ارسطو کا ایک جملہ بہت مشہور ہے، انسان سماجی جانور ہے۔سوال یہ ہے کہ اگر انسان سماجی جانور ہے تو سماج کیا ہے؟سماج آخر ہماری زندگی کے اصول کس طرح طے کرتا ہے، کیسے وہ مجھے سکھاتا ہے کہ مجھے کیا پہننا ہے اور کیا نہیں پہننا، آخر ایسا کیوں ہے کہ جس چیز پر لوگ ہنستے ہیں، ہم اس کے وجود سے رفتہ رفتہ ڈرنے لگتے ہیں۔پی، کے جو حال میں ہی ریلیز ہونے والی ایک کامیاب بالی ووڈ فلم ہے، اس کا بھی ایک منظر یہ ہے کہ کسی سیارے سے آیا ہوا آدمی جب یہ دیکھتا ہے کہ اس کے پہناوے کی وجہ سے لوگ اس پر ہنس رہے ہیں تب اس کی سمجھ میں یہ بات آتی ہے کہ اس نے لڑکی کا گھاگھر ا اور لڑکے کا شرٹ پہن رکھا ہے ،جس کا زمین یا خاص طور پربھارت جیسے ملک میں کوئی رواج نہیں ہے۔تو پھر سماجی اصول کیا اس طرح طے کیے جاتے ہیں کہ وہ بات درست ہے، جس پر لوگ ہنس نہ سکیں۔یعنی خود پر ہنسنے کا کوئی موقع کسی دوسرے آدمی کو نہ دیا جائے۔اب ہنسنے کا موقع نہ دینا انسان کے اپنے بس کی بات نہیں، مگر اس بات کا کیا جائے جس پر انسان کو خود ہنسی آنے لگے، جیسے کہ پتھر کی مورتیوں کو پوجنا، درگاہوں یا مورتیوں پر چادریں چڑھانا، کسی پتھر کو مقدس تسلیم کرکے اسے چومنے لگنا یا کسی جانور کو غلیظ تصور کرکے اس سے گھن کھانا اور اسے حرام قرار دے دینا۔جس نے بائبل کا تھوڑا سا بھی حصہ پڑھ رکھا ہے وہ شخص تو دنیا بننے کے قصے کو پڑھ کر بھی ہنس سکتا ہے، کیونکہ دنیا بننے سے پہلے کا پورا واقعہ اگر خالص مذہبی پیرائے میں نہ بیان کیا جائے تو کسی لطیفے سے کم نہیں۔ہم جو کچھ بھی سوچتے ہیں، بہت سے سماجی اصول دراصل اس سوچ کو روکنے، ان پر پابندی لگانے یا ان کو ڈھانپے رکھنے کے لیے بنائے گئے ہیں، پھر غور کیجیے تو یہ سارے سماجی اصول دراصل سماج بھی نہیں بناتا، ہر زمانے کا اقتدار اعلیٰٰ کچھ خاص قسم کے سماجی اصولوں کو پسند کرتا ہے اور سماجی خدمتگار اچھائی کی مخصوص تعریف کے ذریعے اسے فائدہ پہنچانے کی تگ و دو میں لگے رہتے ہیں۔کسی بھی قسم کے اقدار جب مقتدرین کو نقصان پہنچانے لگیں تو وہ ان کے نزدیک بے ہودہ ہوجائیں گے، صرف یہی وجہ ہے کہ ایک خاص قسم یا خاص جماعت کا مقتدر ذہن دوسرے سماج یا دوسری جماعت کے مقتدر ذہن کے اقداری اصولوں کو کچرا ثابت کرنے پر تلا رہتا ہے۔مذہب یا سماج کسی بھی برائی کو روکنے کا سیدھا طریقہ نہیں بتا سکتے چنانچہ اس کا الٹا طریقہ کار پیش کرتے ہیں، یعنی کہ اگر آپ کی شکل بھدی ہے تو آئنہ ہی مت دیکھیے وہ یہ کبھی نہیں کہیں گے کہ آئنے میں اپنی شکل غور سے دیکھیے ، اس کے بعد آپ کو اپنی شکل میں جو خامیاں نظر آتی ہیں وہ ہمیں بھی بتائیے اور پھر سب مل جل کر اس طرح کی پریشانیوں کو دور کریں گے۔
ہندوستان جاگ رہا ہے، یہاں پی کے اور اوہ مائی گوڈ جیسی فلمیں بن رہی ہیں، اوہ مائی گوڈ جو کہ ایک گجراتی ناٹک کانجی وردھ کانجی پر مبنی فلم ہے، بہرحال ایک سمجھوتے پر بنائی گئی فلم ہے ، جس میں خدا کے وجود کو اس کی نرآکار وجودیت کے ساتھ قبول کرنے پر زور دیا گیا ہے، جس میں خدا کی طرف سے کوئی نشانی، کوئی تعویذ یا مورتی نہ بنائے جانے کی تلقین کی گئی ہے بلکہ اس کی کہی ہوئی باتوں، الہامی کتابوں اور الفاظ کو یاد رکھنے کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے۔چونکہ فلم کو دیکھنے والے ہندو، مسلم ، سکھ ، عیسائی سبھی ہیں، اس لیے اسے ایک خاص تجارتی رواداری کا خیال رکھتے ہوئے بنایا گیا ہے، جس سے مذہب کے جانب دارٹھیکیدار ناراض ہوں تو ہوں ورنہ باقی سب خوش ہونگے۔فلم میں چمتکار پر سے لوگوں کا یقین ہٹانے اور انہیں اندھی تقلید سے بچانے کے لیے ایک ایسا راستہ انتخاب کیا گیا ہے جو کہ خود چمتکار اور اندھی تقلید کے کنکروں سے بنا ہوا ہے۔فلم میں بے وقت، بے وجہ پریش راول کو لقوہ مارجانااور اس لقوے کا ڈاکٹروں کے جواب دینے کے باوجود بھگوان کے چمتکار سے ہی ٹھیک ہونا دراصل جلے ہوئے دلوں پر پھایا رکھنے کا کام کرتا ہے کہ کانجی جس تندہی سے اپنے مقصد کے لیے لڑرہا تھا آخر میں وہ اس پوزیشن میں آجاتا ہے کہ بھگوان کی انگلی میں ناچنے والی کی چین کو اٹھا کر پورے سمان کے ساتھ اپنی جیب میں رکھنے لگتا ہے۔فلم کا وہ آخری منظر جس میں اسے ندائے غیب کے ذریعے خدا کی نشانی کو گلے سے لگانے پر پھٹکارا جاتا ہے، دراصل اس پورے مقصد کے حق میں سم قاتل ہے جو ہندوستانی عوام کو جاہلیت کے دور سے باہر لا سکتی ہے۔انکار کبھی دوہرے معاملات کے ساتھ نہیں ہوسکتا، انکار پرانی عادتوں، بے وقوفی کی باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے نہیں کیا جاسکتا، انکار تو کھرا ہوتا ہے، اس پر چمتکار کی ملمع سازی ممکن نہیں۔پی کے اس حساب سے دوسرے مزاج کی فلم ہے، اس میں ہندوستان میں مذہب کے بنائے ہوئے جھوٹے جال اور چمتکار کے نام پر آدمی کو بہکانے والے راکشسوں سے پیچھا چھڑانے کی تحریک پر زور دیا گیا ہے۔پی کے پر صرف میرا اعتراض یہ ہے کہ اس میں آخری منظر میں بھی کسی عورت کو دوسرے پلینٹ پر سے آتا ہوا کیوں نہیں دکھایا گیا، کیا فلم کو بناتے وقت اس پلینٹ پر عورت کے وجود کا خیال ہی کسی کو نہیں آیا، کیا عورت وہاں بھی گھر کی چار دیواری میں قید ہے یا عورت کو کند ذہن یا پچھڑے ہوئے طبقے میں شامل رکھنا ہماری عادت بن چکا ہے ۔میں اس بات کو تسلیم کرتا ہوں کہ سائنسی ایجادات میں آدمیوں کے کارنامے عورتوں کے مقابلے میں نسبتاً زیادہ ہیں، مگر اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ اس سیارے کے لوگ بھی عورت کی ذہنی تربیت میں اتنے ہی پچھڑے ہوئے ہوں،آدمی کو اپنی ایجاد پر فخر کرتے ہوئے یہ یاد رکھنا چاہیے کہ وہ خود ایک عورت کی ایجاد ہے، عورت ہی ہے جو اپنے پیٹ کی مشین میں پورے نو مہینے اسے تیار کرکے زمین پر انڈیلنے کے لائق بناتی ہے ، ورنہ آدمی کا وہ گندا قطرہ ، جس پر اسے ابوالبشر ہونے کا اعزاز دیا گیا ہے، عورت کی شرمگاہ میں نہ اترسکے تو نالی، گھانس، کچرے یا کسی اور شے کی نذر ہوجاتا ہے۔اس اعتراض کے جواب میں ہمارے ایک فاضل دوست نے کہا تھا کہ پی کے میں عورت کو اس حالت میں دکھانا ممکن نہیں تھا، جس میں عامر خان کو دکھایا گیا ہے، یعنی کہ ننگا، اور ننگا دکھانے کا مقصد یہ پیغام دینا تھا کہ جس طرح بچے دنیا میں آتے ہیں، اس فلم کا مرکزی کردار اپنی معصومیت سمیت دھرتی پر اترا ہے ، اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم عورت کے بارے میں یہ تصور قائم کرنے میں ناکام ہیں کہ وہ بھی ننگی ہی پیدا ہوتی ہے۔جس بات میں قدرت نے کوئی امتیاز نہیں کیا، انسانی عقل نے اس کو بھرپور طریقے سے دو حصوں میں باٹ دیا ہے۔عجیب بات ہے کہ ہم جس سماج میں رہتے ہیں وہاں سب جانتے ہیں کہ انٹر نیٹ پر بھی سب سے زیادہ دیکھی جانے والی ویب سائٹس فحش ہی ہوا کرتی ہیں ، مذہبی ویب سائٹس سے بھی کئی گنا زیادہ۔پھر بھی ہمیں عورت کو ایک لاجیکل معاملے میں ننگا دیکھنے سے شرم آتی ہے۔ہندوستانی سماج میں عورت کو صرف اکیلے میں ننگا دیکھا جاسکتا ہے، پھر چاہے وہ اپنی ہو یا پرائی، آپ اسے سامنے سے دیکھ رہے ہوں یا چھپ کر، وہ آپ کے بستر میں ہو یا آپ کے اسکرین پر۔ہم اس سچ کو بہت جلدی قبول کرلیتے ہیں کہ مرد کو اپنا وہ حصہ دکھانا چاہیے جو کہ خوبصورت ہے، اس کی ڈولتی ہوئی بازوؤں کی مچھلیاں، اس کی تڑکتی بھڑکتی بھری ہوئی چھاتی، طاقت کا مظاہر ہ کرتی ہوئی رانیں وغیرہ وغیرہ مگر عورت کو اپنا حسن دکھانے کے لیے سماجی سرٹیفکٹ لینے کی ضرورت ہے، ان سب کے باوجود جب وہ فلموں میں اپنے خوبصورت بدن کی نمائش کرکے چار پیسے کمانے کے لائق بن جائے تو وہ ننگی۔دراصل عورت کو ننگا دیکھنے سے ہم اس لیے ڈرتے ہیں کیونکہ جس نے عورت کو اس حالت میں دیکھا، سماج کی نظر میں وہ ننگا ہوجاتا ہے۔اس لیے سماج نے اس کے خفیہ راستے تیار کیے ہوئے ہیں۔
پتہ نہیں کیوں ، اس سچ کو جانتے ہوئے بھی کہ سارے معاملات یا عوامل کا دار و مدار دراصل نیت پر ہے، نیت اگر نیک ہے تو انسان بھی نیک ہے، نیت اگر بری ہے تو انسان بھی برا ہے، ایسا کیوں نہیں ہوتا کہ کوئی جنسی مریض قرآن میں موجود حوروں کی ستروں کا ذکر پڑھ کر حظ اٹھائے کیونکہ وہاں ہم نے تقدس کی قید لگادی ہے، ذہن کا معاملہ تھوڑا سا عجیب ہے، اسے جس طرح کے حالات، جس طرح کے معاملات میں ڈھالا جائے وہ ڈھل جائے گا۔اگر ہم مذہب کے ہی سہارے نئے زمانے میں مردوں کا عورتوں کے تعلق سے ایک نیا مائنڈ سٹ تیار کرسکیں تو کتنا بہتر ہوگا ۔پی کے اور اوہ مائی گوڈ جیسی فلمیں جن مذہبی مسائل کی طرف توجہ دیتی ہیں ان کا ادراک اپنی جگہ ، مگر مذہبی مسائل سے چھٹکارا اس وقت تک حاصل نہیں ہوسکتا جب تک مقتدرہ قوتوں کو اس بات کا احساس نہ دلایا جائے کہ لوگ اچھائی اور برائی میں فرق کرنے کا تمیز سیکھ گئے ہیں، جس دن سیاسی جماعتوں کو اس بات کا احساس ہوگیا کہ جعلی پنڈتوں، ملاؤں اور دھرم گروؤں کے خاتمے سے ایک نیا ووٹ بینک تیار ہوسکتا ہے تو وہ اس طرف بھی توجہ دیں گے، ورنہ آرٹ کے لیے تو ہر زمانے میں مذہبی پابندیاں اور ریاکاریاں لوگوں کے سامنے لانا ایک اہم مقصد رہا ہے، مگر اس سے حالات بدلتے کم ہیں بلکہ لوگ اس طرح کی فلموں کو انٹرٹینمنٹ کے لیے دیکھ کر اپنی اپنی راہ لیتے ہیں۔دراصل ہم ہندوستانی ہیں اور تفریحی یا چمتکاری عناصر کو کبھی اپنی زندگی سے الگ کرکے چیزوں کو نہیں دیکھ سکتے، میں فلم پی کے کی نیت پر شک نہیں کررہا کہ یہ کہہ دوں وہ ہندو مسلم رشتے کو بہتر بنانے کی سعی سے زیادہ ایک کامیاب کمرشل حربہ تھا جب عامر خان انشکا شرما کو یقین دلاتے ہیں کہ ان کے پاکستانی مسلمان دوست نے انہیں دھوکا نہیں دیا ہے بلکہ پاکھنڈی بابا کی برین واشنگ کے زیر اثر وہ اس کے بارے میں اپنے آپ فیصلہ کرچکی ہے۔لیکن اس میں کیا شک ہے کہ ہمیں اس معمے کو حل کرنے کے لیے بھی ایک چمتکار کی ضرورت پڑی، یہاں بھی تو ہمارا برین واش کیا جارہا ہے کہ بھئی! کوئی آسمانی یا خلائی مخلوق ہی اس طرح کے مسائل کو حل کرسکتی ہے۔سائنس کی انتہائی ترقی کے زمانے میں بھی چمتکار کے اس رویے کو کسی نہ کسی طرح ہندوستانی پبلک کے جذبات کا خیال رکھ کر فلم میں شامل کرنا اس بات کا شاہد ہے کہ ہم بدل کر بھی بدلنا نہیں چاہتے۔کوئی پیغمبر نہ سہی کوئی ایلین سہی، کوئی دھرم گرو نہ سہی کوئی ایکٹر سہی،مگر ہمارے دماغوں کو تابع کرنے کے لیے چمتکاروں کا سہارا لیا جاتا تھا اور لیا جاتا رہے گا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ان دونوں فلموں میں بہت سے اہم مذہبی مسائل کو صاف طور پر دکھانے کی کوشش کی گئی ہے، مگر بہت سے ضمنی مسائل ایسے بھی ہیں جو بہت پیچھے رہ جاتے ہیں۔کوئی بھی کٹر سوچ آخر کس طرح جنم لیتی ہے، ماحول اور سماج مل کر آخر لوگوں کو کس طرح چھواچھوت اور مذہبی تعصب کی طرف دھکیلتے رہتے ہیں، انسان اپنی چھوٹی بڑی بہت سی باتوں سے خدا کو اپنے طور پر خوش رکھنے کے جتن کرنے لگتا ہے، اور اس چکر میں انسان سے، رشتہ داروں سے حتیْ کہ خود سے بھی دور ہونے لگتا ہے، مجھے اکثر اس بات پر تعجب ہوتا ہے کہ خدا بال بڑھانے سے بھی خوش ہوسکتا ہے۔مگر انسان کی موٹی عقل میں یہ بات آنے نہیں پاتی کہ خدا کو بال کٹانے یا بڑھانے سے زیادہ انسان کے خوش شکل ہونے پر خوشی ہونی چاہیے۔مسابقت کے اس دور میں جہاں ایجوکیشن بجائے خود ایک صنعت میں تبدیل ہوتی جارہی ہے، وہاں مدرسے، ضلع پریشد یا دھارمک پاٹھ شالاؤں میں پڑھنے والے بچے کہاں جائیں گے۔اس بہانے چار اکشر تو ان کے گلے سے نیچے اتر جاتے ہیں، کچھ تو ہے جو ان تک پہنچ جاتا ہے، پھر سیکولر سوچ کہاں سے جنم لے۔سارا کام ’ستیہ میو جیتے‘ کے ذریعے تو نہیں ہوسکتا۔جس کو ہوسٹ کرنے کی اچھی خاصی رقم عامر خان صاحب خود لیتے ہیں۔تو سوال یہ ہے کہ جہاں تعلیم حاصل کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہی مذہب ہو وہاں مذہب کے ذریعے حاصل کی جانے والی خوف اور لالچ کی تعلیم کا قلع قمع کیسے کیا جائے۔
غریب طبقہ جس میں سماج کا متوسط طبقہ بھی شامل ہے، اپنی خواہشوں ، آرزوؤں کی تکمیل کا کوئی راستہ تلاش کرتا رہتا ہے، اس پر ایک طرف سماج کے بنائے ہوئے اصولوں کا بھاری بوجھ ہے، دوسری طرف قانون کی سخت نظر، سب کی نگاہ میں عزت بنائے رکھنے کا خوف اور شرافت کا ایک بے ڈھب چوغہ۔ایسے میں وہ کہاں جائے، لے دے کر اسے اللہ یا بھگوان کے پاس جانا پڑتا ہے، یہ اللہ یا بھگوان اس کا مسئلہ حل نہیں کرتے بلکہ اس کے اندر پک رہے ضرورت یا لالچ کے لاوے کو اظہار کا ایک ذریعہ عطا کردیتے ہیں، اس اظہار کی مجبوری کا فائدہ اٹھا کر مذہبی غنڈے ان سے رقم اینٹھتے ہیں اور حکومت چاہتی ہے کہ یہ پورا کا پورا طبقہ محنت و ذلت کی چکی میں دن رات یونہی پستا رہے۔اب اس کی تبدیلی کی گنجائش جب تک نہیں نکلتی کسی بہتری کے راستے کی توقع کرنا بے کار ہے۔چلیے مان لیتے ہیں کہ ایک متوسط قسم کا آدمی ان اوٹ پٹانگ مذہبی رسموں سے آزاد ہوجاتا ہے ، غریب آدمی راون کو جلانے اور محرم کا علم اٹھانے کے طریقوں کو تیاگ دیتا ہے تو اس کے اظہار کو دوسرا کوئی بہتر راستہ تو دیجیے ، اس کو آسائش نہ سہی، مگر جتنا ہے اتنے میں صبر کرتے رہنے اور بھگوان کے دوار میں ان کے لیے رکھے گئے پھل کے چھلاوے سے مکت کردینے کے بعد آپ کیا دے سکیں گے۔ہمیں بیماری سے زیادہ بیماری کو پیدا کرنے والے جراثیم کو مارنے کی جانب توجہ دینی چاہیے۔بہرحال ہندوستان میں رہنے والے عام لوگوں کے اقتصادی، روحانی اور معاشرتی مسائل اس قدر زیادہ ہیں کہ ان کو لیوش ڈرائنگ میں بیٹھ کر سانس لینے والے خوشبو دار ذہن حل نہیں کرسکتے، اس کے لیے تو انہیں اپنے ہی بنائے ہوئے راستوں کی طرف جانا پڑے گا، ہاں بنیادی غلطیوں اور مسائل کی جانب توجہ دی جائے تو شاید کچھ مسائل حل ہوسکتے ہیں۔
مضمون نگار: تصںیف حیدر
مضمون نگار: تصںیف حیدر
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں