ہفتہ، 6 جون، 2015

چچا سام کے نام منٹو کے خطوط


پہلا خط

۳۱ لکشمی مینشنز ہال روڈ ،لاہور
مورخہ ۱۶ دسمبر ۱۹۵۱ء
چچا جان، اسلام علیکم !
یہ خط آپ کے پاکستانی بھتیجے کی طرف سے ہے، جسے آپ نہیں جانتے۔ جسے آپ کی سات آزادیوں کی مملکت میں شاید کوئی بھی نہیں جانتا۔
میرا ملک ہندوستان سے کٹ کر کیوں بنا، کیسے آزاد ہوا، یہ تو آپ کو اچھی طرح معلوم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں خط لکھنے کی جسارت کر رہا ہوں، کیونکہ جس طرح میرا ملک کٹ کر آزاد ہوا اسی طرح میں کٹ کر آزاد ہوا ہوں اور چچا جان یہ بات تو آپ جیسے ہمہ دان عالم سے چھپی ہوئی نہیں ہونی چا ہیئیکہ جس پرندے کو پر کاٹ کر آزاد کیا جائے گا اس کی آزادی کیسی ہوگی ۔۔۔۔۔۔ خیر اس قصے کو چھوڑیئے۔
میرا نام سعادت حسن منٹو ہے، میں ایک ایسی جگہ پیدا ہوا تھا جو اب ہندوستان میں ہے میری ماں وہاں دفن ہے، میرا باپ وہاں دفن ہے، میرا پہلا بچہ بھی اسی زمین میں سو رہا ہے لیکن اب وہ میرا وطن نہیں، میرا وطن اب پاکستان ہے جو میں نے انگریزوں کے غلام ہونے کی حیثیت میں پانچ چھ مرتبہ دیکھا تھا۔
میں پہلے سارے ہندوستان کا ایک بڑا افسانہ نگار تھا۔ اب پاکستان کا ایک بڑا افسانہ نگار ہوں۔ میرے افسانوں کے کئی مجموعے شائع ہو چکے ہیں، لوگ مجھے عزت کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔ سالم ہندوستان میں مجھ پر تین مقدمے چلے تھے۔ یہاں پاکستان میں ایک لیکن اسے ابھی بنے کے برس ہوئے ہیں۔
انگریزوں کی حکومت بھی مجھے فحش نگار سمجھتی تھی۔ میری اپنی حکومت کا بھی میرے متعلق یہی خیال ہے۔ انگریزوں کی حکومت نے مجھے چھوڑ دیا تھا لیکن میری اپنی حکومت مجھے چھوڑتی نظر نہیں آتی۔ عدالت ماتحت نے مجھے تین ماہ قید بامشقت اور تین سو روپے جرمانے کی سزا دی تھی۔ سیشن میں اپیل کرنے پر میں بری ہو گیا، مگر میری حکومت سمجھتی ہے کہ اس کے ساتھ ناانصافی ہوئی ہے، چنانچہ اب اس نے ہائی کورٹ میں اپیل کی ہے کہ سیشن کے فیصلے پر نظرثانی کرے اور مجھے قرار واقعی سزا دے ۔۔۔۔۔۔ دیکھئے عدالت عالیہ کیا فیصلہ دیتی ہے۔
میرا ملک آپ کا ملک نہیں۔ اس کا مجھے افسوس ہے، اگر عدالت عالیہ مجھے سزا دے دے تو میرے ملک میں ایسا کوئی پرچہ نہیں جو میری تصویر چھاپ سکے۔ میرے تمام مقدموں کی روداد کی تفصیل چھاپ سکے۔
میرا ملک بہت غریب ہے۔ اس کے پاس آرٹ پیپر نہیں ہے اس کے پاس اچھے چھاپے خانے نہیں ہیں۔ اس کی غربت کا سب بڑا ثبوت میں ہوں۔ آپ کو یقین نہیں آئے گا چچا جان بیس بائیس کتابوں کا مصنف ہونے کے بعد بھی میرے پاس رہنے کیلئیاپنا مکان نہیں اور یہ سنکر تو آپ حیرت میں غرق ہو جائیں گے کہ میرے پاس سواری کیلئے کوئی پیکارڈ ہے نہ ڈوج، سیکنڈ ہینڈ موٹر کار بھی نہیں۔
مجھے کہیں جانا ہو تو سائیکل کرائے پر لیتا ہوں، اخبار میں اگر میرا کوئی مضمون چھب جائے اور سات روپے فی کالم کے حساب سے مجھے بیس پچیس روپے مل جائیں تو میں تانگے پر بیٹھتا ہوں اور اپنے یہاں کی کشید کردہ شراب بھی پیتا ہوں، یہ ایسی شراب ہے کہ اگر آپ کے ملک میں کشید کی جائے تو آپ اس ڈسٹلری کو ایٹم بم سے اڑا دیں کیونکہ ایک برس کے اندر اندر ہی یہ خانہ خراب انسان کو نیست و نابود کر دیتی ہے۔
میں کہاں کا کہاں پہنچ گیا۔ اصل میں مجھے بھائی جان ارسکاٹن کولڈول کو آپ کے ذریعے سے سلام بھیجنا تھا۔ ان کو تو خیر آپ جانتے ہی ہوں گے۔ ان کے ایک ناول ’’گوڈز لٹل ایکٹر‘‘ پر آپ مقدمہ چلا چکے ہیں۔ جرم وہی تھا جو اکثر یہاں میرا ہوتا ہے یعنی فحاشی۔
یقین جانئے چچا جان مجھے بڑی حیرت ہوئی تھی، جب میں نے سنا تھا کہ ان کے ناول پر سات آزادیوں کے ملک میں فحاشی کے الزام میں مقدمہ چلا ہے۔ آپ کے یہاں تو ہر چیز ننگی ہے۔ آپ تو ہر چیز کا چھلکا اتار کر الماریوں میں سجا رکھتے ہیں۔ وہ پھل ہو یا عورت۔ مشین ہو یا جانور، کتاب ہو یا کیلنڈر، آپ تو ننگ کے بادشاہ ہیں۔ میرا خیال تھا آپ کی مملکت میں طہارت کا نام فحاشی ہوگا مگر چچا جان آپ نے یہ کیا غضب کیا کہ بھائی جان ارسکاٹن کولڈول پر مقدمہ چلا دیا۔
میں اس صدمے سے متاثر ہو کر اپنے ملک کی کشید کردہ شراب زیادہ مقدار میں پی کر یقیناً مر گیا ہوتا، اگر میں نے فوراً ہی اس مقدمے کا فیصلہ نہ پڑھ لیا ہوتا۔ یہ میرے ملک کی بدقسمتی تو ہوئی کہ ایک انسان محض خس کم جہاں پاک ہونے سے رہ گیا، لیکن پھر میں آپ کو یہ خط کیسے لکھتا۔ ویسے میں بڑا سعادت مند ہوں۔ مجھے اپنے ملک سے پیار ہے۔ میں انشاء اللہ تھوڑے ہی دنوں میں مر جاؤں گا، اگر خود نہیں مروں گا تو خود بخود مر جاؤں گا، کیونکہ جہاں آٹا روپے کا پونے تین سیر ملتا ہو، وہاں بڑا ہی بے غیرت انسان ہوگا جو زندگی کے روایتی چار دن گزار سکے۔
ہاں، تو میں نے مقدمے کا فیصلہ پڑھا اور میں نے خانہ ساز شراب زیادہ مقدار میں پی کر خودکشی کا ارادہ ترک کر دیا ۔۔۔۔۔۔ بھئی چچا جان کچھ بھی ہو، آپ کے ہاں ہر چیز ملمع چڑھی ہے، لیکن وہ جج جس نے بھائی جان ارسکاٹن کو فحاشی کے جرم میں بری کیا، اس کے دماغ پر یقیناًملمع کا جھول نہیں تھا ۔۔۔۔۔۔ اگر یہ جج (افسوس ہے کہ میں ان کا نام نہیں جانتا) زندہ ہیں تو ان کو میرا عقیدت مندانہ سلام ضرور پہنچا د یجیئے۔
ان کے فیصلے کی یہ آخری سطور ان کے دماغ کی وسعت کا پتہ دیتی ہیں:۔
’’میں ذاتی طور پر محسوس کرتا ہوں کہ ایسی کتابوں کو سختی سے دبا دینے پر پڑھنے والوں میں خواہ مخواہ تجسس اور استعجاب پیدا ہوتا ہے جو انہیں شہوت پسندی کی ٹوہ لگانے کی طرف مائل کر دیتا ہے حالانکہ اصل کتاب کا یہ منشاء نہیں ہے، مجھے پورا یقین ہے کہ اس کتاب میں مصنف نے صرف وہی چیز منتخب کی ہے جسے وہ امریکی زندگی کے کسی مخصوص طبقے کے متعلق سچا خیال کرتا ہے میری رائے میں سچائی کو ادب کیلئے ہمیشہ جائز قرار دینا چاہیئے۔‘‘
میں نے عدالت ماتحت سے یہی کہا تھا، لیکن اس نے مجھے تین ماہ قید بامشقت اور تین سو روپے کی سزا دے دی ۔۔۔۔۔۔ اس کی رائے یہ تھی کہ سچائی کو ادب سے ہمیشہ دور رکھنا چا ہیئے ۔۔۔۔۔۔ اپنی اپنی رائے ہے۔
میں تین ماہ قید بامشقت کاٹنے کیلئے تیار ہوں، لیکن یہ تین سو روپے کا جرمانہ مجھ سے ادا نہیں ہوگا، چچا جان آپ نہیں جانتے ہیں بہت غریب ہوں ۔۔۔۔۔۔ مشقت کا تو میں عادی ہوں لیکن روپوں کا عادی نہیں، میری عمر انتالیس برس کے قریب ہے اور یہ سارا زمانہ مشقت ہی میں گزرا ہے، آپ ذرا غور تو فرمایئے کہ اتنا بڑا مصنف ہونے پر بھی میرے پاس کوئی پیکارڈ نہیں ۔۔۔!
میں غریب ہوں، اس لیئے کہ میرا ملک غریب ہے، مجھے تو پھر دو وقت کی روٹی کسی نہ کسی حیلے مل جاتی ہے، مگر میرے بھائی کچھ ایسے بھی ہیں جنہیں یہ بھی نصیب نہیں ہوتی۔
میرا ملک غریب ہے ۔۔۔۔۔۔ جاہل ہے، کیوں ؟ ۔۔۔۔۔۔ یہ تو آپ کو بخوبی معلوم ہے چچا جان، یہ آپ کے اور آپ کے بھائی جان مل کر مشترکہ ساز کا ایسا تار ہے جسے میں چھیڑنا نہیں چاہتا۔ اس لیئے کہ آپ کی سماعت پر گراں گزرے گا۔ میں یہ خط ایک برخودار کی حیثیت سے لکھ رہا ہوں اس لیئے مجھے اول تا آخر برخوردار ہی رہنا چا ہیئے۔
آپ ضرور پوچھیں گے اور بڑی حیرت سے پوچھیں گے کہ تمہارا ملک غریب کیونکر ہے جب کہ میرے ملک سے اتنی پیکارڈیں، اتنی بیوکیں ۔۔۔۔۔۔ میکس فیکٹر کا اتنا سامان جاتا ہے، یہ سب ٹھیک ہے چچا جان، مگر میں آپ کے اس سوال کا جواب نہیں دوں گا۔ اس لیئے آپ اس کا جواب اپنے دل سے پوچھ سکتے ہیں (اگر آپ نے اپنے قابل سرجنوں سے کہہ کر اسے اپنے پہلو سے نکلوا نہ ڈالا ہو۔)
میرے ملک کی وہ آبادی جو پیکارڈوں اور بیوکوں پر سوار ہوتی ہے، میرا ملک نہیں ۔۔۔۔۔۔ میرا ملک وہ ہے جس میں مجھ ایسے اور مجھ سے بدتر مفلس بستے ہیں۔
یہ بڑی تلخ باتیں ہیں۔ ہمارے یہاں شکر کم ہے، ورنہ میں ان پر چڑھا کہ آپ کی خدمت میں پیش کرتا۔ اس کو بھی چھوڑیئے۔ بات دراصل یہ ہے کہ میں نے حال ہی میں آپ کے دوست ملک کے ایک ادیب EVELYN WAUGH کی تصنیف THE LOVED ONES پڑھی ہے، میں اس سے اتنا متاثر ہوا کہ آپ کو یہ خط لکھنے بیٹھ گیا۔
آپ کے ملک کی انفرادیت کا میں یوں بھی معترف تھا، مگر یہ کتاب پڑھ کر تو میرے منہ سے بے اختیار نکلا۔
جو بات کی خدا کی قسم لاجواب کی ۔۔۔۔۔۔ واہ وا، واہ وا، واہ وا
چچا جان ! وا اللہ مزا آ گیا۔ کیسے زندہ دل لوگ آپ کے ملک میں بستے ہیں۔
ایوی لن وا ہمیں بتاتا ہے کہ آپ کے کیلی فورنیا میں مردوں یعنی بچھڑے ہوئے عزیزوں پر بھی ملمع کاری کی جا سکتی ہے اور اس کیلئے بڑے بڑے ادارے موجود ہیں۔ مرنے والے عزیز کی شکل مکروہ ہو تو ان میں سے کسی میں بھیج دیئے، فارم موجود ہے۔ اس میں اپنی خواہشات درج کر دیجئے۔ کام حسب منشا ہوگا۔ یعنی مردے کو آپ جتنا خوبصورت بنوانا چاہیں، دام دے کر بنوا سکتے ہیں، اچھے سے اچھا ماہر موجود ہے، جو مردے کے جبڑے کا اپریشن کر کے اس پر میٹھی سے میٹھی مسکراہٹ ثبت کر سکتا ہے۔ آنکھوں میں روشنی پیدا کی جا سکتی ہے، ماتھے پر حسب ضرورت نور پیدا کیا جا سکتا ہے اور یہ سب کام ایسی چابکدستی سے ہوتا ہے کہ قبر میں منکر نکیر بھی دھوکہ کھا جائیں۔
بھئی خدا قسم چچا جان ، آپ کے ملک کا کوئی جواب پیدا نہیں کر سکتا۔
زندوں پر آپریشن سنا تھا، پلاسٹک سرجری سے زندہ آدمیوں کی شکل سنواری جا سکتی ہے۔ اس کے متعلق بھی یہاں کچھ چرچے ہوئے تھے۔ مگر یہ نہیں سنا تھا کہ آپ مردوں تک کی شکل سنوار دیتے ہیں۔
یہاں آپ کے ملک کا ایک سیاح آیا تھا۔ چند احباب نے مجھ سے ان کا تعارف کرایا۔ اس وقت میں بھائی ایوی لن دا کی کتاب پڑھ چکا تھا۔ میں نے ان سے ان کے ملک کی تعریف کی اور یہ شعر پڑھا۔

ایک ہم ہیں کہ لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ
ایک وہ ہیں جنہیں تصویر بنا آتی ہے
سیاح صاحب میرا مطلب نہ سمجھے مگر حقیقت یہ ہے چچا جان کہ ہم نے اپنی صورت کو بگاڑ رکھا ہے۔ اتنا مسخ کر رکھا ہے کہ اب وہ پہچانی بھی نہیں جاتی۔ اپنے آپ سے بھی نہیں ۔۔۔۔۔۔ اور ایک آپ ہیں کہ اپنے مکروہ صورت مردوں تک کی شکل سنوار دیتے ہیں۔ حق تو یہ ہے کہ اس دنیا کے تخت پر ایک صرف آپ کی قوم ہی کو زندہ رہنے کا حق حاصل ہے۔ بخدا باقی سب جھک مار رہے ہیں۔
ہماری زبان اردو کا ایک شاعر غالب ہوا ہے۔ اس نے آج سے قریب قریب ایک صدی پہلے کہا تھا۔
ہوئے مر کے ہم جو رسوا ہوئے کیوں نہ غرق دریا
نہ کہیں جنازہ اٹھتا، نہ کہیں مزار ہوتا
غریب کو زندگی میں اپنی رسوائی کا ڈر نہیں تھا، کیونکہ وہ اوّل تا آخر رسوائے زمانہ رہی۔ اس کو خوف اس بات کا تھا کہ بعداز مرگ رسوائی ہوگی آدمی وضعدار تھا۔ خوف نہیں بلکہ یقین تھا اسی لیئے اس نے غرق دریا ہونے کی خواہش کی کہ جنازہ اٹھے نہ مزار بنے۔
کاش وہ آپ کے ملک میں پیدا ہوا ہوتا۔ آپ اس کا بڑی شان و شوکت سے جنازہ اٹھاتے اور اس کا مزار سکائی سکریپر کی صورت میں بناتے اور اگر اسی کی خواہش پر عمل کرتے تو شیشے کا ایک حوض تیار کرتے جس میں اس کی لاش رہتی دنیا تک غرق رہتی اور چڑیا گھر میں لوگ اسے جا جا کر دیکھتے۔
بھائی ایوی لن دا بتاتا ہے کہ وہاں مردہ انسانوں ہی کیلئے نہیں مردہ حیوانوں کی نوک پلک درست کرنے والے ادارے بھی موجود ہیں۔ حادثے میں اگر کسی کتے کی دم کٹ جاتی ہے تو دوسری لگا دی جاتی ہے۔ مرحوم کی شکل و صورت میں اس کی زندگی میں جتنے عیب تھے، اس کی موت کے بعد چابک دست ہاتھ درست کر دیتے ہیں۔ اسے شان و شوکت کے ساتھ کفنا دفنا دیا جاتا ہے۔ اس کی تربت پر پھول چڑھانے کا انتظام بھی کر دیا جاتا ہے اور ہر سال جس روز کسی کا پالتو مرا ہو، اس ادارے کی طرف سے ایک کارڈ بھیج دیا جاتا ہے جس پر کچھ اس قسم کی عبادت ہوتی ہے:۔
’’جنت میں آپ کا ٹیمی یا سنی آپ کی یاد میں اپنی دم یا کان ہلا رہا ہے۔‘‘
ہم سے تو آپ کے ملک کے کتے ہی اچھے۔ یہاں آج مرے کل دوسرا دن۔ کسی کا کوئی عزیز مرتا ہے تو اس غریب پر ایک آفت ٹوٹ پڑتی ہے اور وہ دل ہی دل میں چلاتا ہے ’’کمبخت یہ کیوں مرا ۔۔۔۔۔۔ مجھے ہی موت آ گئی ہوتی!‘‘ ۔۔۔۔۔۔ سچ تو یہ ہے چچا جان ہمیں مرنے کا سلیقہ آتا ہے نہ جینے کا۔
آپ کے ملک میں ایک صاحب نے کمال کر دیا۔ ان کو یقین نہیں تھا کہ ان کی موت کے بعد ان کا جنازہ سلیقے اور قرینے سے اٹھے گا چنانچہ انہوں نے اپنی زندگی ہی میں اپنے کفن دفن کی بہار دیکھ لی ۔۔۔۔۔۔ یہ ان کا حق تھا۔ وہ بڑی شائستگی، نفاست اور امارت کی زندگی بسر کرتے تھے۔ ہر چیز ان کے منشا کے مطابق ہوتی تھی۔ ہو سکتا ہے موت کے بعد ان کا جنازہ اٹھانے میں کسی سے کوئی کوتاہی ہو جاتی بہت اچھا کیا جو انہوں نے زندگی ہی میں اپنی موت کی آرائش و زیبائش دیکھ لی۔ مرنے کے بعد ہوتا رہے جو ہوتا ہے۔
تازہ ’’لائف‘‘ (مورخہ ۵ نومبر ۱۹۵۱ء انٹرنیشنل ایڈیشن) دیکھا۔ واللہ آپ لوگوں کی زندگی کا ایک اور زندگی آموز پہلو آنکھوں کے سامنے روشن ہوا۔ دو پورے صفحوں پر تصویروں کے ساتھ آپ کے ملک کے مشہور و معروف ’’گینگسٹر‘‘ کے جنازے کی پوری رو داد مرقوم تھی۔ دلی موریٹی (خدا اسے کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے) کی شبیہہ دیکھی۔ اس کا وہ عالیشان گھر دیکھا جو اس نے حال ہی میں پچپن ہزار ڈالر میں فروخت کیا تھا اور اس کی وہ پانچ ایکڑ کی سٹیٹ بھی دیکھی جہاں وہ دنیا کے ہنگاموں سے الگ ہو کر آرام اور چین کی زندگی بسر کرنا چاہتا تھا اور مرحوم کا وہ فوٹو بھی دیکھا جس میں وہ بستر پر ہمیشہ کیلئے آنکھیں بند کیئے لیٹا ہے۔ اور اس کا پانچ ہزار ڈالر کا تابوت اور اس کے جنازے کا جلوس جو پھولوں سے لدی پھندی گیارہ بڑی بڑی لمو زینوں اور پچھتر کاروں پر مشتمل ہے ۔۔۔۔۔۔ اللہ واحد شاہد ہے۔ آنکھوں میں آنسو آ گئے۔
خاکم بدہن ! اگر آپ انتقال فرما جائیں تو خدا آپ کو دلی موریٹی سے زیادہ عزت اور شان عنایت فرمائے ۔۔۔۔۔۔ یہ پاکستان کے ایک غریب مصنف کی دلی دعا ہے۔ جس کے پاس سواری کیلئے ایک ٹوٹی پھوٹی سائیکل بھی نہیں۔ وہ آپ سے ایک ایسی استدعا بھی کرتا ہے۔ کہ کیوں نہ آپ اپنے ملک کے دور اندیش آدمی کی طرح اپنی زندگی ہی میں اپنا جنازہ اٹھتا دیکھ لیں۔ بندہ بشر ہے، ہو سکتا ہے کسی سے بھول چوک ہو جائے ہو سکتا ہے آپ کے چہرے کا کوئی خط سنورنے سے رہ جائے اور آپ کی روح کی تکلیف پہنچے ۔۔۔۔۔۔ مگر بہت ممکن ہے آپ یہ خط پہنچنے سے پہلے ہی اپنا جنازہ اپنی حسب منشاء عظیم الشان دھوم دھام سے اٹھوا کے دیکھ چکے ہوں ۔۔۔۔۔۔ اس لیئے کہ آپ مجھ سے کہیں زیادہ صاحب فہم و ادراک ہیں اور میرے چچا ہیں۔
بھائی جان ارسکاٹن کولڈول کو سلام اور جج کو بھی جنہوں نے ان کو فحاشی کے جرم سے بری کیا تھا کوئی گستاخی ہو گئی ہو تو اسے معاف فرمائیں۔ زیادہ حد ادب
آپ کا مفلس بھتیجا
سعادت حسن منٹو سکنہ پاکستان
(یہ خط پوسٹیج اسٹیمپ خرید نہ سکنے کے باعث پوسٹ نہ کیا جا سکا)




*****

دوسرا خط

مکرمی و محترمی چچا جان
تسلیمات!
عرصہ ہوا میں نے آپ کی خدمت میں ایک خط ارسال کیا تھا ۔۔۔۔۔۔ آپ کی طرف سے تو اس کی کوئی رسیدنہ آئی مگر کچھ دن ہوئے آپ کے سفارت خانے کے ایک صاحب جن کا اسم گرامی مجھے اس وقت یاد نہیں شام کو میرے غریب خانے پر تشریف لائے۔ ان کے ساتھ ایک سو دیشی نوجوان بھی تھے۔ ان صاحبان سے جو گفتگو ہوئی، وہ میں مختصراً بیان کر دیتا ہوں۔
ان صاحب سے انگریزی میں مصافحہ ہوا۔ مجھے حیرت ہے چچا جان کہ وہ انگریزی بولتے تھے۔ امریکی نہیں، جو میں ساری عمر نہیں سمجھ سکتا۔
بہرحال ان سے آدھ پون گھنٹہ باتیں ہوئیں۔ وہ مجھ سے مل کر بہت خوش ہوئے، جس طرح ہر امریکی پاکستانی یا ہندوستانی سے مل کر خوش ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔ میں نے بھی یہی ظاہر کیا ہے کہ مجھے بڑی مسرت ہوئی ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ مجھے سفید فام امریکنوں سے مل کر کوئی راحت یا مسرت نہیں ہوتی۔
آپ میری صاف گوئی کا برا نہ مانیئے گا ۔۔۔۔۔۔ پچھلی بڑی جنگ کے دوران میں میرا قیام بمبئی میں تھا۔ ایک روز مجھے لمبے سنٹرل (ریلوے سٹیشن) جانے کا اتفاق ہوا۔ ان دنوں وہاں آپ ہی کے ملک کا دور دورہ تھا۔ بیچارے ٹامیوں کو کوئی پوچھتا ہی نہیں تھا۔ بمبئی میں جتنی اینگلو انڈین، یہودی اور پارسی لڑکیاں جو عصمت فروشی کو از راہ فیشن اختیار کیئے ہوئے تھیں، امریکی فوجیوں کی بغل میں چلی گئیں۔
چچا جان، میں آپ سے سچ عرض کرتا ہوں کہ جب آپ کے امریکہ کا کوئی فوجی کسی یہودن، پارسی یا اینگلو انڈین لڑکی کو اپنے ساتھ چمٹائے گزرتا تھا تو ٹامیوں کے سینے پر سانپ لوٹ لوٹ جاتے تھے۔
اصل میں آپ کی ہر ادا نرالی ہے ۔۔۔۔۔۔ ہمارے فوجی کو تو یہاں اتنی تنخواہ ملتی ہے کہ وہ اس کا آدھا پیٹ بھی نہیں بھر سکتی، مگر آپ ایک معمولی چپڑاسی کو اتنی تنخواہ دیتے ہیں کہ اگر اس کے دو پیٹ ہیں تو وہ ان کو بھی ناک تک بھر دے۔
چچا جان ، گستاخی معاف ۔۔۔۔۔۔ کیا یہ فراڈ تو نہیں ۔۔۔۔۔۔ آپ اتنا روپیہ کہاں سے لاتے ہیں۔ چھوٹا منہ اور بڑی بات ہے، لیکن آپ جو کام کرتے ہیں، اس میں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ نمائش ہی نمائش ہے ۔۔۔۔۔۔ ہو سکتا ہے کہ میں غلطی پر ہوں مگر غلطیاں انسان ہی کرتا ہے اور میرا خیال ہے کہ آپ بھی انسان ہیں، اگر نہیں ہیں تو اس کے متعلق کچھ نہیں کہہ سکتا۔
میں کہاں سے کہاں چلا گیا ۔۔۔۔۔۔ بات بمبے سنٹرل ریلوے سٹیشن کی تھی۔ میں نے وہاں آپ کے کئی فوجی دیکھے۔ ان میں زیادہ تر سفید فام تھے ۔۔۔۔۔۔ کچھ سیاہ فام بھی تھے ۔۔۔۔۔۔ میں آپ سے سچ عرض کروں کہ یہ کالے فوجی، سفید فوجیوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ تنومند اور صحت مند تھے۔
میری سمجھ میں نہیں آتا کہ آپ کے ملک کے لوگ اس کثرت سے چشمہ کیوں استعمال کرتے ہیں۔ گوروں نے تو خیر چشمے لگائے ہوئے تھے لیکن کالوں نے بھی جنہیں آپ حبشی کہتے ہیں اور بوقت ضرورت ’’لنچ‘‘ کر دیتے ہیں، وہ کیوں عینک کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ یہ سب آپ کی حکمت عملی ہے ۔۔۔۔۔۔ آپ چونکہ پانچ آزادیوں کے مدعی ہیں، اس لیئے آپ چاہتے ہیں کہ وہ لوگ جنہیں آپ بڑی آسانی سے ہمیشہ کیلئے آرام کی نیند سلا سکتے ہیں اور سلاتے رہے ہیں، ایک موقعہ دیا جائے کہ وہ آپ کی دنیا کو آپ کی عینک سے دیکھ سکیں۔
میں نے وہاں بمبے سنٹرل کے سٹیشن پر ایک حبشی فوجی کو دیکھا۔ اس کے ڈنٹریہ موٹے موٹے تھے ۔۔۔۔۔۔ وہ اتنا تنومند تھا کہ میں ڈر کے مارے سکڑ کے آدھا ہو گیا، لیکن پھر بھی میں نے جرأت سے کام لیا۔
وہ اپنے سامان سے ٹیک لگائے سستا رہا تھا۔ میں اس کے پاس گیا۔ اس کی آنکھیں مندی ہوئیں تھیں میں نے بوٹ کے ذریعے آواز پیدا کی۔ اس نے آنکھیں کھولیں تو میں نے اس سے انگریزی میں کہا، جس کا مفہوم یہ تھا ’’میں یہاں سے گزر رہا تھا، لیکن آپ کی شخصیت دیکھ کر ٹھہر گیا۔‘‘ اس کے بعد میں نے مصافحے کیلئے ہاتھ بڑھایا۔
اس کالے کلوٹے فوجی نے جو چشمہ لگائے ہوئے تھا اپنا فولادی پنجہ میرے ہاتھ میں پیوست کر دیا۔ قریب تھا کہ میری ساری ہڈیاں چور چور ہو جائیں کہ میں نے اس سے التجا کی ’’خدا کیلئے ۔۔۔۔۔۔ بس اتنا ہی کافی ہے‘‘ اس کے کالے کالے اور موٹے موٹے ہونٹوں پر مسکراہٹ پیدا ہوئی اور اس نے ٹھیٹ امریکی لہجے میں مجھ سے پوچھا ’’تم کون ہو؟‘‘
میں نے اپنا ہاتھ سہلاتے ہوئے جواب دیا ’’میں یہاں کا باشندہ ہوں۔
یہاں سٹیشن پر تم نظر آ گئے تو بے اختیار میرا جی چاہا کہ تم سے دو باتیں کرتا جاؤں۔‘‘
اس نے مجھ سے عجیب و غریب سوال کیا۔ ’’اتنے فوجی موجود ہیں ۔۔۔۔۔۔ تمہیں مجھ ہی سے ملنے کا شوق کیوں پیدا ہوا؟‘‘
چچا جان سوال ٹیڑھا تھا، لیکن جواب خود بخود میری زبان پر آ گیا۔ میں نے اس سے کہا ’’میں کالا ہوں۔ تم بھی کالے ہو ۔۔۔۔۔۔ مجھے کالے آدمیوں سے پیار ہے۔‘‘
وہ اور زیادہ مسکرایا ۔۔۔۔۔۔ اس کے کالے اور موٹے ہونٹ مجھے اتنے پیارے لگے کہ میرا جی چاہتا تھا کہ انہیں چوم لوں۔
چچا جان، آپ کے ہاں بڑی خوبصورت عورتیں ہیں، میں نے آپ کا ایک فلم دیکھا تھا ۔۔۔۔۔۔ کیا نام تھا اس کا ۔۔۔۔۔۔ ہاں یاد آ گیا ۔۔۔۔۔۔ ’’بیدنگ بیوٹی‘‘ یہ فلم دیکھ کر میں نے اپنے دوستوں سے کہا تھا کہ چچا جان اتنی خوبصورت ٹانگیں کہاں سے اکٹھی کر لائے ہیں۔‘‘
میرا خیال ہے قریب قریب دو ڈھائی سو کے قریب تو ضرور ہوں گی ۔۔۔۔۔۔ چچا جان، کیا واقعی آپ کے ملک میں ایسی ٹانگیں عام ہوتی ہیں؟ ۔۔۔۔۔۔ اگر عام ہوتی ہیں، تو خدا کیلئے (اگر آپ خدا کو مانتے ہیں) تو ان کی نمائش کم از کم پاکستان میں بند کر دیجئے۔
ہو سکتا ہے کہ یہاں آپ کی عورتوں کی ٹانگوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ اچھی ٹانگیں ہوں ۔۔۔۔۔۔ مگر چچا جان یہاں کوئی ان کی نمائش نہیں کرتا۔ خدا کیلئے یہ سوچئے کہ ہم صرف اپنی بیوی ہی کی ٹانگیں دیکھتے ہیں، دوسری عورتوں کی ٹانگیں دیکھنا ہم اپنے آپ پر حرام سمجھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ ہم بڑے اور تھو ڈوکس قسم کے آدمی ہیں۔
بات کہاں سے نکلی تھی، کہاں چلی گئی ۔۔۔۔۔۔ میں اس کی معذرت نہیں چاہتا کہ آپ ایسی ہی تحریر پسند کرتے ہیں۔
کہنا یہ تھا کہ آپ کے وہ صاحب جو یہاں کے قونصل خانے سے وابستہ ہیں، میرے پاس تشریف لائے اور مجھ سے درخواست کی کہ میں ان کیلئے ایک افسانہ لکھوں۔ میں بہت متحیر ہوا، اس لیئے کہ مجھے انگریزی میں لکھنا آتا ہی نہیں۔ میں نے ان سے عرض کی ’’جناب میں اردو زبان کا رائٹر ہوں ۔۔۔۔۔۔میں انگریزی لکھنا نہیں جانتا۔‘‘
انہوں نے فرمایا۔ مجھے اردو میں چاہیئے ۔۔۔۔۔۔ ہمارا ایک پرچہ ہے جو اردو میں شائع ہوتا ہے۔‘‘
میں نے اس کے بعد مزید تفتیش کی ضرورت نہ سمجھی اور کہا ’’میں حاضر ہوں۔‘‘
اور خدا واحد ناظر ہے کہ مجھے معلوم نہیں تھا کہ وہ آپ کے کہے پر تشریف لائے ہیں اور آپ نے انہیں میرا وہ خط پڑھا دیا تھا جو میں نے آپ کو لکھا تھا۔
خیر، اس قصے کو چھوڑیئے ۔۔۔۔۔۔ جب تک پاکستان کو گندم کی ضرورت ہے، میں آپ سے کوئی گستاخی نہیں کر سکتا ۔۔۔۔۔۔ ویسے بحیثیت پاکستانی ہونے کے (حالانکہ میری حکومت مجھے اطاعت گزار نہیں سمجھتی) میری دعا ہے کہ خدا کرے کبھی آپ کو بھی باجرے اور نک سک کے ساگ‘‘ کی ضرورت پڑے اور میں اگر اس وقت زندہ ہوں تو آپ کو بھیج سکوں۔
اب سنیئے کہ ان صاحب نے جن کو آپ نے بھیجا تھا مجھ سے پوچھا ’’آپ ایک افسانے کے کتنے روپے لیں گے۔‘‘
چچا جان، ممکن ہے آپ جھوٹ بولتے ہوں ۔۔۔۔۔۔ اور آپ یقیناً بولتے ہیں، بطور فن ۔۔۔۔۔۔ اور یہ فن مجھے ابھی تک نصیب نہیں ہوا۔
لیکن اس روز میں نے ایک مبتدی کے طور پر جھوٹ بولا اور ان سے کہا ’’میں ایک افسانے کیلئے دو سو روپے لوں گا۔‘‘
اب حقیقت یہ ہے کہ یہاں کے ناشر مجھے ایک افسانے کیلئے زیادہ سے زیادہ چالیس پچاس روپے دیتے ہیں۔ میں نے ’’دو سو روپیہ‘‘ تو کہہ دیا، لیکن مجھے اس احساس سے اندرونی طور پر سخت ندامت ہوئی کہ میں نے اتنا جھوٹ کیوں بولا۔ لیکن اب کیا ہو سکتا تھا۔
لیکن چچا جان مجھے سخت حیرت ہوئی، جب آپ کے بھیجے ہوئے صاحب نے بڑی حیرت سے (معلوم نہیں، وہ مصنوعی تھی یا اصلی) فرمایا ’’صرف دو سو روپے ۔۔۔۔۔۔ کم از کم ایک افسانے کیلئے پانچ سو روپے تو ہونے چاہیں۔‘‘
اب میں حیرت زدہ ہو گیا کہ ایک افسانے کیلئے پانچ سو روپے ۔۔۔۔۔۔ یہ تو میرے خواب و خیال میں بھی نہیں آ سکتا تھا ۔۔۔۔۔۔ لیکن میں اپنی بات سے کیسے ہٹ سکتا تھا ۔۔۔۔۔۔ چنانچہ میں نے چچا جان، ان سے کہا ’’صاحب د یکھیئے، وہ سو روپے ہی ہوں گے ۔۔۔۔۔۔ بس اب آپ اس کے متعلق زیادہ گفتگو نہ کیجئے۔‘‘
وہ چلے گئے ۔۔۔۔۔۔ شاید اس لیئے کہ وہ سمجھ چکے تھے کہ میں نے پی رکھی ہے ۔۔۔۔۔۔ وہ شراب جو میں پیتا ہوں، اس کا ذکر میں اپنے پہلے خط میں کر چکا ہوں۔
چچا جان، مجھے حیرت ہے کہ میں اب تک زندہ ہوں ۔۔۔۔۔۔ حالانکہ مجھے پانچ برس ہو گئے ہیں، یہاں کا کشیدہ زہر پیتے ہوئے ۔۔۔۔۔۔ میرا خیال ہے اگر آپ یہاں تشریف لائیں، تو میں آپ کو یہ زہر پیش کروں گا۔ امید ہے، آپ بھی میری طرح حیرت انگیز طور پر زندہ رہیں گے اور آپ کی پانچ آزادیاں بھی سلامت رہیں گی۔
خیر ۔۔۔۔۔۔ اس قصے کو چھوڑیئے ۔۔۔۔۔۔ دوسرے روز صبح سویرے جب کہ میں برآمدے میں شیو کر رہا تھا، آپ کے وہی صاحب تشریف لائے۔ مختصر سی بات چیت ہوئی۔ انہوں نے مجھ سے فرمایا ’’دیکھئے ۔۔۔۔۔۔ دو سو کی رٹ چھوڑیئے ۔۔۔۔۔۔ تین سو لے لیجئے۔‘‘
میں نے کہا چلو ٹھیک ہے، چنانچہ میں نے ان سے تین سو روپے لے لئے ۔۔۔۔۔۔ روپے جیب میں رکھنے کے بعد میں نے ان سے کہا ’’میں نے آپ سے سو روپے زیادہ وصول کیئے ہیں ۔۔۔۔۔۔ لیکن یہ واضح رہے کہ جو کچھ میں لکھوں گا، وہ آپ کی مرضی کے مطابق نہیں ہوگا۔ اس کے علاوہ اس میں کسی قسم کے ردو بدل کا حق بھی میں آپ کو نہیں دوں گا۔‘‘
وہ چلے گئے ۔۔۔۔۔۔ پھر نہیں آئے۔ چچا جان اگر آپ کے پاس پہنچے ہوں اور انہوں نے آپ کو کوئی رپورٹ پہنچائی ہو، تو از راہ کرم اپنے پاکستانی بھتیجے کو اس سے ضرور مطلع فرما دیں۔
میں وہ تین سو روپے خرچ کر چکا ہوں ۔۔۔۔۔۔ اگر آپ واپس لینا چاہیں تو میں ایک روپیہ ماہوار کے حساب سے ادا کر دوں گا۔
امید ہے کہ آپ اپنی پانچ آزادیوں سمیت خوش و خرم ہوں گے۔
آپ کا بھتیجا خاکسار۔۔۔ سعادت حسن منٹو
۳۱ لکشمی مینشنز ہال روڈ لاہور
*****

تیسرا خط

چچا جان تسلیمات !
بہت مدت کے بعد آپ کو مخاطب کر رہا ہوں۔ میں دراصل بیمار تھا۔ علاج اس کا وہی آبِ نشاط انگیز تھا۔ ساقی، مگر معلوم ہوا کہ یہ محض شاعری ہی شاعری ہے۔ معلوم نہیں ساقی کس جانور کا نام ہے۔ آپ لوگ تو اسے عمر خیام کی رباعیوں والی حسین و جمیل فتنہ ادا اور عشوہ طراز معشوقہ کہتے ہیں جو بلور کی نازک گردن صراحیوں سے اس خوش قسمت شاعر کو جام بھر بھر کے دیتی تھی ۔۔۔۔۔۔ مگر یہاں تو کوئی مونچھوں والا بدشکل لونڈا بھی اس کام کیلئینہیں ملتا۔
یہاں سے حسن بالکل رفوچکر ہو گیا ہے۔ عورتیں پردے سے باہر تو آئی ہیں مگر انہیں دیکھ کر جی چاہتا ہے کہ وہ پردے کے پیچھے ہی رہتیں تو اچھا تھا۔ آپ کے میکس فیکٹر نے ان کا حلیہ اور بھی مسخ کر کے رکھ دیا ہے ۔۔۔۔۔۔ آپ مفت گندم بھیجتے ہیں۔ مفت لٹریچر بھیجتے ہیں، مفت ہتھیار بھیجتے ہیں۔ کیوں نہیں آپ سو دو سو ٹھیٹ امریکی لڑکیاں یہاں روانہ کر دیتے جو ساقی گری کے فرائض بطریق احسن انجام دیں۔
میں اپنی بیماری کا ذکر کر رہا تھا ۔۔۔۔۔۔ اس کا باعث وہی خانہ ساز شراب تھی ۔۔۔۔۔۔ اللہ اس خانہ خراب کا خانہ خراب کرے۔ زہر ہے، لیکن نہایت خام قسم کا ۔ سب کچھ جانتا تھا سب کچھ سمجھتا تھا مگر
میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں
جانے اس عطار کے لونڈے میں کیا کشش تھی کہ حضرت میر اسی سے دوا لیتے رہے، حالانکہ وہی ان کے مرض کا باعث تھا۔ یہاں میں جس شراب فروش سے شراب لیتا ہوں وہ تو مجھ سے بھی کہیں زیادہ مریض ہے میں تو اپنی سخت جانی کی وجہ سے بچ گیا لیکن اس کے بچنے کی کوئی امید نہیں۔
تین مہینے ہسپتال میں رہا ہوں، جنرل وارڈ میں تھا۔ مجھے وہاں آپ کی کوئی امریکی امداد نہ ملی۔ میرا خیال ہے آپ کو میری بیماری کی کوئی اطلاع نہیں ملی ورنہ آپ ضرور وہاں سے دو تین پیٹیاں ٹیرامائی سین کی روانہ کر دیتے اور ثوابِ دارین حاصل کرتے۔
ہماری فورن پبلسٹی بہت کمزور ہے اس کے علاوہ ہماری حکومت کو ادیبوں شاعروں اور مصوروں سے کوئی دلچسپی نہیں آخر ۔
کس کس کی حاجت روا کرے کوئی
ہماری پچھلی مرحوم گورنمنٹ تھی۔ جنگ شروع ہوئی تو انگریز بہادر نے فردوسیء
اسلام حفیظ جالندھری کو سونگ پبلسٹی ڈیپارٹمنٹ کا ڈائریکٹر بنا کر ایک ہزار روپیہ ماہوار مقرر کر دیا، پاکستان بنا تو اس کو صرف ایک کوٹھی اور شاید ایک پریس الاٹ ہوا۔ اب بیچارہ اخباروں میں اپنا رونا رو رہا ہے کہ ترانہ کمیٹی نے اس کو نکال باہر کیا۔ حالانکہ سارے پاکستان میں اکیلا وہی شاعر ہے جو دنیا کی اس سب سے بڑی اسلامی سلطنت کیلئے قومی ترانہ لکھ سکتا ہے اور اس کی دھن بھی تخلیق کر سکتا ہے۔
اس نے اپنی انگریز بیوی کو طلا ق دے دی ہے، ا سلیئے کہ انگریزوں کا زمانہ ہی نہیں رہا۔ اب سنا ہے کسی امریکی بیوی کی تلاش میں ہے۔ چچا جان ! خدا کیلئے اس کی مدد کیجئے۔ ایسا نہ ہو کہ غریب کی عاقبت خراب ہو۔
آپ کے یوں تو لاکھوں اور کروڑوں بھیجتے ہیں، لیکن مجھ ایسا بھتیجا آپ کو ایٹم بم کی روشنی میں بھی کہیں نہیں ملے گا۔ قبلہ کبھی ادھر بھی توجہ کیجئے۔ بس آپ کی ایک نظرِ التفات کافی ہے۔ صرف اتنا اعلان کر دیجئے کہ آپ کا ملک (خدا) اسے رہتی دنیا تک سلامت رکھے) صرف اسی صورت میں میرے ملک کو (خدا) اس کے شراب کشید کرنے والے کارخانوں کو نیست و نابود کرے) فوجی امداد دینے کیلئے تیار ہوگا۔ اگر سعادت منٹو آپ کے حوالے کر دیا جائے۔
یہاں میری وقعت ایک دم بہت بڑھ جائے گی۔ میں اس اعلان کے بعد شمع معمے اور ڈائریکٹر معمے حل کرنا بند کردوں گا۔ بڑی بڑی شخصیتیں میرے غریب خانے پر آئیں گی۔ میں آپ سے بذریعہ ہوائی ڈاک ٹھیٹ امریکی مسکراہٹ منگوا کر اپنے ہونٹوں پر لگا لوں گا اور اس کے ساتھ ان کا استقبال کروں گا۔
اس مسکراہٹ کے ہزار معنی ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر ’’آپ نرے کھرے گدھے ہیں۔‘‘ ۔۔۔۔۔۔ ’’آپ پرلے درجے کے ذہین آدمی ہیں‘‘۔ ’’آپ سے مل کر مجھے بہت کوفت ہوئی‘‘ ۔۔۔۔۔۔ آپ سے مل کر مجھے بے حد مسرت حاصل ہوئی۔‘‘ ۔۔۔۔۔۔ ’’آپ امریکہ کی بنی ہوئی بشرٹ ہیں‘‘ ۔۔۔۔۔۔ ’’آپ پاکستان کی بنی ہوئی ماچس ہیں۔‘‘ ۔۔۔۔۔۔ ’’آپ عرق گاؤزبان ہیں‘‘ ۔۔۔۔۔۔ ’’آپ کوکا کولا ہیں‘‘۔۔ وغیرہ وغیرہ
میں رہنا پاکستان ہی میں چاہتا ہوں کہ مجھے اس کی خاک بہت عزیز ہے جو میرے پھیپھڑوں میں مستقل جگہ بنا چکی ہے، لیکن میں آپ کے ملک میں ضرور آؤں گا۔ اس لیئے کہ میں اپنا کایا کلپ کرانا چاہتا ہوں، پھیپھڑے چھوڑ کر میں اپنے تمام باقی اعضا آپ کے ماہروں کے سپرد کر دوں گا اور ان سے کہوں گا کہ وہ انہیں امریکی طرز کا بنا دیں۔
مجھے امریکی چال ڈھال بہت پسند ہے۔ اس لیئے کہ چال ڈھال کا کام دیتی ہے اور ڈھال چال کا۔ آپ کی بش شرٹ کا نیا ڈیزائن بھی مجھے بہت بھاتا ہے۔ ڈیزائن کا ڈیزائن اور اشتہار کا اشتہار۔ ہر روز یہاں آپ کے دفتر میں گئے۔ مطلب کی یعنی پروپیگنڈے کی چیزیں اس پر چھپوائیں اور ادھر ادھر گھومتے پھرے۔ کبھی شیزان میں جا بیٹھے۔ کبھی کافی ہاؤس میں اور کبھی چئنیزلنچ ہوم میں۔
پھر میں ایک پیکارڈ چاہتا ہوں، تاکہ جب میں یہ بش شرٹ پہنے۔ منہ میں آپ کا تحفے کے طور پر دیا ہوا پائپ دبائے مال پر سے گزروں تو لاہور کے سب ترقی پسند اور غیر ترقی پسند ادیبوں کو محسوس ہو کہ وہ سارا وقت بھاڑ ہی جھونکتے رہے تھے۔
لیکن دیکھئے چچا جان ، اس کے پٹرول کا بندوبست آپ ہی کو کرنا پڑے گا۔ ویسے میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ پیکارڈ ملتے ہی میں ایک افسانہ لکھوں گا جس کاعنوان ’’ایران کا نو من تیل اور رادھا‘‘ ۔۔۔۔۔۔ یقین مانئے اس افسانے کے شائع ہوتے ہی ایران کے تیل کا سارا ٹنٹا ہی ختم ہو جائے گا اور مولانا ظفر علی خان کو جو ابھی تک بقید حیات ہیں اپنے اس شعر میں مناسب و موزوں ترمیم کرنا پڑے گی۔
وائے ناکامی کہ چشمے تیل کے سوکھے تمام
لے کے لانڈ جارج جب بھاگے کنستر ٹین کا
ایک چھوٹا سا، ننھا منا ایٹم بم تو میں آپ سے ضرور لوں گا۔ میرے دل میں مدت سے یہ خواہش دبی پڑی ہے کہ میں اپنی زندگی میں ایک نیک کام کروں ۔۔۔۔۔۔ آپ پوچھیں گے، یہ نیک کام کیا ہے۔
آپ نے تو خیر کئی نیک کام کیئے ہیں اور بدستور کیئے جا رہے ہیں۔ آپ نے ہیروشیما کو صفحہ ہستی سے نابود کیا۔ ناگاساکی دھوئیں اور گردوغبار میں تبدیل کر دیا۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ نے جاپان میں لاکھوں امریکی بچے پیدا کیئے۔
فکر ہر کس بقدر ہمت اوست ۔۔۔۔۔۔ میں ایک ڈرائی کلین کرنے والے کو مارنا چاہتا ہوں۔ ہمارے یہاں بعض مولوی قسم کے حضرات پیشاب کرتے ہیں تو ڈھیلا لگاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ مگر آپ کیا سمجھیں گے ۔۔۔۔۔۔ بہر حال معاملہ کچھ یوں ہوتا ہے کہ پیشاب کرنے کے بعد وہ صفائی کی خاطر کوئی ڈھیلا اٹھاتے ہیں ا ور شلوار کے اندر ہاتھ ڈال کر سربازار ڈرائی کلین کرتے چلتے پھرتے ہیں۔
میں بس یہ چاہتا ہوں کہ جونہی مجھے کوئی ایسا آدمی نظر آئے، جیب سے آپ کا دیا ہوا منی ایچر ایٹم بم نکالوں اور اس پردے ماروں تاکہ وہ ڈھیلے سمیت دھواں بن کر اڑ جائے۔
ہمارے ساتھ فوجی امداد کا معاہدہ بڑی معرکے کی چیز ہے۔ اس پر قائم رہیئے گا۔ ادھر ہندوستان کے ساتھ بھی ایسا ہی رشتہ استوار کر لیجئے۔ دونوں کو پرانے ہتھیار بھیجئے، کیونکہ اب تو آپ نے وہ تمام ہتھیار کنڈم کر دیئے ہوں گے جو آپ نے پچھلی جنگ میں استعمال کیئے تھے۔ آپ کا یہ فالتو اسلحہ ٹھکانے لگ جائے گا اور آپ کے کارخانے بیکار نہیں رہیں گے۔
پنڈت جواہر لال نہرو کشمیری ہیں۔ ان کو تحفے کے طور پر ایک ایسی بندوق ضرور بھیجئے گا جو دھوپ میں رکھنے سے ٹھس کرے۔ کشمیری میں بھی ہوں، مگر مسلمان۔ میں نے اپنے لیئے آپ سے ننھا منا ایٹم بم مانگ لیا ہے۔
ایک بات اور ۔۔۔۔۔۔ یہاں دستوربننے ہی میں نہیں آتا۔ خدا کیلئے آپ وہاں سے کوئی ماہر جلد از جلد روانہ کیجئے۔ قوم بغیر ترانے کے تو چل سکتی ہے لیکن دستور کے بغیر نہیں چل سکتی ۔۔۔۔۔۔ لیکن آپ چاہیں تو بابا چل بھی سکتی ہے۔
جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے
ایک اور بات۔ یہ خط ملتے ہی امریکی ماچسوں کا ایک جہاز روانہ کر دیجئے یہاں جو ماچس بنی ہے، اس کو جلانیکیلئے ایرانی ماچس خریدنی پڑتی ہے، لیکن آدھی ختم ہونے کے بعد یہ بیکار ہو جاتی ہے اور بقایا تیلیاں جلانے کیلئے روسی ماچس لینا پڑتی ہے جو پٹاخے زیادہ چھوڑتی ہے۔ جلتی کم ہے۔
امریکی گرم کوٹ بہت خوب ہیں۔ لنڈا بازار ان کے بغیر بالکل لنڈا تھا، مگر آپ پتلونیں کیوں نہیں بھیجتے۔ کیا آپ پتلونیں نہیں اتارتے۔۔۔۔۔۔ ہو سکتا ہے کہ ہندوستان روانہ کر دیتے ہوں ۔۔۔۔۔۔ آپ بڑے کائیاں ہیں، ضرور کوئی بات ہے۔ ادھر کوٹ بھیجتے ہیں، ادھر پتلونیں، جب لڑائی ہوگی تو آپ کے کوٹ اور آپ ہی کی پتلونیں، آپ ہی کے بھیجے ہوئے ہتھیاروں سے لڑیں گی۔
یہ میں کیا سن رہا ہوں کہ چارلی چپلن اپنے امریکی شہریت کے حقوق سے دست بردار ہو گیا ہے ۔۔۔۔۔۔ اس مسخرے کو کیا سوجھی۔ ضرور اس کو کمیونزم ہو گیا ہے، ورنہ ساری عمر آپ کے ملک میں رہا۔ یہیں اس نے نام کمایا، یہیں اس نے دولت حاصل کی۔ کیا اسے وہ وقت یاد نہ رہا جب لندن کے گلی کوچوں میں بھیک مانگتا پھرتا تھا اور کوئی پوچھتا نہیں تھا۔
روس چلا جاتا ۔۔۔۔۔۔ لیکن وہاں مسخروں کی کیا کمی ہے۔ چلو انگلستان ہی میں رہے اور کچھ نہیں تو وہاں کے رہنے والوں کو امریکنوں کا سا کھل کر ہنسنا تو آ جائے گا اور وہ جو ہر وقت اپنے چہروں پر سنجیدگی اور طہارت کا خلاف چڑھائے دکھتے ہیں، کچھ تو اپنی جگہ سے ہٹے گا۔
اچھا، میں اب خط کو بند کرتا ہوں۔
بیڈی لا مار کو فری اسٹائل کا ایک بوسہ
خاکسار
سعادت حسن منٹو
۱۵ مارچ ۱۹۵۴ء
۳۱ لکشمی مینشنز ہال روڈ ، لاہور

*****

چوتھا خط

۳۱ لکشمی مینشنز
ہال روڈ، لاہور، پاکستان
چچا جان۔ آداب و نیاز!
ابھی چند روز ہوئے میں نے آپ کی خدمت میں ایک عریضہ ارسال کیا تھا۔ اب یہ دوسرا لکھ رہا ہوں۔ بات یہ ہے کہ جوں جوں آپ کی پاکستان کو فوجی امداد دینے کی بات پختہ ہو رہی ہے میری عقیدت اور سعادت مندی بڑھ رہی ہے۔ میرا جی چاہتا ہے کہ آپ کو ہر روز خط لکھا کروں۔ہندوستان لاکھ ٹاپا کرئے۔ آپ پاکستان سے فوجی امداد کا معاہدہ ضرور کریں گے۔ اس لیئے کہ آپ کو اس دنیا کی سب سے بڑی اسلامی سلطنت کے استحکام کی بہت زیادہ فکر ہے اور کیوں نہ ہو۔ اس لیئیکہ یہاں کاملّا روس کے کمیونزم کا بہترین توڑ ہے۔ فوجی امداد کا سلسلہ شروع ہو گیا تو آپ سب سے پہلے ان ملاؤں کو مسلح کیجئے گا۔ ان کیلئے خالص امریکی ڈھیلے خالص امریکی تسبیحیں اور خالص امریکی جائے نمازیں روانہ کیجئے گا۔ استروں اور قینچیوں کو سر فہرست ر کھیئے گا۔ خالص امریکی خضاب لاجواب کا نسخہ بھی اگر آپ نے ان کو مرحمت کر دیا تو سمجھئے پوبارہ ہیں۔
فوجی امداد کا مقصد جہاں تک میں سمجھتا ہوں ان ملاؤں کو مسلح کرنا ہے۔ میں آپ کا پاکستانی بھتیجا ہوں، مگر آپ کی سب رمزیں سمجھتا ہوں، لیکن عقل کی یہ ارزانی آپ ہی کی سیاسیات کی عطا کردہ ہے۔ (خدا اسے نظر بد سے بچائے۔)
ملاؤں کا یہ فرقہ امریکی سٹائل میں مسلح ہو گیا تو سویٹ روس کو یہاں سے اپنا پاندان اٹھانا ہی پڑے گا جس کی کلیوں تک میں کمیونزم اور سوشلزم گھلے ہوتے ہیں۔
امریکی اوزاروں سے کتری ہوئی لبیں ہوں گی۔ امریکی مشینوں سے سلے ہوئے شرعی پیجامے ہوں گے۔ امریکی مٹی کے ’’ان ٹچڈ بائی ہینڈ‘‘ قسم کے ڈھیلے ہوں گے امریکی رحلیں اور امریکی جائے نمازیں ہوں گی ۔۔۔۔۔۔ بس آپ دیکھئے گا چاروں طرف آپ ہی کے نام کے تسبیح خواں ہوں گے۔
یہاں کے نچلے نچلے اور نچلے درمیانی طبقے کو اوپر اٹھانے کی کوشش تو ظاہر ہے کہ آپ خوب کریں گے۔ بھرتی انہیں دو طبقوں سے شروع ہوگی۔ دفتروں میں چپڑاسی اور کلرک بھی یہیں سے چنے جائیں گے۔ تنخواہیں امریکی سکیل کی ہوں گی۔ جب ان کی پانچوں انگلیاں گھی میں ہوں گی اور سر کڑاہے میں تو کمیونزم کا بھوت دم دبا کر بھاگ جائے گا۔
بھرتی کا سلسلہ شروع ہو۔ مجھے کوئی اعتراض نہیں لیکن آپ کا کوئی سپاہی ادھر نہیں آنا چاہیئے۔ میں یہ ہر گز نہیں دیکھ سکتا کہ ہماری پاکستانی لڑکیاں اپنے جوانوں کو چھوڑ کر آپ کے سپاہیوں کے ساتھ چہکتی پھریں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ یہاں خوبصورت اور تنومند امریکی نوجوان بھیجیں گے لیکن میں آپ کو بتائے دیتا ہوں کہ ہمارا اوپر کا طبقہ ہر قسم کی بے غیرتی قبول کر سکتا ہے کہ وہ پہلے ہی اپنے دیدے آپ کی لانڈریوں میں دھلوا چکا ہے، مگر یہاں کا نچلا نچلا اور نچلا درمیانی طبقہ ایسی کوئی چیز برداشت نہیں کرئے گا۔
البتہ آپ وہاں سے امریکی لڑکیاں روانہ کر سکتے ہیں، جو ہمارے جوانوں کی مرہم پٹی کریں۔ ان کو رقص کرنا سکھائیں۔ کھلم کھلا بوسے لینے کی تعلیم دیں۔ ان کی جھینپ دور کریں۔ اس میں آپ ہی کا فائدہ ہے۔ آپ اپنے ایک فلم ’’بیدنگ بیوٹی‘‘ میں اپنی سینکڑوں لڑکیوں کی ننگی اورگداز ٹانگیں دکھا سکتے ہیں۔ ہمارے ہاں ایسی ٹانگیں پیدا کیجئے تاکہ ہم بھی اپنے اکلوتے فلم سٹوڈیو ’’شاہ نور‘‘ میں ایک ایسا فلم بنائیں اور ’’اپوا‘‘ والوں کو دکھائیں تاکہ انہیں کچھ مسرت ہو۔
ہاں، ہمارے یہاں ’’اپوا‘‘ ایک عجیب و غریب شے تخلیق ہوئی ہے جو بڑے آدمیوں کی بڑی بہو بیٹیوں کے شغل کا دلچسپ نتیجہ ہے۔ یہ آل پاکستان وومن ایسوسی ایشن کا مخفف نام ہے۔ اس میں اور زیادہ تخفیف کی گنجائش نہیں، لیکن کوشش ضرور ہو رہی ہے جو آپ کو ان مائل بہ تخفیف بلاؤزوں میں نظر آ سکتی ہے جن میں سے ان کے پہننے والیوں کے پیٹ باہر جھانکتے نظر آتے ہیں۔ ابھی ابتدا ہے لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ یہ بلاؤز عام طور پر چالیس برس سے اوپر کی عورتیں استعمال کرتی ہیں جن کے پیٹ کئی مرتبہ کلبوت چڑھ چکے ہوتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ چچا جان میں عورت کے پیٹ پر خواہ وہ امریکی ہو یا پاکستانی اور سب کچھ دیکھ سکتا ہوں مگر اس پر جھریاں نہیں دیکھ سکتا۔
’’اپوا‘‘ والیاں تخفیف لباس کے متعلق ہر وقت سوچنے کیلئے تیار ہیں بشرطیکہ انہیں کوئی آزمودہ نسخے بتائے۔ آپ کے یہاں پینسٹھ پینسٹھ برس کی بڈھیاں اپنے پیٹ دکھاتی ہیں، مگر ان پر مجال ہے جو ایک جھری بھی نظر آ جائے۔ معلوم نہیں وہ منہ زبانی بچے پیدا کرتی ہیں یا انہیں کوئی ایسا گر معلوم ہے کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔
بہرحال اگر آپ کو یہاں تخفیف لباس چاہیئے تو ہالی وڈ کے چند ماہرین یہاں روانہ کر دیجئے۔ آپ کے یہاں پلاسٹک سرجری کا فن عروج پر ہے۔ فی الحال ایسے نصف درجن سرجن یہاں بھیج دیجئے جو ہماری بڈھیوں کو لال لگام کے قابل بنا دیں۔
مقفیٰ شاعری کا زمانہ تھا تو ہمارے یہاں معشوق کی کمر ہی نہیں تھی۔ اب غیر مقفیٰ شاعری کا دورہے مگر یہ ایسا الٹا پڑا ہے کہ اب معشوق کی ناپید کمر کچھ اس طرح ناپید ہوئی ہے کہ اسے دیکھو تو سارا معشوق اس کے پیچھے غائب ہو جاتا ہے۔ پہلے یہ حیرت ہوتی تھی کہ وہ ازار بند کہاں باندھتا ہے۔ اب یہ حیرت ہوتی ہے کہ وہ کس درخت کا تنا ہے جس کے ارد گرد اس غریب کو باندھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ آپ مہربانی فرما کر بنفس نفیس یہاں تشریف لایئے اور فوجی معاہدہ کرنے سے پہلے اس بات کا فیصلہ کیجئے گا کہ یہاں معشوق کی کمر ہونی چاہیئے یا نہیں۔ اس لیئے کہ فوجی نقطہ نگاہ سے یہ بہت اہمیت رکھتا ہے۔
ایک بات اور ۔۔۔۔۔۔ آپ کے فلم ساز ہندوستانی صنعت فلم سازی سے بہت دلچسپی لے رہے ہیں۔ یہ ہم برداشت نہیں کر سکتے۔ پچھلے دنوں گریگری پک ہندوستان پہنچا ہوا تھا۔ اس نے فلم اسٹار ثریا کے ساتھ تصویر کھچوائی۔ اس کے حسن کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملائے۔ پچھلے دنوں سنا تھا کہ ایک امریکی فلم ساز نے نرگس کے گلے میں بازو ڈال کر اس کا بوسہ بھی لیا تھا ۔۔۔۔۔۔ یہ کتنی بڑی زیادتی ہے۔ ہمارے پاکستان کی ایکٹرسیں مر گئی ہیں کیا ؟
گلشن آرا موجود ہے۔ یہ جدا بات ہے کہ اس کا رنگ توے کی مانند کالا ہے اور لوگ اسے دیکھ کر یہ کہتے ہیں کہ گلشن پر آرا چلا ہوا ہے لیکن ہے تو ایکٹریس۔ کئی فلموں کی ہیروئن ہے اور اپنے پہلو میں دل بھی رکھتی ہے۔ صبیحہ ہے یہ علیحدہ بات ہے کہ اس کی ایک آنکھ تھوڑی سی بھینگی ہے، مگر آپ کی ذرا سی توجہ سے درست ہو سکتی ہے۔
یہ بھی سنا ہے کہ آپ ہندوستانی فلم سازوں کو مالی امداد بھی دے رہے ہیں۔ چچا جان یہ کیا ہر جا ئی پنا ہے یعنی جو للو پنجو آتا ہے اس کو آپ مدد دینا شروع کر دیتے ہیں۔
آپ کا گریگری پک جائے جہنم میں (معاف کیجئے مجھے غصہ آ گیا ہے) آپ اپنی دو تین ایکٹرسیں یہاں بھیج دیجئے۔ اس لیئے کہ ہمارا اکلوتا ہیرو سنتوش کمار بہت اُداس ہے۔ پچھلے دنوں وہ کراچی گیا تھا تو اس نے کو کو کولا کی سو بوتلیں پی کر ریٹا ہے ورتھ کو خواب میں ایک ہزار مرتبہ دیکھا تھا۔
مجھے لپ اسٹک کے متعلق بھی آپ سے کچھ عرض کرنا ہے۔ وہ جو ’کس پروف‘ لپ اسٹک آپ نے بھیجی تھی۔ ہمارے اونچے طبقے میں بالکل مقبول نہیں ہوئی۔ لڑکیوں اور بڈھیوں کا کہنا ہے کہ یہ محض نام ہی کی ’’کس پروف‘‘ ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ان کا کسنگ کا طریقہ ہی غلط ہے۔ میں نے دیکھا ہے لوگوں کو یہ شغل فرماتے ہوئے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تربوز کی پھانک کھا رہے ہیں۔ آپ کے یہاں ایک کتاب چھپی تھی جس کا عنوان ’’بوسہ لینے کا فن‘‘ تھا، مگر معاف کیجئے کتاب پڑھ کر آدمی کچھ بھی نہیں سیکھ سکتا۔ آپ وہاں سے فوراً بذریعہ ہوائی جہاز ایک امریکی خاتون روانہ کر دیجئے۔ جو ہمارے اونچے طبقے پر تربوز کھانے اور بوسہ لینے میں جو فرق ہے بطریق احسن واضح کر دے نچلے نچلے اور نچلے درمیانی طبقے کو یہ فرق بتانے کی کوئی ضرورت نہیں اس لیئے کہ وہ ان تکلفات سے ہمیشہ بے نیاز رہا ہے اور ہمیشہ بے نیاز رہے گا۔
آپ کو یہ سن کر خوشی ہوگی کہ میرا معدہ اب کسی حد تک آپ کے امریکی گندم کا عادی ہو گیا ہے۔ اب اسے ہمارے یہاں کی آب و ہوا راس آنی شروع ہو گئی ہے کیونکہ اب اس کے آٹے نے پاکستان سٹائل کی روٹیوں اور چپاتیوں کی شکل اختیار کرنے کا ارادہ کر لیا ہے۔ میرا خیال ہے خیر سگالی کے طور پر آپ یہاں کے گندم کا بیج اپنے ہاں منگوالیں۔ آپ کی مٹی بڑی زرخیز ہے اس اختلاط سے جو امریکی پاکستانی گندم پیدا ہوگا بڑی خوبیوں کا حا مل ہوگا۔ ہو سکتا ہے کوئی نیا آدم پیدا ہو جائے جس کی اولاد ہم اور آپ سے مختلف ہو۔
میں آپ سے ایک راز کی بات پوچھتا ہوں۔ پچھلے دنوں میں نے یہ خبر پڑھی تھی کہ نئی دلی میں بھارت کی دیویاں رات کو اپنے بالوں میں چھوٹے چھوٹے قمقمے لگا کر گھومتی ہیں جو بیٹری سے روشن ہوتے ہیں۔ خبر میں یہ بھی لکھا تھا کہ بعض دیویاں اپنے بلاؤزوں کے اندر بھی ایسے قمقمے لگاتی ہیں تاکہ ان کا اندر باہر روشن رہے ۔۔۔۔۔۔ یہ اپج کہیں آپ ہی کی تو نہیں تھی ؟ ۔۔۔۔۔۔ اگر تھی تو چچا جان سبحان اللہ میرا خیال ہے اب آپ انہیں ایسا سفوف تیار کر کے بھیجیں جس کے کھانے سے ان کا سارا بدن روشن ہو جایا کرے اور کپڑوں سے باہر نکل نکل کر اشارے کیا کرے۔
پنڈت جواہر لال نہرو پرانے خیالات کے آدمی ہیں اور اس باپو کے شاگرد ہیں جس نے نوجوانوں کو یہ حکم دیا تھا کہ وہ اپنی آنکھوں پر ایسا شیڈ یا ہڈ استعمال کیا کریں جو انہیں نظر بازی سے روکا کرے۔ پچھلے دنوں انہوں نے اپنی دیویوں کو یہ تلقین کی تھی کہ وہ اپنے ستر کا خیال رکھا کریں اور میک اپ سے پرہیز کیا کریں، مگر ان کو کون سنے گا۔ البتہ ہالی وڈ کی آواز سننے کیلئے یہ دیویاں ہر وقت تیار ہیں ۔۔۔۔۔۔ آپ یہ سفوف وہاں ضرور روانہ کریں۔ پنڈت جی کا ردعمل کافی پرلُطف ہوگا۔
میں اس لفافے میں آپ کو ایک تصویر بھیج رہا ہوں۔ یہ پاکستانی خاتون کی ہے جس نے بمبئی کی مچھیرنوں کی چولی کا سا بلاؤز پہنا ہوا ہے۔ اس میں سے اس کے پیٹ کا تھوڑا سا نچلا حصہ جھانک رہا ہے۔ یہ آپ کی خواتین کے ننگے پیٹوں کو ایک عدد پاکستانی گدگدی ہے۔
گر قبول افتد زہے عزو شرف
آپ کا برخوردار بھتیجا
سعادت حسن منٹو،۲۱ فروری ۱۹۵۴ء
*****

پانچواں خط

محترمی چچا جان !
تسلیمات ، میں اب تک آپ کو ’’پیارے چچا جان‘‘ سے خطاب کرتا رہا ہوں پر اب کی دفعہ میں نے ’’محترمی چچا جان‘‘ لکھا ہے اس لیئے کہ میں ناراض ہوں۔ ناراضی کا باعث یہ ہے کہ آپ نے مجھے میرا تحفہ (ایٹم بم) ابھی تک نہیں بھیجا۔ بتایئے یہ بھی کوئی بات ہے۔
سنا تھا کہ باپ سے زیادہ چچابچوں سے پیار کرتا ہے، لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے امریکہ میں ایسا نہیں ہوتا ۔۔۔۔۔۔ مگر وہاں بہت سی ایسی باتیں نہیں ہوتیں جو یہاں ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر یہاں آئے دن وزارتیں بدلتی ہیں۔ آپ کے یہاں ایسا کوئی سلسلہ نہیں ہوتا۔ یہاں نبی پیدا ہوتے ہیں، وہاں نہیں ہوتے۔ یہاں ان کے ماننے والے وزیر خارجہ بنتے ہیں۔ اس پر ملک میں ہنگامے برپا ہوتے ہیں مگر کوئی شنوائی نہیں ہوتی۔ ان ہنگاموں پر تحقیقاتی کمیشن بیٹھتی ہے۔ اس کے اوپر کوئی اور بیٹھ جاتا ہے۔ وہاں اس قسم کی کوئی دلچسپ بات نہیں ہوتی۔
چچا جان، میں آپ سے پوچھتا ہوں۔ آپ اپنے یہاں نبی کیوں پیدا نہیں ہونے دیتے۔ خدا کی قسم ایک پیدا کر لیجئے۔ بڑی تفریح رہے گی۔ بڑھاپے میں وہ آپ کی لاٹھی کا کام دے گا۔ اس لاٹھی سے آپ امریکہ کی ساری بھنسیں ہانک سکیں گے ( بھینسیں تو یقیناً آپ کے یہاں ضرور ہوں گی)
اگر آپ نبی پیدا کرنے سے کسی وجہ سے معذور ہوں تو مجھے حکم دیجئے۔ میں مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب سے گزارش کروں گا۔ وہ اپنا صاحبزادہ بھیج دینگے جلدی لکھئے گا ایسا نہ ہو آپ کے دشمن روس سے مانگ آ جائے اور آپ منہ دیکھتے رہ جائیں۔
بات ایٹم بم کی تھی جو میں نے آپ سے تحفے کے طور پر مانگا تھا اور میں نبی اور نبی زاردوں کی طرف چلا گیا ۔۔۔۔۔۔ ہاں ۔۔۔۔۔۔ کتنی معمولی بات تھی۔ میں نے صرف ایک چھوٹا، بہت ہی چھوٹا ایٹم بم مانگا تھا جس سے میں ایک ایسے آدمی کو اڑا سکتا جو مجھے اپنی گھیرے دار شلوار کے نیفے کے اندر ہاتھ ڈال کر ڈھیلا لگاتا نظر آتا ۔۔۔۔۔۔ لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے میری خواہش کی شدت کو محسوس نہیں کیا۔ یا شاید آپ ہائیڈروجن بموں کے تجربات میں مشغول تھے۔
چچا جان، یہ ہائی ڈروجن بم کیا بلا ہے۔ آٹھویں جماعت میں ہم نے پڑھا تھا کہ ہائیڈروجن ایک گیس ہوتی ہے، ہوا سے ہلکی، آپ اس کرۂ ارض کے سینے سے کس ملک کا بوجھ ہلکا کرنا چاہتے ہیں۔ روس کا ؟
مگر سنا ہے وہ کم بخت نائٹروجن بم بنا رہا ہے۔ آٹھویں جماعت ہی میں ہم نے پڑھا تھا کہ نائٹروجن ایک گیس ہوتی ہے جس میں آدمی زندہ نہیں رہ سکتا۔ میرا خیال ہے کہ آپ اس کے جواب میں آکسیجن بم بنا دیں۔ آٹھویں جماعت میں ہم نے پڑھا تھا کہ نائٹروجن اور آکسیجن گیسیں جب آپس میں ملتے ہیں تو پانی بن جاتا ہے۔ کیا ہی مزا آئے گا۔ ادھر آپ آکسیجن بم پھینکیں گے، ادھر روس نائٹروجن بم ۔۔۔۔۔۔ باقی دنیا پانی میں ڈبکیاں لگائے گی۔
خیر یہ تو مذاق کی بات تھی۔ سنا ہے آپ نے ہائیڈروجن بم صرف اس لیئے بنایا ہے کہ دنیا میں مکمل امن و امان قائم ہو جائے۔ یوں تو اللہ کی اللہ ہی بہتر جانتا ہے، لیکن مجھے آپ کی بات کا یقین ہے۔ ایک اس لیئے کہ میں نے آپ کا گندم کھایا ہے اور پھر میں آپ کا بھتیجا ہوں۔ بزرگوں کی بات یوں بھی چھوٹوں کوفوراً ماننی چا ہیئے ، لیکن میں پوچھتا ہوں، اگر آپ نے دنیا میں امن و امان قائم کر دیا تو دنیا کتنی چھوٹی ہو جائے گی۔ میرا مطلب ہے کتنے ملک صفحہ ہستی سے نیست و نابود ہوں گے ۔۔۔۔۔۔ میری بھتیجی جو سکول میں پڑھتی ہے، کل مجھ سے دنیا کا نقشہ بنانے کو کہہ رہی تھی۔ میں نے اس سے کہا، ابھی نہیں، پہلے مجھے چچا جان سے بات کر لینے دو۔ ان سے پوچھ لوں کون سا ملک رہے گا، کون سا نہیں رہے گا، پھر بنا دوں گا۔
خدا کیلئے روس کو سب سے پہلے اڑایئے گا۔ اس سے مجھے خدا واسطے کابیرہے۔ سات آٹھ دن ہوئے وہاں سے فن کاروں کا ایک وفد آیا تھا۔ خیر سگالی کر کے میرا خیال ہے اب واپس چلا گیا ہے۔ اس وفد میں ناچنے اور گانے والیاں تھیں، جنہوں نے ناچ گا کر ہمارے سادہ لوح پاکستانیوں کا دل موہ لیا۔ اب آپ اس کے توڑ میں جب تک وہاں سے کوئی ایسا گاتا بجاتا ناچتا تھرکتا خیر سگالی وفد نہیں بھیجیں گے، کام نہیں چلے گا۔
میں نے آپ سے پہلے بھی کہا تھا کہ ہالی وڈ کی چند ’’ملین ڈالر‘‘ ٹانگوں والی لڑکیاں یہاں روانہ کر دیجئے، مگر آپ نے اپنے کم عقل بھتیجے کی اس بات پر کوئی غور نہ کیا اور ہائیڈروجن بم کے تجربوں میں مصروف رہے۔ قبلہ، جادو وہ ہے جو سر چڑھ کر بولے۔
ذرا اپنے سفارت خانے متعینہ پاکستان سے پوچھیئے۔ یہاں ہر ایک کی زبان پر تمہارا خانم اور مادام عاشورہ کا نام ہے۔ یہاں کا ایک بہت بڑا اردو اخبار ’’زمیندار‘‘ ہے، اس کے ایڈیٹر بڑے زاہد خشک قسم کے نوجوان ہیں۔ ان پر اس روسی وفد نے اتنا اثر کیا کہ نثر میں شاعری کرنے لگے۔ ایک پیرا ملاحظہ فرمایئے۔
جب وہ گا رہی تھی تو کھچا کھچ بھرے اوپن تھیٹر (شاید آپ کے یہاں ایسا تھیٹر نہ ہو) میں سامعین کے سانس لینے کی آواز صاف سنائی دے رہی تھی۔ تھیٹر پر جھکا ہوا تاروں بھرا آسمان اور سٹیج کے چاروں طرف ابھرے ہوئے سرسبز درخت بھی دم بخود تھے اور اس گھمبیر سناٹے میں ایک کوئل کوک رہی تھی۔ اس کی تیز، گہری اور روح کو چیر دینے والی آواز، تاریک رات کے سینے میں جابجا ان دیکھی روشنی کے گہرے گھاؤ ڈال رہی تھی۔
پڑھ لیا آپ نے ؟ ۔۔۔۔۔۔ چچا جان یہ معاملہ بہت سنگین ہے۔ ہائیڈروجن بموں کو فی الحال چھوڑیئے اور اس طرف توجہ دیجئے۔ آپ کے پاس کیا حسیناؤں کی کمی ہے۔ چشم بددور ایک سے ایک پٹاخاسی موجود ہے، لیکن میں آپ کو ایک مشورہ دوں، جتنی بھیجئے گا، سب کی ٹانگیں ’’ملین ڈالر‘‘ قسم کی ہوں اور ہمارے پاکستانی مردوں کو بوسہ دینے سے نہ گھبرائیں۔ میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ اگر آپ نے ایک جہاز بھر کولی نوس ٹوتھ پیسٹ بھیج دی تو میں سب کے دانت صاف کرا دوں گا۔ ان کے منہ سے بو نہیں آئے گی۔
آپ میری بات مان گئے تو آپ کی سات آزادیوں کی قسم کھا کے کہتا ہوں کہ روس والوں کے چھکے چھوٹ جائیں گے اور تمہارا خانم اور مادام عاشورہ ٹاپتی رہ جائے گی اور زمیندار کے ایڈیٹر کو دن میں تارے نظر آنے لگیں گے، لیکن چچا جان، ایک بات سن لیجئے، اگر آپ نے الزبتھ ٹیلر کو بھیجا تو اس کے بوسے صرف میرے لیئے وقف ہوں گے۔ مجھے اس کے ہونٹ بہت پسند ہیں۔
ہاں، اس خیرسگالی وفد میں کہیں اس حبشی گویئے پال روبسن کو نہ شامل کیجئے گا۔ سالا (سالے کا مطلب ہے، بیوی کا بھائی، ہم اسے گالی کے طور پر استعمال کرتے ہیں) کمیونسٹ ہے۔ مجھے حیرت ہے آپ نے اسے ابھی تک ایسٹ افریقہ کیوں نہیں بھیجا۔ وہاں اسے بڑی آسانی سے ’ماؤ ’ماؤ‘ کی تحریک میں ماخوذ کر کے گولی سے اڑایا جا سکتا ہے۔
میں اس خیر سگالی وفد کا بے چینی سے انتظار کروں گا اور ’’نوائے وقت‘‘ کے مدیر سے کہوں گا کہ وہ ابھی سے اس کا پروپیگنڈہ شروع کر دے۔ بڑا نیک اور برخوردار قسم کا آدمی ہے۔ میری بات نہیں ٹالے گا۔ ویسے آپ اسے تحفے کے طور پر ریٹا ۔بیورتھ کی اوٹو گرافٹ تصویر بھجوا د یجیئے گا۔ بیچارہ اسی میں خوش ہو جائے گا۔
میں یہ بھی وعدہ کرتا ہوں کہ جب آپ کا یہ خیرسگالی وفد لاہور میں آئے گا تو میں اسے ہیرا منڈی کی سیر کراؤں گا۔ شورش کاشمیری صاحب کو میں ساتھ لے چلوں گا کہ وہ اس علاقے کے پیر ہیں۔ (حال ہی میں آپ نے اس پر ایک کتاب بھی لکھی ہے جس کا عنوان ’’اس بازار میں‘‘ ہے ۔۔۔۔۔۔ آپ اپنے سفارت خانے کو حکم دیجئے۔ وہ آپ کو اس کا ترجمہ کرا کے بھیج دے گا) یہاں ایک سے ایک درخشندہ و تابندہ ہیرا پڑا ہے ۔۔۔۔۔۔ ہر تراش کا، ہر وزن کا۔
اب اور باتیں شروع کرتا ہوں ۔۔۔۔۔۔ پاکستان کو آپ کی فوجی امداد دینے کے فیصلے اور مشرق بعید کے دیگر مسائل پر بھارت اور آپ کے اختلافات پر پنڈت نہرو نے پچھلے دنوں جو زبردست نکتہ چینی کی تھی، سنا ہے، اس کا یہ ردعمل ہوا ہے کہ آپ کے ملک کی حکمت عملی میں ایک نیا رجحان ترقی کر رہا ہے۔ بعض کی یہ بھی رائے ہے کہ امریکہ بھارت کو اپنے عزائم کے متعلق اطمینان دلانے کی ضرورت سے زیادہ کوشش کر رہا ہے۔
آپ کے جنوبی ایشیائی اور افریقی معاملات کے اعلیٰ افسر، کیا نام ہے ان کا ؟ ۔۔۔۔۔۔ ہاں ۔۔۔۔۔۔ مسٹر جان جرنیگنز نے اپنے ایک بیان میں بھارت کیلئے اپنے ملک کے خیر سگالی جذبات کی ترجمانی کی ہے، اس کا تو یہ مطلب نکلتا ہے کہ واشنگٹن، دلی کا اعتماد حاصل کرنے کیلئے تڑپ رہا ہے۔
جہاں تک میں سمجھا ہوں پاکستان اور بھارت کو خوش رکھنے سے آپ کا واحد مقصد یہی ہے کہ جہاں کہیں بھی آزادی اور جمہوریت کا ٹمٹماتا دیا جل رہا ہے، اسے پھونک سے نہ بجھایا جائے بلکہ اس کو تیل دیا جائے ۔۔۔۔۔۔ بلکہ تیل میں ڈبو دیا جائے تاکہ وہ پھر کبھی اپنی تشنہ لبی کا شکوہ نہ کرے ۔۔۔۔۔۔ ہے نا چچا جان ؟
آپ پاکستان کو آزاد دیکھنا چاہتے ہیں اس لیئے کہ آپ کو درۂ خیبر سے بے حد پیار ہے جہاں سے حملہ آور صدیوں سے ہم پر حملہ کرتے رہے ہیں۔ اصل میں درۂ خیبر ہے بھی بہت خوبصورت چیز، اس سے پیاری اور خوبصورت چیز پاکستان کے پاس اور ہے بھی کیا؟
اور بھارت کو آپ اس لیئے آزاد دیکھنا چاہتے ہیں کہ پولینڈ، چیکوسلوویکیہ اور کوریا میں روس کی جارحانہ کارروائیاں دیکھ کر آپ کو ہر دم اس بات کا کھٹکا رہتا ہے کہ یہ سرخ مملکت کہیں بھارت میں بھی درانتیاں اور ہتھوڑے چلانا شروع نہ کر دے۔
ظاہر ہے کہ بھارت کی آزادی خدانخواستہ خدانخواستہ چھن گئی تو کتنا بڑا المیہ ہوگا ۔۔۔۔۔۔ اس کا تصور کرتے ہی آپ کانپ کانپ اٹھتے ہوں گے۔
آپ کی تاروں والی اونچی ٹوپی کی قسم، آپ ایسا مخلص انسان کبھی پیدا ہوا ہے اور نہ ہوگا ۔۔۔۔۔۔ خدا آپ کی عمر دراز کرے اور آپ کی سات آزادیوں کو دن دگنی رات چوگنی ترقی دے۔
یہاں ایک علاقہ ہے مغربی پنجاب، اس کے وزیراعلیٰ ہیں فیروز خان نون (ان کی بیگم ایک انگریز خاتون ہیں) آپ نے ان کا نام تو سنا ہوگا۔ حال ہی میں آپ نے اپنے دولت کدے پر (جو پنچولی فلم سٹوڈیو کے آگے ہے) ایک کانفرنس بلائی۔ اس میں آپ نے مسلم لیگ (جسے مشرقی پاکستان میں شکست فاش ہوئی ہے) کے کارکنوں کو مشورہ دیا کہ وہ اپنے اپنے علاقوں میں اشتراکیوں (سرخوں) کے مقابلے کیلئے جدوجہد کریں۔
دیکھئے چچا جان آپ فوراً فیروز خان نون صاحب کا شکریہ ادا کیجئے اور خیر سگالی طور پر ان کی بیگم صاحبہ کیلئے ہالی وڈ کے سلے ہوئے دو تین ہزار فراک بھیج دیجئے ۔۔۔۔۔۔ کہیں آپ نے بھیج تو نہیں دیئے۔ میں بھول گیا تھا کیونکہ اب وہ ساڑھی پہنتی ہیں۔
بہرحال نون صاحب کا اشتراکیت دشمن ہونا بڑی نیک فال ہے کیونکہ کامریڈ فیروز الدین منصور پھر جیل میں ہوگا۔ مجھے اس کا ہر وقت دمے کے مرض میں گرفتار رہنا ایک آنکھ نہیں بھاتا۔
اب میں آپ کو ایک بڑا اچھا مشورہ دیتا ہوں۔ ہماری حکومت نے حال ہی میں کامریڈ سبط حسن کو جیل سے رہا کیا ہے۔ آپ اس کو اغوا کر کے لے جایئے۔ میرا دوست ہے، لیکن مجھے ڈر لگتا ہے کہ وہ اپنی پیاری پیاری نرم نرم باتوں سے ایک روز مجھے ضرور کمیونسٹ بنا لے گا۔ یوں تو میں اتنا ڈرپوک نہیں۔ کمیونسٹ ہو بھی جاؤں تو میرا کیا بگڑ جائے گا مگر آپ کی عزت پر حرف آنے کا خیال ہے۔ لوگ کیا کہیں گے کہ آپ کا بھتیجا ایسے برے دلدل میں جا دھنسا ۔۔۔۔۔۔ میری اس برخورداری پر ایک شاباشی تو بھیجئے۔
اب میں احوال روز گار کی طرف آتا ہوں۔ چچا جان آپ کی ریش مبارک کی قسم۔ دن بہت برے گزر رہے ہیں۔ اتنے برے گزر رہے ہیں کہ اچھے دنوں کیلئے دعا مانگنا بھی بھول گیا ہوں۔ یہ سمجھئے کہ بدن پر لتے جھولنے کا زمانہ آ گیا ہے۔ کپڑا اتنا مہنگا ہو گیا ہے کہ جو غریب ہیں ان کو مرنے پر کفن بھی نہیں ملتا۔ جو زندہ ہیں وہ تار تار لباس میں نظر آتے ہیں میں نے تو تنگ آ کر سوچا ہے کہ ایک ’’ننگا کلب‘‘ کھول دوں، لیکن سوچتا ہوں ننگے کھائیں گے کیا ۔۔۔۔۔۔ ایک دوسرے کا ننگ؟ ۔۔۔۔۔۔ مگر وہ بھی اتنا کریہہ ہوگا کہ نگاہیں لقمہ اٹھاتے ہی وہیں رکھ دیں گی۔
کوئی ویرانی سی ویرانی ہے۔ کوئی تنگی سی تنگی ہے۔ کوئی ترشی سی ترشی ہے، لیکن چچا جان داد دیجئے۔
گو میں رہا رہین ستم ہائے روزگار
لیکن ترے خیال سے غافل نہیں رہا
لیکن چھوڑیئے اس قصے کو، آپ خوش گلو، خوش اندام اور خوش خرام حسینوں کا وہ خیر سگالی وفد بھیج دیجئے ۔ ہم اس غربت میں بھی اپنا جی ’’پشوری‘‘ کر لیں گے۔ فی الحال آپ الزبتھٹیلر کے ہونٹوں کا ایک پرنٹ بھیج دیجئے۔ خدا آپ کو خوش رکھے۔
آپ کا تابعدار بھتیجا
سعادت حسن منٹو
۳۱ لکشمی، مینشنز ہال روڈ، لاہور


*****

چھٹا خط

چچا جان!
آداب و تسلیمات
یہ میرا چھٹا خط تھا۔ میں نے خود پوسٹ کرایا تھا حیرت ہے، کہاں گم ہو گیا۔

*****

ساتواں خط

چچا جان!
آداب و تسلیمات ۔۔۔۔۔۔ معاف کیجئے گا، میں اس وقت عجیب مخمصے میں گرفتار ہوں، میرے پچھلے خط کی رسید مجھے ابھی تک نہیں ملی۔ کیا وجہ ہے؟ ۔۔۔۔۔۔ یہ میرا چھٹا خط تھا۔ میں نے خود پوسٹ کرایا تھا۔ حیرت ہے، کہاں گم ہو گیا۔
یہ درست ہے کہ ہمارے یہاں بعض اوقات اگر لاہور سے شیخوپورہ کوئی خط بھیجا جائے تو ڈھائی تین سال کے عرصے میں پہنچتا ہے، اور یہ محض ’’چھیڑ خوباں سے چلی جائے اسد ‘‘ کے طور پر دانستہ کیا جاتا ہے، اس لیئے کہ ہم پاکستانی شاعر مزاج لوگ ہیں، لیکن آپ کے ساتھ ایسی دل لگی کا خیال بھی ہمارے ڈاک خانے کے محکمے کو کبھی آ نہیں سکتا۔ ا س لیئیکہ وہ سب کا سب آپ کا مفت بھیجا ہوا گندم کھا چکا ہے۔
جہاں تک میں سمجھتا ہوں ساری کارستانی روس کی ہے، اور اس میں بھارت کا بھی ہاتھ ہے۔ پچھلے دنوں لکھنؤ میں آپ کے اس برخوردار بھتیجے پر ایک ’’سمپوزیم‘‘ ہوا تھا۔ اس میں کسی نے کہا کہ میں آپ کے امریکہ کیلئے اپنے پاکستان میں زمین ہموار کر رہا ہوں۔
کتنی ٹچی بات ہے۔ ابھی تک آپ نے بل ڈوزر تو بھیجے نہیں اور یہ ساری دنیا جانتی ہے۔ میں بھارت کے اس عقل کے اندھے سے پوچھتا ہوں کہ میں امریکہ کیلئے پاکستان میں زمین کسی چیز سے ہموار کر رہا ہوں؟۔۔۔۔۔۔ اپنے سر سے
میری باتیں بہت دیر کے بعد آپ کی سمجھ میں آتی ہیں۔ صرف اس لیئے کہ آپ ہائیڈروجن بموں کے تجربات میں مصروف ہیں۔ آپ کو دین کا ہوش ہے نہ دنیا کا۔ قبلہ ان بموں کو چھوڑیئے ۔۔۔۔۔۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں کہ میرا چھٹا خط ، کمیونسٹ بالا بالا لے اڑیں۔
میرے بس میں ہوتا تو میں ان شرارت پسندوں کے ایسے کان اینٹھتا کہ بلبلا اٹھتے، مگر مصیبت یہ ہے کہ میں ۔۔۔۔۔۔ اب میں آپ کو کیا بتاؤں۔ یہاں کے سارے بڑے بڑے کمیونسٹ میرے دوست ہیں۔ مثال کے طور پر احمد ندیم قاسمی، سبط حسن، عبداللہ ملک (حالانکہ مجھے اس سے نفرت ہے۔ بڑا گھٹیا قسم کا کمیونسٹ ہے) فیروز الدین منصور، احمد راہی، حمید اختر، نازش کاشمیری اور پروفیسر صفدر۔
چچا جان، میں ان لوگوں کے سامنے چوں نہیں کر سکتا، اس لیئے کہ میں ان سے آئے دن قرض لیتا رہتا ہوں۔ آپ سمجھ سکتے ہیں کہ مقروض قرضخواہ کے سامنے کچھ بول نہیں سکتا۔ آپ نے مجھے قرض تو کبھی نہیں دیا۔ البتہ شروع شروع میں جب میں نے آپ کو پہلا خط لکھا تھا تو اس سے متاثر ہو کر آپ نے خیر سگالی طور پر مجھے مالی امداد بھیجی تھی، یعنی تین سو روپے دیئے تھے۔ اور میں نے آپ کے اس جذبے سے متاثر ہو کر دل میں یہ عہد کر لیا تھا کہ عمر بھر آپ کا ساتھ دوں گا، مگر آپ نے میرے اس جذبے کی داد نہ دی اور مالی امداد کا سلسلہ بند کر دیا۔
پیارے چچا جان۔ مجھے بتایئے کہ مجھ سے کون سا گناہ سرزد ہوا ہے کہ آپ مجھے سزا دے رہے ہیں۔ لاہور میں جو آپ کا دفتر ہے، اس کے چپڑاسی بھی مجھ سے سیدھے منہ بات نہیں کرتے۔ دو تین جونیئر افسر جو میرے پاکستانی بھائی ہیں، ان میں آپ نے ایسے سرخاب کے پر لگا دیئے ہیں کہ وہ میرا نام سنتے ہی مجھے گالیاں دینا شروع کر دیتے ہیں۔
آخر میرا قصور ؟ ۔۔۔۔۔۔ میں نے اگر خلوص نیتی سے تسلیم کیا کہ آپ نے میری مالی امداد کی ہے تو اس میں انہوں نے کیا قباحت دیکھی۔ بھارت کو آپ کروڑوں ڈالر دے چکے ہیں۔ وہ تسلیم کرتا ہے۔ میرے پاکستان کو آپ نے مفت گندم بھیجا۔ یہ غریب بھی تسلیم کرتا ہے۔ کراچی میں ہم لوگوں نے اونٹوں کا جلوس نکالا اور باقاعدہ اشتہار بازی کی کہ آپ نے ہم پر بہت بڑا کرم کیا ہے۔ یہ جدا بات ہے کہ آپ کا بھیجا ہوا گندم ہضم کرنے کیلئے ہمیں اپنے معدے امریکیا نے پڑے۔
میری سمجھ میں نہیں آتا، آپ بھارت کو اربوں ڈالر قرض دے رہے ہیں، پاکستان کو فوجی امداد دینے کا بھی آپ نے وعدہ کیا ہے، لیکن میرا وظیفہ کیوں نہیں لگا دیتے۔ لوگ کیا کہیں گے کہ پاکستان کے اتنے بڑے افسانہ نگار کو صرف تین سو روپیاں دے کر آپ نے ہاتھ روک لیا۔ یہ میری ہتک ہے اور آپ کی بھی، اگر آپ وظیفہ نہیں دینا چاہتے تو نہ دیں۔ قرض میں کیا مضائقہ ہے۔ از راہ کرم فوراً ایک لاکھ ڈالر مجھے قرض دے ڈالیئے تاکہ میں اطمینان کے دو سانس لے سکوں۔
آغا خان کو تو آپ جانتے ہی ہوں گے کیونکہ وہ بھی بہت بڑا سرمایہ دار ہے۔ اس کی حال ہی میں پلیٹی نم جبلی منائی گئی تھی۔ میرا جی چاہتا ہے کہ میری بھی ایک جبلی ہو جائے۔ آپ میرے، پیارے، پیارے، بہت ہی پیارے چچا ہیں۔ آپ سے چوچلے نہ بگھاروں تو کیا اپنے ملک کے وزیراعظم محمد علی صاحب سے بگھاروں گا ۔۔۔۔۔۔ خدا کیلئے میری ایک جبلی کر ڈالئے تاکہ قبر میں میری روح بے چین نہ رہے۔
پاکستان ۔۔۔۔۔۔ میرا پاکستان اپنے فنکاروں کی قدردانی میں غافل نہیں، لیکن مصیبت یہ ہے کہ مجھ سے جو زیادہ حقدار ہیں ان کی فہرست بہت لمبی ہے۔ پچھلے دنوں میری حکومت نے خان بہادر محمد عبدالرحمن چغتائی کیلئے پانچ سو روپے ماہوار تاحیات کا وظیفہ مقرر کیا۔ خان بہادر صاحب اللہ کے فضل سے صاحب جائیداد ہیں۔ اس لیئے وہ مجھ سے کہیں زیادہ مستحق تھے۔ اس کے بعد خان بہادر ابوالاثر حفیظ جالندھری صاحب کیلئے بھی تاحیات اتنا ہی وظیفہ منظور کیا گیا، اس لیئے کہ وہ بھی صاحب ثروت ہیں۔
میری باری خدا معلوم کب آئے گی، اس لیئے کہ میں الاٹ شدہ مکان میں رہتا ہوں جس کا کرایہ بھی میں ادا نہیں کر سکتا۔
بہت سے مستحق اصحاب پڑے ہیں۔ مثال کے طور پر میاں بشیر احمد بی اے، آکسن مدیر ماہنامہ ’’ہمایوں‘‘ (سابق سفیر ترکی) سید امتیاز علی تاج، مسٹر اکرام پی سی ایس، فضل احمد کریم فضلی وغیرہ وغیرہ۔ ان کا نمبر پہلے آتا ہے اس لیئے کہ ان کو کسی وظیفے کی احتیاج نہیں، لیکن میری حکومت کا دل صاف ہے۔ وہ خدمات دیکھتی ہے، دولت نہیں دیکھتی۔
ویسے میں نے کون سا اتنا بڑا کام کیا ہے جو ان لوگوں کو چھوڑ کر میری حکومت اپنی توجہ میری طرف منعطف کرے اور ایمان کی بات تو یہ ہے کہ میں صرف اس بل بوتے پر کہ میں آپ کا بھتیجا ہوں، آپ سے درخواست کر رہا ہوں کہ میری کوئی جبلی کر ڈالیئے۔
میری زندگی کے دن بہت کم ہیں۔ آپ کو دکھ تو ہو گا، مگر میں کیا کہوں، اس اختصار کا باعث آپ کی ذات شریف ہے، اگر آپ کو میری صحت کا خیال ہوتا تو آپ اور کچھ نہیں تو کم از کم وہاں سے الزبتھ ٹیلر ہی کو میرے پاس بھیج دیتے کہ وہ میری تیمارداری کرتی۔ معلوم نہیں آپ کیوں اتنی غفلت برت رہے ہیں۔ کیا آپ میری موت چاہتے ہیں؟ ۔۔۔۔۔۔ یا کوئی اور بات ہے جسے آپ نے راز بنا کے رکھ چھوڑا ہے؟
مگر یہ راز اب راز نہیں رہا کہ میرے ملک پاکستان میں کمیونزم بڑی تیزی سے پھیل رہا ہے۔ میں آپ سے کیا چھپاؤں۔ بعض اوقات میرا بھی جی چاہتا ہے کہ سرخ پَر لگا کر سرخا بن جاؤں ۔۔۔۔۔۔ اب آپ ہی فرمایئے یہ کتنی خطرناک خواہش ہے۔ اسی لیئے میرے بزرگوار میں نے آپ کو یہ مشورہ دیا تھا کہ روسیوں کے ثقافتی وفد کے توڑ میں وہاں سے اپنی ’’پن اپ گرلز‘‘ کا ایک خیر سگالی وفد روانہ کر دیجئے۔ ساون کے دن آنے والے ہیں۔ اس موسم میں ہم لوگ بڑے رومانٹک ہو جاتے ہیں۔ میرا خیال ہے اگر آپ کا ارسال کردہ وفد اس موسم میں آئے تو بہت اچھا رہے گا۔ اس کا نام ’برشگالی وفد‘ رکھ دیجئے گا۔
چچا جان ، میں نے ایک بڑی تشویشناک خبر سنی ہے کہ آپ کے یہاں تجارت اور صنعت بڑے نازک دور سے گزر رہی ہے۔ آپ تو ماشاء اللہ عقل مند ہیں، لیکن ایک بے وقوف کی بات بھی سن لیجئے۔ یہ تجارتی اور صنعتی بحران صرف اس لیئے پیدا ہوا ہے کہ آپ نے کوریا کی جنگ بند کر دی ہے۔ یہ بہت بڑی غلطی تھی۔ اب آپ ہی سو چیئے کہ آپ کے ٹینکوں، بم بار ہوائی جہازوں، توپوں اور بندوقوں کی کھپت کہاں ہوگی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ عالمی رائے عامہ کی شدید مخالفت کی بنا پر آپ کو یہ جنگ بند کرنا پڑی ہے، لیکن عالمی رائے عامہ آپ کے سامنے کیا حقیقت رکھتی ہے۔ میرا مطلب ہے سارا عالم آپ کے ایک ہائیڈروجن بم کا کیا مقابلہ کر سکتا ہے۔ کوریا کی جنگ آپ نے بند کر دی ہے ۔ یہ بہت بڑی غلطی تھی۔ خیر اس کو چھوڑیئے۔ آپ ہندوستان اور پاکستان میں جنگ شروع کرا دیجئے۔ کوریا کی جنگ کے فائدے اس جنگ کے فائدوں کے سامنے ماند نہ پڑ گئے تو میں آپ کا بھتیجا نہیں۔
قبلہ ذرا سو چیئے یہ جنگ کتنی منعفت بخش تجارت ہوگی۔ آپ کے تمام اسلحہ ساز کارخانے ڈبل شفٹ پر کام کرنے لگیں گے۔ بھارت بھی آپ سے ہتھیار خریدے گا اور پاکستان بھی۔ آپ کی پانچوں گھی میں ہوں گی اور سر کڑاہے میں۔
ویسے آپ ہند چینی میں جنگ جاری رکھیئے۔ لوگوں کو تلقین کرتے رہیئے کہ یہ بڑا نیک کام ہے۔ فرانسیسی عوام اور فرانسیسی حکومت جائے جہنم میں، وہ اس جنگ کے خلاف ہے تو ہوا کرے۔ ہمیں کوئی پروا نہیں کرنی چاہیئے۔ آخر ہمارا مقصد تو دنیا میں امن و امان قائم کرنا ہے۔ کیوں چچا جان ؟
مجھے آپ کے مسٹر ڈلزؔ کا یہ کہنا بہت پسند آیا ہے کہ آزاد دنیا کا مقصد کمیونزم کو شکست دینا ہے ۔۔۔۔۔۔ یہ ہے ہائیڈروجن بم کی پراز حریت زبان۔
جاہل گو یہ کہتے ہیں کہ مغربی اتحاد کا مقصد دوسری اقوام کے درمیان اختلافات کو طاقت کے بغیر حل کرنا ہونا چاہیئے ۔۔۔۔۔۔ میں پوچھتا ہوں طاقت کے بغیر کوئی اختلاف آج تک حل ہوا ہے۔ آج کل تو ساری دنیا اختلافات سے بھری پڑی ہے اور اس کا حل اس کے سوائے اور کیا ہو سکتا ہے کہ دنیا کو مکمل تباہی کی تصویر پیش کر دی جائے اور اس سے کہا جائے کہ تم اپنے گھٹنے ٹیک دو۔
برطانیہ کے مسٹر بیوانؔ کا آپ منہ بند کیوں نہیں کرتے۔ آپ کی بلی آپ ہی کو میاؤں۔ خرذات آپ کے خلاف زہر اگل رہا ہے۔ آپ کے مسٹر ڈلزؔ کے متعلق کہتا ہے کہ وہ جدید ترین خیالات سے بے بہرہ ہیں اور دنیا کو ہائیڈروجن بم سے ڈرا دھمکا کر اپنا الو سیدھا کرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ اُلو کہیں کا۔
چچا جان مجھے بڑا تاؤ آتا ہے جب برطانیہ کا کوئی مسخرا آپ کے خلاف اول جلول بکتا ہے۔ میری مانئے، جزائر برطانیہ ہی کو صفحہ ہستی سے نیست و نابود کر دیجئے۔ اولوالعزم لوگوں کیلئییہ ٹاپو ہمیشہ درد سر بنے رہے ہیں، اگر آپ ان کو اڑانا نہیں چاہتے تو وہ بیس میل لمبی کھائی پاٹ دیجئے جو برطانیہ عظمیٰ کو یورپ سے جدا کرتی ہے۔ اللہ بخشے نپولین بونا پارٹ اور ہزہٹلر کو اس سے بڑی چڑ تھی، اگر یہ نہ ہوتی تو آج مسٹر بیوان ؔ بھی نہ ہوتے اور بہت ممکن ہے آپ بھی غفراللہ ہو گئے ہوتے جو پریشانیاں اب آپ کو اٹھانا پڑ رہی ہیں ان سے آپ کو یقیناًنجات مل جاتی۔
میں آپ سے سچ کہتا ہوں آگے چل کر آپ کو یہ برطانیہ بہت تنگ کرے گا۔ میں تو کمبل چھوڑتا ہوں، کمبل ہی مجھے نہیں چھوڑتا والا معاملہ ہو جائے گا۔ پچھلی جنگ میں جرمنی نے اٹلی کو اپنے ساتھ ملایا لیکن غریب مصیبت میں گرفتار ہوگیا۔ لینے کے دینے پڑ گئے۔ آپ اس چکر میں نہ پڑیئے گا۔ بس اپنے اسی پرانے اصول پر قائم رہیں۔ ’’کیش اینڈ کیری‘‘
رُود بار انگلستان کو پر کر کے یورپ سے ملانے کا منصوبہ آپ یہ خط ملتے ہی بنا لیں۔ میرا خیال ہے، آپ کے انجینئر ایک مہینے کے اندر اندر اس کام سے عہدہ برآ ہو جائیں گے۔
میں نے اصل میں یہ خط آپ کو اس لیئے لکھا تھا کہ آپ میری کوئی جبلی منائیں، کیونکہ مجھے اس کا بڑا شوق ہے۔
مجھے لکھتے ہوئے پچیس برس ہونے کو ہیں، چونچلا ہی سہی، لیکن میں آپ سے درخواست کرتا ہوں اور گڑگڑا کر کرتا ہوں کہ اور کچھ نہیں تو میری ایک جبلی منا ڈا لیئے۔
چونکہ میرا پیشہ لکھنا ہے۔ اس مناسبت سے اس جبلی کا نام ’’پار کر ففٹی ون جبلی‘‘ اچھا رہے گا۔ لاہور کے اوپن تھیٹر میں مجھے پار کر کے ففٹی ون قلموں میں تلوا دیجئے۔ ترازو میں احسان بن دانش کی ٹال سے لے لوں گا۔ معلوم نہیں ایک قلم کا وزن کتنا ہوتا ہے۔ میرا وزن اس وقت ایک من ڈھائی سیر ہے، لیکن جبلی کے روز تک یہ گھٹ کے ایک من رہ جائے گا، اگر آپ نے دیر کر دی تو مجھے بڑی ناامیدی کا سامنا کرنا پڑے گا، اس لیئے کہ میرا وزن گھٹتے گھٹتے صفر رہ جائے گا۔
آپ حساب لگا لیجئے کہ ایک من میں ’’پارکر ففٹی ون‘‘ قلم کتنے چڑھیں گے، لیکن خدارا جلدی کیجئے گا۔
یہاں سب خیریت ہے۔ مولانا بھاشانی اور مسٹر سہروردی ماشاء اللہ دن بدن تکڑے ہو رہے ہیں۔ آپ سے کچھ ناراض معلوم ہوتے ہیں۔ مولانا کو آپ ایک عدد خالص امریکی تسبیح اور مسٹر سہروردی کو ایک عدد خالص امریکی کیمرہ روانہ کر دیں۔ ان کی ناراضی دور ہو جائے گی۔
ہیرا منڈی کی طوائفیں، شورش کاشمیری کے ذریعے سے مجرا عرض کرتی ہیں۔
مورخہ ۱۴ ؍اپریل ۵۴ء
آپ کا تابع فرمان
سعادت حسن منٹو
۳۱ لکشمی مینشنز ہال روڈ لاہور

*****

آٹھواں خط

چچا جان ، تسلیم و نیاز ۔
امید ہے کہ میرا ساتواں خط آپ کو مل گیا ہو گا۔ اس کے جواب کا مجھے انتظار ہے۔ کیا آپ نے روسی ثقافتی وفد کے توڑ میں کوئی ایسا ہی ثقافتی اور خیر سگالی وفد یہاں پاکستان میں بھیجنے کا ارادہ کر لیا ؟ ۔۔۔۔۔۔ مجھے اس سے ضرور مطلع فرمایئے گا تاکہ اس طرف سے مجھے اطمینان ہو جائے اور میں یہاں کے کمیونسٹوں کو جو ابھی تک روسی وفد کی شاندار کامیابی پر بغلیں بجا رہے ہیں۔ یہ خبر سنا کر برفادوں کہ میرے چچا جان اس سے بھی کہیں بڑھ چڑھ کر ایسا وفد بھیج رہے ہیں جس میں ملین ڈالر ٹانگوں اور بلین ڈالر جو بنوں والی لڑکیاں شامل ہوں گی جن کی ایک جھلک دیکھ کر ہی ان کی رال ٹپکنے لگے گی۔
آپ کو یہ سن کر خوشی ہوئی کہ ہمارے صوبے کے وزیراعظم جناب ملک فیروز خان نون صاحب میدان عمل میں کود پڑے ہیں۔ آپ نے پچھلے دنوں زیرلب صرف اتنا کہا تھا کہ ہمیں کمیونسٹوں کی رشیہ دوانیوں کو دبانے کی کوشش کرنی چاہیئے۔ مبارک ہو کہ دابنے دبانے کا یہ کام شروع ہو چکا ہے۔ بسم اللہ کمیونسٹوں کے دفتر پر پولیس کے چھاپے سے ہوئی ہے اور میں یہ خط اسی خوشی میں لکھ رہا ہوں۔
ہمارے اخبار کہتے ہیں کہ بہت جلد ’’سرخوں‘‘ کی گرفتاریوں کی بھرمار شروع ہو جائے گی۔ محکمہ پولیس نے گرفتار کیئے جانے والوں کی فہرست تیار کر لی ہے۔ اللہ نے چاہا تو بہت جلد یہ فتنہ ساز جیلوں میں ہوں گے۔ سب سے پہلے اگر کامریڈ فیروز الدین منصور کو قید کیا گیا تو مجھے بڑی راحت ہوگی۔ اس کو دمے کی شکایت ہے میں نے سنا ہے کہ جس کو یہ مرض ہو تو وہ مرنے کا کبھی نام ہی نہیں لیتا۔ یہ مرض کی اگر زیادتی ہے تو کامریڈ منصور کی بھی زیادتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ اگر اب اسے جیل میں ڈالا گیا تو ضرور مر جائے گا، ۔۔۔۔۔۔ خس کم جہاں پاک۔
احمد ندیم قاسمی بھی یقیناًقید کیا جائے گا۔ میاں افتخار الدین نے اس کو اپنے پرچے ’’امروز‘‘ کا ایڈیٹر بنا کر بہت بڑا جرم کیا۔ چاہیئے تو یہ تھا کہ میاں صاحب گرفتار کیئے جاتے مگر وہ بڑے کائیاں ہیں۔ پولیس ہتھکڑیاں لے کر اس کی کوٹھی پہنچے گی تو وہ مسکراتے ہوئے باہر نکلیں گے اور ’’سٹے آرڈر‘‘ دکھا دیں گے پچھلے دنوں’امروز‘ اور ’پاکستان ٹائمز‘ کے دفاتر میں کرائے کی نادہندگی کے باعث تالے لگنے ہی والے تھے کہ ایک ’’سٹے آرڈر‘ مداری کے مانند تھیلے سے باہر نکال کر پولیس کی متحیر آنکھوں کے سامنے رکھ دیا گیا تھا۔ بہرحال احمد ندیم قاسمی بھی قصور وار ہے۔ اس کو اس کی سزا ضرور ملنی چاہیئے۔ کم بخت ’’پنج دریا‘‘ کا قلمی نام لکھ کر آپ کی تاروں بھری ٹوپی اچھالتا رہتا ہے۔
میری تو یہ رائے ہے کہ آپ پانچ چھ امریکی لڑکیاں (صرف کنواری) اس کی بہنیں بنا دیں۔ اس کو راہ راست پر لانے کا یہ نسخہ بہت مجرب ہے۔ اس صورت میں اس کو جیل خانے میں ٹھونسنے کی ضرورت باقی نہیں رہے گی۔ جب پانچوں گھی میں اور سر کڑاہے میں ہوگا تو کمیونزم اس کے دماغ سے ایسے غائب ہو گی جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔
جونہی یہاں ’’سرخوں‘‘ کی گرفتاریاں عمل میں آئیں میں آپ کو مطلع کر دوں گا۔ میری برخورداریاں نوٹ فرماتے جائیے گا۔ اگر آپ اچھے موڈ میں ہوں تو مجھے تین سو روپے بطور قرض دینا نہ بھولئے گا۔ پچھلا تین سو تو میں نے دو دن کے اندر اندر ہی ختم کر ڈالا تھا اور آپ کی یہ عنایت قریب قریب دو برس پرانی ہو چکی ہے۔
میں نے اپنے چھٹے خط کے متعلق جو آپ تک نہیں پہنچا تفتیش کی ہے۔ جیساکہ مجھے شک تھا۔ یہ سب ان ناہنجار کمیونسٹوں کی شرارت تھی۔ احمد راہی کو آپ جانتے ہیں؟ وہی ’’ترنجن‘‘ کا منصف جس کو ہماری حکومت نے پانچ سو روپیہ انعام دیا تھا کہ اس نے پنجابی زبان میں بڑی پیاری نظمیں لکھی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں یہ نظمیں بڑی پیاری اور نرم و نازک ہیں، مگر آپ نہیں جانتے یہ راہی بڑا خطرناک کمیونسٹ ہے، پارٹی آفس میں دوسرے ممبر ٹوٹے پیالوں میں چاء پیتے ہیں مگر یہ چھپ چھپ کر بیئر پیتا ہے اور پی پی کر موٹا ہو رہا ہے۔ میرا دوست ہے۔ میں نے اسی کو خط پوسٹ کرنے کیلئے دیا تھا، مگر کمیونسٹ جو ہوا۔ یہ خط گول کر گیا اور پارٹی کے حوالے کر دیا۔ مجھے ابھی تک پورے طور پر تاؤ نہیں آیا اور میرے پاس اتنے پیسے بھی نہیں۔ ورنہ میں نے سوچ رکھا ہے کہ ایک روز اس کو اتنی بیئر پلاؤں کہ اس کی توند پھٹ جائے۔
ایک دن کم بخت مجھ سے کہنے لگا ’تم اپنے چچا سام کو چھوڑو‘ مالنکوف سے خط و کتابت شروع کرو۔ آخر وہ تمہارا ماموں ہے۔ میں نے کہا یہ درست ہے، لیکن وہ میرے سوتیلے ماموں ہیں، ان کو مجھ سے یا مجھ کو ان سے کبھی محبت نہیں ہو سکتی۔ اس کے علاوہ میں جانتا ہوں کہ ان کا اپنے سگے بھانجوں سے بھی کوئی اچھا برتاؤ نہیں۔ وہ غریب اس پر اپنی جان چھڑکتے ہیں۔ ان سے بے پناہ عقیدت رکھتے ہیں۔ پھٹے پرانے کپڑوں میں اپنی خستہ حالیوں کے باوجود دن رات اس کی خدمت کرتے ہیں اور وہ صرف ایک سوکھی شاباشی اپنی سرخ مہر لگا کر وہاں سے روانہ کر دیتا ہے۔ انگریز چچا اور انگریز ماموں اس روسی ماموں سے سرفراز فرما کر ٹرخا دیتے تھے، لیکن مالنکوف صاحب یہ بھی نہیں کرتے ۔۔۔۔۔۔ میں جب مانوں کہ وہ عبداللہ ملک کو جو ان کا سب سے وفادار بھانجا ہے کوئی چھوٹا سا خطاب ہی عطا فرما دیں۔ اس کیلئے جیل جا کر آرام و اطمینان سے کتابیں لکھنے میں کتنی آسانی ہو جائے گی۔
کچھ بھی ہو۔ میں آپ کا غلام ہوں۔ آپ نے تو پہلے تین سو روپوؤں ہی میں مجھے ہمیشہ ہمیشہ کیلئیخرید لیا تھا، اگر آپ تین سو اور بھیج دیں تو دوسری زندگی میں بھی اس غلامی کو برقرار رکھنے کا وعدہ کرتا ہوں بشرطیکہ اللہ میاں جو آپ سے بڑا ہے میرے لیئے پانچ چھ سو روپے ماہوار کا وظیفہ مقرر نہ کر دے۔ اگر انہوں نے کسی حوا سے میرا نکاح پڑھوا دیا تو مجھے افسوس ہے کہ یہ وعدہ اس صورت میں تو بالکل ایفا نہ ہو سکے گا ۔۔۔۔۔۔ میری صاف بیانی کی داد دیجئے۔ بات دراصل یہ ہے کہ میں اللہ میاں اور اس کی حور کے سامنے چوں تک بھی نہ کر سکوں گا۔
آج کل ہمارے یہاں شاہی مہمانوں کا تانتا بندھا ہوا ہے۔ پہلے شاہ ایران آئے، پھر شاہ عراق، پھر پرنس علی خان (آپ کی ریٹا ہیورتھ کے سابق شوہر) مہاراجہ جے پور ۔۔۔۔۔۔ اور اب شاہ سعود والئ سعودی عرب، میں شاہ سعود خلد للہ ملکہ کی آمد کا آنکھوں دیکھا اور کانوں سنا حال مختصراً بیان کرتا ہوں۔
شاہ سعود اپنے پچیس شہزادوں سمیت ہوائی جہاز کے ذریعے سے کراچی پہنچے جہاں ان کا بڑا شاندار استقبال ہوا۔ ان کے شہزادے اور بھی ہیں۔ معلوم نہیں وہ کیوں نہ آئے۔ شاید اس لیئے کہ دو تین ہوائی جہاز اور درکار ہوں گے۔ یا ان کی عمر بہت چھوٹی ہوگی اور وہ اپنی ماؤں کی گود کو ہوائی جہاز پرترجیح دیتے ہوں گے۔ بات بھی ٹھیک ہے اپنی ماؤں اور اونٹنیوں کا دودھ پینے والے بچے گلیکسو یا کاؤگیٹ کے خشک دودھ پر کیسے جی سکتے ہیں۔
چچا جان ، غور کرنے والی بات ہے۔ شاہ سعود کے ساتھ ماشاء اللہ ان کے پچیس لڑکے تھے۔ لڑکیاں خدا معلوم کتنی ہوں گی۔ خدا ان کی عمر دراز کرے اور شاہ کو نظر بد سے بچائے۔ مجھے بتایئے کیا آپ کی سات آزادیوں والی مملکت میں کوئی ایسا مرد مجاہد یا مرد مردم خیز موجود ہے جس کی اتنی اولاد ہو۔
چچا جان یہ سب ہمارے مذہب اسلام کی دین ہے اور یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا۔ ناچیز کی یہ رائے ہے کہ آپ فوراً اپنی سلطنت کا سرکاری مذہب اسلام قرار دے دیں۔ اس سے بڑے فائدے ہوں گے۔ قریب قریب ہر شادی شدہ مرد کو چار شادیاں کرنے کی اجازت ہوگی، اگر ایک عورت چار بچے بھی بڑے بخل سے کام لے کر پیدا کرئے تو اس حساب سے سولہ لڑکے لڑکیاں ایک مرد کی مردانگی اور اس کی بیوی کی زرخیزی کا ثبوت ہونی چاہئیں۔ لڑکے اور لڑکیاں جنگ میں کتنی کام آ سکتی ہیں آپ جہاندیدہ ہیں، خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔
میں امرتسر کا رہنے والا ہوں (مسٹر ریڈ کلف کی مہربانی سے یہ اب بھارت میں چلا گیا ہے) اس میں ایک حکیم تھے ۔۔۔۔۔۔ محمد ابو تراب۔ آپ نے اپنی زندگی میں دس شادیاں کیں۔ چار چار کر کے نہیں۔ ایک ایک کر کے۔ ان بیویوں سے ان کی بے شمار اولاد تھی۔ جب انہوں نے نوے برس کی عمر میں آخری شادی کی تو ان کے بڑے لڑکے کی عمر پچھتر برس کی اور سب سے چھوٹے کی جو اس آخری بیوی کے بطن سے پیدا ہوا صرف دو برس تھی۔ایک سو بارہ برس کی عمر میں آپ کا انتقال یہاں لاہور میں ایک مہاجر کی حیثیت سے ہوا ۔۔۔۔۔۔ کسی شاعر نے ان کی تاریخ وفات اس مشہور مصرعے میں نکالی تھی
حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مر جھا گئے
۱۳۷۱ ہجری
یہ بھی اللہ تبارک تعالیٰ اور اس کے منظور شدہ مذہب، اسلام کی برکت تھی۔ اگر آپ کے شادی شدہ مردوں کو شروع شروع میں چار بیویوں کو بیک وقت سنبھالنے میں کسی قسم کی دقت محسوس ہو تو شاہ سعود کو اپنے یہاں بلا کر آپ ان سے استفادہ کر سکتے ہیں۔ آپ ان کے دوست ہیں۔ ان کے والد مرحوم سے تو آپ کی بڑی گاڑھی چھنتی تھی۔ میں نے سنا تھا کہ آپ نے ان کے اور ان کے حرم کیلئے بڑی عالیشان موٹر گاڑیوں کا ایک کارواں تیار کروا کے ان کو بطور تحفہ پیش کیا تھا۔ میرا خیال ہے شاہ سعود آپ کو اپنے تمام صدری نسخے تبا دیں گے۔
ہمارے پاکستان کے ساتھ آج کل سوائے ہندوستان اور روس کے قریب قریب ہر ملک دلچسپی لے رہا ہے اور یہ سب آپ کی مہربانیوں کا نتیجہ ہے کہ آپ نے ہماری طرف دوستی اور تعاون کا ہاتھ بڑھایا اور ہم اس قابل ہو گئے کہ دوسرے بھی ہم پر نظر کرم فرمانے لگے۔
ہم پاکستانی تو اسلام کے نام پر مر مٹتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب ہم مصطفی کمال پاشا اور انور پاشا کے شیدا تھے۔ انور پاشا کے مرنے کی خبر آئی تو ہم سب سوگ کرتے۔ سچ مچ کے آنسوؤں سے روتے۔ جب یہ پتہ چلتا کہ وہ خدا کے فضل و کرم سے زندہ ہیں تو ہم خوشی سے ناچتے کودتے، گھروں میں چراغاں کرتے۔ مصطفی کمال اور انور دونوں ایک دوسرے کے جانی دشمن تھے۔ ہمیں اس کا کچھ علم نہیں تھا۔ ترکوں کو ہندی مسلمانوں سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ لیکن ہم کو تین میں سمجھتے تھے نہ تیرہ میں، اس کا ہمیں کچھ کچھ پتہ تھا، لیکن ہمیں ان سے محبت تھی کہ وہ ہمارے اسلامی بھائی تھے ۔۔۔۔۔۔ ہم ایسے شریف النفس اورسادہ لوح آدمی ہیں کہ ہمیں آ ملے اور چمبیلی کے اس تیل سے بھی محبت ہے جو یہاں ’’اسلامی بھائیوں کا تیار کردہ‘‘ بکتا ہے اس کو ہم اپنے سروں میں ڈالتے ہیں تو ایسا کیف حاصل ہوتا ہے کہ موعودہ جنت کی تمام لطافتیں اس کے سامنے ماند پڑ جاتی ہیں ۔۔۔۔۔۔ ہم بڑے بدھو، مگر بڑے پیارے لوگ ہیں۔ خدا رہتی دنیا تک ہماری تمام صفات قائم رکھے۔
میں بات شاہ سعود کے ورود سعود کی کر رہا تھا، لیکن جذباتی ہو کر اسلام کے گن گانے لگا۔بات یہ ہے کہ اسلام کے گن گانے ہی پڑتے ہیں۔ ہندو مذہب، عیسائی اور بدھ مت ۔۔۔۔۔۔ آخر یہ کیا ہیں۔ کیا ان کے ماننے والوں میں کوئی ایک فرد پچیس لڑکوں کا باپ ہونے کا دعویٰ کر سکتا ہے؟
اسی لئے میں نے آپ کو مشورہ دیا تھا کہ آپ ریا ستہائے متحدہ امریکہ کا سرکاری مذہب اسلام مقرر فرما دیں تاکہ آپ کو کوئی جاپان فتح کر کے حرامی بچے پیدا کرنے کی ضرورت محسوس نہ ہو ۔۔۔۔۔۔ چچا جان کیا آپ کو یہ حرامی پنا پسند ہے ؟ ۔۔۔۔۔۔ میں مسلمان ہوں۔ مجھے تو اس سے خدا اور اس کے رسول ؐ کی قسم سخت نفرت ہے۔ بچے ہی پیدا کرنے ہیں تو اسکا کتنا سہل طریقہ اسلام میں موجود ہے۔ نکاح پڑھوایئے اور بڑے شوق سے حلال کے بچے پیدا کیجئے۔
میں تو سمجھتا ہوں کہ آپ بھی چار شادیاں کر لیجئے۔ چچی جان اگر بقید حیات ہیں تو کوئی مضائقہ نہیں۔ آپ مشرف بہ اسلام ہو کر تین اور شادیاں کر سکتے ہیں۔ یہاں پاکستان میں آپ مشہور ایکٹرس عشرت جہاں ببو کو اپنے رشتہ مناکحت میں لا سکتے ہیں کہ وہ کئی شوہروں کا تجربہ رکھتی ہے۔
شاہ سعود بڑی پراز سحر شخصیت کے مالک ہیں، طیارے سے باہر نکلتے ہی آپ ہمارے لاہور کے موچی دروازے کے گورنر جنرل جناب غلام محمد صاحب سے بغلگیر ہوئے اور اسلامی بھائیوں کی رجسٹرڈ اخوت و محبت کا مظاہرہ کیا جو بڑا کفر شکن تھا۔
آپ کے اعزاز میں کراچی کے مسلمانوں نے اپنی بساط سے بڑھ کر نعرے لگائے، جلسے کیئے، جلوس نکالے، دعوتیں کیں اور اسلام کی سیزدہ صد سالہ روایات کو قائم رکھا۔ سنا ہے شاہ سعود اپنے ساتھ ایک ایسا سونے سے بھرا ہوا بکس لائے تھے جو کراچی کے مزدوروں سے بصد مشکل اٹھایا گیا۔ آپ نے یہ سونا کراچی میں بیچ دیا اور پاکستان کو دس لاکھ روپے مرحمت فرمائے۔ فیصلہ ہوا ہے کہ اس روپے سے غریب مہاجرین کیلئے ایک کولونی تعمیر کی جائے گی جس کا نام سعود آباد ہوگا ۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا !
معتبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ شاہ سعود خیر سگالی کے طور پر اپنے دو صاحبزادوں کی شادی ہمارے پاکستان میں کرنا چاہتے ہیں۔ زہے نصیب ۔
سنا ہے کراچی میں بیگم شاہ نواز کو جب عرب شہزادوں کیلئے کوئی مناسب رشتہ نہ ملا تو انہوں نے بیگم بشیر کو ٹیلی فون کیا کہ وہ لاہور میں سلسلہ جنبانی کریں، اس لیئے کہ لاہور آخر لاہور ہے۔ اس میں شہزادوں کے لائق کنواری لڑکیوں کی کیا کمی ہے، چنانچہ سنا ہے کہ بیگم بشیر نے بیگم جی اے خان اور بیگم سلمیٰ تصدق کو ساتھ ملا کر روایتی (نائین) کے فرائض سرانجام دیئے اور مختلف اونچے گھرانوں میں شاہ سعود کے دو ارجمند فرزندوں کیلئے پیغام لے کر گئیں مگر افسوس ہے کہ انہیں کامیابی نصیب نہ ہوئی۔ اس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ ہمارے اونچے طبقے کی جوان اور ناکتخدا لڑکیوں کو عرب کے یہ ’’اونٹ‘‘ ایک آنکھ نہیں بھائے۔
میں سمجھتا ہوں یہ ان کی غلطی ہے۔ اس سے پہلے جب کہ پاکستان نہیں بنا تھا۔ سعودی عرب سے ہندوستان کے مسلمانوں کا اس قسم کا رشتہ ہو چکا ہے۔ مولانا داؤد غزنوی اور مولانا اسماعیل غزنوی کے خاندان کی ایک دوشیزہ مرحوم شاہ سعود کے والد بزرگوار جناب عبدالعزیز ابن سعود کے رشتہ مناکحت میں جا چکی ہیں۔ آپ کو شاید معلوم ہو کہ مولانا اسماعیل غزنوی نے اسی سلسلے میں ستائیس حج کیئے تھے۔ حالانکہ ایک ہی حج کافی تھا۔
دل بدست آور کہ حج اکبر است
گو بیگم بشیر، بیگم جی اے خان اور بیگم تصدق کو اس کارخیر میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے، لیکن مجھے یقین ہے کوئی نہ کوئی سبیل نکل آئے گی اور ہمارے پاکستان سے ایسی دو لڑکیاں برآمد ہو جائیں گی جن کو سرزمین حجاز کے شہزادے سرفراز فرما سکیں گے۔
میں نے اپنے کسی پچھلے خط میں اپنے یہاں کی خواتین کے متعلق آپ کو کچھ لکھا تھا۔ غالباً ان بلاؤزوں کے بارے میں جو بڑی عمر کی پہنتی ہیں اور اپنے کلبوت چڑھے پیٹوں کی نمائش کرتی ہیں۔ اس پر ہماری یونیورسٹی کے صدر شعبہ فارسی جناب ڈاکٹر محمد باقر صاحب بہت جزبز ہوئے، آپ نے مجھے کئی مہذب قسم کی گالیاں دیں اور اس لیئے ملعون و مطعون قرار دیا کہ میں نے اپنے یہاں کی ’’عورت‘‘ کی بے حرمتی کی ہے۔ لاحول ولا ۔۔۔۔۔۔ میں نے جو کچھ بیان کیا تا محض یہ تھا کہ بوڑھی عورتوں کو اپنی عمر سے اس قسم کے نیم عریاں چوچلے زیب نہیں دیتے۔
مجھے ڈر ہے کہ ڈاکٹر صاحب جب میرا یہ خط پڑھیں گے تو مجھ پر پھر یہ الزام دھریں گے کہ میں نے پھر اپنی ’’ عورت‘‘ کی بے حرمتی کی ہے۔ ۔۔۔۔۔۔ بات اصل میں یہ ہے کہ ہم لوگ فطرتاً سادہ لوح اور بدھو ہیں۔ ہماری عورتیں تو بادِنما مرغیاں ہیں۔ جدھر ہوا چلتی ہے، ادھر چل پڑتی ہیں۔
شاہ ایران تشریف لائے تو اونچی سوسائٹی کی لڑکیوں نے طرح طرح سے خود کو سجایا بنایا کہ شاہ ان دنوں فارغ تھے (فوضیہ کو طلاق دے چکے تھے) مگر انہوں نے ان سے صرف رسمی دلچسپی لی اور ایران جا کر ثریا اسفند یار سے شادی کر لی۔
اس کے بعد پرنس علی آئے۔ وہ بھی فارغ تھے اس لیئے کہ آپ کی ریٹا ہیورتھ ان سے طلاق حاصل کر چکی تھی۔ ہماری اونچی سوسائٹی کی لڑکیوں نے ایڑی چوٹی کا زور لگا کر اپنی مانگ چوٹی درست کی۔ نوک پلک نکالی، مگر اس شہزادے نے ان کی ساری امنگوں پر ٹھنڈا یخ پانی پھیرا اور آپ کے ہالی وڈ کی ایک اور ایکٹرس جین ٹیرنی سے معاشقہ شروع کر دیا ۔۔۔۔۔۔ خدا آپ کی سات آزادیوں والی مملکت کو قائم و دائم رکھے۔
پھر شاہ عراق آئے، مگر ہماری اونچی سوسائٹی کی پاکیزہ لڑکیاں انہیں دیکھ کر بہت مایوس ہوئیں اس لیئیکہ وہ کم عمر تھے۔ ایک نے کہا ’’ہائے ۔۔۔۔۔۔ اس بچے کا تو کھیل کود کا زمانہ ہے۔ کیوں اس بیچارے پر سلطنت کا بوجھ ڈالا گیا ہے۔‘‘
اسی طرح ایک بوڑھی (جس کا پیٹ بہت زیادہ ننگا نہیں تھا) شاہ عراق پر ترس کھا کے کہا ’’بڈھوں سے اس غریب کو کیا دلچسپی ہوگی ۔۔۔۔۔۔ جاؤ اس کے ہم عمر بلاؤ اور ان سے اس کو ملاؤ۔‘‘
یہ بھی گئے۔
اب شاہ سعود تشریف لائے، اپنے بائیس یا پچیس شہزادوں سمیت گورنمنٹ ہاؤس میں ان کی شاندار دعوت ہوئی جس میں اونچی سوسائٹی کی تمام کتخدا اور ناکتخدا لڑکیوں اور عورتوں نے شرکت کی۔ سگریٹ پینے کی اجازت نہیں تھی ۔۔۔۔۔۔ ’’عبداللہ‘‘ کی بھی نہیں۔ بہرحال وہ سگریٹ کے دھوئیں کے بغیر بہت محظوظ ہوئے ۔۔۔۔۔۔ اور یہ خط انہیں خالص اسلامی مہمان نوازی کی بدولت نصیب ہوا۔ ان کے دو درجن شہزادوں نے انار کلی میں سیکڑوں پاکستانی جوتے خریدے اور اپنی خیر سگالی کا ثبوت دیا ۔۔۔۔۔۔ اب یہ جوتے صحرائے عرب کی ریتوں پر چلیں گے اور اپنی دیرپائی کے فانی نقش ثبت کریں گے۔
یہ خط نامکمل چھوڑ رہا ہوں اس لیئے کہ مجھے اپنے ایک پبلشر سے اپنی نئی کتاب کی رائلٹی وصول کرنی ہے۔ دس روز سے وعدے کر رہا ہے۔ میرا خیال ہے آج دس روپے تو ضرور دے دے گا۔ یہ مل گئے تو میں یہ خط پوسٹ کر سکوں گا ورنہ ۔۔۔۔۔۔
جین ٹیرنی کو ایک اڑتا ہوا بوسہ۔
آپ کا برخودار
سعادت حسن منٹو
۳۱ لکشمی مینشنز ہال روڈ، لاہور
مورخہ ۲۲ ؍اپریل ۱۹۵۴ء


*****

نواں خط

چچا جان ۔ اسلام علیکم ۔
میرا پچھلا خط نامکمل تھا۔ بس مجھے صرف اتنا ہی یاد رہا ہے۔ اگر یاد آ گیا کہ میں نے اس میں کیا لکھا تھا تو میں اس کو مکمل کر دوں گا۔ میرا حافظہ یہاں کی کشید کی ہوئی شرابیں پی پی کر بہت کمزور ہو گیا ہے۔ یوں تو پنجاب میں شراب نوشی ممنوع ہے، مگر کوئی بھی آدمی بارہ روپے دو آنے خرچ کر کے شراب پینے کیلئے پرمٹ حاصل کر سکتا ہے۔ اس رقم میں پانچ روپے ڈاکٹر کی فیس ہوتے ہیں جو لکھ دیتا ہے کہ جس آدمی نے یہ روپے خرچ کیئے ہیں اگر باقاعدہ شراب نہ پئے تو اس کے جینے کا کوئی امکان نہیں۔
مجھے یاد ہے، بہت عرصہ ہوا آپ نے بھی اپنے ملک میں شراب نوشی قطعاً ممنوع قرار دے دی تھی۔ پرمٹوں کا جھگڑا آپ نے نہیں پالا تھا، لیکن اس کا نتیجہ خاطر خواہ نہیں نکلا تھا۔ بڑے بڑے ’’گینگسٹر‘‘ اور ’’بوٹ لیگر‘‘ پیدا ہو گئے تھے جنہوں نے آپ کی حکومت کے مقابلے میں اپنی ایک متوازی حکومت قائم کر لی تھی۔ آخر کار ناکام ہو کر آپ کو امتناع شراب کا حکم واپس لینا پڑا تھا۔
یہاں اس قسم کی کوئی واپسی نہیں ہوگی۔ ہماری حکومت ملاؤں کو بھی خوش رکھنا چاہتی ہے اور شرابیوں کو بھی۔ حالانکہ مزے کی بات یہ ہے کہ شرابیوں میں کئی ملا موجود ہیں اور ملاؤں میں اکثر شرابی ۔بہرحال شراب بکتی رہے گی، اس لیئے آپ کو میری طرف سے متردو نہیں ہونا چاہیئے۔ یوں بھی آپ کافی کٹھور ہیں۔ اتنی دفعہ لکھ چکا ہوں کہ یہاں کی شراب بڑی ظالم ہے، لیکن آپ نے کبھی اپنے برخوردار بھتیجے کو اس کے نقصانات سے محفوظ رکھنے کیلئے اپنے یہاں کی وسکی بھیجنے کی زحمت گوارا نہ کی ۔۔۔۔۔۔ میں اب اس کے متعلق آپ سے کوئی بات نہیں کروں گا ۔۔۔۔۔۔ مجھے جھونکیئے بھاڑ میں۔ میرے ملک پاکستان کی فوجی امداد جاری ر کھیئے۔ میں خوش، میرا خدا خوش۔
میں خوش ہوں کہ آپ میرے خطوط اپنے پائپ میں جلا کر نہیں پیتے بلکہ غور سے پڑھتے ہیں اور میرے مشوروں پر کافی توجہ دیتے ہیں۔ اسی خوشی میں آپ کو میں ایک اور مشورہ دیتا ہوں۔ وہ یہ ہے کہ روزنامہ ’’زمیندار‘‘ کو آپ اس طور پر مدد دیجئے کہ کانوں کان خبر نہ ہو۔
اس کے بھینگے مینجنگ ڈائریکٹر اور نیم لنگڑے ایڈیٹر کو روپیہ وصول کرنے کا کوئی سلیقہ نہیں۔ بانی ’’زمیندار‘‘ کے فرزند ارجمند مولانا اختر علی خان (جن کو مولانا کا خطاب وراثت میں ملا ہے) بھی یہ سلیقہ نہیں رکھتے تھے۔ اس لیئے کہ جب ان کو محکمہ تعلقات عامہ کے سابق ڈائریکٹر میر نور احمد صاحب کی طرف سے؟ ہزار روپے ’’منہ بندی‘‘ کے ملے تو انہوں نے جھٹ سے ایک نئی امریکن کار خرید لی اور بڑے ٹھاٹ سے اس کی ’’مسی‘‘ کی رسم ادا کی۔ یہ ان کی سراسر حماقت تھی۔وہ ان دنوں جیل میں ہیں۔ خدا کرئے وہ اسی چار دیواری میں رہیں اور اپنی مزید حماقتوں کا ثبوت نہ دیں، مگر مجھے حیرت ہے کہ ان کے صاحبزادے بھی جو آج کل ’’زمیندار‘‘ کی مینجنگ ایڈیٹری کرتے ہیں، تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود نرے کھرے چغد ہیں۔
پچھلے دنوں اس اخبار کے ’’تیمور لنگ‘‘ پر میری ہمدردی کا دورہ پڑا تھا، اگر آپ کے پاؤں میں لنگ نہ ہوتا تو آپ یقیناً پاکستان کے ڈاکٹر مصدق ہوتے۔ آپ جب لکھنا شروع کرتے ہیں تو سارے جہاں کا درد آپ کی گردن پر پیرو تسمہ پا کی طرح سوار ہو جاتا ہے۔ آپ کو خیر اس سے پہلے ہی یہ خبر پہنچ چکی ہوگی کہ جب ڈاکٹر مصدق کی اپیل کی سماعت ایران کی عدالت عالیہ میں شروع ہوئی تو اس پاکستانی ظہور الحسن ڈار نے جو، بے ڈار، تحریر میں یدطولیٰ رکھتا ہے کہا ’’میں کچھ کہنا نہیں چاہتا۔ مجھے اس طلسمی انگوٹھی پر پورا عتماد ہے جو میری بیوی نے مجھے پیش کی تھی۔‘‘
ایک مرتبہ انہوں نے فوجی عدالت میں سرکاری وکیل کو کشتی لڑنے کی دعوت دے ماری تھی۔
اس کے بعد انہوں نے فرمایا تھا کہ وہ بھوک ہڑتال فرمائیں گے اور خدا کے فضل و کرم سے دو دن کے اندر اندر اللہ کو پیارے ہو جائیں گے، مگر وہ اللہ کو پیاریبھی نہ ہوئے اور ماشا ء اللہ زندہ رہے۔ بیہوش تو وہ اکثر ہوتے رہے۔
پاکستانی ڈاکٹر مصدق یعنی ظہور الحسن ڈار گو ڈاکٹر نہیں، لیکن بیہوش ہوتے رہتے ہیں۔ جب بھی ان کو غشی کا دورہ پڑتا ہے تو علی سفیان آفاقی اور منصور علی خان اس کو مولانا ظفر علی خان کا ایجاد کردہ لخلخلہ سنگھاتے ہیں تاکہ وہ ہوش میں آئیں اور آج کی ڈائری لکھنے کے قابل ہو سکیں۔ انہی کی لنگڑی ٹانگ دیکھ کر کسی ترقی پسند نے ایک شعر کہا تھا جس کا مصرعہ ثانی مجھے یاد رہا ہے ۔۔۔۔۔۔
ایک توڑی خدا نے دوسری توڑے رسول
میرا خیال ہے یہ اس ترقی پسند شاعری کی زیادتی تھی۔ ورنہ ڈار صاحب بڑے کہنہ مشق اخبار نویس ہیں، گالیاں کھا کے بھی بے مزہ نہیں ہوتے۔ گالیاں اور سٹھنیاں دے کر بھی ان کا پیٹ نہیں بھرتا اور یہ سب اس طلسمی انگوٹھی کے طفیل ہے جو غالباً لڑکپن میں ان کو کسی قدر دان نے دی تھی۔
مجھے کہنا یہ تھا کہ اگر آپ ’’زمیندار‘‘ کو اخباری امداد دیں تو میری وساطت سے دیں تاکہ میں اپنے ہمدرد ظہور الحسن ڈارکیلئے اس کا حصہ الگ کر کے اس کے حوالے کر دوں۔ بیچارہ میرے گھر بار کا بڑا خیال رکھتا ہے۔ میرے مضمون کی عام قیمت پچاس روپے ہے۔ اس نے اس خیال سے کہ میں اس گراں قدر رقم کو شراب میں اڑا دوں گا، اپنے خاص نمبر کیلئیمجھ سے ایک مضمون طلب کیا اور اس کی قیمت احتیاطاً بیس روپے مقرر فرمائی اور یہ تہیہ کیا کہ وہ اس رقم کا چیک میری بیوی کی خدمت میں خود پیش کرئے گا تاکہ میری ہشت پشت پر اس کا احسان رہے ۔۔۔۔۔۔ میں بہرحال اس کا ممنون و متشکر ہوں کہ اس کو میری ’’بد ذات‘‘ سے اتنی پرخلوص دلچسپی ہے۔
یہاں کے سب اخباروں میں ایک صرف ’’زمیندار‘‘ ہی ایسا اخبار ہے جس کو آپ کے ڈالر جب چاہیں خرید سکتے ہیں، اگر اختر علی خان رہا ہو گئے تو میں کوشش کروں گا کہ ظہور الحسن ڈار ہی اس کا ایڈیٹر رہے۔ بڑا برخوردار لڑکا ہے۔
لیکن آپ اپنے اثرورسوخ سے کام لے کر میر نور احمد صاحب کو پھر محکمہ تعلقات عامہ کا ڈائریکٹر بنوا دیجئے۔ سرفراز صاحب کسی کام کے آدمی نہیں۔ وہ لاکھوں روپیہ اخباروں میں تقسیم کرنے کے بالکل اہل نہیں۔ بہتر ہوگا اگر آپ روپیہ میری معرفت روانہ کریں۔ میرا ان پر اس طرح کچھ رعب بھی رہے گا اور آپ کے پروپیگنڈے کا کام بھی میری نگرانی میں بطریقِ احسن ہوتا رہے گا۔
آپ کے پرچے جو یہاں شائع ہوتے ہیں۔ اکثر ردی میں بکتے ہیں۔ ’’اخبار‘‘ ردی، بوتل والے’‘‘ آپ کے بے حدممنون و متشکر ہیں۔ ان پرچوں کے کاغذ چونکہ مضبوط ہوتے ہیں، سودا سلف کیلئے لفافے بنانے کے کام آتے ہیں۔ آپ انہیں جاری رکھیئے کہ ہمارے یہاں کاغذ کی شدید قلت ہے، مگر آپ یہاں کے چلتے چلاتے ردی میں نہ بکنے والے پرچے خرید سکتے ہیں۔
چچا جان ! میں نے ایک بہت تشویش ناک خبر پڑھی ہے۔ معلوم نہیں کمیونسٹوں کی پھیلائی ہوئی افواہ ہے یا کیا ہے۔ اخباروں میں لکھا تھا کہ آپ کے یہاں خلاف وضع فطری کے افعال زوروں پر ہیں۔ اگر یہ درست ہے تو بڑی شرم کی بات ہے۔ آپ کی ملین ڈالر ٹانگوں والی لڑکیوں کو کیا ہوا۔ ڈوب مرنے کا مقام ہے ان کیلئے ۔
خدانخواستہ اگر یہ سلسلہ آپ کے یہاں شروع ہو چکا ہے تو اپنے سارے ’’اوسکر وائلڈ‘‘ یہاں روانہ فرما دیجئے۔ یہاں ان کی کھپت ہو سکتی ہے۔ ویسے بھی ہم لوگ آپ کی فوجی امداد کے پیش نظر ہر خدمت کیلئے تیار ہیں۔
معلوم نہیں، کامریڈ سبط حسن نے کسی نہ کسی طریقے سے میرا خط پڑھ لیا ہے۔ میرا خیال ہے یہ وہی خط ہے جو کامریڈ راہی نے بالا بالا اڑا لیا تھا۔ اسے پڑھ کر اس نے مجھے ایک خط لکھا ہے۔ ذرا اس کی ڈھٹائی ملاحظہ فرمائے۔ کہتا ہے کہ سعادت تم خود کمیونسٹ ہو۔ چاہے مانو نہ مانو۔ چچا جان یہ خط ضرور آپ کی نظروں سے گزرے گا۔ میں آپ کی سات آزادیوں اور آپ کے ڈالروں کو حاضر ناظر رکھ کے کہتا ہوں کہ میں کبھی کمیونسٹ تھا، نہ اب ہوں۔ یہ محض سبط حسن کی شرارت ہے ۔۔۔۔۔۔ بڑی سرخ قسم کی، جو آپ کے اور میرے تعلقات خراب کرنے پر درپے ہے۔ ورنہ جیساکہ آپ کو معلوم ہے، میں آپ کا برخوردار اور نمک خوار ہوں۔ یہ الگ بات ہے کہ ان تین سو روپوؤں کی جو مجھے آپ نے بھیجے تھے صرف جم خانہ وسکی پی تھی (جس کی تعریف میں اپنے کسی پچھلے خط میں کر چکا ہوں) اور ایک دھیلے کا بھی نمک نہیں خریدا تھا۔ بڑی مصیبت ہے کہ ڈاکٹروں نے مجھے نمک کھانے سے منع کر رکھا ہے۔ جونہی انہوں نے اجازت دی میں آپ کو لکھ دوں گا، تاکہ آپ وہاں سے خالص امریکی نمک میری روز مرہ کی خوراککیلئے بھیجتے رہیں اور میں صحیح معنوں میں آپ کا نمک خوار کہلا سکوں۔
میں آپ کو ایک بار پھر یقین دلانا چاہتا ہوں کہ میں کمیونسٹ نہیں ہوں۔ ہو سکتا ہے قادیانی بن جاؤں مگر کمیونسٹ تو میں کبھی نہیں بنوں گا۔ اس لیئے کہ یہ سالے محض زبانی جمع خرچ سے کام لیتے ہیں۔ ہاتھ سے کچھ بھی دیتے دلاتے نہیں۔ یوں تو قادیانی بھی اسی قسم کے خسیس ہیں، پھر بھی پاکستانی ہیں۔ اس کے علاوہ میں ان سے کوئی بگاڑ پیدا نہیں کرنا چاہتا، کیونکہ مجھے معلوم ہے آپ کو ہائیڈروجن بم کے تجربوں کے بعد فوراً ایک نبی کی ضرورت ہوگی جو صرف مرزا بشیر الدین محمود ہی مہیا کر سکتے ہیں۔
آج کل یہاں کے ٹھیٹ مسلمان سر ظفر اللہ کے بہت خلاف ہو رہے ہیں۔ چاہتے ہیں کہ انہیں وزارت کی گدی سے اتار دیا جائے۔ صرف اس لیئے کہ وہ قادیانی ہیں۔ ذاتی طور پر مجھے ان سے کوئی پرخاش نہیں، لیکن میں اتنا سمجھتا ہوں کہ وہ آپ کیلئے بہت کارآمد ثابت ہو سکتے ہیں ۔ میرا مشورہ ہے کہ آپ ان کو اپنے یہاں بلا لیں۔ خدا کے فضل و کرم سے وہ آپ کے یہاں کی تمام جنسی بے راہ رویوں کو دور کر دیں گے۔
عراق کی حکومت کی طرف سے آج یہ اعلان سنا کہ آپ اس اسلامی ملک کو بھی فوجی امداد دینے پر رضا مند ہو گئے ہیں۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ امداد غیر مشروط ہو گی۔ چچا جان ، آپ میرے پاس ہوتے تو میں آپ کے پاؤں چوم لیتا۔ خدا آپ کو رہتی دنیا تک سلامت رکھے۔ اسلامی ممالک پر آپ کی جو نظر کرم ہو رہی ہے اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ آپ بہت جلد مشرف بہ اسلام ہونے والے ہیں۔
میں اس سے پیشتر آپ کو مذہب اسلام کی چند خوبیاں بیان کر چکا ہوں، اگر آپ اس سعادت سے مشرف ہو چکے ہیں تو فوراً تین شادیاں کر لیجئے۔ (اگر چچی جان بقید حیات ہوں) اپنے یہاں کی مشہور ایکٹرس عشرت جہاں ببو کو میں نے تیار کر لیا ہے۔ آپ کی پہلی شادی (بشرطیکہ آپ کنوارے ہوں) اسی پاکستانی خاتون سے ہونی چاہیئے، اس لیئے کہ وہ کئی شوہروں کا تجربہ رکھتی ہے اور پینا پلانا بھی جانتی ہے۔ فی الحال شادی شدہ ہے، لیکن میں اس سے کہوں گا تو وہ اپنے پانچویں یا چھٹے شوہر سے طلاق حاصل کر لے گی۔
ہاں، چچا جان، یہ میں نے کیا سنا ہے آپ کی ریٹا ہے ورتھ روس جا رہی ہے۔ خدا کیلئے اسے روکیئے۔ اس نے سر آغا خان کے صاحبزادے پرنس علی خان سے شادی کی تھی۔ مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں تھا، لیکن اس کا روس جانا مجھے بالکل اچھا نہیں لگتا۔ مجھے حیرت ہے کہ آپ نے ابھی تک اس شریر عورت کے کان کیوں نہیں اینٹھے۔
اس کے روس جانے کی خبر مجھے کامریڈ سبط حسن نے بڑے فخر و ابتہاج سے سنائی تھی۔ کم بخت زیر لب مسکرا رہا تھا۔ جیسے آپ کا مذاق اڑا رہا ہے اور یہ حقیقت ہے کہ اگر ریٹا روس چلی گئی تو آپ کا اور میرا دونوں کا ایسا مذاق اڑے گا کہ طبیعت صاف ہو جائے گی۔
کہیں یہ سیماب صفت ایکٹرس مالنکوف سے شادی کرنے تو نہیں جا رہی، اگر یہی سلسلہ ہے اور اس میں آپ کی کوئی سیاسی چال ہے تو کوئی مضائقہ نہیں۔ دوسری صورت بہر حال بہت ذلت آفریں اور خطرناک ہے۔
آج کے اخباروں میں یہ بھی لکھا تھا کہ ریٹا کے خلاف اپنی اور شہزادہ علی خان کی بچی یاسمین اور بڑی لڑکی (معلوم نہیں یہ کس خاوند سے ہے) صحیح طور پر پرداخت نہ کرنے کے الزام میں مقدمہ چل رہا ہے اور یہ دونوں لڑکیاں عدالت کی تحویل میں ہیں۔
ریٹا مغربی فلوریڈا میں ہے جہاں حکومت اس کے چوتھے شوہر کو ملک بدر کرنے کی کوشش میں مصروف ہے ۔۔۔۔۔۔ یہ قصہ کیا ہے؟ میں نے احمد راہی سے پوچھا تھا لیکن وہ گول کر گیا۔ اس کی باتوں سے البتہ میں اپنی خداداد ذہانت سے اتنا معلوم کر سکا کہ یہ سب روسیوں کی کارستانی ہے۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ آپ ابھی تک خاموش کیوں ہیں۔
میں تو آپ کو یہ رائے دیتا ہوں کہ ریٹا کے چوتھے خاوند کو جو سنا ہے کہ موسیقار ہے، وہاں پھانسی پر لٹکا دیں یا اسے ایٹم بم یا ہائیڈروجن بم بنانے کے راز روس کے پاس بیچنے کے الزام میں ماخوذ کر کے عمر قید کی سزا کا حکم سنا دیں اور ریٹا کو فوراً یہاں بھیج دیں اور اس سے کہیں کہ وہ ہمارے مسٹر سہروردی کو پھانس کر اس سے شادی کر لے۔ اس کے بعد وہ مولانا بھاشانی سے ازدواجی رشتہ قائم کر سکتی ہے، پھر شیر بنگال چودھری فضل حق صاحب بھی خدا کے فضل و کرم سے موجود ہیں اور مشرقی پاکستان کے وزیراعلیٰ مقرر ہیں۔ ان تین بڑوں سے یکے بعد دیگرے طلاق لینے کے بعد وہ خواجہ ناظم الدین (سابق وزیراعظم) سے رجوع کر سکتی ہے۔ زندہ رہا تو میں بھی حاضر ہوں، لیکن اس شرط پر کہ آپ میری مالی امداد باقاعدگی سے کرتے رہیں۔
آپ کے اخبارات کی اطلاع ہے کہ اقوام متحدہ میں ہمارے پاکستان کے مستقل مندوب پروفیسر اے ایس بخاری کو شعبہ اطلاعات کے افسر اعلیٰ کا عہدہ پیش کیا جا رہا ہے۔ میں نے تو یہ سنا تھا کہ سر ظفر اللہ کو علیحدہ کر کے، بخاری صاحب کو وزیر خارجہ مقرر کیا جائے گا، مگر معلوم ہوتا ہے کہ آپ انہیں مستقل طور پر اپنے پاس ہی رکھنا چاہتے ہیں۔
بخاری صاحب کو میں اچھی طرح جانتا ہوں۔ ان کو مجھ سے بہت پیار ہے جس کا اظہار وہ ہر پانچویں یا چھٹے برس کے بعد کسی نہ کسی انداز سے کرتے رہتے ہیں۔ آپ تو صرف اتنا جانتے ہوں گے کہ وہ انگریزی زبان کے بہت بڑے جادو بیان مقرر ہیں، لیکن میں ان کو مزاح نویس کی حیثیت سے بھی جانتا ہوں۔ ان کا ایک مشہور مضمون ’’لاہور کا جغرافیہ‘‘ ہے جسے پڑھ کر بڑے بوڑھوں کے اس قول کی سو فیصد تصدیق ہو جاتی ہے کہ لاہور، لاہور ہے، اور بخاری، بخاری۔
ان سے کہیئے کہ وہ آپ کے امریکہ کا بھی جغرافیہ لکھیں تاکہ آپ کے حددواربعہ سے تمام دنیا اچھی طرح واقف ہو جائے۔ اس کا روسی زبان میں ترجمہ کرا کے ماموں مالنکوف کو ضروربھیج دیجئے گا۔
لکھتا میں بھی اچھا ہوں، لیکن مصیبت یہ ہے کہ آپ کے گھر کی مرغی بن کر دال برابر ہو گیا ہوں۔ ورنہ میں آپ کی شان میں ایسے ایسے قصیدے لکھ سکتا ہوں جو ’’نوائے وقت‘‘ کے حمید نظامی کے فلک کو بھی سوجھ نہیں سکتے۔ ایک مرتبہ مجھے اپنے یہاں بلایئے۔ دو تین مہینے اپنی سات آزادیوں کی مملکت کی سیر کرایئے۔ پھر دیکھئے یہ بندۂ آزاد آپ کی تمام خفیہ صلاحیتوں اور خوبیوں کا اعتراف کن جاندار الفاظ میں کرتا ہے۔ مجھے یقین ہے آپ اس قدر خوش ہوں گے کہ میرا منہ ڈالروں سے بھر دینگے۔
جاپان کے سائنسدانوں نے ایک اعلان میں اس بات کا انکشاف کیا ہے کہ ہائیڈروجن بم کا موسم پر بھی اثر پڑتا ہے۔ حال ہی میں آپ نے جزائر مارشل میں اس بم کے جو تجربے کیئے تھے، ان لوگوں کا کہنا ہے کہ جاپان کے موسم پر ان کا یہ اثر پڑا ہے کہ اپریل ختم ہونے کے باوجود وہاں اچھی خاصی سردی ہے۔ معلوم نہیں ان چپٹ نکے جاپانیوں کو سردی کیوں پسند نہیں۔ ہم پاکستانیوں کو تو بہت پسند ہے۔ آپ مہربانی فرما کے ایک ہائیڈروجن بم ہندوستان پر پھینک دیں۔ ہمارے ہاں گرمیوں کا موسم شروع ہو چکا ہے۔ سردی ہو جائے تو میں بڑے آرام میں رہوں گا۔
ریٹا سے پو چھیئے۔ اگر وہ مان جائے تو پاکستان میں اس کی پہلی شادی مجھی سے رہے۔ جواب سے جلد سرفراز فرمائے گا۔
آپ کا تابع فرمان بھتیجا
سعادت حسن منٹو
۳۱ لکشمی مینشنز ہال روڈ لاہور
مورخہ ۲۶ اپریل ۱۹۵۴ء
*****

کوئی تبصرے نہیں:

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *