مشرف عالم ذوقی ہمارے عہد کے ایک اہم افسانہ نگار اور ناول نگار ہیں، تخلیق کے علاوہ انہوں نے تنقید کے میدان میں بھی کام کیا ہے، ان کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ 'آب روان کبیر'بھی شائع ہوچکا ہے،وہ زندگی اور ادب میں دوہرے معیار کے بالکل قائل نہیں ہیں، صاف گو اور حقیقت پسند انسان ہیں،سترہ سال کی عمر میں انہوں نے اپنا پہلا ناول'عقا ب کی آنکھیں'لکھا اور اس وقت بھی ہندوستان اور پاکستان کے اہم ترین ادبی جریدوں جیسے دنیازاد اور مکالمہ میں شائع ہوتے رہتے ہیں، ہندی میں بھی ان کی کہانیاں شائع ہوتی رہتی ہیں، وہ ہندوپاک کے ادبی منظرنامے خاص طور پر فکشن کے مختلف اسالیب اور رویوں سے بخوبی واقف ہیں، اس گفتگو سے ان کے تعلق سے قائم بہت سی غلط فہمیاں دور ہوسکتی ہیں، امید ہے کہ آپ کو یہ مکالمہ ضرور پسند آئے گا۔
تصنیف حیدر: کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ آپ جس تیزی سے ناول لکھتے ہیں، اس کی وجہ سے ناول کی باریکیوں اور فن پر آپ کی گرفت اکثر ڈھیلی پڑجاتی ہے۔کیا آپ اس بیان سے متفق ہیں؟کیوں؟
مشرف عالم ذوقی:بھائی تصنیف_ پہلا ہی سوال تم نے کچھ لوگوں کے حوالے سے کیا ہے_ تم اپنی بات کرتے تو میرے لیے جواب دینا آسان ہوتا_ کوئی تم سے آکر کہے کہ کچھ لوگ تمہیں برا بھلا کہہ رہے ہیں، اس پر تمہارا ردّ عمل کیا ہوگا؟ مجھے یقین ہے کہ تم مسکراؤ گے اور کہو گے، ان کو کہنے دیجئے_ لیکن یہاں ایک دشواری یہ پیدا ہو رہی ہے کہ سوال ادب سے متعلق ہے_ یعنی یہ کچھ لوگ ادب کے ’خاندان‘ سے ہیں_ یہ کچھ لوگ، ہمیشہ سے ’کچھ لوگ‘ ہی ہیں_ انہیں عظیم سقراط کی طرح سامنے آکر سچ بولنے اور زہر پینے کا حوصلہ کہاں ہوتا ہے_ چلو، شرلاک ہومز کی طرح ان کچھ لوگوں کی تلاش میں نکلتے ہیں_ کیونکہ اگر یہ کچھ لوگ واقعی ہیں، تو ان کا اتہ پتہ، ٹھکانا تو ہونا ہی چاہئے_ بیان لکھنے کے ایک سال بعد بھوپال سے محترم اقبال مسعود صاحب کا فون آیا_ ذوقی_ ’کچھ لوگوں‘ نے تمہارے ناول کو بُرا بھلا کہا تھا اور مطالعہ کرنے سے منع کیا تھا_ دیکھو تصنیف یہاں بھی کچھ لوگ موجود ہیں_ لیکن اقبال صاحب منع کرنے کے باوجود تجسس کو روک نہیں سکے_ ناول پڑھ کر ہی دم لیا_ پھر ان ’کچھ لوگوں‘ سے الگ ان کی اپنی ایک رائے بن گئی_ ایسی ہزاروں مثالیں ہیں تصنیف_ مجھے آئے دن ایسے فون موصول ہوتے ہیں’۔۔۔ کچھ لوگ آپ کے بارے میں کہہ رہے تھے‘_ سنو تصنیف۔۔۔ اب آہستہ آہستہ مجھے ان کچھ لوگوں سے محبت ہوتی جا رہی ہے_ تم جانتے ہونا_ انکار، اقرار کی پہلی سیڑھی ہے_ ایمان کی پہلی منزل بھی لاہے_نہیں ہے کوئی معبود سوائے اللہ کے_ ابھی زیادہ دن نہیں گزرے _ لے سانس بھی آہستہ کی اشاعت کے بعد پیارے زمرد مغل کے کئی میسج ایک ساتھ موبائل پر آئے_ وہ ناول پڑھ کر حیران اور خوش تھے_ ملنے بھی آئے_ یہاں بھی معاملہ ’کچھ لوگوں‘ کا تھا_ مجھے تو خوشی ہے کہ ان کچھ لوگوں کی وجہہ سے میرا دائرہ محدود نہیں ہوا بلکہ وسیع ہوا ہے_ بھائی تصنیف اب میری بات سنو: ایک بزرگ کے پاس یہی کچھ لوگ بیٹھے ہوئے تھے_ بزرگ نے ایک کتاب پر غصہ ظاہر کرتے ہوئے کہا_
یہ کوئی کتاب ہے_
’کچھ لوگوں نے ایک ہی زبان میں کہا_ بجا فرمایا_
بزرگ پھر گویا ہوئے_ اس کتاب میں کچھ نہیں _
’کچھ لوگوں‘ نے بھی اسی انداز میں کہا_ بجا فرمایا_ اس کتاب میں کچھ نہیں_
بزرگ نے کتاب کو ہوا میں اچھالتے ہوئے کہا_ خیال رہے، آئندہ اس شخص کی کتابیں میرے سامنے نہ آئیں_
’کچھ لوگوں‘ نے بزرگ کی بات دہرائی_ اب اس شخص کی کتابیں آپ کے سامنے نہیں آئیں گی_
ڈرتے ڈرتے ان کچھ لوگوں میں سے ایک نے بزرگ سے دریافت کیا_ کیا آپ نے اس کتاب کا مطالعہ بھی کیا ہے؟
بزرگ غصے میں بولے_ کیا اس کتاب کو پڑھنے کی ضرورت ہے؟
میرے بھائی تصنیف _ کچھ لوگوں پر مت جاؤ_ کچھ لوگ کان کے کچے پکے ہوتے ہیں_ اب تم ماشاء اللہ اس عمر میں آگئے ہو جہاں تمہیں ان کچھ لوگوں سے فاصلہ بنانے کی ضرورت ہے_ ایک بات یاد رکھو_ یہ دنیا کچھ لوگوں تک محدود نہیں ہے_ اردو کی ایک بڑی دنیا نے لے سانس بھی آہستہ کو پسند کیا ہے اور اعتراف بھی کیا ہے_ پھر یہ کچھ لوگ جو بغیر مطالعہ کے، برسوں سے میرے خلاف رہے، میں انہیں کیوں تسلیم کروں_؟ اور اس بڑی آبادی کو کیوں نہ تسلیم کروں جو نہ صرف مطالعہ کا حق ادا کرتی ہے بلکہ سچ بولنا بھی جانتی ہے_ کچھ لوگوں کی جگہ اگر تم نے اپنی بات کی ہوتی، دلیل دی ہوتی تو اس پہلے سوال پر مکالمہ قائم کیا جا سکتا تھا_ اب سنو تصنیف میاں_ ۱۶ سے ۲۰ سال کی عمر تک میں داستان سے مغربی ادب تک بڑے بڑے ناولوں کو کھنگال چکا تھا_ پہلے ناول ’عقاب کی آنکھیں‘ میں بھی، فن پر میری گرفت تم کونظر آجائے گی_ یہ ناول میں نے محض ۱۷ سال کی عمر میں لکھا تھا_ اس عمر میں بھی میرا سارا زور ناول کی باریکیوں پر تھا_ اب تم ایک نئی بات اور بھی کہتے ہو۔۔۔ ’ کہ آپ جس تیزی سے ناول لکھتے ہیں۔۔۔ بھئی کمال ہے۔۔۔ میں نے اب تک صرف ۱۱ ناول لکھے_۵۲ سال کی عمر ہے_ ارے بھائی_ ادب کی دنیا میں ہوں_ تم ہر روز فیس بک پر ایک تحریر دیتے ہو_ میں ناول کے لیے وقت نکالتا ہوں_ محترم فاروقی صاحب تنقید کے میدان میں ہیں تو وہ بھی اسی تیزی سے لکھتے ہیں_ ان کی کتابیں دیکھ لو اور میری کتابیں_۱۹۹۰ سے ۲۰۱۴ تک بیان، پوکے مان کی دنیا ،پروفیسر ایس کی عجیب داستان، لے سانس بھی آہستہ، آتش رفتہ کا سراغ شائع ہوئیں_ یعنی ۲۵ برس کا عرصہ اور پانچ ناول_ اب ایک نیا ناول نالۂ شب گیر_‘ ۲۵ سال کے عرصہ میں تجارت نہیں کی۔ مجلسوں میں نہیں گیا_ مطالعہ کیا اور لکھنے پر زور رہا تو یہ پانچ کتابیں بہت زیادہ کیسے ہوگئیں_ ؟اور آپ مجھ سے پوچھ رہے ہیں کہ کیا میں ان ’کچھ لوگوں‘ کے بیان سے متفق ہوں_ یہ بات آپ خود سے بھی دریافت کر سکتے ہیں کہ کیا ۲۵ برس میں اگر کوئی ادیب پانچ ناول لکھتا ہے تو کیا اسے زود نویس کہا جا سکتا ہے_ ؟ایک بات اور سن لیجئے_ پچھلے ۱۰ برسوں میں، میں نے کوئی کہانی نہیں لکھی_ ٹیشو پیپر میری آخری کہانی تھی، جو میں نے ۲۰۰۴ میں لکھی تھی_ اس درمیان کہانی کی شکل میں جو تحریریں شائع ہوئیں، وہ دراصل ناول کا حصہ تھے_ اور ان کی تعداد کچھ اتنی زیادہ نہیں کہ مجھے بسیار نویس کہا جا سکے_ پھر تو ہندوستان کے دیگر زبانوں میں لکھنے والے اور مغرب کے بہت سارے ناول نگاروں کو آپ ریجکٹ کر دیں گے_
یہ کوئی کتاب ہے_
’کچھ لوگوں نے ایک ہی زبان میں کہا_ بجا فرمایا_
بزرگ پھر گویا ہوئے_ اس کتاب میں کچھ نہیں _
’کچھ لوگوں‘ نے بھی اسی انداز میں کہا_ بجا فرمایا_ اس کتاب میں کچھ نہیں_
بزرگ نے کتاب کو ہوا میں اچھالتے ہوئے کہا_ خیال رہے، آئندہ اس شخص کی کتابیں میرے سامنے نہ آئیں_
’کچھ لوگوں‘ نے بزرگ کی بات دہرائی_ اب اس شخص کی کتابیں آپ کے سامنے نہیں آئیں گی_
ڈرتے ڈرتے ان کچھ لوگوں میں سے ایک نے بزرگ سے دریافت کیا_ کیا آپ نے اس کتاب کا مطالعہ بھی کیا ہے؟
بزرگ غصے میں بولے_ کیا اس کتاب کو پڑھنے کی ضرورت ہے؟
میرے بھائی تصنیف _ کچھ لوگوں پر مت جاؤ_ کچھ لوگ کان کے کچے پکے ہوتے ہیں_ اب تم ماشاء اللہ اس عمر میں آگئے ہو جہاں تمہیں ان کچھ لوگوں سے فاصلہ بنانے کی ضرورت ہے_ ایک بات یاد رکھو_ یہ دنیا کچھ لوگوں تک محدود نہیں ہے_ اردو کی ایک بڑی دنیا نے لے سانس بھی آہستہ کو پسند کیا ہے اور اعتراف بھی کیا ہے_ پھر یہ کچھ لوگ جو بغیر مطالعہ کے، برسوں سے میرے خلاف رہے، میں انہیں کیوں تسلیم کروں_؟ اور اس بڑی آبادی کو کیوں نہ تسلیم کروں جو نہ صرف مطالعہ کا حق ادا کرتی ہے بلکہ سچ بولنا بھی جانتی ہے_ کچھ لوگوں کی جگہ اگر تم نے اپنی بات کی ہوتی، دلیل دی ہوتی تو اس پہلے سوال پر مکالمہ قائم کیا جا سکتا تھا_ اب سنو تصنیف میاں_ ۱۶ سے ۲۰ سال کی عمر تک میں داستان سے مغربی ادب تک بڑے بڑے ناولوں کو کھنگال چکا تھا_ پہلے ناول ’عقاب کی آنکھیں‘ میں بھی، فن پر میری گرفت تم کونظر آجائے گی_ یہ ناول میں نے محض ۱۷ سال کی عمر میں لکھا تھا_ اس عمر میں بھی میرا سارا زور ناول کی باریکیوں پر تھا_ اب تم ایک نئی بات اور بھی کہتے ہو۔۔۔ ’ کہ آپ جس تیزی سے ناول لکھتے ہیں۔۔۔ بھئی کمال ہے۔۔۔ میں نے اب تک صرف ۱۱ ناول لکھے_۵۲ سال کی عمر ہے_ ارے بھائی_ ادب کی دنیا میں ہوں_ تم ہر روز فیس بک پر ایک تحریر دیتے ہو_ میں ناول کے لیے وقت نکالتا ہوں_ محترم فاروقی صاحب تنقید کے میدان میں ہیں تو وہ بھی اسی تیزی سے لکھتے ہیں_ ان کی کتابیں دیکھ لو اور میری کتابیں_۱۹۹۰ سے ۲۰۱۴ تک بیان، پوکے مان کی دنیا ،پروفیسر ایس کی عجیب داستان، لے سانس بھی آہستہ، آتش رفتہ کا سراغ شائع ہوئیں_ یعنی ۲۵ برس کا عرصہ اور پانچ ناول_ اب ایک نیا ناول نالۂ شب گیر_‘ ۲۵ سال کے عرصہ میں تجارت نہیں کی۔ مجلسوں میں نہیں گیا_ مطالعہ کیا اور لکھنے پر زور رہا تو یہ پانچ کتابیں بہت زیادہ کیسے ہوگئیں_ ؟اور آپ مجھ سے پوچھ رہے ہیں کہ کیا میں ان ’کچھ لوگوں‘ کے بیان سے متفق ہوں_ یہ بات آپ خود سے بھی دریافت کر سکتے ہیں کہ کیا ۲۵ برس میں اگر کوئی ادیب پانچ ناول لکھتا ہے تو کیا اسے زود نویس کہا جا سکتا ہے_ ؟ایک بات اور سن لیجئے_ پچھلے ۱۰ برسوں میں، میں نے کوئی کہانی نہیں لکھی_ ٹیشو پیپر میری آخری کہانی تھی، جو میں نے ۲۰۰۴ میں لکھی تھی_ اس درمیان کہانی کی شکل میں جو تحریریں شائع ہوئیں، وہ دراصل ناول کا حصہ تھے_ اور ان کی تعداد کچھ اتنی زیادہ نہیں کہ مجھے بسیار نویس کہا جا سکے_ پھر تو ہندوستان کے دیگر زبانوں میں لکھنے والے اور مغرب کے بہت سارے ناول نگاروں کو آپ ریجکٹ کر دیں گے_
تصنیف حیدر:لے سانس بھی آہستہ کی بہت پذیرائی ہوئی، کیا آپ بھی اسے اپنا سب سے اچھا ناول سمجھتے ہیں؟
مشرف عالم ذوقی: ادب میرے نزدیک رومانی مسرّت یا تفریح طبع کا ذریعہ ہرگز نہیں ہے_ ہر نئی تخلیق سے قبل غالب کا یہ مصرعہ یاد رکھتا ہوں_ کچھ اور چاہیے وسعت مرے بیاں کے لئے_ اس لیے ناول کی تخلیق میرے لیے تفسیر زندگی بھی ہے اور زندگی کی رنگا رنگ تصویر کو نئی فکر اور نئے فلسفوں کے ساتھ پیش کرنا بھی_ یہاں میں زندگی کی تصویر اور تفسیر کو پیش کرتے ہوئے جناب فاروقی صاحب کے ساتھ ہوں کہ ان سب کے باوجود ادب زندگی میں کوئی کرشمہ نہیں کرتا یا اس سے کسی معجزہ کی امید فضول ہے_ موضوع کی مناسبت سے انفرادی اور اجتماعی زندگی کا اثر ادب ضرور قبول کرتا ہے_ اور اس لحاظ سے دیکھیں تو میرا اپنا ناول پروفیسر ایس کی عجیب داستان وایا سونامی میرا اب تک کا سب سے پسندیدہ ناول ہے_ کس ادیب کو زیادہ کیا پسند ہے، اس کا جواب دینا مشکل ہوتا ہے_’ پروفیسر ایس‘ میں شروع سے آخر تک ایک ابہام کی فضا ہے_ زندگی کے مختلف حادثوں میں ابہام کی یہ کیفیت ساتھ ساتھ چلتی ہے_ کیونکہ زندگی کے نقوش اور ان کی حقیقت ایک عمرگزارنے کے بعد ہی معنویت کے ساتھ سامنے آتی ہے_ میں نے سونامی کی گرج میں موبی ڈک اور ہیمنگ وے کے اُس بوڑھے آدمی کی کشمکش کو محسوس کیا ہے جو سمندر پر فتح کے لیے بے قرار ہے_ بیحد ناکام زندگی گزارنے والے شخص کی زندگی کا بھی مطالعہ کریں تو وہاں بھی یہ کامیابی پوشیدہ ہے کہ آخر اتنے دنوں تک وہ لڑاتو سہی_ جیا تو سہی_ سچ پوچھیں تو یہی ابہام ہے کہ وقت فیصلوں کو اپنے پاس رکھتا ہے_ کبھی کبھی جسے ہم کامیابی سمجھتے ہیں اُس کی حقیقت مشت خاک اور جسے ناکامی تصور کرتے ہیں، اس میں کامیابی کی کئی صورتیں نکل آتی ہیں_ اس لیے میرا سب سے اچھا ناول کون سا ہے_ یہ فیصلہ بھی میں نے وقت پر چھوڑ دیا_
تصنیف حیدر:رحمٰن عباس اور پیغام آفاقی، ان دونوں ناول نگاروں کی خوبیوں سے تو ہم واقف ہیں، مگر اگر آپ سے ان کے فن کی خامیوں پر کچھ پوچھا جائے تو آپ کا جواب کیا ہوگا؟
تصنیف حیدر:رحمٰن عباس اور پیغام آفاقی، ان دونوں ناول نگاروں کی خوبیوں سے تو ہم واقف ہیں، مگر اگر آپ سے ان کے فن کی خامیوں پر کچھ پوچھا جائے تو آپ کا جواب کیا ہوگا؟
مشرف عالم ذوقی: معاصر ناول نگاروں میں صرف دو نام آپ کو کیوں یاد آئے؟ کیا یہ سمجھا جائے کہ اس سوال کے پس پردہ بھی وہی ’کچھ لوگ‘ ہیں ،جو ہردور میں چلمن سے لگے بیٹھے ہیں_ صاف چھپتے بھی نہیں_ سامنے آتے بھی نہیں_ میں تخلیق کار ہوں بھائی_ خامیاں نکالنے کے لیے ناول نہیں پڑھتا_ ہرجینوئن تخلیق کار کے پاس ایک انفرادی فکر ہوتی ہے_ صحت مند اختلاف ادب کے لیے ضروری ہے_ مگر معاصر ناول نگاروں کے فن کی خامیاں تلاش کرنے کی بات، وہ بھی ایک ناول نگار سے کی جائے تو سامنے والے کی نیت پر شبہہ ہوتا ہے_
تصنیف حیدر:پاکستان میں لکھے جانے والے نئے ناول کے بارے میں آپ کی بے لاگ رائے کیا ہے، مرزا اطہر بیگ اور علی اکبر ناطق کو چھوڑ کر؟
مشرف عالم ذوقی: علی اکبر ناطق کا ناول میں نے نہیں پڑھا۔ مرزا اطہر بیگ کے دو ناول میرے مطالعہ میں ضرو آئے ہیں_ پاکستان میں مجھے سب سے زیادہ مستنصر حسین تارڑ پسند ہیں_ رضیہ فصیح احمد کا ناول صدیوں کی زنجیر نے مجھے متاثر کیا_ انہوں نے اب تک ۷ ناول لکھے_ اور میں نے ان سب کا مطالعہ کیا ہے_ عاصم بٹ کا دائرہ، وحیدہ احمد کاناول زینو بھی مجھے پسند ہے_ طاہرہ اقبال کے ناولٹ بھی مجھے پسند ہیں_ میں اس بات کو پھر دہرانا پسند کروں گا کہ ہر عہد میں کچھ ہی لوگ ہوتے ہیں جو بہت عمدہ لکھتے ہیں_ ایسے لوگ ہندوستان میں بھی ہیں اور پاکستان میں بھی_ ضرورت مطالعہ کی ہے_
تصنیف حیدر:شمس الرحمٰن فاروقی کا ناول'کئی چاند تھے سر آسماں'ایک بے حد اہم ناول ہے، آپ اسے تاریخ نگاری کہہ کر رد نہیں کرسکتے، کیا آپ اس بات سے اتفاق کرتے ہیں؟
مشرف عالم ذوقی: یہ سوال میری سمجھ سے باہر ہے_ میں اس ناول کے پروموشن میں آپ کا ساتھ نہیں دوں گا_
تصنیف حیدر:ہندوستان میں مقیم مسلمانوں پر ہونے والے مظالم ، ایک اچھا بکائو موضوع ہے، کیا اسی وجہ سے آپ اس پر زیادہ لکھتے ہیں؟
مشرف عالم ذوقی: مسلمان بکاؤ موضوع ہے_ ؟ توآپ عالمی ادب کو بھی ردّ کرتے ہیں_؟ عیسائیت اور ہندوازم کولے کر بھی ناول لکھے گئے_ کیا داغ بکاؤ موضوع نہیں ہے؟ کبھی عینی سے پوچھا گیا کہ آپ پر انی تہذیبوں کو ہی ناولوں میں زندہ کیوں کرتی ہیں_؟ فرانسیسی ادب سے لے کر روسی ادب تک سیاست اور سماج کو نشانہ بنایا گیا_ کہیں چرچ، کہیں زوال پذیر قومیں_ مجھے حیرت اس بات کی ہے کہ آپ ہندوستان کے فنکار سے پیرس اور سوئزرلینڈ کی کہانیاں لکھوانا چاہتے ہیں_؟ کم از کم میں ایسا نہیں کر سکتا_ کیوں کہ میں پیرس اور سوئزرلینڈ کو قریب سے نہیں جانتا_ ہندوستان بھی ایک وسیع ملک ہے_ میں ہندوستان کی کہانیاں لکھنا زیادہ پسند کروں گا_ لیکن یہاں ایک قوم رہتی ہے جس پر آزادی کے ۶۷ برسوں میں ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے_ یہ میرے لیے بکاؤ موضوع نہیں تھا، جیسے محسن حامدنے The Reluctant Fundamentalist لکھتے ہوئے کبھی نہیں سوچا ہوگا کہ وہ عالمی ادبی بازار میں مسلمانوں کو بیچنے جا رہے ہیں_ یا پھر نجیب محفوظ سے خالد حسینی تک کے ذہن میں یہ بات کبھی نہیں آئی ہوگی کہ وہ اپنے ملک یا اپنی قوم کا سودا کرنے جا رہے ہیں_ میں نے ہندوستان کی سیاست کو موضوع بنایا_ اس طرح جسے کوئی فنکار لاطینی امریکہ، افریقہ، یا کسی بھی ملک کو اپنا موضوع بنا سکتا ہے_ ظاہر ہے، اُس ملک میں مختلف قومیں بھی رہتی ہوں گی_ یہ کردار انہی لوگوں میں سے پیدا ہوں گے_ جیمس جوائز نے اپنے شہر ڈبلن کو موضوع بنایا، اوہان پامک نے استنبول کو، گنتر گراس اپنے وطنDanzig اور وہاں کے لوگوں کو موضوع بناتا ہے_ نام گنوانا منشا نہیں ہے_ میرے لیے ذمہ داریوں سے الگ ہونا ایک ادیب کا کام نہیں_ میں نے مسلمان، بیان اور آتش رفتہ کا سراغ تین ناول لکھے_ ان کی بنیاد میں مسلمان ضرور ہیں لیکن یہاں مسلمان خوف و دہشت کی علامت ہیں جہاں سیاست اور باہری طاقتوں کے مضبوط پنجے انکا استعمال اور استحصال کر رہے ہیں_ معاف کیجئے گا، میں صرف ماضی، ناستلجیا اور پرانی تہذیب کے دائرے میں سمٹ کر اپنے فن کو آواز نہیں دے سکتا_ مجھے ہر بار اس سے باہر نکلنا ہوتا ہے_ میرا بڑا موضوع وہ دنیا ہے جسے ابھی ڈسکور نہیں کیا گیا، یا آہستہ آہستہ ڈسکور کیا جا رہا ہے_ پوکے مان کی دنیا، پروفیسر ایس کی عجیب داستان، لے سانس بھی آہستہ، نالۂ شب گیر میں یہ نئی دنیائیں آپ کو آسانی سے نظر آئیں گی_ میں چونکانے پر یقین نہیں رکھتا_ میرا مسئلہ وہ وژن ہے جہاں وکٹرہیوگو، تالستائے کی راہ پر چلتا ہوا، میں امید کے راستہ کو تلاش کرتا ہوں_ بیانیہ کو کبھی علامتوں کا راستہ دکھاتا ہوں اور کبھی فنطاسی کا_ میں مجبور بیانیہ کے ساتھ ادب تخلیق نہیں کر سکتا_ میرے لیے ہندوستانی سیاست بھی ایک موضوع ہے جسے میں بکاؤ نہیں سمجھتا_ میرا یقین اس بات پر ہے کہ ناول اور فکشن کو سیاست سے جدا نہیں کیا جا سکتا_ عالمی شہکاروں پر نظر ڈالیں تو میری بات پر یقین کرنا آسان ہوجائے گا_
تصنیف حیدر:کیا ایک اچھا ادیب، ایک اچھا تاجر نہیں ہوسکتا ہے؟
تصنیف حیدر:آپ پر ایک الزام یہ ہے کہ آپ اپنی پبلسٹی بہت زیادہ کرتے ہیں، کیا یہ بات درست ہے؟
مشرف عالم ذوقی:ضرور یہ بات بھی کچھ لوگوں نے کہی ہوگی_ کیا ریختہ میں رہ کر، ہر روز ایک پوسٹ کے ذریعہ آپ اپنی پبلی سیٹی کرتے تھے؟ یا ابھی بھی اپنے بلاگ کے ذریعہ آپ اپنی پبلی سیٹی کر رہے ہیں؟ میرے پاس نہ تو کوئی رسالہ ہے نہ اخبار_ میں تو اُس بڑی دنیا سے بھی کٹ گیا ہوں، جس دنیا میں آپ رہتے ہیں_ لے دے کر ایک سوشل میڈیا ہے_ فیس بک کا استعمال کرتا ہوں_ ٹوئٹر پر بھی نہیں ہوں_ کیا فیس بک میں اپنی کتابوں کی تصویریں لگانا جرم ہے؟ گناہ ہے_ پبلی سیٹی ہے؟ اگر ایسا ہے تو یہ کام تو آپ جیسے لوگ مجھ سے کہیں زیادہ کر رہے ہیں_ میں تو اس معاملے میں بھی بدنام ہوں کہ اپنی کتابیں کم کم تقسیم کرتا ہوں_ ہاں وعدہ ضرور کرتا ہوں_ رہی تاجر ہونے کی بات، تو صاحب ادب واحد جگہ ہے جہاں کسی سمجھوتے کے لیے تیّار نہیں_ اور اسی لیے میں شروع سے باغی رہا_ اور آپ بہتر جانتے ہیں کہ تجارتی دماغ ہوتا تو بغاوت نہیں کرتا_ بلکہ آپ کی طرح ایک تحریک اور تحریک کے پیشوا کی قدم بوسی کو ترقی کی منزل سمجھ لیتا_ میں دلّی ۲۳ سال کی عمر میں آیا_ جوش اور چنگاری لے کر آیا تھا_ اس لیے میری کسی سے نہیں بنی_ سب سے لڑا_ کسی کو تسلیم نہیں کیا_ کیا تاجر ایسا ہوتا ہے؟ میرے پاس اپنی بات کہنے اور رکھنے کے لیے صرف فیس بک ہے_ اگر کچھ لوگوں کو میرا فیس بک پر آنا پسند نہیں، تو کیا کروں_ ایک بات اور سن لیجئے_ ۱۷ سال کی عمر میں، میں نے اپنے لیے موت کا انتخاب کیا تھا_ صرف ایک ہی خیال مجھ پر حاوی تھا_ مجھے مرنے کے بعد زندہ رہنا ہے_ جس شخص نے انتہائی کمسنی میں اپنے لیے موت کا انتخاب کرلیا ہو، وہ زندگی سے کیا کوئی فرمائش کرے گا؟
تصنیف حیدر:ہندوستان کی نئی غزل گو نسل کیسی شاعری کررہی ہے؟کیا آپ کو اس سے کچھ امیدیں ہیں؟
مشرف عالم ذوقی: نئی غزل گو نسل عمدہ شاعری کر رہی ہے_ میں انہیں غور سے پڑھ رہا ہوں_ ۷۰ کے بعد جو جدید نسل ابھر کر سامنے آئی تھی، اس میں بھی، کیؤں میں نئی بات تھی_ اور بہت سے لوگوں نے آگے چل کر خود کو ثابت بھی کیا_ زیب غوری اور عرفان صدیقی بننے کی صلاحیت اس نئی نسل کے کئی شاعروں میں موجود ہے_ ۷۰ کی نسل اور آج کی نسل میں ایک بنیادی فرق ہے_ ۷۰ کی نسل والے فیشن پرستی کو فروغ دے رہے تھے_ کچھ کچھ شعر اچھے ہو جاتے تھے_ ان نئے ۱۵۔۱۰ غزل گو شاعروں کے یہاں فیشن پرستی نہیں ہے_ شعر دماغ سے گزرتے ہیں اور دل کے راستہ کندن بن کر سامنے آجاتے ہیں_
تصنیف حیدر:کیا خالد جاوید اور صدیق عالم اس وقت ہندوستان میں سب سے بہتر فکشن لکھ رہے ہیں؟کیوں؟
مشرف عالم ذوقی:بالکل بھی نہیں_ شروع میں امیدیں وابستہ تھیں_ مگر ان کی تمام کہانیوں کے پیٹرن ایک رہے ہیں_ ایک جیسا لہجہ_ ایک جیسا اسلوب_ اب Repetition کچھ اتنا زیادہ ہو رہا ہے کہ مجموعہ سامنے رکھیے تو کئی کئی اقتباس ایک جیسے مل جائیں گے_ صدیق عالم کے یہاں تو پھر بھی نئے نئے موضوعات مل جائیں گے مگر خالد کے ساتھ مشکل یہ ہے کہ کہانی اور ناولوں کے پاراگراف درپاراگراف آپ کو ایک جیسے ملیں گے_ کیا خیال کا قحط ہے؟ ہر بار ایک ہی کہانی، ایک ہی موضوع کو دہرانے کی ضرورت کیوں پڑ رہی ہے_ ؟اب اس Cult of Ugliness سے خالد کو باہر نکلنا چاہیے_ ان کے دوسرے ناول کا مطالعہ بھی کر چکا ہوں_ اس کے فارم میں رحمن کے ناول کا عکس نظر آیا_ ایک بات اور_ آپ کے ذہن میں اور دوسرے نام کیوں نہیں آئے؟
(یہ انٹرویو، بلاگ کا حوالہ دیے بغیر یا مشرف عالم ذوقی سے انٹرویو لیے بغیر کہیں شائع نہ کیا جائے، ایسا کرنے پر قانونی چارہ جوئی کا حق بلاگ پوسٹ کی جانب سے محفوظ ہے۔)
4 تبصرے:
نایاب(پاکستان)
غیر معمولی اور زبردست فکر۔ عورت کے موضوع پر ایسا ناول اردو میں بھی آئے گا، یہ سوچ سے پرے ہے— آج کی بدلتی ہوئی دنیا میں ہر لحظہ ایک نئی کہانی کا جنم ہورہا ہے۔ لفظ نئے شکلوں میں سامنے آرہے ہیں۔ کچھ کہانیاں فالج زدہ ہیں۔ دنیا بھر میں پولیو مہم تو ہوئے مگر زندگیوں کو فالج زدہ کرگئے۔ نو مولود کہانیوں کی آنکھ بھی نہیں کھلتی کہ ان کی تشہیر کردی جاتی ہے۔ ننگا کرکے دنیا کو دکھایا جاتا ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایک بچی جو ابھی پیدا ہوئی ہے۔ اسے دیکھنے سے برانگیختہ کردینے والے جذبات کیوں کر پیدا ہوسکتے ہیں۔؟ مگر ذوقی کی کہانی یہیں سے شروع ہوتی ہے۔ نالہ ¿ شب گیر جسموں کی کہانی بھی ہے— غالب آتے ہوئے جسموں کی کہانی ،جنہیں دیکھ کر جسم میں آگ تو بھر جاتی ہے مگر چھونے سے ڈر لگتا ہے۔ ذوقی نے جو لکھا اس کا تخم ہزاروں سال پہلے دنیا کے پیٹ میں رکھا گیا یہ کہانی اسی پیٹ میں جوان ہوئی۔ ذوقی نے تو بس اسے لفظوں کے اوزار سے باہر نکالا ہے۔ اور دنیا کو درد زہ سے نجات دلائی ہے۔ یہ کہانی نہ صرف آج کی بلکہ آنے والی صدیوں کی بازگشت بھی ہے۔ یہ پیشین گوئی ہے اس بات کی کہ دیوتاﺅں کا زوال ہوا چاہتا ہے۔ دنیا میں عورتوں کی بڑھتی ہوئی تعداد مردوں کے لیے شکست کا باعث بن رہے ہیں۔ کون ہے جو ناہید ناز نہیں ہے۔ ہر ایک عورت میں ایک ناہید ناز چھپی ہوئی ہے۔ مگر مردوں کا بناوٹی خوف ان پر حاوی ہے۔ ذوقی نے اسی خوف کو تار تار کردیا ہے۔ اور سچی اور کھری عورت کا حسن دکھایا ہے۔ پہلے عورت کا استحصال ہوتاتھا مگر اب مرد کی باری ہے۔ سوچ کے جنس بدل رہے ہیں۔ نئی کہانیاں جنم لے رہی ہیں۔ ذوقی نے جس طرح انسانی نفسیات کی تصویر کشی کی ہے وہ قابل تعریف ہے۔ مرد ہوکر مرد کے خلاف ہتھیار اٹھانا دل گردے کی بات ہے جو ذوقی نے کردکھایا ہے۔ انہوں نے فضا میں موجود دھند ہٹا دی ہے۔ اب گھٹن نہیں ہے۔ پرانی فرسودہ روایت اور گلوبل ورلڈ کو جس طرح مدغم کیا ہے وہ ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔ حقیقت کے پانیوں سے لکھی گئی اس کہانی کا میں تہہ دل سے خیر مقدم کرتی ہوں۔ جب آپ اس کہانی کو ختم کریں گے تو میرے ایک سوال کا جواب دینا ہوگا—”کیا ابھی کچھ باقی رہ گیا ہے۔ ؟
"Lay Sans bhi Ahista" Zauqui ka aik shahkaar hai. Soch ka naya pehlo har aik ko dikhaty hen wo.
Sitarun pa qadam rakhta hoa insaan aj bhi apny jism ki qaid mai. Jism ka ghulam hai.
Zauqui ka qalam insaan ki is ghulami pa matam kina hai. Hum isy "Scourage of Slavery"
Ka naam day sakty hen. Ye novel aj k insan ki peth pa mara kany wala Tazyana hai. Hoshmandi ka Tazyana. Adab mai is ka maqam phly sy maujud kaen novlun sy buland hai. Zauqui Sahab ko Mubarak baad
میں نے ذوقی صاحب کے ناولوں پر ریسرچ کیا ہے .نالۂ شبگیر تک میں انکے تمام ناول پڑھ چکی ہوں.بلکہ میری طرح یونیورسٹی کے تمام ریسرچ اسکالر بھی ذوقی صاحب کے مداحوں میں شامل ہیں---اسکی وجہ وہ موضوعات ہیں جسکو وہ بیباکی سے اٹھاتے ہیں...انکے جیسی جدّت ادب میں بسیار تلاش کے بعد بھی کہیں نظر نہیں آتی .
مشرف عالم ذوقی سے آپ کا مکالمہ اس معنی میں بھی بے حد اہم ہے کہ آپ نے سوالات کا بے حد غیر جانبدارانہ انتخاب کیا ہے ۔اس طرح مکالمے میں نے صرف ٹی وی پر صاحافیوں کو کرتے دیکھا سنا ہے ۔ بے لاگی آپ کے مکالمے کوصحت مند بناتی ہے ۔میں آپ ک واس اہم اور خوب صورت مکالمے کے لئے مبارک دیتا ہوں اور کزارش کرتا ہوں کہ اسے ’’بصیرت آن لائن ‘‘ ویپ پورٹل کے لئے شائع کرنے کی اجازت دیں ۔ اگر ممکن ہو تو مجھے ذیل میل کریں ali1taiyab @gmail.com
ایک تبصرہ شائع کریں