یاہودا امیخائی (1924-2000)اسرائیل کا ایک عالمی شہرت یافتہ جدیدشاعر تھا۔اسے اپنی زندگی میں قریب چار بڑے اعزازات سے نوازا گیا۔اس کی پیدائش جرمنی کے شہر ورزبرگ میں ایک سخت مذہبی یہودی گھرانے میں ہوئی، گھریلو ماحول کی وجہ سے بہت جلد اسے جرمن اور ہیبرو زبانوں پر عبور حاصل ہوگیا۔اس نے برطانوی فوج میں شامل ہوکر دوسری جنگ عظیم میں حصہ بھی لیااور وہ اسرائیل کی جنگ آزادی کی تحریک سے بھی وابستہ رہا۔1946میں بڑٹش آرمی سے الگ ہونے کے بعد اس نےیروشلم کے ڈیوڈ یلین ٹیچر ز کالج میں داخلہ لیااور کچھ عرصے بعد خود بھی ٹیچر بن گیا۔جنگ آزادی کے بعد امیخائی نے ہیبرو ادب اور بائبل کا عمیق مطالعہ کیااور ہیبرو یونیورسٹی کے ایک پروفیسر کی تحریک پر ہی اس نے1955 میں اپنا پہلا شعری مجموعہ 'نائو اینڈ ان ادر ڈیز 'کے نام سے شائع کروایا۔1956 میں یاہودا کو'سوئز بحران'کے لیے بھیجا گیا واضح ہو کہ مصر کی جانب سے 26 جولائی 1956ء کو نہر سوئز کو قومی ملکیت میں لینے کے فیصلے نےمغربی ملکوں اور اسرائیل میں تہلکہ مچادیا کیونکہ نہر سوئز اس وقت برطانیہ اور فرانس کی ملکیت میں تھی۔ برطانیہ اور فرانس کی پشت پناہی پر مصر کے خلاف اسرائیلی جارحیت کو "سوئز بحران" کہا جاتا ہے۔1973 میں اسے جنگ یوم کپور ، جنگ رمضان یا جنگ اکتوبر کے لیے بھیجا گیا، جسے عربی میں حرب اکتوبر بھی کہا جاتا ہے۔یہ جنگ بھی 6 اکتوبر سے 26 اکتوبر 1973ء کے درمیان مصر و شام کے عرب اتحاد اور اسرائیل کے درمیان لڑی گئی، 1963 میں اس نے اپنا پہلا ناول 'ناٹ آف دس ٹائم، ناٹ آف دس پلیس'کے عنوان سے شائع کیا۔یہ ناول ایک ایسے نوجوان کے بارے میں ہے جو دوسری جنگ عظیم اور اسرائیل کی جنگ آزادی میں حصہ لینے کے بعد اپنے ملک جرمنی واپس لوٹتا ہے، اور اپنے بچپن کو یاد کرتے ہوئے ان اسباب کا جائزہ لینا چاہتا ہے جنہوں نے 'ہولوکاسٹ'یعنی جرمنی میں ہٹلر کے ہاتھوں یہودیوں کے قتل عام کو ممکن بنایا۔اس کا دوسراناول 'می یتننی میلن'1971میں منظر عام پر آیا، جس میں اس نے ایک ایسے اسرائیلی کی کہانی بیان کی ہے جو کہ نیو یارک میں رہ رہا ہے۔ایک ایسے انسان نے جو کہ سپاہی کا جسم اور شاعر کا دل رکھتا تھا، اپنی زندگی میں موت اور زندگی دونوں کو نزدیک سے گزرتے اور روح کی طرح خود سے آرپار ہوتے ہوئے محسوس کیا تھا۔اس کی زیادہ تر نظمیں اسی لیے موت اور زندگی کی ننگی حقیقتوں کا فلسفہ سمجھنے سمجھانے میں وقف ہوئی ہیں، زاہد امروز نے ان نظموں کو اردو زبان کا قالب عطا کیا ہے اس لیے میں ان کا بے حد شکرگزار ہوں، یاہودا کا اسلوب نہایت غیر رسمی ہے ،اور جنگ کی گھن گرج سے زیادہ اس کی نظموں میں زندگی کے تاریک سناٹے زیادہ رقصاں نظر آتے ہیں۔امید ہے کہ یہ نظمیں آپ سبھی کو ضرور پسند آئیں گی۔
اِس دنیا میں خدا کا ہاتھ ہے
(1)
اِس دنیا میں خدا کا ہاتھ ہے
جس طرح ہفتے کی شام میری ماں کا ہاتھ
ذبح کی ہوئی مرغی کی انتڑیوں میں ہوتا ہے
جب خدا کے ہاتھ زمین تک پہنچتے ہیں
وہ کھڑکی میں سے کیا دیکھتا ہے؟
میری ماں کھڑکی میں سے کیا دیکھتی ہے؟
(2)
میرا دُکھ ہی میرا جدِ امجد ہے
اِس نے میرے دکھوں کی دو نسلوں کو جنم دیا
جو اُس کی ہم شکل ہیں
میری امیدوں نے میرے دل میں اِس ہجوم سے بہت دور
سفید گھروں کے منصوبے تعمیر کیے
لیکن میری محبوبہ اپنی محبت
پگڈنڈی پر گری اُس سائیکل کی طرح بھُول گئی
جو رات بھر اوس میں بھیگتی رہتی ہے
بچے گلیوں میں
میری زندگی کے ادوار
اور یروشلم کے ادوار
سفید چونے سے نشان زد کرتے ہیں
اور ایسی دنیا میں خدا کا ہی ہاتھ ہے
....................
ابنِ جبیرول
کبھی پیپ
تو کبھی شاعری
ہمیشہ ایک درد رہتا ہے
ہمیشہ اِس دل سے کچھ بہتا رہتا ہے
باپو ں کے جھُنڈ میں میرا باپ
سبز کائی سے ڈھکاایک درخت تھا
اُس جسم کی بیواؤ!
اُس خون کے یتیمو!
میں یہاں سے فرار ہو جاؤں گا
یہاں درانتی کی طرح تیز آنکھیں
گہرے راز کریدتی رہتی ہیں
لیکن میرے سینے کے زخم میں سے
خدا کائنات کو دیکھتا ہے
میں اُس کے حجرے کا دروازہ ہوں
....................
خدا صرف کنڈر گارٹن کے بچوں پر مہربان ہے
خدا کنڈرگارٹن کے بچوں پر مہربان ہے
لیکن اُسے اسکول کے بچوں پر ترس نہیں آتا
اور جو بچے بڑے ہوگئے
اُن پر ذرہ بھر رحم نہیں
وہ انہیں اکیلا چھوڑ دیتا ہے
ابتدائی طبی امداد کے مرکز پہنچنے کے لیے
ہربار انہیں جانوروں کی طرح
جلتی ریت پر رینگنا پڑتا ہے
جو ہمیشہ خون میں لت رہتا ہے
کاش کبھی خدا محبت کرنے والوں کو دیکھے
اور عوامی بنچ پر سوئے
بوڑھے آدمی پر درخت کے سائے کی طرح
اُن پر سایہ کرے
کاش ہم بھی درد مندی کے آخری قیمتی سکّے
اُن میں بانٹ دیں
جو ہماری ماں نے ہم کودئیے
تاکہ اُن کی خوشی ہمیں محفوظ رکھے
آج بھی
اور آنے والے بُرے دنوں سے بھی!
....................
میری ناک میں پٹرول کی بو چڑھتی ہے
میری ناک میں پٹرول کی بُو چڑھ رہی ہے
لیکن اے محبت!
میں تجھے ایٹراگ* کے پھل کی طرح
نرم اُون میں رکھوں گا
بالکل اُسی احتیاط سے
جس طرح میرا مرحوم باپ کیا کرتا تھا
دیکھو!
ذیتون کا درخت اب اُداس نہیں
اسے خبر ہے کہ موسم بدل جاتے ہیں
اور اِک دن انسان کو رخصت ہونا ہی پڑتاہے
میرے پہلو میں آؤ
اپنے آنسو صاف کرو
اور یوں مسکراؤ
جیسے فیملی فوٹو اُترواتے وقت مسکراتے ہیں
میں نے اپنی سلوٹ زدہ قمیض
اور اپنے مصائب باندھ لیے ہیں
اُن صحراؤں کی جانب
جن میں محض جنگ ہے
جن صحراؤں میں کوئی کھڑکی نہیں
اُن صحراؤں کی جانب کھلی کھڑکی میں کھڑی میری لڑکی!
میں تمہیں کبھی نہیں بھولوں گا
کبھی تم اس قدر ہنسا کرتی تھیں
اب تم صرف خاموش رہتی ہو
ہمارا محبوب وطن کبھی احتجاج نہیں کرتا
لیکن بہت جلد
ہوا خشک پتوں میں سرسرائے گی
میں تمہارے پہلو میں دوبارہ کب سوؤں گا؟
ہم سے غیر مشابہ
زمین کی تہہ میں کتنا خام مواد ہے
جسے اِس تاریکی سے کبھی کسی نے نہیں نکالا
دیکھو جنت میں فوجی طیارے
ہم پر رحمتیں برساتے ہیں
اوراِس خزاں میں محبت کرنے والوں پر!
* Etrog; fruit used in Jewish rituals during the festival of Sukkot
....................
یاہودا ہار لیوی
اُس کی گردن کے نرم ملائم بال
اُس کی آنکھوں کی جڑیں ہیں
اُس کے بالوں کے خم
اُس کے خوابوں کا تسلسل ہیں
اُس کی پیشانی، جیسے بادبان
اور بازو۔۔دو پتوار
جو روح کو اُس کے جسم میں
یروشلم تک لے جاتے ہیں
لیکن اُس کے ذہن کی سفید مُٹھّی میں
زرخیز بچپن کے سیاہ بیج ہیں
جب وہ اپنی محبوب، خشک زمین پہ پہنچے گا
وہ انہیں وہاں بوئے گا
....................
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں