جمعرات، 1 جنوری، 2015

نئی دنیا اور اردو کی ترقی کے نئے وسائل


اردو زبان کے بارے میں جو یہ تصور ہے کہ اس میں اب کوئی کیریر بنانا آسان نہیں، اس کو پڑھ کر اسے سیکھ کر بچوں کا کوئی بہتر مستقبل نہیں بن سکتا ۔کیا کبھی ہم نے غور کیا ہے کہ اردو کی دنیا اتنی سمٹی سمٹائی ہوئی کیوں ہے۔آخر بغیر کسی سرکاری مدد کے ہم ہی لوگ مل کر کسی ایسے ادارے کی بنیاد کیوں نہیں رکھتے،جس میں چاہے شروعات میں دس لوگ محنت سے کام کریں، مگر پھر اسے دھیرے دھیرے دس سے بیس، بیس سے چالیس اور چالیس سے سو،دوسو،ہزار تک کے اسٹاف تک پہنچادیں۔جس میں کام کرنے والے ،جس کو آگے بڑھانے والے، جس کے لیے فکر کرنے والے زبان اور اس کی ترقی کے لیے کسی کے آگے کٹورا لے کر نہ کھڑے ہوں بلکہ اپنے بچوں کو خوشی سے یہ زبان سکھائیں،پڑھائیں تاکہ ان کے ذریعے اور بہت سے اہم ادارے قائم ہوسکیں۔اردو زبان صرف شعر و شاعری یا ادب سے مخصوص زبان نہیں ہے، اس میں تاریخ، مذاہب، جغرافیہ، طبیعات، فلکیات اور بہت سے علوم پر مبنی کتابیں لکھی جاچکی ہیں۔بس ضرورت ہے تو اس سرمائے سے فائدہ اٹھانے کی۔جدید دنیا میں ترجموں کے ذریعے ان تمام شعبوں کی کتابوں کو اردو کے ہر قاری تک پہنچانے کی، اردو زبان کو میڈیا سے جوڑنے ،اچھے تلفظ اور بہتر انداز والی اس زبان کے نئے نیوز اور انٹرٹینمنٹ چینلز کھولنے کی۔میں مانتا ہوں کہ یہ تمام باتیں بہت دور کی ہیں، ناممکن بھی معلوم ہوتی ہیں، اکثر میرے ذہن میں یہ بات آتی ہے کہ جب اچھی خاصی اردو بولنے اور سمجھنے والی تعداد ہندوستان میں موجود ہے تو پھر اچھے انٹرٹینمنٹ چینلز، بالی ووڈ فلمز ان سب سے اردو بالراست کیوں جڑی ہوئی ہے ، اسے براہ راست بھی تو جوڑا جاسکتا ہے۔اس کے لیے سب سے پہلے ضرورت ہے، اردو والوں کی ذہن سازی کی۔ان کو بتانا ہوگا کہ اردو کے نام پر سیمنار اور مشاعروں سے اردو کا کوئی بھلا نہیں ہونے والا، اردو کا بھلا اس دن ہوگا جب ڈسکوری، ہسٹری ، نیشنل جیوگرافک اور ایسے بہت سے دوسرے چینلز اس زبان میں ڈبنگ کروانا اس لیے شروع کریں گے کیونکہ اردو والے ان چینلز کو اردو میں سننا چاہتے ہونگے، یہ تعداد چاہے بہت بڑی نہ ہو ،مگر اس کو اپنے حقوق کا علم ہو، یہ سرکاری یا غیر سرکاری اداروں تک اپنی بات پہنچا سکیں۔اردو زبان کے ساتھ پہلی مشکل تو یہ ہے کہ اس سے محبت کے دعویدار بہت ہیں مگر کوئی اس کے لیے کچھ کرنا نہیں چاہتا، ہم کو لگتا ہے کہ ہم بہت مجبور ہیں، بے بس ہیں، ہم کیا کرسکتے ہیں۔کچھ نہیں کرسکتے تو کم از کم ایسی کسی مہم پر اظہار کرکے ،دو چار لوگوں کو اس کے بارے میں بتا کر اپنا فرض تو پورا کرسکتے ہیں،خاص طورپر ایسے لوگوں کو جو ہمیں لگتا ہے کہ کچھ کرسکتے ہیں،جن کے دل کو اگر یہ بات لگ جائے کہ زبان کے تعلق سے ایسے کام ہونے چاہیے جو اسے روزگار سے جوڑدیں،اور اس کا معیار دوسری بڑی زبانوں کی طرح بحال کرسکیں۔ورنہ مشاعرے تو سیاستدانوں کے چندوں پر اور سیمینار سرکاری گرانٹ کے بل بوتے پر ہوتے ہی رہتے ہیں۔ایک دفعہ کا واقعہ سنیے ، مزیدار ہے، ہمارے ایک رشتہ دار ہیں جن کا دہلی کی ایک بڑی یونیورسٹی میں اچھے خاصے عہدے پر تقرر پر ہوا۔انہوں نے خود مجھے بتایا کہ تمام تر ذمہ داریوں کے ساتھ ان کی ایک ذمہ داری یہ بھی تھی کہ جب ’منشی پریم چند‘ پرکوئی سیمینار ہوتو اسٹوڈنٹس کو اکھٹا کیا جائے، اب اسٹوڈنٹس کو منشی پریم چند سے کیا لینا دینا،سو وہ سموسوں اور چائے کافی کے عوض منت سماجت کرکے باہر کام کرنے والے چپراسیوں کو ہی اس میں اکھٹا کرلیتے تھے۔مجھے محسوس ہوا جیسے اتنی پڑھائی کے بعد، اتنی محنتوں کے بعد یہ شخص آخر کرکیا رہا ہے، خود کو بھی ذلیل کررہا ہے، زبان کو بھی اور منشی پریم چند کی مٹی پلید ہورہی ہے سو الگ۔تو اس طرح کے پروگرامز کی اگر دوسرے روز اخبار میں خبر شائع ہو بھی جائے تو کیا منظر نامہ بدل جائے گا، معاملات صحیح ہوجائیں گے۔ہرگز نہیں، منظرنامہ بدلے گا اس عزم سے کہ اب ہمیں کسی کی مدد کی ضرورت نہیں ہے، اور ایسے سیمناروں کی تو بالکل نہیں۔مشاعرے روکے نہیں جاسکتے، نہ ان کے گرتے ہوئے معیار کو بدلا جاسکتا ہے، جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ مشاعروں میں جب اچھے لوگوں کی شرکت ہوگی تو مشاعرے کا اسکرین کچھ صاف ہوگا، وہ یا تو بہت معصوم ہیں یا پھر منافق۔بھائی کوئی آدمی مشاعرے کو نہیں بدلتا، مشاعرہ آدمی کو بدلتا ہے۔اس کی گندگی، تعریف کا شوق اور خودستائی کا جنون انسان پر دھیرے دھیرے حاوی ہوتا ہے اور پھر تالیوں، نعروں، واہ واہ کی آوازیں اس میں شرکت کرنے والوں کے لیے افیون کا کام کرتی ہیں، یہ آدمی کو ایک جھوٹی نرگسیت کا شکار بنادیتی ہیں، اچھا چونکہ تعریف کرنے والی آوازیں صرف واہ واہ تک محدود ہیں، اس لیے ان کی ذہنی و علمی کارکردگی سے مشاعرہ پڑھنے والے کو کوئی سروکار کیوں ہوگا، وہ تو اس بات سے خوش ہوتا ہے کہ فلاں شعر پر مجمع گونج اٹھا، فلاں آدمی کو لوگوں نے خاموشی سے سن لیا، اور مجھے ہٹنے ہی نہیں دے رہے تھے، پھر یہ چیزیں ،یہ مائک سے نہ ہٹنے کا شوق لوگوں کو پینترے بدلنا، کرتب دکھانا سکھاتا ہے، جس میں سرکاری پالیسیوں پر انگلیاں اٹھانا، ہندو مسلم اتحاد کی کھوکھلی باتیں کرنا، سامنے بیٹھے ہوئے سامعین کے شہر کی فضاؤں کی بے وجہ تعریف کرنا، سامعین کو عقلمند، سمجھدار اور معیاری قرار دینا ،یہ اور ان جیسی کئی اوٹ پٹانگ باتیں اس میں شامل ہوتی رہتی ہیں۔مشاعروں کو روکا نہیں جاسکتا ، اس کی وجہ دوسری ہے، چھوٹے شہروں یا گاؤوں میں پنڈال لگا کر لوگوں کو جمع کرنے کا شوق کچھ سیاسی پارٹیوں کو ہوتا ہے، کچھ مذہبی یا مسلکی کمپنیوں کو،چنانچہ وہاں پوسٹر لگوادیے جاتے ہیں، چھوٹی جگہوں کے انٹرٹینمنٹ کا اچھا خاصا سامان ہوتا ہے اور بھیڑ کے سامنے سیاسی یا مذہبی برینڈ کی شہرت ایک رات میں اچھی طرح ممکن ہوجاتی ہے،بڑے شہروں اور اب کچھ چھوٹے شہروں میں مشاعرہ اب اچھی خاصی کمائی کا بھی ذریعہ بن گیا ہے۔کوئی بھی چھوٹی موٹی این جی او رجسٹرڈ کرائی،زبان کے نام پر تھوڑا شور مچایا اور آخر میں فنڈ اکھٹا کرکے ایک مشاعرہ کرادیا گیا۔مشاعرے میں کچھ مشہور شاعروں کو بلوا کر شعر پڑھوادیے، اور بھی اچھی کمائی کرنی ہوئی تو کوئی بڑی جگہ بک کرکے اس پر ٹکٹ یا پاس بھی رکھ دیا گیا۔ان سب چیزوں سے ایک خاص قسم کا نقصان ہورہا ہے، نقصان یہ کہ مشاعرہ ایک سماعی مشغلہ ہے، اس میں شرکت کرنے والوں کو اس سے غرض نہیں ہے کہ شعر پڑھنے والا شخص اردو زبان جانتا ہے بھی یا نہیں، ان کو تو شعر سننے ہیں، کبھی ماں پر، کبھی وطن پر ، کبھی مذہب پر تو کبھی فلانا ڈھمکا قسم کے موضوعات پر ، اب مشاعرے کا مزاج تقریباً ہر آدمی جانتا ہے ،وہ آدمی بھی جو اس میں چائے پانی سرو کرتا ہے۔اگر نقصان صرف شاعری کا ہوتا تو یہ کوئی اتنی بڑی بات نہیں تھی، مسئلہ یہ ہے کہ لوگ اس پلیٹ فارم سے نفرت کی بھی آگ بھڑکاتے ہیں، ایک خاص فرقے یا مذہب کی جھوٹی تعریف کے ساتھ اس کو اور مسالے دار بنانے کی کوشش کرتے ہیں، پھر زبان کا نقصان یہ ہے کہ تعلقات کی بنیاد پر مشاعرہ پڑھنے والے لوگ کبھی دیوناگری کبھی رومن میں لکھے ہوئے اشعار لے کر آجاتے ہیں اور اسے پڑھ کرہندی رسم الخط کو رواج دینے کی کوشش کرتے ہیں، میرے خیال سے مشاعرے میں اب ہندی رسم الخط میں پڑھنے والوں کی تعداد اب شاید اردو پڑھنے والوں سے زیادہ ہوچکی ہے، بہت سے ایسے اہم نام ہندوستان میں ہیں جن کا اگر میں یہاں نام لکھ دوں تو آپ سرپیٹ لیں کہ یہ لوگ بھی ہندی میں لکھے ہوئے شعر پڑھتے ہیں، اور عذر یہ بتایا جاتا ہے کہ اردو شاعری کرنی آتی ہے ،مگر اردو پڑھنا ابھی سیکھنے کے مراحل میں ہے۔ایسے افراد کی ٹی آرپی اور مشاعروں میں شہرت کا حال یہ ہے کہ وہ پاکستان تک جاکر مشاعروں میں شرکت کرلیتے ہیں۔ایک الگ مسئلہ یہ پیدا ہوا ہے کہ ہندی میں اردو شاعری پڑھنے اور لکھنے والی یہ نسل اب کھلے عام میر اور غالب کو ہندی کا شاعر کہنے یا سننے میں کوئی پریشانی محسوس نہیں کرتی، اسی کا اثر ہے کہ میرے ایک قریبی دوست کے مطابق ایک بھرے ہال میں ایک محترمہ فرمارہی تھیں کہ غالب ہندی کا شاعر ہے اور اس بات پر ایسی تالیاں بجیں کہ پورا ہال گونج اٹھا۔اس بات سے یہ نہ سمجھا جائے کہ میں ہندی کے حق میں تعصب سے کام لے رہا ہوں، مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے کہ کوئی ہندی گو ڈھنگ کا شاعر اردو کے مشاعرے میں آکر اپنی سنجیدہ نظمیں سنائے، مگر مسئلہ یہ ہے کہ اسے کوئی یہاں سنے گا نہیں، سنے گا اسے جو جاہلانہ قسم کے سستے موضوعات پر اپنی شاعری کو ٹکائے کھڑا ہے۔

یہ زبان کی ترقی نہیں، اس کا تنز ل ہے۔زبان ترقی کرتی ہے، اپنے پڑھنے والوں سے اور انسان کوئی بھی زبان پڑھتا تب ہے جب اسے وہ زبان ٹھیک سے آتی ہو، زبان ٹھیک سے آنے کے لیے دو قسم کے معاملات پر نظر ڈالنی ضروری ہے، سنجیدہ قسم کے لوگ یا نئے نسل کے بچے یہ زبان تب سیکھیں گے جب یا تو انہیں اس زبان کے ذریعے سنجیدہ ادب پڑھنے کو ملے،یا اس میں اچھی فلمیں، اچھے نیوز چینلز، اچھے غیر سرکاری اور اسٹیبلشڈ ادارے وغیرہ دیکھنے کو ملیں گے۔زبان کا ظاہر چمکانے کے لیے اس کے اندرونی مسائل پر غور کرنا زیادہ ضرور ی ہے۔یہ مسئلہ صرف اخبار یا کتابوں کی خرید و فروخت سے حل نہیں ہوگا، بلکہ اس کے لیے ایک عہد کو یہ یقین دلانا پڑے گا کہ آئندہ نسلوں کے لیے اردو زبان پڑھنا ، لکھنا کوئی خسارے کا سودا نہیں ہے۔اور ایسا کرنے کے لیے زبان میں لکھے گئے اچھے ادب کو انگریزی میں ترجمہ کرانے والے ادارے موجود ہونا چاہیے، جن کے ذریعے انگریزی میں پڑھنے والی دنیا کی ایک بڑی تعداد کو اس زبان کے ادب کی جانب منعطف کیا جاسکے، پھر دوسری بات یہ ہے کہ اردو والوں کو مل کر ہر بڑے چینل سے یہ مانگ کرنی شروع کردینی چاہیے کہ ہم فلاں انگریزی چینل ہندی میں نہیں بلکہ اردو میں دیکھنا چاہتے ہیں، اگر ایک منصوبہ بند طریقے سے کسی چینل کو پانچ دس ہزار میل پہنچ جائیں، ایک یا دو ہزار کالز ریسیو ہوجائیں تو وہ اس جانب ضرور دھیان دینا شروع کریں گے، ہندوستان کے بڑے بزنس گروپس کی جانب اس طرف دھیان دلوایا جاسکتا ہے کہ اردو والوں کو ایک بڑے انٹرٹینمنٹ چینل یا نیوز چینل کی ضرورت ہے، وہ اردو ٹی وی چینل دیکھنا، اردو ریڈیو چینل سننا چاہتے ہیں۔اس طرح کے چھوٹے موٹے قسم کے اداروں کی شروعات خود اردو والے کرسکتے ہیں، مغربی ملکوں میں آباد اردو پڑھنے اور لکھنے والا طبقہ اگر تھوڑا سا دھیان دے تو ہندوپاک دونوں جگہوں پر ایسے مسائل کو حل کیا جاسکتا ہے۔اردو کی ترقی یونیورسٹیوں میں تقرری کے لیے کی جانے والی پڑھائی سے نہیں ہوگی، لمبے بالوں والے شاعروں جیسی بھگل بنا کر گھومنے سے نہیں ہوگی، پنڈال لگاکر، اسٹیج بک کرکے مشاعرے کروانے سے نہیں ہوگی، اردو کو عام لوگوں سے جوڑنے، عام لوگوں میں اس کے حسن کا جادو بکھیرنے سے ہوگی، اردو والے جس رنگ، روپ،تہذیب، علاقے یا مذہب سے تعلق رکھتے ہوں، انہیں اس معاملے میں اتحاد سے کام لینا ہوگا۔ان بنیادی منصوبوں پر کام کرنا ہم نے شروع کردیا ہے،دیکھتے ہیں کتنے افراد ساتھ دیتے ہیں۔ورنہ اس زبان میں صرف کچھ ننگے بھوکے شاعرصاحب ، کچھ خستہ حال ادیب اور چند سکوں کے عوض غلط سلط اردو لکھنے والے صحافی ہی باقی رہ جائیں گے،اور وہ بھی بہت کم ۔اس صورت حال کے پیدا ہونے کے آثار شروع ہوگئے ہیں۔کیونکہ صحافت کا بیڑہ زبان نہ جاننے والوں نے غرق کررکھا ہے۔ادب کی ناؤ رسالوں اور اخباروں میں شائع ہونے والی تخلیقات نے ڈبونے پر کمر باندھ لی ہے اور زبان کا ستیہ ناس مشاعروں نے پیٹنا بہت شوق سے شروع کردیا ہے۔
 
انٹرنیٹ زبان کے فروغ میں ایک اہم کردار ادا کرنے والا بڑا ذریعہ ہے ،ا ب جو ادارے اس حوالے کام کررہے ہیں اور خود کو اردو کا خدمت گار کہتے ہیں ان سے یہ سوال پوچھنا چاہیے کہ آخر یونی کوڈ میں وہ لٹریچر فراہم کرانے میں کسی طرح کا عار کیوں ہے ، جس پر کسی قسم کا کاپی رائٹ نہیں ہے ،خیر ہر ادارے کی اپنی ترجیحات ہوتی ہیں، اس لیے ولی دکنی سے لے کر فیض احمد فیض تک اور اقبال سے لر کر راشد تک تمام اہم شاعروں کا کلام ٹائپ کرواکر یونی کوڈ میں بہم کروانے کا سلسلہ ہم نے شروع کردیا ہے۔اس منصوبے کے تحت تمام کلاسیکل شعرا پر باری باری کام کروایا جائے گا، مگر جو لٹریچراردو وزبان وادب کا ہندوستان کی تمام یونیورسٹیوں میں شامل ہے، اسے یونی کوڈ میں بہم کروانے کی کوشش کو سرفہرست رکھا جائے گا۔ساتھ ہی ساتھ ہندوستان، پاکستان کے علاوہ مغربی ممالک میں آباد ادیبوں سے بات چیت کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے تاکہ دونوں طرف کے ادیب ایک دوسرے کی فکر، ایک دوسرے کے انداز نظر اور ادب کو بھی خاص طور پر سمجھنے کی کوشش کرسکیں۔اسی طرح ایسے ناول، افسانے جو کاپی رائٹ کے زمرے میں شامل نہیں ہیں، ان کی ان پیج یاورڈ فائل آسانی سے دستیاب کرانے کی کوشش کی جائے گی۔ساتھ ہی ساتھ دنیا بھر میں موجود تمام اہم معاصر ادیبوں کی کتابوں اور رسائل کو ان کی مرضی سے مفت یا پھر بہت ہی کم خرچ پر دستیاب کرانے کاسلسلہ بھی شروع ہوجائے گا۔یہ تمام چیزیں فی الحال www.tasneefhaidar.blogspot.inپر دستیاب ہونے والی ہیں ، مگر اس بلاگ کو تقریباً چھ مہینے کے عرصے میں جب اس پر اچھا خاصا ادبی مواد جمع ہوجائے گا تو ویب سائٹ میں کنورٹ کردیا جائے گا۔اسی کے ساتھ ادیبوں ، شاعروں کا کلام آڈیوبکس کی شکل میں بھی جلد سے جلد فراہم کیا جائے گا، ان تمام فائلز کو ایم پی تھری کی صورت میں بہت آسانی سے ویب سائٹ سے ڈاؤنلوڈ کیا جاسکتا ہوگا۔دنیا میں لٹریچر کو عام کرنا اب کوئی بہت بڑا مسئلہ نہیں رہا ہے۔اردو والے اگر تہیہ کرلیں کہ انہیں اپنی زبان کو نہ صرف صحت مند رکھنا ہے بلکہ اسے مسلسل ترقی کے راستوں پر لے جانا ہے تو اس کے لیے انہیں ایسے کاموں میں دلچسپی دکھانی ہوگی اور لوگوں تک ایسے منصوبوں کو پہنچانا اور انہیں کارآمد بنانے میں ہر ممکن تعاون کا یقین دلانا ہوگا۔اس طرح یہ ویب سائٹ کچھ لوگوں کی انفرادی کوششوں سے پوری دنیا کی یونیورسٹیوں کے ساتھ ساتھ عام اردو پڑھنے والے کے گھر تک آن لائن اور آف لائن دونوں صورتوں میں ادب کو پہنچانے کا کام آسان کردے گی۔جس سے معیاربھی بحال ہوگا، زبان بھی ترقی کرے گی۔اسی طرح اس ویب سائٹ پر مشہور ادیبوں کی کہانیوں،نظموں پر بنائی جانے والی شارٹ فلمز، گھریلواور سماجی سیریلز کا بھی آغاز کردیا جائے گا، جسے فی الحال یوٹیوب اور ڈیلی موشن جیسے چینلز پر شروع کیاجائے گا۔
۰۰۰

مضمون نگار:تصنیف حیدر
موبائل:00919540391666

1 تبصرہ:

RAZA SIDDIQI کہا...

یہ درست ہے کہ سمینار اور مشاعرے کسی بھی زبان کی ترویج ع تری میں وئی کردار ادا نہیں کرتے۔یہ آمدن نشتن والی بات ہوتی ہےلیکن یہ کہنا درست نہیں ہے کہ اردو زبان کی ترویج کے لئے کام نہیں ہو رہا۔دنیا کے ہر شہر میں بسنے والے برصغیر کے افرادبولی تو اپنے خطے کی ہی بولتے ہیں ہیں لکھتے اردو یا ہندی میں ہیں۔اب مسئلہ یہ ہے کہ ہندی کا رسم الخط اور بعض الفاظ کی ادائیگی اردو بولنے والوں سے مختلف ہے۔اس وقت ضرورت اس امر کی ہےکہ ہم اردو کی ادائیگی کو بہتر بنانے کی کوشش کریں۔مسٗلہ یہ بھی ہے کہ آج کے میڈیا نے ادیب کو کمرشلائز کر دیا ہے۔میں نے ادبستان بلاگ اور ادبستان ٹی وی کا آغاز کیا لیکن ادیب تعاون کرنے کو تیار نہیں ہیں۔
تصنیف تم اچھا کام کر رہے ہو کرتے رہو بغیر صلہ کی پروا کئے ہوئے۔اللہ تمہیں ہمت عطا کرے۔ایک اور آخری بات،گروہ بندی اور کسی کے اثرات کبھی قبول نا کرنا

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *