قدریں بدل رہی ہیں، معاشرہ بدل رہا ہے۔کیونکہ اظہار کے وسائل بدل رہے ہیں۔انٹرنیٹ ایک ایسی جگہ ہے، جس پر اب ادیب، شاعر، فلسفی، تاریخ داں، قانون داں سب جمع ہوگئے ہیں۔حالانکہ یہاں بات کی عمر چھوٹی ہے، مگر اس کی ایک بات اچھی یہ ہے کہ یہ لکھے ہوئے کو زندہ رکھتا ہے۔اس کی کوکھ میں چیزیں ذرا کسی کے ہاتھ لگانے سے چمکنے لگتی ہیں، کسی کی پرانی پوسٹ کو دیکھیے تو وہ اور بھی بہت سے لوگوں کے نظر میں آجاتی ہے۔میرا مقصد اردو والوں کو اس نئے وسیلۂ ترسیل پر وہ چیزیں فراہم کرانا ہے، جو معیار بلند کرسکیں، صرف تجارت نہ ہوں۔ہوں بھی تو اچھا مال فروخت کریں۔ہم اپنی روزمرہ کی زندگی میں ہر چیز کو اس کی کوالٹی سے جانچنا اور استعمال کرنا چاہتے ہیں، پھر علم یا ادب کے ساتھ ایسا رویہ کیوں نہیں۔خیرکہنے کا مقصد یہ ہے کہ اچھے مباحث، اچھی باتیں، اچھی تخلیقات جہاں تک ہوسکیں اس وقت کو جذب کرلینے والی تختی پر لکھ کر لگائیے ، ویسے تو ہر آدمی اپنے اچھے برے کا فیصلہ خود کرتا ہے، مگر پرکھ کی صلاحیت پیدا کروانا ان لوگوں کی ذمہ داری ہے جن کو یہ سلیقہ آرہا ہے یا آچکا ہے۔شمیم حنفی صاحب کا یہ انٹرویو، تحریری نہیں، زبانی تھا۔میں نے ان کے سامنے بیٹھ کر ان سے جوسوالات پوچھے ہیں، اردو کا کوئی دوسرا اتنا بڑا ادیب ہوتا تو یا تومعذرت کرلیتا یا پھر ناراضگی کا ایسا لبادہ اوڑھتا کہ نوجوانوں کی بدترین تہذیب کا استعارہ مجھے قرار دے دیتا۔ان کی شفقت نے مجھے سکھایا کہ ادیب کی ذمہ داری کیا ہے، اس کا رویہ کیا ہونا چاہیے اور سوالوں کے جواب کس طرح دیے جاتے ہیں۔ان کے تعارف کی کسی کو ضرورت نہیں،ہاں ان باتوں کی شاید ہو، جو اس انٹرویو میں موجود ہیں۔امید ہے کہ مکالمہ آپ سب کی پسند اور معیار پر پورا اترے گا۔میں اس انٹرویو کے لیے اپنے دوست زمرد مغل کا شکر گزار ہوں۔
تصنیف حیدر:لوگ آپ کو بطور ناقد جانتے ہیں مگر آپ کی شاعری بھی منفرد اہمیت کی حامل ہے۔آپ نے کبھی خود کو بطور شاعر منوانے کی ضرورت کیوں نہیں محسوس کی؟
شمیم حنفی: میرا تعلق تو اس صف سے ہے لکھنے والوں کی جو اپنے آپ کو منوانے کے لیے نہیں لکھتے تھے یعنی میں نے کبھی خود کونقاد کے طور پر بھی منوانے کی کوشش نہیں کی۔میری تنقید بھی میں یہ سمجھتا ہوں کہ ایک قسم کا ذاتی اظہار ہے، بلکہ ایک طرح کا سوانحی اظہار کہہ لیجیے اس لیے کہ جو فریم آف مائنڈ میرا ہوتا ہے اسی کے مطابق میں لکھتا ہوں اور اگر اس تجربے میں میرا جی چاہا کہ دوسرا شریک ہو تو میں اسے چھپوا بھی دیتا ہوں ورنہ بہت سی چیزیں تو میں لکھ کر ضائع کردیتا ہوں۔تو یہ ہے کہ تنقید کا معاملہ بھی یہ رہا ہے، اچھا شاعری میری ایک ایکسیڈنٹ رہی ہے، ایکسیڈنٹ اس لیے رہی کہ ایک زمانہ تھا جو اتفاق سے میرے لیے بہت تنہائی کا زمانہ تھا،یہ1964کی بات ہے، میں الہ آباد میں تھا اس زمانے میں، اور شام کو میری عادت ہے لمبی ٹہلوں کی، لمبی لمبی واک کے لیے جاتا تھاتو پتہ نہیں کیسے ہوا، موزوں طبعی میری طبیعت میں ہمیشہ سے رہی ہے، تو وہ تھی، اس وقت بھی تھی، کسی دن کوئی مصرع موزوں ہوگیا،اتفاق سے میں نے فراق صاحب کو سنادیا، فراق صاحب میرے استاد تھے۔اور فراق صاحب کے یہاں شام کو اکثر بیٹھا بھی رہتا تھا میں، رہتا تو میں ہوسٹل میں تھا اس وقت،تو فراق صاحب نے کہا کہ بھئی مولانا تم شعر کیوں نہیں کہتے تو میں نے کہا صاحب شعر ویر کیا کہیں گے یہ۔۔۔۔تو میں نے خیردو تین شعر ان کو سنائے تو انہوں نے مجھ سے کہا کہ تمہاری زبان جو ہے یہ ہندی آمیزبہت ہے، تو اس کو کہاں چھپنا چاہیے تو سب سے پہلے یہ اشعار چھپے ، ایک رسالہ ہندی کاتھاکلپنا،حیدرآباد میں۔بدری وشال اس کے ایڈیٹر تھے، مشہور رسالہ تھا۔تو یہ غزلیں وہاں چھپیں۔بدری وشال صاحب نے فراق صاحب کو خط لکھاکہ صاحب ایک صاحب ہیں، جنہوں نے اپنی غزلیں مجھے بھیجی ہیں۔مجھے یہ شبہ ہوتا ہے کہ یہ آپ کے اشعار ہیں۔یعنی کچھ فراق صاحب کا رنگ کہیں ہندی زبان کی وجہ سے۔۔۔تو خیر فراق صاحب نے ان کو بعد میں بتایا کہ ایسا نہیں ہے۔اچھا اس زمانے میں شام کو میں واک کرتا تھا تقریباً تین کلو میٹر سے زیادہ ہمارے ہاسٹل سے سنگم کا فاصلہ تھا۔میں وہاں تک پیدل جاتا تھا وہاں سے آتا تھاروز اکیلے۔برسات ہورہی ہو تو میں چھتری لے کر جاتا تھا۔تو صاحب یہ سب رہا تماشا۔اچھا پھر اس کے بعد میں الہ آباد سے نکلا تو اندور پہنچا۔اندور میں میری دوستی ہوئی عمیق صاحب سے، عمیق حنفی ہی تھے بس وہاں، باقی میرا سارا حلقہ ہندی والوں کا تھا۔میں نے کالم بھی اپنے سب سے پہلے ہندی میں لکھے۔وہ نئی دنیا جو یہاں کا مشہور اخبارہے، جو تین چار لاکھ چھپتا ہے اب بھی یہاں اس کا آفس ہے۔تو خیر صاحب وہاں یہ ہوا کہ غزل گوئی میری ایسی رہی تصنیف صاحب! کوئی اس میں اسکیم کو دخل نہیں رہا۔نہ مجھے یہ خیال ہوا کہ میں شاعر اچھا ہوں، پھر اس کے بعد کبھی یہ ہوتا ہے کہ میں نے کسی کے اچھے شعر پڑھ لیے تو مجھے اتنا(دوبار)مزہ آیا اس میں کہ میں نے سوچا اس کے بعد کیا شعر کہہ سکتا ہوں۔میں نے شاعری میں اپنے آپ کو منوانے کی کبھی کوشش نہیں کی ، لیکن یہ کہ شعر کہتا رہا میں ، سب سے زیادہ میں نے شعر کہے علی گڑھ کے زمانے میں اور اس کا سبب تھی خلیل الرحمٰن اعظمی کی دوستی۔خلیل صاحب تھے اس وقت شعبے میں اور میں بھی تھا۔اب خلیل صاحب بعد میں آئے ، میں پہلے تو وہ سیدھے میرے کمرے میں آکر بیٹھ جاتے تھے۔میں اگر پہنچا تو میں ان کے کمرے میں اور خلیل صاحب کا پہلا سوال ہوتا ، ہاں بھئی! کچھ کہاوہا نہیں ادھر؟تو وہاں یہ ہوا بہرحال، ان کے ساتھ میرا بہت وقت گزرا۔علی گڑھ میں عمیق حنفی تھے، وقار صاحب یہیں انگریزی کے لکچرر ہوکر آگئے تھے۔خلیل صاحب کا انتقال ہوا 1978میں، اس کے بعد پتہ نہیں مجھے کیا ہوا کہ میں نے بالکل چھوڑ دیا شعر کہنا، میرا جی ہی نہیں چاہتا تھا۔لیکن اس وقت تک، میرا خیال ہے 1978تک اتنے شعر کہہ چکا تھا کہ ہندوستان پاکستان کے تقریبا ہر بڑے رسالے میں چھپ چکا تھا۔پہلی غزل تو اردو میں چھپی تھی نقوش میں،محمد طفیل نے چھاپی تھی۔وہ بھی ہندی رنگ کی تھی
ہم ہیں پریت نگر کے باسی ہم پہ رسم وفا نکلی
میں نے اپنے مجموعے میں رکھی نہیں ہے، ایک انتخاب میں نے کیا ہے چھوٹا سا۔خیر،لیکن یہ کہ خلیل صاحب کے انتقال کے بعد میں نے چھوڑ دیا۔پھر تو یہ ہوا کہ کبھی کبھار کوئی شعر ہوتا ہے کوئی نہیں، یاد آگیا کچھ، کوئی بھولی بسری یاد جیسے آجاتی ہے دل میں۔تو میں نے غزلیں اس طرح سے کہیں۔لیکن اس زمانے میں عالم یہ تھا میری پرگوئی کا کہ جب فنون کا غزل نمبر نکلا شاید 67یا 69میں،اس وقت مجھے اتنی آمد رہتی تھی ، احمد ندیم قاسمی نے مجھ سے کہا کہ تمہاری غزل میں نے فنون میں پڑھی تھی ، ان کا خط آیا۔تم اپنی دس غزلیں بھیج دو میں غزل نمبر نکال رہا ہوں۔تو میں نے دس غزلیں دو دن میں کہہ کر بھیج دی تھیں۔تو غزل کا معاملہ تو یہ رہا۔اور اس کے بعد تو سال میں کبھی ایک ، کبھی دو ، کبھی تین، کبھی چار، کبھی ایک بھی نہیں۔
تصنیف حیدر:جدیدیت کا اتنا ڈھنڈورا ہمارے یہاں پیٹا گیا،حالانکہ جدیدیت پر ہمارے پاس اچھے مضامین تک نہیں ہیں۔آپ لاکھ کسر نفسی سے کام لیں، مگر مغرب میں جدیدیت کے مختلف تصورات اور اردو میں جدید رویے کی داغ بیل ڈالنے کے تعلق سے آپ کی کتابیں’جدیدیت کی فلسفیانہ اساس‘ اور ’نئی شعری روایت‘ہمارے یہاں بس یہی دو اہم کتابیں ہیں۔کیا آپ کو اس بات سے اتفاق ہے؟
شمیم حنفی:بھئی اس سے تو میں متفق نہیں ہوں کہ یہی اہم کتابیں ہیں اس کا سبب یہ ہے کہ میرا تو یہ بہرحال بہت ہی modestسا ایک کام ہے۔لیکن میں نے ذمہ داری کے ساتھ یہ کتاب لکھی تھی اور ایک مجھے خوشی یہ ضرور ہے ، اگر یہ اس کتاب کی اہمیت کی دلیل ہوسکتی ہو تو ، کہ اس کے ایڈیشن چوری چھپے ، بتاکے بہت چھپے۔پاکستان میں تو دونوں جلدیں ایک میں چھپی ہیں بہت بڑی سائز میں سنگ میل نے چھاپی ہیں اور یہاں سے بھی بہت سے نسخے چھپے ہیں۔لیکن یہ ہوا کہ اس کے خلاف بھی لوگوں نے بہت لکھا ، میرے دوستوں نے لکھا ، وارث نے بہت سخت مضمون لکھا ، ایک صاحب نے تو کوئی ستر اسی صفحے کا مضمون لکھا۔۔۔علی جاوید نے۔۔۔جو ذرے اخبارمیں چھپا تھا ، تو میں نے شکریہ ادا کیا ، میں نے کہاتم نے اتنی توجہ سے میری کتاب پڑھی ، مجھے اس کی خوشی ہے اور وارث سے تو میری کوئی دوستی میں فرق آیا نہیں۔تو ظاہر ہے کہ جدیدیت کا مجھے جو پہلو پسند تھا وہ یہی تھا کہ جدیدیت کسی قسم کی orthodoxyکو تسلیم نہیں کرتی تھی ، بالکل orthodoxنہیں تھی۔اس کا سبب یہ کہ وہ تحریک نہیں تھی ۔اور یہی فرق ہے تحریک اور رجحان میں۔یہ ایک رجحان تھا اور ظاہر ہے کہ مغرب میں تو یہ ان نوجوانوں کی طرف سے تھا جو پرانی چیزوں سے انکار کرتے تھے ، جن کا ایک موٹو تھا آواں گارد(پیش دستہ)یعنی کہ جو کچھ ہمارے سامنے ہے وہی حقیقت ہے باقی چیزوں کو، روایت ہے ، تاریخ ہے،ان ساری چیزوں پر وہ سوالیہ نشان قائم کرتے تھے۔لیکن ہمارے یہاں جدیدیت کا جو فیشن مقبول ہوا ترقی پسندوں کی ضد میں، وہ یک رخا ہوتا چلا گیا تو ظاہر ہے کہ میں نے تو اس سے انکار کیا ۔میں نے تو اس کو یہ لکھا ہے کہ جدیدیت ایک طریقے کی نئی حقیقت پسندی ہے،Neo Realism یہ اصطلاح شاید پہلی بار اس کتاب میں استعمال ہوئی ہے۔بہرحال مجھے خوشی اس کی ہے کہ طالب علموں نے پڑھی اور وہ لوگ بھی جو اس کے خلاف لکھتے رہے، وہ بھی اسے پڑھتے ضرور تھے۔اچھا میں نے اردو سے حوالے نہیں دیے، آپ دیکھیے اردو کا ایک حوالہ اس میں نہیں ہے۔اس لیے کہ اردو کا ایک حوالہ مجھے ایسا نظر نہیں آیا جو کہیں نہ کہیں سے باروڈ نہ ہو، میں نے تو مارکس اور اینگلز تک کی اوریجنل کتابیں پڑھیں۔جب ترقی پسند تحریک پر میں نے لکھا تو مارکس اور اینگلز اور لینن اور اس کے بعد ان کے جتنے تھیوریٹشنز ہیں، ان سب کی کتابیں میں نے پڑھی تھیں، اس سے بہت سے اردو والے ناخوش بھی ہوئے کہ صاحب اس میں ہمارا حوالہ کہیں نہیں، بھئی آپ کا حوالہ تو اس لیے نہیں کہ آپ نے کوئی نئی بات نہیں کی۔میں نے تو انگریزی میں وہ چیزیں پڑھی تھیں ، بہرحال خوشی مجھے اس کتاب کے بارے میں یہ ہے کہ وہ اب بھی پڑھی جارہی ہے۔
تصنیف حیدر:مابعد جدیدیت اور اردو ، اس معاملے میں آپ کا دوٹوک نقطۂ نظر کیا ہے؟
شمیم حنفی: بھئی دوٹوک تو کوئی بات میں ادب میں کہتا ہی نہیں کبھی!اور اس کا سبب یہ کہ میں مزاجاً بھی agnosticہوں،یعنی پتہ نہیں خدا ہے نہیں ہے۔کچھ کہہ نہیں سکتا۔مابعد جدیدیت کے بارے میں میرا وہی خیال ہے جو جدیدیت کے بارے میں اب ہے۔جدیدیت کی بارے میں اب میرا خیال یہ ہے کہ جدیدیت کا بھی ایک انڈین ورجن ہونا چاہیے تھا۔یعنی یہ نہیں کہ مغرب میں جدیدیت کا جو ورجن تھا ، مغربی آواں گار دکا۔ہم جوں کا توں اسی کو قبول کرلیں۔ہمارا اپنا بننا چاہیے تھا، اور اس میں ظاہر ہے کہ ہندوستان کی حقیقتیں جو دوسری تھیں، ان کو موضوع بننا چاہیے تھا۔اس معاملے پرمیں نے بہت سے مضامین بھی لکھے ہیں۔مابعد جدیدیت کے بارے میں میرا اپنا خیال یہ ہے کہ یہ ایک سوشیولوجیکل مسئلہ ہے، ادب کا مسئلہ یہ ہے ہی نہیں۔اور اس کے اصول بھی ہندوستانی سیاق میں متعین کیے جانے چاہیے تھے۔لیکن ہمارے یہاں ہمیشہ سے یہ رہا ہے کہ ہم جو کچھ پڑھتے ہیں، اس کو ایک دن اپنا سمجھنے لگتے ہیں اور اسی کی بنیاد پر ہم ایک تھیوری بنالیتے ہیں۔یہ جو ویسٹرن مورڈن ازم ہے وہ میرے خیال میں بالکل وہ نہیں ہے جس طرح اردو میں پیدا ہوئی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں اردو میں وہ معاملہ چل ہی نہیں سکتا تھا ۔ایک کتاب جو اس موضوع پر ہندی میں ہے وہ میرے دوست کی لکھی ہوئی ہے ، نام ان کا وجے کمار ہے۔پتہ نہیں آپ نے ان کی کتابیں پڑھی ہیں یا نہیں۔بمبئی میں رہتے ہیں، شاعر ہیں بلکہ بہت مشہور شاعر ہیں اور شاعر سے زیادہ وہ اچھے نقاد ہیں۔ان کی ایک کتاب ہے’اندھیرے سمے میں وچار‘۔کہیں سے خرید لیجیے ، چھوٹی سی کتاب ہے۔اتنی خوبصورت کتاب، جس کا اردو والے تصور بھی نہیں کرسکتے کہ مابعد جدیدیت کا ایک ورجن یہ بھی ہوسکتا ہے۔انہوں نے یہ لکھا ہے کہ آنے والے دنوں میں زندگی کے مسائل عقل سے نہیں بلکہ جذبے سے حل کیے جائیں گے۔اسی لیے میں ادب اور اخلاق کے رشتے پر بہت زور دیتا ہوں، اخلاق کا مطلب یہ نہیں کہ سچ بولو یا صاف رہو۔اخلاق کے معنی ہیں بحیثیت انسان آپ کی وہ ذمہ داری جو دوسرے انسان کے لیے ہوتی ہے۔اپنے معاشرے کے لیے، تاریخ کے لیے، زندگی کے لیے۔ہیرالڈ پنٹنرکو جب نوبل پرائز ملا تو اس نے اپنی تقریر میں بھی کہا تھا کہ ادب اور سیاست کے رشتے پر ، اخلاق اور سیاست کے رشتے پرہمیں مسلسل اور انتھک طریقے سے اپنی بات کہتے رہنی چاہیے۔اس وقت جو ایک طریقے کا کرائسس پیدا ہوا ہے۔خاص طور پر نوجوانوں کے یہاں جو کرائسس مجھے دکھائی دیتا ہے اس کا بنیادی سبب یہی ہے کہ وہ اخلاق سے ادب کے رشتے کو، سیاست سے ادب کے رشتے کو وہ اہمیت نہیں دیتے جو دینی چاہیے۔تو میرا جو مسئلہ ہے وہ یہی ہے کہ میں پوسٹ ماڈرنزم کو ایک سماجی مسئلہ مانتا ہوں۔ہمارے یہاں لوگوں نے آنکھ بند کرکے مغرب کا اطلاق کیا ہے۔ ہمارے یہاں سوچ کر دیکھیے کتنے زمانے ہندوستان میں ایک ساتھ زندہ ہیں۔پرانا، قدیم، آنے والا زمانہ۔دولت کی کتنی عجیب و غریب اور ناروا تقسیم ہے۔تو آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ وہی نسخہ یہاں بھی پوسٹ ماڈرن ازم کا کام آسکتا ہے۔جبکہ ہمارے یہاں تو سارے اس کے ترجمے کیے گئے ہیں، کسی اوریجنل بنیاد پر تو بات نہیں ہوئی ہے۔ایک صاحب تھے ضمیر علی بدایونی، پاکستان میں، جنہوں نے کوشش کی تھی کچھ بات لکھنے کی، ان کے مضامین آپ نے دیکھے ہونگے۔ویسے میرا بہت علم بھی نہیں ہے۔میں پڑھتا بھی نہیں، یہ چیزیں مجھے غیر دلچسپ لگتی ہیں۔جدید ، مابعد جدید، یہ سب۔بھئی بنیادی بات یہ ہے کہ آپ کے کنسرنس کیا ہیں۔آپ کا سروکار کیا ہے۔تو میں نے اس کے بارے میں تصنیف صاحب! ایمانداری کی بات یہ ہے کہ زیادہ پڑھا نہیں ہے، یعنی اردو میں خاص طور پرجو کچھ لکھا جاتا ہے۔انگریزی میں جو کچھ لکھا جاتا ہے، وہ میری سمجھ میں بھی آجاتا ہے۔یہ تھوڑی سی عجیب بات ہے، مگر اردو والا سمجھ میں نہیں آتا۔تو کوئی دوٹوک بات اس سلسلے میں میں کیا کہہ سکتا ہوں۔
تصنیف حیدر:فراق گورکھپوری کے تعلق سے اس وقت محمد حسن عسکری کے موقف کی تائید کرتے ہیں شمس الرحمٰن فاروقی کے؟
شمیم حنفی:بھئی فراق صاحب میرے استاد تھے۔میں نے اپنی زندگی میں جو ذہین لوگ دیکھے ان میں بھی فراق صاحب مجھے بہت منفرد دکھائی دیتے ہیں۔فراق صاحب کے پاس بیٹھنا، ان کے ساتھ ایک شام گزار لیناآپ کو دوچار کتابوں کے مطالعے سے بے نیاز کرسکتا تھا۔اتنی خلاق طبیعت انہوں نے پائی تھی، و ہ زندگی کے معمولی سے معمولی مسئلے پر باتیں کریں اس میں ہمیشہ کوئی نہ کوئی گہرا زاویہ پیدا کردیتے تھے۔اور آپ جب ان کی باتیں سنیں تو آپ یہ محسوس کرتے تھے کہ ان سے ملنے سے پہلے آپ جو کچھ سوچ رہے تھے اب آپ اس سے الگ طریقے سے سوچ رہے ہیں۔ایک عجیب و غریب ذہن تھا ان کا۔ان کے ذہن کا تو شاعری میں اظہار ہی نہیں ہوا، سچی بات یہ ہے کہ ان کے ذہن کا جو اظہار ہوا ہے، وہ ان کی گفتگوؤں میں ہوا ہے۔ایک مضمون میرا ہے، پتہ نہیں آپ لوگوں نے پڑھا ہے یا نہیں’ایک اور سلسلۂ روزوشب‘ نام ہے اس کا۔فراق صاحب کس طرح باتیں کرتے تھے اس پرہے وہ ، میری کتاب’ہم سفروں کے درمیان‘میں شامل ہے وہ مضمون۔ہندی اردو میں بہت جگہوں پر چھپ بھی چکا ہے۔وہ ایک آفاق گیر قسم کا ذہن تھا، جو ایک چھوٹے سے نقطہ سے شروع ہوتا تھا اور بعض دفعہ پھیلتا جاتا تھا۔وہ خود کہتے تھے کہ میں تو موضوع کے مرکز پر بیٹھ جاتا ہوں اور پھر دائروں کی طرح بڑھتا ہوں،دائرہ در دائرہ در دائرہ۔فراق صاحب جیسے ذہین لوگ بہت کم دیکھے ہیں میں نے۔عسکری صاحب نے ان سے جو اثر قبول کیا، میرا خیال ہے صحیح اثر قبول کیا۔اتنی اوریجنلٹی تھی ان کے سوچنے کے طریقے میں جو بہت غیر معمولی تھی۔میں نے جو دو چار کام کی باتیں کہیں ہیں، ان میں بہت سی فراق صاحب کی سجھائی ہوئی باتوں کی بازگشت کہیں نہ کہیں ضرور موجود ہے۔خیر، مجھ سے ایک بار ایک صاحب نے کہا کہ یہ ’کمل کی چٹکیوں میں بند ہے ندی کا سہاگ‘فراق صاحب کی ایک نظم ’آدھی رات کو‘ کا جو مصرع ہے، یہ نظم میرا خیال ہے کہ اردو کی سب سے اچھی نظموں میں سے ایک ہے۔
تمولیوں کی دکانیں کہیں کہیں ہیں کھلی
کچھ اونگھتی ہوئی بڑھتی ہیں شاہراہوں پر
سواریوں سے بھرے گھنگھرؤں کی جھنکاریں
زمانہ کتنا لڑائی کو رہ گیا ہوگا
مرے خیال میں اب ایک بج رہا ہوگا
ستارے ہیں کہ جہاں پر ہے آنسوؤں کا کفن
حیات پردۂ شب میں بدلتی ہے پہلو
کچھ اور جاگ چلا آدھی رات کا جادو
قریب چاند کے منڈلا رہی ہے اک چڑیا
کیا نظم ہے صاحب۔۔۔۔آپ پڑھتے جائیے!مجھے تو ایسا مزہ آتا ہے اس میں، اسی کا ایک مصرع ہے
کمل کی چٹکیوں میں بند ہے ندی کا سہاگ
تو مجھ سے اک صاحب یا صاحبہ نے یہ نظم پڑھ کر پوچھا کہ یہ کمل کی چٹکی کیا چیز ہے۔تو میں نے اپنے ذہن میں کہا کہ اگر آپ کمل کی چٹکی نہیں سمجھ سکتیں تو شاعری آپ کو نہیں پڑھنی چاہیے۔اتنا خوبصورت استعارہ ہے یہ، اتنا خوبصورت استعارہ ہے۔اور ندی کا سہاگ اور کمل کار شتہ، کمل کی شکل یا فارم جو ہوتی ہے،اسی سے سمجھیے۔تو فراق صاحب کی شاعری کا تو اک عجیب و غریب معاملہ ہے۔اور جیسا کہ میں نے آپ سے کہا کہ شاعری میں ان کی ذہانت کا اظہار دس فیصدی ہوا ہے۔لیکن تنقید کے بارے میں میری وہ رائے نہیں ہے جو عسکری صاحب کی رائے ہے،عسکری صاحب تو انہیں اردو کا واحد نقاد سمجھتے ہیں۔میں واحد آحد نقاد نہیں سمجھتافراق صاحب کو۔لیکن میرا خیال ہے کہ ان کے یہاں نکتہ رسی غیر معمولی ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کے مضامین میں اگر آپ اندازے کے مضامین دیکھیں یا اس سے پہلے جو چھوٹا سا مجموعہ تھا ان کا حاشیے یااردو کی اچھی عشقیہ شاعری، اردو غزل گوئی۔یہ کتابیں نثر میں ہیں ان کی، ان میں آپ کو نکتے بہت ملیں گے۔لیکن گفتگوؤں میں اپنے آپ کو ضائع کیا فراق صاحب نے۔ان کا مسئلہ دراصل وقت گزارنا تھا۔ایسی غیر معمولی تنہائی فراق صاحب کے یہاں میں نے دیکھی ہے کہ کیا بتاؤں۔بیوی سے ان کی بنی نہیں۔جیتے جی انہوں نے بیوی سے علیحدگی اختیار کرلی تھی، وہ اپنے بھائیوں کے یہاں چلی گئی تھی، اکیلے رہتے تھے۔باقی زندگی ان کی اس اکیلے پن کی وجہ سے ایک ابنارمل زندگی تو بہرحال تھی۔دو بیٹیاں تھیں، ایک بیٹا تھا۔بیٹے کا انتقال جوانی میں ہوگیا۔فراق صاحب تو بالکل اکیلے رہتے تھے اور انہیں لوگ ایکسپلوئٹ کرتے تھے، چوریاں ان کے یہاں بہت ہوتی تھیں۔ایک واقعہ تو اس بارے میں کسی نے لکھا بھی ہے ، مجتبٰی حسین ، جو پاکستان والے ہیں،جن کا انتقال ہوگیا۔انہوں نے لکھا تھا ایک دن فراق صاحب بیٹھے ہوئے تھے شام کو تو ان کے گھر میں ایک چور آگیا اور اس نے چاقو نکال لیا، فراق صاحب کو دکھایا اس نے۔تو فراق صاحب نے بغیر اپ سٹ ہوئے اس سے کہا ’بھائی اچھا ہوا! تم آگئے، اس وقت میں بہت تنہائی محسوس کررہا تھا۔وہ ایسا گھبرایا یہ جواب سن کر کہ بھاگ گیا۔فراق صاحب کی شخصیت بھی بہت تخلیقی شخصیت تھی اور ذہن تو ان کا غیر معمولی تھا ہی۔یہی وجہ ہے کہ انہوں نے آنے والی شاعری پر گہرا اثر ڈالا۔میرا خیال ہے کہ نئی شاعری پر سب سے گہرا اثر جن دو لوگوں کا پڑاوہ فراق اور یگانہ تھے۔دیکھیے کوئی تو وجہ ہے کہ ناصر کاظمی نے پاکستان میں فراق صاحب کا انتخاب شائع کیا۔ہندوستان میں خلیل الرحمٰن اعظمی نے فراق کی غزل کا انتخاب کیا، تو کوئی بات تو تھی۔
تصنیف حیدر:کشور ناہید اور انور شعور ، دونوں ہی سطحی قسم کے شاعر ہیں، جن کے یہاں کوئی خاص بات نظر نہیں آتی۔مگر آ پ ان کی حمایت کرتے ہیں، اس کا سبب کیا ہے؟
شمیم حنفی:میں ان دونوں کی حمایت ہی نہیں کرتا، ان کو اچھا شاعر بھی سمجھتا ہوں اور میرا اب بھی یہی خیال ہے۔شاعری میں سطحیت کیا چیز ہوتی ہے۔شاعری میں اگر معمولی جذبات کی کوئی شخص ترجمانی کرے تو کیا وہ سطحی ہوجائے گی؟فراق صاحب نے ہی یہ بات بھی کہی تھی’اردو کا شاعر معمولی پن سے ڈرتا ہے اور غیر معمولی پن کی کوشش میں مضمون پیدا کرنا چاہتا ہے۔‘آفتاب احمد صاحب جن کی حالی پر بہت مشہور کتاب ہے، میرا بہت ہی قریبی ان سے تعلق تھا ، میرے ان سے مراسم تھے، انہوں نے ناصر کاظمی پر جو ایک چھوٹا سا مضمون لکھا ہے، ان کی موت کے بعد، احمد مشتاق کی کتاب میں ہے وہ مضمون۔اس میں ایک واقعہ لکھا ہے انہوں نے کہ ’ایک دن ناصر ملا،جب بھی ملتا تھا فراق صاحب کی بات کسی نہ کسی بہانے ہوجاتی تھی، اس بار ملا تو اس نے فراق صاحب کا کوئی ذکر نہیں کیااور جب وہ جانے لگا تو کچھ آگے بڑھنے کے بعد اس نے کہا آفتاب صاحب فراق کا ایک شعر یاد آگیاہے، سن لیجیے۔تو شعر کیا پڑھا اس نے
یہ مانا زندگی ہے چار دن کی
بہت ہوتے ہیں یارو!چار دن بھی
تو یہ شعر کیا ہے سطحی ہے یا کیا ہے؟کیا کہیں گے آپ اسے؟یا
تم مخاطب بھی ہو قریب بھی ہو
تم کو دیکھیں کہ تم سے بات کریں
سطحی کیا چیز ہوتی ہے بھئی؟اگر آپ اس لحاظ سے دیکھیں تو وہ جو بول چال سے قریب اشعار ہیں، وہ سب سطحی ہوجائیں گے۔اچھا کشور ناہید کا آپ نے ذکر کیا ہے، اول تو میری دوست ہیں وہ، اور میرے دل میں ان کی قدر بہت ہے۔قدر ان کی یہ ہے کہ کشور نے اردو شاعری کو ایک نیا راستہ دکھایا ہے اور اس وقت واقعہ یہ ہے کہ مزاحمت کی شاعری جسے آپ کہتے ہیں، اس میں سب سے نمایا ں نام جو ہے اس وقت کشور کا ہے۔گرچہ مزاحمت کی شاعری فہمیدہ ریاض نے بھی کی ہے، زہرہ نگاہ نے بھی اور جتنی یہ نئی شاعرات ہیں، تنویر انجم، عذرا عباس یہ سبھی کررہی ہیں۔لیکن کشور کے یہاں جو ایک غیر معمولی کنسرنڈ ہے زندگی کا وہ جھوٹا نہیں ہے۔کیونکہ میں ان کو شخصی طورپر بھی جانتا ہوں۔یہ ان کے یہاں پوز نہیں ہے کہیں اوپر سے بلکہ واقعی ہے۔سچی بات یہ ہے کہ جدیدیت کا ایک بہت اہم اصول جو تھاوہ ایک طرح کی مزاحمت تھی، ایک برہمی کا اظہار تھا۔ان کے تیسرے مجموعے ’ملامت کے درمیان ‘سے مزاحمت کی لے بہت تیز ہوگئی ہے۔اور ادھر جو ان کا مجموعہ آیا ہے’وحشت اور بارود میں لپٹی ہوئی نظمیں‘۔یہ تو میرا خیال ہے بہت غیر معمولی مجموعہ ہے ، جس کی مثال مجھے ہندی میں تو ملتی ہے، اردو میں نہیں ملتی۔اچھا انور شعور کا معاملہ یہ ہے کہ وہ ایک بوہیمین شاعر ہیں، طبیعت کے لحاظ سے بھی ، مزاج کے لحاظ سے بھی۔میری ملاقات ان سے زیادہ نہیں ہے لیکن ہوجاتی ہے۔انور شعور کے یہاں جو سینس آف ہیومر ہے ایک طرح کا، وٹ جو ہے ان کا، جو ذہانت ہے، وہ ان کے یہاں غزل میں دیکھیے۔تو کبھی کبھی تو لگتا ہے آپ سے جو بات کررہے ہیں، وہی نظم کررہے ہیں۔تو بھئی ایسے شعر تو بہت لوگوں نے کہے ہیں
بخش دو گر خطا کرے کوئی
اب یہ سب شاعری میں ہے تو آپ کیا کہیں گے اس کو، انور شعور بھی میرے خیال میں بہت بے ساختہ شعر کہنے والے اچھے شاعر ہیں اس زمانے کے۔میرا خیال ہے کہ سہل ممتنع کے شعر جون ایلیا کے بعد جس آدمی نے سب سے زیادہ کہے ہیں وہ انور شعور ہیں۔تو میں دونوں کو سطحی شاعر نہیں سمجھتا۔
تصنیف حیدر:آخر وہ کیا مجبوری ہے جو شمیم حنفی جیسے قد آور نقاد کو ماجد دیوبندی جیسے سطحی شاعروں کا فلیپ لکھوادیتی ہے؟
شمیم حنفی:اول تو قدآور بھی میں نہیں ہوں ،لیکن دنیا میں آدمی رہتا ہے تو ’کچھ آدمی کو ہیں مجبوریاں بھی دنیا میں‘۔یہ واقعہ چونکہ آپ نے سوال کیا اس لیے میں بتا رہا ہوں ورنہ کوئی ضرورت نہیں تھی سنانے کی کہ میرے ایک دوست ہیں، ان کے یہ عزیز ہیں۔ایسے تو طالب علموں پر میں نے لکھ دیا ہے، لیکن آپ یہ بھی دیکھیے کہ میں نے کیا لکھا ہے، جب آپ خود جانتے ہیں کہ تعریف نہیں کی تو اگر کوئی معمولی شعر کہنے والا بھی مجھ سے آکر کہے کہ میری شاعری پر کچھ لکھ دیجیے تو ۔۔۔۔اچھا ایک دفعہ تو ایک موٹر مکینک تھا، اس کی غزل کے بارے میں اپنی رائے دے دی تھی، اچھا تھا کیا، اس زمانے میں میرے پاس گاڑی تھی، اور یہیں اس کی ورکشاپ تھی، روز وہ میرا کام کرتا تھا۔ایک دن اس نے کہا صاحب ہم شعر کہتے ہیں تو میں نے کہا دکھائیے تو میں نے نہ صرف اس کی غزل کی تعریف کردی بلکہ ’آج کل‘ والوں کو ایک خط لکھ کر اس کی وہ غزل چھپوا بھی دی۔تو دنیا میں تو یہ سب کبھی کبھی ہوتا ہے۔ان باتوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ جیسے دنیا میں آدمی صبح سے شام تک کچھ غیر اہم کام بھی کرتا ہے۔لیکن میں اس سے گریز کرتا ہوں، حتی الامکان گریز کرتا ہوں۔میرے استاد تھے ایک احتشام صاحب مرحوم، ایک دفعہ انہوں نے ایک کتاب تھی صابن سازی کی، اس کا تعارف لکھ دیا۔تو مجھے یاد ہے کہ میں نے احتشام صاحب سے کہا کہ یہ آپ نے اس کتاب پر کیوں لکھا۔تو انہوں نے جواب دیا کہ ’ارے بھئی اگر وہ خوش ہوگئے تو میرا کیا جاتا ہے۔‘تو ٹھیک ہے کہ کبھی کبھی یہ سب ہوتا ہے۔
تصنیف حیدر:ظفر اقبال، شمس الرحمٰن فاروقی صاحب کی ایک بات کو سچ ثابت کرنے کے لیے کالم پر کالم لکھتے رہے،جس میں بنیادی حوالہ انہوں نے آپ کی ایک بات کو بنایا، کیا فاروقی صاحب نے واقعی کبھی آپ کے سامنے یہ بات کہی تھی کہ ظفر اقبال غالب کے ہم پلہ، یا ان سے بڑے یا ان کے بعد اردو کے سب سے بڑے شاعر ہیں؟
شمیم حنفی:دیکھیے اب یہ تو مجھے نہیں یاد ہے کہ فاروقی صاحب نے کبھی یہ بات کہی ہوگیء نہ میں نے یہ بات کہی ہے۔لیکن یہ بات ایک مضمون میں وقار صاحب نے کہی تھی۔میرے دوست جو انگریزی والے، علی گڑھ میں ہیں۔گلآفتاب جب خاص طور پر چھپا تھا، 1962-63کی بات ہے۔جس وقت میں اندور پہنچا ہوں، اس وقت یہ مجموعہ آچکا تھا۔میں نے عمیق حنفی سے لے کر یہ پڑھا اور ہم سب حیران ہوئے تھے کہ کیسا غیر معمولی مجموعہ ہے۔تو ظفر اقبال ہمارے زمانے کے، جو سب سے اہم غزل گو شعرا ہیں ، تین چاران میں سے ایک ہیں۔اور اس وقت تو بس دو نام سب سے پہلے میرے ذہن میں آتے ہیں، احمد مشتاق کا نام اور ظفر اقبال کا نام۔احمد مشتاق اپنی کم گوئی، بے تکلف اور اپنی بے نیازی کی وجہ سے اور ظفر اقبال اپنی پرگوئی کی وجہ سے۔لیکن یہ بات ظفر اقبال سے بھی میں کہتا ہوں،ایک دن ان کا فون بھی آیا تھا میرے پاس، تو میں نے ان سے کہا کہ آپ اس چکر میں کیوں پڑتے ہیں کہ کسی نے یہ بات کہی تھی یا نہیں کہی تھی ۔فاروقی صاحب ان کے بہت قائل تھے۔تعریف بہت کی ہے فاروقی صاحب نے ان کی، اور مجھے یاد آتا ہے کہ کہیں انہوں نے اس طرح کی تعریف بھی کی تھی جس سے یہ پہلو نکلتا ہے ۔۔۔اچھا اس میں کوئی شک نہیں گل آفتاب بہت غیر معمولی کتاب ہے۔لیکن یہ بات خود میں ظفر اقبال کو بتا چکا ہوں کہ یہ بات آپ کو کہاں سے یاد آگئی اور میرا نام اور ان چکروں کو آ پ چھوڑیے۔ابھی بھی ان کا فون پچھلے دو مہینے پہلے آیا تھاتو میں نے ان سے یہی کہا کہ وقار نے اپنے مضمون میں کچھ اس طرح کا جملہ لکھا تھاکہ ہوسکتا ہے کہ آنے والے زمانوں میں لوگ آپ کو اس طرح پڑھیں جس طرح غالب کے اشعار کی تشریح ہورہی ہے کیونکہ گل آفتاب میں تو انہوں نے زبان کو بگاڑنے کی بھی کوشش کی ہے اور عطف اور اضافت ان سب چیزوں سے بھی بے نیاز ہوگئے ہیں۔لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ بہت ہی خلاق ذہن ہے ان کااور غالباً اردو کے سب سے قادر الکلام شاعر اس وقت وہی ہیں۔
تصنیف حیدر:نئی تنقید جب کبھی آپ پڑھتے ہیں یا سنتے ہیں تو کس حد تک مطمئین یا غیر مطمئین ہوتے ہیں؟
شمیم حنفی:بھئی مجھے اچھی لگتی ہے نئی تنقید۔یہ آپ کو خوش کرنے کے لیے نہیں کہہ رہا ہوں۔یہ اس لیے کہہ رہا ہوں کہ میں سنجیدگی سے یہ محسوس کرتا ہوں کہ نوجوان اب جو ہیں، ان کا ایکسپوجر جس طرح ہوا ہے ، وہ ہم سے زیادہ ہوا ہے۔وہ بہت سی چیزوں سے ہم سے پہلے واقف ہو جاتے ہیں۔، ہوگئے بلکہ۔بچے جو پڑھتے ہیں، انہیں دیکھ کر کبھی کبھی میں حیران ہوتا ہوں کہ میری نواسی جو ابھی بی اے میں پہنچی ہیں، ایک دن یولیسس پڑھ رہی تھیں۔شیکسپئر کے ایڈیشنز کا ان کو پتہ ہے، فلاں فلاں۔تو نوجوانوں میں بھی لکھنے والے مجھے اچھے لگتے ہیں۔بس ایک چیز کی کمی مجھے نوجوانوں میں صاف محسوس ہوتی ہے ، جو میں اب بھی کہتا ہوں، وہ ڈائرکشن کی کمی ہے، سمت کی کمی ہے۔یعنی سمت متعین نہیں معلوم ہوتی۔اور ادب سے ایک بے لوث قسم کا رشتہ نہیں رہا اب۔ہمیں اس کی پروا نہیں ہوتی تھی ، جب ہم آپ کی عمر کے تھے کہ ہم نے لکھا تو اس کو ریکگنائز کتنے لوگوں نے کیا ۔اب یہ ہوتا ہے کہ میں دیکھتا ہوں نوجوانوں میں عجلت بہت ہے۔یعنی فوراً لکھنے کے بعد تسلیم کیے جانے کی خواہش ہے۔اچھا تسلیم کرنے کی نوبت بہت دیر میں آتی ہے۔تسلیم کرنے کا معاملہ یہ ہے کہ دیکھیے غالب کے زمانے میں ہزاروں شاعر رہے ہونگے، چار ہی پانچ تو تسلیم کیے گئے۔غالب، مومن، ذوق، بہادر شاہ ظفر یا نصیر وغیرہ۔تو تسلیم تو دوچار ہی کیے جاتے ہیں نا۔اچھا اس میں بھی جب آپ کا کوئی منفرد رنگ پیدا ہوجائے، اگر یہ ہوجائے کہ ایک جیسے ہیں۔مثلاً ابھی ایک نوجوان کی غزلیں میں نے پڑھیں تو میں نے کہا کہ ظفر اقبال کا اثر اتنا گہرا ان پر ہے کہ ان کو نکلنا چاہیے اس سے۔افسانے میں نے دیکھے بعض نوجوانوں کے، انتظار حسین کا اثر اتنا گہرا دکھائی دیتا ہے۔اپنا کچھ نہ کچھ ضرور ہونا چاہیے۔لیکن میرا خیال یہ ہے کہ اب جو نوجوان لکھ رہے ہیں اس میں اچھے لکھنے والے بھی ہیں۔پاکستان میں بھی بہت اچھے لکھنے والے ہیں اور یہاں بھی بہت اچھے لکھنے والے ہیں۔
تصنیف حیدر:قرۃ العین حیدر سے آپ کے بڑے نزدیکی مراسم رہے ہیں، کیا کچھ ایسی باتیں ہیں جو آپ کے علاوہ ان کی شخصیت یا ان کی ادبی زندگی کے تعلق سے کسی اور کو نہ معلوم ہوں؟
شمیم حنفی:(ہنستے ہوئے)دیکھیے میں کوئی سراغ رساں تھوڑی ہوں۔۔۔۔عینی آپا سے ہمارے تعلقات گھریلو تھے، ذاتی تھے۔ان سے شخضی تعلق بہت رہا میرا۔میں نے ان پر کوئی شخصی مضمون ابھی تک نہیں لکھا۔احمد مشتاق صاحب پچھلے ایک سال سے مجھے تاکید کرتے رہتے ہیں کہ ایک شخصی مضمون لکھ ڈالو، اور میں لکھ رہا ہوں۔میرا خیال ہے کہ عینی آپا ہماری آخری بڑی لکھنے والی تھیںیعنی جن کے بارے میں آنے والے زمانے میں یہ قیاس کرنا مشکل ہوجائے گا کہ اردو میں اس پایے کی ادیب ابھی گزری ہے۔یعنی جو لیول تھا عینی آپا کا، اس تک ہمارے زمانے کا کوئی لکھنے والا پہنچا ہی نہیں ہے۔عینی آپا کے ساتھ اگر نام لیا جاسکتا ہے تو صرف انتظار حسین کا نام لیا جاسکتا ہے اور انتظار حسین کے یہاں بعض ایسی خوبیاں بھی ملتی ہیں جو عینی آپا کے یہاں نہیں ملتیں۔عینی آپا کے یہاں تو اپنی جگہ ایک گلیمر رہا ہے جو خود انہوں نے بھی کچھ کرئیٹ کیا تھا ، کچھ ان کے حلقے نے اور کچھ ان کے عورت ہونے کی وجہ سے ایسا ہوا۔انتظار صاحب کا معاملہ یہ رہا ہے کہ بہت دھیرے دھیرے شہرت انہوں نے حاصل کی لیکن بڑی پائدار شہرت ہوئی ان کی۔ہمارے یہاں انتظار صاحب کے یہاں ایک آدمی اور پیدا ہوا ہے اور وہ نیر مسعود ہے کہ جن کی کہانیوں کی قدر باہر بھی کی جائے گی۔لیکن عینی آپا کے بارے میں تو تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ، اچھا جتنا وہ واقف تھیں تاریخ سے، مابعد التاریخ سے، آرکیالوجی سے، دیومالا سے، فنون سے، فلسفہ سے ، ہمارے یہاں فکشن لکھنے والے اتنے واقف نہیں ہیں۔یا تو اسکالرشپ آپ کے یہاں ہوئی تو وہ حاوی ہوجاتی ہے ، لیکن اسکالرشپ کو آرٹ بنادینے کی، فکشن بنادینے کی صلاحیت ہمارے یہاں سب سے زیادہ عزیز احمد، قرۃ العین حیدر اور نیر مسعود میں اب دکھائی دیتی ہے۔ باقی ذاتی تو ان کی بہت سی باتیں ہیں، مثلاً وہ کھانا کس طرح کا کھاتی تھیں ، باتیں کس طرح کی کرتی تھیں، یہ تو بالکل ذاتی معاملہ ہے۔البتہ ان کے سلسلے میں بعض چیزوں سے مجھے تکلیف پہنچی، مثلاًایک تھیسس میرے پاس پاکستان سے آیا، میں تو اسے رجیکٹ کردیتا ، لیکن محنت کی تھی اس طالب علم نے اور ایک صاحب میرے جاننے والے اس کے سپر وائزر تھے تو میں نے اسے اپروو کردیا اس شرط کے ساتھ کہ وہ چھپے گا نہیں اس شکل میں۔اس نے ان کی شادیاں کرادیں، اور تین چار شادیاں کہ پہلی اس سے ہوئی، فلاں اس سے، فلاں اس سے۔میں نے کہا کہ بھئی یہ بد تمیزی ہے۔عینی آپاہوتیں تو آپ کا جینا حرام کردیتیں ، آپ کو بخشتیں نہ وہ، اور دو چار مقدمے آپ پر دائر ہوجاتے۔عینی آپا کے بارے میں لوگوں نے قیاس آرائیاں بہت کیں اور جھوٹے واقعات بہت گڑھے، مثلاً یہی کہ وہ بہت بدمزاج ہیں۔اتنی ہنسوڑ خاتون اور اتنی دلچسپ گفتگو کرنے والی ہم نے کم دیکھی ہیں۔جہاں بیٹھیں، قہقہے گونجتے، خود بھی قہقہے لگاتیں۔اور اسی کے ساتھ ان کے یہاں ایک غیر معمولی رکھ رکھاؤ تھاملنے ملانے میں۔بہت سی باتیں ہیں، میں انشا اللہ ان کی ذاتی زندگی کے بارے میں لکھوں گا مضمون تو آپ دیکھیے گا۔
تصنیف حیدر:کیا علم آپ کے نزدیک فہم کے بغیر ایک بے کار محض شے ہے؟
شمیم حنفی:ہاں ! علم کے معنی ہی یہ ہوتے ہیں ۔اول تو جسے ہم علم کہتے ہیں وہ سب معلومات ہیں، معلوم ہے، علم تو ہمارے یہاں کتنے لوگوں کے پاس ہوتا ہے۔اور ظاہر ہے کہ فہم کے بغیر تو واقعی بالکل بے کار ہے علم۔جیسے کھانا آپ نے بہت اچھا کھا لیا، ہضم نہیں کرسکے تو جو حال آپ کا ہوگا وہ آپ اپنے آپ سے پوچھ کر خود اندازہ
لگائیے۔بعض لوگوں کو میں دیکھتا ہوں کہ سوجھ بوجھ نہیں، بصیرت نہیں۔یہ خوبی مجھے عسکری صاحب میں سب سے زیادہ دکھائی دیتی ہے۔عسکری صاحب کے یہاں جذب کرنے کی علم کو جو کیفیت تھی،کمال تھی۔(ن۔م)راشد کا جب نمبر نکلا تھا ’شعر و حکمت کا‘ تو انہوں نے ایک خط لکھا تھا۔انہوں نے اس میں(عسکری صاحب کے لیے)لکھا تھا کہ فلاں صاحب نے تو علم کے دریا بہادیے ہیں اور اس طرح میری شاعری پر لکھا ہے جیسے یہ ساری باتیں ان پرہی اتری تھیں ، مجھ پر وارد نہیں ہوئی تھیں۔اور لکھا کہ مطالعہ جب تک آدمی کے باطن کا نور نہ بن جائے ، اس کے کوئی معنی نہیں رہ جاتے تو علم تو وہ ہے جو آپ کے باطن سے اجالے کی طرح جھلکتا ہے۔تو
اگر فہم نہ ہو تو علم کا کوئی معنی نہیں ہے۔فراق صاحب ایک لفظ کہا کرتے تھے felt reading، یعنی کتاب کو پڑھ کے آپ نے محسوس کتنا کیا،تو یہ بنیادی چیز تھی۔کوئی بھی علم بے کار ہے اگر وہ ہمارے تجربے کا حصہ نہیں بنتا ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں