب تیرا
تو میرے جسم کی آتش نہیں بجھا پائی
مرے لیے تو ہے بیکار حسن سب تیرا
پرانے دشت سے آوارگی جدا میری
جدید شہر کی خاموشیوں سا ڈھب تیرا
یہ دانت رکھ کے چبانے کی چھوڑدے عادت
ادھڑ گیا ہے کچھ اس کی وجہ سے لب تیرا
یہ سارے شہر ہمارے تمہارے جیسے ہیں
نہ کچھ نجف ہی مرا ہے نہ کچھ حلب تیرا
میں انتظار میں بیٹھا ہوا ہوں مدت سے
نہ جانے راستہ گزرے گا یاں سے کب تیرا
(18)
پانی ہوں تو اور ذرا ہریالی کرکے دیکھوں گا
نیلی خاموشی میں سب کچھ خالی کرکے دیکھوں گا
تیرا بدن تو سکوں جیسا خوب اڑایا ہے میں نے
اب اس دشت میں کچھ برسوں کنگالی کرکے دیکھوں گا
روشن ہے وہ کتنا میرے تنہا سرد اندھیرے میں
بجھنے سے پہلے پوری دیوالی کرکے دیکھوں گا
یہ میری تنقید ہے اس میں میری مرضی چلتی ہے
میں تو سلیم احمد جیسوں کو حالی کرکے دیکھوں گا
(19)
بند ہو جانا ہے اک روز سبھی راہوں کو
اس لیے آنے دیا میں نے ہوا خواہوں کو
وقت اک روٹھا ہوا جھرنا ہے جس میں آکر
روکنا ہی نہیں چپو کبھی ملاحوں کو
جب تجھے سوچ کے میں ضرب لگاتا ہوں کبھی
اس سمے دیکھ نہ لے کوئی مری آہوں کو
ایسا لگتا ہے بس اک تجھ کو بنانے کے لیے
محنتیں کرنی پڑی ہیں کئی اللہوں کو
صبر کرنا تھا ابھی اور مری تیزی کو
کھلے رہنا تھا ابھی اور تری بانہوں کو
(20)
حرف حسن شب جہاں لفظ تراوٹ ہوگیا
سب گھٹاگھٹ گھٹ گیا اور کچھ فٹافٹ ہوگیا
کیسی نگری تھی کہ جس میں روز روشن تھا عیاں
رات آئی اور سارا راج چوپٹ ہوگیا
تو نے آنکھوں سے پیا پانی تو میں اک آن میں
پیاس کی دیوی کی خاطر کوئی پنگھٹ ہوگیا
جسم تھا یا کوئی جلتا تان سینی راگ تھا
سن کے اس کو میں جو دیوانہ تھا ہولٹ ہوگیا
رال میں دو چار ذرے کوثر و تسنیم کے
پی کے جن کو میرا بستر سرمئی تٹ ہوگیا
(21)
یہ جو ندی نظر آتی ہے تمہیں ریتی کی
میں نے کچھ اور نہیں صرف یہی کھیتی کی
میں بھی کچھ اپنے مقدر سے نہیں خوش ایسا
اس کو بھی کچھ نہ سمجھ آئی خدا دیتی کی
مجھ کو دنیا سے کوئی فائدہ حاصل نہ ہوا
میں نے اک آہ بھری اور ملامیتی کی
میں نے اک رات اس عورت کے بھی لب چوم لیے
اس نے تتلا کے کہا تن نے بلی نیتی کی
(22)
خبر میں رہنا پڑے جس طرح کی باتوں سے
میں ان کو خود ہی بناتا ہوں اپنے ہاتوں سے
جب اس نے شرط رکھا دن وصال کی خاطر
تو مجھ کو ہوگئی نفرت تمام راتوں سے
نصار و سیفی کے ساتھ عشق وہ بھی سید کو
ہمارا کام نہ نکلے گا ایسی ذاتوں سے
برس کے شہر شرابور کر ہی دیں گی سب
نہ روک پاؤ گے تم بارشوں کو چھاتوں سے
بدن بھنبھوڑنے آئے ہیں گرسنہ کتے
سو چوہے بھاگ گئے ہیں نکل کے آنتوں سے
بچا کھچا ہوا اک عام آدمی کا حساب
ابھی تو اور ملے گا خدا کے کھاتوں سے
(23)
یہ کس نے کاٹ کے رستے میں پیڑ ڈالا ہے
عجیب شاخیں لیے ایڑھ ٹیڑھ ڈالا ہے
کیا ہے وصل کہ کمبخت نے مزے کے ساتھ
مرے تمام بدن کو ادھیڑ ڈالا ہے
وہ ہاتھ جم سا گیا تھا تری سیاہی پر
سو ہم نے اس کو وہاں سے اکھیڑ ڈالا ہے
بہت سی کوششیں کیں پہلی رات پھر تھک کر
ترے سوراخ میں چاقو گھسیڑ ڈالا ہے
(24)
گلا بھی گھونٹ نسیں بھی نچوڑ دے میری
میں چاہتا ہوں کہ تو جان چھوڑ دے میری
میں اس کی ران میں کاٹوں تو بلبلا اٹھے
اور اس کے بعد وہ ہڈی بھنبھوڑ دے میری
دکھا تو پھر وہی بدمست کاسنی رنگت
پھر اس کے بعد یہ آنکھیں بھی پھوڑ دے میری
میں اس سے ٹوٹ کے کیسا ہراساں پھرتا ہوں
ذرا سی پھر وہی تنہائی جوڑ دے میری
(25)
ردیف جوڑ کے اور قافیہ گھٹاتے ہوئے
غزل بنائی ہے میں نے ہوا میں گاتے ہوئے
کچھ اس کا بت بھی سلامت نہیں رہے گا جسے
میں خوب جان رہا تھا خدا بناتے ہوئے
ذرا سا موم ہی ٹپکا تھا اس انگوٹھے پر
جو اس نے شور مچایا ہے بلبلاتے ہوئے
وہ شخص اللہ قسم خوبرو بہت ہے مگر
کبھی نہ دیکھنا اس سر پھرے کو کھاتے ہوئے
ذرا سی سوچ لگے گی کسی حسینہ کی
ذرا سا زور لگے گا بدن بڑھاتے ہوئے
غزل وزل تو مجھے راس آگئی لیکن
میں اس کی شکل بدل دوں گا اس میں آتے ہوئے
(26)
ٹرک کے پیچھے لکھی شاعری ہماری ہو
اور ایک حقہ کی نے اس بدن سے جاری ہو
بھرا پرا ہے مرا گھر سو اس میں کس طرح
ترے گداز تصور سے شب گزاری ہو
وہ پانچ انگلیاں تا عمر میرے ساتھ رہیں
کہ جن سے نقرئی پانی کا فیض جاری ہو
خدا مزہ ہی نہ آجائے جب ہمارا دل
اس ایک رنگ شوالے کا ہی پجاری ہو
وہ میرے سیدھے بدن پر پڑی رہے اوندھی
بلا سے اس کا بدن سانڈ جیسا بھاری ہو
(27)
ایسا نیک رہا ہوں میں
ایکا ایک رہا ہوں میں
چل اے حسن کی مورت آ
ماتھا ٹیک رہا ہوں میں
تجھ سے سچی محبت ہے
ہا ہا! پھینک رہا ہوں میں
سیدھا دریا کیوں ہوجاؤں
الٹی لیک رہا ہوں میں
میٹرو میں ہوں اور اپنی
آنکھیں سینک رہا ہوں میں
(28)
خدا کی بات تو میٹھی تھی اور پیاری تھی
مگر یہ نہر تھی جنت کی اور کھاری تھی
سو تونے لوٹ لیا مجھ کو اپنے ہونٹوں سے
کہ ان میں ایک بڑی سرخ ہوشیاری تھی
میں اس میں بھی تجھے بتلا نہ پایا حال دل
اگر اصول سے دیکھو تو میری باری تھی
وہ رات زلف میں تو باندھ لی تھی تو نے مگر
دراصل وہ ترے اپنے بدن سے بھاری تھی
نہیں ملا تو خدا کی ہی مصلحت تھی کوئی
جو مل گیا ہے تو ساری خطا ہماری تھی
(29)
کہانی لکھی تھی میں نے نئے مہاجن پر
اور ایک بھیگی ہوئی ململی سی کترن پر
میں میر انیس پہ لکھ کر ہوں مطمئن لیکن
مجھے تو لکھنا تھا پرچے میں میر امن پر
میں ایک مور ہوں اور مجھ کو نظم لکھنی ہے
کڑکتی بجلی پر اور سانورے سے ساون پر
ہمیں تو رات کا ڈر بھی بہت ستاتا ہے
اور اپنی ٹرین بھی آنی ہے چار باون پر
مجھے تو شرم سی آتی ہے یہ بتانے میں
کہ میرا دل کبھی مچلا تھا اک بھکارن پر
(30)
شب ہے، کسی کے چلنے کی دھیمی اواز ہے
یہ سیر ویر اصل میں سناٹا ساز ہے
سب کام ہی بگڑتے گئے رفتہ رفتہ اور
میں سوچتا رہا کہ خدا کارساز ہے
پانی کا سب طلسم دکھاتی ہوئی یہ لہر
اک ڈوبتے ہوئے کی صدا پر دراز ہے
میں مررہا ہوں بھوک سے لیکن کہیں کوئی
اس میں بھی رزق بانٹنے والا کا راز ہے
شکنیں بنارہی ہے یہ صحرائی سرزمیں
اور ان پہ لوٹتا ہوا اکلوتا باز ہے

(31)
بیراگی کردے یا مجھ کو رنگ برنگی چونر دے
اس بے رنگ پیالے میں تو آج وہی پتھر بھردے
جسم کو اپنے آج میں خونی عطر سے بھر کر لایا ہوں
ناخنی خنجر گاڑ کے میرے ہونٹوں کو خالی کردے
خالی برتن ناچ رہے ہیں ادھر ادھر سب شکموں میں
فرق نہیں کچھ آج وہ اڈلی دے مجھ کو یا سانبر دے
کالی پیٹھ پہ بیٹھ کے اپنے ہاتھ ملوں اور خون اڑاؤں
اونگھ پڑی ہے سارے بدن میں اس کو کارا مچھر دے
(32)
اپنے سارے سپنے جب پھل پھول رہے تھے
ہم دونوں رونے کا موسم بھول رہے تھے
وہ بھی کون سی خسرو زادی تھی آنکھوں کی
اپنے دل پر بھی کب ہاتھی جھول رہے تھے
جسم کی باری آئی تو بے چارے غازی
اک بے کار ریاضت میں مشغول رہے تھے
جسم جلانا، مٹی کھانا، چھینٹہ کسنا
دنیا کے کیسے کیسے معمول رہے تھے
(33)
دل میں پھوٹا ہے کوئی جشن دوالی کی طرح
مجھ کو درگا بھی پسند آئی ہے کالی کی طرح
یہ گلی اس کے ہی چھجے کی طرف کھلتی ہے
اس لیے ٹہلتا رہتا ہوں موالی کی طرح
تو مرے خواب کی تپتی ہوئی گاجر رکھ لے
اور کھاجاؤں تجھے میں کسی گالی کی طرح
نئے اسلوب کی بنیاد ہے میرا ہر شعر
ورنہ سب شاعر اردو تو ہیں حالی کی طرح
(34)
وہ شخص کچھ نہیں ہے نظر کا وبال ہے
جس کے لیے بدن کی بڑی دیکھ بھال ہے
اک نقطۂ نظر کی کمی ہے وگرنہ وہ
پتھر نہیں ہے، آگ کی روشن مثال ہے
جتنا بھی اس سے لیجیے ہوتی نہیں کمی
کس دولت قیاس سے وہ مالا مال ہے
جی میں تو سو برس سے یہی ہے کہ مان لیں
اس نقطۂ حرام پہ سب کچھ حلال ہے
وہ مرگیا کہ اس کی کہیں شادی ہوگئی
میرے لیے تو دونوں ہی صورت میں کال ہے
اک حلقۂ انار میں چاندی کی بازگشت
ایسی مثال ہے تو مگر خال خال ہے
(35)
رات برسات ہوئی اور جھماکے سے ذرا
ٹین کی چادریں گرتی تھیں دھماکے سے ذرا
گیلی مٹی کا مکاں ہے اسی چوراہے پر
ہاں اسی روڈ پہ آگے کو ہے ناکے سے ذرا
وہ بدن کانسہ صفت اور چمک اٹھتا ہے
مری آنکھوں کے مسلسل یونہی تاکے سے ذرا
بھیڑیے کی طرح بستر پہ جھپٹ پڑتا ہے
جان آجاتی ہے اس جسم میں فاقے سے ذرا
(36)
سارے ٹوٹکے جعلی ہیں اور ساری باتیں فرضی ہیں
ہم سب بس اک بوسیدہ کمرے کے بوڑھے درزی ہیں
ہم مجبوروں پر مختاری کی تہمت بے کار نہیں
جو اپنے دھندے ہیں اصل میں وہ ہی مولا مرضی ہیں
چوما چاٹی کے بھی سارے تنتر پرانے کر بیٹھے
جسم کی آپا دھاپی میں کیا فتنے قرضا قرضی ہیں
(37)
پناہ چاہیے ہر ذی نفس کو پانی سے
مگر گزرنا ہے اس وقف درمیانی سے
مجھے پسند بھی آتا نہیں ترا کردار
نکالتا بھی نہیں میں اسے کہانی سے
یہ زہد وہد کا چکر اگر سہی ہے تو پھر
نکال کر کوئی دیکھے بدن جوانی سے
ذرا تو غور کرو حکمتوں کو کام میں لاؤ
کوئی تو فائدہ نکلے گا دل کی ہانی سے
جو تو نہیں ہے تو پھر موت ہی چلی آئے
مگر سلیقے سے یک گونہ مہربانی سے
(38)
اک شام جل رہی تھی کہیں درمیان میں
میرے سجے سجائے ہوئے اس مکان میں
میں نے بھی اس کو نقل نہ کرنے دی زندگی
اس نے مجھ کو ڈال دیا امتحان میں
تنہائی کے عذاب سے گھبرا کے رو دیا
میں اپنے جسم میں تو خدا آسمان میں
شب ٹس سے مس نہ ہوتی تھی، اس روسیاہ کی
اٹکی تھی ساری جان فقط ایک نان میں
پانی کا زور بڑھ سا گیا ہے زمین پر
اللہ رکھے شہر کو اپنی امان میں
وہ کھردرا سا ہاتھ تھا مونڈھے پہ خواب کے
اور آنکھ کھل گئی مری اس کھینچ تان میں
(39)
اب کے مری آواز پہ ایسی ہی بنی ہے
جس لفظ کا سر خم نہیں گردن زدنی ہے
منہ زور ہے یہ جذبۂ وحشت سو رہے گا
اک رگ کہ ہمیشہ سے تنی تھی سو تنی ہے
پانی سے کوئی مسئلہ حل ہو نہیں سکتا
مٹی کا مقدر یہی آتش بدنی ہے
گھر میں نہیں کچھ بھی مگر اک تقوۂ شب ہے
کاٹو نہ ابھی شور کہ اللہ غنی ہے
میرا بھی وہی دید کا جھگڑا ہے خدا سے
مجھ پر بھی وہی ایک عتاب ارنی ہے
(40)
کبھی تو عشق مجازی بھی واقعاتی ہو
مجھے وہ اپنے بدن کا ہنر دکھاتی ہو
ہزار ذاتی ہو امکان جنس تنہائی
مگر جو رقص دکھائے تو کائناتی ہو
صدا وہی ہے جو اک حرف کن کی صورت میں
کہانیوں کی طرح سب میں سنسناتی ہو
وہی ہو نکتۂ موجود غالباً جس پر
ہماری سوئی ہمیشہ ہی رک سی جاتی ہو
(41)
رات ہوا کا سارا قصہ ٹانگوں کی تقدیر میں تھا
اور مرا تہذیبی ہزارہ لمحۂ عالم گیر میں تھا
تیرے آجانے سے مٹی سوکھ گئی ہے آنکھوں کی
جسم کا سارا نم القصہ رونے کی تاثیر میں تھا
بیٹھ کے ہم نے اپنے جلتے پاؤں کو تسکین تو دی
لیکن سب کا بیٹھتے جانا قدموں کی تعذیر میں تھا
اس پنے پر میں نے سب کچھ لکھا اور پھر کاٹ دیا
اصل میں میرا سارا لکھنا اس چھوٹی سی لکیر میں تھا
جب سے ہم نے سوچنا سیکھا ہم لکھنا بھی سیکھ گئے
پھر تو لطف سلیم احمد میں اور نہ سراج منیر میں تھا
(42)
یہ بڑھتے رہنے کی ساری تکان کب تک ہے
مرے بدن میں یہ ننھی سی جان کب تک ہے
نہیں ہے اس سے مجھے عشق کا یقیں شاید
گمان ہے مگر آخر گمان کب تک ہے
اس ایک جلتی ہوئی باڑھ پر لیے بندوق
کھڑا ہوا فقط اللہ خان کب تک ہے
سنا ہے آگ برستی ہے اس کے ہونٹوں سے
یہ بات ہے تو ہوا کا مکان کب تک ہے
اگر ہے بھوک مقدر ہماری نسلوں کا
تو پھر زمین کی چھوٹی سی نان کب تک ہے
میں رینگتے ہوئے یہ دیکھتا ہوں ٹانگوں پر
کہ ان روؤں میں سمندر کی تان کب تک ہے
(43)
میں ایک خطۂ لا ممکنات و ممکن میں
نظر نہ آؤں اگر جسم کے خزائن میں
تو اس کو رات میں ناخن سے پھر کریدوں گا
وہ روشنی جو کہیں مجھ سے کھو گئی دن میں
میں ایک سکۂ نذر و گزار ہوں مجھ کو
کبھی تو باندھ بدن کے امام ضامن میں
(44)
شب کہیں رستے ہوئے زخموں کا خمیازہ نہ ہو
دن کے تلووں پر ہواؤں کا سیہ غازہ نہ ہو
دیکھ کر اب انتخاب خواب کرنا زندگی
یہ نہ ہو کہ خود کو کھو دینے کا اندازہ نہ ہو
ایسی کچھ افسردگی پانی پہ لکھی ہونٹ نے
جیسے یہ مٹی زدہ برسوں میں بھی تازہ نہ ہو
زخم کو صیقل کیا برسوں میں اس تنہائی نے
اور مرہم چاہتا ہے کوئی آوازہ نہ ہو
کاٹ اپنی روح کو ایسے کہ اس کا اضطرار
رقص میں آجائے لیکن برسر اعضا نہ ہو
(45)
کیوں کشمکش میں ہیں کہ ہمارا نہیں کوئی
ہم ہی پکار لیں جو پکارا نہیں کوئی
تجھ کوبھی پہلے جیسی محبت نہیں رہی
اور چاہیے مجھے بھی دوبارہ نہیں کوئی
میں خود سمندروں سے زیادہ تباہ ہوں
اور اس لیے کہ میرا کنارہ نہیں کوئی
ہم دونوں بادشاہ اکیلے بساط پر
جیتا نہیں جو کوئی تو ہارا نہیں کوئی
(46)
سانس ذرا لے لیں اتنا بھی وقت نہیں ہے
اچھا اور برا کیسا بھی وقت نہیں ہے
مرا علاج محبت ہی سے ممکن ہے اور
تیرے پاس محبت کا بھی وقت نہیں ہے
(47)
دریائی ہوجانے کی خواہش میں ہم صحرائی ہوئے
ایک اکیلے ہم ہی کیا ہم جیسے کتنے بھائی ہوئے
حیرت ہے کہ میں اس سے اکتایا نہیں ہوں رتی بھر
ایک برس سے زیادہ گزرا ہے شاید تنہائی ہوئے
اس بستی پہ غلامی کے بادل چھائے اور پھٹ بھی گئے
ایسی باڑھ آئی کہ جتنے بندے تھے مولائی ہوئے
دل کی قیمت کون لگا سکتا تھا ان بازاروں میں
اب تو عرصہ بیت گیا ہے اس جیسی مہنگائی ہوئے
(48)
1915
کی بات ہے ، میں نے گھر پر تار دیا
ابا جی کو اک انگریز نے چوراہے پر مار دیا
نقشے باندھ دیے ہیں لوگوں نے میری بینائی پر
پاؤں مجھے بیکار ملے ہیں دل تونے بیکار دیا
آخری داؤ پہ میں نے اپنا جسم لگایا اور اس کے
آگے ہنستے ہنستے اپنا آخری داؤ بھی ہار دیا
اللہ میاں کاشکر مناؤ جس نے ہم کو دنیا دی
اور دنیا نے ٹیبل بخشی ، ٹیبل پر اخبار دیا
(49)
چاکلیٹی رنگ کی لڑکی سے مجھ کو پیار تھا
پیار کیا تھا، صرف ٹھنڈی رات کا اصرار تھا
تجربہ شیطاں کا میرے پاس تھا، لیکن مجھے
آگ ہو کر مٹیوں میں لوٹنا دشوار تھا
جھوٹ کی بنیاد پر میں نے سکھایا سچ اسے
یعنی میرا سچ ہی سارا جھوٹ تھا، بیکار تھا
(50)
شعروں سے مامور مرا بستر رکھا تھا
اور مرے ہونٹوں میں کون ہنر رکھا تھا
پاؤں اٹھائے ہی تھے میں نے چلنے کو اور
میرے قدموں میں میرا ہی گھر رکھا تھا
پیڑ نہیں تھا، لکڑی کی کوئی ٹیبل تھی
قصہ گو کیا تھا اک کمپیوٹر رکھا تھا
نیلے اور سفید پروں میں دنیا بھر نے
دنیا بھر کی آبادی کو بھر رکھا تھا
سب مجھ کو بو جہل پکارا کرتے ہیں گو
سب سے اونچا میں نے اپنا سر رکھا تھا

2 تبصرے:

Ghalib Ayaz کہا...

Dekha jaye to aap ne ek mukammal kitab dal di hai... dil khush hogaya. Is tarah ka aahang unhein bhi naseeb nahi jo shairi mein baRe baRe daaway karte hain. Agar pdf. mein mail karein to mazeed mehbaani!

vikas sharma raaz کہا...

Ye to poora majmua hi ho gaya tasneef bhai......dheere dheere padhoonga.....agar aap pdf mein mail karein to karam hoga.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *