ہفتہ، 31 جنوری، 2015

فکشن میرے عہد کا:محمد حمید شاہد

اردو افسانے کی تنقیدی کشاکش سے باہر پڑے ایک بڑے افسانہ نگار نیر مسعود پر ڈھنگ سے بات کرنا یوں آسان نہیں ہے کہ اس صنف کا ناقد تو اَفسانے کے حوالے سے اٹھنے والے وقتی رجحانات اور فکری رویوں پر بات کرکے الگ ہو جانا چاہتا ہے اور واقعہ یہ ہے کہ اس طرح کے فوری وسیلوں اور ہنگامی رویوں سے نیر مسعود کے اَفسانے کا کوئی رشتہ بنتا ہے نہ اس طرح اس کے اَفسانے کو سمجھنا ممکن ہے ۔ میں نے اس باب میں پہلے ہی گزارش کر رکھی ہے:
’’ اس کے ہاں اَفسانہ زندگی کے وسیع و عریض علاقے سے ایک قطعے کی صورت الگ ہوتا ہے ‘اپنے سارے تہذیبی رنگوں‘ تحیر اور اس اسرار کے ساتھ جو مَتن میں پوری طرح رچا بسا ہوتاہے۔ ایسی فضا رومان پرستوں کے ہاں ممکن تھی نہ ترقی پسندوں کے ہاں۔ علامت اور تجرید کا ڈھنڈورا پیٹنے والوں کی سانسیں تو دوصفحوں کے اَفسانے ہی میں اکھڑنے لگتی تھیں لہٰذا جو بھید بھنور نیر مسعود میں افسانوں کا وصف خاص ہے ‘ ان کے لیے بھاری پتھر ہوجاتا ہے جسے وہ چوم کر چھوڑ دیتے ہیں۔ چوں کہ ہمارے اَفسانے کی تنقید کسی ایک وقت کے مخصوص دورانیے میں ایک ہجوم یا گروہ کے وقتی رجحانات پر مباحث اٹھانے کی خوگر رہی ہے اس لیے نیر مسعود کے اَفسانے کی بھید بھری فضا اور تہذیبی مہک کے سرمائے کو سمیٹنے والی نثرسے نامانوس رہی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ نیر مسعود کے اَفسانے ایک پورے تہذیبی علاقے کی دریافت سے متشکل ہوتے ہیں ۔ کہانی کا مرکز اس کے ہاں مَتن کے کسی ایک حصے میں نہیں بلکہ لا مرکز میں ہوتا ہے ۔ یہی سبب ہے کہ اس کی کہانیاں پڑھنے کے بعد قاری کا دھیان کسی فکر‘ خیال یا احساس کے تعاقب میں نکل کھڑا ہوتا، نہ واقعات میں علت ومعلول کے رشتے تلاش کرنے لگتا ہے بلکہ یوں ہے کہ بیان ہونے والے زمانے ‘ دکھائے جانے والے مناظر اور تراشے جانے والے کردار قاری کے وجود کا حصہ ہو جاتے ہیں۔ ‘‘ (۱)
جی، جس قاری کی یہاں بات ہو رہی ہے ، وہ ذرا الگ مزاج کا ہے۔ اچھا، اس مزاج کے قاری کو آپ اس نوع کے افسانے سے الگ کرکے دیکھنے کاتصور بھی نہیں کر سکتے جسے لکھنا محض اور صرف نیر مسعود کا وتیرہ ہے ۔ جب وہ ’’معیاری ادب‘‘ اور ’’معتبر قاری‘‘ جیسی اصطلاحات وضع کر رہا ہوتا ہے تو نہ صرف وہ ادب کی ذیل میں بالعموم شمار کی جانے والی بہت ساری تحریروں کورد کررہا ہوتاہے ، انہیں غیر معیاری کے خانے میں بھی رکھ دیتا ہے ، انہیں بے حیثیت سمجھتا ہے اور اس طرح کے نام نہاد ادب کے قاری کو ’’عام قاری ‘‘کہہ کر اس سے تخلیقی سطح پرکوئی تعلق قائم نہیں کرنا چاہتا۔ میں شاید ذرا ڈھنگ سے نیر مسعود کی بات سمجھا نہیں پایا ہوں ۔ کیا یہ مناسب نہ ہوگا کہ اس کے تخلیقی قرینے کو سمجھنے کے لیے پہلے اس کے نکتہ نظر کو اسی کے لفظوں میں سمجھنے کی کو شش کی جائے ۔ نیر مسعود نے یہ باتیں کچھ سوالوں کے جوابات دیتے ہوئے کہی تھیں۔ ایک سوال کے جواب میں اس کا کہنا تھا:
’’اصلاً سب سے پہلے افسانہ نگار خود اپنا قاری ہوتا ہے ۔ وہ اپنے آپ کو معتبر قاری جانتا ہے اور اپنے پر دوسروں کا قیاس کرکے سمجھتا ہے کہ جو تحریر اُسے پسند آئے گی اس کو دوسرے معتبر قاری بھی پسند کریں گے۔ بعد میں یوں بھی ہوگا کہ جو قاری اُس کی تحریر کو پسند کریں گے انہیں وہ معتبر اور جو پسند نہیں کریں گے انہیں غیر معتبر سمجھ لے گالیکن افسانہ لکھتے وقت وہ اپنی ، یعنی معتبر قاری ، پسند کو نظر میں رکھے گا۔‘‘ (۲)
صاحب ، یہ بیان جو میں نے اوپرمقتبس کیا ہے ، اگرکسی نے نیر مسعود کے افسانے کو ڈھنگ سے نہیں پڑھا ، اوراس کا ایک معتبر قاری ہونے کے لیے جن جن کٹھن مقامات سے میں گزرا ہوں ، وہاں سے نہیں گزرا ،تو ممکن ہے وہ اس میں سے کوئی مضحک پہلو نکال لے کہ اِس میں تو اپنی ڈھب کے قاری کو ہی معتبر مانا گیا ہے ۔ ہاں، یہ بیان ایسے ماحول میں مضحک ہو سکتا ہے کہ جس میں ہر لکھنے والا اپنے آپ کو ’’معتبر ‘‘ سمجھتا ہو ۔ خیر،اِس جواب میں ایک سامنے کی بات ہے اور وہ یہ کہ نیر مسعود سب کے لیے نہیں لکھتا صرف اورمحض اپنے قاری کے لیے لکھتا ہے ۔
یاد رہے ، یہاں میں بات افسانے کی کر رہا ہوں ، ورنہ نیر مسعود نے اور بھی بہت سی تحریریں لکھ رکھی ہیں۔ میں نے، اس کی افسانے کی تنقید سمیت ان میں سے کچھ کو پڑھا ہے، ان تحریروں سے لطف کشید کرنے یا معنی اخذ کرنے کے لیے ، مجھ کچھ زیادہ ردو قبول سے گزرنا نہیں پڑا جتنا کہ اس کے افسانے پڑھتے ہوئے اس کے بیانئے کے آہنگ سے مانوس ہونے کے لیے (کم از کم اس مدت کے لیے کہ جب تک میں ان افسانوں کے ساتھ رہتا) خود کو بدل لینا پڑا ہے ۔ ان کے مضامین(۳) اور انیس(۴) پر الگ سے چھپنے والا کام میری نظر میں ہے یہ یقیناًلائق توجہ ہے ، اور افسانے کی مختصر سی تنقید بھی،۔ یہ سب تحریریں کسی الگ یا معتبر قاری کی تلاش میں نہیں ہیں ۔ تاہم مجھے نیر مسعود کے افسانوں کے باب میں تسلیم کرنا ہوگا کہ جس نوع کے یہ افسانے ہیں انہیں بس وہی لکھ سکتا تھاا ور انہیں ایک معتبر قاری ہی چاہیے ۔
نیر مسعود نے ہمیشہ موضوع کے مقابلے میں ہیئت کو اہمیت دی ، اور اسی نے اسے بالکل الگ مزاج کا تخلیق کار بنا دیا ۔ اچھا اس کا دعوا کرنے والے تو بہت ہیں کہ موضوع کو، اور فکر کو کہانی کی بنت میں دبا ہوا ہونا چاہیے ، مگر اردو کی کتنی کہانیاں ہیں کہ پڑھ چکنے کے بعد بھی ہم ان کے موضوع کی طرف نہیں لپکتے ان کی ہیئت کے اسیر رہتے ہیں ؟ میرا خیال ہے ، جب آپ ایسی کہانیاں تلاش کر نا چاہیں گے تو سوائے نیر مسعود کے ، شاید ہی کوئی اور نظر آئے ۔ نیر مسعود کے لگ بھگ سارے ہی افسانے ایسے ہیں جن کے موضوعات اوران کے بیانئے میں بہتی فکریات کو،(اگر کہیں وہ ہے ) تو ڈھنگ سے آنکا جا سکتا ہو ۔ کوئی بھی کہانی کہنے کے لیے عام طور پر اسے’’ راوی کردار‘‘ہی محبوب ہواہے ، ایک معتبر راوی ، جو کہانی کے وجود میں اتر کر سب وہ کچھ سوچ اور کر سکتا ہے ، جو خود افسانہ نگار کے اپنے مطالعے ،مشاہدے اورتخیل کا شاخسانہ ہوتا ہے۔ افسانہ ’’طاؤس چمن کی مینا‘‘ سے اقتباس ملاحظہ ہو:
’’ لکھنو میں میرا دل نہ لگنااور ایک مہینے کے اندر اندر بنارس میں آرہنا ، ستاون کی لڑائی ، سلطان عالم کا کلکتے میں قید ہونا، چھوٹے میاں کاا نگریزوں سے ٹکرانا ، لکھنو کا تباہ ہونا ، قیصر باغ پر گوروں کا دھاوا کرنا ، کٹہروں میں بند شاہی جانوروں کا شکار کھیلنا، ایک شیرنی کا اپنے گورے شکار کو گھائل کرکے بھاگ نکلنا، گوروں کا طیش میں آکر دروغہ نبی بخش کو گولی مارنا ، یہ سب دوسرے قصے ہیں ،اوران قصوں کے اندر بھی قصے ہیں ‘‘(۵)
اچھا، جس قسم کا راوی کردار نیر مسعود کو محبوب ہوا ہے اس کے لیے یہ دوسری نوع کے قصے بہت کم لائق اعتنا ہوئے ہیں کہ اس کی اپنی ساری توجہ ان بے حیثیت ہو جانے والے قصوں کے اندر رواں قصوں نے کھینچ رکھی ہے ۔ اندر والے ان قصوں کا بھی عجب قصہ ہے ۔ بظاہر دیکھی بھالی زندگی مگر ساتھ ہی ایک سرسراتا سرکتا ہوا بھید اور ماورائے قیاس علاقے سے وابستہ ہو جانے کی تاہنگ ۔ مجھے نہیں معلوم کہانی لکھنے سے پہلے نیر مسعود نے ان افسانوں کے سانچے یا نقشے بنائے تھے ، ان تفصیلات کو سوچا تھا ، جن سے یہ واقعات متشکل ہوئے یا ان جزئیات کو ذہن میں مرتب کیا تھا،جو کسی بھی واقعہ کی تفصیلات کو فکشن کے بیانیہ میں ڈھال رہی ہیں ۔ مجھے نیر مسعود اس قبیل کے افسانہ نگاروں میں سے لگتا ہی نہیں جو محض اور صرف کہانی کے پہلے جملے کے انتظار میں رہتے ہیں اور جوں ہی وہ جملہ لکھ لیتے ہیں، کہانی ، خود ان کی انگلی تھام کررواں ہو جاتی ہے۔ نہ مجھے وہ ایسے افسانہ نگاروں میں سے معلوم ہوتا ہے جو ایک خیال جھپاکے کو لے کر کہانی بنا لیا کرتے ہیں ، یا جہاں انہیں پہنچنا ہوتا ہے کہانی وہاں سے آغاز دے کر سارا ماجرا اوندھا لیا کرتے ہیں ۔ کہانی لکھنے کے یہی معروف چلن ہیں مگر ہو نہ ہو نیر مسعود پہلے کہانی کا ایک خاکہ بناتا ہے ، ایک صفحے کا نہیں یہ خاکہ بھی کئی صفحوں کا ہوتا ہوگا ۔ میں نہیں کہتا کہ کہانی مکمل ہونے کے بعد بھی وہ ویسی ہی ہوتی ہو گی ہے جیسا کہ اس نے خاکہ بنایا ہوتا ہے تاہم اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جس طرح سہج سہج وہ لکھتا ہے، سوچ سوچ کر واقعہ آگے بڑھاتا ہے، تفصیلات بیان کرتا اور ان کی جزئیات کے قدرے نامانوس پہلوؤں سے بیانیہ میں جادو سا بھرتا ہے، اس سے کہانی میں وہ تندی اور اکھڑ پن رہتا ہو گا، جو کہانی کو کہیں اور لے چلے، جی میں کہانی کی جس تندی اور تانت کی بات کر رہا ہوں،وہ اس رواں زندگی سے پھوٹتی ہے جس کے ہم مقابل ہورہے ہوتے ہیں کہ افسانہ نگار کی منصوبہ بندی اس کے امکانات معدوم کر دیتی ہے ۔
صاحب ،یہ جو میں نے ایسا کہا ہے تواس لیے کہ جس ہیئت کو وہ مانتا ہے ، اس کے بھید میں پوری طرح نہیں جان پایا ہوں تاہم رہ رہ کر میرا دھیان امام جعفر صادق اور جابر بن حیان کی اس بحث کی طرف جاتا رہا ہے جس کا ایک ٹکڑا نیر مسعود نے اپنے افسانوں کے مجموعہ’’سیمیا‘‘ کے آغاز میں ہمارے پڑھنے اور اپنے اپنے ظرف کے مطابق معنی اخذ کرنے کے لیے بہ طور مقدمہ(۶) دے دیا ہے ۔
جعفر صادق نے کہا تھا :
’’اے جابر آیا تم دیوار کے اوپریہ نقش دیکھ رہے ہو اور مشاہدہ کر رہے ہو کہ یہ ایک منظم ہندسی شکل ہے؟ تم اس نقش کے مشاہدے سے لذت حاصل کر رہے ہو لیکن اس لیے نہیں کہ تم علم ہندسہ سے واقف ہو۔۔۔ بلکہ اس وجہ سے کہ تم اسے منظم پارہے ہو، کہ یہ ایک مکمل نقش ہے ، ۔۔۔ جو لوگ علم ہندسہ سے کوئی واقفیت نہیں رکھتے وہ بھی اس نقش کو دیکھ کے محظوظ ہوتے ہیں ۔ کیوں کہ اسے منظم اور کامل پاتے ہیں ۔ ۔۔ اگر یہ نقش ، جسے میں اور تم دونوں دیکھ رہے ہیں ، غیر منظم ہوتا ۔۔۔تو کیا اس صورت میں بھی ہم اسی طرح اس کے مشاہدے سے محظوظ ہو رہے ہوتے ؟ ۔ ‘‘
جابر بن حیان کا جواب تھا:
’’ نہیں ‘‘
’’سیمیا‘‘ کے افسانے پیش کرتے ہوئے عین آغاز میں یہ جو مکمل نقش کاحوالہ آیا ہے اس کی بابت میں نے ایک تو اپنے تئیں یہ گمان کیا کہ ہو نہ ہو افسانہ نگار نے اپنے افسانوں کے لیے جوہمیشہ مکمل نقش سوچے ہوگے۔ دھیان میں اسی کتاب والے نام کے افسانے ’’سیمیا‘‘ (۷)کا درشت آنکھوں والا وہ بچہ آگیا ہے جس کے دونوں ہاتھ غائب تھے ۔ ہاتھوں کے بغیر پیدا ہونے والے اسی بچے کے لیے افسانے کے راوی کردار نے دیوار پر ہاتھوں کے نقش بنا رکھے تھے۔ بچہ دیوار کے ساتھ چپک کر کھڑا ہوجاتا تو نقش کے سیاہ ہاتھوں کی جڑیں ٹھیک اس کے کندھوں سے مل جاتیں ۔گویا نقش مکمل ہو جاتا۔
تاہم یوں ہے کہ بہت جلد یہ کہانی بھی اِس قول کے ہندسی سانچے سے الگ ہو کر افسانہ نگار کی اپنی طے کی ہوئی ڈگر پر چل نکلتی ہے۔ کہانی کے وسط سے کچھ پہلے یہ نقش پہلے کی طرح پھر ادھورارہ جاتا ہے۔ نیر مسعود کی کہانی کا محض یہ ایک پڑاؤ ہے کہ اس میں وہ ایک غرقاب دوشیزہ، اور اس کی علامتی قبر کے علاوہ سیاہ کتا اور اس کا مالک بھی داخل ہو چکے ہیں جو کہانی کو ایک نئی ڈگر پر ڈال دیتے ہیں ۔اب اس کہانی کا حصہ ہے ایک مردہ میدان اور اس کی ویرانی ،ایک مکان جس کی ایک دیوار پر ہاتھوں کے نقش تھا اور جس کے دور افتادہ حصوں میں اس کا سامان ٹٹولا گیا تھا ، جی وہی مکان جو کہانی کے اس راوی کو چھوڑ دینا پڑا کسی کو اپنامالک جان کر، افسانہ یہ نہیں بتاتا کہ کتے کو مالک کو راوی کردار نے اپنامالک کیوں کہا ۔ بس وہ اس کے پیچھے پیچھے چپکے سے چلتا رہا۔ اس افسانے میں وہ محل بھی ہے،جو کہانی کا اہم پڑاؤ بنتا ہے،۔ وہ محل قدیم نہ تھا، دِکھتا قدیم تھا۔ زمین میں دھنسے چلے جانے کا احساس دلانے والا مگر عجب طرح کے بھید اچھالنے والا۔ حتی کہ کہانی میں سیمیا کا وہ نسخہ سامنے آتا ہے جس میں ایک ہڈی کو فضا میں لہرانے سے بادل امنڈ کر آتے اور برس کر نکل جایا کرتے ہیں ۔
یہ ایسی کہانی نہیں ہے جسے زندگی کی ایک قاش کہا جائے، کہ اس ایک قصے میں کئی قصے ہیں ۔معذوربچہ جان دے دیتا ہے تو ایک قصہ مکمل ہو تا ہے ۔ جس دوشیزہ کا کوئی تعاقب کر رہا تھا ، خاکستری پھولوں والے درخت کے نیچے بیٹھے گاؤں والوں کو ملنے والی ،وہ اس پار جانے کی للک میں پانیوں کا رزق ہوگئی اوراس کا غرقاب بدن نہیں ملا مگر اس کی علامتی قبر بنا لی گئی تو ایک اور کہانی بھی مکمل ہو گئی ۔ جب سیاہ کوا ،سیاہ بلی اور سیاہ بلی ، سیاہ کتے کا رزق ہو گئی اور وہ ہڈی حاصل کر لی گئی جسے فضا میں لہرانے سے بادل پلک جھپکنے میں افق پر ظاہر ہوتا اور سروں کے اوپر سے برستے ہو ئے گزرتا تھا ۔ ، پھر مرنے سے پہلے پاگل ہوجانے والے کتے کی لگائی ہوئی کھرونچ کے بعد کتے کے مالک کا تپ سے نڈھال ہو کر مر جانے سے بھی ایک اور کہانی مکمل ہوجاتی ہے ۔ کوئی نقاد چاہے تو اس افسانے کے ہر پڑاؤ سے کچھ نہ کچھ معنی اخذ کر سکتا ہے ،میں بھی ایسا کر سکتا ہوں ، مگرکروں گا نہیں کہ ٹکڑوں میں بٹے یہ معنی زندگی کی کسی ایک تفہیم کا دروازہ بہ مشکل ہی وا کرپائیں گے اور اس لیے بھی کہ افسانہ پڑھتے ہوئے میرادھیان اس طرح کے جتن ایک طرف رکھ دیتا ہے کہ جو چیز پڑھنے والوں کو اپنا اسیر رکھتی ہے وہ اس کی ہیئت ہے ۔
نیر مسعودکے خاکے اگر آپ نے پڑھ رکھے ہوں گے ، جی ’’ادبستان‘‘ (۸)کے ذریعہ سامنے آنے والے چند شخصی خاکے ، تو میری طرح آپ نے سوچاہوگا کہ ان میں سے کچھ کو تو افسانے کی ذیل میں بہ سہولت رکھا جاسکتا تھا۔ کیا ہوا نام حقیقی شخصیات کے تھے ، مگر جس طرح انہیں لکھا گیا تھا ، فکشن کی زبان میں اور اختصار کے ساتھ ، وہ افسانے ہی تھے۔ رشید حسن خان والا خاکہ، ڈاکٹر کیسری کشور والا اور دوسرے ۔ خیر، میرا دھیان ان خاکوں کی طرف یوں گیا کہ ان کی طوالت مناسب رہتی ہے۔ اتنی، کہ جتنی کسی افسانے کی ہو سکتی ہے۔ خاکے میں شخصیت کا جادو واقعہ کے بہاؤ کے زور پر چلتا ہے، بالکل اسی طرح کرداروں اور واقعات کو افسانے میں برتا جاتا ہے۔ ان خاکوں میں فردکی زندگی کا ایک معنوی دائرہ مکمل ہوجاتا ہے، افسانے میں کہانی بھی تو ایک دائرہ مکمل کیا کرتی ہے۔ اور آخر میں یوں ہوتا ہے کہ ایک مانوس فضا میں رہتے ہوئے آدمیت کی توقیر میں کچھ اور اضافہ ہو جاتا ہے یازندگی کی کوئی نئی جہت کھل کر سامنے آجاتی ہے ۔ نیر مسعود کے افسانے کا یہ وظیفہ نہیں ہے ۔ اس کے افسانے کی ہیئت بھی بالکل مختلف ہے اور فضا بھی۔ بلکہ بالعموم یہ انوکھی فضا بندی ہی ہے جو اس کے افسانے کی ہیئت کو موضوع سے بے نیاز کردیتی ہے۔ اس کاطاقت ور تخیل ،اس کے راوی کردار کو اپنی مانوس زمین سے اٹھا کر ایک بھید بھری فضا میں پہنچادیا کرتا ہے۔ مثلاً دیکھیے ’’سیمیا‘‘ (۹)کا راوی کردار جس مکان میں رہ رہا ہے ، یا پھر جہاں اسے یہ مکان چھوڑ کر رہنا پڑا ہے وہ کتنا نامانوس ہوگیا ہے۔ یا پھر افسانہ ’’اوجھل‘‘(۱۰) کے واحد متکلم کو ایک مانوس فضا چھوڑ کر جس طرح کے مکانات میں اپنے خوفوں اور خواہشوں کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلنا ہوتی ہے ، یہ سب کچھ اجنبیانے کا ایسا عمل ہے جس میں سے ماورائیت کا عنصر جھلک دینے لگتا ہے ۔’’ اوجھل ‘‘میں جنس ، خواہش کی شدت کی تظہیر کا وسیلہ ہوکر ایک الگ طرح کا مزا دیتی ہے ۔ عمر میں دوسال بڑی عورت کا بھرپور جسم ، جو دور کے رشتے میں ہمارے راوی کی خالہ ہوئی ، بزرگانہ انداز میں ملنے والی ، مگر اپنے نہائے ہوئے بدن سے اپنا قصہ کہنے والے کے بدن کے اندر خواہش کی شدت رکھ دینے والی۔ کہانی میں یہاں تک فضول عورتوں سے بھرا ہوا گھر ہے ، لہذا ماحول اجنبی نہیں لگتا ، جب خواہش’’ کوئی دیکھ لے گا‘‘ کی تکرار سے مات کھاتی ہے تو وقت کی وہ رفتارجو مکانوں کے اندر ہے ، اس وقت کی رفتار سے مختلف ہوتے محسوس کی گئی ہے ،جو باہر رواں دواں ہوتا ہے ۔ بلکہ ’’میں ‘‘ کا یہ کردار تو اس یقین کا اظہار بھی کرتا ہے کہ ایک ہی مکان کے مختلف حصوں میں وقت کی رفتار مختلف ہو سکتی ہے۔ ایک مکان سے نکلنے کے بعد اور دوسرے مکان تک پہنچنے ہوئے ماحول اجنبیانے، اس میں بھید بھرنے اورقاری کے تجسس کوبڑھانے کے عمل میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ اس باب میں افسانہ’’اوجھل سے یہ ٹکڑا ملاحظہ ہو:
’’ دوسرے دن میں ایک اور مکان کے سامنے کھڑا ہواتھا ۔ اس کادروازہ بھی بند تھا لیکن مجھے ایسا محسوس ہوا کہ وہ کسی کھلی ہوئی بے باک آنکھ کی طرح میری آنکھوں کو گھور رہا ہے۔ کچھ دیر بعد میں اس مکان کے اندر گھوم رہا تھا ۔ مجھے اس کے ایک حصے میں جاتے ہوئے ایک جگہ خوف کا احساس یوا ۔ اب مجھے دوسرے احساس کا انتظار تھا اور یہی ہوا کہ مکان کے ایک اور حصے میں پہنچ کرمجھے محسوس ہونے لگا کہ میری کوئی بڑی لیکن نامعلوم خواہش پوری ہونے کو ہے‘‘(۱۱)
افسانے کے آخر تک پہنچتے پہنچتے یہاں بھی کئی کہانیاں مکمل ہوتی ہیں ۔ کئی مکان بدلتے ہیں ۔ خواہش اور خوف کے کئی تجربے ہوتے ہیں ۔ حتی کہ وہ مقام آجاتا ہے کہ افسانے کا راوی بولنا ترک کر دیتاہے ۔ اس کا بستر خوف کے ٹھکانے کے اوپر ہے اور اسے گمان ہے کہ جہاں خوف ہے اس کے پاس ہی کہیں خواہش کا ٹھکانا بھی ہے۔ یا پھر شاید خوف اور خواہش کا ایک ہی ٹھکانا ہے ۔ جب تک اس کی تیمار دار کو اس سے ملایا جاتا ہے، تب تک وہ خوف اور خواہش کے اصل ٹھکانوں کو شناخت کر چکا ہوتاہے ۔ ایسے میں وہ خواہش اور خوف کے ٹھکانوں کو ذہن میں رکھ کر اس بات کا اہتمام کرتا ہے کہ اپنی حفاظت بھی کرے اور اپنی تیمار دار کی بھی ۔ میں نے یہ جملے پڑھے تو متن سے معنی بھی چھلک پڑے تھے مگر جب میں نے انہیں افسانے کے پورے متن سے جوڑنا چاہا تو اس افسانے کی شاندار ہیئت کے مقابلے میں بہت ہیچ لگے تھے ۔
نیر مسعود کے افسانوں کے کردار ، اپنی لیے ڈھالی جانے والی فضا میں پہنچ کر ویسے نہیں رہتے جیسا کہ وہ عام زندگی میں ہوتے ہیں یا ہو سکتے ہیں ، افسانہ نگار کا بیانیہ انہیں مختلف کر دیتا ہے ، عجب طرح کا مختلف کہ بظاہر وہ ویسے ہی ہوتے ہیں جیسا کہ کوئی عام زندگی میں ہوتا ہے یا ہو سکتا ہے مگر بیانئے کی بنت کے اندر اس میں ایک عجب داخل ہو جاتا ہے ۔ مثلاً دیکھئے افسانہ ’’نصرت ‘‘(۱۲) میں بھی نسائی کردار ہیں، عام طرح کے نسائی کردار مگر وہ مختلف بھی ہیں ۔ کہانی کا ایک دائرہ مکمل کرنے والی اس بدکار عورت کو دیکھئے ، کہ جس کے قصے کو افسانے کے آغاز میں رکھا گیا ہے۔ کتنا عام سا کردار ہے۔ بے توقیر اور بے وقعت ہوجانے والی عورت کا کردارجس پر بدکاری کی تہمت ہے ۔ مگر جس طرح اس بدکارعورت کا قضیہ بڑوں کے سامنے لایا جاتا ہے۔ اس کی تفصیلات کو کئی جزئیات سے گوندھا جاتا ہے ، فضا بوجھل بنتی ہے ، بدکار عورت پانی کا گلاس خالی کرتی ہے ، راوی کا دھیان بڑوں کی گفتگو سے ہٹتا ہے اوراس قضیے کے بیان میں رخنے پڑ تے ہیں اس سے ایک اور طرح کی بدکار عورت وجود میں آتی ہے ۔بعینہ دوسرا نسائی کردار ،جو دراصل کہانی کے مرکز میں ہے ، یعنی ’’ نصرت‘‘وہ بھی وہ نہیں رہتا جیسا کہ اس طرح کی لڑکی کو ہونا چاہیے۔ وہ لڑکی جس کے پاؤں ایک گاڑی کے ٹائروں تلے کچلے گئے تھے ۔ جی، وہی نصرت جو چھوٹی پتیوں والے پرانے درخت تلے بیٹھی تھی اور جس کی زندگی میں غم خواری کاایک ایسا دن آیا تھا جو اسے نہیں بھول سکتا تھا ۔ کانچ کے اس گلاس کے ٹوٹنے کے بعد بھی نہیں کہ جس میں بدکار عورت نے پانی پیا تھا ،یا پھر کہانی کے راوی کردار نے اس بغلی دروازے کے دونوں پٹ مضبوطی سے آپس میں ملادیئے تھے، جس کے باہروہ بیٹھی ہوئی تھی ؛ سیاہ اوڑھنی کے نیچے مسخ ہو چکے پیروں والی نصرت ۔
افسانہ ’’مارگیر‘‘ (۱۳)کا مارگیر اگر چہ کہانی کا سب سے زیادہ توجہ پانے والا کردار ہے مگر وہ کہانی کا راوی نہیں ہے۔ اس کا راوی تو اسی مارگیر کا بعدمیں مددگار ہو جانے والا ’’میں‘‘ ہے جو قصے کو بیان کرتے ہوئے اس میں بھید بھرائی کررہا ہوتا ہے ۔ یاد رہے افسانہ’’ سیمیا ‘‘ کا واحد متکلم وہ مکان چھوڑنے پر مجبور ہوا جسے وہ اپنا مکان کہتا تھا، تو دریا کے نامانوس کنارے پر ایک اور مکان کا سیاہ ہیولا دکھائی دے رہا تھا، جس کے اندر بھی اندھیرا گھساہوا تھا ۔ بڑے دروازوں والا ، اوپر کو چڑھتے زینوں والا، جس میں ایسابوسیدہ بُرج تھا جس کے دروں کو لکڑی کے نئے پرانے تختے لگا کر بند کر دیا گیا تھا،وہ تختے چلتی ہوا کے ساتھ بجتے تھے ۔ اور ہاں اس میں اس محل کا بھی ذکر تھا جو بعد میں کہانی میں ایک کردار کی طرح در آیا تھا ، وہ جو بوسیدہ نہ تھا مگر یوں لگتا تھا کہ بوسیدہ ہوگیا تھا یا شاید وہ بنایا ہی بوسیدہ گیا تھا ، زمین میں دھنستا ہوا محل ۔ یاد کیجئے کہ افسانہ ’’اوجھل‘‘ کے مرکزی کردار ’’میں‘‘ کو بھی اپنا گھر چھوڑ دینا پڑا تھا ، اور اب میں مارگیر کا ذکر کر رہا ہوں تو بتاتا چلوں کہ اس کا راوی کردار بھی ایک مری ہوئی لڑکی سے بھاگ رہا تھا۔ مکان پیچھے رہ گیا ، نئی بستیاں پیچھے رہ گئیں اور جنگل سامنے تھا ۔ آپ نے دیکھا ہر کہانی میں واحد متکلم ہے ، گھر سے دور ہوکر کہانی کے قضیے سے نمٹنے والا ۔’’ مارگیر‘‘ یوں مختلف ہے کہ اس میں جنگل در آیا ہے تاہم ایسا نہیں ہے کہ اس میں بھید بھرے مکانوں کا ذکر سرے سے موجود نہیں ہے ۔ جب سامنے جنگل تھا تو مارگیر کا ’’میں‘‘ ذہن پر زور ڈال ڈال کر پیچھے رہ جانے والے اپنے مکان کے بیرونی کمرے میں سجے نوادر کی بابت سوچ رہا تھا ، دھات کا شیر جو پچھلی ٹانگوں پر کھڑا دھاڑ رہا تھا، سرخی مائل سیاہ مسالے کا بنا ہوا گھوڑا جس کے ہاتھ میں اب تلوار تھی نہ ترازو، سامنے کی دیوار والا کیکڑا ، جو ذرا سا چھونے سے ہلنے لگتا اور رینگتا ہوا معلوم ہوتا اور وہ چھوٹا سا محل ؛محرابوں ،ستونوں اور برجوں والا۔ گر کر کھنڈر ہو جانے والے کسی بڑے محل کا چھوٹا نمونہ یا پھر اس کی یاد گار۔ تو یوں ہے کہ عمارت اور اس کا نوادر والا کمرہ اس کہانی میں بھی کردار بنتے ہیں ۔ بھیدبھرے کردار۔ اس بھید کا ایک اور حوالہ نوادر والے کمرے کا آخری اضافہ وہ محمل ہے جسے ایک وحشی سا شخص وہاں لایا تھا ،کہانی کے ’’میں‘‘ نے اسے اپنی یادداشت کا آخری اضافہ کہا ہے کہ یہ وقوعہ اس کے ہوش سنبھالنے کے بعد کا تھا ۔ محمل لانے والے شخص کی شروع میں خوب خاطر تواضع ہوئی مگر بعد میں وہ رسوا کرکے نکالا گیا ، کیوں ؟ اس طرح کے سوالات کانیر مسعود کے افسانوں میں کوئی جوا ب نہیں رکھا جاتا ، بلکہ یوں ہے کہ اس طرح کے سوالات کے جوابات رکھنا ان افسانوں کی سرشت میں رکھا ہی نہیں گیا ہے ۔
ماجرا کہنا اپنی پوری جزیات کے ساتھ ، اور کہانی کے اندر سے ایک اور کہانی کو آغاز دے کر اس میں ایک الگ طرح کی فضا بنالینا نیر مسعود کے محبوب قرینوں میں سے ہے، سو یہاں بھی یہی ہوا ہے۔ رنگ برنگے کیڑوں کا ذکر۔ سانپوں اور اژدہوں کا کاٹنا۔ زہر کا اپنا اثر دکھانا۔ شکار کا تڑپنا۔ سانپوں کے سروں کو کچل دیا جانا۔ آدمیوں کا مر جانا یا بچ نکلنا۔ عجب طرح کی خوشبوؤں کا اٹھنا۔ زہرہ مہرہ سے علاج جسے بدن کازہر چڑھ جاتا ہے، آدمیوں کی زندگیاں بچانے والے زہرہ مہرہ کا آخر میں گم ہونا۔ ہجوم کا مارگیر کی طرف بڑھنا۔ ’’مارگیر مارگیر‘‘ کی سرگوشیوں کا اٹھنااور اس کے آنے پر سب کا دم سادھ کر دیکھنا۔ مارگیرکا کہانی کے آخر میں مکان کے اندرونی حصوں میں ،انہی سانپوں کے بیچ مردہ پایا گیا تھا، جن کے کاٹے کا وہ علاج کیا کرتا تھا:
’’ خالی بستر کے قریب فرش پر مارگیر پڑا ہواتھا۔ اس کا ایک ہاتھ آگے کو بڑھا ہوا تھا، دوسرا ہاتھ بستر کو اس طرح دبوچے ہوئے تھا کہ آدھا بستر نیچے کی طرف ڈھلک آیا تھا ۔‘‘(۱۴)
میں نہیں سمجھتا کہ پہلے کوئی موضوع سوچا گیا اور پھر اس افسانے کا ابتدائی نقشہ بنایا گیا۔ یہ نقشہ بنانے والی بات بھی میں نے نیر مسعود سے لی ہے۔ اچھا، یہ بھی نہیں کہوں گا کہ اس افسانے میں کسی موضوع کو برتا نہیں گیا تاہم یہ ماننا ہوگا سارے ماجرے میں ، اور قصوں کے اندر قصوں میں ، اس کی تفصیلات میں اور دور تک لے جاتی جزئیات میں، کوئی موضوع مضبوطی سے قائم نہیں کیا گیا ہے ۔ کہانی پڑھتے ہوئے محسوس تو ہوتا ہے کہ کچھ کہا جا رہا ہے، بہت اہم موت اور زندگی جیسا ، مگر علت اور معلول کا جبر متن کے بیچ رواں قصوں سے سانپ کی طرح سرک کر کہیں نکل جاتا ہے۔
’’گنجفہ‘‘ (۱۵)کی کہانیوں میں بھی اس تخلیقی چلن کو نہیں بدلا گیا ’’آزاریاں ‘‘ (۱۶)میں بس یوں ہوا ہے کہ کہانی کا راوی کردار گھر بدر نہیں ہوا باپ کا گھراس کی بہن کو چھوڑنا پڑا ہے ، سارے ناطے توڑ کر۔ یوں کہ ایک مدت بعد ملنا بھی خواب میں ملنے کا سا ہو جاتا ہے۔ تاہم ’’مسکینوں کا احاطہ‘‘(۱۷) کے ’’میں‘‘ کو گھر چھوڑنا پڑا اور ایسی فضا کا ناقابل یقین حد تک طویل عرصہ کے لیے حصہ ہونا پڑا ہے جس نے کہانی کو اس دھج کا افسانہ بنا دیا جیسا کہ نیر مسعودنے اسے بنانا چاہا ۔
افسانہ ’’ دست شفا‘‘ (۱۸)کو بھی نیر مسعود کا محبوب راوی ، روایت کر رہا ہے ۔ وہی ،جسے ہم راوی اور کہانی کے ایک کردار کے طور پرنہ صرف لگ بھگ نیر مسعود کے ہر افسانے میں شناخت کر چکے ہیں ،اس سے مانوس بھی ہو چکے ہیں۔ بتا چکا ہوں کہ افسانہ نگار نے اپنے اس محبوب راوی کا یہ مقدربنارکھا ہے کہ اسے بہ ہر حال ایک نہ ایک روز اپنے گھر کو چھوڑناہوگا اور ایک الگ طرح کی مشقت میں پڑنا ہوگا ۔سو ، اس افسانے کا راوی کردار بھی گھر سے نکلتا ہے ، یوں ، جیسے وہاں سے جنازہ اٹھایا گیا ہو۔ تاہم جس طرح افسانہ ’’مسکینوں کا احاطہ‘‘ میں، اپنی محبت کرنے والی ماں کو پیچھے چھوڑ کر احاطے میں جابسنے والے کی طویل گھر بدری کھلتی ہے، بالکل اسی طرح راوی کا اپنی مر جانے والی دلہن کا مقبرہ بنوا کر اس میں بند ہوجانا، کچھ اس طرح کہ لوگ دیوار پھاند کر اندر اتریں اور راوی کو اپنی دلہن کی قبر سے لپٹا غشی کی حالت میں دیکھیں، توایسا پڑھنے والے کواس لیے ہضم نہیں ہوتا کہ یہ والا واقعہ چہلم کے بعد ہو رہا تھا اور اس کے بیچ مقبرہ بنوانے کی مصروفیت بھی موجود تھی۔ خیر اس طرح کے واقعات کو جس طرح نیر مسعود نے جزیات سے افسانے کے بیانئے کا حصہ بنایا ہے ، وہ کسی جواز کے مطالبے کے بغیر اور کہانی کے مجموعی مزاج کے حوالے سے قبول کرنا ہی پڑتا ہے ۔
افسانہ ’’دُنبالہ گرد‘‘ (۱۹)کے وسط میں کسی کا بے ہنگام مرناہے ، درختوں کے جھنڈ میں ، اور مرنے والا اپنے پیچھے ہاتھ کے کرگھے پر بُنے ہوئے کپڑے کا مضبوط تھیلا چھوڑ جاتا ہے جس میں دوائیں ہیں، رسیدیں اور خطوط ہیں ۔ یہ سب کچھ اس کہانی کے’’ راوی کردار‘‘ نے خوف زدہ ہو کر جلا ڈالا ۔ اس کہانی کا مزاج بھی ان واقعات نے نہیں بلکہ اس کے راوی اور بیانئے نے بنایا ہے ۔ افسانہ ’’ کتاب دار‘‘ (۲۰)کا راوی کہانی سے باہر ہے شاید یہی سبب ہوگا کہ افسانہ طوالت سے بچ گیا ۔ تاہم ایک خاص فضا بنانے کو یہاں بھی کتاب خانے میں پڑی ہوئی کتابیں تیزی سے بوسیدہ ہو رہی ہیں ۔ کتاب دار کو صاف نظر نہیں آتاکہ اس بوڑھے کی آنکھیں دھندلا گئی ہیں۔ چھت سے کچھ آگے کو نکلا ہوا پرنالہ ٹوٹ پھوٹ گیا ہے اور بارش کا پانی دیوار سے ملا ملا بہتا ہے۔
افسانہ ’’گنجفہ‘‘ (۲۰)کی کہانی کو ’’خطوط مشاہیر‘‘ کے حوالے سے ایک عبارت درج کرنے سے شروع کیا گیا ہے ۔ ماں بیٹے کی اس کہانی کا راوی بیٹا ہے ، جسے ماں کے لاڈ نے اپنی زندگی میں کچھ کرنے نہ دیا ۔ ابا پہلے مر گیا تھا اس کی ماں کی کمائی کھاتے کھاتے؛ اب بیٹا ماں کی کمائی کھا رہا تھا ، اور ماں ہے کہ قسطوں میں اپنے وجود کو مرتا ہوا دیکھنے کے باوجود حوصلہ ہارنے پر تیار نہیں۔ اس بنیادی قصے میں بھی ایک اور قصہ بہت نمایاں ہوا ہے ، آتش بازی اوراگربتی کے بیچ ، پیپل والے مکان میں اپنے معذور ہو جانے والے باپ کے ساتھ رہنے والی حسنی کا قصہ ،جو آنے والے جاڑے میں تیس برسوں کی ہو جانے والی تھی ۔ بلکہ یوں کہنا چاہیئے کہ حسنی اور اس کے باپ لاڈلے کا قصہ۔ اس کہانی کا مزاج بنانے کے لیے جہاں مسلسل کھانسنے ، چکن کاڑھنے اور اپنے بیٹے سے بے پناہ محبت کرنے والی اماں کا کردار بہت اہم ہوگیا ہے، وہیں لاڈلے کا لکڑی کا صندوق، اس میں بھری ہوئی کترنیں، منجن کی شیشیاں، ہاتھ کے نمونوں کی کچی پکی نقلیں ، تام چینی کا تسلہ جس میں کبھی تیل میں تر بتر سیاہی مائل لکڑی کے بھدے بھدے بچھو اور گرگٹ ہواکرتے تھے، بھی کرداروں کا منصب ادا کر رہے ہوتے ہیں ۔
’’پاک ناموں والا پتھر‘‘ (۲۱) میں جو راوی کردار ہے ، اگرچہ وہ گھر سے ،بے گھر نہیں ہوا ، مگر یوں ہے کہ وہ بوسیدگی کی زد میں آئے ہوئے گھر کے اندر ہی اکیلا ہو گیا ہے۔ سو یہاں زنگ آلود قفلوں کے لیے زنگ آلود کنجیاں ہیں ۔پرانا سامان کاٹھ کباڑ کی طرح بکھرا پڑا ہے اور لکڑی کے صندوقوں میں گودڑ بھرے ہوئے ہیں ، انہیں میں سے ایک صندوق سے لمبی کترنوں میں لپٹی ہوئی بدرنگ تانبے کی بیضوی ڈبیا سے پاک ناموں والا وہ پتھربرآمد ہوتا ہے جو کہانی کے آخرسے ذرا پہلے یوں غائب ہوجاتا ہے جیسے ’’مارگیر‘‘ افسانے میں زہرہ مہرہ گم ہو گیا تھا ۔ تاہم آخر تک آتے آتے، پاک ناموں والا پتھر راوی کے ہاتھ لگ جاتا ہے؛ عین اس وقت جب اس کے سینے میں درد اٹھا تھا اور وہ سینہ سہلا رہا تھا ، کہ وہ تو ہمیشہ کی طرح اس کے گلے میں پڑا ہوا تھا ۔
ہم نیر مسعود کی کہانیاں پڑھتے چلے جاتے ہیں ، ایک ایک کرکے اور تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ وہ اپنی منطق سے واقعہ آگے بڑھاتا ہے ، اسے پہلودار بناتا ہے، اس کے سلسلہ واقعات میں سے علت و معلول کا رشتہ کسی حد تک منہا کرکے وہاں ایک طرح کا عجب رکھ دیتا ہے ، یوں کہ وہ کہانی کی رمز ہو جائے یا پھر رمز ہونے کا سوانگ بھرے۔بیانیہ علامتی لگے ،مگراس طرح کہ موضوع کھلنے نہ پائے اور ہیئت کی ہیبت قائم رہے۔ اور یہ ہیئت کی ہیبت ہی توہے جس نے نیر مسعود کو بالکل الگ دھج کا افسانہ نگار بنا دیا ہے۔
*235*
حوالہ جات
۱ ۔ محمد حمید شاہد، اردو افسانہ صورت و معنی، اسلام آباد، نیشنل بک فاؤنڈیشن،جولائی ۲۰۰۶ء ، ۲۱۳۔۲۱۴
۲ ۔ نیر مسعود،افسانے کی تلاش،کراچی، شہرزاد، جون ۲۰۱۱ء،۲۴
۳ ۔ نیر مسعود،منتخب مضامین،کراچی، آج،۲۰۰۹ء
۴ ۔ نیر مسعود،انیس(سوانح)،کراچی، آج،۲۰۰۵ء
۵۔ نیر مسعود،طاؤس چمن کی مینا،لکھنو،۱۹۹۸ء
۶ ۔ نیر مسعود،مقدمہ، مشمولہسیمیا،قوسین ،لاہور۱۹۸۷ء،۴
۷۔نیر مسعود،سیمیا(افسانہ) مشمولہ سیمیا،قوسین ،لاہور۱۹۸۷ء،۱۱۷۔۲۰۸
۸۔نیر مسعود،ادبستان(شخصی خاکے) ،کراچی، شہرزاد، جون ۲۰۱۱ء
۹۔نیر مسعود،سیمیا(افسانہ) مشمولہ سیمیا،قوسین ،لاہور۱۹۸۷ء،۱۱۷۔۲۰۸
۱۰۔ نیر مسعود،اوجھل(افسانہ) مشمولہ سیمیا،قوسین ،لاہور۱۹۸۷ء،۵۔۴۰
۱۱۔ نیر مسعود،اوجھل(افسانہ) مشمولہ سیمیا،قوسین ،لاہور۱۹۸۷ء،۲۱
۱۲۔ نیر مسعود،نصرت(افسانہ) مشمولہ سیمیا،قوسین ،لاہور۱۹۸۷ء،۴۱۔۶۰
۱۳۔ نیر مسعود،مارگیر(افسانہ) مشمولہ سیمیا،قوسین ،لاہور۱۹۸۷ء،۶۱۔۱۱۶
۱۴۔ نیر مسعود،مارگیر(افسانہ) مشمولہ سیمیا،قوسین ،لاہور۱۹۸۷ء،۱۱۵
۱۵۔ نیر مسعود،گنجفہ ،کراچی ،شہرزاد،۲۰۰۸
۱۶۔ نیر مسعود،آزاریاں(افسانہ)،مشمولہگنجفہ ،کراچی ،شہرزاد،۲۰۰۸،۲۱۷۔۲۲۸
۱۷۔ نیر مسعود، مسکینوں کا احاطہ،(افسانہ)،مشمولہگنجفہ ،کراچی ،شہرزاد،۲۰۰۸،۱۸۱۔۱۹۸
۱۸۔ نیر مسعود، دشت شفا،(افسانہ)،مشمولہگنجفہ ،کراچی ،شہرزاد،۲۰۰۸،۱۴۱۔۱۷۰
۱۹۔ نیر مسعود، دنبالہ گرد،(افسانہ)،مشمولہگنجفہ ،کراچی ،شہرزاد،۲۰۰۸،۱۹۹۔۲۱۶
۲۰۔ نیر مسعود، گنجفہ،(افسانہ)،مشمولہگنجفہ ،کراچی ،شہرزاد،۲۰۰۸،۵۔۴۰
۲۱۔ نیر مسعود، پاک ناموں والا پتھر،(افسانہ)،مشمولہگنجفہ ،کراچی ،شہرزاد،۲۰۰۸،۱۲۱۔۴۰ ۱
کتابیات
۱ ۔ محمد حمید شاہد، اردو افسانہ صورت و معنی، (تنقید) اسلام آباد، نیشنل بک فاؤنڈیشن،جولائی ۲۰۰۶ء
۲ ۔ نیر مسعود،سیمیا(افسانے)،قوسین ،لاہور۱۹۸۷ء
۳۔ نیر مسعود،طاؤس چمن کی مینا،(افسانے)،لکھنو،۱۹۹۸ء
۴ ۔ نیر مسعود،انیس(سوانح)،کراچی، آج،۲۰۰۵ء
۵۔ نیر مسعود،گنجفہ (افسانے)،کراچی ،شہرزاد،۲۰۰۸
۶ ۔ نیر مسعود،منتخب مضامین،کراچی، آج،۲۰۰۹ء
۷۔ نیر مسعود،افسانے کی تلاش(تنقید)،کراچی، شہرزاد، جون ۲۰۱۱ء
۸۔نیر مسعود،ادبستان(شخصی خاکے) ،کراچی، شہرزاد، جون ۲۰۱۱ء

کوئی تبصرے نہیں:

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *