محمد
یامین ایک باصلاحیت اور اہم نظم نگار ہیں۔ان کی نظم میں نے پہلی بار حاشیہ پر پڑھی
تھی، اس کے بعد ان کی کتاب 'دھوپ کا لباس'پڑھنے کاموقع ملا-مجھے ان کی نظمیں پسند
ہیں، نظریاتی طور پر اتفاق و اختلاف اپنی جگہ مگر فنی اعتبار سے ان کی نظمیں بے حد
پختہ ہیں۔نئی نظم کےحوالے سے محمد یامین کا نام اب ایک معتبر حوالہ ہے۔اس مکالمے
میں انہوں نے نثری نظم ، آزاد نظم، غزل، تشبیہ، علامت ،استعارے اور دوسرے بہت سے
اہم موضوعات پر گفتگو کی ہے۔امید ہے کہ یہ دس سوال و جواب آپ کو ضرور پسند آئیں
گے۔
بلاگ
کے حوالے سے ایک اہم بات اور عرض کردوں کہ براہ راست کسی تحریر/انٹرویوکا لنک دینے
سے کچھ لوگوں کو بلاگ وزٹ کرنے میں فیس بک کے ذریعے پریشانی ہورہی ہے۔چنانچہ یہاں
بلاگ کا لنک دیا جارہا ہے۔وہاں جاکر آپ اس پوسٹ پر کلک کرکے اسے بہ آسانی پڑھ سکتے
ہیں۔پھر بھی کوئی پریشانی ہو تو مجھے بتائیں۔شکریہ!
تصنیف
حیدر: آپ کی نظموں میں آزادی اور اس سے منسوب سیاست کا پس منظر زیادہ نمایاں ہے ؟
اس کی کوئی خاص وجہ؟
محمد
یامین:آزادی انسان کا ایک بنیادی حق ہے۔ آزادی کے استعاروں کا میری شاعری میں آنا
اسی سبب سے ہے۔ اپنے فنکارانہ مشاہدے کی بنا پرایک شاعر یا ادیب انسانی زندگی کی
کسی بھی صورت حال کو دکھا سکتا ہے۔ اپنے فن کے اظہار کے لیے نہ اس پر کوئی جبر
نافذ ہو سکتا ہے اور نہ وہ کسی جبر کی حمایت کرتا ہے۔ میری بعض نظموں میں آزادی
اور اس سے منسوب سیاست کا پس منظر نمایاں ہونےکی وجہ یہ ہے کہ ہر کشمیری کی طرح
میں بھی اپنے وطن پر جبری قبضے اور اپنی زمین کے سینے پر لکیر کھینچنے والوں کے
خلاف ہوں ۔ جو بھی اس کا ذمہ دار ہے اس کی مذمت کرتا ہوں لیکن نعرے بازی اور براہ
راست اظہار سے بلند خالص شاعرانہ سطح پر ہی اس کا اظہار ہوتا ہے۔ آزادی کے استعارے
کو کشمیرکی آزادی ہی نہیں دنیا بھر میں انسانی آزادی کے لیے کی جانے والی جدوجہد
کی حمایت میں خلق کرتا ہوں لیکن ایسی نظموں میں اگر کشمیر کا لوکیل نظر آتا ہے تو
اس لیے کہ کشمیر میرے لہو میں ہے۔
تصنیف
حیدر: اچھی نظموں کے باوجود ناقدین کا ریلہ آپ کے تخلیقی میدان سے ہو کر نہیں
گزرا؟ کیا اس کا تھوڑا بہت افسوس ہے؟
محمد
یامین:تھوڑا بہت افسوس توانسان کو رہتا ہی ہے، لیکن میں ابھی تک شہرت اور تسلیم
کیے جانے کی خواہش کا غلام نہیں بنا ۔ویسے
یہ خواہش تو ہر فن کار کے دل میں ہوتی ہے لیکن اسے بیماری کی طرح دل و جاں کا مرکز
بنا لینے سے انسان اس کا غلام بن جاتا ہے۔ ناقدین کا کوئی قصور نہیں میں خود ان تک نہیں جا
سکا۔ انھیں کب اتنی فرصت یا ضرورت ہے کہ وہ میری شاعری سے گزرنے کی تکلیف کریں۔ دوسری
بات یہ ہے کہ ابھی تک توجدید اردو نظم کو کوئی ڈھنگ کا نقاد نہیں مل سکا۔ میراجی
ہوں یا راشد اور مجید امجد کسی پر بھی معیاری تنقید میسر نہیں ۔ میں کیا شکوہ لے
کر بیٹھ جاؤں۔ اب لگتا ہے کہ جدید نظم کو سمجھنے کی کوشش کا آغاز ہورہا ہے۔ اس
سلسلے میں ڈاکٹر ناصر عباس نیر ایک توانا نام ہے۔
تصنیف
حیدر: آپ نے نثری نظم پر آزاد نظم کو ترجیح دی ہے۔ کیا واقعی ایسا ہے؟ کیوں؟
محمدامین:اگر
صاف صاف پوچھو تو یہی کہوں گا کہ ابھی اس نظم کا وقت نہیں ہے جسے آپ (لوگ) نثری
نظم کہتے ہیں۔ابھی ہم نظم کے "آزاد"
دور میں جی رہے ہیں۔ پھر بھی میں نثری اور غیر نثری کی تقسیم کو پسند نہیں
کرتا۔اسی لیے میں نے اپنی کتاب "دھوپ کا لباس" میں شامل " نثری"
نظموں کے لیے کوئی فُٹ نوٹ نہیں لکھا۔ میں سمجھتا ہوں ابھی نظم نے بہت بڑے بڑے
فیصلے کرنے ہیں کیوں کہ اس کا سفر موزونیت کے ایک نئے امکان کی طرف جاری ہے ۔جدید نظم نے کچھ پابندیاں توڑ
دی ہیں اور کچھ ابھی ٹوٹنی باقی ہیں۔ مستقبل کی نظم صرف نظم ہو گی اوراس وقت تک آزاد
اور نثری کا جھگڑا ختم ہو چکا ہو گا۔
تصنیف
حیدر: شاعر و ادیب کو اس کا ماحول بڑا یا چھوٹا بناتا ہے، کیا آپ اس بات سے اتفاق
رکھتے ہیں؟
محمدیامین:اگر
اندر آگ نہ ہو تو( صرف) باہر سے اسے جلایا نہیں جا سکتا۔ شاعروں ادیبوں پرماحول کے
اثرات بھی پڑتے ہیں لیکن اصل چیز تخلیقی جوہر
ہے۔ اگر آپ کے پاس تخلیق کی آگ ہے تو ماحول کے مختلف عناصرسے اس کی تپش میں اضافہ
ضرور ہو تا ہے۔ لیکن صرف ماحول سے یہ آگ جل نہیں سکتی۔ میں سمجھتا ہوں ادیبوں اور
شاعروں کو تخلیقی جوہر کے بعد کسی اور چیز کی اتنی ضرورت نہیں رہتی۔
تصنیف
حیدر: علامت، تشبیہ یا استعارے کے بغیر کیا بڑی تخلیقات کا وجود میں آنا ممکن ہے؟
کیسے؟
محمدیامین:زبان
اپنی تمام ترابلاغی صلاحیت، ناگزیر افادیت اور ہمہ گیرقوتِ عمل کے باوجود ایک
کمزور اور محدود چیز ہے جب کہ ہمارے خیالات و احساسات کی دنیا بہت وسیع ہوتی ہے، زبان اس کا احاطہ نہیں کر سکتی۔ شاعری
میں ہم زبان کو اس درجہ وسعت عطا کرتے ہیں کہ وہ ہمارے احساسات کی ترجمانی کرنے کے
قابل ہو سکے۔ اسی لیے شاعری کی زبان فگریٹو ہوتی ہے ۔ اچھی شاعری میں معنی کی
تکثیریت پہلا وصف ہے جو تشبیہ، استعارہ ،
علامت اور سمبل کے بغیر وجود میں نہیں آ سکتا۔ تشبیہ اور استعارہ تو ہماری روزمرہ
بول چال میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ علامت اور سمبل کی تخلیق نثری ادب اور شاعری کے
درجات میں اضافہ کرتی ہے، لیکن اردو شاعری میں علامت کم کم ہی نظر آتی ہے جب کہ
سمبل کا ملنا اور بھی مشکل ہے۔ البتہ جدید اردو نظم میں علامت اور سمبل کی تخلیق
نظر آتی ہے ۔ راشد ، میرا جی اور مجید امجد کے بعد اس پر سب سے زیادہ کام علی محمد
فرشی کا ہے۔ فرشی کی نظم میں امیج سے استعارے اور استعارے سے علامت کا ظہور ہوتا
دکھائی دیتا ہے۔ جس طرح استعارے کو تشبیہ پر اور علامت کو استعارے پر فوقیت ہے اسی
طرح سمبل بھی علامت پر فوقیت رکھتا ہے۔ میرے خیال میں بڑی تخلیقات ان تخلیقی عناصر
کے بغیر وجود میں نہیں آ سکتیں۔
تصنیف
حیدر: غزل کے تعلق سے آپ کے تلخ و شیریں
تجربات کیا ہیں؟
محمدیامین:
مجھے غزل سے کوئی خاص شغف نہیں ہے۔ میں نے شاعری کا آغاز ہی نظم سے کیا تھا اور
یہی صنف مجھے عزیز ہے لیکن میں غزل کا مخالف نہیں ہوں۔ جس طرح پابند نظم کی انتہا
اقبال کے ہاں ملتی ہے اسی طرح غزل کی انتہائی بلندی ہمیں غالب کے ہاں نظر آتی ہے۔
مجھے نظم کے شاعروں کی یہ بات اچھی لگی کہ انھوں نے اقبال کے بعد پابند نظم کی بہ
جائے آزاد نظم کی راہ تلاش کر کے اپنی تخلیقی بے داری کا ثبوت دیا ۔ لیکن غالب کے
بعد غزل کے شاہسواروں کو نئے آفاق کی تلاش
میں کبھی سرگرداں نہیں دیکھا گیا۔ ذاتی طور پر میں کئی غزل لکھنے والے شاعروں کی
تخلیقات کے ساتھ وقت گزارتا ہوں جن میں سے میں اپنے دوست زکریا شاذ کو کچھ زیادہ ہی پسند کرتا
ہوں ۔ میں چاہتا ہوں کہ ہمارے تہذیبی وجود کا یہ حصہ زندہ و تابندہ رہے لیکن مجھے
ڈر ہے کہ آنے والا زمانہ خاموشی سے کوئی اور ہی اعلان نہ کر دے۔
تصنیف
حیدر: پاکستان میں آزاد نظم کا مستقبل زیادہ روشن ہے یا نثری نظم کا؟ کیوں؟
محمد
یامین: پاکستان میں (صرف) نظم کا مستقبل
زیادہ روشن ہے۔ آزاد اور نثری کی تقسیم پر میرے خیالات آپ پڑھ چکے ہیں۔ موزونیت کے
امکانی خطے پر نظم کی حکم رانی کوئی انہونی بات نہیں ہو گی ۔ جدید نظم کا عروضی
نظام سے انحراف اس خیال کو تقویت دیتا ہے اور ایسی نظموں کی مثالیں جدید نظم
نگاروں کے ہاں آسانی سے تلاش کی جا سکتی ہیں۔
تصنیف
حیدر: راشد، مجید امجد اور میراجی میں سب سے بہتر نظم نگار آپ کو کون لگتا ہے؟
کیوں؟
محمد
یامین:یہ تینوں بڑے ہیں اور ان میں سے کوئی بھی عظمت کے چبوترے پر کھڑا ہو سکتا ہے
۔ جس کی شاعری میں تازہ اسلوب، بے ساختگی، سادہ پن، اورغیر متعصب فکری رویہ ہو گا وہی
ان میں سے بہتر نظم نگار ہے۔ راشد بہت جدید ہیں لیکن ان کی زبان پرانی ہے ، جو
پابند ہیئت کے لیے تو موزوں تھی ، آزاد ہیئت کے لیے نہیں ۔ تقاضا یہ تھا کہ ہیئت
کی تبدیلی زبان کی تبدیلی کے ساتھ آتی۔ میراجی اور مجید امجد اس اعتبار سے راشد سے
آگے ہیں ۔ بل کہ فکری اعتبار سے بھی ، کیوں کہ راشد کے ہاں صنفی تعصب کا اظہار ان
کی شاعری پر داغ کی صورت میں موجود ہے۔ میرا جی اور مجید امجد کے پاس بڑی نظموں کی
تعداد زیادہ ہے۔ اس کے با وجود راشد کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا، ان کو جدید نظم
کے اہم ترین شاعر کے طور پرہمیشہ تسلیم کیا جاتا رہے گا۔
تصنیف
حیدر: لاہور، کراچی اسلام آباد وغیرہ کے ادیب چھوٹے شہروں کے ادیبوں پر ہمیشہ حاوی
رہتے ہیں۔ کیا یہ بات درست ہے؟
محمدیامین:
شاید یہ سماجی اور نفسیاتی مسئلہ ہے۔ چھوٹے شہروں کے ادیبوں کی رسائی میڈیا، اور
ادبی مراکز تک اتنی زیادہ نہیں ہو سکتی
جتنی بڑے شہروں میں ہوتی ہے۔ شاید اس لیے وہ احساسِ محرومی کا شکار رہتے ہیں۔ جہاں
تک تخلیقی کارکردگی کا تعلق ہے چھوٹے بڑے شہر کی کوئی تخصیص نہیں ہے۔ یہ ضرور ہے
کہ بڑے شہروں کے غزل گو شعرا اَن چھوئے قافیوں اور نئی زمینوں کی تلاش میں مضافات
کے چھوٹے شہروں کا رخ کرتے رہتے ہیں ۔ چھوٹے شہروں کے ادیبوں پر حاوی رہنے کی (خاص
طور پر) اسلام آباد میں کوئی فضا نہیں ہے ، البتہ ادیبوں کے مختلف گروپ ایک دوسرے
پر حاوی ہونے کی کوششیں کرتے رہتے ہیں۔
تصنیف
حیدر: پاکستان میں پنجابی زبان کے زبردست اثر کی وجہ سے تلفظات خراب ہوئے ہیں اور
زبان کی شیرینی متاثر ہوئی ہے۔کیا آپ اس سے اتفاق کرتے ہیں؟
محمد
یامین:تلفظ خراب ضرور ہوئے ہیں لیکن اس کی وجہ صرف پنجابی زبان نہیں ۔ پنجابیوں نے
تو اردو کی بڑی خدمت کی ہے۔ لہجوں میں مقامی (قومی) زبانیں مٹھاس بھرتی ہیں۔ تلفظ
اور املا میں خرابی کی وجہ تعلیمی اداروں خاص کر کالجوں ، یونیورسٹیوں میں اردو کی
غیر معیاری تدریس، الیکٹرانک میڈیا میں زبان کا غیر ذمہ دارانہ استعمال اور حکم رانوں کی غفلت ہے۔ اردو کو
جتنے بھی خطرات درپیش ہیں وہ فرقہ پرست اور بالا دست طاقتوں کی وجہ سے ہیں۔آپ کے
ہاں (بھارت میں) بھی اور پاکستان میں بھی۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں