دیپک گپتا آرچ میڈیا پرائیوٹ لمیٹڈ نامی پروڈکشن کمپنی کے مالک ہیں۔انہوں نے بڑی تعداد میں شارٹ فلمز اور ٹی وی سیریلز بنائے ہیں۔اسٹار پلس پر بہت سے اہم سیریلز 'بندنی'کے اسسٹنٹ ڈائرکٹررہے ہیں۔دیپک گپتا فلمی تجزیہ نگار بھی ہیں۔وہ قریب چار پانچ سال پہلے تک دہلی میں تھے، بنیادی تعلق ہردوئی، اتر پردیش سے ہے۔میں نے خود بھی ان کی کمپنی کے لیے صحافت کے لیے دو اہم دستاویزی فلموں کے لیے کام کیا اور غدر پر تقریبا ڈیڑھ گھنٹے کی ایک فلم بھی لکھی۔دیپک گپتا کے ساتھ میں نے دوردرشن اردواور بھارتی کے لیے کام کیا۔فی الحال وہ اپنے پروڈکشن ہائوس کے ذریعے کمرشیلز، شارٹ فلمز وغیرہ بنانے کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔اس مکالمے کے ذریعے فلم میں ہندی، اردو کے مسائل اور سرکاری چینلز کی زبانوں کو ارتقائی مراحل سے گزارنے کی پالیسیوں پر بات کی گئی ہے۔ امید ہے کہ یہ انٹرویو بھی آپ کو پسند آئے گا۔
تصنیف حیدر: ہندوستانی ٹیلی ویزن سیریل اور فلم میکنگ میں کیا کچھ خاص لوگوں کی اجارہ داری ہے؟اردو کا نام گانوں اور مکالموں کے نام پر بہت مشہور کیا جاتا ہے مگر اردو کی کیا واقعی کوئی اہمیت ہے؟
دیپک گپتا: اجارہ داری بھی وہی حاصل کرتا ہے جو ہنرمند ہے۔یا یہ کہیں کہ صلاحیت مند لوگوں کا اجارہ ہوہی جاتا ہے۔یہ ٹیمیں بھی وقت کے ساتھ بدل جاتی ہیں۔رہی بات ٹیلی ویزن کی تو یہاں نام کا تھوڑا بہت اثر ہوتا ہے لیکن سینما اس سے پوری طرح الگ ہے۔بس آپ کے پاس خیال ہونا چاہیے۔اردو کی اہمیت ہمیشہ سے رہی ہے۔اور رہے گی بھی، وہ اس لیے کہ ٹی وی پر نشر ہونے والے تمام ریئلٹی شوز اور ایف ایم چینلز میں اردو جم کر استعمال کی جارہی ہے، ایسا اس لیے ہے کیونکہ سننے میں وہ بہت خوبصورت لگتی ہے۔ہندی بھاشا کا شرنگار ہے اردو۔لیکن سینما میں وہ بدلائو دکھتا ہے کیونکہ وہاں سماج حاوی ہے، پروڈیوسر وہی بنانا چاہتا ہے جو کمرشیل ہے یا جو لوگ دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ایسے میں اردو ہو یا ہندی، دونوں کی حالت ایک جیسی ہے، دونوں کا رسم الخط لگ بھگ ختم ہونے کی کگار پر ہے، یہاں ممبئی میں سبھی اسکرپٹ رومن میں لکھی جاتی ہیں۔ایسے میں زبان محض بولنے کا ایک ذریعہ ہے، سیکھنے اور سکھانے کا نہیں۔
تصنیف حیدر: سرکاری ہی نہیں، پرائیوٹ ٹیلی ویزن سیکٹر بھی کیا کرپٹ ہے؟اس کو ٹھیک کیسے کیا جاسکتا ہے؟
دیپک گپتا:کرپٹ سیکٹر نہیں بلکہ سسٹم ہے۔ہم ایک ایسے مقبول عام سسٹم میں جی رہے ہیں جسے سماج نے اہمیت دی ہے اور وہ بھی اس کی کاروباری مجبوری ہے، وہ کرے کیا؟اس کی بغاوت یا بچوں کی روٹی کا انتظام۔تخلیقی صلاحیت کے بل بوتے پر گھر کا چولہا جلانے کے لیے شاید ہی کوئی بغاوت کا راستہ اپنائے۔اب رہی بات اس کے ٹھیک کرنے کی تو سرکاری سیٹ اپ میں یہ اتنا آسان نہیں۔جہاں سب کچھ کاغذوں پر منحصر ہوتا ہے، فائلوں میں بیسیوں لوگوں کے نوٹس ہوتے ہیں۔ٹیبل minimizeکردو سب اپنے آپ ٹھیک ہوجائے گا۔
تصنیف حیدر: دوردرشن اردو کے نام پر ہندوستانی حکومت نے اردو کو ترقی دینے کا بہت ہنگامہ مچایا، اس چینل کو لانچ ہوئے سات آٹھ سال ہوگئے ہیں، مگر کیا واقعی اردو ترقی کررہی ہے؟
دیپک گپتا: سوال یہ ہے کہ کیا اردو اپنی ترقی کے لیے ان ٹی وی چینلز کے بھروسے ہے؟شاید نہیں!سرکار کا تو کام ہی ہنگامہ مچانا ہے۔جب دوردرشن کے اردو چینل کے لگ بھگ 1100ٹی وی پروپزلز میں سے شورٹ لسٹڈ 580پروپوزلز کو چھ سال میں بھی نمٹانے کی قابلیت نہیں ہے تو کسی بھی زبان کو اپنی ترقی کے لیے ان تنظیموں پر انحصار نہیں کرنا چاہیے۔ڈیڈ لائن ان کے لیے بھی ہو۔۔۔۔خیر!ادب اور تراجم کے راستے پر چل کر بھی زبان ترقی کرسکتی ہے۔لیکن سماج کو ایسے لوگوں کی ہمت افزائی کرنی چاہیے۔
تصنیف حیدر:اردو کو پسند کرنے والے لوگ کبھی معیار کی مانگ نہیں کرتے، کوئی ڈھنگ کے پرائیوٹ چینلز نہیں کھولتے، کیا اردو پڑھنے، لکھنے اور بولنے والے لوگوں کی ذہنیت غیر علمی ہے؟
دیپک گپتا:نہیں ایسا مت کہو۔۔۔جب سب کچھ کمرشیلائزڈ ہے تو یہ چینلز اس سے اچھوتے کیسے رہ سکتے ہیں؟انہیں بھی تو اپنے اپنے ادارے چلانے ہیں۔کیا اس سے پہلے دوردرشن پر گل گلشن گلفام، الف لیلہ، ٹیپو سلطان جیسے کئی ٹی وی پروگرام ہٹ ہوئے یا نہیں۔لیکن آج بنیادی معاملہ یہ ہے کہ ہم دیکھنا کیا چاہتے ہیں۔زی ٹی پر 'قبول ہے'،کلرز پر ابھی کچھ دن پہلے 'بے انتہا'لوگوں کو خوب پسند آئے۔جن میں کوالٹی بھی تھی کنٹنٹ بھی۔لوگ بہت سمجھ دار ہیں۔ٹیلی ویزن ہو یا سینما۔۔۔ہٹ وہی ہوگا جس میں منورنجن بھی ہو۔پروڈیوسرز سے زیادہ ذمہ داری ناظرین کی بھی ہے۔
تصنیف حیدر:زندگی چینل لانچ ہوئے ابھی چار یا پانچ مہینے ہوئے ہیں، مگر اس کی مقبولیت میں دن بہ دن اضافہ ہوا ہے، پاکستانی سیریل میکنگ زیادہ بہتر ہے یا انڈین؟کیا ہم ایک قصے کو کھینچ کھینچ کر اس فیلڈ میں بھی کرپشن کو بڑھا نہیں رہے ہیں؟
دیپک گپتا:چینل ٹی آر پی اور پروگرام میکنگ دونوں الگ الگ باتیں ہیں۔کئی بار بڑے ٹی وی شو کا بھی جلد پیک اپ ہو جاتا ہے، مثال کے طور پر نائن ایکس پر بالا جی ٹیلی فلم نے مہابھارت کو پیش کیا ، بڑا پروڈکشن ہائوس، عالیشان سیٹ، بڑی اسٹار کاسٹ۔لیکن شو بری طرح فلاپ ہوا، آخر کار چینل تک بند ہوگیا۔حالیہ دنوں میں بھی سونی،کلرز، زی جیسے بڑے چینلز پر بھی کئی شوز کو ٹی آر پی نہیں ملتی، اور جہاں تک بات میکنگ کی ہے تو ہم ورلڈ کلاس ٹی وی اور سینما میکرز ہیں۔تکنیک میں بھی کسی سے کم نہیں، لیکن بات بجٹ پر اٹک جاتی ہے۔اور کچھ حد تک ہماری اپروچ بھی الگ الگ چینلز کے لیے الگ ہوتی ہے۔کوالٹی کے ساتھ کنٹنٹ بھی میٹر کرتا ہے۔عورتوں سے جڑے ساس بہو کے سیریل اس لیے بنتے ہیں کیونکہ ان کے دیکھنے والوں طبقہ طے ہے۔
تصنیف حیدر:لوگ عام طور پر سمجھتے ہیں کہ بالی ووڈ فلمیں اور ہندی سیریلز ہندی کو فروغ دے رہے ہیں، مگر کیا واقعی ہندی کا اس سے کچھ بھلا ہوا ہے؟
دیپک گپتا:سننے میں عجیب لگے گا کہ سینما ہو یا ٹیلی ویزن دونوں کی کاروباری زبان انگریزی ہے، اسکرپٹ میں اسکرین پلے کی زبان انگلش ہے، مکالمے یا تو رومن میں لکھے جاتے ہیں یا انگلش میں۔ایسا اس لیے کہ دونوں فلیلڈز میں کام کرنے والے لوگ مختلف علاقوں،جگہوں یا ملکوں کے ہیں اور آن اسکرین کام کرنے والے زیادہ تر کردار ہندی جانتے بھی نہیں۔اب سوال اٹھتا ہے کہ وہ انتی فراٹے دار ہندی کیسے بول پاتے ہیں، اس کے لیے ہندی زبان کے ماہرین رکھے جاتے ہیں جو رومن اسکرپٹ کی ہندی بول کر آرٹسٹ کو سکھاتے ہیں، چھوٹے مکالموں کے کٹ اور بعد میں ڈبنگ اسے اور پرفیکٹ بنادیتی ہے۔ایسے ہی جگاڑ سے تمل، ملیالم، کنٹر زبانوں میں فلم کو بنایا جاتا ہے۔اب کوئی بھی زبان بولنے والا کسی بھی اجنبی زبان میں بننے والی فلم میں کام کرسکتا ہے۔اب بات ہندی کے فروغ کی ہے تو، آپ خود ہی اندازہ لگا لیجیے۔نجی چینلز کو چھوڑ بھی دو کیا دوردرشن جیسے چینل پر بھی ہندی اسکرپٹ کی ڈیمانڈ ہے؟شاید نہیں۔اس کے لیے میں ڈی ڈی اردو چینل کا شکریہ ادا کروں گا جہاں کم از کم اردو اسکرپٹ مانگی جاتی ہے۔
تصنیف حیدر:اگر کوئی اردو سیریل ہی نہیں ہندی سیریل بنانے والا پروڈیوسر بھی صرف حکومت کے پروگرامز بنانے کا کام کرے، تو اسے کیا پریشانی پیش آسکتی ہے؟کیا حکومت کو اپنی پالیسیوں میں تبدیلی پیدا کرنی چاہیے ، اگر ہاں تو وہ تبدیلی کیا ہونی چاہیے؟
دیپک گپتا:ذاتی طور پر میرا ماننا ہے کہ صرف سرکاری چینلز کے بھروسے کوئی پروڈیوسر اپنی کمپنی نہیں چلا سکتا۔۔۔اس سیکٹر کی کام کرنے کی رفتار بہت دھیمی ہے اور فائلز سسٹم کافی بوریت زدہ۔پروڈیوسر اور چینل کی کوئی سیدھی بات چیت نہیں ہوتی، اس کی قابلیت کا اندازہ کاغذوں سے لگایا جاتا ہے جو پرانا،برٹش حکومت کا طریقہ ہے۔آج تکنیک کا زمانہ ہے۔وہاں نجی چینل ایک میل پر آپ کو میٹنگ کے لیے کہانی سنانے کا آفر دیتے ہیں۔اگر بنیادی خیال میں دم ہے تو خود پروڈکشن ہائوس کا انتظام کرتے ہیں۔چینلز کے پروگرام ٹیم کے تجربہ کار افراد اسکرپٹ پر خود کام کرتے ہیں، پروگرام کو اور بہتر بنانے کا مشورہ دیتے ہیں۔افسوس کہ سرکاری سطح پر ایساکوئی انتظام نہیں۔
تصنیف حیدر:کیا مذہب یا دھرم فلم یا ٹیلی ویزن میں ایک بکائو پروڈکٹ سے زیادہ کوئی اہمیت رکھتا ہے؟
دیپک گپتا:حالیہ دنوں میں آنے والی کچھ فلموں کو دیکھو تو، جیسے اوہ مائی گوڈ، پی کے جیسی کہانیوں میں دھرم کو جس طرح پیش کیا گیا ہے اسے آپ بکائو پروڈکٹ کہہ سکتے ہو۔لیکن اس میں حرج کیا ہے۔آخر لوگوں نے خریدا تبھی تو وہ پروڈکٹ بکا۔سینما کا ایک کام یہ بھی ہے ، اس سے زیادہ تو ڈھونگی بابائوں یا نام نہاد دھارمک گرئووں نے سماج کو نقصان پہنچایا ہے۔میرا ماننا ہے کہ سینما اس سمت میں بہتر کام کررہا ہے۔
تصنیف حیدر:کیا ہمارے یہاں سینسر بورڈ کرپشن کے الزام سے بالکل آزاد ہے؟
دیپک گپتا: الزامات سے زیادہ اس بات پر زور دینا چاہیے کہ پروگرام سینسر کا میکانزم کیا ہو؟ستر اسی کی دہائی والے اصول آج نافذ نہیں کیے جاسکتے۔زمانہ بدل چکا ہے۔ٹیلی ویزن یا سینما کو دیکھنے کا ہمارا نظریہ بھی بدلا ہے۔اور اگر آپ صرف ان دونوں ذرائع کو ہی سینسر شپ کے دائرے میں رکھیں تو کیا انٹرنیٹ یا سائبر دنیا میں بھی پبلشنگ کا کوئی قانون بنایا جاسکتا ہے؟شاید یہ ممکن ہی نہیں ہے، اور کرپشن تو ذہنیت کا نام ہے،اس سے کوئی آزاد نہیں۔
تصنیف حیدر:پی کے کا اتنا شور مچا، لیکن کسی فیمنسٹ عورت یا مرد نے یہ سوال کیوں نہیں اٹھایا کہ دونوں بار پلینٹ سے صرف مرد ہی کیوں اترے، کیا اس پلینٹ پر بھی مردوں کی مونوپولی تھی؟کیا وہاں کی عورتیں بھی صرف چار دیواری میں رہتی تھیں؟یا اس میں ہماری ذہنیت کی مجبوری آڑے آگئی، کیونکہ ہم ننگے مرد کو برداشت کرسکتے ہیں، ننگی عورت کو نہیں؟
دیپک گپتا:ہا ہاہا۔۔۔۔بھئی ایک ایلین بجائے خود ایک تصور ہے۔فلم کا وہ مرکزی کردار جو اپنے ذریعے سوال پیدا کرتا ہے۔سبھی دھرموں کو کٹہرے میں کھڑا کرتا ہے۔اب آپ اس تصورمیں بھی سوال تلاش کررہے ہیں۔بات یہاں عورت مرد کی نہیں۔بات ان سوالوں کی ہے جن کے جواب ہمارے پاس ہیں تو، بس ہم ان کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔تبصرہ یا تنقید کرنا دیکھنے والوں کا حق ہے، آپ کسی بھی زاویے سے دیکھ سکتے ہیں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں