جمعرات، 29 جنوری، 2015

تصنیف حیدر سے دس سوالات


تصنیف نے اپنے بلاگ پر دس سوالات کا جو سلسلہ شروع کیا ہے اس سے ہم سب واقف ہیں ۔ ادھر کئی روز سے ایک کے بعد ایک بہت سی شخصیات نے ان دس سوالوں کا سامنا کیا ، کچھ لوگوں نے ان سوالات کےجوابات تفصیل سے دیئے تو کچھ نے رواروی میں ،کچھ نے جلد از جلد جوابات ارسال کر دیئے تو کچھ نے سوالات پر اچٹتی سے نظر ڈال کر انہیں کوڑے کے ڈھیر میں پھینک دیا۔ پھر بھی بہت سی ایسی اہم شخصیات ہیں جنہوں نے ان سوالوں کو پڑھا ان کی اہمیت کو جانا اور ان سوالوں کےتشفی بخش جوابات بہت علمی و فکری انداز میں پیش کئے۔ابھی یہ سلسلہ چل رہا ہے اور بہت سی اہم شخصیات سوالوں کو اپنے سرہانے رکھے ان کےمعقول جوابوں پر غور کر رہی ہیں۔ جیسے جیسے جوابات آتےجاتے ہیں وہ تصنیف کے بلاگ کی نذر ہو جاتے ہیں ۔ادھر جب کئی لوگوں سے تصنیف نے سوالات کئے تو کچھ کے دل میں ان سے بھی استفسار کرنے کا خیال پیدا ہوا۔ خیال اتنا نا مناسب بھی نہ تھا کہ جب آپ سنجیدہ لوگوں سے سنجیدہ معاملات پر گفتگو کرنے کے خواہاں ہیں تو آپ سے بھی سنجیدگی سےیہ اصرار کیا جا سکتا ہے کہ اپنے خیالات کا بھی اظہار کیجئے تاکہ آپ کو بھی علم ہو کہ یہ سوالیہ نشان کیا کچھ نہیں کہلوا لیتا۔ تصنیف سے یہ دس سوال تسنیم عابدی نے کئے ہیں۔ جوابات ملاحظہ فرمائیں۔

تسنیم عابدی: تم جوغزل میں طبع آزمائ کرتے ہو یہ مجبوری ہے عنفوان شباب کی مخموری ہے؟

تصنیف حیدر:شاعری کو ہی آپ بنیادی طور پر میری مجبوری کہہ سکتی ہیں۔ میں اپنی ذات کے اظہار کا اور کوئی راستہ جانتا ہی نہیں، موسیقی میں دلچسپی ہے، رقص کو پسند کرتا ہوں، پینٹنگز اور دوسرے تمام اہم اظہارکے ذرائع اچھے تو لگتے ہیں، مگر ان میں خود کو اتنا کامل نہیں سمجھتا کہ اظہار کرپائوں گا، اور اپنی ذات کا بھونڈا اظہار تو مجھے شاعری میں پسند نہیں تو ان ذرائع کی تو بات ہی اور ہے۔ آپ نے غزل کی شرط لگا دی ہے، ورنہ میں آپ کو بتاتا کہ غزل دراصل میرے اظہار کا مکمل راستہ کبھی نہیں بن سکی ہے اور نہ شاید بن سکے گی، مجھے یہ آزادی نظم میں ملتی ہے، مگر نظم میں اچھی کہہ نہیں پاتا، وہاں خیال کو برتنے، اسے بیان کرنے، اسے مبہم یا آسان طریقے سے قاری تک پہنچانے کے لیے جو سلیقہ درکار ہے، ابھی مجھ میں نہیں، ہوسکتا ہے کہ سو نظمیں کہوں تو پندرہ بیس ٹھیک ٹھاک بھی نکل آئیں، مگر غزل میرے ساتھ بچپن سے رہی ہے، میں نے شاید پانچویں چھٹی جماعت میں ہی کلاسیکی رنگ کی غزل کہنی شروع کردی تھی، مجھے یاد ہے کہ آٹھویں جماعت میں جب میرے ایک استاد نے مجھ سے کہا تھا کہ بھیا!سنا ہے تم شاعری واعری کرتے ہو، کوئی شعر سنائو،تو میں نے پورے اعتماد سے شعر پڑھا
مرا نظیر نہ عالم میں ہوسکا پیدا
مرے لیے ہی لگے نعرہ ہائے صد تحسین
استاد بے چارے اس رنگ پر ایسا بوکھلائے کہ مجھے بٹھادیا، بعد میں کئی بار اس واقعے کو یاد کرکے میں خود بھی محظوظ ہوتا رہا ہوں۔ اب عنفوان شباب کی جہاں تک بات ہے تو بھئی! یہ تو میری زندگی کے ایک خاص دور کے تجربات ہیں نا! اور آپ دیکھیے کہ کتنے سچے ہیں۔ صرف میرے تجربے نہیں، میری عمر کے دوسرے لڑکوں، میرے دوستوں، میرے دشمنوں سبھی کے روزمرہ کے تجربات ہیں۔ہندوستان میں اردو میں لکھنے پڑھنے والے نوجوانوں کی حالت زیادہ خراب ہے، ہم اچھا لکھتے پڑھتے ہیں، اچھی سمجھ رکھتے ہیں، یہ یہاں شاید دوچار لوگوں کے علم میں ہے، بزنس کرنے والے یا یونیورسٹی میں بیٹھے اساتذہ کو بھی اس سے کوئی شغف نہیں، ہمارے لیے اردو میں کوئی خاص راہ نہیں، کوئی کیرئیر نہیں، جھک مار کر ہمیں ایک طویل پڑھائی کے سلسلے سے گزر کر یونیورسٹی کی اسی دنیا میں آنا پڑتا ہے، جس پر ہم ہزار بار تنقید کرتے ہیں۔ مجھ پر دوسرے راستے اس لیے بھی بند رہے کہ مجھے لکھنے پڑھنے کے علاوہ کچھ آتا ہی نہیں، میں تو بینگن تک اچھے نہیں خرید سکتا۔ لیکن میرے یا مجھ جیسے لڑکوں کے پاس بھی تو دل ہوتا ہے، ان کی کچھ جسمانی اور روحانی ضرورتیں ہوتی ہیں۔ ہم تو پھر بھی اظہار کے راستے تلاش کرلیتے ہیں، جو نہیں کرپاتے وہ چور اچکے، بدمعاش، اٹھائی گیرے یا زناکار بن جاتے ہیں، کیونکہ سماج یا مذہب کسی نے بھی انفرادی طور پر کسی انسان کی زندگی میں پیدا ہونے والے مسائل کا پس منظر جاننے کی کوشش نہیں کی، ورنہ ہم دیکھتے کہ جو لوگ ہماری زمین پر گمراہ، مجرم یا بیمار ذہنیت کے لوگ کہلاتے ہیں،وہی اگر ایسے کسی ملک میں پیدا ہوجاتے، جہاں انسان کے بنیادی حقوق کا خیال رکھا جاتا ہے توان کی شخصیت ہی کچھ اور ہوتی۔سو عنفوان شباب کے حاشیے پر پڑی ہوئی اس شاعری میں دراصل ایسی چیخیں اور ایسے احتجاج موجود ہیں، اس لیے میں اسے مخموری نہیں سمجھتا۔ زمین پر سونے والے آسمان کی باتیں نہیں سوچ سکتے اور وہ تو بالکل نہیں جن کی پیٹھ سے کھردری زمین چپکی ہوئی ہو۔

تسنیم عابدی:ایک ادیب کو کیا بے پروا ہونا چاہئے؟ اور یہ بے پروائ کیا قاری ،ادب یا تنقید نگار سے ہونی چاہئے یا تینوں سے بے رخی درست ہے؟

تصنیف حیدر:کسی بھی ادیب کا بے پروا ہونا دراصل ایک قسم کا ڈھونگ ہوتا ہے۔اول تو جو ادیب ہے،وہ قاری، ادب یا تنقید نگار تینوں سے بے پروا ہوہی نہیں سکتا۔وہ لوگ جو بے نیازی کے طوق گلے میں ڈالے گھومتے ہیں، دراصل خود کو منافق کے طور پر نمایاں کرتے ہیں، ادب ایسے برے لوگوں کو گلے سے لگاتا ہے، جو بے نیازی کی بیماری سے دور ہوں۔میر بے نیاز ہوتے تو آصف الدولہ کے یہاں نوکری نہ کرتے، غالب بے نیاز ہوتے تو اپنے شاگردوں اور دوستوں سے ہنڈیاں نہ منگواتے پھرتے، منٹو کے بارے میں تو آپ خود بھی جانتی ہیں۔سو بے نیازی اگر سماجی یا معاشرتی سطح پر ہے تو وہ کھوکھلی ہے، اس کا پردہ چاک ہوجاتا ہے، بہت دنوں تک کوئی بھی ایسا آدمی جو خود کو بے نیاز ثابت کرنے پر تلا ہو،یہی اصرار اس کی بے نیازی کی پول کھول دیتا ہے۔قاری سے کوئی کیسے بے نیاز ہوسکتا ہے، اس حد تک ضرور کہ آپ لوگوں کی ٹھڈیوں میں ہاتھ ڈال ڈال کر یہ نہ پوچھیں کہ بھائی! آپ نے میری فلاں تحریر شاید ابھی تک نہیں پڑھی، یا یہ کہ آپ کو میرا وہ مضمون دیکھنا چاہیے، میں نے اس میں بڑے پتے کی بات لکھی ہے۔دنیا مصروف ہے، ہر آدمی پڑھنے کے لیے اپنی ترجیحات کو خود طے کرتا ہے۔ پڑھنے والا تو سب کچھ پڑھنا چاہتا ہے، مگر سب کچھ پڑھنا ممکن نہیں، کچھ نہ کچھ تو چھوٹنا ہی ہے۔اگر کوئی ادیب قاری سے اس حدتک نیازمندانہ رشتہ استوار کرنا چاہتا ہے کہ اسے خوشامد کرکرکے اپنی چیزیں پڑھوائے یا اسے سیمنار کا لالچ دے کر خود پر مضمون لکھوانے کے لیے اپنی تخلیق یا تنقید پڑھنے کی طرف راغب کرے تو وہ بے چارہ تخلیقی یا تنقیدی اعتبار سے بے حد مفلس ہوگا۔ادب سے کوئی بھی ادیب بے نیاز نہیں ہوسکتا، البتہ تنقید کے بارے میں ہمارے بہت سے شاعر یا فکشن نگار یہ جتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ ناقد کو اہمیت نہیں دیتے۔ اول تو ناقد کو اہمیت کون دیتا ہے،ناقد اپنی اہمیت خود تسلیم کرواتا ہے۔

تسنیم عابدی:کیاجدیدیت آج کے قاری کو مائل کرنے یا بیوقوف بنانے کی جدید ادا ہے؟

تصنیف حیدر:جدیدیت کا کوئی فلسفیانہ جواز فراہم کرانا میرے لیے ممکن نہیں، کیونکہ اگر میں ایسا کچھ کروں گا تو وہ سب میرے بزرگوں کا چربہ ہوگا۔البتہ اتنا ضرور کہوں گا کہ جدیدیت جن معنوں میں ہمارے یہاں لی گئی یا اس سے جو کام لیا جانا چاہیے تھا نہیں لیا گیا۔میں اکثر سوچتا ہوں کہ ہم نے کسی بھی قسم کے نظریے یا رجحان کو دراصل اس کی جڑوں کے ساتھ قبول نہیں کیا، میں نے فیض پر ایک طویل مضمون اس حوالے سے لکھا تھا، اور یہ بات سمجھنے کی کوشش کی تھی کہ فیض صاحب دراصل 'مجنوں گورکھ پوری' کے دکھائے ہوئے اس امید افزا نظریہ شعر سے کس قدر الگ را ہ پر چلے تھے، جسے لوگوں نے ترقی پسندی تصور کیا ہوا ہے۔مجنوں صاحب نے لکھا تھا،جس کا ذکر شمس الرحمٰن فاروقی نے اپنے مضمون جدیدشعری علائم میں کیا ہے کہ شاعرکا کام دراصل لوگوں میں زندگی کی امید پیدا کرنا ہے، انہیں جینے کے ایک نئے راستے کی طرف لانا ہے، وغیرہ وغیرہ۔جس کے ثبوت کے طور پر انہوں نے بغیر سوچے سمجھے میر کی مثال پیش کردی تھی، لیکن فیض کی شاعری کا جب میں نے جائزہ لیا تو وہ ابتدا سے آخر تک انسان اور اس کے ارتقا کے تعلق سے خاص طور پر مشرقی سماجوں میں نہایت مایوس کن رویوں کا اظہار کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔یہ تضاد یا یہ کنفیوزن دراصل اس لیے پیدا ہوئی ہے کیونکہ ہمارے نظریات اور رجحانات ادھار کی دین ہیں۔ہم نے جدیدیت کے ساتھ بھی یہی کیا۔آپ غور کیجیے تو جدیدیت جس بنیادی تصور کے ساتھ ہمارے یہاں آئی تھی، اور جس کروفر کے ساتھ ہمارے ادیب مغربی مصنفین کے لسانی تشکیل و تخریب کے معاملات بیان کرتے چلے آئے، کیا ان میں سے باقاعدہ کسی نے زبان کے ادھیڑنے یا بننے میں ہماری مدد کی۔ شاعری کا ارتقا دراصل نثر میں پیدا ہونے والی انقلابی لہر سے عبارت ہے۔وہ شاعری جو کسی مخصوص زبان کی نثر کو نئی قواعد یا ترتیب عطا نہ کرسکے،ویسے ہی مردہ ہے۔ظفر اقبال اس معاملے میں تنہا آدمی ہے، جس نے زبان کے ساتھ کھلواڑ کی نت نئی کوششیں کیں، مگر اسے بھی خارج سے داخلی تجربوں کی جانب آتے آتے، روایت کی بھینٹ کئی دفعہ چڑھنا ہی پڑا ہے، اس کی وجہ ہے کہ ہم اظہار کے نئے لسانیاتی تجربات کو قبول کرنے کے معاملے میں نابالغوں جیسا رویہ رکھے ہوئے ہیں۔میں جدیدیت کو قاری کے مائل کرنے یا بے وقوف بنانے کی کوئی ادانہیں سمجھتا، اس کی وجہ یہ ہے کہ شاعری کسی کو مائل کرنے کے لیے نہیں کی جاتی، نہ ہی کسی کو بے وقوف بنانے کے لیے جاتی ہے، اور جہاں یہ کام ہوتا ہے، یعنی کہ مشاعروں میں، میں اسے موزونیت تو کہوں گا مگر شاعری نہیں کہہ سکتا۔

تسنیم عابدی:تمہاری شاعری میں جو بولڈنس ہے یہ کبھی اوریجنل سے زیادہ آرٹیفیشل لگتی ہے؟اس کی وجہ؟

تصنیف حیدر: آپ نے ولی دکنی سے پہلے کی شاعری کا جتنا بھی حصہ پڑھا ہوگا، اس میں ضرور آپ کو مصنوعی پن، حقیقی سے زیادہ دکھائی دے گا، میں اپنی کوئی تعریف نہیں کررہا، میں جدید شعری اظہارکے تمام ان زاویوں کو جو اب تک سامنے آچکے ہیں، اردو کی چھ سات سو سالہ شعری روایت کا نتیجہ سمجھتا ہوں، اب چونکہ میں ایک نئے سرے سے شروعات کرناچاہتا ہوں، اس لیے یہ ڈائمنشن جو میری شاعری کا راستہ طے کرتا ہے، اس میں داخلیت کی گنجائش بہت کم ہے، میں ابھی زبان کے ٹوٹنے، بکھرنے اور اس کو بڑھانے، وسیع کرنے کے عمل میں اپنا کردار ادا کرنا چاہتا ہوں، اس میں خیال سے زیادہ لفظ کی اہمیت ہے، لفظ جو شاعری میں استعمال نہیں ہوا یا وہ لفظ جس کو ہمارے نفیس شعری محلے میں بازارو یا فرنگی اور غیر ملکی سمجھا جاتا ہے۔قواعد اور عروض ان دونوں کی مجھے زیادہ پروا نہیں ہے، کیونکہ اس کا جواز میرے پاس موجود ہے، میں نے ظفر اقبال اور اس کے جیسے کہنے والے اکا دکا شاعروں کو جدیدیت کا حاصل سمجھا ہے، اب یہاں سے جب دوسرے راستے پھوٹیں گے تو کچھ دور تک تو انہی راستوں اور انہیں اسالیب کا سہارا لینا پڑے گا نا، ہوسکتا ہے کہ جب یہ لہجہ اردو والوں کے لیے مانوس ہوجائے تب اس میں انہیں مصنوعی پن کم اور حقیقی پن زیادہ محسوس ہو۔ ابھی تو ان اسالیب کو ہی صحیح طور پر ایکسٹنڈ نہیں کیا گیا ہے ، جس پر ظفر اقبال بھی شاید کچھ مجبوریوں کے سبب، اردو والوں کے مزاج کو پیش نظر رکھتے ہوئے، اپنی بقا کا کچھ روایتی سامان بہم کرنے کے چکر میں ناکام رہے ہیں۔میں جن کچھ جگہوں پر کامیاب ہوجاتا ہوں، وہاں یہ نیا پن جسے آپ بولڈ نیس کہہ رہی ہیں، بہت مصنوعی نظر آتا ہوگا، تو آنے دیجیے،شاید یہ اس آدمی کو نظر نہ آئے جو روایت کو بڑھانے کے ویسے ہی عمل پر یقین رکھتا ہو، جیسا مجھے ہے۔

تسنیم عابدی:میرا جی کا محبوب معاملہ جنس تھا لیکن انہوں نے جنس کو علامت کے طور پر برتا تصنیف حیدر نے جنس کا لیبل لگا لیا ہے کیا اس لئےابھی شاعری نا بالغی کے مراحل میں ہے؟

تصنیف حیدر:اس سوال کا تھوڑا بہت جواب تو میں نے پہلے ہی جواب میں دے دیا ہے، لیکن یہاں چونکہ آپ نے خاص طور پر تصنیف حیدر کی بات کی ہے تو مجھے کہنے دیجیے کہ شاعری کسی لیبل کو برا نہیں سمجھتی۔جنس میرا موضوع ہے، موضوع دو خاص وجوہات کی بنیاد پر ہے، اول تو مجھے جنس سے زیادہ بہتر دنیا میں اور کوئی چیز نہیں لگتی، ایک ہوسناک حد تک میرے اندر ہمیشہ یہ خواہش رہی ہے کہ میں جہاں، جب، جیسے جنسی عمل کرنا چاہوں،کرسکوں۔اب چونکہ معاشرہ تہذیب کی پڑیا ہاتھوں میں لیے گھوم رہا ہے، لوگ جنسی معاملات پر بات کرنے، اس پر کچھ کہنے سننے سے ہچکچاتے ہیں تو ایسے میں یہ خواہش اور زور پکڑ لیتی ہے۔میں اکثر سوچتا ہوں کہ جنس، کھانے،پہننے، اوڑھنے، ہنسنے اور سونے تک سے بہتر لذت اپنے اندر رکھتی ہے۔کچھ لوگوں کو اچھا کھانے کی خواہش ہوگی، کچھ کو اچھے لباس کی، کچھ کو اچھے بستر کی،تو اگر مجھے کسی اچھے جنسی پارٹنر کی تلاش ہو تو کیا مضائقہ ہے۔لیکن جب مزید غور کرتا ہوں تو محسوس ہوتا ہے کہ یہ لذت سب کو چاہیے، لوگ شادیاں کرکے، عورتوں کو خوش رکھے بغیر سالوں سے ان کے ساتھ جبرا سیکس کرتے آرہے ہیں، بچے مدرسوں میں اس ہوسناکی کا شکار ہورہے ہیں، جوان اور ادھیڑ عمر کے لوگ جنسی ہیجان سے تنگ آکر یا تو خودکشی کرتے ہیں یا کوئی بڑا جرم ان سے سرزد ہوجاتا ہے، مگر اس لذت کے حصول پر جو انسان کا بنیادی حق ہے، کوئی سوال قائم کرنا، اس پر کوئی بات کرنا، اس کا کوئی راستہ پیدا کرنا،اس تک چوری چھپے پہنچنا، یہ سب باتیں معیوب ہیں، گناہ ہیں، غلط ہیں اور بعض اوقات سماجی جرم کے زمرے میں آتی ہیں۔دوسری وجہ یہ ہے کہ جنس کی دنیا تخلیقی طور پر مجھے نہیں لگتا کہ کبھی ڈسکور ہوسکتی ہے، اس میں ہزاروں طرح کی گنجائشیں ہیں، اس کے ملنے، نہ ملنے، مل سکنے یا نہ مل سکنے کے رجحانات کی وجہ سے سیکڑوں حادثات اور واقعات دنیا میں جنم لیتے ہیں۔دنیا کے کاروبار میں جنس کا حصہ بہت اہم ہے۔ان دو وجوہات کی بنا پر جنس میرا ایک زبردست تخلیقی محرک ہے، میں تو بلیوفلمیں دیکھ کر بھی شعر کہتا ہوں۔اب یہ بالغی ہے یا نابالغی،اس کا فیصلہ تو میری شاعری پڑھنے والا کرتا رہے، مجھے اس سے کوئی غرض نہیں ہے۔

تسنیم عابدی:تصنیف حیدر کے بیباک لہجے نے دشمنوں کے ساتھ کیا کچھ دوست بھی بنائے یا یہ خسارے کا ہی سودا رہا؟

تصنیف حیدر:جو لوگ میرے دشمن ہونگے،میں انہیں جانتا تک نہیں،کیونکہ میں لوگوں سے ملتا جلتا بہت کم ہوں، جب نوکری کررہا تھا تو دفتر سے اپنی ایک دوست کے یہاں جاتا تھا، اس سے مل کر گھر واپس آجایا کرتا تھا، اب بھی یہی معمول ہے، بس فرق یہ ہے کہ دن بھر گھر میں پڑھتا ہوں، ٹی وی دیکھتا ہوں، گانے سنتا ہوں یاکوئی کام کرتا ہوں، شام کو چہل قدمی کے باہر نکل آتا ہوں، ایک دوست فاطمہ خان کے گھر جاتاہوں یا تو سالم سلیم اور زمرد مغل سے ملاقات ہوتی ہے، یہ دونوں میرے بہترین دوست ہیں، سالم سے تو میں نے شاعری کے معاملات میں بہت کچھ سیکھا ہے، خاص طور پر جب ہم ریختہ کے دفتر سے گھر آیا کرتے تھے، تو بہت سی باتیں ہوتی تھیں، ان باتوں نے میری شخصیت سازی میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے، زمرد کا معاملہ یہ ہے کہ زمرد میں اختلاف کی جرات ہے، وہ ہر بات کو جلدی تسلیم نہیں کرتے، مگر بات کو سنتے ہیں سمجھتے ہیں اور پھر اپنی کسی بات سے سوچنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔معید دہلی میں تھے تو ان سے ملاقات ہوجاتی تھی،اب وہ علی گڑھ میں ہیں تو ہفتے میں ایک آدھ بار ان سے کال کرکے بتیاتا ہوں،اسی طرح جن دوستوں سے اکثر باتیں ہوتی ہیں، ان میں راغب اختر، غالب ایاز،مہیندر ثانی، پراگ اگروال وغیرہ بہت اہم دوست ہیں۔گھر میں اتفاق واختلاف کرنے کے لیے تالیف حیدر جیسا پڑھا لکھا بھائی موجود ہے، وہ مجھ سے زیادہ پڑھتا ہے، اسے تصوف اور دینیات کا بڑا علم ہے، میں اس سے بہت سی باتیں سیکھتا ہوں، معلوم کرتا ہوں اور بعض اوقات دوسروں کے سامنے بیان کرکے شیخی بگھارتا ہوں۔خوش قسمتی سے گھر کا ماحول اچھا ہے، ہماری والدہ اور والد دونوں ہی پڑھنے، لکھنے یا بحث ومباحثے سے تنگ نہیں آتےبلکہ اس میں خود بھی شریک ہوتے ہیں، چھوٹا بھائی تعظیم ابھی سے ٹالسٹائی اور دوستوفیسکی کو پڑھنے لگا ہے تو وہ بھی ان مباحث میں شریک ہوتا رہتا ہے۔تو گھر سے باہر تک سب میرے دوست ہی ہیں،دشمن کوئی نہیں۔میں تو جس طرح کے شعر بھی کہوں، آج بھی سب سے پہلے اپنے والدین اور بھائیوں کو سنادیتا ہوں، اچھی بات یہ ہے کہ وہ میری تخلیقیت پر بات کرتے ہیں، رواج، محلے داری، تہذیب یا مذہب پر نہیں۔حالانکہ ایک میرے سوا سب بہت مذہبی اور تہذیب یافتہ لوگ ہیں۔

تسنیم عابدی:قمر جمیل وغیرہ نے جو نثری نظم کی تحریک شروع کی اس کے بارے میں کیا خیال ہے؟

تصنیف حیدر:نثری نظم کی تحریک کے بارے میں بہت کچھ نہیں جانتا ہوں میں۔البتہ کہہ سکتا ہوں کہ افضال سید، عذرا عباس، تنویر انجم،انورسن رائے اور ان کے بعد سید کاشف رضا،زاہد امروز کی جو نثری نظمیں میں نے پڑھی ہیں۔انہوں نے مجھے بہت متاثر کیا ہے، اور بھی نام ہونگے، جو ابھی ذہن میں نہیں آرہے، مگر میں تو نثری نظم کو اظہار کا ایک بڑا ذریعہ مانتا ہوں، بلکہ میرا ماننا ہے کہ موزونیت یا بحر یا وزن جیسی قیود سے شاعری کو آزاد کرکے اس میں اہم تخلیقی تجربات کی گنجائش پید اکرنا ایک اہم کام ہے اور ضرورت بھی۔جسے ہم بڑی شاعری اب تک سمجھتے رہے ہیں یاد رہے کہ آنے والی ایک دونسلوں میں اس کا معیار بھی بدلنے والا ہے، بڑی شاعری،تو خیر دور کی بات شاعری کیا ہے، اس سوال پر بھی نئے سائنسی تجربات اور نئی لسانی تھیوریز کا اثر گہرا پڑسکتا ہے، ایسے میں جب دنیا سمٹ کر ایک مٹھی میں آگئی ہو، اس کو وسیع کرنے، اس میں خیال اور زبان کے نئے امکانات پیدا کرنے کے لیے ایک ایسی ہی صنف زیادہ موثر ہوسکتی ہے جو تمام طرح کی قید سے آزاد ہو اور جس میں علم کو جذب کرلینے کی صلاحیت بھی دوسری اصناف کے مقابلے زیادہ ہو۔

تسنیم عابدی:ایک شاعر یا ادیب کا تنقید نگار سے کیا تعلق ہونا چاہئے؟؟

تصنیف حیدر:شاعر یا ادیب کا تنقید نگار سے کوئی خاص تعلق نہیں ہوسکتا، ہونا بھی نہیں چاہیے۔اگر آپ لکھنے سے پہلے ہی اس کے بارے میں یہ سوچنے لگیں کہ اس پر کس قسم کی تنقیدات کی جائیں گی یا کی جانی چاہییں تو لامحالہ تخلیقی صلاحیت پر اثر پڑے گا،مشفق خواجہ نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ہمارے یہاں چیزیں لکھی ہی اس نیت سے جاتی ہیں کہ ان کا ترجمہ بہ آسانی ہوسکے، اس لیے اکثر اوریجنل تحریروں پر بھی ترجمے کا گمان ہوتا ہے۔تخلیق کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے۔البتہ تنقیدنگار کا تخلیق کار کے ساتھ رشتہ گہرا ہوتا ہے، بعض اوقات تخلیق کو سمجھنے کے لیے شاعر یا ادیب کے ذہن، اس کے ماحول، اس کی گفتگو ان سب کا نفسیاتی اور فلسفیانہ جائزہ لینا تنقید نگار کی ضرورت بن جاتا ہے۔'شاعر کا تعلق کیا ہونا چاہیے' کے جواب میں تو میں صرف اتنا کہہ سکتا ہوں کہ میری دانست میں اس طرح کا ساتھ پروفیسروں یا مشاعرے بازوں کا تنقید نگار کے ساتھ ہوتا ہے، جس کی وجہ سے کبھی کبھار وارث علوی، شمس الرحمٰن فاروقی یا دوسرے بڑے تنقید نگار ان پر کچھ مضامین لکھ دیتے ہیں۔سنجیدہ ادب میں اس قسم کے مضامین کو بری نظر سے دیکھا جاتا ہے، مگر تنقید نگار کا جواب یہی ہوتا ہے کہ بھئی تعلق داری بھی توکوئی چیز ہے۔اور یہ واقعی ہے، ہم جس جگہ رہتے ہیں، وہاں ہمارے کچھ دوست بھی ہوتے ہیں، اب یہ دوست بگڑے ہوئے شاعریا ادیب بھی تو ہوسکتے ہیں، تو ایک آدھ مضمون اگر اس دوستی کی نذر کردیا جاتا ہے تو اسے کوئی بڑا مسئلہ نہیں بنانا چاہیے۔کم از کم میں تو اب اسی نتیجے پر پہنچا ہوں۔ان مضامین سے نہ تو تنقید نگار کا قد چھوٹا ہوتا ہے، نہ کسی شاعرو ادیب کا قامت بلند ہوجاتا ہے۔کسی بھی خراب شاعر یا ادیب میں اتنی سمجھ ہی نہیں ہوتی کہ وہ اس پر بھی کبھی غور کرسکے کہ فلاں نقاد نے اس کی شاعری یا کسی دوسری چیز پر آخر لکھا کیا ہے، وہ بس نام اور سطروں کو چومتا اور آنکھوں سے لگاتا رہتا ہے۔ہاں لیکن اس طرح کی تنقیدات سے بچنے کی ضرورت ہے، کیونکہ زیادہ لوگوں پر لکھ دینے سے یہی معاملہ تنقید نگار کی اپنی صلاحیتوں کو بھی زنگ لگا سکتا ہے۔جہاں تک بات رہی کسی حقیقی شاعر یا ادیب کی تو اسے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کون سا نقاد اس کے بارے میں کیا لکھ رہا ہے اور کیا کہہ رہا ہے، وہ بس اپنے کام سے کام رکھتا ہے، مگر یہ بے نیازی اس حد تک کبھی نہیں ہوتی کہ وہ اپنی تخلیق کے بارے میں لکھی ہوئی کسی چیز کو سرے سے پڑھنا ہی نہ چاہے کیونکہ تنقید اچھا لکھنے والوں کی تخلیقی تربیت میں بھی اہم کردار ادا کرسکتی ہے ۔

تسنیم عابدی:کیا مذہب کا رومانوی تصور معاشرے کو نقصان پہنچا رہا ہے یا سراسر تصور مذہب ہی نقصان کا سبب ہے

تصنیف حیدر:مذہب اور معاشرہ !یقین جانیے میں نے ان دونوں باتوں پر ہمیشہ بہت غور کیا ہے۔مذہب کے ساتھ چھوٹا سا مسئلہ ہے، وہ اپنی اصل شکل تبدیل نہیں کرنا چاہتا، اس کی قدامت، اس کا قانون اتنے سخت ہوتے ہیں کہ وہ انہیں آفاق گیر قسم کی کوئی شے تصور کرتا ہے، جبکہ معاشرہ اس کے برعکس مذہب کو اس کے اصل روحانی تصور کے ساتھ کبھی قبول نہیں کرپاتا۔کیونکہ مذہب آدمی کی علمی طور پر بہت زیادہ تربیت کرنے کے حق میں نہیں ہے۔علم سے انسان کے ذہن میں سوالات پیدا ہوتے ہیں، وہ ارتقا کے ہر دوسرے پنے پر مذہب کی بگڑی ہوئی شکل دیکھ کر اس کے بارے میں سوال قائم کرتا ہے، مگر یہ بات مذہب کے لیے قابل برداشت نہیں ہے۔معاشرے میں جو لوگ مذہب کے نام پر نئی رسومیات، نئی بدعتیں قائم کرتے ہیں، ان سے بچنے کا مذہب کے پاس کوئی راستہ نہیں،اجتماعی طور پر تو مذہب نے ہمیشہ نقصان ہی پہنچایا ہے، جنگیں، مار دھاڑ، قتل و غارت گری-آخر ایسی چیز جو انسان کو کسی خاص اعتقاد کے نام پر دوسرے انسان سے الگ کرتی ہو، وہ اچھی کیسے ہوسکتی ہے۔مذہب دراصل لوگوں میں اپنے تئیں ایک خاص قسم کی جذباتیت پیدا کرواتا ہے، اور یہ اتنی خطرناک چیز ہے کہ اگر کوئی آدمی براہ راست مذہب پر دنیا کے کسی بھی خطے میں سوال اٹھائے تو لوگ اس کی جان و مال کے درپے ہوجاتے ہیں۔ہمارے ملکوں میں تو یہ معاملہ زیادہ تشویش کن ہے۔مجھے مذہب کی ان باتوں نے ہمیشہ پریشان کیا ہے۔آپ کسی بھی مذہب کو اٹھا کر دیکھ لیجیے، اس کی تاریخ میں اگر کوئی بہت بڑی اخلاقی تبدیلی اگر رونما ہوئی ہوگی تو صرف وقت کی ایک بڑی مجبوری کی وجہ سے، ورنہ مذہب دل سے اسے قبول کرنے پر کبھی تیار نہیں ہوسکتا کہ اس کے قانون اور اس کی آسمانی حیثیت کو کسی بھی طرح کٹہرے میں کھڑا کیا جائے۔میں اسی لیے مذہب کا مخالف ہوں،میں نے ایک ایسے خاندان میں پرورش پائی ہے، جس کا مذہب کے ساتھ رشتہ گہرا رہا ہے، اس لیے میں نے مذہب کی جتنی منافقتیں دیکھی ہیں، وہ عام طور پر لوگوں کے سامنے نہیں آپاتیں، اب یہی بات ایسی ہے کہ میرے کئی دوستوں کے سامنے جب میں کہتا ہوں تو وہ سنتے نہیں، اس پر بات نہیں کرتے، بس برا مان جاتے ہیں۔تو آپ خود ہی طے کیجیے کہ مذہب کا رومانی تصور معاشرے کے لیے فائدہ مند ہے یا نقصان دہ؟

تسنیم عابدی:کائنات کی کون سی چیز نے تصنیف حیدر کو حیرت میں مبتلا کیا؟؟

تصنیف حیدر: ویسے تو کائنات کی شاید کوئی ہی ایسی چیز ہوگی ، جس نے مجھے حیرت میں نہیں ڈالا،خواہ وہ مصنوعی ہو یا قدرتی۔گلہری کی پھرتی، چوہوں کا ٹھنڈے پائپوں میں گشت لگاتے پھرنا، بلی کی اچھل کود اور خرگوش کے کان بھی میرے لیے بہت حیرت کا باعث رہے ہیں۔لیکن سب سے زیادہ اصل میں مجھے جس چیز نے حیرت میں ڈالا وہ میری ماں کا استقلال اور ان کا حوصلہ افزا رویہ ہے۔یہ کوئی تعریفی بات نہیں، میری والدہ نے یوپی میں لکھنئو، روضہ اور دوسری کئی جگہوں پر بچپن گزارا۔جوانی میں شاید اٹھارہ برس کی عمر میں ان کی شادی ہوگئی، میں نے اپنے عمر کے قریب بیس سال با شعور پر انہیں دیکھا ہے، ان کے زندگی کرنے کے طریقے، ان کی دعائیں اور خدا سے ان کے بے لوث رشتے نے مجھے حیرت میں ڈالا ہوا ہے۔آپ غور کریں تو میرے خاندان نے جن پریشانیوں کے عالم میں زندگی بسر کی ہے، اس میں میری والدہ کا کردار آپ کسی طلسماتی عورت سے کم نہیں لگے گا۔اپنی زندگی کی بدترین پریشانیوں سے گزرنے کے باوجود کبھی ان کے چہرے پر روڑھا پن نہیں آیا، جو بھی انہیں دیکھتا ہے، ان کے چہرے کی نورانیت سے متاثر ہوتا ہے، وہ تہجد گزار ہیں، بعض دفعہ میں ان سے جھلا کر جب پوچھتا ہوں کہ آخر اتنی دعائوں، اتنی نمازوں سے آپ کو ملا کیا ہے تو ان کا جواب ہوتا ہے کہ 'دل کا سکون'۔اور واقعی وہ عمر کے جس موڑ پر ہیں، وہاں کسی مادی یا معاشی ترقی کے لیے اگر یہ سب عبادتیں ہوتیں تو انسان بہت بری طرح ٹوٹ چکا ہوتا۔میری تعلیم، میرے بھائی بہنوں کی تعلیم، روزگار، فکریات اور ترقی میں صرف اور صرف ان کا ہاتھ ہے۔انہوں نے جس جتن سے، جس محنت سے، جیسی قربانیاں دے کر ہمارے ذہنوں کو سوچنے کے لائق بنایا، ہمیں پڑھایا لکھایا، وہ واقعی انتشار کے ماحول میں بے حد مشکل کام تھا۔میں اپنی زندگی میں اگر کسی شخصیت سے بہت زیادہ متاثر ہوں تو وہ ان کی شخصیت ہے۔وہ زندگی کو ایک پازیٹو روپ میں ہمیشہ دیکھتی رہی ہیں، انہوں نے ہماری ناکامیوں پر ہمیں ایک بہت زبردست کائونسلر کی طرح سمجھایا ہے، ہمت بندھائی ہے۔میں جب اپنے آس پاس نظر دوڑاتا ہوں، ارد گرد لڑکیوں اور عورتو ں کو دیکھتا ہوں تو ایسی سلجھی ہوئی شخصیت مجھے اور کہیں نظر نہیں آتی، جس کے اندر برداشت کا مادہ بھی ہو، سوچنے سمجھنے کی عمدہ صلاحیتیں بھی ہوں، خدا سے ایک بے لوث تعلق بھی ہواور سب سے بڑھ کر وقت کو سمجھنے اور اس کے حساب سے خود کو اور اپنے بچوں کو ڈھال لینے کی طاقت بھی ہو۔سو، میرے لیے تو گوشت پوست کی جیتی جاگتی، چلتی پھری میری ماں،خدا کی سب سے حیران کن تخلیق ہے۔

2 تبصرے:

Razi Shahab کہا...

achcha laga padh kar

Unknown کہا...

دلچسپ گفت و شنید!

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *