پیر، 22 دسمبر، 2014

زاہد امروز سے دس سوالات


زاہد امروز پاکستان کی نئی نسل کے ایک اہم نظم نگار ہیں، وہ مجھے بے انتہا پسند ہیں۔ادب کا سارا تعلق دراصل پڑھنے لکھنے اور سمجھنے سمجھانے سے ہے، ہمارے یہاں قحط کا آغاز اس دن ہوا ہوگا جب بے جا مروتیں پیدا ہوئی ہونگی، آپ صاحب سوال کو ڈانٹیے، پھٹکاریے، بر ابھلا کہیے مگر اس کے سوال کو نظر انداز کرکے اس سے بچنے کی کوشش نہ کیجیے، اگر آپ ایسا کررہے ہیں تو کہیں نہ کہیں آپ ادب سے کمٹنمنٹ کے معاملے میں کمزور ہیں، جو شخص بھی کہتا ہے کہ وہ ادب کو صرف و محض اپنے لیے لکھتا ہے، جھوٹا ہے، مکار ہے، نقلی اور جعلی ہے۔کیونکہ تخلیق چاہے خدا کی ہو یا بندے کی ظہور میں آتے ہی اپنے اوپر تنقید کروانا چاہتی ہے، اچھی یا بری ۔یہ ایک الگ معاملہ ہے، وارث علوی کو تنقید میں جو ابلیسی لذت ملتی تھی، مجھے سوالات پوچھنے میں آج کل شاید وہی مل رہی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں ایسے منہ پھٹ سوالات کا رواج سیمنار اور مشاعرے کی ’من ترا حاجی بگویم‘ والی روایت نے کمزور کیا ہے، میں آپ کا قاری ہوں تو مجھے حق ہے کہ آپ سے وہ پوچھوں جو میرے من میں ہے یا میں نے کہیں سے سنا ہے۔زاہد امروز جیسے شاعروں پر پاکستان میں ظفر اقبال نہیں لکھتے، انتظار حسین اور ان کی ہی قبیل کے دوسرے اہم ادبا کی ایسے اہم شاعر پر نظر نہیں پڑتی۔یہ ایک غلط رجحان ہے، شاعری کا عمر سے کم، انسان کی علمی و تخلیقی صلاحیت سے لینا دینا ہوتا ہے۔اچھی بات یہ ہے کہ زاہد امروز جیسے ادیب میرے سوالات کا برا نہیں مانتے، صاف گوئی سے جواب دیتے ہیں، جو برا مانتے ہیں، وہ یا تو مجھے جواب نہیں دیتے یا پھر منہ نہیں لگاتے۔



تصنیف حیدر: نثری نظم ابھی تک کوئی بڑا شاعر پیدا نہیں کر سکی۔ پھر بھی آپ اسی فارم کو اپنا بہترین وسیلہِ اظہار مانتے ہیں۔ ایسا کیوں؟

زاہد امروز:اِس سوال کا جواب دیتے ہوئے دو باتیں میرے ذہن میں آتی ہیں ۔ پہلی بات یہ کہ آپ کے ذہن میں بڑے شاعر کا تصور کیا ہے اور دوسری یہ کہ ہم کسی فارم/ ہیئت کو کیسے اپنے اظہار کے لیے وسیلہ بناتے ہیں؟ میں آپ سے یہ پوچھوں گا کہ آپ غزل اس لیے لکھتے ہیں کہ اس میں غالب یا میر طبع آزمائی کر چکے ہیں؟اگر ایسا ہے توآج آپ مثنوی کیوں نہیں لکھتے ؟ اس صنف میں جلال الدین رومی جیسے لوگوں نے لکھا۔ میرے نزدیک کوئی صنف یا اس کی کوئی ہیئتی شکل محض بڑے لکھاریوں سے قایم نہیں رہ سکتی۔کسی صنف کے تخلیقی امکانات ، زمانی ہم آہنگی اور اظہار کی گنجائش جیسے بنیادی اوصاف کے ساتھ ساتھ اہم بات یہ ہے لکھنے والا کتنا باصلاحیت ہے اور اس کا فطری میلان اور شعری اظہار کس درستگی سے کسی صنف یا ہیئت کا انتخاب کرتا ہے۔ لوگوں نے یہاں ہائیکو ، اردو ماہیے ، سانیٹ، انشایئے کے شعوری تجربات بھی کیے لیکن آج کوئی اُن کی تقلید کرتا نظر نہیں آتا پھر بھی آپ کوان میں کہیں کہیں کچھ اچھی شاعری کے نمونے تو مل جائیں گے۔ لیکن نثری نظم کا معاملہ اس سے الگ ہے۔ جب سے نثری نظم اردو میں شروع ہوئی ، تمام مخالفتوں کے باوجود آج نثری نظم بطور ہیئت ہمارے شعری اظہار کا اہم حصہ ہے۔ نثری نظم نے چونکہ آہنگ ، شعری حسیت اور کرافٹ ہر سطح پر مروجہ اصولوں سے انحراف کیا اس لیے آغاز میں یہ آزاد نظم سے بھی زیادہ اجنبی محسوس ہوئی۔ لیکن آج اکثر شعراء جن میں غزل اور آزاد نظم لکھنے والے سب شامل ہیں، نثری نظم لکھ رہے ہیں ۔ یہ بات بجائے خود دلیل ہے کہ نثری نظم ہمارے مقامی مزاج اور شعری حسیت سے متصادم نہیں جو اِس قدر کثیر تعداد میں لکھی جارہی ہے۔ آخریہ کسی طور ہماری جذباتی اورروحانی تشفی تو کرتی ہوگی۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو یہ دوسری نسل تک آتے آتے متروک ہو چکی ہوتی۔جہاں تک معاملہ اس میں کم معیاری اور غیر معیاری کا ہے تو یہ کچرا تواُسی مقدار میں ہر صنف میں موجود ہے ۔ صنف یا ہیئت کے انتخاب اور اظہار سے کون کسی کو روک سکتا ہے؟ نثری نظم کے حوالے سے اردو میں جس بڑے شاعر سے محرومی کا حوالہ دیا جاتا ہے ،میرے نزدیک کسی بھی صنف کو اس بنیاد پر ردّ یا قبول کرنا ادبی اور علمی کم فہمی کا نتیجہ ہے۔پہلے یہ تعین کرنا درکا ر ہے کہ کیا صنف شاعر کو ’’بڑا شاعر‘‘بناتی ہے یا تخلیق کار اپنے فکری و فطری میلان کے باعث کسی صنف کو اپناتا ہے اور اپنی تخلیقی صلاحیتوں سے اُسے قابلِ اعتبار بنا دیتا ہے؟ نثری نظم میں بڑے شاعر کا تصورآپ کے ذہن میں آزاد نظم کے آغاز میں راشد ، میرا جی وغیرہ کے آجانے سے جنم لیا ہے۔ اِسی توقع کے ساتھ اُردو غزل کی تاریخ دیکھیں تو پہلا ’’بڑا شاعر‘‘ میر تقی میرتو غزل کے برصغیر میں رائج ہونے کے طویل عرصے بعد پیدا ہوا ۔ پھر بھی اس سارے زمانے میں غزل لکھی جاتی رہی اور آج بھی میر و غالب جیسا کوئی ’’بڑا شاعر‘‘موجود نہیں لیکن غزل لکھی جا رہی ہے۔’’بڑا شاعر‘‘ اپنے عصر کی گرفت سے باہر ہوتا ہے اس لیے صنف اس کا تعین نہیں کر سکتی ۔ لہٰذا یہ مفروضہ درست نہیں۔بڑے شاعر کا فیصلہ تو وقت کرتا ہو۔ آپ آج سے چالیس سال پہلے جنہیں بڑا شاعر کہتے تھے آج وہ اوسط سطح کے لوگ معلوم ہوتے ہیں اورجنہیں آپ معمولی سمجھ کر نظر انداز کرتے رہے آج وہ آپ کی موجودہ فکر اور شعری ہیئت کا سب نمائند ہ شاعر ہے۔ میں مجید امجد کی بات کر رہا ہوں جس کی مکمل تفہیم آپ ابھی تک نہیں کر پائے۔ اور آپ نے پوچھا کہ میں اس کو اپنا بہترین ذریعہ اظہار کیوں سمجھتا ہوں تو میرے نزدیک یہ انتخاب شعوری نہیں ہے۔ شروع میں تو میں غزل بھی لکھتا رہاہوں لیکن ہیئت کا انتخاب میں شعوری طور پر کبھی نہیں کرتا۔ خیال خود ہی اپنی مخصوص ہیئت اختیار کرتا ہے۔ غالباً میں نثری نظم کے ساتھ ساتھ آزاد نظم بھی متواتر لکھتا ہوں۔ یہ کوئی منصوبہ بند قسم کا عمل نہیں ہے۔ بس میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہر تخلیق کار کو نظریاتی اور اصنافی خا نہ بندیوں سے بالاتر ہونا چاہئے۔ یہ ایک آزاد پرواز کی طرح ہے جوآپ کو جدھر چاہے لے جائے۔ 

تصنیف حیدر: کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ آپ کی پہلی کتاب ’’خود کشی کے موسم میں‘‘ زیادہ بہتر تھی اور دوسری کتاب ’’کائناتی گرد میں عریاں شام‘‘ آپ کی جلد بازی کا نتیجہ ہے۔ کیا یہ بات درست ہے؟

زاہد امروز:جن کچھ لوگوں کا ماننا ہے ممکن ہے انہیں ایسالگا ہو، آپ نے دونوں کتابیں پڑھی ہوں گی آپ کی اپنی رائے ہونی چاہئے۔ آپ نے مجھ سے پوچھا ہے تو میرے نزدیک ایسا نہیں ہے۔ میں آپ کو ان کتابوں میں شامل نظموں کا پس منظر بتا سکتا ہوں ۔ جو نظمیں اس پہلی کتاب ’’خود کشی کے موسم میں ‘‘ میں شامل ہیں یہ ان دنوں کی ہیں جب میں قا ئدِ اعظم یونیورسٹی سے ایم ایس سی کر رہا تھا لیکن لاشعوری طور پر میں تب تک لائل پور(فیصل آباد) میں ہی تھا۔ روائتی طرز کی پابند نظمیں ، غزلیں لکھتا تھا جس میں کوئی نیا پن نہیں تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ میرے معاشقے ، ادبی دوستیاں اورانتہائی بے چین اور شرارتی بچپن اسی شہر سے وابستہ تھیں۔ یہ ایک طرح کا ذہنی اٹکاؤ تھا یا اسے کہوں گا کہ confinement تھی۔ تو جب میرے معاشقے ختم ہوئے تو میں اس یوٹوپیا سے نکلا ۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ میں ہر طرف روائتی تصورات میں شدید گھٹن محسوس کرتا تھا۔ زندگی کے بنیادی سوالات کے دقیانوسی جوابات اور جمود میرے لیے موت کی کیفیت کے مترادف تھے۔ یہ اندرونی توڑپھوڑجذباتی سطح پر بھی جاری تھی اور باہر سیاسی اور سماجی سطح پر بھی ہر طرف دہشت تھی، ہماری نئی نسل کو جواِس دہشت گردی کے عشرے میں پروان چڑھی ،پچھلی نسل سے مختلف ارضی حقیقت ملی۔ اس نسل کے لاشعور کی تشکیل میں نئے مسائل شامل تھے تو میں نے انہیں سمجھنے اوراِن کے اظہار کے لیے وہ ساری بندشیں توڑ دیں جو معاشرہ تہذیب اوراقدار کے نام پر مسلط کرتا ہے۔ پہلی کتاب کی نظمیں اِس دیوانگی اور بے قابو کیفیات کا اظہار ہیں۔ شاید اسی لیے ان میں غصہ اور کڑواہٹ موجود ہے۔یہ نظمیں زیادہ ترانہیں دو سال میں لکھیں ۔میں نے انہیں کسی کرافٹ یا تکنیک کے تابع نہیں کیا۔ یہ confined سے unconfined ہونے کا عمل تھا۔ ایک طرح کی ذہنی آزادی (Emancipation) تھی۔جب کہ دوسری کتاب ’’کائناتی گرد میں عریاں شام‘‘ میں ان پانچ سالوں میں لکھی گئی نظمیں شامل ہیں جن میں ٹھہراؤ آنے لگا تھا اور غباربیٹھنے لگا ۔ جیسے یہ Post-explosion settlement کا وقت تھا جن میں میَں نے اِس سارے عمل کو سمجھنے اور استدلالی بنانے کی کوشش کی ۔ لکھنے کا عمل تو اسی بے چینی کے تابع رہا اور تخلیقی عمل کم و بیش ہر جگہ ایسا ہی ہوتا ہے لیکن لکھنے کے بعد سوچتا رہاکہ کیا لکھا ہے اور کیوں لکھا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ دوسری کتاب میں زیادہ تر نظمیں جذباتی اعتدال اور زیادہ توجہ سے لکھی گئیں ہیں۔ پہلی کتاب کی نظموں کے پیچھے موجودہ نظام سے مکمل انحراف یا بغاوت کا جذبہ کار فرما ہے جب کہ دوسری کتاب کی نظموں میں اس نظام کے اندر سے ہی ایک انہدام) (subversion پیدا کرنے کی کیفیت ہے۔ 

تصنیف حیدر: آپ کی نسل میں جو لوگ سب سے خراب شاعری کر رہے ہیں، ان میں سے اگر دو نام آپ سے دریافت کیے جائیں تو وہ کون ہوں گے اور کیوں؟

زاہد امروز:آپ نے یہ سوال اگر یوں پوچھا ہوتا کہ کون لوگ اچھالکھ رہے ہیں تو شاید جواب زیادہ آسان ہوتا۔ دیکھو ہر کوئی اپنے فہم اور صلاحیت کے مطابق اپنا اظہار کرتا ہے۔ اس کا فیصلہ تو پڑھنے والا خودہی کر لیتا ہے۔ میری رائے تو فقط مجھ تک محدود ہے۔ ہاں البتہ یہ ضرورکہہ سکتا ہوں کہ اِس نسل میں خراب شاعری کی چند وجوہات جو میں محسوس کرتا ہوں ان میں ایک یہ ہے کہ نئی نسل اپنی بزرگ نسل سے شاباشی لینے کے لیے ان کے رنگ اور شعری نظریہ کی نقالی کر رہی ہے ۔ داد و تحسین کی طلب اور روایت سے انحراف کا تصورنئے لکھنے والوں میں ناقبولیت کا خوف پیدا کر دیتا ہے اور اُن کی جراتِ اظہار مصلوب ہو جاتی ہے۔ وہ اپنی ذات کے سچے اور اوریجنل اظہار کی بجائے ایک خارجی لہجہ اور خیالات مستعار لے لیتے ہیں اور یہ انفرادیت کی موت ہے۔ اس طرزِ تحریر میں تقلید تو ہے لیکن ایجاد نہیں اور محض تقلید نقالی ہے،نیا ادب نہیں ۔ 

تصنیف حیدر: نثری نظم میں کسی بھی قسم کے نئے کرافٹ یا تکنیک کی گنجائش نہیں ہے چنانچہ اِس کے ذریعے بڑی شاعری کا اِمکان زیادہ نہیں ہے۔ کیا آپ اِس بات سے اتفاق کرتے ہیں؟

زاہد امروز:اس سوال میں بڑی شاعری کے امکانات کا جواب تو کسی حد تک تو پہلے سوال میں آگیا کہ بڑی شاعری کسی مخصوص ہیئت تک محدود نہیں۔ آپ اگر توجہ سے شاعری پڑھیں توہراچھے لکھاری کے ہاں بھی چند لازوال تحریروں کے علاوہ تو باقی بس اوسط سطح کی چیزیں ہوتی ہیں۔ اسی طرح نثری نظم میں بھی کچھ بہت اعلیٰ نظمیں لکھی گئی ہیں اور اس نظم8 میں تو کرافٹ اور تکنیک کے لاانتہا امکانات موجود ہیں۔اس نظم نے جو ہیئتی وسعت پیداکی ہے وہی تو اس کا حسن ہے۔ 

تصنیف حیدر: اردو کے کلاسیکی ادب میں میر اور غالب کے علاوہ آپ کو کون سا شاعرپسند ہے اور کیوں؟

زاہد امروز:میر و غالب کے علاوہ اگر کوئی شاعر نظر آتا ہے تو وہ مومن خان مومن ہے۔ اس کی وجہ یہ کہ مومن کے ہاں شعرمحض لفظالی نہیں بلکہ اس کے ذاتی تجربات کا اظہار ہے۔ دلی میں رائج شعری رنگ کا نمائند ہ شاعر اِبراہیم ذو ق اوسط درجہ کی شاعری کا علم بردار تھا۔ غالب کے علاوہ مومن نے اِس فکری جمود کو چیلنج کیا اور زبان و فکر کی مصنوعیت کو توڑا۔ اس کے ہاں اُس دور کی مروجہ شعری روایت کے خلاف ایک مختلف شعری اظہار ملتا ہے جس میں شعر اپنے ظاہری معنی پر ہی قایم نہیں بلکہ مخفی معنی بھی رکھتا ہے۔ مومن نے بھی اپنی بے قدری کے باوجود اشرافیہ کا اسلوب نہیں اپنایا۔ 

تصنیف حیدر: آپ نے پابلو نیرودا کی نظموں کے ترجمے کیے ہیں ۔ اور کون سے شاعر ہیں جن کا ترجمہ آپ ضروری سمجھتے ہیں؟

زاہد امروز:ہر وہ تحریر جو اُردو کو کچھ نیا پن مہیا کرے،بغیر سنسر شپ کے ترجمہ ہونی چاہئے ۔ بہت سے دوسرے شاعروں کے ساتھ ساتھ میں چاہوں گا کہ امریکی شاعر چارلس بکوسکی، کشمیری شاعر آغا شاہد علی اور پرتگال کا شاعر فرنانڈو پیز واکو اردو میں ترجمہ کیا جائے۔ 

تصنیف حیدر: علامتوں پر ایک اعتراض یہ ہے کہ وہ بات کو بہت سے دوسرے معنی پہنا دیتی ہیں اور اصل بات گول ہو جاتی ہے۔ آپ نے اپنی کتاب کا پیشِ لفظ بھی بے حد علامتی انداز میں لکھا ہے۔ کیا نظم کے علاوہ نثر میں بھی آپ کو علامت نگاری ہی اچھی لگتی ہے؟ کیا اِس سے اصل تعبیر کی موت کا اندیشہ پیدا نہیں ہو جاتا؟

زاہد امروز:دیکھو علامت شاعری کابنیادی وصف ہے اور یہ نظم و نثر میں بے نام طریقے سے ہمیشہ استعمال ہوتی رہی ہے۔جدید شاعری نے اسے باقاعدہ طور پر انیسویں صدی میں دریافت کیا۔ اگر آپ کے نزدیک علامت کا استعمال ایک اعتراض ہے تو آپ کو علامت کا مقصد سمجھنا چاہئے ۔ آرٹ کا کام نامعلوم کو معلوم کی حدود میں لانا ہے، ان دیکھے کو دیکھنا یعنی immaterial کو materialize کرنا۔ اُس غیر مرئی کے لیے ایک مرئی شے درکا ر ہے اور وہ ہے علامت۔ اصل تعبیر کی موت کا اندیشہ نہیں ہوتا بل کہ ایک کی بجائے کئی اصل تعبیروں کو راہ ملتی ہے۔ علامت کسی بھی خیال کو کثیر معنویت دے کراُسے زندہ کرتی ہے۔ جہاں تک اس سوال میں بات گول ہونے یا ابلاغ کا تعلق ہے تو اس کی وجہ علامت نہیں ۔آفاقی علائم (Universal symbols) اور روایتی علائم (Conventional symbols) تو کسی بھی تہذیب کے اجتماعی لاشعور کا حصہ ہوتے ہیں اس لیے ان میں ابہام یامعنی کی ترسیل کا کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ تفہیم کا مسئلہ وہاں پیداہونے کا امکان ہوتا ہے جب کوئی تخلیق کارذاتی علامت) (subjective symbol استعمال کرتا ہے تو یہ بات دیکھنے کی ہے کہ وہ علامت اور خیال کی ہم اہنگی کو کس حد تک کو سمجھ سکا ہے۔ علامت اپنے پس منظر(context) سے باہر بے معنی ہو جاتی ہے۔ مثلاًاگر میں مرجھایا پھول علامت کے طور پر لوں تو اس سے خوشحالی اور خوشی تعبیر نہیں کی جاسکتی ۔ لیکن مرجھایا پھول ایک ہی کیفیت کے کئی طرح کے اظہارات کی تعبیر کرے گا۔ اور وہ ساری تعبیرات اگر ایک ہی علامت کی الگ الگ لیکن مکمل تفہیم کردیتی ہیں تو معنی کی ترسیل کا کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوتا۔ میری نظموں میں علامتوں کا استعمال آپ کو ناقابلِ فہم لگتا ہے؟ میں آپ کوبتا ؤں کہ میں نے کبھی علامت کا شعوری استعمال نہیں کیا ۔آپ کو اسی سے اندازہ ہو گا کہ آپ نے کہا میری پہلی کتاب کے دیباچے کا پیش لفظ بھی علامتی ہے ۔ میں نے تو براہِ راست صاف گوئی سے اپنا اظہار کیا جس میں کہیں بھی علامت کو بطور تکنیک ا ستعمال کرنے کی کوشش نہیں کی ۔ استعارہ، رمز،کنایہ، علامت، تمثیل وغیرہ تو شعری زبان اور شاعرانہ تخیل کے بنیادی عناصر ہیں۔ شاعر انہیں استعمال کرتے ہوئے کوئی فیصلہ نہیں کرتا۔ اگر یہ عناصر نہ ہوں تو شاعرانہ تخیل اور غیر شاعرانہ تخیل میں کوئی فرق نہیں رہ جاتا۔ 

تصنیف حیدر: آپ کی نظمیں گہری قنوطیت کا شکار ہیں۔ کیا آپ اِس سے متفق ہیں؟

زاہد امروز:مجھے لگتا ہے کہ یہ قنوطیت نہیں ، اُداسی ہے، ایک بے چینی اورزندگی کی موجود ہ شکل سے عدم اطمینان کی کیفیت ہے۔ اِس کی کیا وجہ ہے اور یہ کہاں سے آتی ہے، مجھے نہیں معلوم۔ شاید اِسی کو سمجھنے کے لیے میں شاعری کرتا ہوں۔ 

تصنیف حیدر: آپ نظموں میں ’’محبت‘‘ کے جس وجود کا اظہار کرتے ہیں وہ سستی اور سطحی قسم کی محبت سے کیسے الگ ہے؟ اور کیا ہوس ، چھچھورا پن اور چھچھلتی ہوئی نظر والا عشق سنجیدہ نظموں کا موضوع نہیں ہو سکتا؟

زاہد امروز:پہلے یہ بتاؤ کہ سستی اور سطحی محبت کیا ہوتی ہے اور اعلیٰ محبت کیا ہوتی ہے؟ مجھے تو یہ انتہائی کاروباری نوعیت کا تصورِ محبت لگتا ہے۔ محبت کبھی بھی سطحی یا سستی نہیں ہوتی بھائی۔محبت بے لوث ہونے کانام ہے ۔جہاں تک چھچھورے پن اور ہوس زدہ عشق کا سوال ہے تو میں ہر انسانی تجربے کو جو انسان کو نیا ادراک دے یا کسی نئی لذت سے آشنا کرے اہم سمجھتا ہوں۔ادب تو زندگی کے ہر رنگ کو دائرہِ ادراک میں لانے کا نام ہے۔ بڑا ادب اکثر ان لوگوں نے ہی تخلیق کیا جنہوں نے کبھی پارسا زندگی کا دعوی نہیں کیا تو اس اعلیٰ اور سنجیدہ ادب کے پیچھے تو اسی طرح کے تجربات ہوں گے۔ بڑا ادب Archetypal ہوتا ہے۔ا گر آپ یہ چاہتے ہیں کہ سنجیدہ ادب میں محبت یا عشق کا آرکی ٹائپ (Archetype) ہوس اور چھچھورے پن پر قایم ہو تو میں کہوں گا کہ آپ کے کلاسیکی سرمائے کا بڑا حصہ کوٹھوں پر طوائفوں کے ناز نخروں اور اداؤں کو شعر کرنے کے نتیجے میں سامنے آیا۔ دراصل ان اصطلاحات کے معنی ایسی کیفیت کے ہیں جس میں ایک عارضی لذت ہے اور یہ تصورِ عشق سے زیادہ تصورِ جنس ہے جو تسلسل یا دائمیت کے احساس سے عاری ہوتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ انسان زندگی میں استحکام چاہتا ہے اور عشق میں دوام بنیادی خواہش ہے۔ سنجیدہ شاعری کے پیچھے چھچھورا پن، چھچھلتی نظر والے عشقیہ تجربات تو ہو سکتے ہیں لیکن انہیں بطورتصورِ عشق اپنا نا مشکل ہے۔

تصنیف حیدر: زاہد اِمروز کے نزدیک ’’زندہ ادب‘‘ کی تعریف کیا ہے؟

زاہد امروز:زندہ ادب کی تعریف اسے محدود معنی میں قید کرنے کے مترادف ہے اور ایسے ادب کی کوئی مخصوص تعریف شاید ممکن نہ ہو۔ لیکن ایک بات سمجھی جاسکتی ہے کہ ادب کا کام بغیر کسی خارجی محرک کے انسانی زندگی کی تشریح و ادراک اور امکانات کی تلاش ہے۔ یہ ایک طرح سے کُل انسانیت کا خاموش مذہب ہے جو انسان کو جذباتی تشفی بھی دیتا ہے اور زندگی کے تسلسل کا یقین بھی فراہم کرتا ہے۔ 


(یہ انٹرویو بلاگ کا حوالہ دیے بغیر یا زاہد امروز سے اجازت لیے بغیر کہیں شائع نہ کیا جائے۔ایسا کرنے پر بلاگ پوسٹ کی جانب سے قانونی چارہ جوئی کا حق محفوظ ہے۔)

1 تبصرہ:

Mahender Kumar 'Sani' کہا...

کُل انسانیت کا خاموش مذہب ہے adab..
main nahiN janta ye jumla pahle kisi ki zbaan se ada kiya ja chuka hai ki nahiiN.. lekin filhaal ise maiN zahid imroz ka hi kaha hua manunga.. adab ki is se manikhez istilaah pesh nahiN ki ja sakti..

zahid imroz ki shayraana salahiytoN se kise inkaar hai. lekin is interview ke tawassut se unki nasr jo unki tanqeedi baseerat se jalwa afroz hai ka khoobsurat namoona aapne pesh kiya hai..

zahid imroz ki kuchh nazmeN jab main facebook par tha tab padhiN aur kuchh nazmeN rekhta.org par.. unki shayri ko main bahut pahle se pasand karta raha huN.. ek aur baat k liye wo mujhe yaad rahte haiN ki unhone majeed amjad par ek kitab bhi likhi hai..

nasri nazm me badi shayri ki misal maujood hai aur wo majid amjad ki nazmoN ki shakl me hai.. wo nazmeN jinhe baaz log failun failun ki takraar me likhi gayiN nazmeN samajhte haiN dar asl ye nasri nazm ki sabse umda misal hai... aisa kaha ja sakta hai ki ye nazmeN aazaad nazmoN ki derivative nazmeN haiN.. ya doosri zabaan me in nazmoN ko sub urb ke mutradif rakha ja sakta hai.. lekin hum in nazmoN ko yuN bhi to dekh sakte haiN ki wo kalam jo bahr me nahiN hai use bahr me laane ki koshish hai.. ye bahr me laana yani use ek dhara me tabdeel karne ka amal hai..

is tarah dekhne par takneeki sath par nasri nazm ke lamhdood imkanaat samne aate haiN..
majeed amjad k alawaa kayi ache shayar haiN jinhone behtarin nasri nazmeN likhi haiN(halaanki main nasri nazm aur azad nazm ki categorization ko tasleem nahiN karta.. aisa kar ke hum urdu shayri ka bahut bada nuqsan kar rahe haiN..) taham hindustan me.. fazal tabish.. ateekullah.. sheen kaf nizam.. preetpal singh betab.. jaise shayroN ki nazmeN humare samne haiN.. naye logon meN adil raza mansoori, ehsan malik , vineet raja ki nazmeN haiN..
Pakistan me sara shagufta, kishwar naheed, azra abbas, nasreen anjum bhatti, afzal ahmad, asghar nadeem sayyad, ahmad humesh,zahid daar, zeeshan sahil, Mustafa arbaab ki nasri nazmoN ko bahut si achhi azad nazmoN par fauqiyat di ja sakti hai..
main to yahaan tak khyal karta huN ki aane wali 2-3 dahaiyoN tak nasri nazm se aazaad ta paband tak log pahunch karenge.. ki takhreeb ke is zamaane me jab social cycle me change aa raha hai to adab ki dunya is se achhooti nahiN rahegi..

ye interview kayi manoN me aham interview hai.. aap donoN ka bahut bahut shukriya ki aaapki baatcheet me jaise main shamil tha (mohbbat wale sawal ke waqt maiN lu k liye gaya hua tha.. ha ha haa..)
shukriya
mahendra kumar sani

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *