تخلیق کاروں سے بات کرنے میں ہمیشہ کوئی اہم بات سامنے آتی ہے۔ان کی بے پروائی، ان کی لاابالی، ان کی سچائی اور ان کی گفتگو بہت کچھ سیکھنے سمجھنے کی جانب مائل کرتی ہے۔انعام ندیم کا نام ایسے ہی اہم تخلیق کاروں میں شمار ہوتا ہے۔وہ ایک بہت ہی اچھے شاعر ہیں، اور اس انٹرویو میں انہوں نے بڑی اہم بات یہ کہی کہ مشہور ہونا اچھے ہونے سے بہتر شاید کبھی نہیں ہوسکتا، بلکہ شہرت تو کبھی کبھی انسان کی تخلیقی صلاحیت کو شک کے گھیرے میں بھی لے آتی ہے۔یہ گفتگو امید ہے کہ آپ سبھی کو ضرور پسند آئے گی، کیونکہ اس میں انعام ندیم نے بہت سے اہم معاملات پر مختصر مگر اچھے جوابات دیے ہیں۔
تصنیف حیدر:غزل جیسی صنف میں اب تک جو تبدیلیاں آئی ہیں، اسلوبیاتی اور موضوعاتی سطح پر ، آپ اس سے کتنے مطمئین ہیں، اور آپ کس طرح کی غزل کو فی الواقعی غزل سمجھتے ہیں؟
انعام ندیم: ظفر اقبال صاحب کہا کرتے ہیں کہ 'غزل میں ظاہری طور پر تبدیلی نہیں کی جاسکتی، البتہ اسے اندر سے تبدیل کرنے کے پورے امکانات موجود ہیں' ــــ میں اس بات سے متفق ہوں۔ غزل کا سارا حُسن اس کے ردیف قافیے کی ترتیب اور بحروں کے نظام میں ہے، اگر آپ اسے تبدیل کرتے ہیں تو غزل، غزل نہیں رہتی؛ لیکن اسلوبیاتی اور موضوعاتی سطح پر اس میں تبدیلیاں لائی جاسکتی ہیں اور لائی جاتی رہی ہیں۔ خصوصا پچھلی نصف صدی میں ان دونوں حوالوں سے غزل میں جو تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں، اس نے اس صنف کو بے پناہ تازگی بہم پہنچائی ہے۔ غزل میں اب جو موضوعات بیان ہورہے ہیں وہ سراسر جدید حسیت کی دین ہیں۔ نئے شاعر کا ذہن بھی نیا ہے اور وہ نئی بات سوچتا ہے، لیکن اس سب کے لیے اسے غزل کی کلاسیکی روایت سے پوری طرح آگاہ ہونا چاہیے اس کے علاوہ زبان سے نہ صرف پوری واقفیت ہونی چاہیے بلکہ اس پر دسترس بھی۔ میں اُسی غزل کو فی الواقعی غزل سمھجتا ہوں جو یہ فنی تقاضے پوری کرتی ہے۔
تصنیف حیدر: شاعری میں تربیت کی اہمیت پر آپ کتنا زور دیں گے اور کیوں؟
انعام ندیم: لکھنے کے لیے پڑھنا شرط ہے، اور شعروادب کا مطالعہ ہی شاعر کی اصل تربیت کرتا ہے۔ اگرچہ شاعری آرٹ کے ساتھ ساتھ کرافٹ بھی ہے یعنی اس کے فنی تقاضے بھی ہیں جن کے لیے عروض جاننا ضروری ہے تاہم زمانہء قدیم کی طرح استادوں کی شاگردی اختیار کرنا میں ضروری نہیں سمجھتا ــــ جب آپ شاعری کا مطالعہ کرتے ہیں، اور اگر آپ کی طبع شاعری کے لیے موزوں ہے تو دھیرے دھیرے وزن اور بحر وغیرہ کی سمجھ آجاتی ہے ـــــ میری نظر میں شاعر کی اصل تربیت اس کے مطالعے ہی سے ہوتی ہے۔
تصنیف حیدر: نثری نظم کے تعلق سے آپ کے کیا خیالات ہیں، نثری نظم کے وہ کون سے شاعرہیں جو آپ کو بے حد پسند ہیں؟
انعام ندیم: نثری نظم کو میں شعری اظہار کا اہم وسیلہ سمجھتا ہوں۔ اب یہ بحث ختم ہوجانی چاہیے کہ نثری نظم شاعری کی صنف ہے یا نہیں ــــ خصوصاٍ ذیشان ساحل کی شاعری کے بعد یہ بحث بہت لا یعنی محسوس ہوتی ہے۔ ذیشان نے نثری نظم کے تقریباٍ تمام امکانات کو اپنی شاعری میں برت کر ہمیں دکھا دیا ہے اور یہ بتا دیا ہے کہ نثری نظم کا اپنا ایک شاعرانہ نظام ہے جو فکری اور جمالیاتی سطح پر، کسی بھی دوسری شعری صنف سے کسی طرح کم نہیں ــــــ بلکہ ایک اعتبار سے اُسے دوسری اصناف پر یہ فوقیت بھی حاصل ہے کہ نثری نظم میں کسی بھی موضوع کو شاعری بنایا جاسکتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں غزل کے شاعروں کو نثری نظم ضرور پڑھنی چاہیے، یہ ہمیں احساس کی ایک نئی پرت سے روشناس کراتی ہے جس سے غزل میں تازگی کا در کھُلتا ہے۔نثری نظم میں ذیشان ساحل اور سعیدالدین میرے بہت پسندیدہ شاعر ہیں۔ مصطفیٰ ارباب اور سید کاشف رضا بھی مجھے پسند ہیں، ان کی نظموں میں جو رومانویت کی لہر کہیں اندر ہی اندر بہتی ہے وہ مجھ ایسے غزل کے شاعر کو بہت مانوس معلوم ہوتی ہے ـــ مجھے نسرین انجم بھٹی کی نظمیں بھی بہت پسند ہیں۔
تصنیف حیدر: فکشن کے تعلق سے آپ کے خیالات کیا ہیں اور آپ کے عہد میں جو فکشن لکھا جارہا ہے، اس سے آپ کتنے واقف اور کتنے مطمئین ہیں؟
انعام ندیم: میں نے جب ادب کا مطالعہ شروع کیا تو اس کی ابتدا فکشن پڑھنے ہی سے کی تھی۔ لڑکپن ہی سے فکشن پڑھنے کی چاٹ ایسی لگی کہ آج بھی میرے مطالعے میں شاعری سے زیادہ ناول اور کہانی رہتی ہے۔ فکشن لکھنے والوں نے مجھے ان دیکھے جہانوں سے آشنا کیا اور زبان کے لطف سے آگاہی دی ــــ مثلاً عصمت چغتائی کو میں نے پہلی بار کوئی تیس برس پہلے پڑھا ہوگا لیکن میں آج تک ان کی تحریر کے جادو سے نہیں نکل سکا، وہ آج بھی میری پسندیدہ فکشن رائٹر ہیں۔ اسی طرح کرشن چندر، منٹو بیدی، قرۃ العین حیدر وغیرہ آج بھی اُسی طرح پسند جیسے اُس وقت تھے جب انھیں پہلی بار پڑھا تھا۔ رہی بات آج کے عہد کی تو صاحب آپ فاروقی صاحب کے ناول 'کئی چاند تھے سر آسماں' ہی کو لے لیجیے اور دیکھیے کہ کیسا بے مثال فکشن لکھا جارہا ہے۔ مرزا اطہر بیگ کے ناول 'غلام باغ' کو لے لیجیے ــــ حیران کردینے والا ناول ہے، یہ سب نیا اردو فکشن ہے ــــــ آج کل میں ایک اور جادوگر کی تحریروں کے سحر میں ہوں جس کا نام علی اکبر ناطق ہے، میں ان دنوں ناطق کا ناول 'نولکھی کوٹھی' پڑھ رہا ہوں ـــ مجھے اُن کے افسانے بھی بہت پسند ہیں۔
میرے ایک اورپسندیدہ فکشن رائٹر سید محمد اشرف ہیں جن کا تعلق ہندوستان سے ہے۔
تصنیف حیدر: اطہر نفیس،ثروت حسین، رئیس فروغ جیسے شاعروں کے اس قدر مشہور نہ ہوپانے کی کیا وجوہات ہیں، کیا یہ شاعر دوسرے اہم شعرا سے کس معاملے میں کم ہیں؟
انعام ندیم: بات یہ ہے تصنیف! مشہور شاعر ہونے سے زیادہ اچھا شاعر ہونا اہم ہے۔ کم از کم میرا تو یہی خیال ہےـــ اگر آپ اچھے شاعر ہیں تو آپ کا ذکر ضرور ہوگا، مثلاً ابھی جن تین شاعروں کے نام آپ نے لیے، اگر یہ عمدہ اور اہم شاعر نہ ہوتے تو آپ ان کا نام کیوں لیتے؟ پھر یہ بھی ہے کہ اردو کے بہت سے ''مشہور" شاعروں کی مقبولیت مشاعروں کی مرہونِ منت ہے یا ان گلوکاروں کی جنھوں نے ان کی غزلوں کو گا کر مقبول کردیا۔ لیکن اپنی تمام تر عوامی مقبولیت کے باوجود سنجیدہ ادبی حلقوں میں ان کا نام اور کام کسی اہم مقام کا حامل نہیں ہوتا ــــ دوسری طرف ایسے بے شمار شاعر ہیں جو شاید اتنے مقبول تو نہیں ہیں لیکن ان کے کام کی اہمیت اتنی ہے کہ اچھی شاعری کا تذ کرہ ان کے ذکر کے بغیر ادھورا رہتا ہے۔
تصنیف حیدر: پاکستان میں غزل کے مستقبل کے تعلق سے آپ کی رائے کیا ہے؟
انعام ندیم: میں سمجھتا ہوں غزل ایسی صنفِ سخن ہے جس کا مستقبل ہمیشہ روشن رہے گا کیونکہ شاعری کی طرف متوجہ ہونے والے نوجوانوں کی اکثریت غزل ہی کو اظہار کا وسیلہ بناتی ہے۔ یوں غزل کو نئی سوچ اور تازہ افکار کے حامل شاعر کسی بھی دوسری شعری صنف کی نسبت زیادہ میسر آتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ غزل کے ردیف قافیے کے نظام کے سبب، اپنے شعری اظہار میں شاعر اتنا آزاد نہیں ہوتا جتنا نظم میں ہوتا ہے، لیکن اس کے باوجود غزل میں نئے نئے اسلوب اور فکر کے زاویے سامنے آتے رہتے ہیں ــــ نئی غزل جو آج پاکستان میں لکھی جارہی ہے، کم از کم اپنے اسلوب اور اظہار کی سطح پر بہت عمدہ ہے۔ اب شاعروں کی اکثریت اپنے شعر کو تازہ بنانے اور اس میں کوئی نیا زاویہ پیدا کرنے کی کوشش کرتی ہے ـــــ صرف ایک چیز ایسی ہے جس میں پاکستان کے اکثر شاعر بہت ٹھوکر کھاتے ہیں اور وہ ہے زبان کا نہ جاننا ـــــ میں اس سے بہت بے مزا ہوتا ہوں۔ کاش ہمارے دوست تھوڑی سی توجہ زبان کی دُرستی کی طرف بھی دے دیا کریں۔
تصنیف حیدر: آپ کی غزل اپنا ایک الگ مزاج رکھتی ہے اور مجھے بہت پسند ہے، اس کے باوجود ناقدین کی گفتگوئوں اور تحریروں میں آپ کا ذکر کم ہے، آپ اس کی کیا وجہ سمجھتے ہیں؟
انعام ندیم: پسندیدگی کے لیے شکریہ، تصنیف! اب میں کیا عرض کروں کہ نقاد میرا ذکر کیوں کم کرتے ہیں۔ مجھے تو یہ یاد ہے کہ شمس الرحمٰن فاروقی جیسے جید نقاد نے مجھ پر تفصیل سے لکھا ہے، اسی طرح سے نئی شاعری کے سرخیل ظفر اقبال نے بار بار مجھ پر لکھا اور جابجا اپنی تحریروں میں میری شاعری کا تذکرہ کیا ہے ــــــ بات یہ ہے کہ کوئی بارہ برس ہوئے میرا شعری مجموعہ 'درِ خواب' شائع ہوا تھا، اُس پر ادھر اُدھر کافی بات ہوئی اور مضامین بھی لکھے گئے، لیکن ادھر کئی برس سے میں نے بہت کم لکھا ہے اور میری بہت کم غزلیں رسائل میں شائع ہوئی ہیں۔ نقاد آپ پر تبھی بات کرتے ہیں جب ان کے سامنے آپ کا نیا کام ہوــــ تو اس سب کی واحد وجہ میری اپنی سستی اور کاہلی ہے- ویسے میں آج کل پھر سے اپنی شاعری کو وقت دے رہا ہوں، جلد ہی آپ کو میری نئی غزلیں پڑھنے کو ملیں گی۔
تصنیف حیدر: جس عہد میں ہم سانس لے رہے ہیں، وہ انتشار کا عہد ہے۔ایسے میں ادب سماجی سطح پر کیا واقعی کوئی کردار نبھا سکتاہے؟
انعام ندیم: زندہ ادب وہی ہے کہ جس میں اس کا عہد سانس لیتا اور دھڑکتا ہوا محسوس ہو۔ لیکن ادب کا کام محض خبر دینا نہیں ــــ ادب نہ صرف اپنے عہد بلکہ گزرے ہوئے عہد کی بھی تصویر پیش کرتا ہے اور آنے والے زمانوں کی جھلکیاں دکھاتا ہے۔ ادب ہمیں مختلف تہذیبوں سے روشناس کراتا ہے اور سماج میں ہمارے کردار کو متعین کرنے میں ہماری مدد کرتا ہے۔
تصنیف حیدر: آپ اس وقت ہندوستان میں مقیم کون سے شاعروں کو جانتے اور پسند کرتے ہیں؟
انعام ندیم: یہ ایک دلچسپ بات ہے کہ بہ نسبت شاعروں کے، میں ہندوستانی فکشن رائٹرز سے زیادہ واقف رہا ہوں۔ ظاہر ہے یہ واقفیت ذاتی نوعیت کی نہیں، بلکہ میری مراد ہے ان کے ادب سے واقفیت ــــــ لیکن ادھر پچھلے چند برسوں میں مجھے متعدد ہندوستانی اردو شعراء کے کلام سے لطف اندوز ہونے کا موقع ملا۔ اس کا وسیلہ فیس بک اور دوسری سماجی رابطے کی سائٹس بنیں۔ میں یہ بات زور دے کر کہنا چاھتا ہوں کہ ہندوستان میں نہایت خوبصورت غزل لکھی جارہی ہے۔ اور میرے لیے ہندوستانی اور پاکستانی غزل کو الگ الگ کرنا ممکن نہیں۔ یہ ایک ہی تسلسل ہے۔سچ تو یہ ہے کہ ہندوستان سے میں صرف عرفان صدیقی اور شہریار جیسے معروف شعراء کے کلام ہی سے واقف تھا لیکن فیس بک کے ذریعے سے میری رسائی فرحت احساس، عادل رضا منصوری اور عالم خورشید تک ہوئی جن کی اکا دُکا غزلیں میں نے رسائل میں پڑھ رکھی تھیں، اور اب یہ سب میرے پسندیدہ شاعر ہیں۔ اسی طرح جن نئے ہندوستانی شاعروں سے میں حال ہی میں متعارف ہوا ہوں ان میں زیادہ تعداد نوجوان شعراء کی ہے ــــ مثلاًتصنیف حیدر آپ، ابھیشک شکلا، امیر امام، سالم سلیم، پراگ اگروال وغیرہ ـــــ ابھیشک شکلا کی غزل نے مجھے بہت متاثر کیا، ان سے اور امیرامام سے حال ہی میں کراچی میں یادگار ملاقات ہوئی تھی۔
تصنیف حیدر: اپنے شعری رویے کو اگر آپ خود بیان کریں ، اس کے اسباب و محرکات پر نظرڈالیں تو ہم آپ کے تخلیقی تجربے کے بارے میں بہت سی باتیں جان سکیں گے۔
انعام ندیم: میرا شعری رویہ (جو بھی وہ ہے) میری شاعری سے عیاں ہے۔ میری کوشش ہوتی ہے کہ میرے شعرسے اُس کیفیت کا اظہار ہوسکے جس کے تحت میں نے وہ شعر کہا ہے ــــــ میں نے اپنے طور پر اپنی شاعری کی ایک فضا بنانے کی کوشش کی ہے، لیکن مجھے اعتراف ہے کہ میں اسے زیادہ آگے نہیں بڑھا سکا۔ تاہم بُری بھلی جیسی بھی فضا بنا پایا ہوں، مجھے وہ پسند ہے۔شاعری میں جس چیز پر میں جان دیتا ہوں وہ زبان کا تخلیقی استعمال ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ میرے پسندیدہ شاعروں میں سارے وہ شاعر شامل ہیں جو عمدہ زبان لکھتے ہیں مثلاً احمد مشتاق، آفتاب حسین، اکبر معصوم اور نوجوان شعراء میں سے کاشف حسین غائر اور احمد شہریار۔ ظاہر ہے کہ اس فہرست میں اور بھی کئی نام ہیں۔
شاعری میرے لیے صرف تخلیقی تمانیت ہی کی چیز نہیں بلکہ حصولِ مسرت کا بھی ذریعہ ہے۔ میں شاعری کو بہت طاقتور چیز سمجھتا ہوں، یہ مجھے ٹوٹ کر بکھرنے سے بچاتی ہے اور بعض اوقات بکھرے ہوئے وجود کو پھر سے مجتمع بھی کرتی ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں