جمعرات، 8 جنوری، 2015

یاسر جواد سے دس سوالات

یاسرجواد بطور ترجمہ نگار ایک مشہور نام ہے۔ انہوں نے بہت اہم کتابوں کو اردو زبان میں قارئین تک پہنچایا ہے، جن میں سائمن دی بووا کی 'سیکنڈ سیکس'کا مکمل ترجمہ، کافکاکا 'دی ٹرائل'، اوباما کی آپ بیتی اور بہت سی دیگر اہم کتابیں شامل ہیں۔جن میں مذہبی، سماجی، سیاسی اور فلسفیانہ نوعیت کی کتابیں بہت اہمیت کی حامل ہیں۔ترجمے کی روایت پر اردو ووالوں کو اس وقت بہت زیادہ زور دینے کی ضرورت ہے، کیونکہ یہی ایک ایسا کام ہے، جس میں 'ادبی خدمت'کا پہلو کم ہے، یہ ایک منافع بخش کام بھی ہوسکتا ہے، بس ضرورت ہے تو اس کو باقاعدگی سے جاری رکھنے کی۔اس مکالمے میں آپ یاسر جواد کی باتوں سے ترجمے کی اہمیت، اس کی ضرورت اور اس کے بہت سے اہم پہلوئوں کا اندازہ لگا سکیں گے۔امید ہے کہ یہ مکالمہ بھی آپ کو ضرور پسند آئے گا۔

تصنیف حیدر:
اردو میں کسی دارالترجمہ کی بنیاد رکھنے پر آپ زور دیں گے یا نہیں، جس میں دنیا کے بہترین ترجمہ نگاروں سے دنیا کی باقی زبانوں سے اردو اور اردو سے انگریزی تراجم کرائے جائیں؟

یاسر جواد:
آج علم کی زبانیں انگلش، جرمن اور فرانسیسی وغیرہ ہیں۔ اگر ان میں اردو کی تخلیقات کے تراجم ہوتے ہیں اور وہ انہیں بولنے والے ان تراجم کو پڑھتے ہیں تو پھر اردو کو تراجم کی ضرورت کیوں نہ ہو گی؟ کہ اس کے دامن میں تو سوائے مذہبی اور شاعرانہ تحریروں کےبمشکل ہی کچھ قابل قدر موجود ہو گا۔ اگر آپ کے سوال کا مقصد ’’سرکاری سطح پر‘‘ دارلترجمہ کی ضرورت پر بات کرنا ہے تو کیوں نہیں؟ مگر پاکستان میں تو اس کا امکان فی الحال نظر نہیں آتا۔ افتخار عارف صاحب نے مقتدرہ کی صدر نشینی کےآخری دور میں اس کا منصوبہ بنایا تھا، مگر حکومتوں کی تبدیلی کے نتیجے میں یہ منصوبہ بھی ان کی ملازمت کے ساتھ ہی زائل ہو گیا۔ بعد ازاں ڈاکٹر انوار احمد صاحب نے بہت محنت کر کے ادارے کو کوئی کام کرنے کی رہی سہی قوت سے بھی محروم کر دیا۔ اس وقت تین چار مرکزی ادبی ادارے اکادمی ادبیات، نیشنل بک فاؤنڈیشن، مقتدرہ قومی زبان (ادارۂ فروغ اردو) اور اردو سائنس بورڈ انتہائی مخدوش حالت میں ہیں۔ ایسے میں دارالترجمہ جیسے غیر ضروری کام کی فکر کون کرے! 1980ء کی دہائی کے اواخر اور 1990ء کی دہائی کے اوائل میں کمپیوٹر کی بدولت کتابوں کی اشاعت نسبتاً آسان اور تیز ہوئی تو ایک قسم کا انقلاب آیا تراجم کے حوالے سے۔اس سرگرمی کا گڑھ لاہور تھا (اور آج بھی ہے) ۔ اس وقت مختلف پبلشنگ ہاؤس غیر سرکاری دارالترجمہ کی حیثیت رکھتے تھے اور ان کے درمیان ایک طرح کی جنگ چل رہی تھی کہ کون کس اہم مصنف کی کتاب پہلے ترجمہ کرواتا ہے۔ ایلون ٹوفلر، چومسکی، کارل ساگاں، کیرن آرم سٹرانگ، اسٹینلے والپرٹ، ول ڈیورانٹ، ڈارون وغیرہ کی بہت سی کتب انہی برسوں میں ترجمہ ہوئیں، نیز بہت سی کتب کی مکرر اشاعت بھی ہوئی جو روس یا ہندوستان سے چھپی تھیں، مثلاً گورکی اور دستوئیفسکی اور ٹالسٹائی کی تخلیقات، گاندھی اور ہٹلر، کارل مارکس اور برٹرینڈ رسل وغیرہ کی تحریریں۔ بنیادی طور پر ان ’’مفت‘‘ دستیاب ہونے والے تراجم نے ہی کئی پبلشنگ ہاؤسز کا سنگ بنیاد فراہم کیا۔ اب اوپر مذکور تین چار اداروں کے علاوہ مجلس ترقی ادب اور ادارۂ ثقافت اسلامیہ محض خانہ پری ہیں۔ گو ماضی میں انہوں نے عہد ساز کتب کے تراجم کروائے، مگر اب ان اداروں کا کوئی مصرف نہیں رہا۔ دارالترجمہ جیسا ’’احمقانہ‘‘ کام وہ نہیں کر سکتے۔

تصنیف حیدر:
فلسفے کا ترجمہ زیادہ مشکل ہے یا شاعری کا؟کیوں؟

یاسر جواد:
ترجمہ ایک محنت طلب کام ہے۔ اور اس کے لیے اولین ضروری چیز ٹک کر بیٹھنا اور توجہ کو مرکوز کرنا ہے۔ اس میں فلسفے یا شاعری کے ترجمے کے مشکل پن کا موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ بس شاعری کا ترجمہ کرنے کے لیے مترجم کا شاعر ہونا اہمیت رکھتا ہے۔ لیکن عموماً ہمارے اردو شعراء ترجمہ کرنے کی لیاقت کم ہی رکھتے ہیں۔ شاعری کا ترجمہ بہت کم ہونے کی وجہ اس کی کمرشل مانگ نہ ہونا ہے۔ فلسفیانہ موضوعات پر ترجمے کی روایت بہرحال اردو میں نسبتاً زیادہ مستحکم ہے کیونکہ عربی اور فارسی سے الفاظ بہ آسانی مل جاتے ہیں۔

تصنیف حیدر:
ہمارے یہاں اصطلاحوں کی تعیین کا مسئلہ جوں کا توں قائم ہے، ہر ترجمہ نگار دوسری زبانوں کی اصطلاحوں کو اپنے حساب سے ترجمہ کرتا ہے، کیا اس مسئلے کا کوئی حل نہیں؟

یاسر جواد:
فلسفیانہ اصطلاحات کا تعین کثرت استعمال کی وجہ سے ہوتا ہے، کوئی ادارہ بنانے سے نہیں۔ اردو میں آئیڈیلزم کے لیے مثالیت پسندی اور عینیت پسندی دونوں رائج ہیں، بلکہ کچھ کے خیال میں تو پسندی کا لاحقہ بھی جوڑنے کی ضرورت نہیں۔ میرے خیال میں یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں۔

تصنیف حیدر:
پاکستان میں اردو کے بڑے علمی اداروں کا ترجمہ نگاروں کے تعلق سے کیا رول رہا ہے؟

یاسر جواد:
پاکستان میں اس وقت کوئی بڑا علمی ادارہ موجود نہیں۔ ماضی میں، کوئی پندرہ بیس سال پہلے افتخار عارف نے دنیا کی سو عظیم کتب کے تراجم شروع کروائے، کچھ سائنسی کتب بھی منتخب کیں، اسی طرح اردو سائنس بورڈ اور نیشنل بک فاؤنڈیشن نے بھی کام کیا۔ لیکن انہوں نے جن مترجمین سے کام لیا وہ ان کے اپنے دریافت کردہ نہیں تھے۔اس وقت ان اداروں کے سربراہان خالص بیوروکریٹ ہیں۔ انہیں اس سلسلے میں کیا دلچسپی ہو سکتی ہے؟ اور ہو بھی کیوں؟ ان اداروں کی دلچسپی کا محور اسلام اور نظریہ پاکستان اور اردو ہی ہیں۔ اب انگلش میں کچھ ایسا ’’قابل قبول‘‘ مواد تو موجود نہیں کہ جس کا ترجمہ کروانا ضروری ٹھہرے۔ایان ٹالبوٹ اگر جناح پر اپنی کتاب میں ان کے پورک والے سینڈوچ کھانے کا ذکر کر دے گا تو کونسا سرکاری ادارہ اس کا ترجمہ کروانے کا ’’خطرہ‘‘ مول لے گا۔جب آپ بحیثیت قوم ایک دائرے میں لڑھکتے رہنے کا عہد کر چکے ہوں تو پھر اقبالیات اور تحریک پاکستان پر ’’تحقیق‘‘ کے سوا باقی کیا رہ جاتا ہے۔ ان اداروں کی دلچسپی اور رجحان کا اندازہ ایک واقعہ سے کیا جا سکتا ہے۔ مجلس ترقی ادب اور نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے دفاتر ساتھ ساتھ واقع ہیں۔ کچھ سال قبل نظریۂ پاکستان والوں نے راتوں رات کارروائی کر کے مجلس ترقی ادب کا کچھ حصہ ہتھیا لیا اور وہاں مسجد بنا دی۔ ان دنوں شہزاد احمد مرحوم مجلس کے صدر تھے۔ بعد میں یہ تنازع چلتا رہا، اور شاید ابھی تک چل رہا ہے۔

تصنیف حیدر:
وہ کون سی کتاب ہے، جس کا ترجمہ کرتے وقت آپ کو سب سے زیادہ دقت کا سامنا کرنا پڑا؟کیوں؟

یاسر جواد:
میری زندگی کا پہلا انگلش سے اردو ترجمہ فرانز کافکا کا ’’دی ٹرائل‘‘ تھا۔ (اس سے قبل صرف موپساں کی کچھ کہانیاں ترجمہ کی تھیں)۔ مگر سیمون دی بووا کی ’’دی سیکنڈ سیکس‘‘ ترجمہ کرنا کافی محنت طلب کام تھا کیونکہ اس میں حیاتیات، نفسیات، فلسفہ اور ادبی تنقید سبھی کچھ ہے۔

تصنیف حیدر:
کیا کسی آن لائن ترجمہ کرنے والی ویب سائٹ کے ذریعے اردو والوں کو بہترین ترجمے فراہم کرانا ایک منافع بخش کام ہوسکتا ہے؟

یاسر جواد:
یہ محض خیال خام ہے۔ ویب سائیٹ یا کمپیوٹر شاید یہ کام تب ہی کر سکے گا جب وہ ناول یا کہانی لکھنے کے قابل بھی ہو جائے گا۔ شاید ایسا ہو جائے، فی الحال تو مجھے اس کا امکان نظر نہیں آتا۔ جملہ تخلیق کرتے وقت آپ خیال کو سوچتے ہیں تو ترجمہ کرتے وقت بھی ایسا ہی کرتے ہیں۔ یہ ہر گز اتنا مکینکل کام نہیں جتنا کچھ لوگ اور شاید آپ بھی اسے سمجھے بیٹھے ہیں۔ مثلاً احکامات عشرہ میں سے ایک کا انگلش ترجمہ ’’Thou Shall Not Kill‘‘ کیا گیا۔ اصل عبرانی لفظ کا ترجمہ Kill کی بجائے Murder بنتا ہے۔ (حالانکہ یہ ترجمہ کمپیوٹر نے نہیں کیا تھا، مگر اس نے سارا تناظر ہی بدل دیا۔ ہلاک کرنا گناہ اور قتل کرنا جرم ہے۔ ایک کا گناہ ہوتا ہے تو دوسرا قابل تعزیر ہے۔ قدیم دور میں اپنے قبیلے کے کسی شخص کی جان لینا قتل کرنا تھا اور دوسرے قبیلے کے شخص کی جان لینا ہلاک کرنا شمار ہوتا تھا۔ ترجمے میں اس فرق سے ساری اخلاقی عمارت ہی ہل جاتی ہے۔ شاید ویب سائیٹ ’’آپ کیسے ہیں؟‘‘ ’’آپ کہاں رہتے ہیں‘‘ جیسے جملوں کا ہی ترجمہ کر سکے گی، اور اس میں بھی تذکیر و تانیث کا مسئلہ ہمیشہ رہے گا۔ کمپیوٹر یا ویب سائیٹ تو I am going کا ترجمہ کرتے وقت ’’میں جا رہا ہوں‘‘ یا ’’میں جا رہی ہوں‘‘ کا فرق نہیں کریں گے!

تصنیف حیدر:
اردو کی کتابیں جب انگریزی میں ترجمہ ہوتی ہیں، تو خاصی کامیاب ثابت ہوتی ہیں، ذکر میر ہو یا امرائو جان ادا، انتظار حسین کی بستی ہو یا کوئی دوسری کتاب!آپ کی نظر میں وہ کون سی کتابیں ہیں، جن کا اردو سے انگریزی میں ترجمہ ہونا چاہیے؟

یاسر جواد:
اردو میں ابھی تک فرائیڈ اور یُنگ، لاک اور کانٹاور ہیگل وغیرہ سمیت زیادہ تر اہم فلسفی اور ماہرین نفسیات بھی ترجمہ نہیں ہوئے۔ (ان کی چند تحریروں/مضامین کا ترجمہ ضرور ہوا ہے، مگر کسی مکمل کتاب کا نہیں۔) اردو سے انگلش میں کامیاب تراجم سے پتا نہیں آپ کی کیا مراد ہے؟ اگر اس کا مطلب کمرشل لحاظ سے کامیاب ہونا ہے تو اس کی وجہ وسیع مارکیٹ ہے صرف۔

تصنیف حیدر:
'ادبی خدمت'یا 'غیر منافع بخش ادارہ'کے تعلق سے آ پ کے واضح خیالات کیا ہیں؟

یاسر جواد:
ادبی خدمت ایک ڈھونگ اور ذمہ داری سے دست بردار ہونے کی خواہش کے سوا شاید کچھ بھی نہیں۔ کیا منٹو اور بیدی یا عصمت اور ن م راشد یا فیض ’’ادب‘‘ کی خدمت کر رہے تھے؟ اس کا دعویٰ تو غالب جیسے عظیم شاعر نے بھی نہیں کیا کیونکہ وہ قصیدہ گو بھی تھا۔ اب تو لاوارث لاشیں اور کوڑا کرکٹ اٹھانے والے ادارے بھی صرف ’’خدمت‘‘ کے چکر کے تحت نہیں چل سکتے، ان کے لیے ایک احساس ذمہ داری لازمی ہے۔ اگر ہم ادبی خدمت کے تصور میں رہیں گے تو ہماری ادبی زندگی ویسی ہی رہے گی جیسی اب ہے۔

تصنیف حیدر:
آپ ابھی اور کون سے اہم ادیبوں، مفکروں،فلسفیوں کی کتابیں ترجمہ کرنا چاہتے ہیں؟

یاسر جواد:
میں ادب کا ترجمہ نہیں کرتا اور نہ ہی ادب کا ترجمہ کوئی پبلشر کروانا چاہتا ہے۔ یہ بڑے سرکاری اداروں کا کام ہے جو محض ’’ادب کی خدمت‘‘ تک ہی محدود ہیں اور کسی شاعرہ یا شاعر کی کتاب پر گنے چنے پندرہ بیس لوگ بلوا کر چائے پلانے اور ان تمام پندرہ بیس لوگوں سے تقریریں کروانے کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔ جب آپ ترجمہ کے لیے کوئی کتاب منتخب کرتے ہیں تو دراصل آپ فیصلہ کر رہے ہوتے ہیں کہ آپ نے دو تہذیبوں کے درمیان مکالمہ کس سطح پر کروانا ہے یا اپنی تہذیب یا ثقافت میں کسی عنصر کا اضافہ یا پہلے سے موجود کمزور عنصر کو مستحکم کرنا ہے۔ میرے خیال میں ایسی تحریریں ترجمہ کرنی چاہئیں جو ہمیں ہمارے ماضی سے آگاہ کریں اور تعصب سے نکلنے کی راہیں دکھائیں۔ مقدس صحائف سے لے کر جدید سماجی موضوعات تک بے پناہ تحریریں ایسی ہیں ترجمہ ہونی چاہئیں۔

تصنیف حیدر:
مشینی ترجمہ کیا اردو میں ابھی تک کہیں کہیں کامیاب ہوا ہے، یا ایک بے کار محض اور ٹھپ تجربہ ہے؟کیسے؟

یاسر جواد:
اس بارے میں میں اوپر بات کر چکا ہوں۔ مشینی ترجمہ میں مشین ہی اہم ہو گی، ترجمہ نہیں۔ اس کے لیے پہلے غور کرنا چاہیے کہ کیا زیادہ قریبی طور پر منسلک زبانوں میں یہ تجربہ کیا گیا ہے یا نہیں اور کیا وہ کامیاب ہوا ہے؟ مجھے تو اس بارے میں معلوم نہیں۔

کوئی تبصرے نہیں:

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *