منگل، 23 دسمبر، 2014

ارشد محمود سے دس سوالات



ارشد محمود پاکستان میں مقیم اہم لبرل، سیکولر اور صحیح معنیٰ میں ترقی پسند رائٹرہیں، ان کی تصانیف 'ثقافتی گھٹن اور پاکستانی معاشرہ'، 'تصور خدا' اور ''تعلیم اور ہماری قومی الجھنیں'زبردست انقلابی اور حقیقی فکریات کی حامل ہیں۔آپ پاکستان انڈیا پیپلز فورم فار پیس اینڈ ڈیماکریسی PIPFPD کے رکن کی حیثیت سے اہم کانفرنسوں کے سلسلے میں دو دفعہ  ہندوستان تشریف لاچکے ہیں۔فیس بک پر فعال ادبی گروپ 'پاکستانی فری تھنکرس'کے بنیاد گزاروں میں سے ہیں، جس میں تقریبا دس ہزار افرادہندوستان، پاکستان اور دنیا کے دوسرے ممالک سے بطور ممبر شریک ہیں، اور اس میں ہونے والے اہم مباحث میں حصہ لیتے ہیں، اخبارات، ٹی وی اور سوشل میڈیا وغیرہ کے توسط سے بھی ارشد محمود صاحب لگاتار پاکستانی مسلمانوں کو ترقی یافتہ ذہنیت پر مائل کرنے کی کوشش کررہے ہیں، ہندوستان سے امن اور دوستی کے زبردست قائل اور حامی ہیں۔میں نے گزشتہ سال ہی ان کی کتاب 'ثقافتی گھٹن اور پاکستانی معاشرہ' پڑھی ، جسے میں اپنے مطالعے کا بہترین تجربہ کہوں تو بالکل غلط نہ ہوگا۔ اس کے بعد ان کی دوسری کتابوں میں موجود ان کی فکری پختگی نے مجھے ان کا حد درجہ قائل بنادیا ہے۔امید ہے کہ یہ مکالمہ آپ کو بھی ضرور پسند آئے گا، اور ہمارے یہاں کچھ سنجیدہ افراد اس گفتگو کے اہم حصوں پر اپنی رائے دے کر ان نکتوں کو آگے بڑھائیں گے۔

تصنیف حیدر:ہندوستان میں پاکستان کے بارے میں ایک عام رائے یہ ہے کہ وہاں کے زیادہ تر لوگ مذہبی ، بنیاد پرست اور شدت پسند ہیں، کیا سچ میں ایسا ہے؟کیوں؟

ارشد محمود:پاکستان میں تمام تر انتہا پسندی اور شدت پسندی کے باوجود میرا یقین ہے۔ پاکستان کے عوام اعتدال پسند مسلمان ہیں۔ وہ اپنے خمیر میں لبرل، سیکولر، اور روشن خیال ہیں۔ پاکستانی جدید طرز زندگی کو پسند کرتے ہیں۔ اور اگر ان کو تھوڑا سا بھی آزاد سیاسی ، سماجی ماحول مل جائے، تو پاکستانی عوام ہندوستان کے عوام سے زیادہ لبرل اور سیکولر ہو سکتے ہیں۔ ہم بدنام زیادہ کئے گے ہیں۔ یہی وجہ ہے، جب ہندوستان سے لوگ پاکستان آتے ہیں۔ ان کا پاکستانی عوام کے بارے امیج بدل جاتا ہے۔ پاکستانی عوام تفریح، موسیقی، رقص، آرٹ اور میلوں ٹھیلوں کو چاہنے والےہیں۔ بد قسمتی سے مذہبی انتہا پسندی اور قدامت پرستی ہماری اسٹیبلش منٹ نے پاکستان کے عوام پر مسلط کی ہے۔ مجھے یاد ہے، پاکستانی اسکولوں میں سب سے کم حاضری اسلامیات کے پریڈ میں ہوتی تھی۔ طالب علم اسے بور مضمون سمجھتے تھے۔ اور ایسے ہی سرسری رٹا لگا کر پاس کیا جاتا تھا۔ میری معلومات کے مطابق بھارتی مسلمان پاکستانی مسلمانوں سے زیادہ مذہبی اور قدامت پسند ہیں۔ پاکستان میں اسلامی شدت پسندی 'اوپر' سے اور 'باہر' کی قوتوں نے ٹھونسی ہے۔ اگر پاکستانی 'ریاست' چاہے، تو اسے پاکستان میں ایک جھٹکے سے ختم کیا جاسکتا ہے۔

تصنیف حیدر:کیا مذہب اسلام اب ایک Irrelevant law ہے؟یا مسلمانوں کو بھی مارٹن لوتھر جیسے کسی شخص کی ضرورت ہے؟



ارشد محمود:قدامت پرست شرعی قوانین واقعی آج کے جدید دور کے تقاضوں میں فٹ نہیں ہوتے۔ نہ آج کے دور میں مذہب کی بنیاد پر ریاستیں اور معاشرے تشکیل دئیے جا سکتے ہیں۔ عام پاکستانی تعلیم یافتہ بھی یہی سمجھتا ہے۔ کہ بہت سے 'شرعی لاز' 1400 سال پہلے کےدور کے مطابق تھے۔البتہ سادہ لوح نیم خواندہ لوگوں کو ضرور مولوی نے ان شرعی لاز کے رومانی تصور میں مبتلا کررکھا ہے۔ کہ شائد ان سے جرائم پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ یا آسانی سے انصاف میسر آ سکتا ہے۔ یعنی اگر عام آدمی کو آج کے دور کی سول اور 'انگریزی لا' پر مبنی عدالتیں انصاف فراہم کردیں۔ یا سماجی انصاف مہیا کردیا جائے تو شریعت کے ساتھ غریب مسلمان کا یہ رومانس بھی ختم ہو جائے گا۔ میں نہیں سمجھتا، کہ مسلمانوں میں کوئی 'مارٹن لوتھر' پیدا ہوسکتا ہے۔ مسلمانوں نے کبھی کسی 'مارٹن لوتھر' کو تسلیم نہیں کیا۔ ہندوستان میں سب سے بڑی مثال سرسید احمد خان کی تھی۔ لیکن اس کی اسلامی تشریحات عام مسلمان تک نہ پہنچ سکی۔ اسلامی بنیاد پرستی کے خاتمے کے لئے مسلم ممالک میں جدید خطوط پر فکر کو عام کرنے اور تیز تر معاشی ترقی کے عمل کی ضرورت ہے۔

تصنیف حیدر:کیا شدت پسند طبقے کو رعایت دینے میں پاکستان کی صحافت اور حکومت دونوں کا رخ ایک ہی جیسا ہے؟



ارشد محمود:جی ہاں یہ بالکل درست بات ہے۔ ہماری صحافت 'ریاست' کے اشاروں پر چلتی ہے۔ میڈیا پر سیاسی حکومت کا نہیں 'ریاست' کا کنڑول ہے۔ پاکستان میں قدامت پرستی اور مذہبی انتہا پسندی کو فروغ دینے میں میڈیا کا بڑا ہاتھ ہے۔ پاکستان میں مذہب ایک بڑا کاروبار بن چکا ہے۔ مذہب بکتا ہے۔ اس سے نوٹ بنتے ہیں۔ میڈیا ایک کاروبار ہے۔ وہ دولت بنانے کے لئے مذہب کو کیوں نہ بیچے۔ ہمارے میڈیا نے اس سلسلے میں سماجی شعور اور قومی زمہ داری کا مظاہرہ نہیں کیا۔ کہ پاکستانی عوام کو جدید دنیا کی طرف اور ترقی کرتے ہوئے عمل کیطرف لے کر جانا ہے۔ ادھر پاکستانی نصاب تعلیم ہر نوجوان کو کنزویٹو متعصب مسلمان اور الٹرا قوم پرست پاکستانی بنا دیتا ہے۔ افسوس کی بات ہے، قوم پرستی کی بنیاد ہندوستان دشمنی پر رکھی ہوئی ہے۔ چنانچہ اردو میڈیا میں جو لوگ صحافت کے شعبے میں آتے ہیں۔ ان کی ذہانت، سیاسی اور سماجی شعور کی سطح عامیانہ اور پس ماندہ ہوتی ہے۔ البتہ انگریزی صحافت کافی حد تک سیکولر، لبرل اور وسیع المشرب مواد پر مشتمل ہے۔

تصنیف حیدر:ہندو اور ہندوستان سے منافرت کا رویہ کیا کم علمی اور جہالت کی بنیا دپر ہے، یا پڑھے لکھے طبقات بھی اس سے متاثر ہیں؟اس کا سدباب کیسے ہوسکتا ہے؟



ارشد محمود:ہندو اور ہندوستان سے نفرت ہمارے تعلیمی نصاب کا حصہ ہے۔ بد قسمتی سے یہ ہمارے ہاں کا قومی بیانیہ ہے۔ اس میں کم علمی اور جہالت کا بھی دخل ہے۔ 'ریاست' عوام کی کم علمی اور جہالت سے فائدہ اٹھاتی ہے۔ ہندو اور ہندوستان سےنفرت کی بہت سی جہتیں ہیں۔ تقسیم ہند کے وقت کا بیک لاگ ہے۔ جب ہمارے بانیوں نے ہندو مسلم نفرت کو بطور Tactics کے استعمال کیا۔ کشمیر کا تنازع اس نفرت کو زندہ رکھنے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں، ہم پاکستانی ہندوستان سےنفرت کی بہت بھاری قیمت ادا کررہے ہیں۔ اسی نفرت کے نتیجے میں پاکستان آدھا ہوگیا۔ معیشت کو تباہ کرنے والی چار بے کار جنگیں لڑیں۔ پاکستانی میں اسلامی انتہا پسندی اور دہشت گردی کی ماں بھی یہی ہندوستان دشمنی ہے۔ ہندو اور ہندوستان سےنفرت پاکستان کےکسی فائدے میں نہیں۔ یہ ایک تباہ کن پھندہ ہے، جو پاکستانیوں نے اپنے گلے میں ڈالا ہوا ہے۔ اس نفرت کا حل پاکستان کے اندر تو دکھائی نہیں دیتا۔۔جب تک ہماری 'ریاست' انٹی انڈیا Narrative سے خود کو نہ نکال لے۔ میرے خیال میں انڈیا کی طرف سے کشادہ دلی اور کشادہ دماغی سے ہی اس نفرت کو ختم کیا جاسکتا ہے۔ انڈیا کو دشمنی ختم کرنے میں پہل کرنی چاہئے۔۔وہ بہت بڑا ملک اور عالمی برادری میں ایک اہم تہذبی مقام اور پہچان رکھتا ہے۔ اگر وہ پاکستان کو کچھ مراعات بھی دے دے۔۔تو اس کا کچھ نہیں بگڑنے والا۔۔لیکن اس جنوبی ایشیا کے دو ارب لوگوں کو امن اور ترقی کی راہ ضرور مل جائے گی۔


تصنیف حیدر:ہندوستان اور پاکستان کی دوستی آپ کی نظر میں کن ذرائع سے مضبوط اور حقیقی بنیادوں پر قائم ہوسکتی ہے؟


ارشد محمود:میں اس کا کچھ جواب اس سے پہلے والے سوال میں دے چکا ہوں۔ میرے خیال میں حقیقی مسائل سے کہیں زیادہ دوطرفہ طویل اور مستقل عدم اعتمادی کی فضا کا ہے۔ دونوں اطراف کی سیکورٹی اور خارجہ تعلقات کی بیوروکریسی ان دونوں ملکوں کے تعلقات کو ٹھیک نہیں ہونے دے رہے۔ دونوں طرف کے عوام کا کوئی مسئلہ نہیں۔ ہمارے ہاں سیاسی قیادت کمزور ہوتی ہے۔ لیکن افسوس انڈین سیاسی قیادت بھی کبھی ایک قدم آگے بڑھ کر معاملات کو درست سمت کی طرف نہیں لے جا سکی۔۔ ان کا ہمیشہ Tit for Tat اور ردعمل کی ہی پالیسی رہی ہے۔ جنرل مشرف کے دور میں معاملات بہت آگے بڑھ چکے تھے۔۔لیکن انڈیا سائڈ نے اس قیمتی لمحے کو نہیں پکڑا۔۔۔تجارت کے فروغ اور عام شہریوں پر ویزے پر پابندیوں کے خاتمے سے ہی معمول کے اچھے ہمسایہ تعلقات بنائے جا سکتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں، انڈیا کو یک طرفہ ہی پاکستانی ادیبوں، دانشوروں، صحافیوں، وکلا، طلبا اور 55 سال سے اوپر کےلوگوں سے ویزے کی پابندیاں ختم کردینی چاہئے۔۔آپ دیکھیں گے، دونوں طرف کے Hawks کی اسی وقت موت ہو جائے گی۔ مجھ جیسے محب وطن انسان دوست یہاں کے لئے 'را' کے ایجنٹ ہیں۔ اور آپ کے نزدیک آئی ایس آئی کے۔ دونوں طرف کی بیوروکریسی اور پالیسی سازوں کا یہ رویہ قابل نفرت اور انسان دشمن ہے۔ مجھے کبھی کبھی لگتا ہے، ہم دونوں طرف کے لوگ ایک ہی 'مٹی' کے بنے ہوئے ہیں۔ دونوں طرف کی قیادتیں کوتاہ بیں اور نہائت مایوس کرنے والی ہیں۔ میری ہندوستانی دوستون سے اپیل ہوگی۔کہ وہ اپنی سیاسی قیادت پر اس سلسلے میں اپنا دباو بڑھائیں۔ ہندوستانی سول سوسائٹی ہم سے زیادہ منظم اور طاقت ور ہے۔

تصنیف حیدر:بہت سے لبرل اور سیکولر مزاج لوگ، دینی معاملات کا مذاق اڑا کر، احادیث اور قرآن پر ہنس کر، ٹھٹھا لگاکر ان کی کمزوریو ں کو ثابت کرنا چاہتے ہیں، کیا یہ رویہ عقلمندانہ ہے؟کیا اس سے کسی حل کی امید ہے؟



ارشد محمود:اصل میں یہ عمل کا ردعمل ہے۔ جب نہائت شدت سے 'دین' کو لوگوں پر ٹھونسا جائے۔ اسے ریاست، سیاست، سماج، معاشیات کا اس حد تک حصہ بنا لیا جائے گا۔۔ کہ فرد کی اپنی ذاتی space ہی ختم ہو کررہ جائے۔۔ہر وقت اسلام اسلام کرنے کے سوا کوئی موضوع ہی باقی نہ ہو۔۔تو ایسی گھٹن میں اس طرح کا ردعمل فطری ہے۔ ویسے بھی ہم سائنس، عقل، ٹیکنالوجی کے دور میں رہ رہے ہیں۔ مذاہب اور عقائد اپنی فطرت میں 'ٹائم بار' ہو چکے ہیں۔طبعی اور سماجی سائنسز مذہب کو بطور فلسفہ اور سماجی نظام کے رد کر چکی ہیں۔ میرا یہ موقف رہا ہے۔ کہ اس کا ایک ہی حل ہے۔ کہ مسلمان اسلام کی ان دوباتوں پر راضی ہوجائیں۔ 'تیرا دین تیرے لئے، میرا دین میرے لئے' اور 'دین میں کوئی جبر نہیں'۔ اسی کو جدید اصطلاح میں سیکولر ازم کہتے ہیں۔ اگرمسلمان اپنے مذہب کو اپنی زاتی زندگی تک محدود کرلیں۔ تو اسلام کے خلاف جس مہم کی طرف آپ نے اشارہ کیا ہے۔ وہ ختم ہو جائے گی۔ اب مذہب کے نام جدید زہن کو بے وقوف نہین بنایا جاسکتا۔ اگر مذہب کو آپ دوسروں پر زبردستی ٹھونسیں گے۔ تو آگے سے 'پردہ چاک' ہونے کی بھی توقع رکھنی چاہئے۔ ایکیسویں صدی مذاہب و عقائد کی نہیں سائنس اور عقل کی ہے۔ آج کے دور میں عقائد دو طرح ہی 'زندہ' رہ سکتے ہیں۔ ایمان والے کی ذات میں محدود ہو کر۔۔یا پھر دہشت گردی، فاشزم اور بدمعاشی سے۔۔ میرا خیال ہے۔ ہم مسلمانوں کو جلد پہلا رستہ اپنا لینا چاہئے۔۔اس سے پہلے کہ ہم اپنا بہت بڑا نقصان کرلیں۔

تصنیف حیدر:پاکستان میں جماعت اسلامی پر اگر پابندی لگ جائے تو کیا معاملات کچھ بہتر ہوسکتے ہیں؟



ارشد محمود:میرا نہیں خیال ایسا ہو سکتا ہے۔ یا اس کا کوئی فائدہ بھی ہوگا۔ پاکستان میں اسلامی شدت پسندی اب جماعت اسلامی سے بہت آگے جا چکی ہے۔


تصنیف حیدر:کیا 1947میں ہندوپاک کی تقسیم کو آپ ایک بھیانک غلطی سے تعبیر کرتے ہیں؟کیوں؟


ارشد محمود:'بھیانک غلطی' تو نہیں کہہ سکتا۔ البتہ جنوبی ایشیا کے سارے خطے نے اس کو بری طرح 'بھگتا' ہے۔ وہ انڈیا کی تقسیم نہیں، مسلمانوں کی تقسیم تھی۔دس لاکھ مسلمانوں ہندووں اور سکھون کا خون بہایا گیا۔ عمومی طور پر سارے خطے کی ترقی کا عمل رکا ہوا ہے۔ تاریخ یا ماضی کو بدلا نہیں جاتا۔۔ اس سے سیکھا جاتا ہے،، آگے بڑھا جاتا ہے۔۔ لیکن افسوس ہے، دونوں طرف سے سیکھا گیا ہے نہ آگے بڑھا گیا ہے۔۔ جو زیادہ بڑی "بھیانک غلطی' ہے۔ دونوں طرف کی اسٹیبلش منٹس اپنی موجودہ نسل کی مجرم ہیں۔ پاکستان کو یہ کہہ کر بنایا گیا تھا، کہ مسلمان ہندوستان میں ایک دوسرے کے ساتھ امن سے نہیں رہ سکتے۔۔لیکن پاکستان کے بننےکے بعد ثابت ہوا،، کہ علحیدہ ہو کر بھی امن سے نہیں رہ سکتے۔۔ اس لحاظ سے تقسیم کا فلسفہ بے کار تھا۔


تصنیف حیدر:نسلی تفخر، امتیاز اور تشدد جیسے مسائل پر کس طرح قابو پایا جاسکتا ہے؟ 


ارشد محمود:نسلی تفاخر، امتیازات سب جعلی چیزیں ہیں۔ پرانے قبائلی اور جاگیرداری دور کی اقدار۔ جدید تہذیبی شعور،تعلیم، اور معاشی خوشحالی ان کو مٹا رہی ہے۔ ہم اس لئے ان میں پھنسے ہوئے ہیں۔ کہ ہماری 'تہذیبی، تعلییمی، اور معاشی خوشحالی' کا عمل یا تو رکا ہوا ہے، یا پھر بہت سست ہے۔


تصنیف حیدر:کیا شاعری یا ادب کے ذریعے سماج میں ایک بہتر سیکولر سوچ پیدا کرنا ممکن ہے؟کیوں؟


ارشد محمود:ارتقا اور ترقی کے عمل کی بہت سطحیں ہوتی ہیں۔ وہ سب ایک دوسرے پر اثر انداز ہو رہی ہوتی ہیں۔ جس سے معاشرے آگے بڑھتے رہتے ہیں۔ یقینا شاعری اور ادب کا معاشروں اور انسانی شعور کے ارتقا میں اہم رول ہوتا ہے۔ پاکستان میں سیکولر، لبرل ترقی پسند شاعروں اور ادیبوں کا روشن خیالی کے فروغ میں شاندار کردار رہا ہے۔ ہمیں فخر ہے۔ پاکستان کے تمام بڑے نامور شعرا اور ادیب ترقی پسند رہے ہیں۔ اسلامی زہن یا دائیں بازو کی فکر کا کوئی بڑا ادیب اور شاعر پیدا نہیں ہوسکا۔ اور آج بھی بظاہر اتنا اندھیرا ہونےکے باوجود مجھ سمیت روشن دماغ لکھنے والوں کی کاوشیں آپ کے سامنے ہیں۔ لوگ حیران ہو جاتے ہیں، کہ کیا پاکستان میں اتنی جرات مندی سے سچ لکھا جا سکتا ہے۔۔۔؟ تاریخ آگے بڑھے بغیر رہ نہیں سکتی۔ پاکستان سے بھی جہالت، پس ماندگی، انتہا پسندی کے اندھیرے ضرور ختم ہوجائیں گے۔

(یہ انٹرویو بلاگ کا حوالہ دیے یا ارشد محمود سے اجازت لیے بغیر کہیں شائع نہ کی جائے، ایسا کرنے پر بلاگ پوسٹ کی جانب سے قانونی چارہ جوئی کا حق محفوظ ہے۔)

نوٹ:مندرجہ ذیل لنک کے ذریعے ارشد محمود صاحب کی اہم کتاب'ثقافتی گھٹن اور پاکستانی معاشرہ 'پی ڈی ایف صورت میں ڈائونلوڈ کی جاسکتی ہے۔


1 تبصرہ:

Unknown کہا...

بہت اچھی کوشش یے۔اگر ہو سکے تو پاکستان کے شاعر تنویر سپرا کا شاعری مجموعہ اپ لوڈ کریں

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *