نئے ذہن کو سمجھنا بہت ضروری ہے، ویسے بھی ہمارے یہاں سنجیدگی سے ادب تخلیق کرنے والی خواتین کی تعداد کافی کم رہی ہے۔اس مکالمے کے ذریعے آپ کو یہ بھی معلوم ہوگا کہ نیا لکھنے والا ذہن پرانی مشہور و معروف شاعرات کے بارے میں کیا سوچتا ہے۔عنبرین صلاح الدینکی دو کتابیں اب تک شائع ہوچکی ہیں۔ سردشت گماں اور صدیوں جیسے پل، میں نے ان کا دوسرا مجموعہ پڑھا ہے، انہوں نے اپنی تخلیقیت کا ایک اچھا تاثر قائم کیا ہے۔ان سوالوں کے جوابات سے ان کے ذہن کی بالیدگی بھی ظاہر ہے،اختلاف واتفاق اپنی جگہ.
تصنیف
حیدر:نظم زیادہ اور غزل کم کہنے کی کیا وجہ ہے؟
عنبرین
صلاح الدین:میں نے غزل ،نظم کی نسبت زیادہ ہی لکھی ہو گی۔ پہلی کتاب میں گنتی کی چند
نظمیں ہیں۔ ہاں دوسری کتاب میں نظمیں زیادہ اور غزلیں کم ہیں۔ انتخاب کے وقت نظمیں زیادہ پسند
آئیں، سو اِس کی یہی وجہ ہے۔میرے نزدیک خیال اپنی ساخت ساتھ لاتا ہے، سو کبھی نظم لکھی
جاتی ہے اور کبھی غزل کا شعر ہو جاتا ہے۔ اور یہ بھی ہے کہ غزل اور نظم، دونوں
کی ریاضت ایک دوسرے کی مددگار ہوتی ہے۔
تصنیف
حیدر:کسی جنسی معاملے کو موضوع بنانا کیا اردو والوں کے سماج میں ایک ٹیبو (taboo) ہے؟خاص
طور پر ایک عورت کے لیے۔
عنبرین
صلاح الدین:یہ سوال آپ تب کریں کہ جب ایسا نہ ہوا ہو۔ ہمارے پاس نثر اور شاعری میں
مردوخواتین کے بہت سے نام ایسے ہیں جنہوں نے
جنس کوموضوع بنایا اورکچھ نے بہت اچھا بھی
لکھا ۔اگر آپ خاص طور پر عورت کے حوالے سے پوچھ رہے ہیں توعورت کے لئے تخلیق کار ہونا ہی ایک بڑا سوال رہا ہے۔
اور اردو والوں کا سماج کیا، کچھ عرصہ ہی تو گزرا کہ پوری دنیا میں یہی صورتحال
تھی۔ اب بہت کچھ بدل گیا ہے۔ پھر بھی کہیں کہیں یہ مسئلہ موجود ہے۔جہاں تک تخلیق کار کی بات ہے، تو یہ تخلیق کار کی اپنی مرضی
پر منحصر ہے کہ وہ کس موضوع پر لکھے اور کس پر نہ لکھے۔ہاں اگر کوئی عورت کسی
دباؤ کا شکار ہو کر کسی خاص موضوع پر نہیں لکھتی ، تو کیا یہ عورت ہونے کا مسئلہ ہے
؟ یہ تو ایک تخلیق کار یا اُس سے بھی پہلے ایک انسان کی authentic existence/choice کا
مسئلہ ہے۔ اور پھرہم نے جنسی موضوع کے انتخاب کو جرات کے ساتھ ایسا جوڑا ہے جیسے یہی
ایک کام جرات طلب ہے، جو آپ کو الگ اور ممتاز بنا
سکتا ہے۔
تصنیف
حیدر:نئی لکھنے والی شاعرات میں وہ بات نہیں ہے، جو فہمیدہ ریاض، سارا شگفتہ، عذرا
عباس وغیرہ میں تھی۔کیا آپ اس بات سے اتفاق رکھتی ہیں؟
عنبرین
صلاح الدین:آپ نے جو تین نام لئے، اِن میں ایسی کیا بات ہے جو اَب لکھنے والی
عورتوں کے ہاں نہیں؟ آپ کا یہ سوال دراصل پچھلے سوال سے جڑا ہوا ہے۔ جب بھی ٹیبو کا
ذکر ہوتا ہے، ان تین کےیاچند اور خواتین کے نام خاص طور پر لئے جاتے ہیں ۔ سارا
اور عذرا عباس کے پاس جنس سے لے کر عورت کی آزادی تک بہت سےموضوعات تو ہیں، مگر شاعری کہاں ہے؟ سارا
کے پاس بکھرے ہوئے مناظر کا ایک انبار ہے۔ اور سچی بات تو یہ ہے کہ اس کو آج تک اُس
کی شاعری نے نہیں، اُس کے وجودسے جڑی controversy نے زندہ رکھا
ہے۔ عذرا عباس کی کسی نظم نے آج تک مجھے نہیں روکا۔ نثری نظم کو میں رد
نہیں کرتی، مگر کوئی آہنگ؟ کوئی تاثیر؟ نظم کے آغاز، اختتام، خیالات کےربط، ہم
آہنگی، کلائمکس، اینٹی کلائمیکس وغیرہ جیسی کوئی بات بھی تو ہو! یعنی وہ نظم تو
ہو۔ (ویسے کم و بیش ایسا ہی حال کچھ مرد
شعراء کی ان بے ربط تحاریر کا بھی ہے جو وہ نظم کے نام پر پیش کرتے رہتے ہیں)۔
ایسی تحریریں اکثر کسی دوسری زبان کے نثر پاروں
یا نظموں کا بھونڈا ترجمہ لگتی / ہوتی ہیں! البتہ فہمیدہ ریاض اِن دونو ں سے بہتر شاعرہیں۔
بہت ذہین عورت ہیں، اور جرات کے ساتھ اپنا ایک نقطہء نظر رکھتی ہیں مگر اُن کے ہاں
بھی شاعری کئی جگہ نعرہ بازی کے اندر کہیں دب کر رہ گئی ہے۔فہمیدہ ریاض کی اپنے cause کے ساتھ جڑت، محبت، محنت، عقیدت، جرات سے کون
انکار کر سکتا ہے،اُن کے پاس مطالعہ بھی ہے، حالاتِ حاضرہ پر گہری نظر بھی رکھتی ہیں، اور اپنا نقطہء نظر بھی
ہے، مگر poetic essence بھی
تو کسی چڑیا کا نام ہے!نئی شاعرات میں آپ کوان سے متاثرین کا ایک چھوٹا
سا حصہ ملے گا، جو جنسی موضوعات، جنسی
استعاروں کے استعمال ، یا بولڈ ایکسپریشن کو جرات سمجھتی ہیں یا سستی شہرت کا
ذریعہ، اور ایسی نثریابے ہنگم نظموں کا
انبار لگا رہی ہیں جن میں شاعری عموماََ غائب
ہے۔اور ایک حصہ اُن عورتوں کا ہے جو ایسا
نہیں لکھ رہیں یا ایسا لکھنے سے گھبراتی ہیں،۔ان میں سے بیشتر چادر، چاردیواری، باورچی خانے سے لئے ہوئے
استعاروں وغیرہ کا سہارا لے رہی ہیں۔ یہاں
اگر شعری عنصر برقرار ہے اور نظم اپنے معنوی دائرے کو مکمل کرتی ہے، اشعار مکمل
ہیں، کلیشے نہیں۔۔ تو بہت اچھا، نہیں تو جو شاعری ہی نہیں اس میں موضوع کی کیا
اہمیت! اِس کے علاوہ سیدھی سادھی ہجرو وصال کی ایسی شاعری کا انبار ہے،جس میں کوئی
نیاپن نہیں، cliché ہے
بس۔ اور ایسا لکھنے والی بہت سی عورتیں
شاعر کہلائی ہی نہیں جا سکتی (یہ بات ایسی شاعری کے ڈھیر لگانے والے مردوں کے لئے
بھی درست ہے)۔
تصنیف
حیدر:پاکستان کا سماجی ، مذہبی یا سیاسی منظر نامہ لڑکیوں، عورتوں کی تخلیقی حسوں کو
ختم کرنے پر آمادہ ہے۔کیا یہ بات سچ ہے؟
عنبرین
صلاح الدین:اگر آپ کا اشارہ اُن عوامل کی
طرف ہے جو سماجی جکڑ بندیوں اور حد بندیوں کے سبب عورتوں کے لکھنے کی راہ میں
رکاوٹ ہیں، تو ایسا معاملہ اب نہیں رہا۔ زاہدہ خاتون شیروانیہ (ز۔خ۔ش) سے ادا
جعفری تک مشکلات کے اور درجے تھے، پھر
زہرہ نگاہ، کشور ناہید اور فہمیدہ ریاض کے
بعد پروین شاکر کے زمانے تک جو منظر تھا، وہ بھی اتنا آسان نہیں تھا لیکن اُس وقت تک بھی بہت کچھ بدل چکا تھا۔ مگر جن مسائل کو نوے کی
دہائی تک پروین وغیرہ نے دیکھا، وہ آج کی
لکھاری عورتوں کو درپیش نہیں۔ گزشتہ ایک دہائی میں بطور خاص منظر بہت بدل گیا ہے۔
اِس بات کا دوسرا رُخ یہ ہے کہ منظر میں اچھی بری تبدیلی سب کے لئے یکساں ہے۔ ایک
فرد کی حیثیت میں کوئی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ تخلیقی حس رکھنے والے افراد
کا معاملہ تو یہ ہوتا ہے کہ منظرنامے کی
تبدیلی سے ان کی صلاحیتوں کو مہمیز ملے۔ بطور تخلیق کار
مجھے نہیں لگتا کہ اب کوئی منظر
نامہ ایسا ہے کہ تخلیقی حسوں کو ختم کرے۔ تخلیق کار کی حساسیت کی وجہ سےوقتی رکاوٹ آ سکتی ہے، تخلیق کار writer’s block کا شکار ہوتا ہے اور ایسا زیادہ مدت کے لئے بھی
ہو سکتا ہے۔مگر یہ ایک الگ معاملہ ہے۔
تصنیف
حیدر:عنبرین صلاح الدین کے لیے تخلیقی جرات کا صحیح مطلب کیا ہے؟
عنبرین
صلاح الدین:میرے نزدیک تخلیقی جرات یہ ہے
کہ جو میرے دل میں آئے میں وہی لکھوں اور میں ایسا ہی کرتی ہوں ۔ ہمارے
ادیبوں کا معاملہ یہ ہے کہ جرات کی تعریف کچھ موضوعات کے ساتھ مخصوص کر دی گئی ہے۔ اگر
میں کسی خاص انداز میں نہ لکھوں اور میری تحریر انہی مخصوص نظریات کی تابع نہ ہو، تو
یہ سمجھا جائے گا کہ مجھ میں تخلیقی جرات
نہیں ۔ اور اگر ایک مخصوص سوچ کے برعکس لکھوں تو judgmental ہونے میں ایک لمحہ نہیں لگایا جائے گا۔ جیو اور
جینے دو کی باتیں کرتے لوگ، اپنے نظریات کے خلاف بات پر تلملاہٹ کا شکار ہو جاتے ہیں۔
تصنیف
حیدر:کشور ناہید کی شاعری اور نثر آپ کو کیسی لگتی ہے، کیا وہ محض ایک مشاعرہ باز شاعرہ
ہیں؟
عنبرین
صلاح الدین:میں نے ایک سوال کے جواب میں جو باتیں فہمیدہ ریاض کے بارے میں کی ہیں، وہی باتیں کشور ناہید پر بھی صادق آتی ہیں۔
ان کے پاس ایک کاز ہے۔ ان کا اپنا نقطء نظر ہے۔ انہوں نے کامیابی سے ادارت، نظامت
کے امور انجام دئے۔اپنی رائے رکھتی ہیں (یہ بہت اہم بات ہے)، اپنا طرزِ تحریر رکھتی ہیں۔کچھ بکھرے بکھرے کالم بھی لکھتی ہیں۔ ان کی نثر ی تحریریں
زیادہ تر ایسی ہی ہیں اور یہی بکھراؤ
شاعری میں بھی ملتا ہے۔ کچھ اشعار مشہور ہوئے کہ اچھے تھے۔ کچھ آزاد اور نثری نظمیں بھی یاد رہیں کہ صرف نعرہ نہیں تھا،
تاثیر بھی تھی مثلا یہ ہم گناہ گار عورتیں ہیں، یا، وہ جو بچیوں سے بھی ڈر گئے۔۔
مگر زیادہ تر وہی مسئلہ کہ شعریت غائب، نعرہ موجود۔ اورآپ نے جو مشاعرے کی بات کی وہاں بھی جب وہ اچھا کلام
سناتی ہیں جیسے وہ جو بچیوں سے بھی ڈر گئے،تو ایک سماں تو بندھ جاتا ہے۔ مشاعرے
پڑھنے والے ہر شاعر کے پاس مشاعرے کے حصے کا کلام موجود ہوتا ہے، لیکن اُس کا شعری
مقام اُس کے مجموعی کلام سے طے ہوتا ہے۔
تصنیف
حیدر:آپ کی نظموں کی سخت تنقید آپ کو خوش کرے گی یا مایوس؟کیوں؟مثال کے طور پر اگر
میں یہ کہوں کہ آپ کی نظموں میں خیالات کی باریکی کے باوجود کوئی بہت عمدہ کرافٹ نہیں
ہے تو آپ کا رد عمل کیا ہوگا؟
عنبرین
صلاح الدین:دیکھیں ! اگرغیر جانب داری اور سنجیدگی سے تنقید کی جائے جو تخلیق کار کو اپنے آپ کو بہتر کرنے میں مدد
دے، تو وہ تو یقیناََ بہت اچھا عمل ہے۔ البتہ کسی خاص نظریے یا نقطہء نظر کی عینک
لگا کر، شعری جمالیات کو پسِ پشت ڈال کر متن کو رگیدا جائے یا اِس کے بر عکس موضوع کو بھُلا کر صرف
کرافٹ سے شاعر کے مقام کا تعین کیا جائے،
یا پھر جو سطحی تنقید کا رویہ یا چلن رائج ہو رہا ہے، جس میں نصا بی طرز پر اشعار
کا سلیس ترجمہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہےاور اُسے شاعر کے فکری نظام کو سمجھنے کا
عمل سمجھا جاتا ہے، تو ایسی تنقید کرنے
والے بھی بہت ہیں، اور ایسی تنقید پر خوش ہونے والے بھی بہت ہیں! مگر میرا مسئلہ
تو شروع دِن سے یہ رہا ہے کہ میں نے اپنے سینئرز سے رائے لیتے ہوئے بھی اور خود غوروفکر کر تے ہوئے
بھی یہی سمجھنے کی کوشش کی ہے کہ میں اپنے شعری سفر میں کہاں کہاں مزید بہتری پیدا کر سکتی ہوں۔ کیونکہ بہتری کی
گنجائش ہمیشہ موجود رہتی ہے۔ کرافٹ کی بات آپ مثالوں سے کرتے تو بہتر تھا۔ ویسے جہاں
تک کرافٹ کا تعلق ہے تو میں نے اپنے تئیں کرافٹ پر محنت کی ہے لیکن اتنی کی ہے کہ جس سے میرا مافی الضمیر
متاثر نہ ہو۔ اور خیال کے ساتھ کرافٹ مطابقت رکھے۔
تصنیف
حیدر:آپ کی تخلیقی کاوشوں کے محرکات کیا کیا ہیں؟
عنبرین
صلاح الدین:میرا خیال ہے کہ اِس بات کا کوئی ایک واضح جواب نہیں ہو سکتا۔ محرک اپنے اندر بھی اکثر اوقات مبہم ہوتا ہے، چند واضح محرکات کے علاوہ
جہاں میں نے بہت کچھ اپنے پیاروں کے بارے
میں لکھا وہیں میں نے ارد گرد بکھرے ہوئے دکھ ، درد، مسائل، کرب، اور انسانی زندگی
سے جڑے سوالات اور جذبوں کے حوالے سے بھی لکھااور میں نے ہمیشہ وہ لکھا جو محسوس کیا۔
تصنیف
حیدر:الیکٹرونک میڈیا کے ذریعے اردو زبان بالخصوص ادب کی ترویج عین ممکن ہے؟آپ کا کیا
خیال ہے؟
عنبرین
صلاح الدین:ناممکن تو نہیں ،مگر ہم ایک اجتماعی غیر ذمہ داری کے دور میں موجود
ہیں۔ اچھے ادب کی ترویج کسی کی پہلی ترجیح نہیں۔ ٹیلی وژن کی بات کریں تو کسی چینل
پر اتنا اہتمام بھی نہیں کہ کم از کم
زبان و بیان کی غلطیوں سے بچا جائے، تو ادب
کے حوالے سے اچھے پروگراموں کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ویسے الیکٹرانک میڈیا پر زیادہ تر پروگراموں میں وہی ادیب جا سکتا ہے جس کے اچھے روابط ہوں۔ اچھے اور سنجیدہ ادیب اِس سلسلے سے دور ہی نظر آتے ہیں۔سوشل میڈیا پر بھی جو اردو زبان و
ادب کی ترویج کا کام ہو رہا ہے، آپ کے
سامنے ہے۔ شعر و ادب کو کوئی فائدہ پہنچا یا نہیں، شاعروں اور ادیبوں کو بہت سارے
فائدے حاصل ہوئے۔ مجھے ادیبوں کے بارے میں یہاں سے جو چیزیں جاننے کا موقع ملا، ان میں جھوٹ، قول
و فعل کا تضاد، گروہ بندی، خود پسندی ، انتہا پسندی شامل ہیں۔ سب سے تکلیف دہ بات
یہ ہے کہ اظہارِ رائے کی آزادی آپ کو تو ہے، مگر آپ کے مطلب کا اظہار ہونا ہی آپ
کے نزدیک آزادی ہے۔ اِس کے برعکس کوئی بولےتو گنہگار!
تصنیف
حیدر:اردو ادب کے کون سے دو لکھنے والے آپ کو بے حد ناپسند ہیں۔کیوں؟
عنبرین
صلاح الدین:کیا خراب ادیب صرف دو ہیں؟ دیکھیں! تحریر کی ایک قسم تو ایسی ہے کہ جو کسی گنتی
میں نہیں۔ اسے پسند کیا کِیا جائے، ناپسند کیا کِیا جائے؟ لیکن حیف ہے اُن بزرگان پر
جوایسی چیزوں پر بھی واہ واہ کرتے تھکتے نہیں۔ میں نے اپنا پی ایچ ڈی کا کام کرتے
ہوئے افسانوں کی ایسی کتابیں پڑھی ہیں، جن میں افسانہ تھا ہی نہیں اور آراء دینے
والے بڑے نام فلیپس پر موجودتھے۔ اِس رویے کو ٹھیک کرنے کی اشد ضرورت ہے۔یہاں نام
کیا لکھے جائیں، بتا دیا ہے کہ وہ نام کسی شُمار میں ہی نہیں!دوسری قسم اُن تحاریر کی ہے جو نظریاتی طور پر آپ کو
پسند نہیں، مگر ادب تو کہلائی جائیں گی۔ اور کبھی کبھار توبات کچھ اِس سے بھی آگے
نکل جاتی ہیں اور تحریرباقاعدہ نظریے پر
تقریربن جاتی ہیں ۔کچھ بہترین تخلیق کاروں کی کچھ مشہورتصنیفات ایسی بھی ہیں جن کے
زیرِ اثر مایوس لوگوں کا ڈھیر دیکھا ہے جن کے لئے بے کاری میں رومانس ہے،اور مایوسی
کوئی ارفع چیز ہے! سب escape ہے،
اور کچھ بھی نہیں۔مگر پڑھنے اور سراہنے والوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے تو ٹھیک
ہے، یہ اُن کی پسند ہے۔نظریاتی فرق پر ایک مثال اور دے دوں۔ ایک بار کسی نے ایک بہت اچھا اقتباس
سُنایا۔ میں نے کہا بہت اچھا ہے، اور یہ بھی کہا کہ it
is my kind of prose!مگر تھا وہthe ground beneath her feet کا حصہ۔ اب اُس تحریر کو
ادب ہی کہا جائے گاحالانکہ ایک طبقہ ایک خاص
وجہ سے رُشدی کی کوئی تحریر پڑھنا ہی نہیں
چاہتا اوریہ اُس طبقے کا حق ہے۔ ویسے تو یہاں
وہ لوگ بھی موجود ہیں جو شاعری کی الف ب نہیں جانتے، ہاں نظریاتی فرق کی بنا پر یہ
تک کہہ دیتے ہیں کہ اقبال کو کیا پتہ شاعری کا! ہر ادیب کی طرح قاری کی بھی اپنی
سطح اور احساس ہوتا ہے، وہ جسے پڑھنا چاہے، ضرور پڑھے اور جو نہیں پڑھنا ، نہ
پڑھے، مگرہم اُسے ادب سے کیسے نکال دیں! کچھ اور اقسام بھی ناپسندیدہ ہو سکتی ہیں،
جیسے وہ تحریریں، جہاں کوئی لکھنے والا
زبردستی کسی نظریے کو خواہ مخواہ ہر جگہ لانےکی کوشش کرتا ہے ور پھر اُس مکتبِ فکر
سے وابستہ لوگ بغیر سوچے سمجھے، اس لکھاری اور اس کی تحریر کو بے جا سراہتے
ہیں۔ یا وہ تحریریں جو شہرت اور دولت کا آسان رستہ
ہوں، جیسے مشاعروں کی شاعری یا ایجنڈا کے
تابع لکھا جانےوالا بیشتر معاصر پاکستانی انگریزی ادب وغیرہ۔
(یہ انٹرویو بلاگ کا حوالہ دیے بغیر یا عنبرین صلاح الدین سے اجازت لیے بغیر کہیں شائع نہ کیا جائے۔ایسا کرنے پر بلاگ پوسٹ کی جانب سے قانونی چارہ جوئی کا حق محفوظ ہے۔)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں